جنازوں کا بیان

کتاب: جنازوں کا بیان 


 باب  بیماری کا ثواب


 حدیث 

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ شَوْکَةٌ فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَسَدِ بْنِ کُرْزٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  مومن کو کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے، یا اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند اور اس کے بدلے اس کا ایک گناہ معاف کردیتا ہے 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  اس باب میں سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن جراح، ابوہریرہ، ابوامامہ، ابو سعید خدری، انس، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اسد بن کرز، جابر بن عبداللہ، عبدالرحمٰن بن ازہر اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) narrated that Allah’s Messenger said, “If a Believer is pricked by a thorn or afflicted by what is above that then Allah raises him a rank against that and obliterates from him a sin.”   [Ahmed26437, Muslim 2572]


باب  بیماری کا ثواب


 حدیث 

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ شَيْئٍ يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا حَزَنٍ وَلَا وَصَبٍ حَتَّی الْهَمُّ يَهُمُّهُ إِلَّا يُکَفِّرُ اللَّهُ بِهِ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ فِي هَذَا الْبَابِ قَالَ و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَکِيعًا يَقُولُ لَمْ يُسْمَعْ فِي الْهَمِّ أَنَّهُ يَکُونُ کَفَّارَةً إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  مومن کو جو بھی تکان، غم، اور بیماری حتیٰ کہ فکر لاحق ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 اس باب میں یہ حدیث حسن ہے،  

 بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق 

 «عطاء بن يسار عن أبي هريرة رضي اللہ عنه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، 

 وکیع کہتے ہیں 

 اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں «همّ»  فکر  کے بارے میں نہیں سنا گیا کہ وہ بھی گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے

 وضاحت 

 مطلب یہ ہے کہ مومن کو دنیا میں جو بھی آلام و مصائب پہنچتے ہیں اللہ انہیں اپنے فضل سے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے ، لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب مومن صبر کرے ، اور اگر وہ صبر کے بجائے بےصبری کا مظاہرہ اور تقدیر کا رونا رونے لگے تو وہ اس اجر سے تو محروم ہو ہی جائے گا ، اور خطرہ ہے کہ اسے مزید گناہوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑجائے  


Translation

Sayyidina Abu Sa’eed Khudri (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said, ‘Nothing afflicts a Believer like fatigue, grief, chronic illness or worry that worries him but Allah expiates with that his sins.”   [Bukhari 5641, Muslim 2573]


باب  مریض کی عیادت


 حدیث 

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَائَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي مُوسَی وَالْبَرَائِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ثَوْبَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی أَبُو غِفَارٍ وَعَاصِمٌ الْأَحْوَلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ أَبِي أَسْمَائَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ مَنْ رَوَی هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ أَبِي أَسْمَائَ فَهُوَ أَصَحُّ قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحَادِيثُ أَبِي قِلَابَةَ إِنَّمَا هِيَ عَنْ أَبِي أَسْمَائَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ فَهُوَ عِنْدِي عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ أَبِي أَسْمَائَ


ترجمہ

 ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ برابر جنت میں پھل چنتا رہتا ہے 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ثوبان کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 ابوغفار اور عاصم احول نے یہ حدیث بطریق 

 «عن أبي قلابة عن أبي الأشعث عن أبي أسماء عن ثوبان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے،  

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جس نے یہ حدیث بطریق 

 «عن أبي الأشعث عن أبي أسماء» روایت کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے،  

 محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں 

 ابوقلابہ کی حدیثیں ابواسماء ہی سے مروی ہیں سوائے اس حدیث کے یہ میرے نزدیک بطریق 

 «عن أبي الأشعث عن أبي أسماء» مروی ہے،  

 اس باب میں علی، ابوموسیٰ ، براء، ابوہریرہ، انس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 


Translation

Sayyidina Thawban (RA) reported the Prophet ﷺ as saying, “When a Muslim pays a sick visit to his brother Muslim, he does not cease to pick up the fruits of Paradise.”  [Ahmed22470, Muslim 2568]


باب  مریض کی عیادت


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ أَبِي أَسْمَائَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَزَادَ فِيهِ قِيلَ مَا خُرْفَةُ الْجَنَّةِ قَالَ جَنَاهَا


ترجمہ

 اس سند سے بھی  ثوبان (رض) نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اسی طرح روایت کی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے 

 عرض کیا گیا 

 جنت کا خرفہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا 

  اس کے پھل توڑنا ۔ ایک دوسری سند سے ایوب سے اور ایوب نے ابوقلابہ سے، اور ابوقلابہ نے ابواسماء سے، اور ابواسماء نے ثوبان سے اور ثوبان نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے خالد الحذاء کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، اور اس میں احمد بن عبدہ نے ابواشعث کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔   


Translation

Muhammad ibn Wazir Wasti reported from Yazid ibn Harun, from Aasim Ahwal fromAbu Qilabah, from Abu Ash’ath, from Abu Asma, from Thawban, from the Prophet ﷺ a similar hadith with these many more words: (He was asked, ‘What is khurfah of Paradise? He said, “To collect the fruit”).   [Muslim 2568]


باب  مریض کی عیادت


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ ثُوَيْرٍ هُوَ ابْنُ أَبِي فَاخِتَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَخَذَ عَلِيٌّ بِيَدِي قَالَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی الْحَسَنِ نَعُودُهُ فَوَجَدْنَا عِنْدَهُ أَبَا مُوسَی فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَام أَعَائِدًا جِئْتَ يَا أَبَا مُوسَی أَمْ زَائِرًا فَقَالَ لَا بَلْ عَائِدًا فَقَالَ عَلِيٌّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّی عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی يُمْسِيَ وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّی عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی يُصْبِحَ وَکَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ مِنْهُمْ مَنْ وَقَفَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ


ترجمہ

 ابوفاختہ سعید بن علاقہ کہتے ہیں کہ  علی (رض) نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا 

 ہمارے ساتھ حسن کے پاس چلو ہم ان کی عیادت کریں گے تو ہم نے ان کے پاس ابوموسیٰ کو پایا۔ تو علی (رض) نے پوچھا 

 ابوموسیٰ کیا آپ عیادت کے لیے آئے ہیں ؟ یا زیارت «شماتت» کے لیے ؟ تو انہوں نے کہا 

 نہیں، بلکہ عیادت کے لیے آیا ہوں۔ اس پر علی (رض) نے کہا 

 میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا ہے 

  جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور جو شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث حسن غریب ہے،  

علی (رض) سے یہ حدیث کئی اور بھی طرق سے بھی مروی ہے، ان میں سے بعض نے موقوفاً اور بعض نے مرفوعاً روایت کی ہے۔    (صحیح اس میں ” زائرا “ لفظ صحیح نہیں ہے، اس کی جگہ ” شامتا “ صحیح ہے ملاحظہ ہو ”       


Translation

Thuwayr reported his father as saying that Sayyidina Ali held him by his hand aid, ‘Come, let us pay a sick visit to Husayn .“ There they found Sayyidina Abu Musa (RA) with him. Sayyidina Ali asked him, “Have you come to pay a sick visit, O Abu Musa, or just a regular visit?” He said, “I have come to visit the sick.” So, Ali said, “I heard Allah’s Messenger ﷺ say : If a Muslim pays visit to a sick Muslim in the morning, seventy thousand angels pray for him till evening, and if he pays him the sick visit at night then seventy thousand angels pray for him till morning, and there is (also) a garden for him in Paradise.”  [Abu Dawud 3098, Ibn e Majah 1442]


باب  مریض کی عیادت


حدیث 

  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَائَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ خَالِدٍ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَلَمْ يَرْفَعْهُ


ترجمہ

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 بعض نے یہ حدیث حماد بن زید سے روایت کی ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے


باب  موت کی تمنا کرنے کی ممانعت


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی خَبَّابٍ وَقَدْ اکْتَوَی فِي بَطْنِهِ فَقَالَ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا لَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْبَلَائِ مَا لَقِيتُ لَقَدْ کُنْتُ وَمَا أَجِدُ دِرْهَمًا عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي نَاحِيَةٍ مِنْ بَيْتِي أَرْبَعُونَ أَلْفًا وَلَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَوْ نَهَی أَنْ نَتَمَنَّی الْمَوْتَ لَتَمَنَّيْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ خَبَّابٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُکُمْ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ وَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا کَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا کَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي



ترجمہ

 حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ  میں خباب بن ارت (رض) کے پاس گیا، ان کے پیٹ میں آگ سے داغ کے نشانات تھے، تو انہوں نے کہا 

 نہیں جانتا کہ صحابہ میں کسی نے اتنی مصیبت جھیلی ہو جو میں نے جھیلی ہے، نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے عہد میں میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہوتا تھا، جب کہ اس وقت میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں، اگر رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں موت کی تمنا ضرور کرتا

  امام ترمذی کہتے ہیں

خباب (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

اس باب میں انس، ابوہریرہ، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔        انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  تم میں سے کوئی ہرگز کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا نہ کرے۔ بلکہ وہ یوں کہے 

 «اللهم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي»

 اے اللہ !

مجھے زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہتر ہو 


Translation

Harithah ibn Mudarrib reported that he went to Khabbab (RA) who had branded his stomach (for some reason). He said, “I do not know of any companion of the Prophet ﷺ who has faced as many trials as I have. In the times of Allah’s Messenger r1-. ‘-- a3i I did not have even a dirham but now there are forty thousand dirhams in my house. Were it not that Allah’s Messenger ﷺ had disallowed us to wish for death, I would have wished for it.”  [Ahmed21116, Bukhari 2246, Muslim 2681]


باب  موت کی تمنا کرنے کی ممانعت


 حدیث 

حَدَّثَنَا بِذَلِکَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے   


Translation

Ali ibn Hujr reported this hadith from Ismail ibn Ibrahim, from Abdul Aziz ibn Suhayb, from Anas ibn Maalik (RA) who from the Prophet ﷺ    [Bukhari 2245, Muslim 2680]


باب  مریض کے لئے تعوذ


 حدیث 

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ جِبْرِيلَ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اشْتَکَيْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيکَ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ يُؤْذِيکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ وَعَيْنِ حَاسِدٍ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيکَ وَاللَّهُ يَشْفِيکَ


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس آ کر جبرائیل نے پوچھا 

 اے محمد ! کیا آپ بیمار ہیں ؟ فرمایا 

 ہاں، جبرائیل نے کہا 

 «باسم اللہ أرقيك من کل شيء يؤذيك من شر کل نفس وعين حاسد باسم اللہ أرقيك والله يشفيك»

  میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو ایذاء پہنچا رہی ہے، ہر نفس کے شر سے اور ہر حاسد کی آنکھ سے، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں، اللہ آپ کو شفاء عطا فرمائے گا 


Translation

Sayyidina Abu Saeed (RA) reported that Sayyidina Jibril (RA) came to the Prophet ﷺ and asked, “ O Muhammad ﷺ , do you have a complaint?” He said, “Yes” He said:  “In the name of Allah, I put a spell on you against everything that may harm you, against the evil of every person and every envious eye. In the name of Allah,I cast a spell on you and may Allah cure you.


باب  مریض کے لئے تعوذ


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَقَالَ ثَابِتٌ يَا أَبَا حَمْزَةَ اشْتَکَيْتُ فَقَالَ أَنَسٌ أَفَلَا أَرْقِيکَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلَی قَالَ اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ شِفَائً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقُلْتُ لَهُ رِوَايَةُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَصَحُّ أَوْ حَدِيثُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کِلَاهُمَا صَحِيحٌ وَرَوَی عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ


ترجمہ

 عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں کہ  میں اور ثابت بنانی دونوں انس بن مالک (رض) کے پاس گئے۔ ثابت نے کہا 

ابوحمزہ ! میں بیمار ہوگیا ہوں، انس نے کہا 

 کیا میں تم پر رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے منتر کے ذریعہ دم نہ کر دوں ؟ انہوں نے کہا 

کیوں نہیں ! انس نے کہا 

«اللهم رب الناس مذهب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت شفاء لا يغادر سقما» 

 اے اللہ ! لوگوں کے رب ! مصیبت کو دور کرنے والے ! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شافی نہیں۔ ایسی شفاء دے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہ جائے 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابو سعید خدری کی حدیث حسن صحیح ہے،  

میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالعزیز بن صہیب کی روایت بسند «ابی نضرة عن ابی سعید الخدری» 

زیادہ صحیح ہے یا عبدالعزیز کی انس سے روایت ہے ؟ تو انہوں نے کہا  

دونوں صحیح ہیں،  

عبدالصمد بن عبدالوارث نے بسند «عبدالوارث عن أبيه عن عبد العزيز بن صهيب عن أبي نضرة عن أبي سعيد» 

روایت کی ہے اور عبدالعزیز بن صھیب نے انس سے بھی روایت کی ہے،  

 اس باب میں انس اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 


Translation

Abdul Aziz ibn Suhayb reported that he and Thabit Bunani went to Sayyidina Anas (RA). Thabit said, “O Abu Hamzah, I have a complaint (of illness).” So, Anas (RA) said, “Shall I not apply a charm to you with the spell of Allah’s Messenger i I ?“ He said, “Certainly.” So, he prayed:  O Allah, Lord of the people, Remover of the suffering. Heal, for You are the Healer. There is no healer except you. Give a healing that leaves no sickness.   [Bukhari 2265, Abu Dawud 3890]   -----------------


باب  وصیت کی ترغیب


 حدیث 

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْئٌ يُوصِي فِيهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَکْتُوبَةٌ عِنْدَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  ایک مسلمان، جس کی دو راتیں بھی اس حال میں گزریں کہ اس کے پاس وصیت کرنے کی کوئی چیز ہو، اس پر لازم ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں ابن ابی اوفی (رض) سے بھی حدیث آئی ہے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “It is upon every Muslim who possesses something for which he shQuld leave instructions that he should not let two nights pass without writing a will about it?.”  [Ahmed5197, Bukhari 1314, Muslim 1627, Ibn e Majah 2699, Abu Dawud 2862]


باب  تہائی اور چوتھائی مال کی وصیت


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ فَقَالَ أَوْصَيْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِکَمْ قُلْتُ بِمَالِي کُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَمَا تَرَکْتَ لِوَلَدِکَ قُلْتُ هُمْ أَغْنِيَائُ بِخَيْرٍ قَالَ أَوْصِ بِالْعُشْرِ فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ حَتَّی قَالَ أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَنَحْنُ نَسْتَحِبُّ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ وَالثُّلُثُ کَبِيرٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُوصِيَ الرَّجُلُ بِأَکْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ وَيَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ کَانُوا يَسْتَحِبُّونَ فِي الْوَصِيَّةِ الْخُمُسَ دُونَ الرُّبُعِ وَالرُّبُعَ دُونَ الثُّلُثِ وَمَنْ أَوْصَی بِالثُّلُثِ فَلَمْ يَتْرُکْ شَيْئًا وَلَا يَجُوزُ لَهُ إِلَّا الثُّلُثُ


ترجمہ

 سعد بن مالک  (سعد بن ابی وقاص)  (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میری عیادت فرمائی، میں بیمار تھا۔ تو آپ نے پوچھا 

 کیا تم نے وصیت کردی ہے ؟ میں نے عرض کیا 

 جی ہاں  (کر دی ہے) ، آپ نے فرمایا 

 کتنے کی ؟  میں نے عرض کیا 

 اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی۔ آپ نے پوچھا 

  اپنی اولاد کے لیے تم نے کیا چھوڑا ؟  میں نے عرض کیا 

 وہ مال سے بےنیاز ہیں، آپ نے فرمایا 

  دسویں حصے کی وصیت کرو ۔ تو میں برابر اسے زیادہ کراتا رہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا 

  تہائی مال کی وصیت کرو، اور تہائی بھی زیادہ ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن  (نسائی)  کہتے ہیں 

 ہم لوگ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے اس فرمان کی وجہ سے کہ تہائی مال کی وصیت بھی زیادہ ہے مستحب یہی سمجھتے ہیں کہ تہائی سے بھی کم کی وصیت کی جائے

  امام ترمذی کہتے ہیں  

 سعد (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 سعد (رض) سے یہ حدیث دوسرے اور طرق سے بھی مروی ہے،  

 اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ اور ان سے «والثلث کثير» کی جگہ «والثلث کبير»  تہائی بڑی مقدار ہے  بھی مروی ہے،  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس بات کو صحیح قرار نہیں دیتے کہ آدمی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اور مستحب سمجھتے ہیں کہ تہائی سے کم کی وصیت کرے،  

سفیان ثوری کہتے ہیں 

 لوگ چوتھائی حصہ کے مقابل میں پانچویں حصہ کو اور تہائی کے مقابلے میں چوتھائی حصہ کو مستحب سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس نے تہائی کی وصیت کردی اس نے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور اس کے لیے تہائی سے زیادہ جائز نہیں 


Translation

Sayyidina Sad Maalik (RA) said: During my illness, Allah’s Messenger ﷺ visited me asked me, “Have you willed.” I said, “Yes.” He asked, “How much property?” I said, “All my property, in Allah’s cause.” He said, “What have you kept aside for your children?” I said, “They are rich and happy.” He said, “Make a will for one-tenth (leaving one-ninth for your children).’ I did not cease to diminish it till be said, “Make a will for one-third though that is much.” Abu Abdur Rahman said, “We wished that he should lower down on one-third because of the saying of Allah’s Messenger that one-third is too much.”   [Muslim 1628]


باب  حالت نزع میں مریض کو تلقین اور دعا کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَسُعْدَی الْمُرِّيَّةِ وَهِيَ امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 تم اپنے مرنے والے لوگوں کو جو بالکل مرنے کے قریب ہوں «لا إله إلا الله» کی تلقین  

کرو 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابو سعید خدری کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،  

 اس باب میں ابوہریرہ، ام سلمہ، عائشہ، جابر، سعدی مریہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 سعدی مریہ طلحہ بن عبیداللہ کی بیوی ہیں۔     


 وضاحت 

 بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی مرنے والے کے پاس «لا إله إلا الله» پڑھ کر اسے کلمہ شہادت کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی اسے پڑھنے لگے ، براہ راست اس سے پڑھنے کے لیے نہ کہا جائے کیونکہ وہ تکلیف کی شدت سے جھنجھلا کر انکار بھی کرسکتا ہے جس سے کفر لازم آئے گا ، لیکن شیخ ناصرالدین البانی نے اسے درست قرار نہیں دیا وہ کہتے ہیں کہ تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اسے «لا إله إلا الله» پڑھنے کے لیے کہا جائے۔ افضل یہ ہے کہ مریض کی حالت دیکھ کر عمل کیا جائے


Translation

Sayyidina Abu Sa’eed Khudri (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “Encourage those of you who are dying to say: (There is no God but Allah).  [Ahmed10993, Muslim 916, Abu Dawud 3117, Nisai 1822, Ibn e Majah 1445]


باب  موت کی سختی


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُوسَی بْنِ سَرْجِسَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَائٌ وَهُوَ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَائِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو دیکھا کہ آپ سکرات کے عالم میں تھے، آپ کے پاس ایک پیالہ تھا، جس میں پانی تھا، آپ پیالے میں اپنا ہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے 

 «اللهم أعني علی غمرات الموت أو سکرات الموت»  اے اللہ ! سکرات الموت میں میری مدد فرما 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے (سند میں موسیٰ بن سرجس مجہول الحال راوی ہیں)


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said, “I saw Allah’s Messenger ﷺ while he was dying. He had a bowl of water by him. He put his hand into it and then wiped his face with water. Then he said: O Allah! Help me to bear the pangs of death and the agonies of death.   [Ahmed24535, Ibn e Majah 1623]


باب  حالت نزع میں مریض کو تلقین اور دعا کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَضَرْتُمْ الْمَرِيضَ أَوْ الْمَيِّتَ فَقُولُوا خَيْرًا فَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَی مَا تَقُولُونَ قَالَتْ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ مَاتَ قَالَ فَقُولِيَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَی حَسَنَةً قَالَتْ فَقُلْتُ فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ مِنْهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَقِيقٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ أَبُو وَائِلٍ الْأَسَدِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ کَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُلَقَّنَ الْمَرِيضُ عِنْدَ الْمَوْتِ قَوْلَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا قَالَ ذَلِکَ مَرَّةً فَمَا لَمْ يَتَکَلَّمْ بَعْدَ ذَلِکَ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُلَقَّنَ وَلَا يُکْثَرَ عَلَيْهِ فِي هَذَا وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ جَعَلَ رَجُلٌ يُلَقِّنُهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَکْثَرَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا قُلْتُ مَرَّةً فَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مَا لَمْ أَتَکَلَّمْ بِکَلَامٍ وَإِنَّمَا مَعْنَی قَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ إِنَّمَا أَرَادَ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ آخِرُ قَوْلِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ


ترجمہ

 ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ہم سے فرمایا 

  جب تم مریض کے پاس یا کسی مرے ہوئے آدمی کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو 

 اس لیے کہ جو تم کہتے ہو اس پر ملائکہ آمین کہتے ہیں ، جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا، تو میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس آ کر عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! ابوسلمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا 

 تو تم یہ دعا پڑھو

 «اللهم اغفر لي وله وأعقبني منه عقبی حسنة»  اے اللہ ! مجھے اور انہیں معاف فرما دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما  وہ کہتی ہیں کہ 

 جب میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ نے مجھے ایسی ہستی عطا کردی جو ان سے بہتر تھی یعنی رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو عطا کیا

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 یہ مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مریض کو اس کی موت کے وقت «لا إله إلا الله» کی تلقین کی جائے،  

 بعض اہل علم کہتے ہیں 

جب وہ  (میت)  اسے ایک بار کہہ دے اور اس کے بعد پھر نہ بولے تو مناسب نہیں کہ اس کے سامنے باربار یہ کلمہ دہرایا جائے، 

 ابن مبارک کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا، تو ایک شخص انہیں «لا إله إلا الله» کی تلقین کرنے لگا اور باربار کرنے لگا، عبداللہ بن مبارک نے اس سے کہا 

 جب تم نے ایک بار کہہ دیا تو میں اب اسی پر قائم ہوں جب تک کوئی اور گفتگو نہ کروں، عبداللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مراد اس سے وہی تھی جو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے مروی ہے کہ  جس کا آخری قول «لا إله إلا الله» ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا 

  

وضاحت 

 مثلاً مریض سے کہو  اللہ تمہیں شفاء دے  اور مرے ہوئے آدمی سے کہو  اللہ تمہاری مغفرت فرمائے   


Translation

Sayyidah Umm Salamah (RA) said : Allah’s Messenger ﷺ said to us, “If you go to a sick person or a dead person, speak a good word, for the angels say Aameen to what you say.” When Abu Salamah (RA) died, I went to the Prophet ﷺ and said, “O Messenger of Allah, Abu Salamah has died.” He said, “Say "O Allah, forgive me and forgive him. And give me better than this (loss)." So, Allah gave me one who was better than him, Allah’s Messenger ﷺ .


