Seerat tul Nabi ﷺ

 سیرت النبی ﷺ 


یونٹ 1 

زم زم کی کھدائی


حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ١۲ بیٹے تھے - ان کی نسل اسقدر ہوئی کے مکہ مکرمہ میں نہ سما سکی اور پورے حجاز میں پھیل گئی - ان کے ایک بیٹے قیدار کی اولاد میں عدنان ہوئے - عدنان کے بیٹے معد اور پوتے کا نام نزار تھا - نزار کے چار بیٹے تھے - ان میں سے ایک کا نام مضر تھا - مضر کی نسل سے قریش بن مالک پیدا ہوئے" یہ فہر بن مالک بھی کہلائے - قریش کی اولاد بہت ہوئی - ان کی اولاد مختلف قبیلوں میں بٹ گئی - ان کی اولاد سے قصیّ نے اقتدار حاصل کیا - قصیّ کے آگے تین بیٹے ہوئے - ان میں سے ایک عبد مناف تھے جن کی اگلی نسل میں ہاشم پیدا ہوئے - 

ہاشم نے مدینہ کے ایک سردار کی لڑکی سے شادی کی " ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا " اس کا نام شیبہ رکھا گیا - یہ پیدا ہی ہوا تھا کہ ہاشم کا انتقال ہوگیا- ان کے بھائی مطلّب مکہ کے حاکم ہوئے - ہاشم کا بیٹا مدینہ منورہ میں پرورش پاتا رہا " جب مطلّب کو معلوم ہوگیا کہ وہ جوان ہوگیا ہے تو بھتیجے کو لینے کے لیے خود مدینہ گئے - اسے لیکر مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں نے خیال کیا یہ نوجوان ان کا غلام ہے - مطلّب نے لوگوں کو بتایا " یہ ہاشم کا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے " اس کے باوجود لوگوں نے اسے مطلّب کا غلام ہی کہنا شروع کردیا - اس طرح شیبہ کو عبدالمطلب کہا جانے لگا - انہیں عبدالمطلب کے یہاں ابوطالب حمزہ, عبّاس, عبداللہ, ابولہب, حارث, زبیر, ضرار, اور عبدالرحمن پیدا ہوئے- ان کے بیٹے عبداللہ سے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔

عبدالمطلب کے تمام بیٹوں میں حضرت عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ پاکدامن تھے - عبدالمطلب کو خواب میں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا گیا " یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کو, اس کنویں کو قبیلہ 

جرہم کے سردار مضاض نے پاٹ دیا تھا - قبیلہ جرہم کے لوگ اس زمانہ میں مکہ کے سردار تھے " بیت اللہ کے نگراں تھے - انہوں نے بیت اللہ کی بے حرمتی شروع کردی - ان کا سردار مضاض بن عمرو تھا " وہ اچھا آدمی تھا اس نے اپنے قبیلے کو سمجھایا کہ بیت اللہ کی بے حرمتی نہ کرو مگر ان پر اثر نہ ہوا " جب مضاض نے دیکھا کہ ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تو قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا- اس نے تمام مال و دولت تلواریں اور زرہیں وغیرہ خانۂ کعبہ سے نکال کر زمزم کے کنویں میں ڈالدیں اور مٹی سے اسکو پاٹ دیا - کنواں اس سے پہلے ہی خشک ہوچکا تھا-

اب اس کا نام و نشان مٹ گیا - مدتوں یہ کنواں بند پڑا رہا اس کے بعد بنو خزاعہ نے بنو جرہم کو وہاں سے مار بھگایا " بنو خزاعہ اور قصیّ کی سرداری کا زمانہ اسی حالت میں گذرا - کنواں بند رہا یہاں تک کے قصیّ کے بعد عبدالمطلب کا زمانہ آگیا" انہوں نے خواب دیکھا " خواب میں انہیں زمزم کے کنویں کی جگہ دکھائی گئی اور اس کے کھودنے کا حکم دیا گیا-

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالمطلب نے بتایا :- 

" میں حجر اسود کے مقام پر سورہا تھا کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا - اس نے مجھ سے کہا "طیبہ کو کھودو "

میں نے اس پوچھا "طیبہ کیا ہے؟" 

مگر وہ کچھ بتائے بغیر چلاگیا - دوسری طرف رات پھر خواب میں وہی شخص آیا " کہنے لگا "برہ کو کھودو "

میں نے پوچھا "برّہ کیا ہے" وہ کچھ بتائے بغیر چلے گیا-

تیسری رات میں اپنے بستر پر سورہا تھا کہ پھر وہ شخص خواب میں آیا - اُس نے کہا " مضنونہ کھودو " 

میں نے پوچھا " مضنونہ کیا ہے؟" وہ بتائے بغیر چلا گیا - 

اس سے اگلی رات میں پھر بستر پر سورہا تھا کہ وہی شخص پھر آیا اور بولا "زم زم کھودو " میں نے اس سے پوچھا "زم زم کیا ہے؟ " اس بار اس نے کہا:

" زمزم وہ ہے جس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوتا, جو حاجیوں کے بڑے بڑے مجموعوں کو سیراب کرتا ہے " 

عبدالمطلب کہتے ہیں, میں نے اس سے پوچھا 

"یہ کنواں کس جگہ ہے؟ " 

اس نے بتایا - 

"جہاں گندگی اور خون پڑا ہے, اور کوّا ٹھونگیں مار رہا ہے" 

دوسرے دن عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ وہاں گئے - اس وقت ان کے یہاں یہی ایک لڑکا تھا - انہوں نے دیکھا وہاں گندگی اور خون پڑا تھا اور ایک کوّا ٹھونگیں مار رہا تھا, اس جگہ کے دونوں طرف بُت موجود تھے اور یہ گندگی اور خون دراصل ان بتوں پر قربان کئیے جانے والے جانوروں کا تھا, پوری نشانی مل گئی تو عبدالمطلب کدال لے آئے اور کھدائی کے لئیے تیار ہوگئے لیکن اس وقت قریش وہاں آ پہنچے -انہوں نے کہا :

" اللہ کی قسم ہم تمہیں یہاں کھدائی نہیں کرنے دیں گے, تم ہمارے ان دونوں بُتوں کے درمیاں کنواں کھودنا چاہتے ہو جہاں ہم ان کے لئیے قربانیاں کرتے ہیں- "

عبدالمطلب نے ان کی بات سن کر اپنے بیٹے حارث سے کہا : 

"تم ان لوگوں کو میرے قریب نہ آنے دو, میں کھدائی کا کام کرتا رہوں گا اس لئیے کہ مجھے جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس کو ضرور پورا کروں گا- "

قریش نے جب دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو رک گئے - آخر انھوں نے کھدائی شروع کردی - جلد ہی کنویں کے آثار نظر آنے لگے - یہ دیکھ کر انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پکار اٹھے

" یہ دیکھو یہ اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر ہے "

جب قریش نے یہ دیکھا کہ انہوں نے کنواں تلاش کرلیا تو ان کے پاس آگئے اور کہنے لگے : 

"عبدالمطلب اللہ کی قسم " یہ ہمارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے اور اس پر ہمارا بھی حق ہے" اس لئیے ہم اس میں تمہارے شریک ہوں گے -"

یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا : 

" میں تمہیں اس میں شریک نہیں کرسکتا " یہ مجھ اکیلے کا کام ہے"

اس پر قریش نے کہا :

" تب پھر اس معاملے میں ہم تم سے جھگڑا کریں گے"

عبدالمطلب بولے :

" کسی سے فیصلہ کروالو "

انہوں نے بنوسعد ابن ہزیم کی کاہنہ سے فیصلہ کرانا منظور کیا - یہ کاہنہ ملک شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی - آخر عبدالمطلب اور دوسرے قریش اس کی طرف روانہ ہوئے - عبدالمطلب کے ساتھ عبدمناف کے لوگوں کی ایک جماعت تھی - 

جبکہ دیگر قبائل قریش کی بھی ایک ایک جماعت ساتھ تھی - اس زمانہ میں ملک حجاز اور شام کے درمیان ایک بیابان میدان تھا , وہاں کہیں پانی نہیں تھا - اس میدان میں ان کا پانی ختم ہوگیا - سب لوگ پیاس سے بے حال ہوگئے, یہاں تک کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہوگیا - انہوں نے قریش کے دوسرے لوگوں سے پانی مانگا لیکن انہوں نے پانی دینے سے انکار کردیا - اب انہوں نےادھر ادھر پانی تلاش کرنے کا ارادہ کیا - 

عبدالمطلب اٹھ کر اپنی سواری کے پاس آئے, جوں ہی ان کی سواری اٹھی, اس کے پاؤں کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابل پڑا - انہوں نے پانی کو دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا - پھر عبد المطلب سواری سے اتر آئے - سب نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھر لیے - اب انہوں نے قریش کی دوسری جماعت سے کہا:"آؤ تم بھی سیر ہوکر پانی پی لو -" اب وہ بھی آگے آئے اور خوب پانی پیا - پانی پینے کے بعد وہ بولے:

" اللہ کی قسم.... اے عبدالمطلب! یہ تو تمہارے حق میں فیصلہ ہوگیا - اب ہم زمزم کے بارے میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے - جس ذات نے تمہیں اس بیابان میں سیراب کردیا، وہی ذات تمہیں زمزم سے بھی سیراب کرے گا، اس لیے یہیں سے واپس چلو -" 

اس طرح قریش نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ عبدالمطلب پر مہربان ہے، لہٰذا ان سے جھگڑنا بے سود ہے اور کاہنہ کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں، چنانچہ سب لوگ واپس لوٹے - 

واپس اکر عبدالمطلب نے پھر کنویں کی کھدائی شروع کی - ابھی تھوڑی سی کھدائی کی ہوگی کہ مال، دولت، تلواریں اور زرہیں نکل آئیں - اس میں سونا اور چاندی وغیرہ بھی تھی - یہ مال ودولت دیکھ کر قریش کے لوگوں کو لالچ نے آگھیرا - انہوں نے عبدالمطلب سے کہا :

"عبدالمطلب! اس میں ہمارا بھی حصہ ہے -" 

ان کی بات سن کر عبدالمطلب نے کہا :

"نہیں! اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، تمہیں انصاف کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے - آؤ پانسو کے تیروں سے قرعہ ڈالیں -" 

انہوں نے ایسا کرنا منظور کرلیا - دو تیر کعبے کے نام سے رکھے گئے، دو عبدالمطلب کے اور دو قریش کے باقی لوگوں کے نام کے.... پانسہ پھینکا گیا تو مال اور دولت کعبہ کے نام نکلا، تلواریں اور زرہیں عبدالمطلب کے نام اور قریشیوں کے نام کے جو تیر تھے وہ کسی چیز پر نہ نکلے - اس طرح فیصلہ ہوگیا - عبدالمطلب نے کعبے کے دروازے کو سونے سے سجا دیا - 

زمزم کی کھدائی سے پہلے عبدالمطلب نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! اس کی کھدائی کو مجھ پر آسان کردے، میں اپنا ایک بیٹا تیرے راستے میں ذبح کروں گا - اب جب کہ کنواں نکل آیا تو انہیں خواب میں حکم دیا گیا - 

"اپنی منت پوری کرو، یعنی ایک بیٹے کو ذبح کرو -"



یونٹ 2

 سو اونٹوں کی قربانی


عبدالمطلب کو یہ حکم اسوقت دیا گیا جب وہ اپنی منّت بھول چکے تھے - پہلے خواب میں ان سے کہا گیا " منّت پوری کرو " انھوں نے ایک مینڈھا ذبح کرکے غریبوں کو کھلادیا " پھر خواب آیا " اس سے بڑی پیش کرو " اس مرتبہ انھوں نے ایک بیل ذبح کردیا - خواب میں پھر یہی کہا گیا اس سے بھی بڑی پیش کرو - اب انھوں نے اونٹ ذبح کیا - پھر خواب آیا اس سے بھی بڑی چیز پیش کرو - انھوں نے پوچھا " اس سے بھی بڑی چیز کیا ہے " تب کہا گیا : 

" اپنے بیٹوں میں سے کسی کو ذبح کرو جیسا کہ تم نے منّت مانی تھی " 

اب انھیں اپنی منّت یاد آئی - اپنے بیٹوں کو جمع کیا - ان سے منّت کا ذکر کیا - سب کے سر جھُک گئے " کون خود کو ذبح کرواتا " آخر عبداللہ بولے 

" ابّاجان آپ مجھے ذبح کردیں " 

یہ سب سے چھوٹے تھے - سب سے خوبصورت تھے - سب سے ذیادہ محبّت بھی عبدالمطلِّب کو انہیں سے تھی لہٰذا انھوں نے قرعہ اندازی کرنے کا ارادہ کیا - تمام بیٹوں کے نام لکھکر قرعہ ڈالا گیا - عبداللہ کا نام نکلا اب انھوں نے چُھری لی " عبداللہ کو بازو سے پکڑا اور انھیں ذبح کرنے کے لیے نیچے لٹادیا۔

جونہی باپ نے بیٹے کو لٹایا " عبّاس سے ضبط نہ ہوسکا, فوراً آگے بڑھے اور بھائی کو کھینچ لیا " اس وقت یہ خود بھی چھوٹے سے تھے " ادھر باپ نے عبداللہ کو کھینچا " اس کھینچا تانی میں عبداللہ کے چہرے پر خراشیں بھی آئیں " ان خراشوں کے نشانات مرتے دم تک باقی رہے -

اسی دوران بنو مخزوم کے لوگ آگئے انھوں نے کہا :

آپ اس طرح بیٹے کو ذبح نہ کریں , اس کی ماں کی زندگی خراب ہوجائے گی, "اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بیٹے کا فدیہ دے دیں "

اب سوال یہ تھا کہ فدیہ کیا دیا جائے, اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں, دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ قربان کردئے جائیں , اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے - پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے - اب اگر بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں, ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں, اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں -

عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا ہے " دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے " ہر بار عبداللہ کا نام نکلتا چلا گیا , یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی - تب کہیں جاکر اونٹوں والی پرچی نکلی - اس طرح ان کی جان کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے - عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے - انھوں نے کعبے کے پاس سو اونٹ قربان کئیے اور کسی کو کھانے سے نہ روکا " سب انسانوں, جانوروں اور پرندوں نے ان کو کھایا -

امام زہری کہتے ہیں کہ عبدالمطلِّب پہلے آدمی ہے جنہوں نے آدمی کی جان کی قیمت سو اونٹ دینے کا طریقہ شروع کیا - اس سے پہلے دس اونٹ دیے جاتے تھے - اس کے بعد یہ طریقہ سارے عرب میں جاری ہوگیا - گویا قانون بن گیا کہ آدمی کا فدیہ سو اونٹ ہے - نبی کریم   ﷺ کے سامنے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے اس فدیہ کی تصدیق فرمائی، یعنی فرمایا کہ یہ درست ہے

اور اسی بنیاد پر نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: 

میں دو ذبیحوں یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت عبداللہ کی اولاد ہوں 

حضرت عبداللہ قریش میں سب سے زیادہ حسین تھے ان کا چہرہ روشن ستارہ کی ماند تھا قریش کی بہت سی لڑکیاں ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر حضرت عبداللہ کی حضرت آمنہ سے شادی ہوئ۔

حضرت آمنہ وہب بن عبدمناف بن زہرہ کی بیٹی تھیں شادی کے وقت حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔

یہ شادی کے لیئے اپنے والد کے ساتھ جارہے تھے راستہ میں ایک عورت کعبہ کے پاس بیٹھی نظر آئ، یہ عورت ورقہ بن نوفل کی بہن تھی۔ورقہ بن نوفل قریش کے ایک بڑے عالم تھے۔ورقہ بن نوفل سے ان کی بہن نے سن رکھا تھا کہ وقت کے آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہےاور انکی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہوگی کہ ان کے والد کے چہرے میں نبوت کا نور چمکتا ہوگا۔جونہی اس نے عبداللہ کو دیکھا فوراﹰ اس کے ذہن میں یہ بات آئ، اس نے سوچا ہونہ ہو یہ وہ وہ شخص ہے جو پیدا ہونے والے نبی کے باپ ہوں گے ۔چنانچہ اس نے کہا: 

"اگر تم مجھ سے شادی کرلو تو میں بدلہ میں تمہیں اتنے ہی اونٹ دوں گی جتنے تمہاری جان کے بدلے میں ذبح کئے گئے تھے۔"

اس پر انہوں نے جواب دیا: 

"میں اپنے باپ کے ساتھ ہوں۔ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔نہ ان سے الگ ہوسکتا ہوں اور میرے والد باعزت آدمی ہیں، اپنی قوم کے سردار ہیں۔"

بہر حال انک شادی حضرت آمنہ سے ہوگئ۔اپ قریش کی عورتوں میں نسب اور مقام کے اعتبار سے افضل تھیں - 

حضرت آمنہ، حضرت عبداللٰہ کے گھر آگئیں - آپ فرماتی ہیں:

"جب میں ماں بننے والی ہوئی تو میرے پاس ایک شخص آیا، یعنی ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا - اس وقت میں جاگنے اور سونے کے درمیانی حالت میں تھی(عام طور پر اس حالت کو غنودگی کہاجاتاہے) - اس نے مجھ سے کہا:

"کہا تمہیں معلوم ہے، تم اس امت کی سردار اور نبی کی ماں بننے والی ہو۔"

اس کے بعد وہ پھر اس وقت آیا جب نبی صلی اللٰہ علیہ وسلم پیدا ہونے والے تھے - اس مرتبہ اس نے کہا:

"جب تمہارے ہاں پیدائش ہو تو کہنا:

"میں اس بچے کے لیے اللٰہ کی پناہ چاہتی ہوں، ہر حسد کرنے والے کے شر اور برائی سے - پھر تم اس بچے کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ ان کا نام تورات میں احمد ہے اور زمین اور آسمان والے ان کی تعریف کرتے ہیں، جب کہ قرآن میں ان کا نام محمد ہے، اور قرآن ان کی کتاب ہے - "(البدایہ والنہایہ) 

ایک روایت کے مطابق فرشتے نے ان سے یہ کہا:

"تم وقت کے سردار کی ماں بننے والی ہو، اس بچے کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوگا، جس سے ملک شام اور بصرٰی کے محلات بھر جائیں گے - جب وہ بچہ پیدا ہوجائے گا تو اس کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ تورات میں ان کا نام احمد ہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں، اور انجیل میں ان کا نام احمد ہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں اور قرآن میں ان کا نام محمد ہے -"(البدایہ والنہایہ)

حضرت عبداللٰہ کے چہرے میں جو نورچمکتا تھا، شادی کے بعد وہ حضرت آمنہ کے چہرے میں آگیا تھا - 

امام زہری فرماتے ہیں، حاکم نے یہ روایت بیان کی ہےاوراس کوصحیح قراردیا ہے کہ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے حضور نبی کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

"اے اللٰہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتایئے-" 

آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، اپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور خوشخبری ہوں، جب میں اپنی والدہ کے شکم میں آیا تو انہوں نے دیکھا، گویا ان سے ایک نور ظاہر ہوا ہے جس سے ملک شام میں بصرٰی کے محلات روشن ہوگئے - "

حضرت آمنہ نے حضرت حلیمہ سعدیہ سے فرمایا تھا

"میرے اس بچے کی شان نرالی ہے، یہ میرے پیٹ میں تھے تو مجھے کوئی بوجھ اور تھکن محسوس نہیں ہوئی۔"

حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ آخری پیغمبر ہیں جنہوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ 

وسلم کی آمد کی خوشخبری سنائی ہے - اس بشارت کا ذکر قرآن میں بھی ہے، سورہ صف میں اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں:

"اور اسی طرح وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے فرمایا کہ: اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات آچکی ہے، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والا ہیں، ان کا نامِ مبارک احمد ہوگا، میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔"

اب چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ بشارت سناچکے تھے، اس لیے ہر دور کے لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد کا بےچینی سے انتظار کررہے تھے، ادھرآپ کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت عبداللّٰہ انتقال کرگئے - سابقہ کتب میں آپ کی نبوت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ آپ کے والد کا انتقال آپ کی ولادت سے پہلے ہوجائے گا - حضرت عبداللہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تجارت کے لیے گئے تھے، اس دوران بیمار ہوگئے اور کمزور ہوکر واپس لوٹے - قافلہ مدینہ منورہ سے گزرا تو حضرت عبداللہ اپنی ننھیال یعنی بنو نجار کے ہاں ٹھہرے - ان کی والدہ بنو نجار سے تھیں، ایک ماہ تک بیمار رہے اور انتقال کرگئے - انہیں یہیں دفن کردیا گیا - 

تجارتی قافلہ جب حضرت عبداللہ کے بغیر مکہ مکرمہ پہنچا اور عبدالمطلب کو پتا چلا کہ ان کے بیٹے عبداللہ بیمار ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں اپنی ننھیال میں ہیں تو انہیں لانے کے لیے عبدالمطلب نے اپنے بیٹے زبیر کو بھیجا - جب یہ وہاں پہنچے تو عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا - مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں اپنے والد کی وفات کے چند ماہ بعد تشریف لائے 



یونٹ 3

 ماہِ نبوت طلوع ہوا


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی آنول نال کٹی ہوئی تھی۔{آنول نال کو بچے پیدا ہونے کے بعد دایہ کاٹتی ہے۔}

آپ ختنہ شدہ پیدا ہوئے۔عبدالمطلب یہ دیکھ کر بےحد حیران ہوئے اور خوش بھی۔وہ کہا کرتے تھے، میرا بیٹا نرالی شان کا ہوگا۔{الہدایہ}

آپ کی پیدائش سے پہلے مکّہ کے لوگ خشک سالی اور قحط کا شکار تھے۔لیکن جونہی آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت قریب آیا۔بارشیں شروع ہوگئیں، خشک سالی دور ہوگئی۔درخت ہرے بھرے ہوگئے اور پھلوں سے لد گئے۔زمین پر سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگا۔

پیدائش کے وقت آپ اپنے ہاتھوں پر جھکے ہوئے تھے۔سر آسمان کی طرف تھا۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے تھے۔مطلب یہ کہ سجدے کی سی حالت میں تھے۔{طبقات}

آپ کی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی اٹھی ہوئی تھی۔جیسا کہ ہم نماز میں اٹھاتے ہیں۔

حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

"جب میری والدہ نے مجھے جنم دیا تو ان سے ایک نور نکلا۔اس نور سے شام کے محلات جگمگا اٹھے۔" ( طبقات )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں

"محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی پیدائش کے وقت ظاہر ہونے والے نور کی روشنی میں مجھے بصری میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں تک نظر آئیں۔"

علامہ سہلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ نے اللہ کی تعریف کی۔ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: 

"اللہ اکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا ۔

"اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اللہ تعالیٰ کی بےحد تعریف ہے اور میں صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔"

آپ کی ولادت کس دن ہوئی؟ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ پیر کا دن تھا۔آپ صبح فجر طلوع ہونے کے وقت دنیا میں تشریف لائے۔

تاریخ پیدائش کے سلسلے میں بہت سے قول ہیں۔ایک روایت کے مطابق 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ایک روایت 8 ربیع الاول کی ہے، ایک روایت 2 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔اس سلسلے میں اور بھی بہت سی روایات ہیں۔زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ آپ 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔تقویم کے طریقہ کے حساب سے جب تاریخ نکالی گئی تو 9 ربیع الاول نکلی۔مطلب یہ کہ اس بارے میں بالکل صیح بات کسی کو معلوم نہیں۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مہینہ ربیع الاول کا تھا اور دن پیر کا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو پیر کے دن ہی نبوت ملی۔پیر کے روز ہی آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے روز ہی آپ کی وفات ہوئی۔

آپ عام الفیل میں پیدا ہوئے۔یعنی ہاتھیوں والے سال میں۔اس سال کو ہاتھیوں والا سال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی۔

آپ کی پیدائش اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد ہوئی تھی - 

واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ

ابرہہ یمن کا عیسائی حاکم تھا - حج کے دنوں میں اس نے دیکھا کہ لوگ بیت اللہ کا حج کرنے جاتے ہیں - اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا :

" یہ لوگ کہاں جاتے ہیں "

اسے جواب ملا:

" بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جاتے ہیں "

اس نے پوچھا:

" بیت اللہ کس چیز کا بنا ہوا ہے" 

اسے بتایا گیا :

" پتھروں کا ہے "

اس نے پوچھا :

" اس کا لباس کیا " 

بتایا گیا

" ہمارے ہاں سے جو دھاری دار کپڑا جاتا ہے اس سے اس کی پوشاک تیار ہوتی ہے " 

ابرہہ عیسائی تھا - ساری بات سن کر اس نے کہا ":

"مسیح کی قسم! میں تم لوگوں کے لیے اس سے اچھا گھر تعمیر کروں گا " 

اس طرح اس نے سرخ " سفید " زرد " اور سیاہ پتھروں سے ایک گھر بنوایا - سونے اور چاندی سے اس کو سجایا اس میں کئی دروازے رکھوائے اس میں سونے کے پترے جڑوائے - اس کے درمیان میں جواہر لگوائے - اس مکان میں ایک بڑا سا یاقوت لگوایا - پردے لگوائے " وہاں خوشبوئیں سلگانے کا انتظام کیا - اس کی دیواروں پر اس قدر مشک ملا جاتا تھا کہ وہ سیاہ رنگ کی ہوگئیں - یہاں تک کہ جواہر بھی نظر نہیں آتے تھے۔

پھر لوگوں سے کہا:

" اب تمہیں بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جانے کی ضرورت نہیں رہی, میں نے یہیں تمہارے لیے بیت اللہ بنوادیا ہے لہٰذا اب تم اس کا طواف کرو " 

اس طرح کچھ قبائل کئی سال تک اس کا حج کرتے رہے - اس میں اعتکاف کرتے رہے - حج والے مناسک بھی یہیں ادا کرتے رہے -

عرب کے ایک شخص نفیل خشمی سے یہ بات برداشت نا ہوسکی - وہ اس مصنوعی خانۂ کعبہ کے خلاف دل ہی دل میں کڑھتا رہا -آخر اس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ ابرہہ کی اس عمارت کو گندہ کرکے چھوڑے گا -پھر ایک رات اس نے چوری چھپے بہت سی گندگی اس میں ڈال دی -ابرہہ کو معلوم ہوا تو سخت غضب ناک ہوا کہنے لگا 

"یہ کاروائی کسی عرب نے اپنے کعبہ کے لیے کی ہے , میں اسے ڈھادوں گا اس کا ایک ایک پتھر توڑدوں گا " 

اس نے شام و حبشہ کو یہ تفصیلات لکھ دیں , اس سے درخواست کی کہ وہ اپنا ہاتھی بھیج دے - اس ہاتھی کا نام محمود تھا - یہ اس قدر بڑا تھا کہ اتنا بڑا ہاتھی روئے زمین پر دیکھنے میں نہیں آیا تھا - جب ہاتھی اس کے پاس پہنچ گیا تو وہ اپنی فوج لیکر نکلا اور مکہ کا رخ کیا - یہ لشکر جب مکہ کے قرب و جوار میں پہنچا تو ابرہہ نے فوج کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے جانور لوٹ لیے جائیں - اس کے حکم پر فوجیوں نے جانور پکڑ لیے - ان میں عبدالمطلِّب کے اونٹ بھی تھے 

نفیل بھی اس لشکر میں ابرہہ کے ساتھ موجود تھا اور یہ عبدالمطلِّب کا دوست تھا - عبدالمطلِّب اس سے ملے - اونٹوں کے سلسلے میں بات کی - نفیل نے ابرہہ سے کہا 