باب  موت کی سختی


 حدیث 

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْحَلَبِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا أَغْبِطُ أَحَدًا بِهَوْنِ مَوْتٍ بَعْدَ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ شِدَّةِ مَوْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ وَقُلْتُ لَهُ مَنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْعَلَائِ فَقَالَ هُوَ الْعَلَائُ بْنُ اللَّجْلَاجِ وَإِنَّمَا عَرَّفَهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی موت کی جو شدت میں نے دیکھی، اس کے بعد میں کسی کی جان آسانی سے نکلنے پر رشک نہیں کرتی

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالرحمٰن بن علاء کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا 

 وہ علاء بن اللجلاج ہیں، میں اسے اسی طریق سے جانتا ہوں

 وضاحت 

 اس سے معلوم ہوا کہ موت کی سختی برے ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ ترقی درجات اور گناہوں کی مغفرت کا بھی سبب ہوتی ہے   


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said, “I do not envy anyone an easy death after what I have seen of the severity of the death of Allah’s Messenger ﷺ    [Bukhari 4446, Nisai 1826]


باب  موت کی سختی


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَامُ بْنُ الْمِصَكِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنُ تَخْرُجُ رَشْحًا وَلَا أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ قِيلَ وَمَا مَوْتُ الْحِمَارِ قَالَ مَوْتُ الْفَجْأَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا ہے 

  مومن کی جان تھوڑا تھوڑا کر کے نکلتی ہے جیسے جسم سے پسینہ نکلتا ہے اور مجھے گدھے جیسی موت پسند نہیں ۔ عرض کیا گیا 

گدھے کی موت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا 

  اچانک موت


باب  موت کی سختی


 حدیث 

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْحَلَبِيُّ عَنْ تَمَّامِ بْنِ نَجِيحٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ حَافِظَيْنِ رَفَعَا إِلَى اللَّهِ مَا حَفِظَا مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ فَيَجِدُ اللَّهُ فِي أَوَّلِ الصَّحِيفَةِ وَفِي آخِرِ الصَّحِيفَةِ خَيْرًا إِلَّا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي مَا بَيْنَ طَرَفَيْ الصَّحِيفَةِ


ترجمہ

 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جب بھی دونوں لکھنے والے  (فرشتے)  دن و رات کسی کے عمل کو لکھ کر اللہ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دفتر کے شروع اور اخیر میں خیر  (نیک کام)  لکھا ہوا پاتا ہے تو فرماتا ہے 

  میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے بندے کے سارے گناہ معاف کردینے جو اس دفتر کے دونوں کناروں شروع اور اخیر کے درمیان میں ہیں


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْکُوفِيُّ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سَيَّارٌ هُوَ ابْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَی شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ فَقَالَ کَيْفَ تَجِدُکَ قَالَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي أَرْجُو اللَّهَ وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا


ترجمہ

 انس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ایک نوجوان کے پاس آئے اور وہ سکرات کے عالم میں تھا۔ آپ نے فرمایا 

 تم اپنے کو کیسا پا رہے ہو ؟  اس نے عرض کیا 

 اللہ کی قسم، اللہ کے رسول ! مجھے اللہ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں، رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  یہ دونوں چیزیں اس جیسے وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہوجاتی ہیں تو اللہ اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے جس کی وہ اس سے امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن اور غریب ہے،  

 اور بعض لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے مرسلاً روایت کی ہے


Translation

Sayyidina Anas (RA) reported that the Prophet ﷺ visited a young man who was dying. He asked, “How do you find yourself?” He said, “By Allah, O Messenger of Allah! ﷺ I have hope in Allah. I am fearful because of my sins.” Allah’s Messenger ﷺ said, “These two things (hope and fear) do not combine in the heart of a Believer but Allah grants him what he hopes for and protects him from what he fears.”   [Ibn e Majah 4261]


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْرِفُ لِقَتَادَةَ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ


ترجمہ

 بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  مومن پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرتا ہے   

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے،  

 اس باب میں ابن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے،  

 بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ سے قتادہ کے سماع کا علم نہیں ہے


 وضاحت 

 یعنی مومن موت کی شدت سے دو چار ہوتا ہے تاکہ یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن جائے ،  ( شدت کے وقت آدمی کی پیشانی پر پسینہ آ جاتا ہے  )  یا یہ مطلب ہے کہ موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ رزق حلال اور ادائیگی فرائض میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ سے تر رہتی ہے


Translation

Abdullah ibn Buraydah (RA) reported on the authority of his father that the Prophet ﷺ said, “The Believer dies with sweat on his forehead.”   [Ahmed23109, Nisai 1827, Ibn e Majah 1452]


باب  کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَکْرِ بْنِ خُنَيْسٍ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَبْسِيُّ عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَی الْعَبْسِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ إِذَا مِتُّ فَلَا تُؤْذِنُوا بِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَکُونَ نَعْيًا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَی عَنْ النَّعْيِ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے کہا 

جب میں مرجاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہوگی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث حسن صحیح ہے


Translation

Sayyidina Huzdhayfah (RA) is reported to have said, “When I die, do not inform anyone of my death lest this should be like a death notice. I heard Allah’s Messenger ﷺ disallow announcing anyone’s death.”   [Ibn e Majah 1476]


باب  کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے

 

حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا حَکَّامُ بْنُ سَلْمٍ وَهَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَنْبَسَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاکُمْ وَالنَّعْيَ فَإِنَّ النَّعْيَ مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 «نعی»  (موت کی خبر دینے)   

سے بچو، کیونکہ «نعی» جاہلیت کا عمل ہے ۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں 

 «نعی» کا مطلب میت کی موت کا اعلان ہے

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 اس باب میں حذیفہ (رض) سے بھی روایت ہے


وضاحت

 کسی کی موت کی خبر دینے کو «نعی» کہتے ہیں ، «نعی» جائز ہے خود نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے نجاشی کی وفات کی خبر دی ہے ، اسی طرح زید بن حارثہ ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کی وفات کی خبریں بھی آپ نے لوگوں کو دی ہیں ، یہاں جس «نعی» سے بچنے کا ذکر ہے اس سے اہل جاہلیت کی «نعی» ہے ، زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرجاتا تھا تو وہ ایک شخص کو بھیجتے جو محلوں اور بازاروں میں پھر پھر کر اس کے مرنے کا اعلان کرتا


Translation

Sayyidina Abdullah (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “Keep away from obituary notices, for that is from the deeds of jahiliyah.” Abdullah said, “Na’yu (oblituary notice) is announcing a death.”


باب  کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْبَسَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مَيْمُونٌ الْأَعْوَرُ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ کَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ وَالنَّعْيُ عِنْدَهُمْ أَنْ يُنَادَی فِي النَّاسِ أَنَّ فُلَانًا مَاتَ لِيَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ لَا بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح مروی ہے، اور راوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا ہے کہ  «نعی» موت کے اعلان کا نام ہے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن غریب ہے،

یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے،

 ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں، یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں،  

 بعض اہل علم نے «نعی» کو مکروہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک «نعی» یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ فلاں مرگیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں،  

 بعض اہل علم کہتے ہیں 

 اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کو اس کے مرنے کی خبر دی جائے،  

ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کو اس کے اپنے کسی قرابت دار کے مرنے کی خبر دی جائے

   

Translation

Sa’eed ibn Abdur Rahman Makhzumi reported in like manner from Abdullah ibn Walid Adni, from Sufyan Thawri, from Abu Hamzah, from Ibrahim, from Alqamah and he from Abdullah a non-marfu hadith without the words.


باب  صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّبْرُ فِي الصَّدْمَةِ الْأُولَی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ


ترجمہ

 انس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو  

امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث اس سند سے غریب ہے


  وضاحت 

 مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکا جب دل پر لگتا ہے اس وقت آدمی صبر کرے اور بےصبری کا مظاہرہ ، اپنے اعمال و حرکات سے نہ کرے تو یہی صبر کامل ہے جس پر اجر مترتب ہوتا ہے ، بعد میں تو ہر کسی کو چار و ناچار صبر آ ہی جاتا ہے


Translation

Sayyidina Anas reported that Allah’s Messenger said, “Patience is at the beginning of the shock.”   [Ahmed12319, Bukhari 1302, Muslim 926, Abu Dawud 3124, Nisai 1865]  


باب  صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَی قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو 

 امام ترمذی کہتے ہیں

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


Translation

Thabit Bunani reported from Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) that Allah’s Messenger ﷺ said, “Patience is at the first shock.”   


باب  میت کو بوسہ دینا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ وَهُوَ يَبْکِي أَوْ قَالَ عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ قَالُوا إِنَّ أَبَا بَکْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے عثمان بن مظعون (رض) کا بوسہ لیا - وہ انتقال کرچکے تھے - آپ رو رہے تھے۔ یا  (راوی نے)  کہا 

 آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  

اس باب میں ابن عباس، جابر اور عائشہ سے بھی کاحادیث آئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا بوسہ لیا

 اور آپ انتقال فرما چکے تھے 


 وضاحت 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان میت کو بوسہ لینا اور اس پر رونا جائز ہے ، رہیں وہ احادیث جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ ایسے رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said that the Prophet ﷺ kissed the dead body of Sayyidina Uthman ibn Maz’un (RA). He wept, or his eyes were moist.  [Ahmed24220, Abu Dawud 3163, Ibn e Majah 1456]


باب  میت کو غسل دینا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ وَمَنْصُورٌ وَهِشَامٌ فَأَمَّا خَالِدٌ وَهِشَامٌ فَقَالَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَحَفْصَةَ وَقَالَ مَنْصُورٌ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ تُوُفِّيَتْ إِحْدَی بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ إِنْ رَأَيْتُنَّ وَاغْسِلْنَهَا بِمَائٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ کَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ کَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَلْقَی إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا بِهِ قَالَ هُشَيْمٌ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ هَؤُلَائِ وَلَا أَدْرِي وَلَعَلَّ هِشَامًا مِنْهُمْ قَالَتْ وَضَفَّرْنَا شَعْرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ قَالَ هُشَيْمٌ أَظُنُّهُ قَالَ فَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا قَالَ هُشَيْمٌ فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ عَنْ حَفْصَةَ وَمُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوئِ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ غُسْلُ الْمَيِّتِ کَالْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ و قَالَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ وَلَيْسَ لِذَلِکَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَکِنْ يُطَهَّرُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا قَالَ مَالِکٌ قَوْلًا مُجْمَلًا يُغَسَّلُ وَيُنْقَی وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَائٍ قَرَاحٍ أَوْ مَائٍ غَيْرِهِ أَجْزَأَ ذَلِکَ مِنْ غُسْلِهِ وَلَکِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلَاثًا فَصَاعِدًا لَا يُقْصَرُ عَنْ ثَلَاثٍ لِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَجْزَأَ وَلَا نَرَی أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هُوَ عَلَی مَعْنَی الْإِنْقَائِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ وَکَذَلِکَ قَالَ الْفُقَهَائُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَتَکُونُ الْغَسَلَاتُ بِمَائٍ وَسِدْرٍ وَيَکُونُ فِي الْآخِرَةِ شَيْئٌ مِنْ کَافُورٍ


ترجمہ

 ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی ایک بیٹی  

کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا 

  اسے طاق بار غسل دو ، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو ، آخر میں کافور ملا لینا ، یا فرمایا 

 تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دینا ، چناچہ جب ہم  (نہلا کر)  فارغ ہوگئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا 

  اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو ۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں  

 کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا 

 اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں 

 میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا  

 ہشیم کہتے ہیں 

 پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ (رض) سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 ام عطیہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں ام سلیم (رض) سے بھی روایت ہے،  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، 

 ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے،  

 مالک بن انس کہتے ہیں 

 ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کردیا جائے گا،  شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کردیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا ہے  اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو ، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کردیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں،  

 احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں 

 ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہوگا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے 


  وضاحت 

 جمہور کے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب (رض) تھیں ، ایک قول یہ ہے کہ عثمان (رض) کی اہلیہ ام کلثوم (رض) تھیں ، صحیح پہلا قول ہی ہے

 یعنی خالد ، منصور اور ہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں

 اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دینا چاہیئے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں


Translation

Sayyidah Umm Atiyáh (RA) narrated : One of the daughters of the Prophet ﷺ died, so he said, “Wash her an odd number of times, three, five or more than that if you think fit. And wash her with water and lotus leaves, and put camphor, or some of it in the last bathing. When you have finished, inform me.” So, when we had finished, we informed him and he gave us his lower garment, saying, “Wrap her in it.” Hushaym narrated in another version, saying, “I do npt know but I thik that Hisham is one of them,” Umm Atiyah narrated : We braided her hair in three plaits. Hushaym said, “I think thatshe also narrated: We put them behind her back.” Hushaym said that Khalid reported from Hafsah and Muhammad and they from Umm Atiyah (RA) that she narrated : Allah’s Messenger ﷺ said to us, “Begin with the right side and the limbs on which ablution is performed.”   [Ahmed27368, Muslim 939, Abu Dawud 3142, Ibn e Majah 1458]


باب  میت کو مشک لگانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ شُعْبَةَ عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ الْمِسْکِ فَقَالَ هُوَ أَطْيَبُ طِيبِکُمْ


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے مشک کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا 

 یہ تمہاری خوشبوؤں میں سب سے بہتر خوشبو ہے ۔   


Translation

Sayyidina Abu Sa’eed Khudri (RA) reported that the Prophet ﷺ was asked about musk. He said, “It i the best of your perfumes.”   [Ahmed11311, Muslim 18, 19, Abu Dawud 3158]


باب  میت کو مشک لگانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ وَشَبَابَةُ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ سَمِعَ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ الطِّيبِ الْمِسْکُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ کَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمِسْکَ لِلْمَيِّتِ قَالَ وَقَدْ رَوَاهُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ثِقَةٌ قَالَ يَحْيَی خُلَيْدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  سب سے بہترین خوشبو مشک ہے 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 اور اسے مستمر بن ریان نے بھی بطریق 

 «أبي نضرة عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مستمر بن ریان ثقہ ہیں،  

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،  

 اور بعض اہل علم نے میت کے لیے مشک کو مکروہ قرار دیا ہے

 

Translation

A similar hadith is reported by Mahmud ibn Ghaylan, Shu’bah, from Khulayd ibn Ja’far.


باب  میت کو غسل دے کر خود غسل کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مِنْ غُسْلِهِ الْغُسْلُ وَمِنْ حَمْلِهِ الْوُضُوئُ يَعْنِي الْمَيِّتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُغَسِّلُ الْمَيِّتَ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِذَا غَسَّلَ مَيِّتًا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ و قَالَ بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْوُضُوئُ و قَالَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ أَسْتَحِبُّ الْغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَلَا أَرَی ذَلِکَ وَاجِبًا وَهَکَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ و قَالَ أَحْمَدُ مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا أَرْجُو أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْغُسْلُ وَأَمَّا الْوُضُوئُ فَأَقَلُّ مَا قِيلَ فِيهِ و قَالَ إِسْحَقُ لَا بُدَّ مِنْ الْوُضُوئِ قَالَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّهُ قَالَ لَا يَغْتَسِلُ وَلَا يَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے،  

 ابوہریرہ (رض) سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے،  

 اس باب میں علی اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کو غسل دے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تو اس پر غسل ہے، 

 بعض کہتے ہیں 

 اس پر وضو ہے۔ مالک بن انس کہتے ہیں 

 میت کو غسل دینے سے غسل کرنا میرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا  

 اسی طرح شافعی کا بھی قول ہے،

 احمد کہتے ہیں 

 جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہوگا۔ رہی وضو کی بات تو یہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہا گیا ہے،  

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں 

وضو ضروری ہے  

عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو


 وضاحت 

 جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے 

«ليس عليكم في غسل ميتكم غسل إذا اغسلتموه إن ميتكم يموت طاهرا وليس بنجس ، فحسبکم أن تغسلوا أيديكم» 

جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے ، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی  ( یعنی عورتوں ، مردوں ، بچوں میں سے ہر ایک  )  پاک ہی مرتا ہے ، وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو  لہٰذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے ، یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے ، اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے

 انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پر محمول کیا ہے

  

Translation

Sayyidina Abu Hurayrah reported that the Prophet ﷺ said, “There is bath after bathing the dead and ablution after carrying him.”    [Ahmed7693, Abu Dawud 3161]


باب  کفن کس طرح دینا مستحب ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِکُمْ الْبَيَاضَ فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِکُمْ وَکَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاکُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُکَفَّنَ فِي ثِيَابِهِ الَّتِي کَانَ يُصَلِّي فِيهَا و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَيْنَا أَنْ يُکَفَّنَ فِيهَا الْبَيَاضُ وَيُسْتَحَبُّ حُسْنُ الْکَفَنِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو بھی کفناؤ  

امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں سمرہ، ابن عمر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اور اہل علم اسی کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں 

 میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آدمی انہی کپڑوں میں کفنایا جائے جن میں وہ نماز پڑھتا تھا، 

احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں 

کفنانے کے لیے میرے نزدیک سب سے پسندیدہ کپڑا سفید رنگ کا کپڑا ہے۔ اور اچھا کفن دینا مستحب ہے 


 وضاحت 

 اس حدیث میں امر استحباب کے لیے ہے اس امر پر اجماع ہے کہ کفن کے لیے بہتر سفید کپڑا ہی ہو۔    


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “Dress yourselves in your white garments, for, they are the best of your garments, and shroud your dead in them.”   [Ahmed2479, Abu Dawud 3878, Ibn e Majah 1472]



 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَلِيَ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ فَلْيُحْسِنْ کَفَنَهُ وَفِيهِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ فِي قَوْلِهِ وَلْيُحْسِنْ أَحَدُکُمْ کَفَنَ أَخِيهِ قَالَ هُوَ الصَّفَائُ وَلَيْسَ بِالْمُرْتَفِعِ


ترجمہ

 ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جب تم میں کوئی اپنے بھائی کا  (کفن کے سلسلے میں)  ولی  (ذمہ دار)  ہو تو اسے اچھا کفن دے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے،  

 اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے،  

 ابن مبارک کہتے ہیں کہ سلام بن ابی مطیع آپ کے قول 

«وليحسن أحدکم كفن أخيه» 

 اپنے بھائی کو اچھا کفن دو  کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے کی صفائی اور سفیدی ہے، اس سے قیمتی کپڑا مراد نہیں ہے  


Translation

Sayyidina Abu Qatadah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “When one of you is the guardian of his (dead) brother, he must give him the best shroud.”


باب  نبی اکرم ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ قَالَ فَذَکَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ فَقَالَتْ قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَکِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُکَفِّنُوهُ فِيهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو تین سفید  

 یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا  

 نہ ان میں قمیص 

 تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ (رض) سے کہا 

 لوگ کہتے ہیں کہ آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا ؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا 

 چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کردیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


 وضاحت 

 تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے نزدیک کفنی ، تہ بند اور بڑی چادر ہے

 اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ  ( پگڑی  )  جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے

 «كفن رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ثلاثة أثواب بحرانية 

 الحلة ، ثوبان ، وقميصه الذي مات فيه» تو یہ منکر ہے اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں ، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث 

«خير الکفن الحلة» 

بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔  

اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہور کا یہی قول ہے ، لیکن مالکیہ اور حنفیہ استحباب کے قائل ہیں ، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ شمار کی گئی چیز کی نفی ہو یعنی قمیص اور عمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said: The Prophet ﷺ was shrouded in three white Yamani garments, neither a shirt nor a turban was among them.  She was reminded of their (people’s) saying that there were two garments and a stripped cloak. She said, “A cloak was brought, but returned and he was not shrouded in it.”  [Ahmed26008, Bukhari 1271, Muslim 941, Abu Dawud 3152, Ibn e Majah 1469]


باب: نبی اکرم ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے۔


 حدیث 

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي کَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الْأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي کَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُکَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلَاثِ لَفَائِفَ وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ وَالثَّلَاثَةُ لِمَنْ وَجَدَهَا أَحَبُّ إِلَيْهِمْ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا تُکَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حمزہ بن عبدالمطلب (رض) کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔    امام ترمذی کہتے ہیں :  ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  ٢- نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اور ان سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے،  ٣- اس باب میں علی  ١ ؎، ابن عباس، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے،  ٥- سفیان ثوری کہتے ہیں : آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اور دو کپڑے بھی کافی ہوجاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں : عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایا جائے  ٢ ؎۔    تخریج دارالدعوہ :  تفرد بہ المؤلف  ( تحفة الأشراف : ٢٣٦٩) (حسن)    وضاحت :  ١ ؎ : علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ ، احمد اور بزار نے «كفن النبي صلی اللہ عليه وسلم في سبعة أثواب» کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جو سئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔  ٢ ؎ : اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ (رض) کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اور ابوداؤد نے کی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں ، لیلیٰ کہتی ہیں : «کنت فیمن غسل أم کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم عندو فاتہا ، فکان أوّل ما أعطانا رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم الحقاء ، ثم الدرع ثم الخمار ، ثم الملحفۃ ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر ، قالت : و رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً» لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں


Translation

Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ shrouded Sayyidina Hamzah ibn Abdul Muttalib in one woollen garment.


باب  نبی اکرم ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے


 حدیث 

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي کَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الْأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي کَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُکَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلَاثِ لَفَائِفَ وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ وَالثَّلَاثَةُ لِمَنْ وَجَدَهَا أَحَبُّ إِلَيْهِمْ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا تُکَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حمزہ بن عبدالمطلب (رض) کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا

امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،

 نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اور ان سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے،  

 اس باب میں علی, ابن عباس، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے، 

 سفیان ثوری کہتے ہیں 

 آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اور دو کپڑے بھی کافی ہوجاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے

 وہ کہتے ہیں 

 عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایا جائے

  

  وضاحت 

 علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ ، احمد اور بزار نے «كفن النبي صلی اللہ عليه وسلم في سبعة أثواب»

 کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جو سئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔

 اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ (رض) کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اور ابوداؤد نے کی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں ، لیلیٰ کہتی ہیں 

 «کنت فیمن غسل أم کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم عندو فاتہا ، فکان أوّل ما أعطانا رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم الحقاء ، ثم الدرع ثم الخمار ، ثم الملحفۃ ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر ، قالت 

 و رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً» لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں


Translation

Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ shrouded Sayyidina Hamzah ibn Abdul Muttalib in one woollen garment.


باب  اہل میت کے لئے کھانا پکانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ لَمَّا جَائَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَائَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ کَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَی أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْئٌ لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ رَوَی عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ  جب جعفر طیار کے مرنے کی خبر آئی   تو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ، اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 بعض اہل علم میت کے گھر والوں کے مصیبت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کچھ بھیجنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے،  

 جعفر بن خالد کے والد خالد سارہ کے بیٹے ہیں اور ثقہ ہیں۔ ان سے ابن جریج نے روایت کی ہے


 وضاحت 

 جعفر بن ابی طالب (رض) کی شہادت ٨ ھ میں غزوہ موتہ میں ہوئی تھی ، ان کی موت یقیناً سب کے لیے خاص کر اہل خانہ کے لیے رنج و غم لے کر آئی۔

 اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ  اہل میت کے لیے کھانا بھیج دیں۔ مگر آج کے مبتدعین نے معاملہ الٹ دیا ، تیجا ، قل ، ساتویں اور چالیسویں جیسی ہندوانہ رسمیں ایجاد کر کے میت کے ورثاء کو خوب لوٹا جاتا ہے ، «العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات»


Translation

Sayyidina Abdullah ibn Ja’far i said  When news arrived of the martyrdom of (Sayyidina) Ja’far (RA) the Prophet ﷺ said, “Prepare meal for the family of Jafar, for, they have heard what occupies them.”   [Ahmed1751, Abu Dawud 3132, Ibn e Majah 1610]


باب  مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنا اور گریبان پھاڑنا منع ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ الْأَيَامِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُيُوبَ وَضَرَبَ الْخُدُودَ وَدَعَا بِدَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جو گریبان پھاڑے، چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے

 ہم میں سے نہیں

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

وضاحت 

 جاہلیت کی ہانک پکارنے سے مراد بین کرنا ہے ، جیسے ، ہائے میرے شیر ! میرے چاند ، ہائے میرے بچوں کو یتیم کر جانے والے عورتوں کے سہاگ اجاڑ دینے والے ! وغیرہ وغیرہ کہہ کر رونا۔

یعنی ہم مسلمانوں کے طریقے پر نہیں۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کے غیر مسلموں جیسے جزع و فزع کے طور طریقے دیکھ کر اس حدیث کی صداقت کس قدر واضح ہوجاتا ہے


Translation

Sayyidina Abdullah (RA) reported from the Prophet ﷺ that he said, “He is not of us who tears the front of his garment and beats his cheeks and cries out the cries of the jahiliyah.’   [Ahmed4111, Bukhari 3519, Muslim 103, Nisai 1860, Ibn e Majah 1584]


باب  نوحہ حرام ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْأَسَدِيِّ قَالَ مَاتَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ قَرَظَةُ بْنُ کَعْبٍ فَنِيحَ عَلَيْهِ فَجَائَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ وَقَالَ مَا بَالُ النَّوْحِ فِي الْإِسْلَامِ أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ عُذِّبَ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي مُوسَی وَقَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَجُنَادَةَ بْنِ مَالِکٍ وَأَنَسٍ وَأُمِّ عَطِيَّةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي مَالِکٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 علی بن ربیعہ اسدی کہتے ہیں کہ  انصار کا قرظہ بن کعب نامی ایک شخص مرگیا، اس پر نوحہ کیا گیا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) آئے اور منبر پر چڑھے۔ اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا 

 کیا بات ہے ؟ اسلام میں نوحہ ہو رہا ہے۔ سنو ! میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا ہے 

  جس پر نوحہ کیا گیا اس پر نوحہ کیے جانے کا عذاب ہوگا

   امام ترمذی کہتے ہیں

 مغیرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

 اس باب میں عمر، علی، ابوموسیٰ ، قیس بن عاصم، ابوہریرہ، جنادہ بن مالک، انس، ام عطیہ، سمرہ اور ابو مالک اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


وضاحت 

 میت پر اس کی خوبیوں اور کمالات بیان کر کے چلاّ چلاّ کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں

یہ عذاب اس شخص پر ہوگا جو اپنے ورثاء کو اس کی وصیت کر کے گیا ہو ، یا اس کا اپنا عمل بھی زندگی میں ایسا ہی رہا ہو اور اس کی پیروی میں اس کے گھر والے بھی اس پر نوحہ کر رہے ہوں


Translation

Rabi’ah Asadi narrated : A man of the Ansars, Qarazah ibn Ka’b, died. The people wailed over him. Mughirah ibn Shu’bah climbed on the pulpit, praised and glorified Allah and said, “What has wailing to do in Islam? I had heard Allah’s Messenger ﷺ say If anyone is wailed over then he will be punished.”   [Ahmed18265, Bukhari 1291, Muslim 933]


باب  نوحہ حرام ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ وَالْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ وَالْعَدْوَی أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةَ بَعِيرٍ مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ وَالْأَنْوَائُ مُطِرْنَا بِنَوْئٍ کَذَا وَکَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا

  میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں، لوگ انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے 

 نوحہ کرنا، حسب و نسب میں طعنہ زنی، اور بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کا عقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہنا کہ ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی اور اس نے سو اونٹ میں کھجلی پھیلا دی تو آخر پہلے اونٹ کو کھجلی کیسے لگی ؟ اور نچھتروں کا عقیدہ رکھنا۔ مثلاً فلاں اور فلاں نچھتر  (ستارے)  کے سبب ہم پر بارش ہوئی

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said. Four things of the jahiliyah, people of my ummah will not abandon: wailing taking pride over line of descent, believing that infection and mangy camel cause hundred to get the same so who infected the first, and that it rains because of movement of stars.”   [Ahmed9376]


باب  نوحہ حرام ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ کَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبُکَائَ عَلَی الْمَيِّتِ قَالُوا الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَذَهَبُوا إِلَی هَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ أَرْجُو إِنْ کَانَ يَنْهَاهُمْ فِي حَيَاتِهِ أَنْ لَا يَکُونَ عَلَيْهِ مِنْ ذَلِکَ شَيْئٌ


ترجمہ

 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 عمر (رض) کی حدیث صحیح ہے،

 اس باب میں ابن عمر اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ  (تحریمی)  قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں

 اور ابن مبارک کہتے ہیں 

 مجھے امید ہے کہ اگر وہ  (میت)  اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتا رہا ہو تو اس پر اس میں سے کچھ نہیں ہوگا


Translation

Saalim ibn Abdullah reported on the authority of his father that Sayyidina Umar ibn Khattab reported Allah’s Messenger as saying, “The dead is punished because of the weeping over him of his folks.”   [Ahmed386, Bukhari 1292, Muslim 927, Nisai 1849, Ibn e Majah 1593]


باب  میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ قَالَ و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ وَذُکِرَ لَهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَيِّ عَلَيْهِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ غَفَرَ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَکْذِبْ وَلَکِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی يَهُودِيَّةٍ يُبْکَی عَلَيْهَا فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَبْکُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عمرہ سے روایت ہے کہ  انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا اور ان سے ذکر کیا گیا تھا کہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میت پر لوگوں کے رونے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے  (عائشہ (رض) نے کہا)  اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے۔ سنو، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا۔ بلکہ ان سے بھول ہوئی ہے یا وہ چوک گئے ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا گزر ایک یہودی عورت کے پاس سے ہوا جس پر لوگ رو رہے تھے۔ تو آپ نے فرمایا 

  یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے 


Translation

Amrah narrated that Sayyidah Ayshah (RA) was told that Ibn Umar (RA) said, The dead will be punished for the weeping of the survivors.” She (Sayyidah Ayshah) said, “May Allah forgive Abu Abdur Rahman. Surely he has not lied, but has forgotten or is mistaken. Only that Allah’s Messenger ﷺ had passed by a Jewess (dead) over whom they were weeping. He had said : They are weeping while she is being punished in her grave.”   [Ahmed24812]


باب  نوحہ حرام ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ أَنَّ مُوسَی بْنَ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيَّ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاکِيهِ فَيَقُولُ وَا جَبَلَاهْ وَا سَيِّدَاهْ أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ إِلَّا وُکِّلَ بِهِ مَلَکَانِ يَلْهَزَانِهِ أَهَکَذَا کُنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ


ترجمہ

 ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جو کوئی بھی مرجائے پھر اس پر رونے والا کھڑا ہو کر کہے 

 ہائے میرے پہاڑ، ہائے میرے سردار یا اس جیسے الفاظ کہے تو اسے دو فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے، وہ اسے گھونسے مارتے ہیں  (اور کہتے جاتے ہیں)  کیا تو ایسا ہی تھا ؟ 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے  


Translation

Musa ibn Abu Musa Ash’ary reported on the authority of his father that Allah’s Messenger ﷺ said, “If anyone dies and his mourner gets up and says, ‘O the mountains, O the chief’, or something like that then two angels are put over the dead whO beat him on the chest asking him if he was like that.” [Ahmed19737, Ibn e Majah 1594]


باب  میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَرْحَمُهُ اللَّهُ لَمْ يَکْذِبْ وَلَکِنَّهُ وَهِمَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مَاتَ يَهُودِيًّا إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْکُونَ عَلَيْهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَرَظَةَ بْنِ کَعْبٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ وَقَدْ ذَهَبَ أَهْلُ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَتَأَوَّلُوا هَذِهِ الْآيَةَ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  میت کو اپنے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جاتا ہے ، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں 

 اللہ  (ابن عمر)  پر رحم کرے، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا، انہیں وہم ہوا ہے۔ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے تو یہ بات اس یہودی کے لیے فرمائی تھی جو مرگیا تھا

  میت کو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،

 یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عائشہ (رض) سے مروی ہے،

 اس باب میں ابن عباس، قرظہ بن کعب، ابوہریرہ، ابن مسعود اور اسامہ بن زید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،

 بعض اہل علم اسی جانب گئے ہیں اور ان لوگوں نے آیت 

 «ولا تزر وازرة وزر أخری»  کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، کا مطلب بھی یہی بیان کیا ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “The dead is punished because of the weeping of his family over him. Sayyidah Ayshah (RA) said, “May Allah have mercy on him. The dead is not punished, but he has misunderstood. Allah’s Messenger ﷺ only said about a Jew who had died that the dead is being punished and his folk are weeping over him.”   [Ahmed288, Bukhari 1286, Muslim 928, Nisai 1853]


باب  جنازہ کے آگے چلنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے


Translation

Saalim reported from his father that he said, “I saw the Prophet ﷺ Abu Bakr (RA) and Umar walk ahead of the funeral.”   [Ahmed4539, Ibn e Majah 1482, Abu Dawud 3179, Nisai 1943]


باب  میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَی ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ فَوَجَدَهُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ فِي حِجْرِهِ فَبَکَی فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَتَبْکِي أَوَلَمْ تَکُنْ نَهَيْتَ عَنْ الْبُکَائِ قَالَ لَا وَلَکِنْ نَهَيْتُ عَنْ صَوْتَيْنِ أَحْمَقَيْنِ فَاجِرَيْنِ صَوْتٍ عِنْدَ مُصِيبَةٍ خَمْشِ وُجُوهٍ وَشَقِّ جُيُوبٍ وَرَنَّةِ شَيْطَانٍ وَفِي الْحَدِيثِ کَلَامٌ أَکْثَرُ مِنْ هَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے عبدالرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس لے گئے تو دیکھا کہ ابراہیم کا آخری وقت ہے، نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ابراہیم کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور رو دیا۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا 

 کیا آپ رو رہے ہیں ؟ کیا آپ نے رونے منع نہیں کیا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا

 نہیں، میں تو دو احمق فاجر آوازوں سے روکتا تھا 

 ایک تو مصیبت کے وقت آواز نکالنے، چہرہ زخمی کرنے سے اور گریبان پھاڑنے سے، دوسرے شیطان کے نغمے سے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے


  وضاحت 

 شیطان کے نغمے سے مراد غناء مزامیر ہیں ، یعنی گانا بجانا


Translation

Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) narrated : The Prophet ﷺ took the hand of Abdur Rahman ibn Awf (RA) and went with him to his son Ibrahim (RA) . He found him dying. So, the Prophet ﷺ took him in his lap and wept. Abdur Rahman ibn Awf said, “Do you weep? Have you not disallowed us to weep?” He said, “No. But, I disallowed from two foolish noises-clawing at the face and weeping and tearing garments, and wailing and shrieking like the devil.”


باب  جنازہ کے آگے چلنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ مَنْصُورٍ وَبَکْرٍ الْکُوفِيِّ وَزِيَادٍ وَسُفْيَانَ کُلُّهُمْ يَذْکُرُ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر (رض) سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے 


Translation

Hasan ibn Ali Khalal, reported from Amr ibn Aasim, from Hammam from Mansur, Bakr Kufi, Ziyad and Sufyan, all of whom from Zuhri who from Saalim that he heard his father say, “I saw the Prophet ﷺ Abu Bakr (RA) and Umar walk ahead of the funeral.”


باب  جنازہ کے آگے چلنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ هَکَذَا رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَرَوَی مَعْمَرٌ وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَالِکٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ کُلُّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِکَ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت يَحْيَی بْنَ مُوسَی يَقُولُ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا مُرْسَلٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَأَرَی ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَهُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی هَمَّامُ بْنُ يَحْيَی هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زِيَادٍ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ وَمَنْصُورٍ وَبَکْرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ وَإِنَّمَا هُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ رَوَی عَنْهُ هَمَّامٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ فَرَأَی بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَهَا أَفْضَلُ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ قَالَ وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ


ترجمہ

 ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر (رض) جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے، اور زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ معمر، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اور بھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے، 

ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،  

ابن مبارک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،  

ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیاد بن سعد، منصور، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے، 

 اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے 

 جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں


وضاحت

 ملاحظہ ہو اگلی حدیث  ( ١٠١٠) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آرہی ہے «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها» تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔  ( ملاحظہ ہو  ١٠١١)    


Translation

Abd ibn Humayd reported from Abdur Razzaq from Ma’nar from Zuhri that he said, “The Prophet ﷺ Abu Bakr (RA) and Umar used to walk ahead of the funeral.”