" قریش کا سردار عبدالمطلِّب ملنا چاہتا ہے یہ شخص تمام عرب کا سردار ہے " شرف اور بزرگی اسے حاصل ہے - لوگوں میں اس کا بہت بڑا اثر ہے -لوگوں کو اچھے اچھے گھوڑے دیتا ہے, انہیں عطیات دیتا ہے, کھانا کھلاتا ہے- "

یہ گویا عبدالمطلِّب کا تعارف تھا - ابرہہ نے انہیں ملاقات کے لیے بلالیا - ابرہہ نے ان سے پوچھا 

" بتائیے آپ کیا چاہتے ہیں؟" 

انہوں نے جواب دیا : 

" میں چاہتا ہوں میرے اونٹ مجھے واپس مل جائیں "

ان کی بات سن کر ابرہہ بہت حیران ہوا - اس نے کہا :

" مجھے تو بتایا گیا تھا کہ آپ عرب کے سردار ہے " بہت عِزّت اور بزرگی کے مالک ہیں " لیکن لگتا ہے مجھ سے غلط بیانی کی گئی ہے- کیونکہ میرا خیال تھا آپ مجھ سے بیت اللہ کے بارے میں بات کریں گے جس کو میں گرانے آیا ہوں اور جس کے ساتھ آپ سب کی عِزّت وابستہ ہے - لیکن آپ نے تو سرے سے اس کی بات ہی نہیں کی اور اپنے اونٹوں کا رونا لیکر بیٹھ گئے - یہ کیا بات ہوئی " 

اس کی بات سن کر عبدالمطلِّب بولے 

"آپ میرے اونٹ مجھے واپس دے دیں بیت اللہ کے ساتھ جو چاہیں کریں " اس لیے کہ اس گھر کا ایک پروردگار ہے - وہ خود ہی اس کی حفاظت کرے گا - مجھے اس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں " 

ان کی بات سن کر ابرہہ نے حکم دیا : 

"ان کے اونٹ واپس دے دیے جائیں "

جب انہیں ان کے اونٹ واپس مل گئے " تو انھوں نے ان کے سموں پر چمڑے چڑھا دیے - ان پر نشان لگادیے - انہیں قربانی کے لیے وقف کرکے حرم میں چھوڑ دیا تاکہ پھر کوئی انہیں پکڑ لے تو حرم کا پروردگار اس پر غضب ناک ہو -

پھر عبدالمطلِّب حِرا پہاڑ پر چڑھ گئے - ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست تھے - انہوں نے اللہ سے درخواست کی :

"اے اللہ! انسان اپنے سامان کی حفاظت کرتا ہے، تو اپنے سامان کی حفاظت کر۔"

ادھر سے ابرہہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا۔وہ خود ہاتھی پر سوار لشکر کے درمیان موجود تھا۔ایسے میں اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ہاتھی بانوں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ اٹھا۔انہوں نے اس کے سر پر ضربیں لگائیں۔آنکس چبھوئے مگر وہ کھڑا نہ ہوا۔کچھ سوچ کر انہوں نے اس کا رخ یمن کی طرف کیا تو وہ فوراً اس طرف چلنے لگا۔اس کا رخ پھر مکہ کی طرف کیا گیا تو پھر رک گیا۔ہاتھی بانوں نے یہ تجربہ بار بار کیا۔آخر ابرہہ نے حکم دیا، ہاتھی کو شراب پلائی جائے تاکہ نشے میں اسے کچھ ہوش نہ رہ جائے اور ہم اسے مکہ کی طرف آگے بڑھاسکیں۔چنانچہ اسے شراب پلائی گئی، لیکن اس پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔



یونٹ 4

 ابرہہ کا انجام


ابرہہ کے ہاتھی کو اٹھانے کی مسلسل کوشش جاری تھی کہ اچانک سمندر کی طرف سے ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کو بھیج دیا۔وہ ٹڈیوں کے جھنڈ کی طرح آئیں۔

دوسری طرف عبدالمطلب مکہ میں داخل ہوئے ۔ حرم میں پہنچے اور کعبہ کے دروازے کی زنجیرپکڑ کر ابرہہ اور اس کے لشکر کےے خلاف فتح کی دعا مانگی۔ان کی دعا کے الفاظ یہ تھے۔

"اے اللہ! یہ بندہ اپنے قافلے اور اپنی جماعت کی حفاظت کررہا ہے تو اپنے گھر یعنی بیت اللہ کی حفاظت فرما۔ابرہہ کا لشکر فتح نہ حاصل کرسکے۔ان کی طاقت تیری طاقت کے آگے کچھ بھی نہیں، آج صلیب کامیاب نہ ہو۔"صلیب کا لفظ اس لیے بولا کہ ابرہہ عیسائی تھا اور صلیب کو عیسائی اپنے نشان کے طور پر ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

اب انہوں نے اپنی قوم کو ساتھ لیا اور حرا پہاڑ پر چڑھ گئے، کیونکہ ان کا خیال تھا، وہ ابرہہ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

اور پھر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔یہ پرندے چڑیا سے قدرے بڑے تھے۔ان میں سے ہر پرندے کی چونچ میں پتھر کے تین تین ٹکڑے تھے۔یہ پتھر پرندوں نے ابرہہ کے لشکر پر گرانے شروع کیے۔جونہی یہ پتھر ان پر گرے، ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، بالکل اسی طرح جیسے آج کسی جگہ اوپر سے بم گرایا جائے تو جسموں کے ٹکڑے اڑ جاتے ہیں۔ابرہہ کا ہاتھی محمود البتہ ان کنکریوں سے محفوظ رہا۔باقی سب ہاتھی تہس نہس ہوگئے۔ یہ ہاتھی 13 عدد تھے۔سب کے سب کھائے ہوئے نحوست کے مانند ہوگئے۔جیسا کہ سورۃ الفیل میں آتا ہے۔

ابرہہ اور اس کے کچھ ساتھی تباہی کا یہ منظر دیکھ کر بری طرح بھاگے۔لیکن پرندوں نے ان کو بھی نہ چھوڑا۔ابرہہ کے بارے میں طبقات میں لکھا ہے کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ ہوکر گرتا چلا گیا۔یعنی وہ بھاگ رہا تھا اور اس کے جسم کا ایک ایک حصہ الگ ہوکر گررہا تھا۔

دوسری طرف عبدالمطلب اس انتظار میں تھے کہ کب حملہ ہوتا ہے، لیکن حملہ آور جب مکہ میں داخل نہ ہوئے تو وہ حالات معلوم کرنے کے لیے نیچے اترے۔مکہ سے باہر نکلے، تب انہوں نے دیکھا، سارا لشکر تباہ ہوچکا ہے۔خوب مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا۔بےشمار سامان ہاتھ آیا ، مال میں سونا چاندی بھی بےتحاشا تھا۔

لشکر میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو واپس نہیں بھاگے تھے۔یہ مکہ میں رہ گئے تھے ان میں ابرہہ کے ہاتھی کا مہاوت بھی تھا جو محمود کو آگے لانے میں ناکام رہا تھا۔

ہمارے نبی .حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے چند دن بعد پیدا ہوئے۔آپ جس مکان میں پیدا ہوئے، وہ صفا پہاڑی کے قریب تھا۔.حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ میں ہوگی، یہ کعب پہلے یہودی تھے، اس لیے تورات پڑھا کرتے تھے۔

دنیا میں آتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روئے۔.حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ کہتی ہیں کہ جب .حضرت آمنہ کے ہاں ولادت ہوئی تو میں وہاں موجود تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاتھوں میں آئے۔یہ غالبآ دایہ تھی۔ان کا نام شفا تھا۔فرماتی ہیں: جب آپ میرے ہاتھوں میں آئے تو روئے۔

آپ کے دادا عبدالمطلب کو آپ کی ولادت کی اطلاع دی گئی۔وہ اس وقت خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے۔اطلاع ملنے پر گھر آئے۔بچے کو گود میں لیا۔اس وقت آپ کی والدہ نے ان سے کہا: 

"یہ بچہ عجیب ہے، سجدے کی حالت میں پیدا ہوا ہے، یعنی پیدا ہوتے ہی اس نے پہلے سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھا کر انگلی آسمان کی طرف اٹھائی۔"

عبدالمطلب نے آپ کو دیکھا۔اس کے بعد آپ کو کعبہ میں لے آئے۔آپ کو گود میں لیے رہے اور طواف کرتے رہے۔پھر واپس لاکر حضرت آمنہ کو دیا۔آپ کو عرب کے دستور کے مطابق ایک برتن سے ڈھانپا گیا، لیکن وہ برتن ٹوٹ کر آپ کے اوپر سے ہٹ گیا۔اس وقت آپ اپنا انگوٹھا چوستے نظر آئے۔

اس موقع پر شیطان بری طرح چیخا۔تفسیر ابن مخلد میں ہے کہ شیطان صرف چار مرتبہ چیخا، پہلی بار اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے اسے معلون ٹھہرایا، دوسری بار اس وقت جب اسے زمین پر اتارا گیا، تیسری بار اس وقت چیخا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور چوتھی مرتبہ اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔

اس موقع پر .حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: 

"میں آٹھ سال کا تھا، جو کچھ دیکھتا اور سنتا تھا، اس کو سمجھتا تھا ۔ایک صبح میں نے یثرب یعنی مدینہ منورہ میں ایک یہودی کو دیکھا، وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر چلا رہا تھا۔لوگ اس یہودی کے گرد جمع ہوگئے اور بولے: 

"کیا بات ہے، کیوں چیخ رہے ہو؟ "

یہودی نے جواب دیا: 

"احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے اور وہ آج رات پیدا ہوگئے ہیں۔"

.حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بعد میں 60 سال کی عمر میں مسلمان ہوئے تھے۔120 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔گویا ایمان کی حالت میں 60 سال زندہ رہے۔بہت اچھے شاعر تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اشعار میں تعریف کیا کرتے تھے اور دشمنوں کی برائی اشعار میں بیان کرتے تھے۔غزوات کے موقع پر اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو جوش دلاتے تھے۔اسی بنیاد پر انہیں شاعر رسول کا خطاب ملا تھا۔

.حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت کی خبر دے دی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔اس سلسلے میں انہوں نے فرمایا تھا: 

"تمہارے نزدیک جو مشہور چمک دار ستارہ ہے، جب وہ حرکت میں آئے گا، تو وہی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا ہوگا۔"

یہ خبر بنی اسرائیل کے علماء ایک دوسرے کو دیتے چلے آئے تھے اور اس طرح بنی اسرائیل کو بھی آنحضرت کی ولادت کا وقت یعنی اس کی علامت معلوم تھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عالم مکہ میں رہتا تھا، جب وہ رات آئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو وہ قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا، اس نے کہا: 

"کیا تمہارے ہاں آج کوئی بچہ پیدا ہوا ہے۔"

لوگوں نے کہا: 

"ہمیں تو معلوم نہیں۔"

اس پر اس یہودی نے کہا: 

"میں جو کچھ کہتا ہوں، اسے اچھی طرح سن لو، آج اس امت کا آخری نبی پیدا ہوگیا ہے اور قریش کے لوگوں! وہ تم میں سے ہے، یعنی وہ قریشی ہے۔اس کے کندھے کے پاس ایک علامت ہے( یعنی مہر نبوت)اس میں بہت زیادہ بال ہیں۔یعنی گھنے بال ہیں اور یہ نبوت کا نشان ہے۔نبوت کی دلیل ہے۔اس بچے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ دو رات تک دودھ نہیں پیے گا۔ان باتوں کا ذکر اس کی نبوت کی علامات کے طور پر پرانی کتب میں موجود ہے۔

علامہ ابن حجر نے لکھاہےکہ یہ بات درست ہے، آپ نے دودن تک دودھ نہیں پیاتھا-

یہودی عالم نے جب یہ باتیں بتائیں تولوگ وہاں سے اٹھ گئے-انہیں یہودی کی باتیں سن کر بہت حیرت ہوئی تھی-جب وہ لوگ اپنے گھروں میں پہنچےتوان میں سے ہر ایک نے اس کی باتیں اپنے گھرکےافرادکوبتائیں، عورتوں کوچونکہ حضرت آمنہ کےہاں بیٹاپیداہونےکی خبرہوچکی تھی، اس لیے انہوں نے اپنےمردوں کوبتایاں:

ذراچل کر مجھے وہ بچہ دکھاؤ-،، 

لوگ اسےساتھ لیےحضرت آمنہ کےگھرکےباہرآئے، ان سے بچہ دکھانےکی درخواست کی-آپ نے بچےکوکپڑے سےنکال کرانہیں دےدیا-لوگوں نے آپ کےکندھے پرسے کپڑاہٹایا-یہودی کی نظر جونہی مہرنبوت پر پڑی، وہ فوراًبےہوش ہوکرگر پڑا، اسے ہوش آیاتو لوگوں نے اس سےپوچھا: 

تمہیں کیاہوگیاتھا-،، 

جواب میں اس نےکہا: 

میں اس غم سے بےہوش ہواتھاکہ میری قوم میں سےنبوت ختم ہوگئ..اور اے قریشیو! اللہ کی قسم! یہ بچہ تم پر زبردست غلبہ حاصل کرےگا اور اس کی شہرت مشرق سے مغرب تک پھیل جائےگی-،،



یونٹ 5

 محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ستارہ چمکا


ملک شام کاایک یہودی عیص مکہ سے کچھ فاصلے پر رہتا تھا۔وہ جب بھی کسی کام سے مکہ آتا، وہاں کے لوگوں سے ملتا تو ان سے کہتا: 

"بہت قریب کے زمانے میں تمہارے درمیان ایک بچہ پیدا ہوگا، سارا عرب اس کے راستے پر چلے گا۔ اس کے سامنے ذلیل اور پست ہوجائے گا۔وہ عجم اور اس کے شہروں کا بھی مالک ہوجائے گا۔یہی اس کا زمانہ ہے۔جو اس کی نبوت کے زمانے کو پائے گا اور اس کی پیروی کرے گا، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔جس خیر اور بھلائی کی وہ امید کرتاہے، وہ اس کو حاصل ہوگی اور جو شخص اس کی نبوت کا زمانہ پائے گا مگر اس کی مخالفت کرے گا، وہ اپنے مقصد اور آرزوؤں میں ناکام ہوگا۔"

مکہ معظمہ میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا، وہ یہودی اس بچے کے بارے میں تحقیق کرتا اور کہتا، ابھی وہ بچہ پیدا نہیں ہوا۔آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو عبدالمطلب اپنے گھر سے نکل کر اس یہودی کے پاس پہنچے۔اس کی عبادت گاہ کے دروازے پر پہنچ کر انہوں آواز دی۔عیص نے پوچھا: 

"کون ہے؟ "

انہوں نے اپنا نام بتایا۔پھر اس سے پوچھا:

"تم اس بچے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ "

اس نے انہیں دیکھا، پھر بولا: 

"ہاں! تم ہی اس کے باپ ہوسکتے ہو، بےشک وہ بچہ پیدا ہوگیا ہے جس کے بارے میں، میں نے تم لوگوں سے کہا کرتا تھا۔وہ ستارہ آج طلوع ہوگیا ہے جو اس بچے کی پیدائش کی علامت ہے... اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت اس بچے کو درد ہورہا ہے، یہ تکلیف اسے تین دن رہے گی، اور اس کے بعد یہ ٹھیک ہوجائے گا۔"

راہب نے جو یہ کہا تھا کہ بچہ تین دن تک تکلیف میں رہے گا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے تین دن تک دودھ نہیں پیا تھا اور یہودی نے جو یہ کہا تھا کہ ہاں! آپ ہی اس کے باپ ہوسکتے ہیں، اس سے یہ مراد ہے کہ عربوں میں دادا کو بھی باپ کہہ دیا جاتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خود فرمایا تھا: 

"میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔"

یہودی نے عبدالمطلب سے یہ بھی کہا تھا: 

"اس بارے میں اپنی زبان بند رکھیں، یعنی کسی کو کچھ نہ بتائیں، ورنہ لوگ اس بچے سے زبردست حسد کریں گے، اتنا حسد کریں گے کہ آج تک کسی نے نہیں کیا اور اس کی اس قدر سخت مخالفت ہوگی کہ دنیا میں کسی اور کی اتنی مخالفت نہیں ہوئی۔"

پوتے کے متعلق یہ باتیں سن کر عبدالمطلب نے عیص سے پوچھا: 

"اس بچے کی عمر کتنی ہوگی؟ "

یہودی نے اس سوال کے جواب میں کہا: 

"اگر اس بچے کی عمر طبعی ہوئی تو بھی ستر سال تک نہیں ہوگی۔بلکہ اس سے پہلے ہی 61 یا 63 سال کی عمر میں وفات ہوجائے گی اور اس کی امت کی اوسط عمر بھی اتنی ہوگی، اس کی پیدائش کے وقت دنیا کے بت ٹوٹ کر گر جائیں گے۔"

یہ ساری علامات اس یہودی نے گزشتہ انبیاء کی پیش گوئیوں سے معلوم کی تھیں اور سب سب بالکل سچ ثابت ہوئیں۔

قریش کے کچھ لوگ عمرو بن نفیل اور عبداللہ بن حجش وغیرہ ایک بت کے پاس جایا کرتے تھے۔یہ اس رات بھی اس کے پاس گئے، جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔انہوں نے دیکھا وہ بت اوندھے منہ گرا پڑا ہے۔ان لوگوں کو یہ بات بری لگی، انہوں نے اس کو اٹھایا، سیدھا کردیا مگر وہ پھر گرگیا۔انہوں نے پھر اس کو سیدھا کیا، وہ پھر الٹا ہوگیا۔ان لوگوں کو بہت حیرت ہوئی، یہ بات بہت عجیب لگی۔تب اس بت سے آواز نکلی۔

"یہ ایک ایسے بچے کی پیدائش کی خبر ہے، جس کے نور سے مشرق اور مغرب میں زمین کے تمام گوشے منور ہوگئے ہیں۔"

بت سے نکلنے والی آواز نے انہیں اور زیادہ حیرت زدہ کردیا۔

اس کے علاوہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایران کے شہنشاہ کسریٰ نوشیرواں کا محل ہلنے لگا اور اس میں شگاف پڑگئے۔نوشیرواں کا یہ محل نہایت مضبوط تھا۔بڑے بڑے پتھروں اور چونے سے تعمیر کیا گیا تھا۔اس واقعے سے پوری سلطنت میں دہشت پھیل گئی۔شگاف پڑنے سے خوفناک آواز بھی نکلی تھی۔محل کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر نیچے آگرے تھے۔

آپ کی پیدائش پر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ فارس کے تمام آتش کدوں کی وہ آگ بجھ گئی جس کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے اور اس کو بجھنے نہیں دیتے تھے، لیکن اس رات میں ایک ہی وقت میں تمام کے تمام آتش کدوں کی آگ آناً فاناً بجھ گئی۔آگ کے پوجنے والوں میں رونا پیٹنا مچ گیا۔

کسریٰ کو یہ تمام اطلاعات ملیں تو اس نے ایک کاہن کو بلایا۔اس نے اپنے محل میں شگاف پڑنے اور آتش کدوں کی آگ بجھنے کے واقعات اسے سناکر پوچھا: 

"آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔"

وہ کاہن خود تو جواب نہ دے سکا، تاہم اس نے کہا:

”ان سوالات کے جوابات میرا ماموں دے سکتا ہے، اس کا نام سطیح ہے ۔“

نوشیرواں نے کہا

”ٹھیک ہے، تم جا کر ان سوالات کے جوابات لاٶ۔“

وہ گیا، سطیح سے ملا، اسے یہ واقعات سناۓ، اس نے سن کر کہا:

”ایک عصا والے نبی ظاہر ہوں گے جو عرب اور شام پر چھا جائیں گے اور جو کچھ ہونے والا ہے، ہو کر رہے گا۔“

اس نے یہ جواب کسریٰ کو بتایا ۔ اس وقت تک کسریٰ نے دوسرے کاہنوں سے بھی معلومات حاصل کر لی تھیں، چنانچہ یہ سن کر اس نے کہا:

”تب پھر ابھی وہ وقت آنے میں دیر ہے۔“ (یعنی ان کا غلبہ میرے بعد ہو گا)

پیدائش کے ساتویں دن عبدالمطلب نے آپ کا عقیقہ کیا اور نام ”محمد“ رکھا۔ عربوں میں اس سے پہلے یہ نام کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ قریش کو یہ نام عجیب سا لگا۔چنانچہ کچھ لوگوں نے عبدالمطلب سے کہا:

”اے عبدالمطلب! کیا وجہ ہے کہ تم نے اس بچے کا نام اس ک باپ دادا کےنام پر نہیں رکھا بلکہ محمد رکھا ہے اور یہ نام نہ تمہارے باپ دادا میں سے کسی کا ہے نہ تمہاری قوم میں سے کسی کا ہے۔“

عبدالمطلب نے انہیں جواب دیا:

”میری تمنا ہے کہ آسمانوں میں اللہ تعالیٰ اس بچے کی تعریف فرمائیں اور زمین پر لوگ اس کی تعریف کریں۔“

(محمد کے معنی ہیں جس کی بہت زیادہ تعریف کی جاۓ۔)

اسی طرح والدہ کی طرف سے آپ کا نام احمد رکھا گیا۔ احمد نام بھی اس سے پہلے کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ مطلب یہ کہ ان دونوں ناموں کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی اور کوئی بھی یہ نام نہ رکھ سکا۔ احمد کا مطلب ہے سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔

علامہ سہیلی نے لکھا ہے آپ احمد پہلے ہیں اور محمد بعد میں۔ یعنی آپ کی تعریف دوسروں نے بعد میں کی، اس سے پہلے آپ کی شان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد و ثنا کرنے والے ہیں۔ پرانی کتابوں میں آپ کا نام احمد ذکر کیا گیا ہے۔

اپنی والدہ کے بعد آپ نے سب سے پہلے ثوبیہ کا دوھ پیا، ثوبیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی باندی تھیں۔ ان کو ابو لہب نے آپ کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کر دیا تھا۔ ثوبیہ نے آپ کو چند دن تک دودھ پلایا۔ انہیں دنوں ثوبیہ کے ہاں اپنا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ آپ کی والدہ نے آپ کو صرف نو دن تک دودھ پلایا۔ انکے بعد ثوبیہ نے پلایا۔ پھر دودھ پلانے کی باری حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی آئی۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی بستی سے روانہ ہوئیں۔ ان کے ساتھ ان کا دودھ پیتا بچہ اور شوہر بھی تھے۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا دوسری عورتوں کے بعد مکہ میں داخل ہوئیں۔ ان کا خچر بہت کمزور اور مریل تھا ۔ ان کے ساتھ ان کی کمزور اور بوڑھی اونٹنی تھی۔ وہ بہت آہستہ چلتی تھی۔ ان کی وجہ سے حلیمہ رضی اللہ عنہا قافلے سے بہت پیچھے رہ جاتی تھیں۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ سب سے آخر میں مکہ میں داخل ہوئیں۔



یونٹ 6

حلیمہ سعدیہ ؓ کی گود میں


اس زمانے میں عرب کا دستور یہ تھاکہ جب ان کے ہاں کوئی بچہ ہوتا تو وہ دیہات سے آنیوالی دائیوں کے حوالے کردیتے تھے تاکہ دیہات میں بچے کی نشوونمابہتر ہواوروہ خالص عربی زبان سیکھ سکے-

دائیوں کا قافلہ مکہ میں داخل ہوا_انہوں نے ان گھروں کی تلاش شروع کی جن میں بچے پیدا ہوئے تھے-اس طرح بہت سی دائیاں جناب عبد المطلب کے گھر بھی آئیں-نبی کریمﷺکو دیکھالیکن جب انہیں معلوم ہواکہ یہ بچہ تو یتیم پیدا ہواہے تو اس خیال سے چھوڑکر آگے بڑھ گئیں کہ یتیم بچے کے گھرانے سے انہیں کیاملے گا-اس طرح دائیاں آتی رہیں، جاتی رہیں...کسی نے آپ کو دودھ پلانامنظور نہ کیااور کرتیں بھی کیسے؟ یہ سعادت تو حضرت حلیمہؓ کے حصے میں آناتھی-

جب حلیمہ ؓ مکہ پہنچیں تو انہیں معلوم ہوا، سب عورتوں کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیاہے اور اب صرف وہ بغیر بچے کے رہ گئیں ہیں اور اب کوئی بچہ باقی نہیں بچا، ہاں ایک یتیم بچہ ضرور باقی ہے جسے دوسری عورتیں چھوڑ گئیں ہیں-

حلیمہ سعدیہؓ نے اپنے شوہر عبد اللہ ابن حارث سے کہا: 

خدا کی قسم! مجھے یہ بات بہت ناگوار گزر رہی ہے کہ میں بچے کے بغیر جاؤں دوسری سب عورتیں بچے لے کر جائیں، یہ مجھے طعنے دیں گے، اس لیے کیوں نہ ہم اسی یتیم بچے کو لے لیں۔"

عبداللہ بن حارث بولے: 

"کوئی حرج نہیں! ہوسکتا ہے، اللہ اسی بچے کے ذریعے ہمیں خیروبرکت عطا فرمادیں۔"

چنانچہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا عبدالمطلب کے گھر گئیں۔جناب عبدالمطلب اور حضرت آمنہ نے انہیں خوش آمدید کہا۔پھر آمنہ انہیں بچے کے پاس لے آئیں۔آپ اس وقت ایک اونی چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔وہ چادر سفید رنگ کی تھی۔آپ کے نیچے ایک سبز رنگ کا ریشمی کپڑا تھا۔آپ سیدھے لیٹے ہوئے تھے، آپ کے سانس کی آواز کے ساتھ مشک کی سی خوشبو نکل کر پھیل رہی تھی۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں۔آپ اس وقت سوئے ہوئے تھے، انہوں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔لیکن جونہی انہوں نے پیار سے اپنا ہاتھ آپ کے سینے پر رکھا، آپ مسکرادیے اور آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 

"میں نے دیکھا، آپ کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان تک پہنچ گیا، میں نے آپ کو گود میں اٹھا کر آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیانی جگہ پر پیار کیا۔پھر میں نے آپ کی والدہ اور عبدالمطلب سے اجازت چاہی، بچے کے لیے قافلے میں آئی۔میں نے آپ کو دودھ پلانے کے لیے گود میں لٹایا تو آپ دائیں طرف سے دودھ پینے لگے، پہلے میں نے بائیں طرف سے دودھ پلانا چاہا، لیکن آپ نے اس طرف سے دودھ نہ پیا، دائیں طرف سے آپ فوراً دودھ پینے لگے۔بعد میں بھی آپ کی یہی عادت رہی، آپ صرف دائیں طرف سے دودھ پیتے رہے، بائیں طرف سے میرا بچہ دودھ پیتا رہا۔

پھر قافلہ روانہ ہوا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 

"میں اپنے خچر پر سوار ہوئی۔آپ کو ساتھ لے لیا۔اب جو ہمارا خچر چلا تو اس قدر تیز چلا کہ اس نے پورے قافلے کی سواریوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔پہلے وہ مریل ہونے کی بنا پر سب سے پیچھے رہتا تھا۔میری خواتین ساتھی حیرانگی سے مخاطب ہوئیں: 

"اے حلیمہ! یہ آج کیا ہورہا ہے، تمہارا خچر اس قدر تیز کیسے چل رہا ہے، کیا یہ وہی خچر ہے، جس پر تم آئیں تھیں اور جس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل تھا؟ "

جواب میں میں ان سے کہا: 