باب  جنازہ کے آگے چلنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ کَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ وَإِنَّمَا يُرْوَی هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا أَصَحُّ


ترجمہ

 انس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) جنازے کے آگے چلتے تھے

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا 

 یہ حدیث غلط ہے اس میں محمد بن بکر نے غلطی کی ہے۔ یہ حدیث یونس سے روایت کی جاتی ہے، اور یونس زہری سے  (مرسلاً )  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں 

مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے آگے چلتے تھے،

 محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں 

 یہ زیادہ صحیح ہے۔  (دیکھئیے سابقہ حدیث ١٠٠٩)  

 

Translation

Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) said, “Allah’s Messenger ﷺ walked ahead of the funeral, as did Abu Bakr (RA) , Umar and Uthman (RA).  [Ibn e Majah 1483]


باب  جنازے کے پیچھے چلنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَحْيَی إِمَامِ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ عَنْ أَبِي مَاجِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمَشْيِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ قَالَ مَا دُونَ الْخَبَبِ فَإِنْ کَانَ خَيْرًا عَجَّلْتُمُوهُ وَإِنْ کَانَ شَرًّا فَلَا يُبَعَّدُ إِلَّا أَهْلُ النَّارِ الْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلَا تَتْبَعُ وَلَيْسَ مِنْهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ لَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يُضَعِّفُ حَدِيثَ أَبِي مَاجِدٍ لِهَذَا و قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ الْحُمَيْدِيُّ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ قِيلَ لِيَحْيَی مَنْ أَبُو مَاجِدٍ هَذَا قَالَ طَائِرٌ طَارَ فَحَدَّثَنَا وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَی هَذَا رَأَوْا أَنَّ الْمَشْيَ خَلْفَهَا أَفْضَلُ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَإِسْحَقُ قَالَ إِنَّ أَبَا مَاجِدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ لَا يُعْرَفُ إِنَّمَا يُرْوَی عَنْهُ حَدِيثَانِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَيَحْيَی إِمَامُ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ ثِقَةٌ يُکْنَی أَبَا الْحَارِثِ وَيُقَالُ لَهُ يَحْيَی الْجَابِرُ وَيُقَالُ لَهُ يَحْيَی الْمُجْبِرُ أَيْضًا وَهُوَ کُوفِيٌّ رَوَی لَهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَبُو الْأَحْوَصِ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  ہم نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے جنازے کے پیچھے چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا

 ایسی چال چلے جو دلکی چال سے دھیمی ہو۔ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے جلدی قبر میں پہنچا دو گے اور اگر برا ہے تو جہنمیوں ہی کو دور ہٹایا جاتا ہے۔ جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیئے، اس سے آگے نہیں ہونا چاہیئے، جو جنازہ کے آگے چلے وہ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے نہیں

    امام ترمذی کہتے ہیں

 یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے،  

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابو حامد کی اس حدیث کو ضعیف بتاتے سنا ہے،  

 محمد بن اسماعیل بخاری کا بیان ہے کہ حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا 

 ابوماجد کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا 

 ایک اڑتی چڑیا ہے جس سے ہم نے روایت کی ہے، یعنی مجہول راوی ہے


Translation

Sayyidina Abdullah ibn Mas’ud (RA) narrated: We asked Allah’s Messenger about walking behind the funeral. He said, “Not more than a trot (that is, walk slower than running). For, if he was pious then you will consign him soon (to the grave) and if he was evil then only the people of the Fire are kept away. The funeral i followed and it does not follow. He who walks in front of it is not of us.”   [Ahmed3734, Abu Dawud 3184, Ibn e Majah 1484]


باب  جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنا مکروہ ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَرَأَی نَاسًا رُکْبَانًا فَقَالَ أَلَا تَسْتَحْيُونَ إِنَّ مَلَائِکَةَ اللَّهِ عَلَی أَقْدَامِهِمْ وَأَنْتُمْ عَلَی ظُهُورِ الدَّوَابِّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ثَوْبَانَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مَوْقُوفًا قَالَ مُحَمَّدٌ الْمَوْقُوفُ مِنْهُ أَصَحُّ


ترجمہ

 ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ  ہم رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا 

 کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہوں

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 ثوبان کی حدیث، ان سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں 

ان کی موقوف روایت زیادہ صحیح ہے،  

 اس باب میں مغیرہ بن شعبہ اور جابر بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

  

  وضاحت

 یہ حدیث جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا «الراکب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها عن يمينها ويسارها قريبا منها»  سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلتا ہے جب کہ پیدل چلنے والا اس کے پیچھے ، آگے ، دائیں ، بائیں قریب ہو کر چلتا ہے ۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق کئی طرح سے دی جاتی ہے ایک یہ کہ ثوبان کی روایت ضعیف ہے ، دوسرے یہ کہ یہ غیر معذور کے سلسلہ میں ہے اور مغیرہ بن شعبہ کی روایت معذور شخص کے سلسلہ میں ہے ، تیسرے یہ کہ ثوبان کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سوار جنازے کے پیچھے تھے ، ہوسکتا ہے کہ وہ جنازے کے آگے رہے ہوں یا جنازہ کے بغل میں رہے ہوں اس صورت میں یہ مغیرہ کی حدیث کے منافی نہ ہوگا

  

Translation

Sayyidina Thawban narrated : We went to a funeral with the Prophet ﷺ . We saw people riding. So, he said, ‘Do you not feel ashamed that while the angels of Allah are on their feet, you are on the backs of the beasts.’


باب  جنازے کے پیچھے سواری پر سوار ہو کر جانے کی اجازت


 حدیث 

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاکٍ قَال سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ أَبِي الدَّحْدَاحِ وَهُوَ عَلَی فَرَسٍ لَهُ يَسْعَی وَنَحْنُ حَوْلَهُ وَهُوَ يَتَوَقَّصُ بِهِ


ترجمہ

 جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ  ہم لوگ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ ابودحداح کے جنازے میں تھے، آپ لوٹتے وقت ایک گھوڑے پر سوار تھے جو تیز چل رہا تھا، ہم اس کے اردگرد تھے اور وہ آپ کو لے کر اچھلتے ہوئے چل رہا تھا


Translation

Simak ibn Harb reported having heard Sayyidina Jabir ibn Samurah (RA) say, “We were with the Prophet ﷺ in the funeral of Ibn Dahdah, and he was on horseback and it was at a running pace. We were around him. He drove it at a small pace.”  [Ahmed20877, Muslim 965, Abu Dawud 3178, Nisai 2022]


باب  جنازے کے پیچھے سواری پر سوار ہو کر جانے کی اجازت


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ عَنْ الْجَرَّاحِ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّبَعَ جَنَازَةَ أَبِي الدَّحْدَاحِ مَاشِيًا وَرَجَعَ عَلَی فَرَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ابودحداح کے جنازہ کے پیچھے پیدل گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر لوٹے  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


وضاحت

 اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جنازے سے واپسی میں سوار ہو کر واپس آنا جائز ہے ، علماء اسے بلا کراہت جائز قرار دیتے ہیں 


Translation

Sayyidina Jabir ibn Samurah (RA) narrated that the Prophet ﷺ followed the funeral of Ibn Dahdah walking and returned on horseback.


باب  جنازہ کو جلدی لے جانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ فَإِنْ يَکُنْ خَيْرًا تُقَدِّمُوهَا إِلَيْهِ وَإِنْ يَکُنْ شَرًّا تَضَعُوهُ عَنْ رِقَابِکُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَکْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  جنازہ تیزی سے لے کر چلو اگر وہ نیک ہوگا تو اسے خیر کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر وہ برا ہوگا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر  (جلد)  رکھ دو گے

 امام ترمذی کہتے ہیں

 ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،

 اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے


 وضاحت 

 جمہور کے نزدیک امر استحباب کے لیے ہے ، ابن حزم کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that the Prophet ﷺ commanded, ‘Hasten with the funeral. For, if he was pious, send him soon to a better place. And, if he was evil, relieve your necks of him.”   [Ahmed10336, Bukhari 1315, Muslim 944, Abu Dawud 3181, Nisai 1910, Ibn e Majah 1477]


باب  شہدائے احد اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی حَمْزَةَ يَوْمَ أُحُدٍ فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَرَآهُ قَدْ مُثِّلَ بِهِ فَقَالَ لَوْلَا أَنْ تَجِدَ صَفِيَّةُ فِي نَفْسِهَا لَتَرَکْتُهُ حَتَّی تَأْکُلَهُ الْعَافِيَةُ حَتَّی يُحْشَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ بُطُونِهَا قَالَ ثُمَّ دَعَا بِنَمِرَةٍ فَکَفَّنَهُ فِيهَا فَکَانَتْ إِذَا مُدَّتْ عَلَی رَأْسِهِ بَدَتْ رِجْلَاهُ وَإِذَا مُدَّتْ عَلَی رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ قَالَ فَکَثُرَ الْقَتْلَی وَقَلَّتْ الثِّيَابُ قَالَ فَکُفِّنَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ وَالثَّلَاثَةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ثُمَّ يُدْفَنُونَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ عَنْهُمْ أَيُّهُمْ أَکْثَرُ قُرْآنًا فَيُقَدِّمُهُ إِلَی الْقِبْلَةِ قَالَ فَدَفَنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ النَّمِرَةُ الْکِسَائُ الْخَلَقُ وَقَدْ خُولِفَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ فَرَوَی اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَرَوَی مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ عَنْ جَابِرٍ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَکَرَهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ حَدِيثُ اللَّيْثِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ جَابِرٍ أَصَحُّ


ترجمہ

 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  احد کے دن حمزہ  (کی لاش)  کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ خکردیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا 

 اگر صفیہ  (حمزہ کی بہن)  اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی  (دفن کیے بغیر)  چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے ، پھر آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے «نمر»  (ایک پرانی چادر)  منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سر کھل جاتا۔ مقتولین کی تعداد بڑھ گئی اور کپڑے کم پڑگئے تھے، چناچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا، پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کردیئے جاتے۔ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا تو آپ اسے آگے قبلہ کی طرف کردیتے، رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر نماز نہیں پڑھی

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیث بن سعد بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابر بن عبد اللہ بن زيد»  روایت کی ہے اور معمر نے بسند «عن الزهري عن عبد اللہ بن ثعلبة عن جابر» روایت کی ہے۔ ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا 

 لیث کی حدیث بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابر» زیادہ صحیح ہے

 نمرہ 

 پرانی چادر کو کہتے ہیں 

 وضاحت  ناک کان اور شرمگاہ وغیرہ کاٹ ڈالنے کو مثلہ کہتے ہیں

 جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شہید پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جائیگی ان کا استدلال اسی حدیث سے ہے ، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شہید پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پر اس طرح نماز نہیں پڑھی جیسے حمزہ (رض) پر کئی بار پڑھی

 تمام نسخوں میں اسی طرح  جابر بن عبداللہ بن زید  ہے جب کہ اس نام کے کسی صحابی کا تذکرہ کسی مصدر میں نہیں ملا ، اور کتب تراجم میں سب نے  عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک  کے اساتذہ میں معروف صحابی  جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام  ہی کا لکھا ہے ، نیز  جابر بن عبداللہ بن عمرو  ہی کے تلامذہ میں  عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک  کا نام آیا ہوا ہے

  

Translation

Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) narrated : Allah’s Messenger ﷺ came to Sayyidina Hamzah on the day of Uhud. He stood by him and observed that he was mutilated. He said, “Were it not that Safiyah would feel bad, I would have left him as he is that animals may consume him so he would have been resurrected on the Day of Resurrection from their bellies.  The narrator continued : He then sought a sheet of cloth to shroud him in it. When it was stretched over his head, his feet were left uncovered; if his feet were covered, his head was bared. The (number of) martyrs increased while the garments became scarce. So, one, two or three martyrs were shrouded together in one and buried in one grave. Allah’s Messenger ﷺ   asked about them, ‘Which one of them knew more of the Quran?” He placed him (ahead) towards the qiblah. Then Allahs Messenger ﷺ buried them and he did not pray over them (the funeral salah).   [Ahmed12302]


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَرِيضَ وَيَشْهَدُ الْجَنَازَةَ وَيَرْکَبُ الْحِمَارَ وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ وَکَانَ يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ عَلَی حِمَارٍ مَخْطُومٍ بِحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ عَلَيْهِ إِکَافٌ مِنْ لِيفٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ عَنْ أَنَسٍ وَمُسْلِمٌ الْأَعْوَرُ يُضَعَّفُ وَهُوَ مُسْلِمُ بْنُ کَيْسَانَ الْمُلَائِيُّ تُکُلِّمَ فِيهِ وَقَدْ رَوَی عَنْهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ


ترجمہ

 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مریض کی عیادت کرتے، جنازے میں شریک ہوتے، گدھے کی سواری کرتے اور غلام کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ بنو قریظہ

 والے دن آپ ایک ایسے گدھے پر سوار تھے، جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی کی تھی، اس پر زین بھی چھال ہی کی تھی

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ہم اس حدیث کو صرف مسلم کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں۔ اور مسلم اعور ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ یہی مسلم بن کیسان ملائی ہیں، جس پر کلام کیا گیا ہے، ان سے شعبہ اور سفیان نے روایت کی ہے


 وضاحت 

 خیبر کے یہودیوں کا ایک قبیلہ ہے یہ واقعہ ذی قعدہ ٥ ھ کا ہے


Translation

Sayyidina Anas ibn Malik (RA) said: Allah’s Messenger ﷺ used to visit the sick, accompany the funeral, ride the donkey, accept invitation of the slave. And on the day of Banu Qurayzah he had ridden a donkey whose reins were made of peels of dates and whose saddle was also made of peels of dates.”   [Ibn e Majah 2296]   -



 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ قَالَ مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ الْمُلَيْکِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ فَرَوَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  جب رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوا  ابوبکر (رض) نے کہا 

میں نے رسول اللہ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں بھولا نہیں ہوں، آپ نے فرمایا

 جتنے بھی نبی ہوئے ہیں اللہ نے ان کی روح وہیں قبض کی ہے جہاں وہ دفن کیا جانا پسند کرتے تھے  (اس لیے)  تم لوگ انہیں ان کے بستر ہی کے مقام پر دفن کرو 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے، عبدالرحمٰن بن ابی بکر ملی کی اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانے جاتے ہیں،  یہ حدیث اس کے علاوہ طریق سے بھی مروی ہے۔ ابن عباس نے ابوبکر صدیق سے اور انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے


 وضاحت

 بعض کی رائے تھی کہ مکہ میں دفن کیا جائے بعض کی مدینہ میں اور بعض کی بیت المقدس میں


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) reported that when Allah’s Messenger ﷺ died, they (the sahabah (RA) differed on (the site of) burial. So, Abu Bakr (RA) said, “I had heard from Allah’s Messenger ﷺ what I have not forgotten. He said, ‘Allah does not take away the soul of a Prophet ﷺ except at the place where He likes him to be buried’.” So, he was buried where his bed lay.”


باب  دوسرا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَکِّيِّ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اذْکُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ وَکُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ عِمْرَانُ بْنُ أَنَسٍ الْمَکِّيُّ مُنْکَرُ الْحَدِيثِ وَرَوَی بَعْضُهُمْ عَنْ عَطَائٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ وَعِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ مِصْرِيٌّ أَقْدَمُ وَأَثْبَتُ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَکِّيِّ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 تم اپنے مردوں کی اچھائیوں کو ذکر کیا کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمران بن انس مکی منکر الحدیث ہیں،

 بعض نے عطا سے اور عطا نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے،  

عمران بن ابی انس مصری عمران بن انس مکی سے پہلے کے ہیں اور ان سے زیادہ ثقہ ہیں


Translation

Sayyidina lbn Umar (RA) reported that Allah’s Messenger said, “Mention the goodness of your dead and desist from their evils.”   [Abu Dawud 4900]


باب  جنازے رکھنے سے پہلے بیٹھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَی عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اتَّبَعَ الْجَنَازَةَ لَمْ يَقْعُدْ حَتَّی تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ فَعَرَضَ لَهُ حَبْرٌ فَقَالَ هَکَذَا نَصْنَعُ يَا مُحَمَّدُ قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ خَالِفُوهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَبِشْرُ بْنُ رَافِعٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ


ترجمہ

 عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ  جب رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو جب تک جنازہ لحد  (بغلی قبر)  میں رکھ نہ دیا جاتا، نہیں بیٹھتے۔ ایک یہودی عالم نے آپ کے پاس آ کر کہا 

 محمد ! ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، تو رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  بیٹھنے لگ گئے اور فرمایا 

تم ان کی مخالفت کرو 

امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث غریب ہے

 بشر بن رافع حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں

 

Translation

Sayyidina Ubadahh ibn Samit (RA) reported that when Allah’s Messenger ﷺ accompanied a funeral, he did not sit down till the body was lowered into the grave. A Jewish priest met him and said, “This is what we do, O Muhammad ﷺ !” So, Allah’s Messenger ﷺ sat down, saying, “Contradict them.”   [Abu Dawud 3176, Ibn e Majah 1545]


باب  تکبیرات جنازہ

 

حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی النَّجَاشِيِّ فَکَبَّرَ أَرْبَعًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَجَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيَزِيدُ بْنُ ثَابِتٍ هُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَکْبَرُ مِنْهُ شَهِدَ بَدْرًا وَزَيْدٌ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ التَّکْبِيرَ عَلَی الْجَنَازَةِ أَرْبَعَ تَکْبِيرَاتٍ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  

اس باب میں ابن عباس، ابن ابی اوفی، جابر، یزید بن ثابت اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 

 یزید بن ثابت 

 زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔ یہ ان سے بڑے ہیں۔ یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے،  

 صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayah reported that the Prophet ﷺ prayed over the Negus and called the takbir four times.   [Bukhari 1245, Muslim 591, Abu Dawud 3204, Nisai 1967]


باب  مصیبت پر صبر کی فضیلت


 حدیث 

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سِنَانٍ قَالَ دَفَنْتُ ابْنِي سِنَانًا وَأَبُو طَلْحَةَ الْخَوْلَانِيُّ جَالِسٌ عَلَی شَفِيرِ الْقَبْرِ فَلَمَّا أَرَدْتُ الْخُرُوجَ أَخَذَ بِيَدِي فَقَالَ أَلَا أُبَشِّرُکَ يَا أَبَا سِنَانٍ قُلْتُ بَلَی فَقَالَ حَدَّثَنِي الضَّحَّاکُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِکَتِهِ قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيَقُولُ قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيَقُولُ مَاذَا قَالَ عَبْدِي فَيَقُولُونَ حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ فَيَقُولُ اللَّهُ ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ


ترجمہ

 ابوسنان کہتے ہیں کہ  میں نے اپنے بیٹے سنان کو دفن کیا اور ابوطلحہ خولانی قبر کی منڈیر پر بیٹھے تھے، جب میں نے  (قبر سے)  نکلنے کا ارادہ کیا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہا 

 ابوسنان ! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں ؟ میں نے عرض کیا 

 کیوں نہیں ضرور دیجئیے، تو انہوں نے کہا 

 مجھ سے ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزب نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جب بندے کا بچہ   فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے 

 تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی ؟ تو وہ کہتے ہیں 

 ہاں، پھر فرماتا ہے 

 تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ؟ وہ کہتے ہیں 

 ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے 

میرے بندے نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں 

 اس نے تیری حمد بیان کی اور «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 

 میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے


 وضاحت 

 بچہ سے مراد مطلق اولاد ہے خواہ مذکر ہو یا مؤنث  


Translation

Abu Sinan said that he buried his son, Sinan, Meanwhile, Abu Talhah Khawlani was sitting at the edge of a grave. When they were departthg, he held him by the hand and said, “Shall I not give you the good news, O Abu Sinan?” He said “Certainly!” So he narrated that Dahhak ibn Abdur Rahman ibn Arzab reported to him on the authority of Abu Musa Ash’ari that Allah’s Messenger ﷺ said: When someone’s son dies, Allah asks the angels, “Did you take away the son of My slave?” They say, “Yes.” He asks, Did you take away the fruit of his heart?” They say, ‘:Yes.”. So, He asks, “What did My slave say?” They say, “He praised you and said (We belong to Allah and to Him is our return).” So, Allah says, “Build for My slave a house in Paradise and name it Bayt ul-Hamd (House of Praise).”


باب  تکبیرات جنازہ


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ کَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُکَبِّرُ عَلَی جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا وَإِنَّهُ کَبَّرَ عَلَی جَنَازَةٍ خَمْسًا فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکَبِّرُهَا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا التَّکْبِيرَ عَلَی الْجَنَازَةِ خَمْسًا و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِذَا کَبَّرَ الْإِمَامُ عَلَی الْجَنَازَةِ خَمْسًا فَإِنَّهُ يُتَّبَعُ الْإِمَامُ


ترجمہ

 عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ  زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا 

 رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ایسا بھی کہتے تھے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں،  

 احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں 

 جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے تو امام کی پیروی کی جائے  (یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں) 


 وضاحت 

اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں بھی جائز ہیں ، نبی کریم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اور صحابہ کرام سے پانچ ، چھ ، سات اور آٹھ تکبیریں بھی منقول ہیں ، لیکن اکثر روایات میں چار تکبیروں ہی کا ذکر ہے ، بیہقی وغیرہ میں ہے کہ عمر (رض) نے صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے چار تکبیروں کا حکم صادر فرمایا ، بعض نے اسے اجماع قرار دیا ہے ، لیکن یہ صحیح نہیں ، علی (رض) وغیرہ سے چار سے زائد تکبیریں بھی ثابت ہیں ، چوتھی تکبیر کے بعد کی تکبیرات میں میت کے لیے دعا ہوتی ہے


Translation

Abdur Rahman ibn Abu Layla said that Sayyidina Zayd ibn Arqam (RA) called four takbirs in their funeral prayers. But, once he called five takbirs. So, they asked him about it and he said, “Allah’s Messenger used to do like that.”   [Muslim 957, Abu Dawud 3197, Nisai 1978, Ibn e Majah 1505]


باب  نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَشْهَلِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی عَلَی الْجَنَازَةِ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَکَبِيرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا قَالَ يَحْيَی وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِکَ وَزَادَ فِيهِ اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَی الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَی الْإِيمَانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَائِشَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَعَوْفِ بْنِ مَالِکٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ وَالِدِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَکِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَرَوَی عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدِيثُ عِکْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَعِکْرِمَةُ رُبَّمَا يَهِمُ فِي حَدِيثِ يَحْيَی


ترجمہ

 ابوابراہیم اشہلی کے والد (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جب نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے 

 «اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذکرنا وأنثانا» 

 اے اللہ ! بخش دے ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹے کو اور ہمارے بڑے کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو ۔ یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں 

 ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے 

 «اللهم من أحييته منا فأحيه علی الإسلام ومن توفيته منا فتوفه علی الإيمان» 

 اے اللہ ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ، اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوابراہیم کے والد کی حدیث حسن صحیح ہے، 

 ہشام دستوائی اور علی بن مبارک نے یہ حدیث بطریق 

 «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة بن عبدالرحمٰن عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، اور عکرمہ بن عمار نے بطریق 

 «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ عکرمہ بن عمار کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ عکرمہ کو بسا اوقات یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث میں وہم ہوجاتا ہے۔ 


Translation

Yahya ibn Abu Kathir reported that Abu Ibarhim Ashhali narrated on the authority of his father that when Allah’s Messenger ﷺ led the funeral salah, he made this supplication:  O Allah! Forgive our living and our dead, those of us who are present and those of us who are absent. The young among us and our old, and our males and our females.   Yahya said further that Abu Salamah ibn Abdur Rahman narrated on the authority of Sayyidina Abu Hurayah (RA) that the Prophet ﷺ said like that and added thereto:  O Allah, those of us whom You spare, cause them to live on Islam and those You take away from us cause them to die on faith.   [Ahmed23554]


باب  نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے


 حدیث 

وَرُوِي عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ أَصَحُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا حَدِيثُ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ الْأَشْهَلِيِّ عَنْ أَبِيهِ وَسَأَلْتُهُ عَنْ اسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ فَلَمْ يَعْرِفْهُ


ترجمہ

 نیز یہ «يحيى بن أبي كثير» سے «عن عبد اللہ بن أبي قتادة عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کے طریق سے بھی مروی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ اس سلسلے میں یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث جسے انہوں نے بطریق 

«أبي إبراهيم الأشهلي عن أبيه» روایت کی ہے سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔ میں نے ان سے ابوابراہیم کا نام پوچھا تو وہ اسے نہیں جان سکے،  

 اس باب میں عبدالرحمٰن، عائشہ، ابوقتادہ، عوف بن مالک اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔


باب  نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ عَلَی الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ شَرِيکٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَلِکَ الْقَوِيِّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ هُوَ أَبُو شَيْبَةَ الْوَاسِطِيُّ مُنْکَرُ الْحَدِيثِ وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ مِنْ السُّنَّةِ الْقِرَائَةُ عَلَی الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے جنازے میں سورة فاتحہ پڑھی

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے

 ابراہیم بن عثمان ہی ابوشیبہ واسطی ہیں اور وہ منکر الحدیث ہیں۔ صحیح چیز جو ابن عباس سے مروی ہے کہ ـجنازے کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھناسنت میں سے ہے،  

 اس باب میں ام شریک سے بھی روایت ہے


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ recited surah al-Fatihah in the funeral salah. [Ibn e Majah 1495]


باب  نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَی مَيِّتٍ فَفَهِمْتُ مِنْ صَلَاتِهِ عَلَيْهِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاغْسِلْهُ بِالْبَرَدِ وَاغْسِلْهُ کَمَا يُغْسَلُ الثَّوْبُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ مُحَمَّدٌ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ


ترجمہ

 عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو میت پر نماز جنازہ پڑھتے سنا تو میں نے اس پر آپ کی نماز سے یہ کلمات یاد کیے 

 «اللهم اغفر له وارحمه واغسله بالبرد واغسله كما يغسل الثوب»  اے اللہ ! اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، اسے برف سے دھو دے، اور اسے  (گناہوں سے)  ایسے دھو دے جیسے کپڑے دھوئے جاتے ہیں 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب کی سب سے صحیح یہی حدیث ہے

  

Translation

Sayyidina Awf ibn Maalik (RA) said that he heard Allah’s Messenger ﷺ over the dead and learnt these words:  O Allah, forgive him. Have mercy on him and wash him with hail as garments are washed.  [Ahmed24030, Muslim 963, Nisai 1979, Ibn e Majah 1500]


باب  نماز جنازہ کی کیفیت اور میت کے لئے شفاعت کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ وَيُونُسُ بْنُ بُکَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ قَالَ کَانَ مَالِکُ بْنُ هُبَيْرَةَ إِذَا صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَتَقَالَّ النَّاسَ عَلَيْهَا جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَائٍ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ فَقَدْ أَوْجَبَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَمَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مَالِکِ بْنِ هُبَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ هَکَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ وَرَوَی إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ هَذَا الْحَدِيثَ وَأَدْخَلَ بَيْنَ مَرْثَدٍ وَمَالِکِ بْنِ هُبَيْرَةَ رَجُلًا وَرِوَايَةُ هَؤُلَائِ أَصَحُّ عِنْدَنَا


ترجمہ

 مرثد بن عبداللہ یزنی کہتے ہیں کہ  مالک بن ہبیرہ (رض) جب نماز جنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو ان کی تین صفیں 

بنا دیتے، پھر کہتے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا ہے 

 جس کی نماز جنازہ تین صفوں نے پڑھی تو اس نے  (جنت)  واجب کرلی 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

مالک بن ہبیرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، 

 اسی طرح کئی لوگوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ ابراہیم بن سعد نے بھی یہ حدیث محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ اور انہوں نے سند میں مرثد اور مالک بن ہبیرہ کے درمیان ایک شخص کو داخل کردیا ہے۔ ہمارے نزدیک ان لوگوں کی روایت زیادہ صحیح ہے،  

 اس باب میں عائشہ، ام حبیبہ، ابوہریرہ اور ام المؤمنین میمونہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


 وضاحت 

 صف کم سے کم دو آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں


Translation

Marthad ibn Abdullah Yazani reported that when Maalik ibn Hubayrah (RA) led the funeral salah and there were few people, he arranged them into three rows. He said that Allah’s Messenger had said, “He over whom three rows (of men) prayed, Paradise is assured to him.”   [Ahmed16724, Abu Dawud 3166, Ibn e Majah 1490]


باب  نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَقُلْتُ لَهُ فَقَالَ إِنَّهُ مِنْ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَخْتَارُونَ أَنْ يُقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ بَعْدَ التَّکْبِيرَةِ الْأُولَی وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يُقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ إِنَّمَا هُوَ ثَنَائٌ عَلَی اللَّهِ وَالصَّلَاةُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالدُّعَائُ لِلْمَيِّتِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْکُوفَةِ وَطَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ هُوَ ابْنُ أَخِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَوَی عَنْهُ الزُّهْرِيُّ


ترجمہ

 طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ  ابن عباس (رض) نے ایک نماز جنازہ پڑھایا تو انہوں نے سورة فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے  (اس کے بارے میں)  پوچھا تو انہوں نے کہا 

 یہ سنت ہے

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،

 طلحہ بن عبداللہ بن عوف، عبدالرحمٰن بن عوف کے بھتیجے ہیں۔ ان سے زہری نے روایت کی ہے،

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے یہ لوگ تکبیر اولیٰ کے بعد سورة فاتحہ پڑھنے کو پسند کرتے ہیں یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، 

 اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی  

 اس میں تو صرف اللہ کی ثنا، نبی اکرم  ﷺ  پر صلاۃ  (درود)  اور میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے 


وضاحت 

 ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیر کے بعد سورة فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہوا کرتی ہیں ، نبی اکرم  ﷺ  اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں ثابت سورة فاتحہ نماز جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل ، تیجا ، ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کا رٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر ان کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی۔ «فيا عجبا لهذه الخرافات»   


Translation

Talhah ibn Abdullah ibn Awf narrated : Sayyidina Ibn Abbas (RA) prayed over a dead and recited surah al-Fatihah. I asked him and he said, “This is one of the sunnah.” or, he said, “All of it is sunnah.”   [Bukhari 1335, Abu Dawud 3198, Nisai 1983]


باب   نماز جنازہ کی کیفیت اور میت کے لئے شفاعت کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ أَيُّوبَ و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ کَانَ لِعَائِشَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمُوتُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَتُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ أَنْ يَکُونُوا مِائَةً فَيَشْفَعُوا لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ و قَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ فِي حَدِيثِهِ مِائَةٌ فَمَا فَوْقَهَا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ أَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا 

  جو مسلمان مرجائے اور مسلمانوں کی ایک جماعت جس کی تعداد سو کو پہنچتی ہو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کے لیے شفاعت کرے تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے 

 علی بن حجر نے اپنی حدیث میں کہا 

 «مائة فما فوقها» سویا اس سے زائد لوگ

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، 

 بعض نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے


وضاحت 

 اس سے نماز جنازہ میں کثرت تعداد کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، مسلم کی ایک روایت میں چالیس مسلمان مردوں کا ذکر ہے ، اور بعض روایتوں میں تین صفوں کا ذکر ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ یہ احادیث مختلف موقعوں پر سائلین کے سوالات کے جواب میں بیان کی گئیں ہیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے آپ کو سو آدمیوں کی شفاعت قبول کئے جانے کی خبر دی گئی ہو پھر چالیس کی پھر تین صفوں کی گو وہ چالیس سے بھی کم ہوں ، یہ اللہ کی اپنے بندوں پر نوازش و انعام ہے

    

Translation

Sayyidah Ayshah (RA) narrated that the Prophet ﷺ said, ‘There is none among the Muslims who dies and a section of the Muslims numbering up to a hundred pray over him and intercede for him, without their intercession being accepted.” And Sayyidina Ali narrated in his hadith that their number is hundred or more than that.   [Ahmed24182, Muslim 947, Nisai 1987]


باب   طلوع وغروب آفتاب کے وقت نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ مُوسَی بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّی تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّی تَمِيلَ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّی تَغْرُبَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَکْرَهُونَ الصَّلَاةَ عَلَی الْجَنَازَةِ فِي هَذِهِ السَّاعَاتِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ مَعْنَی هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا يَعْنِي الصَّلَاةَ عَلَی الْجَنَازَةِ وَکَرِهَ الصَّلَاةَ عَلَی الْجَنَازَةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا وَإِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ حَتَّی تَزُولَ الشَّمْسُ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ فِي السَّاعَاتِ الَّتِي تُکْرَهُ فِيهِنَّ الصَّلَاةُ


ترجمہ

 عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ  تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ  ﷺ  ہمیں نماز پڑھنے سے یا اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے 

 جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے، اور جس وقت ٹھیک دوپہر ہو رہی ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور جس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ لوگ ان اوقات میں نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، 

 ابن مبارک کہتے ہیں 

 اس حدیث میں ان اوقات میں مردے دفنانے سے مراد ان کی نماز جنازہ پڑھنا ہے

 انہوں نے سورج نکلتے وقت ڈوبتے وقت اور دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج ڈھل نہ جائے نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،  

 شافعی کہتے ہیں کہ ان اوقات میں جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، ان میں نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے


 وضاحت 

 امام ترمذی نے بھی اسے اسی معنی پر محمول کیا ہے جیسا کہ  ترجمۃ الباب  سے واضح ہے ، اس کے برخلاف امام ابوداؤد (رح) نے اسے دفن حقیقی ہی پر محمول کیا اور انہوں نے «باب الدفن عند طلوع الشمش وعند غروبها» کے تحت اس کو ذکر کیا ہے

 

Translation

Sayyidina Uqbah ibn Aamir Juhanni (RA)said, “There are three hours when Allah’s Messenger disallowed to offer salah or bury our dead: when the sun rises till it is fairly high, when it is overhead till it has gone past the meridian and at sunset as it goes down till it has set.   [Ahmed17382, Muslim 831, Abu Dawud 3192, Nisai 559, Ibn e Majah 1519]


باب  بچوں کی نماز جنازہ


 حدیث 

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الرَّاکِبُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ وَالْمَاشِي حَيْثُ شَائَ مِنْهَا وَالطِّفْلُ يُصَلَّی عَلَيْهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاهُ إِسْرَائِيلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ قَالُوا يُصَلَّی عَلَی الطِّفْلِ وَإِنْ لَمْ يَسْتَهِلَّ بَعْدَ أَنْ يُعْلَمَ أَنَّهُ خُلِقَ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا 

  سواری والے جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے، اور بچوں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے، 

 اسرائیل اور دیگر کئی لوگوں نے اسے سعید بن عبداللہ سے روایت کیا ہے، 

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ یہ جان لینے کے بعد کہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گو  (ولادت کے وقت)  وہ رویا نہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں

 

وضاحت 

 اور یہی راجح قول ہے ، کیونکہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے ، گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔ پڑھنے کا بیان جب تک کہ وہ ولادت کے وقت نہ روئے

 

Translation

Sayyidina Mughirah ibn Shu’bah reported that the Prophet ﷺ said. “The rider accompanying the funeral must keep behind it while he who walks may walk wherever he likes. And, salah must he offered over (dead) children (also).”  [Ahmed18186, Abu Dawud 3180, Nisai 1938, Ibn e Majah 1507]


باب  اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد نہ روئے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَکِّيِّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الطِّفْلُ لَا يُصَلَّی عَلَيْهِ وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّی يَسْتَهِلَّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ قَدْ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِيهِ فَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْفُوعًا وَرَوَی أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَکَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا قَالُوا لَا يُصَلَّی عَلَی الطِّفْلِ حَتَّی يَسْتَهِلَّ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 جابر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا 

 بچے کی نماز  (جنازہ)  نہیں پڑھی جائے گی۔ نہ وہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ کوئی اس کا وارث ہوگا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے اسے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم  ﷺ  سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اشعث بن سوار اور دیگر کئی لوگوں نے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے، اور محمد بن اسحاق نے عطاء بن ابی رباح سے اور عطاء نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے گویا موقوف روایت مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے،  

 بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے


Translation

Sayyidina Jabir (RA) reported that Allah’s Messenger said, “No salah is offered over a (dead) child and neither does he inherit nor leave an inheritance if he does not utter a sound (before dying).”   [Ibn e Majah 1508]


باب  مرد اور عورت کی نماز جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو۔


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي غَالِبٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَلَی جَنَازَةِ رَجُلٍ فَقَامَ حِيَالَ رَأْسِهِ ثُمَّ جَائُوا بِجَنَازَةِ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالُوا يَا أَبَا حَمْزَةَ صَلِّ عَلَيْهَا فَقَامَ حِيَالَ وَسَطِ السَّرِيرِ فَقَالَ لَهُ الْعَلَائُ بْنُ زِيَادٍ هَکَذَا رَأَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَی الْجَنَازَةِ مُقَامَکَ مِنْهَا وَمِنْ الرَّجُلِ مُقَامَکَ مِنْهُ قَالَ نَعَمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ احْفَظُوا وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ هَمَّامٍ مِثْلَ هَذَا وَرَوَی وَکِيعٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هَمَّامٍ فَوَهِمَ فِيهِ فَقَالَ عَنْ غَالِبٍ عَنْ أَنَسٍ وَالصَّحِيحُ عَنْ أَبِي غَالِبٍ وَقَدْ رَوَی هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي غَالِبٍ مِثْلَ رِوَايَةِ هَمَّامٍ وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي غَالِبٍ هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ يُقَالُ اسْمُهُ نَافِعٌ وَيُقَالُ رَافِعٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 ابوغالب کہتے ہیں کہ  میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا 

 ابوحمزہ ! اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمر کے سامنے کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا 

آپ نے نبی اکرم  ﷺ  کو عورت اور مرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے ؟ تو انہوں نے کہا 

 ہاں 

 اور جب جنازہ سے فارغ ہوئے تو کہا 

اس طریقہ کو یاد کرلو

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 انس کی یہ حدیث حسن ہے، 

 اور کئی لوگوں نے بھی ہمام سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ وکیع نے بھی یہ حدیث ہمام سے روایت کی ہے، لیکن انہیں وہم ہوا ہے۔ انہوں نے «عن غالب عن أنس» کہا ہے اور صحیح «عن ابی غالب» ہے، عبدالوارث بن سعید اور دیگر کئی لوگوں نے ابوغالب سے روایت کی ہے جیسے ہمام کی روایت ہے، 

 اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے، 

بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

 فائدہ 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی نماز جنازہ ہو تو امام اس کی کمر کے پاس کھڑا ہوگا، اور امام کو مرد کے سر کے بالمقابل کھڑا ہونا چاہیئے کیونکہ انس بن مالک نے عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ان کے سر کے پاس ہی کھڑے ہو کر پڑھایا تھا اور علاء بن زیاد کے پوچھنے پر انہوں نے کہا تھا کہ میں نے نبی اکرم  ﷺ  کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے


Translation

Abu Ghalib narrated that Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) was leading the funeral salah of a man, and stood in line with his head. Then the funeral of a Qurayshi woman was brought. The men said, ‘O Abu Hamzah, pray over her,” so he stood in line with the centre of the body. On that, Ala ibn Ziyad asked him, “Had you seen Allah’s Messenger ﷺ stand in this manner at your place in her funeral (where you stood) and at your place in his funeral (where you stood)?” He said, ‘Yes,” and when it was over, “Remember it!”  [Abu Dawud 3194, Ibn e Majah 1494]


باب   مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ صَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَائَ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالَ الشَّافِعِيُّ قَالَ مَالِکٌ لَا يُصَلَّی عَلَی الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ يُصَلَّی عَلَی الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے سہیل بن بیضاء   کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث حسن ہے،

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، 

 شافعی کا بیان ہے کہ مالک کہتے ہیں 

 میت پر نماز جنازہ مسجد میں نہیں پڑھی جائے گی،  

 شافعی کہتے ہیں 

 میت پر نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے


 وضاحت 

 بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام 

 سہل ، سہیل اور صفوان تھے اور ان کی ماں کا نام رعد تھا ، بیضاء ان کا وصفی نام ہے ، اور ان کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔  

اس سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، اگرچہ نبی اکرم  ﷺ  کا معمول مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا ، یہی جمہور کا مذہب ہے جو لوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت «من صلی علی جنازة في المسجد فلا شيء له» ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے ، جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں ، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہور اور محقق نسخے میں «فلا شيء له» کی جگہ «فلا شيء عليه» ہے اس کے علاوہ اس کے اور بھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں دیکھئیے  ( تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ١٤٦)


Translation

Sayyidah Ayshah(RA) said that Allah’s Messenger ﷺ prayed over Suhayl ibn Bayda (his funeral salah) in the mosque.   [Ahmed1035, Muslim 973, Abu Dawud 3189]


باب  شہید پر نماز جنازہ نہ پڑھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَی أُحُدٍ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمَا أَکْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَی أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَی هَؤُلَائِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُوِيَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْهُمْ مَنْ ذَکَرَهُ عَنْ جَابِرٍ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الشَّهِيدِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا يُصَلَّی عَلَی الشَّهِيدِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ و قَالَ بَعْضُهُمْ يُصَلَّی عَلَی الشَّهِيدِ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّی عَلَی حَمْزَةَ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْکُوفَةِ وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَقُ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں ایک ساتھ کفناتے، پھر پوچھتے 

 ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا ؟  تو جب آپ کو ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو آپ اسے لحد میں مقدم رکھتے اور فرماتے 

 قیامت کے روز میں ان لوگوں پر گواہ رہوں گا ۔ اور آپ نے انہیں ان کے خون ہی میں دفنانے کا حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی انہیں غسل ہی دیا