"بےشک! یہ وہی خچر ہے، اللہ کی قسم! اس کا معاملہ عجیب ہے۔"

پھر یہ لوگ بنو سعد کی بستی پہنچ گئے، ان دنوں یہ علاقہ خشک اور قحط زدہ تھا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 

"اس شام جب ہماری بکریاں چر کر واپس آئیں تو ان کے تھن دودھ سے بھرے تھے جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا، ان میں سے دودھ بہت کم اور بہت مشکل سے نکلتا تھا۔ہم نے اس دن اپنی بکریوں کا دودھ دوہا تو ہمارے سارے برتن بھرگئے اور ہم نے جان لیا کہ یہ ساری برکت اس بچے کی وجہ سے ہے۔آس پاس کی عورتوں میں بھی یہ بات پھیل گئی، ان کی بکریوں بدستور بہت کم دودھ دے رہی تھیں۔

غرض ہمارے گھر میں ہر طرف، ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی۔دوسرے لوگ تعجب میں رہے۔اس طرح دو ماہ گزر گئے۔دو ماہ ہی میں آپ چلنے پھرنے لگے۔آپ آٹھ ماہ کے ہوئے تو باتیں کرنے لگے اور آپ کی باتیں سمجھ میں آتیں تھیں۔نو ماہ کی عمر میں تو آپ بہت صاف گفتگو کرنے لگے۔

اس دوران آپ کی بہت سی برکات دیکھنے میں آئیں۔حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: 

"جب میں آپ کو اپنے گھر لے آئی تو بنو سعد کا کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا۔جس سے مشک کی خوشبو نہ آتی ہو، اس طرح سب لوگ آپ سے محبت کرنے لگے ۔جب ہم نے آپ کا دودھ چھڑایا تو آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے: 

اللہ اکبرکبیراوالحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا

یعنی اللہ تعالٰی بہت بڑاہے، اللہ تعالی کے لئے بے حد تعريف ہے، اور اس کےلئے صبح وشام پاکی ہے،، ۔

پھر جب آپ ﷺدو سال کے ہو گئے تو ہم آپ کو لےکر آپ کی والدہ کے پاس آئے، اس عمر کو پہنچنے کے بعد بچوں کو ماں باپ کے حوالہ کردیا جاتاتھا ۔ادھر ہم آپکی برکات. دیکھ چکےتھے اور ہماری آرزو تھی کہ ابھی آپ کچھ اور مدت ہمارے پاس رہیں، چنانچہ ہم نے اس بارے میں آپ کی والدہ سے بات کی، ان سے یوں کہا ; 

،، آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم بچےکو ایک سال اوراپنے پاس رکھیں، میں ڈرتی ہوں، کہیں اس پر مکہ کی بيماريوں اور آب و ہوا کااثر نہ ہوجائے،، ۔

جب ہم نے ان سے باربار کہا تو حضرت آمنہ مان گئیں اورہم آپ کو پھر اپنے گھر لے آئے۔جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو باہر نکل کر بچو ں کو دیکھتے تھے ۔وہ آپ کو کھیلتے نظر آتے، آپ ان کے نزدیک نہ جاتے، ایک روز آپ نے مجھ سے پو چھا; 

،، امی جان " کیا بات ہے دن میں میرے بھائ بہن نظر نہیں آتے? آپ اپنے دودھ شریک بھائ عبداللہ اور بہنوں انیسہ اور شیما کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں; میں نے آپ کو بتایا، وہ صبح سویرے بکریاں چرانے جاتےہیں، شام کے بعد گھر آتے ہیں: یہ جان کر آپ نے فرمایا: 

"تب مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا کریں"

اسکے بعد آپ اپنے بھائ بہنوں کے ساتھ جانے لگے ۔آپ خوش خوش جاتے اور واپس آتے، ایسے میں ایک دن میرے بچے خوف زدہ انداز میں دوڑتے ہوئے آئے اور گھبرا کر بولے: 

"امی جان! جلدی چلئے… ورنہ بھائ محمدﷺ ختم ہو جائیں گے۔"

یہ سن کر ہمارے تو ہوش اڑ گئے، دوڑ کر وہاں پہنچے، ہم نے آپ کو دیکھا، آپ کھڑے ہوئے تھے، رنگ اڑا ہوا تھا، چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی - اور یہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ کو سینہ چاک کئے جانے سے کوئی تکلیف ہوئی تھی بلکہ ان فرشتوں کو دیکھ کر آپ کی حالت ہوئی تھی -"

حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ہم نے آپ سے پوچھا:

"کیا ہوا تھا؟"

آپ نے بتایا:

"میرے پاس دو آدمی آئے تھے - وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے - (وہ دونوں حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام تھے) ان دونوں میں سے ایک نے کہا:

" کیا یہ وہی ہیں؟"

دوسرے نے جواب دیا:

"ہاں یہ وہی ہیں -" 

پھر وہ دونوں میرے قریب آئے، مجھے پکڑا اور لٹادیا - اس کے بعد انہوں نے میرا پیٹ چاک کیا اور اس میں سے کوئی چیز تلاش کرنے لگے - آخر انہیں وہ چیز مل گئی اور انہوں نے اسے باہر نکال کر پھینک دیا، میں نہیں جانتا، وہ کیا چیز تھی -"

اس چیز کے بارے میں دوسری روایات میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ایک دانہ سا تھا - یہ انسان کے جسم میں شیطان کا گھر ہوتا ہے اور شیطان انسان کے بدن میں یہیں سے اثرات ڈالتا ہے - 

حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، پھر ہم آپ کو گھر لے آئے - اس وقت وہ میرے شوہر عبد اللہ بن حارث نے مجھے سے کہا:

"حلیمہ! مجھے ڈر ہے، کہیں اس بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، اس لیے اسے اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو -"

میں نے کہا، ٹھیک ہے، پھر ہم آپ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے - جب میں مکہ کے بالائی علاقے میں پہنچی تو آپ اچانک غائب ہوگئے - میں حواس باختہ ہوگئی۔



یونٹ 7

یہ غالب آئے گا


حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: ’’میں پریشانی کی حالت میں مکہ پہنچی، آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس پہنچتے ہی میں نے کہا: 

’’میں آج رات محمد کو لے کر آرہی تھی، جب میں بالائی علاقے میں پہنچی تو وہ اچانک کہیں گم ہوگئے۔ اب خدا کی قسم میں نہیں جانتی، وہ کہاں ہیں؟‘‘

عبدالمطلب یہ سن کر فورا کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے، انہوں نے آپ کے مل جانے کے لئے دعا کی۔ پھر آپ کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ورقہ بن نوفل بھی تھے۔ غرض دونوں تلاش کرتے کرتے تہامہ کی وادی میں پہنچے۔ ایک درخت کے نیچے انہیں ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ اس درخت کی شاخیں بہت گھنی تھیں۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ــ لڑکے تم کون ہو؟‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت تک قد نکال چکے تھے، اس لئے عبدالمطلب پہچان نہ سکے۔ آپ کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا: 

’’میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔‘‘

یہ سن کر عبدالمطلب بولے: 

’’تم پر میری جان قربان، میں ہی تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں۔‘‘

پھر انہوں نے آپ کو اٹھاکر سینے سے لگایا اور رونے لگے، آپ کو گھوڑے پر اپنے آگے بٹھایا اور مکہ کی طرف چلے۔ گھر آکر انہوں نے بکریاں اور گائیں ذبح کیں اور مکے والوں کی دعوت کی۔ 

آپ کے مل جانے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے پوچھا: 

’’حلیمہ! اب آپ بچے کو کیوں لے آئیں، آپ کی تو خواہش تھی کہ یہ ابھی آپ کے پاس اور رہیں؟‘‘

انہوں نے جواب دیا:

’’یہ اب بڑے ہوگئے ہیں اور اللہ کی قسم میں اپنی ذمے داری پوری کرچکی ہوں، میں خوف محسوس کرتی رہتی ہوں، کہیں انہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، لہٰذا انہیں آپ کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘

حضرت آمنہ کو یہ جواب سن کر حیرت ہوئی۔ بولیں:

’’مجھے سچ سچ بتاؤ ماجرا کیا ہے؟‘‘

تب انہوں نے سارا حال کہہ سنایا۔ حلیمہ سعدیہ نے دراصل کئی عجیب وغریب واقعات دیکھے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں، پھر سینۂ مبارک چاک کئے جانے والا واقعہ پیش آیا تو وہ آپ کو فوری طور پر واپس کرنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ چند واقعات حضرت حلیمہ رضیٰ اللہ عنہا اس طرح بیان کرتی ہیں:

’’ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت میرے پاس سے گزری۔ یہ لوگ آسمانی کتاب تورات کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، میں نے ان سے کہا، کیا آپ لوگ میرے اس بیٹے کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘

ساتھ ہی میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بارے میں انہیں تفصیلات سنائیں۔ یہودی تفصیلات سن کر آپس میں کہنے لگے: 

’’اس بچے کو قتل کردینا چاہئے۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے پوچھا

کیا یہ بچہ یتیم ہے؟

میں نے ان کی بات سن لی تھی کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر رہے ہیں، سو میں نے جلدی سے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

نہیں! یہ ریے اس بچے کے باپ

تب انہوں نے کہا

اگر یہ بچہ یتیم ہوتا تو ہم ضرور اسے قتل کر دیتے.

یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کہ انہوں نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں، ان کا دین سارے عالم میں پھیل جائے گا، ہر طرف ان کا بول بالا ہو گا، ان کی پیدائش اور بچپن کی یہ یہ علامات ہوں گی اور یہ کہ وہ یتیم ہوں گے. اب چونکہ ان سے حلیمہ سعدیہ نے یہ کہہ دیا کہ یہ بچہ یتیم نہیں ہے تو انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ وہ بچہ نہیں ہے. اس طرح انہوں نے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا.

اسی طرح ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، ایک مرتبہ وہ آپ کو عکاظ کے میلے میں لے آئیں. جاہلیت کے دور میں یہاں بہت مشہور میلہ لگتا تھا. یہ میلہ طائف اور نخلہ کے درمیان میں لگتا تھا. عرب کے لوگ حج کرنے آتے تو شوال کا مہینہ اس میلے میں گزارتے، کھیلتے کودتے اور اپنی بڑائیاں بیان کرتے. حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو لییے بازار میں گھوم رہی تھیں کہ ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی. اسے آپ میں نبوت کی تمام علامات نظر آ گئیں. اس نے پکار کر کہا

لوگو، اس بچے کو مار ڈالو.

حلیمہ اس کاہن کی بات سن کر گھبرا گئیں اور جلدی سے وہاں سے سرک گئیں. اس طرح اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت فرمائی.

میلے میں موجود لوگوں نے کاہن کی آواز سن کر ادھر ادھر دیکھا کہ کس بچے کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا ہے، مگر انہیں وہاں کوئی بچہ نظر نہیں آیا. اب لوگوں نے کاہن سے پوچھا

کیا بات ہے، آپ کس بچے کو مار ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں

اس نے ان لوگوں کو بتایا

میں نے ابھی ایک لڑکے کو دیکھا ہے، معبودوں کی قسم وہ تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور وہ تم سب پر غالب آئے گا.

یہ سن کر لوگ آپ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے لیکن ناکام رہے، حلیمہ سعدیہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لییے واپس آ رہی تھیں کہ ذی الحجاز سے ان کا گزر ہوا. یہاں بھی میلہ لگا ہوا تھا. اس بازار میں ایک نجومی تھا. لوگ اس کے پاس اپنے بچوں کو لے کر آتے تھے وہ بچوں کو دیکھ کر ان کی قسمت کے بارے میں اندازے لگاتا تھا. حلیمہ سعدیہ اس کے نزدیک سے گزریں تو نجومی کی نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی، نجومی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہر نبوت نظر آ گئی، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی خاص سرخی اس نے دیکھ لی. وہ چلا اٹھا.

اے عرب کے لوگو. اس لڑکے کو قتل کر دو. یہ یقیناً تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور تم پر غالب آئے گا.

یہ کہتے ہوئے وہ آپ کی طرف جھپٹا لیکن اسی وقت وہ پاگل ہو گیا اور اسی پاگل پن میں مر گیا

ایک اور واقعہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حبشہ کے عیسائیوں کی ایک جماعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزری. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حلیمہ سعدیہ کے ساتھ تھے اور وہ آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کرنے جا رہی تھیں. ان عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی سرخی کو بھی دیکھا، انہوں نے حلیمہ سعدیہ سے پوچھا.

کیا اس بچے کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟

انہوں نے جواب میں کہا: 

"نہيں: کوئی تکلیف نہیں! یہ سرخی تو ان کی آنکھوں میں قدرتی ہے۔"

ان عیسائیوں نے کہا: 

"تب اس بچے کو ہمارے حوالے کردو، ہم اسے اپنے ملک لے جائیں گے،. یہ بچہ پیغمبر اور بڑی شان والا ہے ۔ہم اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں ۔"

حلیمہ سعدیہ یہ سنتے ہی وہاں سے جلدی سےدور چلی گئیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کے پاس پہنچا دیا ۔

ان واقعات میں جو سب سے اہم واقعہ ہے،. وہ سینہ مبارک چاک کرنے والا تھا ۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک پر سلائی کے نشانات موجود تھے جیساکہ آج کل ڈاکٹر حضرات آپریشن کے بعد ٹانکے لگاتے ہیں، ٹانکے کھول دیئے جانے کے بعد بھی سلائی کے نشانات موجود رہتے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد حلیمہ سعدیہ اور کے خاوند نے فیصلہ کیا کہ اب بچے کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے... 

جب حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالہ کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۴سال تھی ۔ ایک روایت یہ ملتی ہے کہ اس وقت عمر شریف پانچ سال تھی، ایک تیسری روایت کے مطابق عمر مبارک چھ سال ہو چکی تھی ۔

جب حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالے کیا، تو اس کے کچھ دنوں بعد حضرت آمنہ انتقال کر گئیں،والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ حضرت آمنہ کی وفات مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر ہوئی ۔آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔

ہوا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر اپنے میکے مدینہ منورہ گئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ام ایمن بھی تھیں ۔ام ایمن کہتی ہیں، ایک دن مدینہ کے دو یہودی میرے پاس آئے اور بولے: 

"ذرا محمد کو ہمارے سامنے لاؤ، ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے سامنے لے آئیں ۔انہوں نے اچھی طرح دیکھا پھر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: 

"یہ اس امت کا نبی ہے، اور یہ شہر ان کی ہجرت گاہ ہے، یہاں زبردست جنگ ہوگی، قیدی پکڑے جائیں گے۔"

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کو یہودیوں کی اس بات کا پتہ چلا تو آپ ڈر گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں... مگر راستے ہی میں ابواء کے مقام پر وفات پاگئیں ۔



یونٹ 8

نرالی شان کا مالک


حضرت آمنہ کے انتقال کے پانچ دن بعد ام ایمن آپ کو لے کر مکہ پہونچیں۔ آپ کو عبدالمطلب کے حوالے کیا۔آپ کے یتیم ہوجانے کا انہیں اتنا صدمہ تھا کہ بیٹے کی وفات پر بھی اتنا نہیں ہوا تھا۔

عبدالمطلب کے لیے کعبہ کے سائے میں ایک کالین بچھایا جاتا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کا احترام اس قدر تھا کہ کوئی اور اس قالین پر بیٹھتا نہیں تھا، چنانچہ ان کے بیٹے اور قریش کے سردار اس قالین کے چاروں طرف بیٹھتے تھے، لیکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہاں تشریف لاتے تو سیدھے اس قالین پر جا بیٹھتے۔ اس وقت آپ ایک تندرست لڑکے تھے، آپ کی عمر نو سال کے قریب ہو چلی تھی، آپ کے چچا عبدالمطلب کے ادب کی وجہ سے آپ کو اس قالین سے ہٹانا چاہتے تو عبدالمطلب کہتے ; 

میرے بیٹےکو چھوڑ دو، اللّٰہ کی قسم ! یہ بہت شان والا ہے۔ 

پھر وہ آپ کو محبت سے اس فرش پر بٹھاتے، آپ کی کمر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے، آپ کی باتیں سن سن کر حد درجے خوش ہوتے رہتے۔

کبھی وہ دوسروں سے کہتے; 

ُُ میرے بیٹے کو یہیں بیٹھنے دو، اسے خود بھی احساس ہے کہ اس کی بڑی شان ہے، اور میری آرزو ہے یہ اتنا بلند رتبہ پائے جو کسی عرب کو اس سے پہلے حاصل نہ ہوا ہو اور نہ بعد میں کسی کو حاصل ہوسکے۔

:ایک بار انہوں نے یہ الفاظ کہے 

" میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اس کے مزاج میں طبعی طور بلندی ہے.... اس کی شان نرالی ہوگی۔"

یہاں تک کہ عمر کے آخری حصے میں حضرت عبدالمطلب کی آنکھیں جواب دے گئی تھیں، آپ نابینا ہو گئے تھے۔ ایسی حالت میں ایک روز وہ اس قالین پر بیٹھے تھے کہ آپ تشریف لے آئے اور سیدھے اس قالین پر جا پہنچے۔ ایک شخص نے آپ کو قالین سے کھینچ لیا۔ اس پر آپ رونے لگے، آپ کے رونے کی آواز سن کر عبدالمطلب بے چین ہوئے اور بولے: 

"میرا بیٹا کیوں رو رہا ہے "

"آپ کے قالین پر بیٹھنا چاہتا ہے... ہم نے اسے قالین سے اتار دیا ہے۔"

یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا: 

"میرے بیٹے کو قالین پر ہی بٹھا دو، یہ اپنا رتبہ پہچانتا ہے، میری دعا ہے کہ یہ اس رتبے کو پہنچے جو اس سے پہلے کسی عرب کو نہ ملا ہو، اس کے بعد کسی کو نہ ملے۔"

اس کے بعد پھر کسی نے آپ کو قالین پر بیٹھنے سے نہیں روکا۔‌

ایک روز بنو مدلج کے کچھ لوگ حضرت عبدالمطلب سے ملنے کے لئے آئے... ان کے پاس اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے ۔بنو مدلج کے لوگوں نے آپ کو دیکھا، یہ لوگ قیافہ شناس تھے، آدمی کا چہرہ دیکھ کر اس کے مستقبل کے بارے میں اندازے بیان کرتے تھے۔انہوں نے عبدالمطلب سے کہا: 

" اس بچے کی حفاظت کریں، اس لیے کہ مقام ابراہیم پر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کا نشان ہے، اس بچے کے پاؤں کا نشان بالکل اس نشان سے ملتا جلتا ہے، اس قدر مشابہت ہم نے کسی اور کے پاؤں کے نشان میں نہیں دیکھی... ہمارا خیال ہے... یہ بچہ نرالی شان کا مالک ہوگا.. . اس لیے اس کی حفاظت کریں۔"

مقام ابراہیم خانہ کعبہ میں وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ معجزے کے طور پر اس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے پیروں کے نشان پڑگئے تھے۔ لوگ اس پتھر کی زیارت کرتے ہیں ۔ یہی مقام ابراہیم ہے۔ چونکہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس لیے ان کے پاؤں کی مشابہت آپ میں ہونا قدرتی بات تھی۔

ایک روز حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ میں حجر اسود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ایسے میں ان کے پاس نجران کے عیسائی آگئے۔ان میں ایک پادری بھی تھا ۔ اس پادری نے عبدالمطلب سے کہا۔: 

"ہماری کتابوں میں ایک ایسے نبی کی علامات ہیں جو اسماعیل کی اولاد میں ہونا باقی ہے، یہ شہر اس کی جائے پیدائش ہوگا، اس کی یہ یہ نشانیاں ہوں گی۔"

ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ کوئی شخص آپ کو لے کر وہاں آپہنچا۔ پادری کی نظر جونہی آپ پر پڑی، وہ چونک اٹھا، آپ کی آنکھوں، کمر اور پیروں کو دیکھ کر وہ چلا اٹھا: 

" وہ نبی یہی ہیں، یہ تمہارے کیا لگتے ہیں ۔"

عبدالمطلب بولے

" یہ میرے بیٹے ہیں ۔"

اس پر وہ پادری بولا: 

" اوہ! تب یہ وہ نہیں... اس لیے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے والد کا انتقال اس کی پیدائش سے پہلے ہوجائے گا۔

یہ سن کر عبدالمطلب بولے: 

" یہ دراصل میرا پوتا ہے، اس کے باپ کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔"

اس پر پادری بولا:

" ہاں! یہ بات ہوئی نا... آپ اس کی پوری طرح حفاظت کریں۔"

عبدالمطلب کی آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو کہتے: 

"میرے بیٹے کو لے آؤ۔"

آپ تشریف لاتے تو عبدالمطلب آپ کو اپنے پاس بٹھاتے ۔ آپ کو اپنے ساتھ کھلاتے۔

بہت زیادہ عمر والے ایک صحابی حیدہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں

" میں ایک مرتبہ اسلام سے پہلے، جاہلیت کے زمانے میں حج کے لئے مکہ معظمہ گیا۔وہاں بیت الله کا طواف کررہا تھا ۔ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا، جو بہت بوڑھا اور بہت لمبے قد کا تھا۔ وہ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا۔اور کہہ رہا تھا، اے میرے پروردگار میری سواری کو محمد کی طرف پھیر دے اور اسے میرا دست و بازو بنادے۔میں نے اس بوڑھے کو جب یہ شعر پڑھتے سنا تو لوگوں سے پوچھا: 

"یہ کون ہے؟ "

لوگوں نے بتایا یہ عبدالمطلب بن ہاشم ہیں ۔ انہوں نے اپنے پوتے کو اپنے ایک اونٹ کی تلاش میں بھیجا ہے۔ وہ اونٹ گم ہوگیا ہے، اور وہ پوتا ایسا ہے جب بھی کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں اسے بھیجاجاتا ہے تو وہ چیز لے کر ہی آتا ہے۔ پوتے سے پہلے یہ اپنے بیٹوں کو اس اونٹ کی تلاش میں بھیج چکے ہیں، لیکن وہ ناکام لوٹ آئے ہیں، اب چونکہ پوتے کو گئے ہوئے دیر ہوگئی ہے، اس لئے پریشان ہے، اور دعا مانگ رہےہیں ۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کو لئے تشریف لا رہے ہے۔عبدالمطلب نے آپ کو، دیکھ کر کہا ؛ 

"میرے بیٹے ! میں تمہارے لئے اس قدر فکر مند ہوگیا تھا کہ شاید اس کا اثر کبھی میرے دل سے نہ جائے۔

عبدالمطلب کی بیوی کا نام رقیہ بنت ابو سیفی تھا ۔ وہ کہتی ہیں :

قریش کئی سال سے سخت قحط سالی کا شکار تھے. بارشیں بالکل بند تھیں. سب لوگ پریشان تھے، اسی زمانے میں، میں نے ایک خواب دیکھا، کوئی شخص خواب میں کہہ رہا تھا.

اے قریش کے لوگو. تم میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے، اس کے ظہور کا وقت آ گیا ہے. اس کے ذریعے تمہیں زندگی ملے گی، یعنی خوب بارشیں ہوں گی، سرسبزی اور شادابی ہوگی تم اپنے لوگوں میں سے ایک ایسا شخص تلاش کرو جو لمبے قد کا ہو، گورے رنگ کا ہو، اس کی پلکیں گھنی ہوں، بھنویں اور ابرو ملے ہوئے ہوں، وہ شخص اپنی تمام اولاد کے ساتھ نکلے اور تم میں سے ہر خاندان کا ایک آدمی نکلے، سب پاک صاف ہوں اور خوشبو لگائیں، وہ حجر اسود کو بوسہ دیں پھر سب جبل ابو قیس پر چڑھ جائیں. پھر وہ شخص جس کا حلیہ بتایا گیا ہے، آگے بڑھے اور بارش کی دعا مانگے اور تم سب آمین کہو تو بارش ہو جائے گی.

صبح ہوئی تو رقیقہ نے اپنا یہ خواب قریش سے بیان کیا. انہوں نے ان نشانیوں کو تلاش کیا تو سب کی سب نشانیاں انہیں عبد المطلب میں مل گئیں، چنانچہ سب ان کے پاس جمع ہوئے. ہر خاندان سے ایک ایک آدمی آیا. ان سب نے شرائط پوری کیں. اس کے بعد سب ابو قیس پہاڑ پر چڑھ گئے. ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے. آپ اس وقت نو عمر تھے. پھر عبد المطلب آگے بڑھے اور انہوں نے یوں دعا کی.

اے اللہ یہ سب تیرے غلام ہیں، تیرے غلاموں کی اولاد ہیں، تیری باندیاں ہیں اور تیری باندیوں کی اولاد ہیں، ہم پر جو برا وقت آ پڑا ہے، تو دیکھ رہا ہے، ہم مسلسل قحط سالی کا شکار ہیں. اب اونٹ، گائیں، گھوڑے، خچر اور گدھے سب کچھ ختم ہو چکے ہیں اور جانوروں پر بن آئی ہے. اس لیے ہماری یہ خشک سالی ختم فرما دے ہمیں زندگی اور سرسبزی اور شادابی عطا فرما دے

ابھی یہ دعا مانگ ہی رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی. وادیاں پانی سے بھر گئیں لیکن اس بارش میں ایک بہت عجیب بات ہوئی اور وہ عجیب بات یہ تھی کہ قریش کو یہ سیرابی ضرور حاصل ہوئی مگر یہ بارش قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کی قریبی بستیوں میں بالکل نہ ہوئی. اب لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی. ایک قبیلے پر بارش اور آس پاس کے سب قبیلے بارش سے محروم.... تمام قبیلوں کے سردار جمع ہوئے، اس سلسلے میں بات چیت شروع ہوئی. ایک سردار نے کہا.

ہم زبردست قحط اور خشک سالی کا شکار ہیں جب کہ قریش کو اللہ تعالٰی نے بارش عطا کی ہے اور یہ عبد المطلب کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے ہم سب ان کے پاس چلتے ہیں، اگر وہ ہمارے لیے دعا کر دیں تو شاید اللہ ہمیں بھی بارش دے دے.

یہ مشورہ سب کو پسند آیا، چنانچہ یہ لوگ مکہ معظمہ میں آئے اور عبد المطلب سے ملے. انہیں سلام کیا پھر ان سے کہا.

اے عبد المطلب ہم کئی سال سے خشک سالی کے شکار ہیں ہمیں آپ کی برکت کے بارے میں معلوم ہوا ہے، اس لیے مہربانی فرما کر آپ ہمارے لیے بھی دعا کریں، اس لیے کہ اللہ نے آپ کی دعا سے قریش کو بارش عطا کی ہے.

ان کی بات سن کر عبد المطلب نے کہا.

اچھی بات ہے میں کل میدان عرفات میں آپ لوگوں کے لیے بھی دعا کروں گا.

دوسرے دن صبح سویرے عبد المطلب میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے. ان کے ساتھ دوسرے لوگوں کے علاوہ ان کے بیٹے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے. عرفات کے میدان میں عبد المطلب کے لیے ایک کرسی بچھائی گئی. وہ اس پر بیٹھ گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے گود میں بٹھا لیا، پھر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی.

اے اللہ، چمکنے والی بجلی کے پروردگار، اور کڑکنے والی گرج کے مالک، پالنے والوں کے پالنے والے، اور مشکلات کو آسان کرنے والے. یہ قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کے لوگ ہیں، یہ بہت پریشان ہیں، ان کی کمریں جھک گئی ہیں، یہ تجھ سے اپنی لا چاری اور بے کسی کی فریاد کرتے ہیں اور جان و مال کی بربادی کی شکایت کرتے ہیں پس اے اللہ، ان کے لیے خوب برسنے والے بادل بھیج دے اور آسمان سے ان کے لیے رحمت عطا فرما تاکہ ان کی زمینیں سرسبز ہو جائیں اور ان کی تکالیف دور ہو جائیں.