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث زہری سے مروی ہے انہوں نے اسے انس سے اور انس نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے نیز یہ زہری سے عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیر کے واسطے سے بھی مروی ہے اور انہوں نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے اور ان میں سے بعض نے اسے جابر کی روایت سے ذکر کیا،  

 اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے،  

 اہل علم کا شہید کی نماز جنازہ کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ یہی اہل مدینہ کا قول ہے۔ شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں،  

 اور بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے نبی اکرم  ﷺ  کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ نے حمزہ (رض) کی نماز پڑھی تھی۔ ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں اور یہی اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں 


 وضاحت 

 اس موضوع پر مفصل بحث لکھنے کے بعد صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں 

 میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہی ہے کہ شہید پر نماز جنازہ واجب نہیں ہے ، البتہ اگر پڑھ لی جائے تو جائز ہے ، اور ماوردی نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ شہید پر نماز جنازہ زیادہ بہتر ہے اور اس پر نماز جنازہ نہ پڑھیں گے تو بھی  ( اس کی شہادت اسے  )  کفایت کرے گی ،  ( فانظر فتح الباری عند الموضوع  ) 


Translation

Abdur Rahman ibn Ka’b ibn Maalik reported that Sayyidina Jabir ibn Abdullah told him that the Prophet ﷺ shrouded every two martyrs of Uhud together in one shroud. After that, he asked which of them knew more of the Quran and when the person was pointed out, he put him forward in the grave, saying, “I am witness over these people on the Day of Resurrection.” And, he commanded that they should be buried with their blood, and their funeral salah was not offered nor were they given a bath.   [Bukhari 4079, Ibn e Majah 1515, Abu Dawud 3134]


باب  مرد اور عورت کی نماز جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ وَالْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی امْرَأَةٍ فَقَامَ وَسَطَهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ


ترجمہ

 سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ایک عورت  کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،

 شعبہ نے بھی اسے حسین المعلم سے روایت کیا ہے

 

وضاحت 

 اس عورت کا نام ام کعب ہے جیسا کہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے

 

Translation

Sayyidina Samurah ibn Jundab said that the Prophet ﷺ prayed the funeral prayer of a woman, standing in line with the centre (of the corpse).  [Ahmed 20237, Bukhari 1331, Muslim 964, Abu Dawud 3195, Nisai 1972, Ibn e Majah 1493]


باب  قبر پر نماز جنازہ پڑھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَی قَبْرًا مُنْتَبِذًا فَصَفَّ أَصْحَابَهُ خَلْفَهُ فَصَلَّی عَلَيْهِ فَقِيلَ لَهُ مَنْ أَخْبَرَکَهُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَبُرَيْدَةَ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يُصَلَّی عَلَی الْقَبْرِ وَهُوَ قَوْلُ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ و قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ إِذَا دُفِنَ الْمَيِّتُ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ صُلِّيَ عَلَی الْقَبْرِ وَرَأَی ابْنُ الْمُبَارَکِ الصَّلَاةَ عَلَی الْقَبْرِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يُصَلَّی عَلَی الْقَبْرِ إِلَی شَهْرٍ وَقَالَا أَکْثَرُ مَا سَمِعْنَا عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی قَبْرِ أُمِّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بَعْدَ شَهْرٍ


ترجمہ

 شعبی کا بیان ہے کہ  مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم  ﷺ  کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا   ابن عباس (رض) نے

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں انس، بریدہ، یزید بن ثابت، ابوہریرہ، عامر بن ربیعہ، ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں، 

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،

 بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبر پر نماز پڑھی جائے گی  

یہ مالک بن انس کا قول ہے،

 عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کردیا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس کی نماز جنازہ قبر پر پڑھی جائے گی، 

ابن مبارک قبر پر نماز  (جنازہ)  پڑھنے کے قائل ہیں، 

 احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں 

 قبر پر نماز ایک ماہ تک پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی نماز جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی


 وضاحت 

 یہ لوگ باب کی حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرم  ﷺ  کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے «إن هذه القبور مملوؤة مظالم علی أهلها وأن اللہ ينورها لهم بصلاة عليهم» ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  کی نماز قبر کو منور کرنے کے لیے تھی اور یہ دوسروں کی نماز میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبر پر نماز جنازہ پڑھی آپ نے انہیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائز ہے اور اگر یہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتا دوسروں کے لیے جائز نہ ہوتا تو آپ انہیں ضرور منع فرما دیتے

  

Translation

Shabi reported that one who had seen the Prophet ﷺ informed him that he observed a distant, withdrawn grave. So he arranged his sahabah in rows and prayed (the funeral salah) over it.  Shabi was asked who had infolmed him, and he said, “ Ibn Abbas (RA) .”  [Ahmed255, Bukhari 1319, Muslim 954, Abu Dawud 3196, Nisai 2019, Ibn e Majah 1530]


باب  قبر پر نماز جنازہ پڑھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَائِبٌ فَلَمَّا قَدِمَ صَلَّی عَلَيْهَا وَقَدْ مَضَی لِذَلِکَ شَهْرٌ


ترجمہ

 سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ  ام سعد کا انتقال ہوگیا اور نبی اکرم  ﷺ  موجود نہیں تھے، جب آپ تشریف لائے تو ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس واقعہ کو ایک ماہ گزر چکا تھا


Translation

Sayyidina Saeed ibn Musayyab (RA) reported that Sayyidah Umm Sad died while the Prophet ﷺ was not there. When he came, he prayed over her, and a month had gone by since.


باب  نبی کریم ﷺ کا نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخَاکُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ قَالَ فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا کَمَا يُصَفُّ عَلَی الْمَيِّتِ وَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ کَمَا يُصَلَّی عَلَی الْمَيِّتِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي سَعِيدٍ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ عَنْ عَمِّهِ أَبِي الْمُهَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ لَهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو


ترجمہ

 عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ہم لوگوں سے فرمایا 

تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو ۔ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،  

 یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے،  

 ابومہلب کا نام عبدالرحمٰن بن عمرو ہے۔ انہیں معاویہ بن عمرو بھی کہا جاتا ہے،

 اس باب میں ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


 وضاحت 

 نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھا جیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا ، نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجر تھا اسی بادشاہ کے دور میں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی ، نبی اکرم ﷺ نے ٦ ھ کے آخر یا محرم ٧ ھ میں نجاشی کو عمرو بن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا ، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور جعفر بن ابی طالب (رض) کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوہ تبوک ٩ ھ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی

 اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے ، نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول امام احمد بن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی تعامل امت ہے


Translation

Sayyidina Imram ibn Husayn narrated that Allah’s Messenger ﷺ said to them, “Your brother, the Najashi (Negus) has died. So stand up and pray over him.” They stood up and arranged themselves in rows as are arranged for the dead, and they prayed over him (the funeral salah) as is prayed over the dead.   [Ahmed19912, Muslim 953, Nisai 1942]


باب   نماز جنازہ کی فضیلت


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَلَهُ قِيرَاطٌ وَمَنْ تَبِعَهَا حَتَّی يُقْضَی دَفْنُهَا فَلَهُ قِيرَاطَانِ أَحَدُهُمَا أَوْ أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِابْنِ عُمَرَ فَأَرْسَلَ إِلَی عَائِشَةَ فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَتْ صَدَقَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ کَثِيرَةٍ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَائِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ وَابْنِ عُمَرَ وَثَوْبَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا 

 جس نے کوئی نماز جنازہ پڑھی، اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے۔ اور جو اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کی تدفین مکمل کرلی جائے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے، ان میں سے ایک قیراط یا ان میں سے چھوٹا قیراط احد کے برابر ہوگا ۔ تو میں نے ابن عمر سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس بھیجا اور ان سے اس بارے میں پوچھوایا تو انہوں نے کہا 

 ابوہریرہ سچ کہتے ہیں۔ تو ابن عمر نے کہا 

 ہم نے بہت سے قیراط گنوا دیئے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

 ان سے کئی سندوں سے یہ مروی ہے،  

اس باب میں براء، عبداللہ بن مغفل، عبداللہ بن مسعود، ابو سعید خدری، ابی بن کعب، ابن عمر اور ثوبان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah narrated that Allah’s Messenger said, ‘For him who prays the funeral prayer is a qirat. And for him who accompanies it till it is buried two qirats, each of which, or the smaller of them, is like Uhud.” The sub-narrator said: I mentioned tha Ito Ibn Umar (RA) and he sent an enquiry to Sayyidah Ayshah (RA) and she said, ‘Abu Hurayrah has spoken the truth.” So, Ibn Umar (RA) said, “Indeed, we have lost many qirats.’  [Ahmed7694, Muslim 945]


باب  دوسرا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا الْمُهَزِّمِ قَالَ صَحِبْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَشْرَ سِنِينَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً وَحَمَلَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَدْ قَضَی مَا عَلَيْهِ مِنْ حَقِّهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَأَبُو الْمُهَزِّمِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَضَعَّفَهُ شُعْبَةُ


ترجمہ

 عباد بن منصور کہتے ہیں کہ  میں نے ابوالمہزم کو کہتے سنا کہ میں دس سال ابوہریرہ کے ساتھ رہا۔ میں نے انہیں سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے 

  جو کسی جنازے کے ساتھ گیا اور اسے تین بار کندھا دیا تو، اس نے اپنا حق پورا کردیا جو اس پر تھا 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے،  

 اسے بعض نے اسی سند سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے

 ابوالمہزم کا نام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے انہیں ضعیف کہا ہے


Translation

Abu Muhazzam said that he kept company of Abu Hurayrah for ten years. He heard him say: I heard Allah’s Messenger say, “He who follows a funeral and shoulders the coffin three times has, indeed fulfilled its right that was over him.”


باب  جنازہ کے لئے کھڑا ہونا


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا لَهَا حَتَّی تُخَلِّفَکُمْ أَوْ تُوضَعَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا 

  جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو یہاں تک کہ وہ تمہیں چھوڑ کر آگے نکل جائے یا رکھ دیا جائے

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 عامر بن ربیعہ کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں ابو سعید خدری، جابر، سہیل بن حنیف، قیس بن سعد اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


Translation

Sayyidina Aamir ibn Rabi’ah (RA) narrated that the Prophet ﷺ said: When you see a funeral, stand up for it till it leaves you behind or is placed down.  [Nisai 1911, Ibn e Majah 1542]


باب  جنازہ کے لئے کھڑا ہونا


 حدیث 

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ الْحُلْوَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا لَهَا فَمَنْ تَبِعَهَا فَلَا يَقْعُدَنَّ حَتَّی تُوضَعَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَا مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلَا يَقْعُدَنَّ حَتَّی تُوضَعَ عَنْ أَعْنَاقِ الرِّجَالِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُمْ کَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الْجَنَازَةَ فَيَقْعُدُونَ قَبْلَ أَنْ تَنْتَهِيَ إِلَيْهِمْ الْجَنَازَةُ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لیے کھڑے ہوجایا کرو۔ اور جو اس کے ساتھ جائے وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابو سعید خدری کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے،  

یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جو کسی جنازے کے ساتھ جائے، وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ لوگوں کی گردنوں سے اتار کر رکھ نہ دیا جائے،  

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ وہ جنازے کے آگے جاتے تھے اور جنازہ پہنچنے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔ اور یہی شافعی کا قول ہے


Translation

Sayyidina Abu Sa’eed Khudri reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “When you see a funeral, stand up. He who accompanies it, must not sit down till it is placed on the ground.”   [Ahmed11195, Bukhari 1310, Muslim 959, Nisai 1910]


باب  جنازہ کے لئے کھڑا نہ ہونا


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ وَاقِدٍ وَهُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَکَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ ذُکِرَ الْقِيَامُ فِي الْجَنَائِزِ حَتَّی تُوضَعَ فَقَالَ عَلِيٌّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَعَدَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ رِوَايَةُ أَرْبَعَةٍ مِنْ التَّابِعِينَ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَذَا أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَهَذَا الْحَدِيثُ نَاسِخٌ لِلْأَوَّلِ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا و قَالَ أَحْمَدُ إِنْ شَائَ قَامَ وَإِنْ شَائَ لَمْ يَقُمْ وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَامَ ثُمَّ قَعَدَ وَهَکَذَا قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَبُو عِيسَی مَعْنَی قَوْلِ عَلِيٍّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنَازَةِ ثُمَّ قَعَدَ يَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَی الْجَنَازَةَ قَامَ ثُمَّ تَرَکَ ذَلِکَ بَعْدُ فَکَانَ لَا يَقُومُ إِذَا رَأَی الْجَنَازَةَ


ترجمہ

. علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ  ان سے جنازے کے لیے جب تک کہ وہ رکھ نہ دیا جائے کھڑے رہنے کا ذکر کیا گیا تو علی نے کہا 

 رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کھڑے رہتے تھے پھر آپ بیٹھنے لگے تھے

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 علی کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس میں چار تابعین کی روایت ہے جو ایک دوسرے سے روایت کر رہے ہیں،  

 شافعی کہتے ہیں 

 اس باب میں یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔ یہ حدیث پہلی حدیث  جب تم جنازہ دیکھو، تو کھڑے ہو جاؤ کی ناسخ ہے، 

 اس باب میں حسن بن علی اور ابن عباس سے بھی احادیث آئی ہیں،  

بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،  

 احمد کہتے ہیں کہ چاہے تو کھڑا ہوجائے اور چاہے تو کھڑا نہ ہو۔ انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کھڑے ہوجایا کرتے تھے پھر بیٹھے رہنے لگے۔ اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی قول ہے،  

علی (رض) کے قول  (رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جنازے کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے پھر آپ بیٹھے رہنے لگے کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے پھر بعد میں آپ اس سے رک گئے۔ جب کوئی جنازہ دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے) 


Translation

Sayyidina Ali ibn Abu Talib (RA) mentioned standing up for the funeral till it was placed down. He said, “Allah’s Messenger ﷺ stood up and then sat down.” (or He was to stand up, but afterwards kept sitting).   [Ahmed1094, Muslim 962, Abu Dawud 3125, Nisai 1995, Ibn e Majah 1544]


باب  نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لحد ہمارے لئے ہیں اور شق دوسروں کے لئے ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْکُوفِيُّ وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَی الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا حَکَّامُ بْنُ سَلْمٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، 

 اس باب میں جریر بن عبداللہ، عائشہ، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


 وضاحت 

یعنی اہل کتاب کے لیے ہے ، مقصود یہ ہے کہ بغلی قبر افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ «اللحد لنا» کا مطلب ہے «اللحد لي» یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے جمع کا صیغہ تعظیم کے لیے ہے یا «اللحد لنا» کا مطلب «اللحد اختيارنا» ہے یعنی بغلی قبر ہماری پسندیدہ قبر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صندوقی قبر مسلمانوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے عہد میں مدینہ میں قبر کھودنے والے دو شخص تھے ایک بغلی بنانے والا دوسرا شخص صندوقی بنانے والا اگر صندوقی ناجائز ہوتی تو انہیں اس سے روک دیا جاتا


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated : The Prophet ﷺ said “The lahd (niche) is for us while the shaqq (split) is for others.   [Nisai 2005, Abu Dawud 3208, Ibn e Majah 1554]باب  میت کو قبر میں اتارتے وقت کیا کہا جائے



 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ وَقَالَ أَبُو خَالِدٍ مَرَّةً إِذَا وُضِعَ الْمَيِّتُ فِي لَحْدِهِ قَالَ مَرَّةً بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ وَقَالَ مَرَّةً بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَی سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ أَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا أَيْضًا


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جب میت قبر میں داخل کردی جاتی  (اور کبھی راوی حدیث ابوخالد کہتے)  جب میت اپنی قبر میں رکھ دی جاتی تو آپ کبھی 

«بسم اللہ وبالله وعلی ملة رسول الله» 

 پڑھتے اور کبھی «بسم اللہ وبالله وعلی سنة رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم»  اللہ کے نام سے، اللہ کی مدد سے اور رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے طریقہ پر میں اسے قبر میں رکھتا ہوں  پڑھتے

  امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،  

 یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے اور اسے ابوالصدیق ناجی نے بھی ابن عمر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے، 

نیز یہ صدیق الناجی کے واسطہ سے ابن عمر سے بھی موقوفاً مروی ہے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) narrated that when the corpse was put in the grave----in the version of Abu Khalid the words are slightly different with same meaning----the Prophet ﷺ said once:  In the name of Allah, at His command and on the Shariah of Allah’s Messenger:  And (Abu Khalid’s version) said once:  In the Shariah of Allah, at His command, according to the sunnah of Allah’s Messenger ﷺ   [Abu Dawud 3213, Ibn e Majah 1550]


باب  قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ قَال سَمِعْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ الَّذِي أَلْحَدَ قَبْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو طَلْحَةَ وَالَّذِي أَلْقَی الْقَطِيفَةَ تَحْتَهُ شُقْرَانُ مَوْلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَعْفَرٌ وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ قَال سَمِعْتُ شُقْرَانَ يَقُولُ أَنَا وَاللَّهِ طَرَحْتُ الْقَطِيفَةَ تَحْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ شُقْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ فَرْقَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ


ترجمہ

 عثمان بن فرقد کہتے ہیں کہ  میں نے جعفر بن محمد سے سنا وہ اپنے باپ سے روایت کر رہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی قبر بغلی بنائی، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے مولی ٰ شقران ہیں، جعفر کہتے ہیں 

 اور مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا 

 اللہ کی قسم ! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر بچھائی تھی

امام ترمذی کہتے ہیں 

 شقران کی حدیث حسن غریب ہے

 اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے


وضاحت 

 یہ چادر جھالردار تھی جسے شقران نے قبر میں نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کرسکے خود شقران کا بیان ہے کہ «كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» 

امام شافعی اور ان کے اصحاب اور دیگر بہت سے علماء نے قبر میں کوئی چادر یا تکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اور اس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایسا کرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اور صحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا اور واقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے نکلوا دیا تھا ، ابن عبدالبر نے قطعیت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابر کرنے سے پہلے یہ چادر نکال دی گئی تھی اور ابن سعد نے طبقات ٢/٢٩٩ میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے لیے خاص ہے اور حسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادر بچھائی گئی تھی جسے آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اوڑھتے تھے اور حسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ «قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط علی أجساد الأنبياء» ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادر نکال دی گئی تھی اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ خاص مانا جائے گا دوسروں کے لیے ایسا کرنا درست نہیں


Translation

Jafar ibn Muhammad narrated from his father that Abu Talhah dug the grave of Allah’s Messenger ﷺ and the one who stretched a piece of cloth under the Prophet ﷺ was Shuqran, the freedman of Allah’s Messenger ﷺ . Ja’far reported that Ibn Abu Rafi told him that he heard Shuqran say, “By Allah, I had spread the piece of cloth under Allah’s Messenger in the grave.”


باب   قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطِيفَةٌ حَمْرَائُ قَالَ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ  قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ وَاسْمُهُ عِمْرَانُ بْنُ أَبِي عَطَائٍ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ وَاسْمُهُ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ وَکِلَاهُمَا مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ کَرِهَ أَنْ يُلْقَی تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ شَيْئٌ وَإِلَی هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی قبر میں ایک لال چادر رکھی گئی

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے بھی روایت کی ہے، ان کا نام عمران بن ابی عطا ہے، اور ابوجمرہ ضبعی سے بھی روایت کی گئی ہے، ان کا نام نصر بن عمران ہے۔ یہ دونوں ابن عباس کے شاگرد ہیں،

 ابن عباس سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قبر میں میت کے نیچے کسی چیز کے بچھانے کو مکروہ جانا ہے۔ بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said, “A red cloak was spread in the grave of Allah’s Messenger ﷺ “ [Ahmed2021, Muslim 967, Nisai 2008]


باب  قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَيَحْيَی عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَذَا أَصَحُّ


ترجمہ

 اور محمد بن بشار نے دوسری جگہ اس سند میں ابوجمرہ کہا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔


باب  قبروں کو زمین کے برابر کردینا


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ لِأَبِي الْهَيَّاجِ الْأَسَدِيِّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِي بِهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَدَعَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ وَلَا تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَکْرَهُونَ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ فَوْقَ الْأَرْضِ قَالَ الشَّافِعِيُّ أَکْرَهُ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ إِلَّا بِقَدْرِ مَا يُعْرَفُ أَنَّهُ قَبْرٌ لِکَيْلَا يُوطَأَ وَلَا يُجْلَسَ عَلَيْهِ


ترجمہ

 ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ  علی (رض) نے ابوالہیاج اسدی سے کہا 

 میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیج رہا ہوں جس کے لیے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مجھے بھیجا تھا 

 تم جو بھی ابھری قبر ہو، اسے برابر کئے بغیر اور جو بھی مجسمہ ہو 

 اسے مسمار کئے بغیر نہ چھوڑنا 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 علی کی حدیث حسن ہے،  

 اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے،  

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبر کو زمین سے بلند رکھنے کو مکروہ  (تحریمی)  قرار دیتے ہیں،  

 شافعی کہتے ہیں کہ قبر کے اونچی کئے جانے کو میں مکروہ  (تحریمی)  سوائے اتنی مقدار کے جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ قبر ہے تاکہ وہ نہ روندی جائے اور نہ اس پر بیٹھا جائے


  وضاحت 

 مراد کسی ذی روح کا مجسمہ ہے

اس سے قبر کو اونچی کرنے یا اس پر عمارت بنانے کی ممانعت نکلتی ہے


Translation

Abu Wail reported that Sayyidina Ali (RA) said to Abu Hayyaj Asadi, “I am sending you to do what the Prophet ﷺ sent me to do, (that) leave no high grave without levelling it (with the ground) and no picture without obliterating it.”   [Muslim 969, Abu Dawud 3218, Nisai 2027)


باب  قبروں پر چلنا اور بیٹھنا منع ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ


ترجمہ

 ابومرثد غنوی (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 قبروں پر نہ بیٹھو 

اور نہ انہیں سامنے کر کے نماز پڑھو 

  امام ترمذی کہتے ہیں

اس باب میں ابوہریرہ، عمرو بن حزم اور بشیر بن خصاصیہ سے بھی احادیث آئی ہیں

  

 وضاحت 

اس میں قبر پر بیٹھنے کی حرمت کی دلیل ہے ، یہی جمہور کا مسلک ہے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کی تذلیل ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے توقیر و تکریم سے نوازا ہے

 اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مشرکین کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے اور غیر اللہ کی تعظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے جو شرک تک پہنچانے والا تھا


Translation

Sayyidina Abu Marthad Ghartawi reported that the Prophet ﷺ said, “Do not sit on graves and do not offer prayers in their direction.   [Ahmed17216, Nisai 972, Abu Dawud 3229, Nisai 756]


باب  قبروں پر چلنا اور بیٹھنا منع ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالَا أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ وَهَذَا الصَّحِيحُ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُبَارَکِ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيهِ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَزَادَ فِيهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ وَإِنَّمَا هُوَ بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ وَاثِلَةَ هَکَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ وَبُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَدْ سَمِعَ مِنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ


ترجمہ

 اس طریق سے بھی  ابومرشد غنوی (رض) نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ اس سند میں ابوادریس کا واسطہ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ابن مبارک کی روایت غلط ہے، اس میں ابن مبارک سے غلطی ہوئی ہے انہوں نے اس میں ابوادریس خولانی کا واسطہ بڑھا دیا ہے، صحیح یہ ہے کہ بسر بن عبداللہ نے بغیر واسطے کے براہ راست واثلہ سے روایت کی ہے، اسی طرح کئی اور لوگوں نے عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے روایت کی ہے اور اس میں ابوادریس کے واسطے کا ذکر نہیں ہے۔ اور بسر بن عبداللہ نے واثلہ بن اسقع سے سنا ہے


Translation

Ali ibn Hujr andAbu Ammar reported from Walid ibn Muslim, from Abdur Rahman ibn Yazid ibn Jabir, from Busr ibn Ubaydullah, from Wathilah ibn Asqa, from Abu Marthad, from Allahs Messenger ﷺ a hadith like that. It does not mention Abu Idris and this is sahih.


باب  قبروں کو پختہ کرنا، ان کے اردگرد اوپر لکھنا حرام ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَهَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ الْقُبُورُ وَأَنْ يُکْتَبَ عَلَيْهَا وَأَنْ يُبْنَی عَلَيْهَا وَأَنْ تُوطَأَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي تَطْيِينِ الْقُبُورِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ أَنْ يُطَيَّنَ الْقَبْرُ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں  ان پر لکھا جائے  اور ان پر عمارت بنائی جائے  اور انہیں روندا جائے 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 یہ اور بھی طرق سے جابر سے مروی ہے،  

 بعض اہل علم نے قبروں پر مٹی ڈالنے کی اجازت دی ہے، انہیں میں سے حسن بصری بھی ہیں،

شافعی کہتے ہیں 

 قبروں پر مٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے


 وضاحت 

 اس ممانعت کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچا دیتی ہے

 یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اور تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اور اسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔

 مثلاً قبّہ وغیرہ

یہ ممانعت میت کی توقیر و تکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل و توہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا


Translation

Sayyidina Jabir (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ forbade that graves should be plastered and that anything should be inscribed thereon and that a structure should be raised on them and that they should be trodden on.   [Muslim 970, Abu Dawud 3225, Nisai 2023]


باب  قبرستان جانے کی دعا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ عَنْ أَبِي کُدَيْنَةَ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمَدِينَةِ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَکُمْ أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو کُدَيْنَةَ اسْمُهُ يَحْيَی بْنُ الْمُهَلَّبِ وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُهُ حُصَيْنُ بْنُ جُنْدُبٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، تو ان کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا 

«السلام عليكم يا أهل القبور يغفر اللہ لنا ولکم أنتم سلفنا ونحن بالأثر»  سلامتی ہو تم پر اے قبر والو ! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث غریب ہے،  اس باب میں بریدہ (رض) اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


Translation

Sayyindina lbn Abbas narrated that Allah’s Messenger — passed by some graves of Madinah. He turned his face towards them, and said: Peace be on you, O people of the grave! May Allah forgive us and you. You have gone before us and we are to follow.


باب  قبروں کی زیارت کی اجازت


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمِ النَّبِيلُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَکِّرُ الْآخِرَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ بَأْسًا وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، 

 اس باب میں ابو سعید خدری، ابن مسعود، انس، ابوہریرہ اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں


وضاحت 

 اس میں قبروں کی زیارت کا استحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اور تاکید ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانہ جاہلیت کے اثر سے وہاں کوئی غلط کام نہ کر بیٹھیں پھر جب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدہ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دے دی گئی بلکہ اس کی تاکید کی گئی تاکہ موت کا تصور انسان کے دل و دماغ میں ہر وقت رچا بسا رہے


Translation

Sulayman ibn Buraydah reported from his father that Allah’s Messenger ﷺ said, “I had disallowed you to visit graves. Now, indeed, Muhammad has been permitted to visit the grave of his mother. So, you (too) visit graves, for, that reminds of the Hereafter.”


باب  عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنا ممنوع ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ هَذَا کَانَ قَبْلَ أَنْ يُرَخِّصَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ و قَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّمَا کُرِهَ زِيَارَةُ الْقُبُورِ لِلنِّسَائِ لِقِلَّةِ صَبْرِهِنَّ وَکَثْرَةِ جَزَعِهِنَّ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے قبروں کی زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن عباس اور حسان بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں،

بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے قبروں کی زیارت کی اجازت دینے سے پہلے کی بات ہے۔ جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اب اس اجازت میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں،

 بعض کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت ان کی قلت صبر اور کثرت جزع فزع کی وجہ سے مکروہ ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ cursed women who visited graves frequently.   [Ahmed8678, Ibn e Majah 1576]


باب  عورتوں کا قبر کی زیارت کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ بِحُبْشِيٍّ قَالَ فَحُمِلَ إِلَی مَکَّةَ فَدُفِنَ فِيهَا فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ أَتَتْ قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ فَقَالَتْ وَکُنَّا کَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً مِنْ الدَّهْرِ حَتَّی قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا کَأَنِّي وَمَالِکًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ لَوْ حَضَرْتُکَ مَا دُفِنْتَ إِلَّا حَيْثُ مُتَّ وَلَوْ شَهِدْتُکَ مَا زُرْتُکَ


ترجمہ

 عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ  عبدالرحمٰن بن ابی بکر حبشہ میں وفات پا گئے تو انہیں مکہ لا کر دفن کیا گیا، جب ام المؤمنین عائشہ (رض)  (مکہ)  آئیں تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) کی قبر پر آ کر انہوں نے یہ اشعار پڑھے۔ «وكنا کندماني جذيمة حقبة من الدهر حتی قيل لن يتصدعا فلما تفرقنا كأني ومالکا لطول اجتماع لم نبت ليلة معا»  ہم دونوں ایک عرصے تک ایک ساتھ ایسے رہے تھے جیسے بادشاہ جزیمہ کے دو ہم نشین، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ پھر جب ہم جدا ہوئے تو مدت دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایسا لگنے لگا گویا میں اور مالک ایک رات بھی کبھی ایک ساتھ نہ رہے ہوں ۔ پھر کہا 

 اللہ کی قسم ! اگر میں تمہارے پاس موجود ہوتی تو تجھے وہیں دفن کیا جاتا جہاں تیرا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر رہی ہوتی تو تیری زیارت کو نہ آتی


Translation

Abdullah ibn Abu Mulykah narrated that Abdur Rahman ibn Abu Bakr (RA) died at Habshi. His body was brought to Makkah and buried there. When Sayyidah Ayshah (RA) came (to Makkah), she came to the grave of Abdur Rahman ibn Abu Bakr (RA) and said (in poetry) ‘The two of us were like friends of Jazimah, together for an age so that it was thought we were unseparable. When we were apart, though we had been together for a long time, it seemed that we had never been together.’ Thereafter, she said, “By Allah, if I was there, I would have buried you not save where you died and if I had seen you,I would not have visited you (today).”


باب  رات کو دفن کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ قَبْرًا لَيْلًا فَأُسْرِجَ لَهُ سِرَاجٌ فَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَقَالَ رَحِمَکَ اللَّهُ إِنْ کُنْتَ لَأَوَّاهًا تَلَّائً لِلْقُرْآنِ وَکَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَکْبَرُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَقَالُوا يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ و قَالَ بَعْضُهُمْ يُسَلُّ سَلًّا وَرَخَّصَ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ


ترجمہ

 آپ نے میت کو قبلے کی طرف سے لیا۔ اور فرمایا 

 اللہ تم پر رحم کرے ! تم بہت نرم دل رونے والے، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس کی حدیث حسن ہے،

 اس باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزید بن ثابت، زید بن ثابت کے بھائی ہیں، اور ان سے بڑے ہیں،  

 بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا 

 بعض کہتے ہیں 

 پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے 

 اور اکثر اہل علم نے رات کو دفن کرنے کی اجازت دی ہے 


 وضاحت 

 ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، قابل استدلال نہیں ہے

 یہی مذہب امام شافعی ، امام احمد اور اکثر لوگوں کا ہے اور دلیل کے اعتبار سے قوی اور راجح بھی یہی ہے ، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید (رض) نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبر میں اتارا اور کہا 

 سنت طریقہ یہی ہے ، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے اور ساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اور ابواسحاق سبیعی کی جو روایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ «معنعن» ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔

 حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اور جابر کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے «ان النبي صلی اللہ عليه وسلم زجرأن یقبرالرجل لیلاً حتیٰ یصلیٰ علیہ» (رواہ مسلم  )  اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ زجر نماز جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی ، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے ، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیا کفن دینے کے لیے کرتے تھے لہٰذا اگر ان چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تو رات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں ، نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیسا کہ احمد نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکر و عمر کی تدفین بھی رات میں ہوئی اور فاطمہ (رض) کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔   


Translation

Sayyidina Ibn Abbad (RA) narrated that the Prophet ﷺ got down a grave in the night (to bury some one), so light was provided him by a lantern. He held him from the side of qiblah and said, ‘May Allah be merciful to you. You were soft-hearted and a great reciter of the Qur’an.” He then called the takbir four times (leading the funeral salah).


باب  میت کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مُرَّ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ثُمَّ قَالَ أَنْتُمْ شُهَدَائُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَکَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 انس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی تعریف کی تو رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  (جنت)  واجب ہوگئی  پھر فرمایا 

  تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو  

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 انس کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں عمر، کعب بن عجرہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


وضاحت 

 حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے کہا 

 یہ فلاں کا جنازہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا تھا اور اللہ کی اطاعت کرتا تھا اور اس میں کوشاں رہتا تھا۔

یہ خطاب صحابہ کرام (رض) اور ان کے طریقے پر چلنے والوں سے ہے ، ابن القیم نے بیان کیا ہے کہ یہ صحابہ کے ساتھ خاص ہے


Translation

Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) reported that a funeral passed by Allah’s Messenger and the sahabah spoke well of him. So, he said, “(Paradise) has become due (to him).” He added, “You are Allah’s witnesses on earth.”   [Ahmed12937, Bukhari 2642, Muslim 949, Nisai 1928, Ibn e Majah 1491]


باب  میت کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَجَلَسْتُ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَمَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ وَجَبَتْ فَقُلْتُ لِعُمَرَ وَمَا وَجَبَتْ قَالَ أَقُولُ کَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ لَهُ ثَلَاثَةٌ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ قَالَ قُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ قَالَ وَلَمْ نَسْأَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوَاحِدِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْأَسْوَدِ الدِّيلِيُّ اسْمُهُ ظَالِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سُفْيَانَ


ترجمہ

 ابوالاسود الدیلی کہتے ہیں کہ  میں مدینے آیا، تو عمر بن خطاب (رض) کے پاس آ کر بیٹھا اتنے میں کچھ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی تعریف کی عمر (رض) نے کہا

 واجب ہوگئی، میں نے عمر (رض) سے پوچھا 

 کیا چیز واجب ہوگئی ؟ تو انہوں نے کہا 

 میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے کہی ہے۔ آپ نے فرمایا 

 جس کسی بھی مسلمان کے  (نیک ہونے کی)  تین آدمی گواہی دیں، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ ہم نے عرض کیا 

اگر دو آدمی گواہی دیں ؟ آپ نے فرمایا

  دو آدمی بھی  ہم نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے ایک کی گواہی کے بارے میں نہیں پوچھا

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


Translation

Abu Aswad Dayli narrated that he came to Madinah and sat down by Sayyidina Umar ibn Khattab . A funeral passed by and people spoke highly of him. So, Umar (RA) said, “It is due.” He asked him, “What is due?” He said “I have spoken as had spoken Allah’s Messenger ﷺ . He had said, ‘When three people speak well of a Muslim, Paradise becomes his right.’ We asked about two people and he said, ‘Even then.’ We did not ask him about one person.”


باب  جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمُوتُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ فَتَمَسَّهُ النَّارُ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَمُعَاذٍ وَکَعْبِ بْنِ مَالِکٍ وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ وَأُمِّ سُلَيْمٍ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ثَعْلَبَةَ الْأَشْجَعِيِّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ وَأَبُو ثَعْلَبَةَ الْأَشْجَعِيُّ لَهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ وَاحِدٌ هُوَ هَذَا الْحَدِيثُ وَلَيْسَ هُوَ الْخُشَنِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جس مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر قسم پوری کرنے کے لیے 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

اس باب میں عمر، معاذ، کعب بن مالک، عتبہ بن عبد، ام سلیم، جابر، انس، ابوذر، ابن مسعود، ابوثعلبہ اشجعی، ابن عباس، عقبہ بن عامر، ابو سعید خدری اور قرہ بن ایاس مزنی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،

 ابوثعلبہ اشجعی کی نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے صرف ایک ہی حدیث ہے، اور وہ یہی حدیث ہے، اور یہ خشنی نہیں ہیں  (ابوثعلبہ خشنی دوسرے ہیں)


 وضاحت 

 «تحلۃ القسم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان «وإن منکم إلا واردها»  تم میں سے ہر شخص اس جہنم میں وارد ہوگا  ، ہے اور وارد سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “If a Muslim suffers death of three sons then the fire of Hell will not touch him except to fulfil the oath.”  [Ahmed7269, Bukhari 6656, Muslim 2632, Nisai 1871]


باب  جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب


 حدیث 

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَدَّمَ ثَلَاثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ کَانُوا لَهُ حِصْنًا حَصِينًا مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَدَّمْتُ اثْنَيْنِ قَالَ وَاثْنَيْنِ فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ سَيِّدُ الْقُرَّائِ قَدَّمْتُ وَاحِدًا قَالَ وَوَاحِدًا وَلَکِنْ إِنَّمَا ذَاکَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جس نے تین بچوں کو  (لڑکے ہوں یا لڑکیاں)  بطور ذخیرہ آخرت کے آگے بھیج دیا ہو، اور وہ سن بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچانے کا ایک مضبوط قلعہ ہوں گے ۔ اس پر ابوذر (رض) نے عرض کیا 

میں نے دو بچے بھیجے ہیں ؟ آپ نے فرمایا 

  دو بھی کافی ہیں ۔ تو ابی بن کعب سید القراء (رض) نے عرض کیا 

 میں نے ایک ہی بھیجا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا

  ایک بھی کافی ہے۔ البتہ یہ قلعہ اس وقت ہوں گے جب وہ پہلے صدمے کے وقت یعنی مرنے کے ساتھ ہی صبر کرے 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے، 

ابوعبیدہ عبیدہ نے اپنے والد عبداللہ بن مسعود (رض) سے نہیں سنا ہے


 وضاحت 

 انہیں سیدالقراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ان کے متعلق فرمایا ہے 

 «أقرؤكم أبي» تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں


Translation

Sayyidina Ahdullah ibn Masud reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “He who is predeceased by three minor children will find them as a strong fort against the Fire.” Abu Dharr (RA) said, “I have been predeceased by two’, so he said, “And by two.” Then, Ubayy ibn Kab (RA) , the chief of the reciters of the Qur’an, said, “I have lost one child ahead of me.” He said, “And one also. But, that is only (if patience is shown) at the first shock.”   [Ahmed4077, Ibn e Majah 1606]


باب  جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب


 حدیث 

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَأَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ الْحَنَفِيُّ قَال سَمِعْتُ جَدِّي أَبَا أُمِّي سِمَاکَ بْنَ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيَّ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ کَانَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِي أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الْجَنَّةَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَمَنْ کَانَ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِکَ قَالَ وَمَنْ کَانَ لَهُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ قَالَتْ فَمَنْ لَمْ يَکُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِکَ قَالَ فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِي قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ بَارِقٍ وَقَدْ رَوَی عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ  انہوں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا 

  میری امت میں سے جس کے دو پیش رو ہوں، اللہ اسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا  اس پر عائشہ (رض) نے عرض کیا 

آپ کی امت میں سے جس کے ایک ہی پیش رو ہو تو ؟ آپ نے فرمایا 

جس کے ایک ہی پیش رو ہو اسے بھی، اے توفیق یافتہ خاتون !  (پھر)  انہوں نے پوچھا 

آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش رو ہی نہ ہو اس کا کیا ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا

 میں اپنی امت کا پیش رو ہوں کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی ۔   


Translation

Sayyidina lbn Abbas (RA) reported having heard from Allah’s Messenger ﷺ If anyone of my Ummah has two children who precede him then Allah will admit him to Paradise because of them.” So, Sayyidah Ayshah (RA) asked him, “What of one of your ummah who has one child who precedes him?” He said, “And, he who has one child who precedes him, O fortunate one!” She asked, “What of one who has no child to precede him from your ummah?” He said, “I am the farat of my ummah who have never been afflicted aslike (suffering loss of) me.”  [Ahmed3098]


باب  جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ فَذَکَرَ نَحْوَهُ وَسِمَاکُ بْنُ الْوَلِيدِ هُوَ أَبُو زُمَيْلٍ الْحَنَفِيُّ



ترجمہ

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے، 

ہم اسے عبدربہ بن بارق ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور ان سے کئی ائمہ نے روایت کی ہے


باب  شہداء کون ہیں ؟


 حدیث 

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الشُّهَدَائُ خَمْسٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ وَجَابِرِ بْنِ عَتِيکٍ وَخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ وَأَبِي مُوسَی وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 شہید پانچ لوگ ہیں 

 جو طاعون میں مرا ہو، جو پیٹ کے مرض سے مرا ہو، جو ڈوب کر مرا ہو، جو دیوار وغیرہ گر جانے سے مرا ہو، اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہو 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، 