عبد المطلب ابھی یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ایک سیاہ بادل اٹھا، عبد المطلب کی طرف آیا اور اس کے بعد اس کا رخ قبیلہ قیس اور بنو مضر کی بستیوں کی طرف ہو گیا. یہ دیکھ کر عبد المطلب نے کہا.

اے گروہ قریش اور مضر جاؤ تمہیں سیرابی حاصل ہو گی.

چنانچہ یہ لوگ جب اپنی بستیوں میں پہنچے تو وہاں بارش شروع ہو چکی تھی.

آپ سات سال کے ہو چکے تھے کہ آپ کی آنکھیں دکھنے کو آگئیں. مکہ میں آنکھوں کا علاج کرایا گیا لیکن افاقہ نہ ہوا. عبد المطلب سے کسی نے کہا.

عکاظ کے بازار میں ایک راہب رہتا ہے وہ آنکھوں کی تکالیف کا علاج کرتا ہے.

عبد المطلب آپ کو اس کے پاس لے گئے. اس کی عبادت گاہ کا دروازہ بند تھا. انہوں نے اسے آواز دی. راہب نے کوئی جواب نہ دیا. اچانک عبادت گاہ میں شدید زلزلہ آیا. راہب ڈر گیا کہ کہیں عبادت خانہ اس کے اوپر نہ گر پڑے. اس لئے ایک دم باہر نکل آیا.

اب اس نے آپ کو دیکھا تو چونک اٹھا. اس نے کہا.

اے عبد المطلب. یہ لڑکا اس امت کا نبی ہے. اگر میں باہر نہ نکل آتا تو یہ عبادت گاہ ضرور مجھ پر گر پڑتی. اس لڑکے کو فوراً واپس لے جاؤ اور اس کی حفاظت کرو. کہیں یہودیوں یا عیسائیوں میں سے کوئی اسے قتل نہ کر دے.

پھر اس نے کہا

اور رہی بات ان کی آنکھوں کی... تو آنکھوں کی دعا تو خود ان کے پاس موجود ہے.

عبد المطلب یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے.

ان کے اپنے پاس ہے، میں سمجھا نہیں. ہاں. ان کا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگائیں.

انہیں نے ایسا ہی کیا، آنکھیں فوراً ٹھیک ہو گئیں.

پرانی آسمانی کتابوں میں آپ کی بہت سی نشانیاں لکھی ہوئی تھیں. اس کی تفصیل بہت دلچسپ ہے.

یمن میں ایک قبیلہ حمیر تھا. وہاں ایک شخص سیف بن یزن تھا. وہ سیف حمیری کہلاتا تھا. کسی زمانے میں اس کے باپ دادا اس ملک پر حکومت کرتے تھے لیکن پھر حبشیوں نے یمن پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا. وہاں حبشیوں کی حکومت ہو گئی. ستر سال تک یمن حبشیوں کے قبضے میں رہا، جب یہ سیف بڑا ہوا تو اس کے اندر اپنے باپ دادا کا ملک آزاد کرانے کی امنگ پیدا ہوئی، چنانچہ اس نے ایک فوج تیار کی. اس فوج کے ذریعے حبشیوں پر حملہ کیا اور انہیں یمن سے بھگا دیا. اس طرح وہ باپ دادا کے ملک کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گیا، وہاں کا بادشاہ بن گیا. یہ یمن عرب کا علاقہ تھا. جب اس پر حبشیوں نے قبضہ کیا تھا تو عربوں کو بہت افسوس ہوا. 70 سال بعد جب یمن کے لوگوں نے حبشیوں کو نکال باہر کیا تو عربوں کو بہت خوشی ہوئی. ان کی خوشی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہی حبشیوں نے ابرہہ کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تھی. چاروں طرف سے عربوں کے وفد سیف کو مبارک باد دینے کے لیے آنے لگے.

قریش کا بھی ایک وفد مبارک دینے کے لیے گیا. اس وفد کے سردار عبد المطلب تھے. یہ وفد جب یمن پہنچا تو سیف اپنے محل میں تھا. اس کے سر پر تاج تھا، سامنے تلوار رکھی تھی اور حمیری سردار اس کے دائیں بائیں بیٹھے تھے. سیف کو قریش کے وفد کی آمد کے بارے میں بتایا گیا، اسے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ لوگ کس رتبے کے ہیں. اس نے ان لوگوں کو آنے کی اجازت دے دی. یہ وفد دربار میں پہنچا. عبد المطلب آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے. انہوں نے بات کرنے کی اجازت چاہی، سیف نے کہا.

اگر تم بادشاہوں کے سامنے بولنے کے آداب سے واقف ہو تو ہماری طرف سے اجازت ہے

تب عبد المطلب نے کہا.

اے بادشاہ، ہم کعبہ کے خادم ہیں، اللہ کے گھر کے محافظ ہیں، ہم آپ کو مبارکباد دینے آئے ہیں. یمن پر حبشی حکومت ہمارے لیے بھی بوجھ بنی ہوئی تھی. آپ کو مبارک ہو، آپ کے اس کارنامے سے آپ کے بزرگوں کو بھی عزت ملے گی اور آنے والی نسلوں کو بھی وقار حاصل ہو گا.

سیف ان کے الفاظ سن کر بہت خوش ہوا، بے اختیار بول اٹھا.

اے شخص تم کون ہو، کیا نام ہے تمہارا؟

انہوں نے کہا.

میرا نام عبد المطلب بن ہاشم ہے.

سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا.

تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو.

عبد المطلب کی والدہ مدینے کے قبیلے خزرج کی تھیں اور خزرج کا قبیلہ دراصل یمن کا تھا. اس لیے سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا، تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو. پھر اس نے کہا.

ہم آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں.

اس کے بعد قریش کے وفد کو سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا. ان کی خوب خاطر مدارت کی گئی... یہاں تک کہ ایک ماہ گزر گیا. ایک ماہ کی مہمان نوازی کے بعد سیف نے انہیں بلایا. عبد المطلب کو اپنے پاس بلا کر اس نے کہا.

اے عبد المطلب، میں اپنے علم کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز تمہیں بتا رہا ہوں، تمہارے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میں ہر گز نہ بتاتا، تم اس راز کو اس وقت تک راز ہی رکھنا جب تک کہ خود اللہ تعالٰی اس راز کو ظاہر نہ فرما دے. ہمارے پاس ایک پوشیدہ کتاب ہے وہ پوشیدہ رازوں کا ایک خزانہ ہے. ہم دوسروں سے اس کو چھپا کر رکھتے ہیں. میں نے اس کتاب میں ایک بہت عظیم الشان خبر اور ایک بڑے خطرے کے بارے میں پڑھ لیا ہے... اور وہ آپ کے بارے میں ہے.

عبد المطلب یہ باتیں سن کر حد درجے حیرت زدہ ہوئے اور پکار اٹھے.

میں سمجھا نہیں، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں.

سنو، عبد المطلب، جب تہامہ کی وادی یعنی مکہ میں ایسا بچہ پیدا ہو جس کے دونوں کندھوں کے درمیان بالوں کا گچھا (یعنی مہر نبوت) ہو تو اسے امامت اور سرداری حاصل ہو گی اور اس کی وجہ سے تمہیں قیامت تک کے لیے اعزاز ملے گا، عزت ملے گی.

عبد المطلب نے یہ سن کر کہا.

اے بادشاہ. اللہ کرے آپ کو بھی ایسی خوش بختی میسر آئے، آپ کی ہیبت مجھے روک رہی ہے، ورنہ میں آپ سے پوچھتا کہ اس بچے کا زمانہ کب ہو گا.

بادشاہ نے جواب میں کہا.

یہی اس کا زمانہ ہے، وہ اسی زمانے میں پیدا ہو گا یا پیدا ہو چکا ہے اس کا نام محمد ہو گا، اس کی والدہ کا انتقال ہو جائے گا، اس کے دادا اور چچا اس کی پرورش کریں گے. ہم بھی اس کے آرزو مند رہے کہ وہ بچہ ہمارے ہاں پیدا ہو، اللہ تعالٰی اسے کھلے عام ظاہر فرمائے گا اور اس کے لیے ہم میں سے (یعنی مدینے کے قبیلے خزرج میں) اس نبی کے مددگار بنائے گا (ہم میں سے اس نے اس لیے کہا کہ خزرج اصل میں یمن کے لوگ تھے) ان کے ذریعے اس نبی کے خاندان اور قبیلے والوں کو عزت حاصل ہو گی اور ان کے ذریعے اس کے دشمنوں کو ذلت ملے گی اور ان کے ذریعے وہ تمام لوگوں سے مقابلہ کرے گا اور ان کے ذریعے زمین کے اہم علاقے فتح ہو جائیں گے. وہ نبی رحمان کی عبادت کرے گا، شیطان کو دھمکائے گا. آتش کدوں کو ٹھنڈا کرے گا (یعنی آگ کے پجاریوں کو مٹائے گا) بتوں کو توڑ ڈالے گا، اس کی ہر بات آخری فرمان ہو گی، اس کے احکامات انصاف والے ہوں گے، وہ نیک کاموں کا حکم دے گا، خود بھی ان پر عمل کرے گا، برائیوں سے روکے گا، ان کو مٹا ڈالےگا ۔

عبد المطلب نے سیف بن یزن کو دعا دی۔پھر کہا۔

کچھ اور تفصیل بیان کریں۔

بات ڈھکی چھپی ہے اور علامتیں پوشیدہ ہیں مگر اے عبد المطلب اس میں شبہ نہیں کہ تم اس کے دادا ہو۔

عبد المطلب یہ سن کر فوراً سجدے میں گر گئے اور پھر سیف نے ان سے کہا۔

اپنا سر اٹھاؤ،اپنی پیشانی اونچی کرو،اور مجھے بتاؤ، جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے،کیا تم نے ان میں سے کوئی علامت اپنے ہاں دیکھی ہے؟

اس پر عبد المطلب نے کہا۔

ہاں میرا ایک بیٹا تھا،میں اسے بہت چاہتا تھا،

میں نے ایک شریف اور معزز لڑکی آمنہ بنت وہب عبد مناف سے اس کی شادی کر دی،وہ میری قوم کے انتہائی باعزت خاندان سے تھی،اس سے میرے بیٹے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا،میں نے اس کا نام محمد رکھا،اس بچے کا باپ اور ماں دونوں فوت ہو چکے ہیں۔اب میں اور اس کا چچا ابو طالب اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

اب سیف نے ان سے کہا۔

میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے،وہ واقعہ اسی طرح ہے۔ اب تم اپنے پوتے کی حفاظت کرو،اسے یہودیوں سے بچائے رکھو،اس لیے کہ وہ اس کے دشمن ہیں،یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالٰی ہر گز ان لوگوں کو ان پر قابو نہیں پانے دے گا اور میں نے جو کچھ آپ کو بتایا ہے،اس کا اپنے قبیلے والوں سے ذکر نہ کرنا،مجھے ڈر ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے ان لوگوں میں حسد اور جلن نہ پیدا ہو جائے۔یہ لوگ سوچ سکتے ہیں،یہ عزت اور بلندی آخر انہیں کیوں ملنے والی ہے یہ لوگ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے اگر یہ لوگ اس وقت تک زندہ نہ رہے تو ان کی اولادیں یہ کام کریں گی اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ اس نبی کے ظہور سے پہلے ہی موت مجھے آ لے گی تو میں اپنے اونٹوں اور قافلے کے ساتھ روانہ ہوتا اور ان کی سلطنت کے مرکز یثرب پہنچتا،کیونکہ میں اس کتاب میں یہ بات پاتا ہوں کہ شہر یثرب ان کی سلطنت کا مرکز ہوگا، ان کی طاقت کا سرچشمہ ہو گا،ان کی مدد اور نصرت کا ٹھکانہ ہو گا اور ان کی وفات کی جگہ ہوگی اور انہیں دفن بھی یہیں کیا جائے گا اور ہماری کتاب پچھلے علوم سے بھری پڑی ہے۔مجھے پتا ہے اگر میں اسی وقت ان کی عظمت کا اعلان کروں تو خود ان کے لیے اور میرے لیے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔یہ ڈر نہ ہوتا تو میں اسی وقت ان کے بارے میں یہ تمام باتیں سب کو بتا دیتا۔عربوں کے سامنے ان کی سربلندی اور اونچے رتبے کی داستانیں سنا دیتا،لیکن میں نے یہ راز تمہیں بتایا ہے....تمہارے ساتھیوں میں سے بھی کسی کو نہیں بتایا۔

اس کے بعد اس نے عبد المطلب کے ساتھیوں کو بلایا،ان میں سے ہر ایک کو دس حبشی غلام،دس حبشی باندیاں اور دھاری دار یمنی چادریں،بڑی مقدار میں سونا چاندی،سو سو اونٹ اور عنبر کے بھرے ڈبے دییے۔پھر عبد المطلب کو اس سے دس گنا زیادہ دیا اور بولا۔

سال گزرنے پر میرے پاس ان کی خبر لے کر آنا اور ان کے حالات بتانا۔

سال گزرنے سے پہلے ہی اس بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔

عبد المطلب اکثر اس بادشاہ کا ذکر کیا کرتے تھے،آپ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو عبد المطلب کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح ایک عظیم سرپرست کا ساتھ چھوٹ گیا۔اس وقت عبد المطلب کی عمر 95 سال تھی۔تاریخ کی بعض کتابوں میں ان کی عمر اس سے بھی زیادہ لکھی ہے۔

جس وقت عبد المطلب کا انتقال ہوا۔آپ ان کی چارپائی کے پاس موجود تھے،آپ رونے لگے،عبد المطلب کو عجون کے مقام پر ان کے دادا قصی کے پاس دفن کیا گیا۔

مرنے سے پہلے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے بیٹے ابو طالب کے حوالے کیا۔اب ابو طالب آپ کے نگران ہوئے۔انہیں بھی آپ سے بے تحاشا محبت ہو گئی۔ ان کے بھائی عباس اور زبیر بھی آپ کا بہت خیال رکھتے تھے۔پھر زبیر بھی انتقال کر گئے تو آپ کی نگرانی آپ کے چچا ابو طالب ہی کرتے رہے۔

انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت محبت تھی۔جب انہوں نے آپ کی برکات دیکھیں، معجزے دیکھے تو ان کی محبت میں اور اضافہ ہو گیا۔ یہ مالی اعتبار سے کمزور تھے۔دو وقت سارے گھرانے کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ساتھ کھانا کھاتے تو تھوڑا کھانا بھی ان سب کے لیے کافی ہو جاتا۔سب کے پیٹ بھر جاتے۔اسی لیے جب دوپہر یا رات کے کھانے کا وقت ہوتا تو اور سب دسترخوان پر بیٹھتے تو ابو طالب ان سے کہتے۔

ابھی کھانا شروع نہ کرو،میرا بیٹا آ جائے پھر شروع کرنا۔

پھر آپ تشریف لے آتے اور ان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔آپ کی برکت اس طرح ظاہر ہوتی کہ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی کھانا بچ جاتا،اگر دودھ ہوتا تو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پینے کے لیے دیا جاتا،پھر ابو طالب کے بیٹے پیتے،یہاں تک کہ ایک ہی پیالے سے سب کے سب دودھ پی لیتے،خوب سیر ہو جاتے اور دودھ پھر بھی بچ جاتا،ابو طالب کے لیے ایک تکیہ رکھا رہتا تھا،وہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے تو آ کر سیدھے اس تکیے کے ساتھ بیٹھ جاتے،یہ دیکھ کر ابو طالب کہتے۔

میرے بیٹے کو اپنے بلند مرتبے کا احساس ہے۔

ایک بار مکہ میں قحط پڑ گیا،بارش بالکل نہ ہوئی،لوگ ایک دوسرے سے کہتے تھے،لات اور عزی سے بارش کی دعا کرو،کچھ کہتے تھے تیسرے بڑے بت منات پر بھروسہ کرو،اسی دوران ایک بوڑھے نے کہا۔

تم حق اور سچائی سے بھاگ رہے ہو،تم میں ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی نشانی موجود ہے، تم اسے چھوڑ کر غلط راستے پر کیوں جا رہے ہو۔

اس پر لوگوں نے اس سے کہا۔

کیا آپ کی مراد ابو طالب سے ہے؟

اس نے جواب میں کہا۔

ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔

اب سب لوگ ابو طالب کے گھر کی طرف چلے،وہاں پہنچ کر انہوں نے دروازے پر دستک دی،تو ایک خوبصورت آدمی باہر آیا،اس نے تہبند لپیٹ رکھا تھا، سب لوگ اس کی طرف بڑھے اور بولے۔

اے ابو طالب،وادی میں قحط پڑا ہے،بچے بھوکے مر رہے ہیں،اس لیے آؤ اور ہمارے لیے بارش کی دعا کرو۔

چنانچہ ابو طالب باہر آئے،ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،آپ ایسے لگ رہے تھے جیسے اندھیرے میں سورج نکل آیا ہو،ابو طالب کے ساتھ اور بھی بچے تھے لیکن انہوں نے آپ ہی کا بازو پکڑا ہوا تھا، اس کے بعد ابو طالب نے آپ کی انگلی پکڑ کر کعبے کا طواف کیا۔یہ طواف کر رہے تھے اور دوسرے لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے،جہاں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا لیکن پھر اچانک ہر طرف سے بادل گھر گھر کر آنے لگے،اس قدر زور دار بارش ہوئی کہ شہر اور جنگل سیراب ہو گئے۔

ابو طالب ایک بار ذی الحجاز کے میلے میں گئے،یہ جگہ عرفات سے تقریباً 8 کلو میٹر دور ہے۔ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،ایسے میں ابو طالب کو پیاس محسوس ہوئی۔انہوں نے آپ سے کہا۔

بھتیجے،مجھے پیاس لگی ہے۔

یہ بات انہوں نے اس لیے نہیں کہی تھی کہ آپ کے پاس پانی تھا....بلکہ اپنی بے چینی ظاہر کرنے کے لیے کہی تھی۔چچا کی بات سن کر آپ فورا سواری سے اتر آئے اور بولے۔

چچا جان آپ کو پیاس لگی ہے۔

انہوں نے کہا۔

ہاں بھتیجے۔پیاس لگی ہے۔

یہ سنتے ہی آپ نے ایک پتھر پر اپنا پاؤں مارا۔



یونٹ  9

شام کا سفر


جونہی آپ نے پتھر پر پاؤں مارا،اس کے نیچے سے صاف اور عمدہ پانی پھوٹ نکلا،انہوں نے ایسا پانی پہلے کبھی نہیں پیا تھا۔خوب سیر ہو کر پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا:

"بھتیجے!کیا آپ سیر ہوچکے؟"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"ہاں!"

آپ نے اسی جگہ اپنی ایڑی پھر ماری اور وہ جگہ دوبارہ ایسی خشک ہوگئی جیسے پہلے تھی۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند سال اپنے دوسرے چچا زبیر بن عبد المطلب کے ساتھ بھی رہے تھے۔اس زمانے میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان چچا کے ساتھ ایک قافلے میں یمن تشریف لے گئے۔راستے میں ایک وادی سے گذر ہوا۔اس وادی میں ایک سرکش اونٹ رہتا تھا۔گزرنے والوں کا راستہ روک لیتا تھا مگر جونہی اس نے نبی کریم کو دیکھا تو فوراً بیٹھ گیا اور زمین سے اپنی چھاتی رگڑنے لگا۔آپ اپنے اونٹ سے اتر کر اس پر سوار ہوگئے،اب وہ اونٹ آپ کو لے کر چلا اور وادی کے پار تک لے گیا۔اس کے بعد آپ نے اس اونٹ کو چھوڑدیا۔

یہ قافلہ جب سفر سے واپس لوٹا تو ایک ایسی وادی سے اس کا گزر ہوا جو طوفانی پانی سے بھری ہوئی تھی،پانی موجیں مار رہا تھا۔یہ دیکھ کر آپ نے قافلے والوں سے فرمایا:

"میرے پیچھے پیچھے آؤ۔"

پھر آپ اطمینان سے وادی میں داخل ہوگئے،باقی لوگ بھی آپ کے پیچھے تھے۔اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت سے پانی خشک کردیا اور آپ پورے قافلے کو لیے پار ہوگئے۔قافلہ مکہ پہنچا تو لوگوں نے یہ حیرت ناک واقعات بیان کئے۔لوگ سن کر بول اٹھے:

"اس لڑکے کی تو کچھ شان ہی نرالی ہے۔"

ابن ہشام لکھتے ہیں،بنولہب کا ایک شخص بہت بڑا قیافہ شناس تھا یعنی لوگوں کی شکل و صورت دیکھ کر ان کے حالات اور مستقبل کے بارے میں اندازہ لگایا کرتا تھا۔مکہ آتا تو لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لاتے وہ انہیں دیکھ دیکھ کر ان کے بارے میں بتاتا تھا۔ایک بار یہ آیا تو ابو طالب آپ کو بھی اس کے پاس لے گئے اور اس وقت آپ ابھی نوعمر لڑکے ہی تھے۔ قیافہ شناس نے آپ کو ایک نظر دیکھا، پھر دوسرے بچوں کو دیکھنے لگا۔فارغ ہونے کے بعد اس نے کہا:

"اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ۔"

ابو طالب نے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ قیافہ شناس نے ان کے بھتیجے کو عجیب نظروں سے دیکھا ہے لہٰذا وہ آپ کو لے کر وہاں سے نکل آئے تھے۔جب قیافہ شناس کو معلوم ہوا کہ آپ وہاں موجود نہیں ہیں تو وہ چیخنے لگا 

"تمہارا بُرا ہو،اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ جسے میں نے ابھی دیکھا ہے،اللہ کی قسم! وہ بڑی شان والا ہے۔"

ابو طالب نے نکلتے ہوئے اس کے یہ الفاظ سن لیے تھے۔

ابو طالب نے تجارت کی غرض سے شام جانے کا ارادہ کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ساتھ جانے کا شوق ظاہر فرمایا بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے جانے کے لئے خاص طور پر فرمائش کی۔ابو طالب نے آپ کا شوق دیکھ کر کہا:

"اللہ کی قسم!میں اسے ساتھ ضرور لے جاؤں گا،نہ یہ کبھی مجھ سے جدا ہوسکتا ہے،نہ میں اسے کبھی اپنے سے جدا کرسکتا ہوں۔"

ایک روایت میں یوں آیا ہے،آپ نے ابو طالب کی اونٹنی کی لگام پکڑلی اور فرمایا:

"چچا جان!آپ مجھے کس کے پاس چھوڑے جارہے ہیں؟میری نہ ماں ہے نہ باپ۔"

اس وقت آپ کی عمر مبارک نو سال تھی۔آخر ابو طالب آپ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔آپ کو اپنی اونٹنی پر بٹھایا۔راستے میں عیسائیوں کی ایک عبادت گاہ کے پاس ٹھہرے۔خانقاہ کے راہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو چونک اٹھا۔اس نے ابو طالب سے پوچھا:

"یہ لڑکا تمہارا کون ہے؟"

انہوں نے جواب دیا:

"یہ میرا بیٹا ہے۔"

یہ سن کر راہب نے کہا: 

"یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا۔"

یہ سن کر ابو طالب بہت حیران ہوئے،بولے:

"کیا مطلب...یہ کیوں میرا بیٹا نہیں ہوسکتا بھلا؟"

اس نے کہا:

"یہ ممکن ہی نہیں کہ اس لڑکے کا باپ زندہ ہو،یہ نبی ہے۔"

مطلب یہ تھا کہ ان میں جو نشانیاں ہیں وہ دنیا کے آخری نبی کی ہیں اور ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ یتیم ہوں گے۔ان کے باپ کا انتقال اسی زمانے میں ہو جائے گا جب کہ وہ ابھی پیدا ہونے والے ہوں گے۔اس لڑکے میں آنے والے نبی کی تمام علامات موجود ہیں۔ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ بچپن میں ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوجائے گا۔

اب ابو طالب نے اس راہب سے پوچھا:

"نبی کیا ہوتا ہے؟"

راہب نے کہا:

"نبی وہ ہوتا ہے جس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور پھر وہ زمین والوں کو ان کی اطلاع دیتا ہے...تم یہودیوں سے اس لڑکے کی حفاظت کرنا۔"

اس کے بعد ابو طالب وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک اور راہب کے پاس ٹھہرے۔یہ بھی ایک خانقاہ کا عابد تھا۔اس کی نظر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو یہی پوچھا:

"یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے؟"

ابو طالب نے اس سے بھی یہی کہا:

"یہ میرا بیٹا ہے۔"

راہب یہ سن کر بولا:

"یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا،اس کا باپ زندہ ہو ہی نہیں سکتا۔"

ابو طالب نے پوچھا: 

"وہ کیوں...؟"

راہب نے جواب میں کہا:

"اس لیے کہ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے۔اس کی آنکھیں ایک نبی کی آنکھیں ہیں یعنی اس نبی جیسی جو آخری امت کے لئے بھیجے جانے والے ہیں،ان کی علامات پرانی آسمانی کتابوں میں موجود ہیں۔"

اس کے بعد یہ قافلہ روانہ ہو کر بصری پہنچا۔یہاں بحیرا نام کا ایک راہب اپنی خانقاہ میں رہتا تھا۔اس کا اصل نام جرجیس تھا،بحیرااس کا لقب تھا۔ وہ بہت زبردست عالم تھا۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانے سے اس خانقاہ کا راہب،نسل در نسل یہ عالم فاضل خاندان ہی چلا آرہا تھا۔اس طرح اس زمانے میں ان کا سب سے بڑا عالم بحیرا ہی تھا۔

قریش کے لوگ اکثر بحیرا کے پاس سے گزرا کرتے تھے مگر اس نے کبھی ان سے کوئی بات نہیں کی تھی،مگر اس بار اس نے قافلے میں آپ کو دیکھ لیا تو پورے قافلے کے لئے کھانا تیار کروایا۔

بحیرا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بدلی سایہ کیے ہوئے تھی۔جب یہ قافلہ ایک درخت کے نیچے آ کر ٹھہرا تو اس نے بدلی کی طرف دیکھا،وہ اب اس درخت پر سایہ ڈال رہی تھی اور اس درخت کی شاخیں اس طرف جھک گئیں تھیں جدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ اس نے دیکھا،بہت سی شاخوں نے آپ کے اوپر جمگھٹا سا کرلیا تھا۔اصل میں ہوا یہ تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس درخت کے پاس پہنچے تو قافلے کے لوگ پہلے ہی سایہ دار جگہ پر قبضہ کر چکے تھے۔اب آپ کے لئے کوئی سایہ دار جگہ نہیں بچی تھی،چنانچہ آپ جب دھوپ میں بیٹھے تو شاخوں نے اپنا رخ تبدیل کرلیا اور آپ کے اوپر جمع ہوگئیں۔اس طرح آپ مکمل طور پر سائے میں ہوگئے۔بحیرا نے یہ منظر صاف دیکھا تھا۔آپ کی یہ نشانی دیکھ کر اس نے قافلے والوں کو پیغام بھجوایا۔

"اے قریشیو!میں نے آپ لوگوں کے لئے کھانا تیار کروایا ہے، میری خواہش ہے کہ آپ تمام لوگ کھانا کھانے آئیں یعنی بچے بوڑھے اور غلام سب آئیں۔"

بحیرا کا یہ پیغام سن کر قافلے میں سے ایک نے کہا:

"اے بحیرا...آج تو آپ نیا کام کررہے ہیں،ہم تو اکثر اس راستے سے گزرتے ہیں،آپ نے کبھی دعوت کا انتظام نہیں کیا،پھر آج کیا بات ہے۔"

بحیرا نے انہیں صرف اتنا جواب دیا:

"تم نے ٹھیک کہا،لیکن بس آپ لوگ مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کرنا بہت اچھی بات ہے۔"

اس طرح تمام لوگ بحیرا کے پاس پہنچ گئے...لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نہیں تھے۔انہیں پڑاؤ ہی میں چھوڑ دیا گیا تھا۔



یونٹ 10

 یہ تمہارا بیٹا نہیں 


آپ کو قافلے کے ساتھ اس لئے نہیں لے جایا گیا تھا کہ آپ کم عمر تھے۔آپ وہیں درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ ادھر بحیرا نے لوگوں کو دیکھا اور ان میں سے کسی میں اسے وہ صفت نظر نہ آئی جو آخری نبی کے بارے میں اسے معلوم تھی،نہ ان میں سے کسی پر وہ بدلی نظر آئی،بلکہ اس نے عجیب بات دیکھی کہ وہ بدلی وہیں پڑاؤ کی جگہ پر ہی رہ گئی تھی۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا بدلی وہیں ہے، جہاں اللہ کے رسول ہیں، تب اس نے کہا: 

"اے قریش کے لوگو! میری دعوت سے آپ میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔"

اس پر قریش نے کہا:

" اے بحیرا!جن لوگوں کو آپ کی اس دعوت میں لانا ضروری تھا،ان میں سے تو کوئی رہا نہیں...ہاں ایک لڑکا رہ گیا ہے جو سب سے کم عمر ہے۔"

بحیرا بولا:

"تب پھر مہربانی فرما کر اسے بھی بلالیں،یہ کس قدر بری بات ہے کہ آپ سب آئیں اور آپ میں سے ایک رہ جائے اور میں نے اسے آپ لوگوں کے ساتھ دیکھا تھا۔"

تب ایک شخص گیا اور آپ کو ساتھ لے کر بحیرا کی طرف روانہ ہوا۔اس وقت وہ بدلی آپ کے ساتھ ساتھ چلی اور تمام راستے اس نے آپ پر سایہ کئے رکھا۔بحیرا نے یہ منظر صاف دیکھا،وہ اب آپ کو اور زیادہ غور سے دیکھ رہا تھا اور آپ کے جسم مبارک میں وہ علامات تلاش کررہا تھا جو ان کی کتب میں درج تھیں۔

جب لوگ کھانا کھا چکے اور ادھر ادھر ہوگئے،تب بحیرا آپ کے پاس آیا اور بولا:

"میں لات اور عزی کے نام پر آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں،جو میں پوچھوں،آپ مجھے بتائیں۔"

اس کی بات سن کر آپ نے فرمایا:

"لات اور عزی (بتوں کے نام) کے نام پر مجھ سے کچھ نہ پوچھو!اللہ کی قسم!مجھے سب سے زیادہ نفرت انہی سے ہے۔"

اب بحیرا بولا:

"اچھا تو پھر اللہ کے نام پر بتائیں جو میں پوچھنا چاہتا ہوں۔"

تو آپ نے فرمایا:

"پوچھو! کیا پوچھنا ہے۔"

اس نے بہت سے سوالات کئے۔آپ کی عادات کے بارے میں پوچھا،اس کے بعد اس نے آپ کی کمر پر سے کپڑا ہٹا کر مہر نبوت کو دیکھا وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسا کہ اس نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا۔اس نے فوراً مہر نبوت کی جگہ کو بوسہ دیا۔قریش کے لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے اور حیران ہورہے تھے۔آخر لوگ کہے بغیر نہ رہ سکے:

"یہ راہب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )میں بہت دلچسپی لے رہا ہے...شاید اس کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔"

ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے کے بعد بحیرا ابو طالب کی طرف آیا اور بولا:

"یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے۔"

ابو طالب نے کہا:

"یہ میرا بیٹا ہے۔"

اس پر بحیرا نے کہا:

"نہیں!یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا،یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کا باپ زندہ ہو۔"

ابو طالب کو یہ سن حیرت ہوئی،پھر انہوں نے کہا: 

"دراصل یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔"

"ان کا باپ کہاں ہے۔"

"وہ فوت ہوچکا ہے،اس کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔" 

یہ سن کر بحیرا بول اٹھا:

"ہاں!یہ بات صحیح ہے اور ان کی والدہ کا کیا ہوا؟"

"ان کا ابھی تھوڑے عرصہ ہی پہلے انتقال ہوا ہے۔"

یہ سنتے ہی بحیرا نے کہا:

"بالکل ٹھیک کہا...اب تم یوں کرو کہ اپنے بھتیجے کو واپس وطن لے جاؤ،یہودیوں سے ان کی پوری طرح حفاظت کرو،اگر انہوں نے انہیں دیکھ لیا اور ان میں وہ نشانیاں دیکھ لیں جو میں نے دیکھی ہیں تو وہ انہیں قتل کرنے کی کوشش کریں گے تمہارا یہ بھتیجا نبی ہے، اس کی بہت شان ہے،ان کی شان کے بارے میں ہم اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہوا پاتے ہیں اور ہم نے اپنے باپ داداؤں سے بھی بہت کچھ سن رکھا ہے،میں نے یہ نصیحت کر کے اپنا فرض پورا کردیا ہے اور انہیں واپس لے جانا تمہاری ذمہ داری ہے۔"

ابو طالب بحیرا کی باتیں سن کر خوف زدہ ہوگئے۔ آپ کو لے کر مکہ واپس آگئے۔اس واقعے کے وقت آپ کی عمر نو سال تھی۔

اس عمر کے لڑکے عام طور پر کھیل کود میں ضرور حصہ لیتے ہیں،ان کھیلوں میں خراب اور گندے کھیل بھی ہوتے ہیں،اللہ تعالٰی نے آپ کو اس سلسلے میں بھی بالکل محفوظ رکھا۔

جاہلیت کے زمانے میں عرب جن برائیوں میں جکڑے ہوئے تھے،ان برائیوں سے بھی اللہ تعالٰی نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ایک واقعہ آپ نے خود بیان فرمایا:

"ایک قریشی لڑکا مکہ کے بالائی حصے میں اپنی بکریاں لئے،میرے ساتھ تھا۔میں نے اس سے کہا:

"تم ذرا میری بکریوں کا دھیان رکھو تاکہ میں قصہ گوئی کی مجلس میں شریک ہوسکوں،وہاں سب لڑکے جاتے ہیں۔"

اس لڑکے نے کہا:اچھا۔اس کے بعد میں روانہ ہوا۔ میں مکہ کے ایک مکان میں داخل ہوا تو مجھے گانے اور باجے کی آواز سنائی دی۔میں نے لوگوں سے پوچھا،یہ کیا ہورہا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک قریشی کی فلاں شخص کی بیٹی سے شادی ہورہی ہے۔میں نے اس طرف توجہ دی ہی تھی کہ میری آنکھیں نیند سے جھکنے لگیں،یہاں تک کہ میں سو گیا۔پھر میری آنکھ اس وقت کھلی جب دھوپ مجھ پر پڑی۔"

آپ واپس اس لڑکے کے پاس پہنچے۔تو اس نے پوچھا: تم نے وہاں جاکر کیا کیا؟میں نے اسے واقعہ سنا دیا۔دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا۔

مطلب یہ کہ قریش کی لغو مجلسوں سے اللہ تعالٰی نے آپ کو محفوظ رکھا۔

قریش کے ایک بت کا نام بوانہ تھا۔قریش ہر سال اس کے پاس حاضری دیا کرتے تھے۔اس کی بے حد عزت کرتے تھے۔اس کے پاس قربانی کا جانور ذبح کرتے،سر منڈاتے،سارا دن اس کے پاس اعتکاف کرتے۔ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ اس بت کے پاس حاضری دیتے، اس موقع کو قریش عید کی طرح مناتے تھے۔ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:

"بھتیجے!آپ بھی ہمارے ساتھ عید میں شریک ہوں۔"

آپ نے انکار فرمادیا۔ابو طالب ہر سال آپ کو شریک ہونے کے لئے کہتے رہے،لیکن آپ ہر بار انکار ہی کرتے رہے۔ آخر ایک بار ابو طالب کو غصہ آگیا۔آپ کی پھوپھیوں کو بھی آپ پر بے تحاشہ غصہ آیا،وہ آپ سے بولیں:

"تم ہمارے معبودوں سے اس طرح بچتے ہو اور پرہیز کرتے ہو،ہمیں ڈر ہے کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔"

انہوں نے یہ بھی کہا:

"محمد!آخر تم عید میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟"

ان کی باتوں سے تنگ آکر آپ ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں دور چلے گئے۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:

"میں جب بھی بوانہ یا کسی اور بت کے نزدیک ہوا،میرے سامنے ایک سفید رنگ کا بہت قد آور آدمی ظاہر ہوا،اس نے ہر بار مجھ سے یہی کہا: 

"محمد! پیچھے ہٹو!اس کو چھونا نہیں۔"



یونٹ 11

فجار کی جنگ


خانہ کعبہ میں تانبے کے دو بت تھے۔ان کے نام اساف اور نائلہ تھے۔طواف کرتے وقت مشرک برکت حاصل کرنے کے لئے ان کو چھوا کرتے تھے ۔

حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ آپ ﷺ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے، میں بھي آپ کے ساتھ تھا۔جب میں طواف کے دوران ان بتوں کے پاس سے گزرا تو میں نے بھی ان کو چھوا نبی پاک ﷺ نے فوراﹰ فرمایا:ان کو ہاتھ مت لگاؤ: 

اس کے بعد ہم طواف کرتے رہے،میں نے سوچا،ایک بار پھر بتوں کو چھونے کی کوشش کروں گا تاکہ پتا تو چلے،ان کو چھونے سے کیا ہوتاہے اور آپ نے کس لیے مجھے روکا ہے،چنانچہ میں نے ان کو پھر چھولیا،تب آپ نے سخت لہجے میں فرمایا:کیا میں نے تمہیں ان کو چھونے سے منع نہیں کیا تھا۔

اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں،نبی پاک ﷺ کبھی بھی کسی بت نہیں چھوا،یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو نبوت عطا فرمادی اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔

اسی طرح الله تعالٰی حرام چیزوں سے بھي آپ کی حفاظت فرماتے تھے مشرک بتوں کے نام پر جانور قربان کرتےتھے،پھر یہ گوشت تقسیم کردیا جاتاتھا یا پکا کر کھلا دیا جاتاتھا، لیکن آپ نے کبھی بھی ایسا گوشت نہ کھایا،خود آپ نے ایک بار ارشاد فرمایا: میں نے کبھی کوئی ایسی چیز نهیں چکھی جو بتوں کے نام پر ذبح کی گئی ہو،یہاں تک کہ الله تعالٰی نے مجھے نبوت عطا کردی: 

اسی طرح آپ سے پوچھا گیا: 

"کیا آپ نے بچپن میں کبھی بت پرستی کی؟ 

آپ نے ارشاد فرمایا نہیں " " 

آپ سے پھر پوچھاگیا: 

آپ نے کبھی شراب پی؟ 

جواب میں ارشادفرمایا: 

نہیں!حالانکہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ کتاب الله کیا ہے اور ایمان(کی تفصیل)کیا ہے: 

آپ ﷺ کے علاوہ بھی اس زمانے میں کچھ لوگ تھے جو جانوروں کے نام ذبح کیا گیا گوشت نہیں کھاتے تھے اور شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے ۔

۞ 

بچپن میں آپ نے بکریاں بھي چرائیں۔آپ مکہ کے لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔معاوضے کے طور پر آپ کو ایک سکہ دیا جاتاتھا۔آپ فرماتے ہیں: 

اللہ تعالٰی نے جتنے نبی بھیجے،ان سب نے بکریاں چرانے کا کام کیا۔میں مکہ والوں کی بکریاں قراریط (سکہ) کے بدلے چرایا کرتاتھا۔مکہ والوں کی بکریوں کے ساتھ آپ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کی بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔

پیغمبروں نے بکریاں کیوں چرائیں،اس کی وضاحت یوں بیان کی جاتی ہے:

اس کام میں الله تعالٰی کی زبردست حکمت ہے،بکری کمزور جانور ہے،لہٰذا جو شخص بکریاں چراتاہے،اس میں قدرتی طورپر نرمی،محبت اور انکساری کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے۔ہر کام اور پیشے کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاﹰ قصاب کے دل میں سختی ہوتی ہے،لوہار جفاکش ہوتاہے،مالی نازک طبع ہوتاہے،اب جو شخص بکریاں چراتا رہا،جب وہ مخلوق کی تربیت کا کام شروع کرےگا تو اس کی طبیعت میں سے گرمی اور سختی نکل چکی ہوتی ہے۔مخلوق کی تربیت کےلئے وہ بہت نرم مزاج ہوچکا ہوتاہے اور تبلیغ کے کام میں نرم مزاجی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔

۞

عربوں میں ایک شخص بدر بن معشر غفاری تھا۔یہ عکاظ کے میلے میں بیٹھا کرتا تھا۔لوگوں کے سامنے اپنی بہادری کے قصے سنایاکرتاتھا۔اپنی بڑائیاں بیان کرتاتھا۔ایک دن اس نے پیر پھیلا کر اور گردن اکڑا کر کہا: 

میں عربوں میں سے سب سے زیادہ عزت دار ہوں اور اگر کوئی خیال کرتاہے کہ وہ زیادہ عزت والا ہے تو تلوار کے زور پر یہ بات ثابت کر دکھائے: 

اس کے یہ بڑے بول سن کر ایک شخص کو غصہ آگیا۔وہ اچانک اس پر جھپٹا اور اس کے گھٹنے پر تلوار دے ماری۔اس کا گھٹنا کٹ گیا۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ گھٹنا صرف زخمی ہواتھا۔اس پر دونوں کے قبیلے آپس میں لڑ پڑے۔ان میں جنگ شروع ہوگئی۔اس لڑائی کو فجار کی پہلی لڑائی کہا جاتاہے،اس وقت آپ ﷺ کی عمر 10 سال تھی۔

فجار کی ایک اور لڑائی بنو عامر کی ایک عورت کی وجہ سے ہوئی۔اس میں بنو عامر بنو کنانہ سے لڑے، کیونکہ کنانہ کے ایک نوجوان نے اس قبیلے کی کسی عورت کو چھیڑا تھا۔

فجار کی تیسری لڑائی بھی بنو عامر اور بنو کنانہ کے درمیان ہوئی۔یہ لڑائی قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ہوئی۔

فجار کی ان تینوں لڑائیوں میں نبي ﷺ نے کوئی حصہ نہیں لیا۔البتہ فجار کی چوتھی لڑائی میں آپ نے شرکت فرمائی تھی۔عربوں کے ہاں چار مہینے ایسے تھے کہ ان میں کسی کا خون بہانا جائز نہیں تھا،یہ مہینے ذوالقعدہ،ذوالحج، محرم،اور رجب تھے۔یہ لڑائیاں چونکہ حرمت کے ان مہینوں میں ہوئیں،اس لیے ان کا نام فجار کی لڑائیاں رکھا گیافجار کا معنے ہے گناہ، یعنی یہ لڑائیاں ان کا گناہ تھا۔چوتھی لڑائی جس میں نبی کریم ﷺ نےبھی حصہ لیا،اس کا نام فجار برّاض ہے یہ لڑائی اس طرح شروع ہوئی: 

قبیلہ بنو کنانہ کے براض نامی ایک شخص نے ایک آدمی عروہ کو قتل کردیا۔عروہ کا تعلق قبیلہ ہوازن سے تھا ۔یہ واقعہ حرمت والے مہینے میں پیش آیا۔براض اور عروہ کے خاندان کے لوگ یعنی بنو کنانہ اور ہوازن اس وقت عکاظ کے میلے میں تھے۔وہیں کسی نے بنو کنانہ کو یہ خبر پہنچادی کہ براض نے عروہ کو قتل کردیاہے۔یہ خبر سن کر بنو کنانہ کے لوگ پریشان ہوئے کہ کہیں میلےہی میں ہوازن کے لوگ ان پر حملہ نہ کردیں،اس طرح بات بہت بڑھ جائے گی،چنانچہ وہ لوگ مکہ کی طرف بھاگ نکلے۔ہوازن کو اس وقت تک خبر نہیں ہوئی تھی۔انہیں کچھ دن یا کچھ وقت گزرنے پر خبر ہوئی، یہ بنو کنانہ پر چڑھ دوڑےلیکن بنو کنانہ حرم میں پناه لے چکےتھے۔عربوں میں حرم کے اندر خون بہانا حرام تھا۔اس لئے ہوازن رک گئے۔اس دن لڑائی نہ ہوسکی لیکن دوسرے دن بنو کنانہ کے لوگ خود ہی مقابلے کے لئے باہر نکل آئے،ان کی مدد کرنے کے لیے قبیلہ قریش بھي میدان میں نکل آیا۔اس طرح فجار کی یہ جنگ شروع ہوئی۔یہ جنگ چار یا چھ دن تک جاری رہی،اب چونکہ قریش بھی اس جنگ میں شریک تھے،لہٰذا آپ ﷺ کے چچا آپ کو بھي ساتھ لے گئے مگر آپ نے جنگ کے سب دنوں میں لڑائی میں حصہ نہیں لیا البته جس دن آپ میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو بنی کنانہ کو فتح ہونے لگتی اور جب آپ وہاں نہ پہنچتے تو انہیں شکست ہونے لگتی۔آپ نے اس جنگ میں صرف اتنا حصہ لیا کہ اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے رہے اور بس۔

چھ دن کی جنگ کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔آخر دونوں گروہوں میں صلح ہوگئی لیکن یہ کافی خون خرابے کے بعد ہوئی تھی۔

اس جنگ کے فوراﹰ بعد حلف الفضول کا واقعہ پیش آیا۔یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ قبیلہ زبید کا ایک شخص اپنا کچھ مال لے کر مکہ آیا۔اس سے یہ مال عاص بن وائل نے خرید لیا۔یہ عاص بن وائل مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا۔اس کی بہت عزت تھی۔اس نے مال تو لے لیا،لیکن قیمت ادا نہ کی،زبیدی اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کرتا رہا،لیکن عاص بن وائل نے رقم ادا نہ کی۔اب یہ زبیدی شخص اپنی فریاد لے کر مختلف قبیلوں کے پاس گیا۔ان سب کو بتایا کہ عاص بن وائل نے اس پر ظلم کیا ہے،لہٰذا اس کی رقم دلوائی جائے۔اب چونکہ عاص مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا، اس لیے ان سب لوگوں نے عاص کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کردیا،الٹا اسے ڈانٹ ڈپٹ کر واپس بھیج دیا۔جب زبیدی نے ان لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو دوسرے دن صبح سویرے وہ ابوقیس نامی پہاڑی پر چڑھ گیا۔قریش ابھی اپنے گھروں ہی میں تھے اوپر چڑھ کر اس نے بلند آواز سے چند شعر پڑھے جن کا خلاصہ یہ ہے: 

" اے فہر کی اولاد!ایک مظلوم کی مددکرو،جو اپنے وطن سے دور ہے اور جس کی تمام پونجی اس وقت مکہ کے اندر ہی ہے۔

اس زبیدی شخص کی یہ فریاد آپ ﷺ کے چچا زبیر بن عبد المطلب نے سن لی۔ان پر بہت اثر ہوا،انہوں نے عبداللہ بن جدعان کو ساتھ لیا اور اس آدمی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔پھر ان کے ساتھ بنو ہاشم،بنو زہرہ اور بنو اسد کے لوگ بھی شامل ہوگئے۔یہ سب عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے۔یہاں ان سب کو کھانا کھلایا گیا۔اس کے بعد ان سب سے خدا کے نام پر حلف لیا گیا۔حلف کے الفاظ یہ تھے: 

ہم ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے رہیں گے اور اس کا حق اسے دلاتے رہیں گے۔ اس حلف کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔اس عہد اور حلف کے موقع پر الله کے رسول ﷺ بھی قریش کے ساتھ موجود تھے۔



یونٹ 12

 نسطورا کی ملاقات


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عہد یعنی حلف الفضول کو بہت پسند فرمایا۔ آپ فرماتے تھے: 

’’میں اس عہد نامے میں شریک تھا۔ یہ عہد نامہ بنو جدعان کے مکان میں ہوا تھا۔ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اس عہد نامے سے دست بردار ہوجائیں اور اس کے بدلے میں سو اونٹ لے لیں تو میں نہیں لوں گا۔ اس عہد نامے کے نام پر اگر کوئی آج بھی مجھے آواز دے تو میں کہوں گا۔ میں حاضر ہوں۔‘‘

آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر آج بھی کوئی مظلوم یہ کہہ کر آواز دے، اے حلف الفضول والو! تو میں اس کی فریاد کو ضرور پہنچوں گا۔ کیوں کہ اسلام تو آیا ہی اس لئے ہے کہ سچائی کا نام بلند کرے اور مظلوم کی مدد اور حمایت کرے۔

یہ حلف الفضول بعد میں بھی جاری رہا۔ 

مکہ میں آپ کی امانت اور دیانت کی وجہ سے آپ کو امین کہہ کر پکارا جانے لگا تھا۔ آپ کا یہ لقب بہت مشہور ہوگیا تھا۔ لوگ آپ کو امین کے علاوہ اور کسی نام سے نہیں پکارتے تھے۔

انہی دنوں ابوطالب نے آپ سے کہا:

’’اے بھتیجے! میں ایک بہت غریب آدمی ہوں اور قحط سالی کی وجہ سے اور زیادہ سخت حالات کا سامنا ہے، کافی عرصہ سے خشک سالی کا دور چل رہا ہے، کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ اپنا کام چلاسکیں اور نہ ہماری کوئی تجارت ہے، ایک تجارتی قافلہ شام جانے والا ہے، اس میں قریش کے لوگ شامل ہیں۔ قریش کی ایک خاتون خدیجہ بنت خویلد شام کی طرف اپنا تجارتی سامان بھیجا کرتی ہیں، جو شخص ان کا مال لے کر جاتا ہے وہ اپنی اجرت ان سے طے کرلیتا ہے، اب اگر تم ان کے پاس جاؤ اور ان کا مال لے جانے کی پیش کش کرو تو وہ ضرور اپنا مال تمہیں دے دیں گی، کیوں کہ تمہاری امانت داری کی شہرت ان تک پہنچ چکی ہے، اگرچہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تم شام کے سفر پر جاؤ۔ یہودی تمہارے دشمن ہیں، لیکن حالات کی وجہ سے میں مجبور ہوں، اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں۔‘‘

یہاں تک کہہ کر ابوطالب خاموش ہوگئے، تب آپ نے فرمایا:

’’ممکن ہے، وہ خاتون خود میرے پاس کسی کو بھیجیں۔‘‘

یہ بات آپ نے اس لئے کہی تھی کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ایک بااعتماد آدمی کی ضرورت تھی اور اس وقت مکہ میں آپ سے زیادہ شریف، پاک باز، امانت دار، سمجھ دار اور قابل اعتماد آدمی کوئی نہیں تھا۔

ابوطالب اس وقت بہت پریشان تھے۔ آپ کی یہ بات سن کر انہوں نے کہا: 

’’اگر تم نہ گئے تو مجھے ڈر ہے، وہ کسی اور سے معاملہ طے کرلیں گی۔‘‘

یہ کہہ کر ابوطالب اٹھ گئے۔ ادھر آپ کو یقین سا تھا کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا خود ان کی طرف کسی کو بھیجیں گی اور ہوا بھی یہی۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا، پھر آپ سے کہا: 

’’میں نے آپ کی سچائی، امانت داری اور نیک اخلاق کے بارے میں سنا ہے اور اسی وجہ سے میں نے آپ کو بلوایا ہے، جو معاوضہ آپ کی قوم کے دوسرے آدمیوں کو دیتی ہوں،آپ کو ان سے دو گنا دوں گی۔‘‘

آپ نے ان کی بات منظور فرما لی۔پھر آپ اپنے چچا ابو طالب سے ملے۔انہیں یہ بات بتائی۔ ابو طالب سن کر بولے۔

یہ روزی تمہارے لئے اللہ نے پیدا فرمائی ہے۔‘‘

اس کے بعد آپ ﷺ سیدہ خدیجہ ؓ کا سامان تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔ سیدہ خدیجہ ؓ کے غلام میسرہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ روانگی کے وقت حضرت خدیجہ ؓ نے میسرہ سے کہا:

کسی معاملے میں ان کی نافرمانی نہ کرنا، جو یہ کہیں وہی کرنا، ان کی رائے سے اختلاف نہ کرنا۔‘‘

آپ ﷺ کے سب چچاؤں نے قافلے والوں سے آپ کی خبر گیری رکھنے کی درخواست کی۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ذمے داری کے لحاظ سے یہ آپﷺ کا پہلا تجارتی سفر تھا۔ گویا آپ ﷺاس کام میں بالکل نئے تھے۔

ادھر آپ روانہ ہوئے ادھر آپﷺ کا معجزہ شروع ہو گیا۔ ایک بدلی نے آپﷺ کے اوپرسایہ کر لیا۔آپﷺ کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ جب آپﷺ شام پہنچے تو بصری شہر کے بازار میں ایک درخت کے سائے میں اترے۔یہ درخت ایک عیسائی راہب نسطورا کی خانقاہ کے سامنے تھا۔ اس راہب نے میسرہ کو دیکھا تو خانقاہ سے نکل آیا۔ اس وقت اس نے آپﷺ کو دیکھا۔آپﷺ درخت کے نیچے ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس نے میسرہ سے پوچھا:

’’یہ شخص کون ہے جو اس درخت کے نیچے موجود ہے؟‘‘

میسرہ نے کہا:

’’یہ ایک قریشی شخص ہیں ۔حرم والوں میں سے ہیں۔‘‘

یہ سن کر راہب نے کہا:

اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کبھی کوئی آدمی نہیں بیٹھا۔‘‘

مطلب یہ تھا کہ اس درخت کے نیچے آج تک کوئی شخص نہیں بیٹھا، اللہ تعالی نے اس درخت کو ہمیشہ اس سے بچایا ہے کہ اس کے نیچے نبی کے سوا کوئی دوسرا شخص بیٹھے۔

اس کے بعد اس نے میسرہ سے پوچھا:

کیا ان کی آنکھوں میں سرخی ہے؟‘‘

میسرہ نے جواب دیا:

ہاں بالکل ہے اور یہ سرخی ان کی آنکھوں میں مستقل رہتی ہے۔‘‘

اب نسطورا نے کہا:

’’یہ وہی ہیں‘‘۔

میسرہ نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا اور بولے‘

کیا مطلب۔۔یہ وہی ہیں۔۔کون وہی؟‘‘

’’یہ آخری پیغمبر ہیں ۔کاش میں وہ زمانہ پا سکتا جب انہیں ظہور کا حکم ملے گا،یعنی جب انہیں نبوت ملے گی۔‘‘

اس کے بعد وہ چپکے سے آپﷺ کے پاس پہنچا، پہلے تو اس نے آپﷺ کے سر کو بوسہ دیا پھر آپﷺ کے قدموں کو بوسہ دیا اور بولا:

میں آپﷺ پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ وہی ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے تورات میں فرمایا ہے۔‘‘

اس کے بعد نسطورا نے کہا:

اے محمدﷺمیں نے آپﷺ میں وہ تمام نشانیاں دیکھ لی ہیں ،جو پرانی کتابوں میں آپﷺ کی نبوت کی علامتوں کے طور پر درج ہیں ۔صرف ایک نشانی باقی ہے، اس لئے آپﷺ ذرا اپنے کندھے سے کپڑا ہٹائیں۔‘‘

آپﷺ نے اپنے شانہ مبارک سے کپڑا ہٹا دیا۔تب نسطورا نے وہاں مہر نبوت کو جگمگاتے دیکھا۔ وہ فورا مہر نبوت کو چومنے کے لیے جھک گیا، پھر بولا:

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہونکہ آپﷺ اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں۔ آپﷺ کے بارے میں حضرت عیسی ابن مریم علیہما السلام نے خوش خبری دی تھی اور انہوں نے کہا تھا:

میرے بعد اس درخت کے نیچے کوئی نہیں بیٹھے گا، سوائے اس پیغمبر کے جو امی (یعنی ان پڑھ)ہاشمی ،عربی اور مکی (یعنی مکہ کے رہنے والے)ہوں گے۔

قیامت میں حوض کوثر اور شفاعت والے ہوں گے۔‘‘

اس واقعے کے بعد آپﷺ بصری کے بازار تشریف لے گئے۔ وہاں آپﷺ نے مال فروخت کیا جو ساتھ لائے تھے اور کچھ چیزیں خریدیں۔

اس خرید و فروخت کے دوران ایک شخص نے آپﷺ سے کچھ جھگڑا کیا اور بولا:

لات اور عزی کی قسم کھاؤ۔

آپﷺ نے فرمایا:

میں نے ان بتوں کے نام پر کبھی قسم نہیں کھائی۔‘‘

آپﷺ کا یہ جملہ سن کر وہ شخص چونک اٹھا۔



یونٹ 13

 سیدہ خدیجہ رضی الله عنها سے نکاح


شاید وہ گزشتہ آسمانی کتاب کا کوئی عالم تھا اور اُس نے آپ کو پہچان لیا تھا، چناچہ بولا: 

"آپ ٹھیک کہتے ہیں۔"

اس کے بعد اس نے میسرہ سے علیحدگی میں ملاقات کی، کہنے لگا:

"میسرہ! یہ نبی ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہی ہے جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔"

میسرہ نے اس کی اس بات کو ذہن نشین کر لیا۔ راستے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہ رہے،ان کی وجہ سے میسرہ قافلے کے پیچھے رہ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے اگلے حصے میں تھے۔میسرہ ان اونٹوں کی وجہ سے پریشان ہوا تو دوڑتا ہوا اگلے حصے کی طرف آیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں آپ کو بتایا۔ آپ اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے،ان کی کمر اور پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا۔ کچھ پڑھ کر دم کیا۔ آپ کا ایسا کرنا تھا کہ اونٹ اسی وقت ٹھیک ہوگئے اور اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے۔ اب وہ منہ سے آوازیں نکال رہے تھے اور چلنے میں جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔

پھر قافلے والوں نے اپنا سامان فروخت کیا۔اس بار انہیں اتنا نفع ہوا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، چنانچہ میسرہ نے آپ سے کہا: 

"اے محمد! ہم سالہا سال سے سیدہ خدیجہ کے لئے تجارت کر رہے ہیں، مگر اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی نہیں ہوا جتنا اس بار ہوا ہے۔"

آخر قافلہ واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا۔میسرہ نے اس دوران صاف طور پر یہ بات دیکھی کہ جب گرمی کا وقت ہوتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر ہوتے تھے تو دو فرشتے دھوپ سے بچانے کیلیے آپ پر سایہ کیے رہتے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے میسرہ کے دل میں آپ کی محبت گھر کر گئی اور یوں لگنے لگا جیسے وہ آپ کا غلام ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ اپ باقی قافلے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ آپ سیدھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے۔ وہ اس وقت چند عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے دور سے آپ کو دیکھ لیا۔ آپ اونٹ پر سوار تھے اور دو فرشتے آپ پر سایہ کئے ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ منظر دوسری عورتوں کو بھی دکھایا۔ وہ سب بہت حیران ہوئیں۔ 

اب آپﷺ نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو تجارت کے حالات سنائے۔منافع کے بارے میں بتایا۔ اس مرتبہ پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے پوچھا: 

"میسرہ کہاں ہے؟"

آپ نے بتایا:

"وہ ابھی پیچھے ہے۔"

یہ سن کر سیدہ نے کہا:

"آپ فوراً اس کے پاس جائیے اور اسے جلد از جلد میرے پاس لائیے۔"

آپ واپس روانہ ہوئے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دراصل آپ کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ پھر سے وہی منظر دیکھنا چاہتی تھیں۔ جاننا چاہتی تھیں کیا اب بھی فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں یا نہیں۔ جونہی آپ روانہ ہوئے، یہ اپنے مکان کے اوپر چڑھ گئیں اور وہاں آپ کو دیکھنے لگیں۔ آپ کی شان اب بھی وہی نظر آئی۔ اب اُنہیں یقین ہو گیا کہ اُن کی آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میسرہ کے ساتھ اُن کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میسرہ سے کہا:

"میں نے ان پر دو فرشتوں کو سایہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، کیا تم نے بھی کوئی ایسا منظر دیکھا ہے۔"

جواب میں میسرہ نے کہا:

"میں تو یہ منظر اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب قافلہ یہاں سے شام جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔"

اس کے بعد میسرہ نے نسطورا سے ملاقات کا حال سنایا۔ دوسرے آدمی نے جو کہا تھا، وہ بھی بتایا۔ جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھانے کے لیے کہا تھا، پھر اونٹوں والا واقعہ بتایا۔ یہ تمام باتیں سننے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو طے شدہ اجرت سے دوگنا دی۔ جب کہ طے شدہ اجرت پہلے ہی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی۔

ان تمام باتوں سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت حیران ہوئیں۔ اب وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے ملیں، یہ پچھلی کتابوں کے عالم تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں، جو کچھ خود دیکھا اورمیسرہ کی زبانی سنا تھا، وہ سب کہہ سُنایا۔ ورقہ بن نوفل اس وقت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے،اس سے پہلے وہ یہودی تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تمام باتیں سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا: 

"خدیجہ! اگر یہ باتیں سچ ہیں تو سمجھ لو، محمد اس امت کے نبی ہیں۔ میں یہ بات جان چکا ہوں کہ وہ اس امت کے ہونے والے نبی ہیں، دنیا کو انہی کا انتظار تھا۔ یہی ان کا زمانہ ہے۔"

یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے تجارتی سفر صرف ایک بار ہی نہیں کیا چند سفر اور بھی کیے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک شریف اور پاک باز خاتون تھیں۔ نسب کے اعتبار سے بھی قریش میں سب سے اعلیٰ تھیں۔ اُنہیں قریش کی سیدہ کہا جاتا تھا۔ قوم کے بہت سے لوگ اُن سے نکاح خواہشمند تھے، کئی نوجوانوں کے پیغام اُن تک پہنچ چکے تھے، لیکن انہوں نے کسی کے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کے سفر سے واپس آئے تو آپ ﷺ کی خصوصیات دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ متاثر ہو چکی تھیں لہٰذا انہوں نے ایک خاتون نفیسہ بنت منيه کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اُنہوں نے آکر آپ سے کہا کہ اگر کوئی دولتمند اور پاک باز خاتون خود آپ کو نکاح کی پیشکش کرے تو کیا آپ مان لیں گے۔

اُن کی بات سن کر آپ نے فرمایا: 

"وہ کون ہیں؟"

نفیسہ نے فوراً کہا:

"خدیجہ بنت خویلد۔"

آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ نفیسہ بنت منیہ سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا کے پاس آئیں۔ انہیں ساری بات بتائی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا عمرو بن اسد کو اطلاع کرائی، تاکہ وہ آکر نکاح کر دیں۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اس سے پہلے دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی۔ ان کا پہلا نکاح عتیق ابن مائد سے ہوا تھا۔ اس سے بیٹی ہندہ پیدا ہوئی تھی۔ عتیق کے فوت ہو جانے کے بعد سیدہ کا دوسرا نکاح ابوہالہ نامی شخص سے ہوا۔ ابوہالہ کی وفات کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوگی کی زندگی گزار رہی تھیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا ارادہ کر لیا۔ اس وقت سیدہ کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد وہاں پہنچ گئے، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کو لے کر پہنچ گئے۔ نکاح کس نے پڑھایا ، اس بارے روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ نکاح چچا ابوطالب نے پڑھایا تھا۔ مہر کی رقم کے بارے میں بھی روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ مہر کی رقم بارہ اوقیہ کے قریب تھی، دوسری روایت یہ ہے کہ آپ نے مہر میں بیس جوان اونٹنیاں دیں۔ 

نکاح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمے کی دعوت کھلائی اور اس دعوت میں آپ نے ایک یا دو اونٹ ذبح کیے۔




یونٹ 14

تین تحریریں


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35سال ہوئی تو مکہ میں زبردست سیلاب آیا۔ قریش نے سیلاب سے محفوظ رہنے کے لئے ایک بند بنا رکھا تھامگر یہ سیلاب اس قدر زبردست تھا کہ بند توڑکر کعبے میں داخل ہو گیا۔پانی کے زبردست ریلے اور پانی کے اندر جمع ہونے کی وجہ سے کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑگئے۔اس سے پہلے ایک مرتبہ یہ دیواریں آگ لگ جانے کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھیں اور یہ واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ ایک مرتبہ کوئی عورت کعبے کو دھونی دے رہی تھی کہ اس آگ میں سے ایک چنگاری اڑکر کعبے کے پردوں تک پہنچ گئی۔اس سے پردوں کو آگ لگ گئی اور دیواریں تک جل گئیں۔اس طرح دیواریں بہت کمزور ہو گئی تھیں،یہی وجہ تھی کہ سیلاب نے ان کو کمزور دیواروں میں شگاف کردیے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کی جو دیواریں اٹھائی تھیں،وہ نو گز اونچی تھیں۔ان پر چھت نہیں تھی۔لوگ کعبے کے لئے نذرانے وغیرہ لاتے تھے۔یہ نذرانے کپڑے اور خوشبو ئیں وغیرہ ہوتی تھیں۔کعبے کے اندر جو کنواں تھا،یہ سب نذرانے اس کنوئیں میں ڈال دیئے جاتے تھے،کنواں اندرونی حصے میں دائیں طرف تھا۔ اس کو کعبے کا خزانہ کہا جاتا تھا۔ کعبے کے خزانے کو ایک مرتبہ ایک چور نے چرانے کی کوشش کی،چور کنوئیں ہی میں مر گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اس کی حفاظت کے لیے ایک سانپ کو مقرر کر دیا۔یہ سانپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہتا تھا۔ کسی کو خزانے کے نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔ قریش بھی اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔اب جب کہ کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کا مسئلہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کو بھیجا،وہ اس سانپ کو اٹھا لے گیا۔(البدایہ والنہایہ)

یہ دیکھ کر قریش کے لوگ بہت خوش ہوئے۔اب انہوں نے نئے سرے سے کعبے کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا۔اور پروگرام بنایا کہ بنیادیں مضبوط بنا کر دیواروں کو زیادہ اونچا اٹھایا جائے۔اس طرح دروازے کو بھی اونچا کردیا جائے گا تاکہ کعبے میں کوئی داخل نہ ہو۔ صرف وہی شخص داخل ہو جسے وہ اجازت دیں۔ 

اب انہوں نے پتھر جمع کیے۔ ہر قبیلہ اپنے حصے کے پتھر الگ جمع کررہا تھا۔چندہ بھی جمع کیا گیا۔چندے میں انہوں نے پاک کمائی دی۔ ناپاک کمائی نہیں دی۔مثلاًطوائفوں کی آمدنی،سود کی کمائی،دوسروں کا مال غصب کرکے حاصل کی گئی دولت چندے میں نہیں دی اور پاک کمائی انہوں نے بلاوجہ نہیں دی تھی۔ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا۔جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس کام میں صرف پاک کمائی لگائی جائے گی۔ وہ واقعہ یوں تھا:

ایک قریشی سردار ابو وہب عمرو بن عابد نے جب یہ کام شروع کرنے کے لیے ایک پتھر اٹھایا تو پتھر اس کے ہاتھ سے نکل کر پھر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے اسے اٹھایا گیا تھا۔اس پر قریشی حیران وپریشان ہوئے۔آخر خود وہب کھڑا ہوا اور بولا:

"اے گروہ ِقریش ! کعبے کی بنیادوں میں سوائے پاک مال کے کوئی دوسرا مال شامل مت کرنا۔ بیت اللہ کی تعمیر میں کسی بدکار عورت کی کمائی،سود کی کمائی یا زبردستی حاصل کی گئی دولت ہرگز شامل نہ کرنا۔"

یہ وہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کا ماموں تھا اور اپنی قوم میں ایک شریف آدمی تھا۔

جب قریش کے لوگ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھورہے تھے تو ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ. بھی پتھر ڈھونے میں شریک تھے۔آپ پتھر اپنی گردن پر رکھ کر لا رہے تھے ۔تعمیر شروع کرنے سے پہلے قریش کےلوگوں نے خوف محسوس کیا کہ دیواریں گرانے سے کہیں ان پر کوئ مصیبت نہ نازل ہو جائے ۔آخر ایک سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:”کعبہ کی دیواریں گرانے سے تمہارا ارادہ اصلاح اور مرمت کا ہے یا اس کو خراب کرنے کا„

جواب میں لوگوں نے کہا ظاہر ہے ہم تو مرمت اور اصلاح چاہتے ہیں; یہ سن کر ولید نےکہا;

"تب پھر سمجھ لو: اللہ تعالی اصلاح کرنے والوں کو برباد نہیں کرتا۔"

پھرولید ہی نے گرانے کے کام کی ابتدا کی لیکن اس نےبھی صرف ایک حصہ ہی ہی گرایاتاکہ معلوم ہو جائے کہ ان پر کوئ تباہی تو نہیں آتی ۔جب وہ رات خیریت سے گزر گئی. تب دوسرے دن سب لوگ اس کے ساتھ شریک ہو گئے اور پوری عمارت گرادی ۔یہاں تک کہ اسکی بنیاد تک پہنچ گئے۔یہ بنیاد ابراہیم علیہ السلام کےہاتھ کی رکھی ہوئ تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نےبنیادوں میں سبز رنگ کے پتھر رکھے تھے ۔یہ پتھر اونٹ کے کوہان کی طرح کے تھے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، ان لوگوں کے لئے انکو توڑ نا بہت مشکل کام. ثابت ہوا۔

دائیں کونے کے نیچے سے قریش کو ایک تحریر ملی، وہ تحریر سریانی زبان میں لکھی ہوئی تھی۔انہیں سریانی زبان نہیں آتی تھی، آخر ایک یہودی کو تلاش کرکے لایا گیا، اس نےوہ تحریر پڑھ کر انہیں سنائی تحریر یہ تھی ۔

"میں اللہ ہوں، مکّہ کا مالک جسکو میں نے اس دن پیدا. کیا جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، جس دن میں نے سورج اور چاند بنائے ۔میں نے اس کو یعنی. مکہ کو سات فرشتوں کے ذریعہ گھیر دیاہے۔اسکی عظمت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی"

جب تک کہ اس کے دونوں طرف پہاڑ موجود ہیں، ان پہاڑوں سے مراد ایک تو ابو قیس پہاڑ ہے جو کہ صفا پہاڑی کے سامنے ہے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ ہے جو مکہ کے قریب ہے اور جس کا رخ ابو قیس پہاڑ کی طرف ہے۔ اور یہ شہر اپنے باشندوں کے لیے پانی اور دودھ کے لحاظ سے بہت بابرکت اور نفع والا ہے"۔

یہ پہلی تحریر تھی۔ دوسری مقام ابراھیم سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:

"مکہ اللہ تعالیٰ کا محترم اور معظم شہر ہے۔ اس کا رزق تین راستوں سے اس میں آتا ہے"۔

یہاں تین راستوں سے مراد قریش کے تین تجارتی راستے ہیں۔ ان راستوں سے قافلے آتے جاتے تھے۔

تیسری تحریر اس سے کچھ فاصلے سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:

"جو بھلائی بوئے گا لوگ اس پر رشک کریں گے یعنی اس جیسا بننے کی کوشش کریں گے اور جو شخص رسوائی بوئے گا وہ رسوائی اور ندامت پائے گا۔ تم برائیاں کرکے بھلائی کی آس لگاتے ہو، ہاں! یہ ایسا ہی ہے جیسے کیکر یعنی کانٹے دار درخت میں کوئی انگور تلاش کرے"۔

یہ تحریر کعبے کے اندر پتھر پر کھدی ہوئی ملی۔ کعبے کی تعمیر کے سلسلے میں قریش کو پتھروں کے علاوہ لکڑی کی بھی ضرورت تھی۔ چھت اور دیواروں میں لکڑی کی ضرورت تھی۔ لکڑی کا مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک جہاز عرب کے ساحل سے آکر ٹکراگیا، آج اس مقام کو جدہ کا ساحل کہا جاتا ہے، پہ پہلے یہ مکہ کا ساحل کہلاتا تھا اس لیے کہ مکہ کا قریب ترین ساحل یہی تھا۔ ساحل سے ٹکرا کر جہاز ٹوٹ گیا۔ وہ جہاز کسی رومی تاجر کا تھا۔ اس جہاز میں شاہ روم کے لیے سنگ مرمر، لکڑی اور لوہے کا سامان لے جایا جارہا تھا۔ قریش کو اس جہاز کے بارے میں پتا چلا تو یہ لوگ وہاں پہنچے اور ان لوگوں سے لکڑی خرید لی۔ اس طرح چھت کی تعمیر میں اس لکڑی کو استعمال کیا گیا۔ آخر خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام حجر اسود تک پہنچ گیا۔ اب یہاں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ حجر اسود کون اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھے گا۔

ہر قبیلہ یہ فضیلت خود حاصل کرنا چاہتا تھا۔

یہ جھگڑا اس حد تک بڑھا کہ مرنے مارنے تک نوبت آگئی۔ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تل گئے۔

قبیلہ عبد الدار نے تو قبیلہ عدی کے ساتھ مل کر ایک برتن میں خون بھرا اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبو کر کہا:

"حجر اسود ہم رکھیں گے"۔

اسی طرح دوسرے قبیلے بھی اڑگئے۔ تلواریں نیاموں سے نکل آئیں۔



یونٹ 15

حجر اسود کون رکھےگا؟


آخروہ سب بیت اللہ میں جمع ہوئے-ان لوگوں میں ابوامیہ بن مغیرہ تھا-اس کانام حذیفہ تھا-قریش کےپورےقبیلےمیں یہ سب سےزیادہ عمروالاتھا-یہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہؓ کا باپ تھا-قریش کے انتہائی شریف لوگوں میں سےتھا-مسافروں کوسفرسامان اورکھاناوغیرہ دینے کےسلسلےمیں بہت مشہور تھا-جب کبھی سفر کرتاتواپنےساتھیوں کےکھانےپینےکاسامان خودکرتاتھا-

اس وقت اس شدیدجھگڑےکوختم کرنےکےلیےاس نےایک حل پیش کیا-اس نےسب سےکہا: 

اےقریش کےلوگواپناجھگڑاختم کرنےکےلیےتم یوں کروکہ حرم کےصفانامی دروازےسےجوشخص سب سےپہلےداخل ہو، اس سےفیصلہ کرالو-وہ تمہارےدرمیان جو فیصلہ کرے، وہ سب اس کومان لیں،،- 

یہ تجویزسب نےمان لی-آج اس دروازےکوباب السلام کہاجاتاہے-یہ دروازہ رکن یمانی اور رکن اسودکےدرمیانی حصے کے سامنےہے-

اللہ کی قدرت کہ اس دروازےسے سب سے پہلےحضورنبیﷺتشریف لائے-قریش نے جیسے ہی آپ کودیکھا، پکاراٹھے:

’’یہ تو امین ہیں، یہ تو محمد ہیں، ہم ان پر راضی ہیں۔‘‘

اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ قریش اپنے آپس کے جھگڑوں کے فیصلے آپ ہی سے کرایا کرتے تھے۔ آپ کسی کی بے جا حمایت نہیں کرتے تھے، نہ بلا وجہ کسی کی مخالفت کرتے تھے۔

پھر ان لوگوں نے اپنے جھگڑے کی تفصیل آپ کو سنائی۔ ساری تفصیل سن کر آپ نے فرمایا:

’’ایک چادر لے آؤ۔‘‘

وہ لوگ چادر لے آئے۔ آپ نے اس چادر کو بچھایا اور اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:

’’ہر قبیلے کے لوگ اس چادر کا ایک ایک کنارہ پکڑلیں، پھر سب مل کر اس کو اٹھائیں۔‘‘

انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چادر کو اٹھائے ہوئے وہ اس مقام تک آگئے جہاں حجر اسود کو رکھنا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم نے حجر اسود کو اٹھاکر اس کی جگہ رکھنا چاہا، لیکن عین اسی وقت ایک نجدی شخص آگے بڑھا اور تیز آواز میں بولا:

’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے ایک کم عمر نوجوان کو اپنا راہنما بنالیا ہے، اس کی عزت افزائی میں لگ گئے ہو، یاد رکھو، یہ شخص سب کو گروہوں میں تقسیم کردے گا، تم لوگوں کو پارہ پارہ کردے گا۔‘‘

قریب تھا کہ لوگوں میں اس کی باتوں سے ایک بار پھر جھگڑا ہوجائے، لیکن پھر خود ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ لڑانے والا نہیں، لڑائی ختم کرنے والا ہے، چنانچہ حجر اسود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی جگہ پر رکھ دیا۔

مورخوں نے لکھا ہے، یہ نجدی شخص دراصل ابلیس تھا جو اس موقع پر انسانی شکل میں آیا تھا۔

جب کعبے کی تعمیر مکمل ہوگئی تو قریش نے اپنے بتوں کو پھر سے اس میں سجادیا - کعبے کی یہ تعمیر جو قریش نے کی، چوتھی تعمیر تھی - سب سے پہلے کعبے کو فرشتوں نے بنایا تھا - بعض صحابہ نے فرمایا ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی کے اوپر تھا، جب عرش کو پانی پر ہونے کی وجہ سے حرکت ہوئی تو اس پر یہ کلمہ لکھا گیا:

لَا إِِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰه 

اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اللہ تعالٰی کے رسول ہیں - 

اس کلمے کے لکھے جانے کے بعد عرش ساکن ہوگیا - پھر جب اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے پانی پر ہوا کو بھیجا - اس سے پانی میں موجیں اُٹھنے لگیں، اور بخارات اٹھنے لگے - اللہ تعالیٰ نے ان بخارات یعنی بھاپ سے آسمان کو پیدا فرمایا - پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی جگہ سے پانی کو ہٹادیا، جگہ خشک ہوگئی، چنانچہ یہی بیت اللہ کی جگہ ساری زمین کی اصل ہے اور اس کا مرکز ہے - یہی خشکی بڑھتے بڑھتے سات براعظم بن گئی - جب زمین ظاہر ہوگئی تو اس پر پہاڑ قائم کیے گئے - زمین پر سب سے پہلا پہاڑ ابو قبیس ہے - 

پھر اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم فرمایا:

"زمین پر میرے نام کا ایک گھر بناؤ تاکہ آدم کی اولاد اس گھر کے ذریعے میری پناہ مانگے - انسان اس گھر کا طواف کریں، جس طرح تم نے میرے عرش کے گرد طواف کیا ہے، تاکہ میں ان سے راضی ہوجاؤں -" 

فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی - پھر آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی - اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی - اس طرح قریش کے ہاتھوں یہ تعمیر چوتھی بار ہوئی تھی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی تو وحی کے آثار شروع ہوگئے، اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے۔ آپ جو خواب دیکھتے وہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے سچے خوابوں کا سلسلہ اس لئے شروع کیا کہ اچانک فرشتے کی آمد سے کہیں آپ خوفزدہ نہ ہوجائیں۔ ان دنوں ایک بار آپ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: 

’’جب میں تنہائی مٰیں جاکر بیٹھتا ہوں تو مجھے آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔ کوئی کہتا ہے، اے محمد ۔۔۔۔ اے محمد۔۔۔‘‘

ایک بار آپ نے فرمایا:

’’مجھے ایک نور نظر آتا ہے، یہ نور جاگنے کی حالت میں نظر آتا ہے۔ مجھے ڈر ہے، اس کے نتیجے میں کوئی بات نہ پیش آجائے۔‘‘

ایک بار آپ نے یہ بھی فرمایا:

’’اللہ کی قسم! مجھے جتنی نفرت ان بتوں سے ہے، اتنی کسی اور چیز سے نہیں۔‘‘

وحی کے لئے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتے اسرافیل کو آپ کا ہم دم بنادیا تھا۔ آپ ان کی موجودگی کو محسوس تو کرتے تھے، مگر انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس طرح آپ کو نبوت کی خوش خبریاں دی جاتی رہیں۔ آپ کو وحی کے لیے تیار کیا جاتا رہا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں تنہائی کا شوق پیدا فرمادیا تھا، چنانچہ آپ کو تنہائی عزیز ہوگئی۔ آپ غار حرا میں چلے جاتے اور وہاں وقت گزارتے۔ اس پہاڑ سے آپ کو ایک بار آواز بھی سنائی دی تھی:

’’میری طرف تشریف لائیے۔ اے اللہ کے رسول۔‘‘

اس غار میں آپ مسلسل کئی کئی راتیں گزارتے۔ اللہ کی عبادت کرتے۔ کبھی آپ تین راتوں تک وہاں ٹھہرے رہتے، کبھی سات راتوں تک۔ کبھی پورا مہینہ وہاں گزاردیتے۔ آپ جو کھانا ساتھ لے جاتے تھے، جب ختم ہوجاتا تو گھر تشریف لے جاتے، یہ کھانا عام طور پر زیتون کا تیل اور خشک روٹی ہوتا تھا۔ کبھی کھانے میں گوشت بھی ہوتا تھا۔ غار حرا میں قیام کے دوران کچھ لوگ وہاں سے گزرتے اور ان میں کچھ مسکین لوگ ہوتے تو آپ انہیں کھانا کھلاتے۔

غار حرا میں آپ عبادت کس طرح کرتے تھے۔ روایات میں اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ علما کرام نے اپنا اپنا خیال ضرور ظاہر کیا ہے۔ ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ آپ کائنات کی حقیقت پر غور وفکر کرتے تھے اور یہ غور وفکر لوگوں سے الگ رہ کر ہی ہوسکتا تھا۔ 

پھر آخر کار وہ رات آگئی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور رسالت عطا فرمادی۔ آپ کی نبوت کے ذریعہ اپنے بندوں پر عظیم احسان فرمایا۔ وہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور تاریخ سترہ تھی۔ بعض علما نے یہ لکھا ہے کہ وہ رمضان کا مہینہ تھا، کیوں کہ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ آتھویں اور تیسری تاریخ بھی روایات میں آئی ہے اور یہ پہلا موقع تھا جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آپ کی خدمت مین حاضر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ آپ کے پاس نہیں آئے تھے۔ جس صبح جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے، وہ پیر کی صبح تھی اور پیر کی صبح ہی آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: 

’’پیر کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ میں پیر کے دن پیدا ہوا، پیر کے دن ہی مجھے نبوت ملی۔‘‘

بہر حال اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ اس وقت آپ کی عمر مبارک کا چالیس واں سال تھا۔ آپ اس وقت نیند میں تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لے آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک ریشمی کپڑا تھا اور اس کپڑے میں ایک کتاب تھی۔