اس باب میں انس، صفوان بن امیہ، جابر بن عتیک، خالد بن عرفطہٰ ، سلیمان بن صرد، ابوموسیٰ اشعری اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 


 وضاحت 

 یہ پانچ قسم کے افراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز شہیدوں کا ثواب عطا فرمائے گا بعض روایات میں کچھ اور لوگوں کا بھی ذکر ہے ان احادیث میں تضاد نہیں اس لیے کہ پہلے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو اتنے ہی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس فہرست میں کچھ مزید لوگوں کا بھی اضافہ فرما دیا ان میں «شہید فی سبیل اللہ» کا درجہ سب سے بلند ہے کیونکہ حقیقی شہید وہی ہے بشرطیکہ وہ صدق دلی سے اللہ کی راہ میں لڑا ہو  


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “Martyrs are of five kinds : He who dies of plague is a martyr, he who dies of stomach-ache is a martyr, he who dies trapped in falling wall or the like is a martyr, he who is killed in Allah’s path is a martyr.’   [Ahmed10293, Bukhari 653, Muslim 19141


باب  شہداء کون ہیں ؟


 حدیث 

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنِ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ السَّبِيعِيِّ قَالَ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ لِخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ أَوْ خَالِدٌ لِسُلَيْمَانَ أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ قَتَلَهُ بَطْنُهُ لَمْ يُعَذَّبْ فِي قَبْرِهِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ فِي هَذَا الْبَابِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ


ترجمہ

 ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ  سلیمان بن صرد نے خالد بن عرفطہٰ سے  (یا خالد نے سلیمان سے)  پوچھا 

کیا آپ نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے نہیں سنا ؟ جسے اس کا پیٹ مار دے  اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا تو ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا  ہاں  (سنا ہے) ۔

امام ترمذی کہتے ہیں

 اس باب میں یہ حدیث حسن غریب ہے،

 اس کے علاوہ یہ اور بھی طریق سے مروی ہے

وضاحت 

 یعنی ہیضہ اور اسہال وغیرہ سے مرجائے


Translation

Abu Ishaq Sabi’i reported that Sulayman ibn Sarad (RA) said to Khalid ibn Urfatab or Khalid said to Sulayman (RA), “Did you Lear Allah’s Messenger say that one who dies of a disease of the belly will not be punished in the grave?” So, one of them said to his companion, “Yes.”  [Ahmed22563]


باب  طاعون سے بھاگنا منع ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ الطَّاعُونَ فَقَالَ بَقِيَّةُ رِجْزٍ أَوْ عَذَابٍ أُرْسِلَ عَلَی طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَلَسْتُمْ بِهَا فَلَا تَهْبِطُوا عَلَيْهَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے طاعون کا ذکر کیا، تو فرمایا

 یہ اس عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ

 پر بھیجا گیا تھا جب کسی زمین  (ملک یا شہر)  میں طاعون ہو جہاں پر تم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو  

اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلا ہو جہاں تم نہ رہتے ہو تو وہاں نہ جاؤ

 امام ترمذی کہتے ہیں 

اسامہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے، 

 اس باب میں سعد، خزیمہ بن ثابت، عبدالرحمٰن بن عوف، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں


 وضاحت 

اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کا حکم دیا تھا لیکن انہوں نے مخالفت کی ، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا «فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء» آیت میں «رجزاً من السماء» سے مراد طاعون ہے چناچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے ٢٤ ہزار لوگ مرگئے

کیونکہ وہاں سے بھاگ کر تم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤ کا راستہ توبہ و استغفار ہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا


Translation

Sayyidina Usamah ibn Zayd (RA) reported that the Prophet ﷺ mentioned plague and said, “It is the remnant of the punishment sent to a section of the Banu Israil. When it occurs in a land and you are there, do not go away from there, and if it occurs in a land and you are not there then do not descend into it.”   [Bukhari 3473, Muslim 2218]


باب   جو اللہ کی ملاقات کو محبوب رکھے اللہ بھی اس سے ملنا پسند فرماتا ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِقْدَامٍ أَبُو الْأَشْعَثِ الْعِجْلِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ وَمَنْ کَرِهَ لِقَائَ اللَّهِ کَرِهَ اللَّهُ لِقَائَهُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہو اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،  

اس باب میں ابوموسیٰ اشعری، ابوہریرہ، اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


Translation

Sayyidina Ubadahh ibn Samit reported that the Prophet ﷺ said, “He who holds meeting with Allah dear, Allah also holds dear meeting with him. And if anyone hates to meet Allah then Allah also hates to meet him.”   [Ahmed2275, Bukhari 6507, Muslim 2683, Nisai 4264]


باب  خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ


 حدیث 

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ وَشَرِيکٌ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ يُصَلَّی عَلَی کُلِّ مَنْ صَلَّی إِلَی الْقِبْلَةِ وَعَلَی قَاتِلِ النَّفْسِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَإِسْحَقَ و قَالَ أَحْمَدُ لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ عَلَی قَاتِلِ النَّفْسِ وَيُصَلِّي عَلَيْهِ غَيْرُ الْإِمَامِ


ترجمہ

 جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ  ایک شخص نے خودکشی کرلی، تو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے، 

 اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر شخص کی نماز پڑھی جائے گی جو قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور خودکشی کرنے والے کی بھی پڑھی جائے گی۔ ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،

 اور احمد کہتے ہیں 

 امام خودکشی کرنے والے کی نماز نہیں پڑھے گا، البتہ  (مسلمانوں کے مسلمان حاکم)  امام کے علاوہ لوگ پڑھیں گے

    

Translation

Sayyidina Samurah (RA) narrated that a man killed himself. So, the Prophet ﷺ did not pray his funeral salah.   [Ahmed20906, Muslim 978, Nisai 1960]


باب  جو اللہ کی ملاقات کو محبوب رکھے اللہ بھی اس سے ملنا پسند فرماتا ہے


 حدیث 

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ قَالَ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا ذَکَرَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ وَمَنْ کَرِهَ لِقَائَ اللَّهِ کَرِهَ اللَّهُ لِقَائَهُ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ کُلُّنَا نَکْرَهُ الْمَوْتَ قَالَ لَيْسَ ذَلِکَ وَلَکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَرِضْوَانِهِ وَجَنَّتِهِ أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ وَسَخَطِهِ کَرِهَ لِقَائَ اللَّهِ وَکَرِهَ اللَّهُ لِقَائَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا

  جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ۔ تو میں نے عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! ہم سبھی کو موت ناپسند ہے ؟ تو آپ نے فرمایا 

  یہ مراد نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی خوشنودی اور اس کے جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ اس سے ملنا چاہتا ہے، اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کی غصے کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے 

    امام ترمذی کہتے ہیں

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

وضاحت 

مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کے وقت اور موت کے فرشتوں کے آ جانے کے وقت آدمی میں اللہ سے ملنے کی جو چاہت ہوتی ہے وہ مراد ہے نہ کہ عام حالات میں کیونکہ عام حالات میں کوئی بھی مرنے کو پسند نہیں کرتا


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) reported that she recalled Allah’s Messenger ﷺ saying that if anyone loves to meet Allah then Allah also love to meet him and if he hates to meet Allah then Allah too hates to meet him. She said, “O Messenger of Allah, all of us detest death.”  He said, “That is not so. But when the Believer is given glad tidings of Allah’s mercy and His pleasure and His Paradise, he loves the meeting with Allah. And Allah also loves to meet him. As for the disbeliever, when he is given tidings of Allah’s punishment and His wrath he hates to meet Allah and Allah hates the meeting with him.”   [Ahmed24227, Bukhari 6507, Muslim 2684, Nisai 1938]


باب  قرض دار کی نماز جنازہ


 حدیث 

حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ مَکْتُومُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُؤْتَی بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّی عَلَيْهِ الدَّيْنُ فَيَقُولُ هَلْ تَرَکَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَائٍ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَکَ وَفَائً صَلَّی عَلَيْهِ وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَامَ فَقَالَ أَنَا أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَتَرَکَ دَيْنًا عَلَيَّ قَضَاؤُهُ وَمَنْ تَرَکَ مَالًا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَالِحٍ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس کوئی فوت شدہ شخص جس پر قرض ہو لایا جاتا تو آپ پوچھتے 

 کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟  اگر آپ کو بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جس سے اس کے قرض کی مکمل ادائیگی ہوجائے گی تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے، ورنہ مسلمانوں سے فرماتے

 تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو  (میں نہیں پڑھ سکتا) ، پھر جب اللہ نے آپ کے لیے فتوحات کا دروازہ کھولا تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا

 میں مسلمانوں کا ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حقدار ہوں۔ تو مسلمانوں میں سے جس کی موت ہوجائے اور وہ قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،

 اسے یحییٰ بن بکیر اور دیگر کئی لوگوں نے لیث بن سعد سے عبداللہ بن صالح کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے


Translation

Sayyidah.Abu Hurayrah (RA) narrated : If a debtor’s body was brought to Allah’s Messenger ﷺ for the funeral salah, he would ask, “Has he left anything to repay debts?” If he was told that he had left enough to pay off his debts then he would lead his funeral salah, otherwise he would ask the Muslims to pray over their companion. When Allah opened for him (a number of) victories, he stood up and said, “I am better for the Believers than their own selves. Hence, if any of the Believers dies leaving a debt then his debt is on me, and if he leaves behind property then that belongs to the heirs.”   [Ahmed9855, Bukhari 2298, Muslim 1619, Nisai 1963]


باب  قرض دار کی نماز جنازہ


 حدیث 

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا قَالَ أَبُو قَتَادَةَ هُوَ عَلَيَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَفَائِ قَالَ بِالْوَفَائِ فَصَلَّی عَلَيْهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ وَأَسْمَائَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس ایک شخص لایا گیا تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا

 تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے 

(میں نہیں پڑھوں گا)  اس پر ابوقتادہ نے عرض کیا 

 اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے پوچھا

 پورا پورا ادا کرو گے ؟  تو انہوں نے کہا 

 (ہاں)  پورا پورا ادا کریں گے تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی

امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے، 

 اس باب میں جابر، سلمہ بن الاکوع، اسماء بنت یزید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


Translation

Uthman ibn Abdullah ibn Mawhib reported having heard Abdullah ibn Abu Qatadah narrate on the authority of his father that a funeral was brought before the Prophet ﷺ that the funeral salah might be offered. He commanded (to his companions i “Pray over your companion for there is a debt against him.” So, Abu Qatadah (RA) said, “That debt, I take over.” Allah’s Messenger ﷺ asked, “All of- it?” He confirmed, “All of it.” Hence, the Prophet ﷺ prayed his funeral salah.   [Ibn e Majah 2407]


باب  عذاب قبر


 حدیث 

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُکُمْ أَتَاهُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْکَرُ وَالْآخَرُ النَّکِيرُ فَيَقُولَانِ مَا کُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا کَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَی أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ کَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّی يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ وَإِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُولُ ذَلِکَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّی يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ کُلُّهُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا

 جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں 

 تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ وہ  (میت)  کہتا ہے 

 وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں 

 ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول و عرض میں ستر ستر گز کشادہ کردی جاتی ہے، پھر اس میں روشنی کردی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے 

 سو جا، وہ کہتا ہے 

مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچا دو کہ میں انہیں یہ بتاسکوں، تو وہ دونوں کہتے ہیں 

 تو سو جا اس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگاتا ہے جو اس کے گھر والوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے، اور اگر وہ منافق ہے، تو کہتا ہے 

 میں لوگوں کو جو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتا تھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں 

 ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہا جاتا ہے 

تو اسے دبوچ لے تو وہ اسے دبوچ لیتی ہے اور پھر اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،اس باب میں علی، زید بن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب، انس، جابر، ام المؤمنین عائشہ اور ابوسفیان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said: When the corpse, or (he said) one of you, is lowered in the grave, two angels, black-coloured with blue eyes, come to him. One of them is called Munkar and the other Nakir. They ask him, “What do you say about this man?” He answers what he was used to say (in the world), “He is Allah’s slave and His Messenger U And I bear witness that there is no God but Allah and that Muhammad is His slave and His Messenger.’ They both say, “Indeed, we knew that you would say so.” Then his grave is expandea seventy cubits by seventy cubits and illuminated for him, and he is told, “Go to sleep.” He says, “I wish to return to my family and inform them.” But, they say, “Sleep as a newly married sleeps, whom none but the dearest of his family may wake up”, until Allah resurrects him from his sleep. But, if he is a hypocrite, he says, “I have heard people say and I say the like of that, while I do not know.” So, they both say, “Indeed, we knew that you would say so.” And it is said to the earth, “Press in upon him”, and it presses itself upon him. So, his ribs are squeezed together and the punishment does not cease on him till Allah resurrects him from that place of his.


باب  عذاب قبر


 حدیث 

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ فَإِنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ ثُمَّ يُقَالُ هَذَا مَقْعَدُکَ حَتَّی يَبْعَثَکَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا

  جب کوئی آدمی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے ہے تو جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے، پھر اس سے کہا جاتا ہے 

 یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اٹھائے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


 وضاحت 

اس طرح کی مزید صحیح احادیث میں منکرین عذاب قبر کا پورا پورا رد پایا جاتا ہے ، اگر ایسے لوگ عالم برزخ کے احوال کو اپنی عقل پر پرکھیں اور اپنی عقلوں کو ہی دین کا معیار بنائیں تو پھر شریعت مطہرہ میں ایمانیات کے تعلق سے کتنے ہی ایسے بیسیوں مسائل ہیں کہ جن کا ادراک انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی تو پھر کیا قرآن وسنت اور سلف صالحین کی وہی راہ تھی جو  اس طرح کی عقل والوں  نے اختیار کی ہے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “When a person dies, his resting place is shown to him. If he is to be in Paradise then his abode in Paradise (is shown) and if he is to be in the Fire then his abode in the Fire. After that, it is said, “This your abode till Allah resurrects you on the Day of Resurrection.”   [Ahmed5119, Bukhari 1379, Muslim 2866, Nisai 2072]


باب  مصیبت زدہ کو تسلی دینے پر اجر


 حدیث 

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ عَزَّی مُصَابًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ وَرَوَی بَعْضُهُمْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَيُقَالُ أَکْثَرُ مَا ابْتُلِيَ بِهِ عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ نَقَمُوا عَلَيْهِ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 جس نے کسی مصیبت زدہ کی  (تعزیت)  ماتم پرسی کی، اسے بھی اس کے برابر اجر ملے گا 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف علی بن عاصم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، بعض لوگوں نے محمد بن سوقہ سے اسی جیسی حدیث اسی سند سے موقوفاً روایت کی ہے۔ اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے،   کہا جاتا ہے کہ علی بن عاصم پر جو زیادہ طعن ہوا، اور لوگوں نے ان پر نکیر کی ہے وہ اسی حدیث کے سبب ہے


Translation

Sayyidina Abdullah (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “One who comforts a person who suffers gets a reward like the sufferer’s.”   [Ibn e Majah 1602]


باب  جنازہ میں جلدی کرنا


 حدیث 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا کُفْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَمَا أَرَی إِسْنَادَهُ بِمُتَّصِلٍ


ترجمہ

 علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ان سے فرمایا 

  علی ! تین چیزوں میں دیر نہ کرو 

نماز کو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کو جب آ جائے، اور بیوہ  (کے نکاح)  کو جب تم اس کا کفو  (مناسب ہمسر)  پالو 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث غریب ہے

میں اس کی سند متصل نہیں جانتا


Translation

Sayyidina Ali ibn Abu Talib (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said to him, “Three things you should not postpone : the prayer when the hour for it arrives, the funeral when it is ready, and (the marriage of) an unmarried woman when you find a suitable match for her.”   [Ahmed 828, Ibn e Majah 1486, Tirmidhi 171]


باب  جمعہ کے دن مرنے والے کی فضیلت


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْن أَبِي هِلَالٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ إِنَّمَا يَرْوِي عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَلَا نَعْرِفُ لِرَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو


ترجمہ

 عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث غریب ہے، 

اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ربیعہ بن سیف ابوعبدالرحمٰن حبلی سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ربیعہ بن سیف کی عبداللہ بن عمرو (رض) سے سماع ہے یا نہیں


Translation

Sayyidina Abdullah ibn Amr (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “No Muslim dies on the day of Friday or the night of Friday but Allah protects him from the trial in the grave.”  [Ahmed6593]


باب  تعزیت کی فضیلت


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَتْنَا أُمُّ الْأَسْوَدِ عَنْ مُنْيَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي بَرْزَةَ عَنْ جَدِّهَا أَبِي بَرْزَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ عَزَّی ثَکْلَی کُسِيَ بُرْدًا فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ


ترجمہ

 ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 جس نے کسی ایسی عورت کی تعزیت  (ماتم پرسی)  کی جس کا لڑکا مرگیا ہو، تو اسے جنت میں اس کے بدلہ ایک عمدہ کپڑا پہنایا جائے گا 

امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث غریب ہے،

 اس کی سند قوی نہیں ہے


Translation

Sayyidina Abu Barzah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “One who comforts a woman who has lost a child will be given to wear a striped cloak in Paradise.”


باب  نماز جنازہ میں ہاتھ اٹھانا


 حدیث 

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ عَنْ زَيْدٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَبَّرَ عَلَی جَنَازَةٍ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَکْبِيرَةٍ وَوَضَعَ الْيُمْنَی عَلَی الْيُسْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا فَرَأَی أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ يَدَيْهِ فِي کُلِّ تَکْبِيرَةٍ عَلَی الْجَنَازَةِ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْکُوفَةِ وَذُکِرَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّهُ قَالَ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ لَا يَقْبِضُ يَمِينَهُ عَلَی شِمَالِهِ وَرَأَی بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْبِضَ بِيَمِينِهِ عَلَی شِمَالِهِ کَمَا يَفْعَلُ فِي الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی يَقْبِضُ أَحَبُّ إِلَيَّ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع یدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے،

ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، 

 اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ آدمی جنازے میں ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے گا، یہ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے

 بعض اہل علم کہتے ہیں 

 صرف پہلی بار اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے

 ابن مبارک کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو نہیں پکڑے گا، 

 اور بعض اہل علم کہتے ہیں 

 وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا جیسے وہ دوسری نماز میں کرتا ہے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ہاتھ باندھنا مجھے زیادہ پسند ہے

 

وضاحت

 ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم   (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جب نماز جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر میں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں «عن عمر بن شبہ حدثنا یزید بن ہارون انبأنا یحییٰ بن سعید عن نافع عن ابن عمروقال ہکذا … رفعہ عمر بن شبة» کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اور یزید بن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اور یہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے

 ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے پھر ایسا نہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہا ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah narrated that once Allah’s Messenger ﷺ called Allah u Akbar in the funeral salah, he raised his hands at the first takbir and then placed the right hand over the left.


باب  مومن کا جی قرض کی طرف لگا رہتا ہے جب تک کوئی اس کی طرف سے ادا نہ کردے


 حدیث 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّی يُقْضَی عَنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ الْأَوَّلِ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا

  مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے، یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے

 

وضاحت 

یعنی اس کا معاملہ موقوف رہتا ہے اس کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے

یہ خاص ہے اس شخص کے ساتھ جس کے پاس اتنا مال ہو جس سے وہ قرض ادا کرسکے رہا وہ شخص جس کے پاس مال نہ ہو اور وہ اس حال میں مرا ہوا کہ قرض کی ادائیگی کا اس کا پختہ ارادہ رہا ہو تو ایسے شخص کے بارے میں حدیث میں وارد ہے کہ اس کا قرض اللہ تعالیٰ ادا کر دے گا


Translation

Muhammad ibn Bashshar reported the same hadith from Abdur Rahman ibn Mahdi, from Ibrahim ibn Sa’d who from his father, from Amr ibn Salamah who from his father, from Abu Hurayrah ‘‘   [Ahmed1016O Ibn e Majah 2413]


باب  مومن کا جی قرض کی طرف لگا رہتا ہے جب تک کوئی اس کی طرف سے ادا نہ کردے


 حدیث 

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ زَکَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّی يُقْضَی عَنْهُ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائ


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah reorted that Allah’s Messenger ﷺ said, “The Believer’s heart is suspended with his debt till it is paid.”










No comments:

Powered by Blogger.