 یونٹ 16

 پہلی وحی


انہوں نے آتے ہی کہا: 

’’اقرأ۔ یعنی پڑھئے۔

آپ نے فرمایا: 

’’میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ (یعنی میں پڑھا لکھا نہیں)۔

اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو سینے سے لگاکر بھینچا۔ آپ فرماتے ہیں، انہوں نے مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھے موت کا گمان ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑدیا، پھر کہا:

’’پڑھیے۔ ’’یعنی جو میں کہوں، وہ پڑھیے۔ اس پر آپ نے فرمایا:

میں کیا پڑھوں؟‘‘

تب جبرائیل علیہ السلام نے سورۃ العلق کی یہ آیات پڑھیں:

ترجمہ: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! آپ (پر جو قرآن نازل ہوا کرے گا) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے (یعنی جب پڑھیں، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر پڑھا کیجئے) جس نے مخلوقات کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قران پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے (جو چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور ایسا ہے) جس نے لکھے پڑھوں کو قلم سے تعلیم دی۔ (اور عام طور پر) انسانوں کو (دوسرے ذریعوں سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔

آپ فرماتے ہیں:

’’میں نے ان آیتوں کو اسی طرح پڑھ دیا جس کے بعد وہ فرشتہ میرے پاس سے چلا گیا، ایسا لگتا تھا گویا میرے دل میں ایک تحریر لکھ دی گئی ہو، یعنی یہ کلمات مجھے زبانی یاد ہوگئے، اس کے بعد آپ گھر تشریف لائے۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب غار میں آئے تو پہلے انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے:

’’اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔‘‘

آپ کی گھر تشریف آوری سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسب معمول آپ کے لئے کھانا تیار کرکے ایک شخص کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوادیا تھا مگر اس شخص کو آپ غٓار میں نظر نہ آئے۔ اس شخص نے واپس آکر یہ بات سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا کو بتائی۔ انہوں نے آپ کی تلاش میں آپ کے عزیزواقارب کے گھر آدمی بھیجے۔ مگر آپ وہاں بھی نہ ملے۔ اس لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پریشان ہوگئیں۔ وہ ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ آٓپ تشریف لے آئے۔ آپ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اس کی تفصیل سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا سے بیان فرمائی۔ حضرت جبرائیل کا یہ جملہ بھی بتایا کہ اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں۔

یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:

’’آپ کو خوش خبری ہو۔۔۔ آپ یقین کیجئے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔‘‘

پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ غار والا سارا واقعہ انہیں سنایا۔ ورقہ بن نوفل پرانی کتابوں کے عالم تھے۔ ساری بات سن کر وہ پکار اٹھے:

’’قدوس۔۔۔ قدوس۔۔۔ قسم ہے، اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، خدیجہ! اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں، ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرئیل آئے تھے جو موسی علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے۔ محمد اس امت کے نبی ہیں۔ یہ اس بات پر یقین کرلیں۔‘‘

قدوس کا مطلب ہے، وہ ذات جو ہر عیب سے پاک ہو۔ یہ لفظ تعجب کے وقت بولا جاتا ہے جیسے ہم کہہ دیتے ہیں، اللہ۔۔۔ اللہ۔

ورقہ بن نوفل کو جبرئیل کا نام سن کر حیرت اس لئے ہوئی تھی کہ عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا۔ 

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کے سر کو بوسہ دیا تھا اور پھر کہا تھا:

’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیں گے۔ میں آپ کی مدد کرتا، اس عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں، جب آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی، آپ کو تکالیف پہنچائے گی۔ آپ کے ساتھ جنگیں لڑی جائیں گی اور آپ کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کا ساتھ دوں گا، اللہ کے دین کی حمایت کروں گا۔‘‘

آپ یہ سن کر حیران ہوئے اور فرمایا:

’’میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی؟‘‘

جواب میں ورقہ نے کہا:

’’ہاں! اس لئے کہ جو چیز آپ لے کر آئے ہیں، اسے لے کر جو بھی آٓیا، اس پر ظلم ڈھائے گئے۔۔۔ اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں ضرور آپ کی پوری مدد کروں گا۔‘‘

ورقہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی کہا:

’’تمہارے خاوند بے شک سچے ہیں، درحقیقت یہ باتیں نبوت کی ابتدا ہیں۔۔۔ یہ اس امت کے نبی ہیں۔‘‘

لیکن اس کے کچھ ہی مدت بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ انہیں حجون کے مقام پر دفن کیا گیا۔ چونکہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی تھی۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے : 

" میں نے ورقہ کو جنت میں دیکھا ہے۔ان کے جسم پر سرخ لباس تھا"۔

ورقہ سے ملاقات کے بعد آپ گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک مدت تک جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے نہیں آئے۔ درمیان میں جو وقفہ ڈالا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ آپ کے مبارک دل پر جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ کر جو خوف پیدا ہوگیا تھا، اس کا اثر زائل ہوجائے اور ان کے نہ آنے کی وجہ سے آپ کے دل میں وحی کا شوق پیدا ہوجائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جبرئیل علیہ السلام کی آمد کے بعد سلسلہ رک جانے کے بعد آپ کوصدمہ ہوا ۔ کئی بار آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے، تاکہ خود کو وہاں سے گرا کر ختم کردیں، لیکن جب بھی آپ ایسا کرنے کی کوشش کرتے، جبرائیل علیہ السلام آپ کو پکارتے: 

" اے محمد! آپ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے رسول ہے۔" 

یہ کلمات سن کر آپ سکون محسوس کرتے، لیکن جب پھر وحی کا وقفہ کچھ اور گزجاتا تو آپ بے قرار ہوجاتے، رنج محسوس کرتے اور اسی طرح پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے، چنانچہ پھر جبرائیل علیہ السلام آجاتے اور آپ کو تسلی دیتے، آخر دوبارہ وحی ہوئی ۔

سورہ مدثر کی پہلی تین آیات اتری۔

ترجمہ ۔: اے کپڑے میں لپیٹنے والے اٹھو ! (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو اور تیار ہوجاؤ ) پھر کافروں کو ڈراؤ اور پھر اپنے رب کی بڑائیاں بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔

اس طرح آپ کو نبوت کے ساتھ تبلیغ کا حکم دیا گیا۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں ۔

"سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور اللہ کی طرف سے جو کچھ آنحضرت لے کر آئے، اس کی تصدیق کی۔ مشرکین کی طرف سے آپ کو جب بھی تکلیف پہنچی، صدمہ پہنچا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دلاسا دیا۔‌"

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا ہیں۔جو آپ کے پرانے دوست تھے۔انہوں نے آپ کی زبان سے نبوت ملنے کا ذکر سنتے ہی فوراً آپ کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے ۔ بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہا ہیں۔جو آپ پر پہلے ایمان لائے، اور ان کے ایمان لانے کا واقع کچھ اس طرح ہے۔

ایک دن آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ ان کے ساتھ چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ نئی بات دیکھ کر پوچھا: 

"یہ آپ کیا کررہے ہیں "

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"یہ وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں، میں تمھیں بھی اس اللہ کی طرف بلاتا ہوں، لات اور عزّٰی کی عبادت سے روکتا ہوں ۔‌

حضرت علی نے یہ سن کر عرض کیا ؛ 

" یہ ایک نئی بات ہے، اس کے بارے میں میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنا ۔اس لیے میں اپنے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، میں اپنے والد سے مشورہ کرلوں۔"

ان کا جواب سن کر آپ نے ارشاد فرمایا؛

"علی! اگر تم مسلمان نہیں ہوتے تو بھی اس بات کو چھپائے رکھنا۔"

انہوں نے وعدہ کیا اور اس کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ رات بھر سوچتے رہے۔آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی ۔سویرے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔

علماء نے لکھا ہے، اس وقت حضرت علی کی عمر ۸ سال کے قریب تھی اس سے پہلے بھی انہوں نے کبھی بتوں کی عبادت نہیں کی تھی۔ وہ بچپن ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔



یونٹ 17

گم شدہ بیٹا


لیکن احتیاط کے باوجود حضرت علی ؓ کے والد کو ان کے قبول اسلام کا علم ہوگیا۔ تو انہوں نے حضرت علیؓ سے اس کے متعلق استفسار کیا۔

اپنے والد کا سوال سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 

"ابا جان! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا چکا ہوں اور جو کچھ اللہ کے رسول لے کر آئے ہیں، اس کی تصدیق کرچکا ہوں، لہذا ان کے دین میں داخل ہوگیا ہوں اور ان کی پیروی اختیار کرچکا ہوں۔ " 

یہ سن کر ابوطالب نے کہا: 

" جہاں تک ان کی بات ہے( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) تو وہ تمہیں بھلائی کے سواکسی دوسرے راستے پر نہیں لگائیں، لہذا ان کا ساتھ نہ چھوڑنا۔"

ابوطالب اکثر یہ کہا کرتے تھے‌: 

" میں جانتا ہوں، میرا بھتیجا جو کہتا ہے، حق ہے، اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریشی کی عورتیں مجھے شرم دلائیں گی، تو میں ضرور ان کی پیروی قبول کرلیتا۔‌۔"

عفیف کندی رضی اللہ عنہ ایک تاجر تھے، ان کا بیان ہے۔

" اسلام کرنے سے بہت پہلے میں ایک مرتبہ حج کے لئے آیا ۔ تجارت کا کچھ مال خریدنے کے لئے میں عباس ابن عبدالمطلب کے پاس گیا۔ وہ میرے دوست تھےاور یمن سے اکثر عطر خرید کر لاتے تھے۔ پھر حج کے موسم میں مکہ میں فروخت کرتے تھے، میں ان کے ساتھ منیٰ میں بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان آیا۔ اس نے غروب ہوتے سورج کی طرف غور سے دیکھا، جب اس نے دیکھ لیا کہ سورج غروب ہوچکا تو اس نے بہت اہتمام سے وضو کیا، پھر نماز پڑھنے لگا۔ یعنی کعبہ کی طرف منہ کرکے.... پھر ایک لڑکا آیا، جو بالغ ہونے کے قریب تھا ۔اس نے وضو کیا اور اس نوجوان کے برابر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا۔پھر ایک عورت خیمے سے نکلی اور ان کے پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے بعد ان نوجوان نے رکوع کیا تو اس لڑکے اور عورت نے بھی رکوع کیا۔نوجوان نے سجدے میں گیا تو وہ دونوں بھی سجدے میں چلے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے عباس بن عبدالمطلب سے پوچھا: 

" عباس! یہ کیا ہوررہا ہے۔ "

انہوں نے بتایا : 

"یہ میرے بھائی عبدالله کے بیٹے کا دین ہے۔ محمدﷺ کا دعویٰ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے اسے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ یہ لڑکا میرا بھتیجا ہے علی ابن طالب ہے اور یہ عورت محمدﷺ کی بیوی خدیجہ ہے۔ "

یہ عفیف کندی رضی اللہ عنہہ مسلمان ہوئے تو کہا کرتے تھے: 

" کاش! اس وقت ان میں چوتھا آدمی میں ہوتا۔"

اس واقعے کے وقت غالباً حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا وہاں موجود نہیں تھے، اگرچہ اس وقت تک دونوں مسلمان ہوچکے تھے۔

حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہا غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لائے تھے، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے پہلے یہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہہ کے غلام تھے۔ شادی کے بعد انہوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی غلامی میں دے دیا تھا۔

یہ غلام کس طرح بنے، یہ بھی سن لیں ۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کی والدہ انہیں لیے اپنے ماں باپ کے ہاں جارہی تھیں کہ قافلہ کو لوٹ لیا گیا۔ ڈاکو ان کے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہہ کو بھی لے گئے۔ پھر انہیں عکاظ کے میلے میں بیچنے کے لیے لایا گیا۔ ادھر سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا نے حکیم بن حزام رضی الله عنہا کو میلے میں بھیجا ۔ وہ ایک غلام خریدنا چاہتی تھیں ۔ آپ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا کی پھوپھی تھیں ۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا میلے میں آئے تو وہاں انہوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہہ کر بکتے دیکھا، اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا کو یہ اچھے لگے، چنانچہ انہوں نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے انہیں خرید لیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی یہ پسند آئے اور انہوں نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کردیا۔اس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہا آپ صلی علیہ وسلم کے غلام بنے۔ پھر جب آپ نے اسلام کی دعوت دی تو فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا تھا مگر یہ عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ ان کے والد ایک مدت سے ان کی تلاش میں تھے۔ کسی نے انہیں بتایا کہ زید مکہ میں دیکھے گئے ہیں ۔

ان کے والد اور چچا انہيں لینے فوراً مکہ معظمہ کی طرف چل پڑے۔ مکہ پہنچ کر یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایاکہ زید ان کے بیٹے ہیں۔ 

ساری بات سن کر آپ نے ارشاد فرمایا: 

" تم زید سے پوچھ لو، اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہيں اور یہاں میرے پاس رہنا چاہیں تو ان کی مرضی۔"

زید رضی اللہ عنہہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کیا۔

اس پر باپ نے کہا:

" تیرا برا ہو زید ... تو آزادی کے مقابلے میں غلامی کو پسند کررہا ہے۔‌"

جواب میں حضرت زید رضی اللہ عنہا نے کہا ؛ 

" ہاں ! ان کے مقابلے میں میں کسی اور کو ہرگز نہیں چن سکتا۔‌"

آپ نے حضرت زید رضی اللّٰہ عنہہ کی یہ بات سنی تو آپ کو فوراً حجر اسود کے پاس گئے اور اعلان فرمایا‌۔: 

" آج سے زید میرا بیٹا ہے۔"

ان کے والد اور چچا مایوس ہوگئے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ جب چاہیں زید سے ملنے آسکتے ہیں ۔ چنانچہ وہ ملنے کے لیے آتے رہے۔

تو یہ تھے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہا جو غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ حضرت زید واحد صحابی ہیں جن کا قران کریم میں نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔



یونٹ 18

 "تم وہی ہو"


مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے ہی دوست تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کے گھر آتے اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے۔

ایک دن حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کی ایک باندی وہاں آئی اور کہنے لگی:

"آج آپ کی پھوپھی خدیجہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام تھے۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جونہی حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کی باندی کی یہ بات سنی،چپکے سے وہاں سے اٹھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ اس پر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو وحی آنے کا پورا واقعہ سنایا اور بتایا کہ آپ کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:

"میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ بلکل سچ کہتے ہیں واقعی اللہ کے رسول ہیں۔" ‏آپ کے اس طرح فوراً تصدیق کرنے کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔اس بارے میں دوسری روایت یہ ہے کہ صدیق کا لقب آپ نے انہیں اس وقت دیا تھا جب آپ معراج کے سفر سے واپس تشریف لائے تھے مکہ کے مشرکین نے آپ کو جھٹلایا تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو سنتے ہیں فوری طور پر آپ کی تصدیق کی تھی اور آپ نے انہیں صدیق کا لقب عطا فرمایا تھا۔

غرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے آپ کی نبوت کی تصدیق فوری طور پر کر دی۔

حضرت ابو بکر صدیق رضي اللہ عنہ کا نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ رکھا، اس لیے کہ اس سے پہلے اُن کا نام عبدالكعبہ تھا۔ اس لحاظ سے ابوبکر صدیق وہ پہلے آدمی ہے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یوں بھی بہت خوبصورت تھے، اس مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب عتیق کر رکھا تھا۔ عتیق کا مطلب ہے خوبصورت اس کا ایک مطلب آزاد بھی ہے۔یہ لقب دینے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ان کی طرف دیکھ کر فرمایا تھا:

" یہ جہنم کی آگ سے آزاد ہیں۔"

غرض اسلام میں یہ پہلا لقب ہے جو کسی کو ملا۔ قریش میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بہت بلند تھا آپ بہت خوش اخلاق تھے۔ قریش کے سرداروں میں سے ایک تھے۔ شریف، سخی اور دولت مند تھے۔ روپیہ پیسہ بہت فراخ دلی سے خرچ کرتے تھے۔ ان کی قوم کے لوگ انہیں بہت چاہتے تھے۔ لوگ ان کی مجلس میں بیٹھنا بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خواب کی تعبیر بتانے میں بہت ماہر اور مشہور تھے۔ چنانچہ علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس امت میں سب سے بہترین تعبیر بتانے والے عالم ہیں۔"

علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ خوابوں کی تعبیر بتانے میں بہت ماھر تھے اور اس سلسلے میں ان کی کتابیں موجود ہے اس کتاب میں خوابوں کی حیرت انگیز تعبیر ہے درج ہیں۔ ان کی بتائی ہوئی تعبیریں بالکل درست ثابت ہوتی رہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس میدان کے ماہر اس بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر تعبیر بتانے والے فرما رہے ہیں۔

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نسب نامہ بیان کرنے میں بھی بہت ماھر تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس علم کے سب سے بڑے عالم تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم بھی اس علم کے ماہر تھے، وہ فرماتے ہیں: 

"میں نے نسب ناموں کا فن اور علم اور خاص طور پر قریش کے نسب ناموں کا علم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہی حاصل کیا ہے، اس لئے کہ وہ قریش کے نسب ناموں کے سب سے بڑے عالم تھے۔

قریش کے لوگوں کو کوئی مشکل پیش آتی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رابطہ کرتے تھے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی اُس نے کچھ نہ کچھ سوچ بچار اور کسی قدر وقفے کے بعد اسلام قبول کیا،سوائے ابوبکر کے، وہ بغیر ہچکچاہٹ کے فوراً مسلمان ہوگئے، ابوبکر سب سے بہتر رائے دینے والے ہیں۔ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے، اپنے معاملات میں ابوبکر سے مشورہ کیا کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ وزیر کے درجے میں تھے۔ آپ ہر معاملے میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"اللہ تعالٰی نے میری مدد کے لئے چار وزیر مقرر فرمائے ہیں، ان میں سے دو آسمان والوں میں سے ہیں یعنی جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) اور دو زمین والوں میں سے ایک ابوبکر اور دوسرے عمر (رضی اللہ عنہما)۔"

اسلام لانے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا تھا، خواب میں آپ نے دیکھا کہ چاند مکہ میں اُتر آیا ہے اور اس کا ایک ایک حصہ مکہ کے ہر گھرمیں داخل ہو گیا ہے۔ اور پھر سارے کا سارا ابوبکر رضی اللہ والوں کی گود میں آ گئا۔ آپ نے یہ خواب ایک عیسائی عالم کو سنایا۔ اُس نے اس خواب کی یہ تعبیر بیان کی کہ تم اپنے پیغمبر کی پیروی کرو گے جس کا دنیا انتظار کر رہی ہے اور جس کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ کہ پیروں کاروں میں سے سب سے زیادہ خوش قسمت انسان ہو گے۔

ایک روایت کے مطابق عالم نے کہا تھا:

"اگر تم اپنا خواب بیان کرنے میں سچے ہو تو بہت جلد تمہارے گاؤں میں سے ایک نبی ظاہر ہوں گے، تم اس نبی کی زندگی میں اس کے وزیر بنو گے اور ان کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہوؤ گے۔"

کچھ عرصہ بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو یمن جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ یمن میں یہ ایک بوڑھے عالم کے گھر ٹھرے۔ اس نے آسمانی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو دیکھ کر اس نے کہا:

میرا خیال ہے، تم حرم کے رہنے والے ہو اور میرا خیال ہے، تم قریشی ہو اور تیمی خاندان سے ہو۔"

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا:

"ہاں! تم نے بالکل ٹھیک کہا۔"

اب اس نے کہا:

"میں تم سے ایک بات اور کہتا ہوں… تم ذرا اپنا پیٹ پر سے کپڑا ہٹا کر دکھاؤ۔" حضرت ابو بکر صد یق اس کی بات سن کر حیران ہوئے اور بولے:

"ایسا میں اس وقت تک نہیں کروں گا، جب تک کہ تم اس کی وجہ نہیں بتا دو گے۔"

اس پر اس نے کہا:

"میں اپنے مضبوط علم کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ حرم کے علاقے میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے - ان کی مدد کرنے والا ایک نوجوان ہوگا اور ایک پختہ عمر والا ہوگا، جہاں تک نوجوان کا تعلق ہے، وہ مشکلات میں کود جانے والا ہوگا، جہاں تک پختہ عمر کے آدمی کا تعلق ہے، وہ سفید رنگ کا کمزور جسم والا ہوگا - اس کے پیٹ پر ایک بال دار نشان ہوگا - حرم کا رہنے والا، تیمی خاندان کا ہوگا اور اب یہ ضروری نہیں کہ تم مجھے اپنا پیٹ دکھاؤ، کیونکہ باقی سب علامتیں تم میں موجود ہیں - 

اس کی اس بات پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا ہٹادیا - وہاں ان کی ناف کے اوپر سیاہ اور سفید بالوں والا نشان موجود تھا - تب وہ پکار اٹھا:

"پروردگارِ کعبہ کی قسم! تم وہی ہو۔"



یونٹ 19

 دین نہیں چھوڑوں گا


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

"جب میں یمن میں اپنی خریداری اور تجارتی کام کر چکا تو رخصت ہونے کے وقت اس کے پاس آیا۔ اس وقت اس نے مجھ سے کہا:

"میری طرف سے چند شعر سن لو جو میں نے اس نبی کی شان میں کہے ہیں۔"

اس پر میں نے کہا:

"اچھی بات ہے سناؤ۔"

تب اس نے مجھے وہ شعر سنائے، اس کے بعد جب میں مکہ معظمہ پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے۔فوراً ہی میرے پاس قریش کے بڑے بڑے سردار آئے۔ ان میں زیادہ اہم عقبہ بن ابی معیط، شیبہ، ابو جہل اور ابوالبختری تھے۔ان لوگوں نے مجھ سے کہا:

"اے ابوبکر! ابو طالب کے یتیم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہیں۔اگر آپ کا انتظار نہ ہوتا تو ہم اس وقت تک صبر نہ کرتے۔ اب جب کہ آپ آگئے ہیں، ان سے نبٹنا آپ ہی کا کام ہے ۔"

اور یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی دوست تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اچھے انداز سے ان لوگوں کو ٹال دیا اور خود آپ کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی۔ آپ باہر تشریف لائے۔ مجھے دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا:

"اے ابوبکر! میں تمہاری اور تمام انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں،اس لیے اللہ تعالٰی پر ایمان لے آؤ۔"

آپ کی بات سن کر میں نے کہا:

"آپ کے پاس اس بات کا ثبوت ہے۔"

آپ نے میری بات سن کر ارشاد فرمایا:

اس بوڑھے کے وہ شعر جو اس نے آپ کو سنائے تھے"

یہ سن کر میں حیران رہ گیا اور بولا:"میرے دوست! آپ کو ان کے بارے میں کس نے بتایا؟"

آپ نے ارشاد فرمایا:

"اس عظیم فرشتے نے جو مجھ سے پہلے بھی تمام نبیوں کے پاس آتا رہا ہے۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:"اپنا ہاتھ لایئے! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔"

آپ میرے ایمان لانے پر بہت خوش ہوئے، مجھے سینے سے لگایا ۔ پھر کلمہ پڑھ کر میں آپ کے پاس سے واپس آگیا۔

مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو سب سے پہلا کام کیا،وہ تھا اسلام کی تبلیغ۔ انہوں نے اپنے جاننے والوں کو اسلام کا پیغام دیا۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا،چنانچہ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی خبر ان کے چچا حکم کو ہوئی تو اس نے انہیں پکڑ لیا اور کہا:

"تو اپنے باپ دادا کا دین چھوڑکر محمد کا دین قبول کرتا ہے، اللہ کی قسم! میں تجھے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تو اس دین کو نہیں چھوڑے گا -" 

اس کی بات سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"اللہ کی قسم! میں اس دین کو کبھی نہیں چھوڑوں گا -" 

ان کے چچا نے جب ان کی پختگی اور ثابت قدمی دیکھی تو انہیں دھوئیں میں کھڑا کرکے تکالیف پہنچائیں - حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے - حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جنت میں ہر نبی کا ایک رفیق یعنی ساتھی ہوتا ہے اور میرے ساتھی وہاں عثمان ابن عفان ہوں گے -"

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی تبلیغ جاری رکھی - آپ کی کوششوں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے - اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی - اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مسلمان ہوئے - جاہلیت کے زمانہ میں ان کا نام عبد الکعبہ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبدالرحمن رکھا - یہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

"امیہ ابن خلف میرا دوست تھا، ایک روز اس نے مجھ سے کہا، تم نے اس نام کو چھوڑ دیا جو تمہارے باپ نے رکھا تھا -" 

جواب میں میں نے کہا:

"ہاں! چھوڑ دیا -" 

یہ سن کر وہ بولا:

"میں رحمٰن کو نہیں جانتا، اس لیے میں تمہارا نام عبدالالٰہ رکھتا ہوں -"

چناں چہ مشرک اس روز سے مجھے عبدالالٰہ کہہ کر پکارنے لگے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

”میں اکثر یمن جایا کرتا تھا، جب بھی وہاں جاتا عسکلان بن عواکف حمیری کے مکان پر ٹھہراکرتاتھا اور جب بھی میں اس کے ہاں جاتا وہ مجھ سے پوچھا کرتا تھا، کیا وہ شخص تم لوگوں میں ظاہر ہوگیا ہے جس کی شہرت اور چرچے ہیں، کیا تمہارے دین کے معاملے میں کسی نے مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ میں ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کہ نہیں، ایسا کوئی شخص ظاہر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ وہ سال آگیا جس میں نبی کریم ﷺ کا ظہور ہوا۔ میں اس سال یمن گیا تو اسی کے یہاں ٹھہرا۔ اس نے یہی سوال پوچھا، تب میں نے اسے بتایا:

”ہاں ان کا ظہور ہوگیا ہے۔ ان کی مخالفت بھی ہورہی ہے۔“

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے بارے میں نبیٔ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”تم زمین والوں میں بھی امانت دار ہو اور آسمان والوں میں بھی۔“

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بعد حضر ت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے کوئی ہچکچاہٹ ظاہر نہ کی فوراً حضور نبیٔ کریم ﷺ کے پاس چلے آئے، آپ سے آپ کے پیغام کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے انھیں بتایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر ۱۹ سال تھی۔ یہ بنی زہرہ کے خاندان سے تھے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ آمنہ بھی اس خاندان سے تھیں۔ اسی لیے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے ماموں کہلاتے تھے۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے ایک بار فرمایا:

”یہ میرے ماموں ہیں، ہے کوئی جس کے ایسے ماموں ہوں۔“

حضر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے اور ان کی والدہ کو ان کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ بات انھیں بہت ناگوار گزری۔ ادھر یہ اپنی والدہ کے بہت فرماںبردار تھے۔ والدہ نے ان سے کہا:

”کیا تم یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے بڑوں کی خاطر داری اور ماں باپ کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔“

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :

”ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔“

یہ جواب سن کر والدہ نے کہا:

”بس تو خدا کی قسم میں اسوقت تک کھانا نہیں کھاؤں گی جب تک محمد کے لائے ہوئے پیغام کو کفر نہیں کہوگے اور اساف اور نائلہ بتوں کو جا کر چھوؤگے نہیں۔“

اس وقت کے مشرکوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان بتوں کے کھلے منہ میں کھانا اور شراب ڈالا کرتے تھے۔

اب والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ سے کہا:

”خدا کی قسم ماں! تمھیں نہیں معلوم، اگر تمھارے پاس ایک ہزار زندگیاں ہوتیں اور وہ سب ایک ایک کرکے اس وجہ سے ختم ہوتیں، تب بھی میں نبی کریم ﷺ کے دین کو ہرگز نہ چھوڑتا۔ اس لیے اب یہ تمھاری مرضی ہے کھاؤ یا نہ کھاؤ۔“

جب ماں نے ان کی یہ مضبوطی دیکھی تو کھانا شروع کردیا، تا ہم اس نے اب ایک اور کام کیا ، دروازے پر آگئی اور چیخ چخ کر کہنے لگی:

”کیا مجھے ایسے مددگار نہیں مل سکتے جو سعد کے معاملے میں میری مدد کریں تاکہ میں اسے گھر میں قید کردوں اور قید کی حالت میں یہ مرجائے یا اپنے نئے دین کو چھوڑدے۔“

حضرت سعد فرماتے ہیں، میں نے یہ الفاظ سنے تو ماں سے کہا:

”میں تمھارے گھر کا رخ بھی نہیں کروں گا۔“

اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ کچھ دن تک گھر نہ گئے۔ والدہ تنگ آگئی اور اس نے پیغام بھیجا:

”تم گھر آجاؤ، دوسروں کے مہمان بن کر ہمیں شرمندہ نہ کرو۔“

چناںچہ یہ گھر چلے آئے۔ اب گھر والوں نے پیار ومحبت سے سجھانا شروع کیا۔ وہ ان کے بھائی عامر کی مثال دے کر کہتی:

”دیکھو عامر کتنا اچھا ہے، اس نے اپنے باپ دادا کا دین نہیں چھوڑا۔“

لیکن پھر ان کے بھائی عامر بھی مسلمان ہوگئے۔ اب تو والدہ کے غیظ وغضب کی انتہا نہ رہی۔



یونٹ 20

ذکر چند جانثاروں کا


ماں نے دنوں بھائیوں کو بہت تکالیف پہنچائیں۔ آخر عامر رضی اللہ عنہ تنگ آکر حبشہ کو ہجرت کر گئے۔ عامر رضی اللہ عنہ کے حبشہ ہجرت کر جانے سے پہلے ایک روز حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ گھر آئے تو دیکھا ماں اور عامر رضی اللہ عنہ کے چاروں طرف بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں نے پوچھا:

”لوگ کیوں جمع ہیں؟“

لوگوں نے بتایا:

”یہ دیکھو تمہاری ماں نے تمہارے بھائی کو پکڑ رکھا ہے اور اللہ سے عہد کر رہی ہے کہ جب تک عامر بےدینی نہیں چھوڑے گا ، اس وقت تک یہ نہ تو کھجور کے سائے میں بیٹھے گی اور نہ کھانا کھائے گی اور نہ پانی پئے گی۔“

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا:

”اللہ کی قسم ماں!تم اس وقت تک کھجور کے ساۓ میں نہ بیٹھو اور اوراس وقت تک کچھ نہ کھاٶ پیو، جب تک کہ تم جہنم کا ایندھن نہ بن جاٶ۔“

غرض انہوں نے ماں کی کوئی پروا نہ کی اور دین پر ڈٹے رہے۔ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے حضرت طلحہ تیمی رضی اللہ عنہ بھی اسلام لے آئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاۓ اور یہ آپ کے ہاتھ پرمسلمان ہوۓ۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام لانے کا کھل کر اعلان کر دیا۔ ان کا اعلان سن کر نوفل ابن عدویہ نے انہیں پکڑ لیا۔ اس شخص کو قریش کا شیر کہا جاتا تھا۔ اس نے دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھ دیا۔ اس کی اس حرکت پر ان کے قبیلے بنوتمیم نے بھی انہیں نہ بچایا۔ اب چونکہ نوفل نے دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھا تھا اور دونوں کے جسم آپس میں بالکل ملے ہوۓ تھے ، اس لئے انہیں قرینین کہا جانے لگا، یعنی ملے ہوۓ۔ نوفل بن عدویہ کے ظلم کی وجہ سےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

”اے اللہ! ابن عدویہ کے شر سے ہمیں بچا۔“

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے اسلام قبول کر لینے کا سبب اس طرح بیان کرتے ہیں:

”میں ایک مرتبہ بصریٰ کے بازار میں گیا، میں نے وہاں ایک راہب کو دیکھا، وہ اپنی خانقاہ میں کھڑا تھا اور لوگوں سے کہ رہا تھا:

”اس مرتبہ حج سے آنے والوں سے پوچھو، کیاان میں کوئی حرم کا باشندہ بھی ہے؟“

میں نے آگے بڑھ کر کہا:

”میں ہوں حرم کا رہنے والا۔“

میرا جملہ سن کر اس نے کہا:

”کیا احمد کا ظہور ہوگیا ہے؟“

میں نے پوچھا:

”احمد کون؟“

تب اس راہب نے کہا:

”احمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ۔۔۔ یہ اس کا مہینہ ہے، وہ وہ اس مہینے میں ظاہر ہو گا، وہ آخری نبی ہے۔ اس کےظاہر ہونے کی جگہ حرم ہے اور اس کی ہجرت کی جگہ وہ علاقہ ہے، جہاں باغات ہیں، سبزہ زار ہیں، اس لیے تم پر ضروری ہے کہ تم اس نبی کی طرف بڑھنے میں پہل کرو -"

اس راہب کی کہی ہوئی بات میرے دل میں نقش ہوگئی - میں تیزی کے ساتھ وہاں سے واپس روانہ ہوا اور مکہ پہنچا - یہاں پہنچ کر میں نے لوگوں سے پوچھا:

"کیا کوئی نیا واقعہ بھی پیش آیا ہے؟" 

لوگوں نے بتایا:

ہاں! محمد بن عبداللہ امین نے لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینا شروع کی ہے ابوبکر نے ان کی پیروی قبول کرلی ہے -"

میں یہ سنتے ہی گھر سے نکلا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا - میں نے انہیں راہب کی ساری بات سنادی - ساری بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ کو یہ پورا واقعہ سنایا - آپ سن کر بہت خوش ہوئے - اسی وقت میں بھی مسلمان ہوگیا -"

یہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں - یعنی جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی، ان میں سے ایک ہیں - 

اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کلمہ پڑھا، ان میں سے پانچ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں - وہ یہ ہیں، حضرت زبیر، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم - بعض نے ان میں چھٹے صحابی کا بھی اضافہ کیا ہے - وہ ہیں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ - 

ان حضرات میں حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم کپڑے کے تاجر تھے - حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جانور ذبح کرتے تھے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر بنانے کا کام کرتے تھے - 

ان کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایمان لائے، وہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:

"میں ایک دن عقبہ بن ابی معیط کے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آگئے - ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے - آپ نے پوچھا:

" کیا تمھارے پاس دودھ ہے؟"

میں نے کہا:

"جی ہاں! لیکن میں تو امین ہوں -" (یعنی یہ دودھ تو امانت ہے) - 

آپ نے فرمایا:

"کیا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس نے ابھی کوئی بچہ نہ دیا ہو؟" 

میں نے کہا:

"جی ہاں، ایک ایسی بکری ہے -" 

میں اس بکری کو آپ کے قریب لے آیا - اس کے ابھی تھن پوری طرح نہیں نکلے تھے - آپ نے اس کی تھنوں کی جگہ پر ہاتھ پھیرا - اسی وقت اس بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے -"

یہ واقعہ دوسری روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ اس بکری کے تھن سوکھ چکے تھے - آپ نے ان پر ہاتھ پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے -

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے - وہ آپ کو ایک صاف پتھر تک لے آئے - وہاں بیٹھ کر اپ ﷺنے بکری کا دودھ دوہا - آپ نے وہ دودھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پلایا - پھر مجھے پلایا اور آخر میں آپ نے خود پیا - پھر آپ نے بکری کے تھن سے فرمایا:

"سمٹ جا -" 

چنانچہ تھن فوراً ہی پھر ویسے ہوگئے جیسے پہلے تھے -

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معجزہ دیکھا تو آپ سے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! مجھے اس کی حقیقت بتائیے -" 

آپ نے یہ سن کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:

"اللہ تم پر رحم فرمائے، تم تو جان کار ہو -" 

یہ عبداللہ بن مسعود باپ کی بجائے، ماں کی طرف سے زیادہ مشہور تھے - ان کی ماں کا نام ام عبد تھا - ان کا قد بہت چھوٹا تھا - نہایت دبلے پتلے تھے - ایک مرتبہ صحابہ ان پر ہنسنے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا:

"عبداللہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے ترازو میں سب سے بھاری ہیں -"

"انہی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:

"اپنی امت کے لیے میں بھی اسی چیز پر راضی ہوگیا جس پر ابن ام عبد یعنی عبداللہ ابن مسعود راضی ہوگئے - اور جس چیز کو عبداللہ بن مسعود نے امت کے لیے ناگوار سمجھا، میں نے بھی اس کو ناگوار سمجھا -" آپ ان کی بہت عزت کرتے تھے - انہیں اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے، ان سے کسی کو چھپایا نہیں کرتے تھے، اسی لیے یہ آپ کے گھر میں آتے جاتے تھے - یہ نبی کریم کے آگے آگے یا ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے - آپ جب غسل فرماتے تو یہی پردے کے لیے چادر تان کر کھڑے ہوتے تھے - آپ جب سو جاتے تو یہی آپ کو وقت پر جگایا کرتے تھے - اسی طرح جب آپ کہیں جانے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کو جوتے پہناتے تھے - پھر جب آپ کہیں پہنچ کر بیٹھ جاتے تو یہ آپ کے جوتے اٹھاکر اپنے ہاتھ میں لے لیا کرتے تھے - ان کی انہی باتوں کی وجہ سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مشہور تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے والوں میں سے ہیں - انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

"دنیا تمام کی تمام غموں کی پونجی ہے، اس میں اگر کوئی خوشی ہے تو وہ صرف وقتی فائدے کے طور پر ہے۔"

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔



یونٹ 21

 پانچواں آدمی


حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 

"آنحضرت ﷺ پر وحی آنے سے بھی تین سال پہلے سے میں اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھا کرتا تھا اور جس طرف اللہ تعالیٰ میرا رخ کردیتے،میں اسی طرف چل پڑتا تھا ـ اسی زمانہ میں ہمیں معلوم ہوا کہ مکہ معظمہ میں ایک شخص ظاہر ہوا ہے،اس کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہے ـ یہ سن کر میں نے اپنے بھائی انیس سے کہا :

" تم اس شخص کے پاس جاؤ ،اس سے بات چیت کرو اور آکر مجھے اس بات چیت کے بارے میں بتاؤ "ـ

چنانچہ انیس نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی،جب وہ واپس آئے تو میں نے ان سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھاـ انہوں نے بتایا :

" اللہ کی قسم ! میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو اچھائیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے تمھیں اسی شخص کے دین پر پایا ہے ـ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ـ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ نیکی اور بلند اخلاق کی تعلیم دیتا ہےـ"

میں نے پوچھا :

"لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟"

انیس نے بتایا: 

"لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کاہن اور جادوگر ہے مگر اللٰہ کی قسم وہ شخص سچا ہے اور وہ لوگ جھوٹے ہیں۔"

یہ تمام باتیں سن کر میں نے کہا:

"بس کافی ہے، میں خود جاکر ان سے ملتا ہوں۔" 

انیس نے فوراًکہا:

"ضرور جاکر ملو، مگر مکہ والوں سے بچ کر رہنا۔"

چنانچہ میں نے اپنے موزے پہنے، لاٹھی ہاتھ میں لی اور روانہ ہوگیا، جب میں مکہ پہنچا تو میں نے لوگوں کے سامنے ایسا ظاہر کیا، جیسے میں اس شخص کو جانتا ہی نہیں اور اس کے بارے میں پوچھنا بھی پسند نہیں کرتا - میں ایک ماہ تک مسجد حرام میں ٹھہرا رہا، میرے پاس سوائے زمزم کے کھانے کو کچھ نہیں تھا - اس کے باوجود میں زمزم کی برکت سے موٹا ہوگیا - میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہوگئیں - مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا تھا - ایک رات جب حرم میں کوئی طواف کرنے والا نہیں تھا، اللّٰہ کے رسول ایک ساتھی(ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ) کے ساتھ وہاں آئے اور بیت اللٰہ کا طواف کرنے لگے - اس کے بعد آپ نے اور آپ کے ساتھی نے نماز پڑھی - جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں آپ کے نزدیک چلا گیا اور بولا:

"السلام علیک یا رسول اللّٰہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللٰہ علیہ وسلم اللّٰہ کے رسول ہیں -"

میں نے محسوس کیا، حضورنبی کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوگئے - پھر آپ نے مجھ سے پوچھا:

"تم کون ہو -"

میں نے جواب میں کہا:

’’جی میں غفار قبیلے کا ہوں‘‘

آپ نے پوچھا:

’’یہاں کب سے آئے ہوئے ہو؟‘‘

میں نے عرض کیا:

تیس دن اور تیس راتوں سے یہاں ہوں‘‘۔

آپ نے پوچھا:

تمہیں کھانا کون کھلاتا ہے؟‘‘

میں نے عرض کی:

میرے پاس سوائے زمزم کے کوئی کھانا نہیں ،اس کو پی پی کر میں موٹا ہو گیا ہوں، یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں تک ختم ہو گئی ہیں اور مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا‘‘۔

آپ نے فرمایا‘

مبارک ہو ،یہ زمزم بہترین کھانا اور ہر بیماری کی دوا ہے‘‘۔

زمزم کے بارے میں احادیث میں آتا ہے، اگر تم آب زمزم کو اس نیت سے پیو کہ اللہ تعالی تمہیں اس کے ذریعے بیماریوں سے شفا عطا فرمائے تواللہ تعالی شفا عطا فرماتا ہے اوراگر اس نیت سے پیا جائے کہ اس کے ذریعے پیٹ بھر جائے اور بھوک نہ رہے تو آدمی شکم سیر ہو جاتا ہے اور اگر اس نیت سے پیا جائے کہ پیاس کا اثر باقی نہ رہے تو پیاس ختم ہو جاتی ہے۔اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کو سیراب کیا تھا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جی بھر کر زمزم کا پانی پینا اپنے آپ کو نفاق سے دور کرنا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور منافقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ لوگ زمزم سے سیرابی حاصل نہیں کرتے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی ۔۔۔کہا جاتا ہے ،ابوذر غفاری اسلام میں پیلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ کو اسلامی سلام کے الفاظ کے مطابق سلام کیا ۔ ان سے پہلے کسی نے آپﷺ کو ان الفاظ میں سلام نہیں کیا تھا۔

اب ابو ذرؓ نے آپﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ اللہ تعالی کے معاملے میں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں گھبرائیں گے اور یہ کہ ہمیشہ حق اور سچی بات کہیں گے چاہے حق سننے والے کے لئے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔

یہ حضرت ابو ذرؓ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد ملک شام کے علاقے میں ہجرت کر گئے تھے۔پھر حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں انہیں شام سے واپس بلا لیا گیا اور پھر یہ ربذہ کے مقام پر آ کر رہنے لگے تھے۔ ربذہ کے مقام پر ہی ان کی وفات ہوئی تھی۔

ان کے ایمان لانے کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ جب یہ مکہ معظمہ آئے تو ان کی ملاقات حضرت علیؓ سے ہوئی تھی اور حضرت علیؓ نے ہی ان کو آپ ﷺ سے ملوایا تھا۔

ابو ذر ؓ کہتے ہیں :

بیعت کرنے کے بعد نبی کریمﷺ انہیں ساتھ لے گئے۔ ایک جگہ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے ایک دروازہ کھولا ،ہم اندر داخل ہوئے،ابو بکر صدیقؓ نے ہمیں انگور پیش کیے۔ اس طرح یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں آنے کے بعد کھایا۔‘‘

اس کے بعد نبیﷺ نے ان سے فرمایا:

اے ابو ذرؓ اس معاملے کو ابھی چھپائے رکھنا، اب تو تم اپنی قوم میں واپس جاؤ اور انہیں بتاؤ تاکہ وہ لوگ میرے پاس آ سکیں، پھر جب تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے خود اپنے معاملہ کا کھلم کھلا اعلان کر دیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آ جانا۔‘‘

آپﷺ کی بات سن کر حضرت ابو ذر غفاریؓ بولے:

’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی دے کر بھیجا، میں ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر پکار پکار کر اعلان کروں گا‘‘۔

حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں ’’میں ایمان لانے والے دیہاتی لوگوں میں سے پانچواں آدمی تھا‘‘۔غرض جس وقت قریش کے لوگ حرم میں جمع ہوئے، انہوں نے بلند آواز میں چلا کر کہا:

میں گواہی دیتا ہوں سوالے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالی کے رسول ہیں ‘‘۔

بلند آواز میں یہ اعلان سن کر قریشیوں نے کہا:

اس بددین کو پکڑ لو‘‘۔

انہوں نے حضرت ابو ذرؓ کے پکڑ لیا اور بے انتہا مارا۔ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں ،وہ لوگ ان پر چڑھ دوڑے۔ پوری قوت سے انہیں مارے لگے۔ یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ اس وقت حضرت عباس ؓ درمیان میں آگئے۔ وہ ان پر جھک گئے اور قریشیوں سے کہا:

تمہارا برا ہو ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے ان کا علاقہ تمہاری تجارت کا راستہ ہے۔‘‘

ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ قبیلہ غفار کے لوگ تمہارا راستہ بند کر دیں گے اس پر ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا۔

ابو ذر ؓ فرماتے ہیں اس کے بعد میں زم زمکے کنویں کے پاس آیا اپنے بدن سے خون دھویا اگلے دن میں نے پھر اعلان کیا:

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

انہوں نے پھر مجھے مارا ۔ اس روز بھی حضرت عباس ؓ ہی نے مجھے ان سے چھڑایا۔ پھر میں وہاں سے واپس ہوا اور اپنے بھائی انیس کے پاس آیا۔



یونٹ 22

 خواب سچا ہے


انیس نے مجھ سے کہا

تم کیا کر آئے ہو

میں نے جواب دیا

مسلمان ہو گیا ہوں، اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کر دی ہے.

اس پر انیس نے کہا

میں بھی بتوں سے بیزار ہوں اور اسلام قبول کر چکا ہوں

اس کے بعد ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے تو وہ بولیں

مجھے پچھلے دین سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں بھی اسلام قبول کر چکی ہوں، اللہ کے رسول کی تصدیق کر چکی ہوں.

اس کے بعد ہم اپنی قوم غفار کے پاس آئے. ان سے بات کی، ان میں سے آدھے تو اسی وقت مسلمان ہو گئے. باقی لوگوں نے کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں گے ہم اس وقت مسلمان ہوں گے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ غفار کے باقی لوگ بھی مسلمان ہو گئے.

ان حضرات نے جو یہ کہا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں گے، ہم اس وقت مسلمان ہوں گے تو ان کے یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا:

"میں نخلستان یعنی کھجوروں کے باغ کی سرزمین میں جاؤں گا، جو یثرب کے سوا کوئی نہیں ہے، تو کیا تم اپنی قوم کو یہ خبر پہنچادو گے - ممکن ہے، اس طرح تمہارے ذریعے اللّٰہ تعالٰی ان لوگوں کو فائدہ پہنچادے اور تمہیں ان کی وجہ سے اجر ملے۔"

اس کے بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ اسلم کے لوگ آئے - انہوں نے آپ سے عرض کیا:

"اے اللّٰہ کے رسول! ہم بھی اسی بات پر مسلمان ہوتے ہیں جس پر ہمارے بھائی قبیلہ غفار کے لوگ مسلمان ہوئے ہیں -"

نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم نے یہ سن کر فرمایا:

"اللّٰہ تعالٰی غفار کے لوگوں کی مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو اللّٰہ سلامت رکھے -"

یہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ ایک مرتبہ حج کے لیے مکہ گئے - طواف کے دوران کعبے کے پاس ٹھہر گئے - لوگ ان کے چاروں طرف جمع ہوگئے - اس وقت انہوں نے لوگوں سے کہا:

"بھلا بتاؤ تو! تم میں سے کوئی سفر میں جانے کا ارادہ کرتا ہے تو کیا وہ سفر کا سامان ساتھ نہیں لیتا؟"

لوگوں نے کہا:

"بے شک! ساتھ لیتا ہے -"

تب آپ نے فرمایا:

"تو پھر یاد رکھو! قیامت کا سفر دنیا کے ہر سفر سے کہیں زیادہ لمبا ہے اور جس کا تم یہاں ارادہ کرتے ہو، اسی لیے اپنے ساتھ اس سفر کا وہ سامان لے لو جو تمہیں فائدہ پہنچائے -"

لوگوں نے پوچھا:

"ہمیں کیا چیز فائدہ پہنچائے گی؟"

حضرت ابوذر غفاری بولے:

"بلند مقصد کے لیے حج کرو، قیامت کے دن کا خیال کرکے ایسے دنوں میں روزے رکھو جو سخت گرمی کے دن ہوں گے اور قبرکی وحشت اور اندھیرے کا خیال کرتے ہوئے، رات کی تاریکی میں اٹھ کر نمازیں پڑھو -"

حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ کے بعد حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ ایمان لائے - کہا جاتا ہے، دیہات کے لوگوں میں سے مسلمان ہونے والوں میں یہ تیسرے یا چوتھے آدمی تھے - ایک قول یہ ہے کہ پانچوے تھے-یہ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے - 

ان کے اسلام لانے کا واقعہ یوں ہے کہ انہوں نے خواب میں جہنم کو دیکھا - اس کی آگ بہت خوفناک انداز میں بھڑک رہی تھی - یہ خود جہنم کےکنارے کھڑے تھے - خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ان کا باپ انہیں جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے مگر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کا دامن پکڑ کر انہیں دوزخ میں گرنے سے روک رہے ہیں - اسی وقت گھبراہٹ کے عالم میں ان کی آنکھ کھل گئی - انہوں نے فوراًکہا:

"میں اللّٰہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خواب سچا ہے -"

ساتھ ہی انہیں یقین ہوگیا کہ جہنم سے انہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہی بچا سکتے ہیں - فوراً ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس آئے - انہیں اپنا خواب سنایا - ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا: 

"اس خواب میں تمہاری بھلائی اور خیر پوشیدہ ہے، اللّٰہ کےرسول موجود ہیں، ان کی پیروی کرو -"

چنانچہ حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ فوراً ہی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے آپ سے پوچھا:

"اے محمد! آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں - "

آپ نے ارشاد فرمایا:

"میں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اللّٰہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، کوئی اس کے برابر کا نہیں اور یہ کہ محمد اللّٰہ کے بندے اور رسول ہیں اور تم جو یہ پتھروں کی عبادت کرتے ہو، اس کو چھوڑ دو - یہ پتھرنہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں - "

یہ سنتے ہی حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ مسلمان ہوگئے - ان کے والد کا نام سعید بن عاص تھا - اسے بیٹے کے اسلام قبول کرنے کا پتہ چلا تو آگ بگولہ ہوگیا - بیٹے کو کوڑے سے مارنا شروع کیا - یہاں تک کہ اتنے کوڑے مارے کہ کوڑا ٹوٹ گیا - پھر اس نے کہا:

"تو نے محمد کی پیروی کی، حالانکہ تو جانتا ہے، وہ پوری قوم کے خلاف جارہا ہے، وہ اپنی قوم کے معبودوں کو برا کہتا ہے -"

یہ سن کرحضرت خالدبن سعید رضی اللّٰہ عنہ بولے:

"اللہ کی قسم! وہ جو پیغام لے کر آئے ہیں، میں نے اس کو قبول کرلیا ہے -"

اس جواب پر وہ اورغضب ناک ہوا اور بولا:

"خداکی قسم! میں تیراکھانا پینابند کردوں گا -"

حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا:

"اگر آپ میرا کھانا پینا بند کردیں گے تو اللّٰہ تعالٰی مجھے روٹی دینے والا ہے -"

تنگ آکر سعید نے بیٹے کوگھر سے نکال دیا - ساتھ ہی اپنے باقی بیٹوں سے کہا:

"اگر تم میں سے کسی نے بھی اس سے بات چیت کی، میں اس کابھی یہی حشر کروں گا -"

حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ گھر سے نکل کر حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے - اس کے بعد وہ آپ کے ساتھ ہی رہنے لگے - باپ سے بالکل بے تعلق ہوگئے - یہاں تک کہ جب مسلمانوں نے کافروں کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کی تو یہ ہجرت کرنے والوں میں سے پہلے آدمی تھے.

ایک مرتبہ ان کا باپ بیمار ہوا، اس وقت اس نے قسم کھائی، اگر خدا نے مجھے اس بیماری سے صحت دے دی تو میں مکہ میں کبھی محمد کے خدا کی عبادت نہیں ہونے دوں گا.

باپ کی یہ بات حضرت خالد بن سعيد رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے کہا

اے اللہ، اسے اس مرض سے کبھی نجات نہ دینا

چنانچہ ان کا باپ اسی مرض میں مر گیا... خالد بن سعيد رضی اللہ عنہ پہلے آدمی ہیں، جنہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی.

ان کے بعد ان کے بھائی عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے. ان کے مسلمان ہونے کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے خواب میں ایک نور دیکھا... نور زمزم کے پاس سے نکلا، اور اس سے مدینے کے باغ تک روشن ہو گئے اور اتنے روشن ہوئے کہ ان میں مدینے کی تازہ کھجوریں نظر آنے لگیں. انہوں نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا تو ان سے کہا گیا. زمزم عبد المطلب کے خاندان کا کنواں ہے اور یہ نور بھی انہی میں سے ظاہر ہوگا. پھر جب ان کے بھائی خالد رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے تو انہیں خواب کی حقیقت نظر آنے لگی. چنانچہ یہ بھی مسلمان ہو گئے. ان کے علاوہ سعید کی اولاد میں سے ریان اور حکم بھی مسلمان ہوئے. حکم کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ رکھا.

اسی طرح ابتدائی دنوں میں مسلمان ہونے والوں میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کا باپ ایران کے بادشاہ کسری کا گورنر تھا. ایک مرتبہ قیصر کی فوجوں نے اس کے علاقے پر حملہ کیا. اس لڑائی میں صہیب رضی اللہ عنہ گرفتار ہو گئے. انہیں غلام بنا لیا گیا. اس وقت یہ بچے تھے، چنانچہ یہ غلامی کی حالت میں ہی روم میں پلے بڑھے وہیں جوان ہوئے. پھر عرب کے کچھ لوگوں نے انہیں خرید لیا اور فروخت کرنے کے لیے مکہ کے قریب عکاظ کے بازار میں لے آئے. اس بازار میں میلہ لگتا تھا اس میلے میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی. میلے سے ایک شخص عبداللہ بن جدعان نے خرید لیا. اس طرح یہ مکہ میں غلامی کی زندگی گزار رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور ہو گیا، ان کے دل میں آئی کہ جا کر بات تو سنوں... یہ سوچ کر گھر سے نکلے، راستے میں ان کی ملاقات عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے ہوئی. انہوں نے ان سے پوچھا.

صہیب کہاں جا رہے ہو

یہ فوراً بولے.

میں محمد کے پاس جا رہا ہوں تاکہ ان کی بات سنوں اور دیکھوں.... وہ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں..

یہ سن کر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بولے.

میں بھی اسی ارادے سے گھر سے نکلا ہوں.

یہ سن کر صہیب رضی اللہ عنہ بولے.

تب پھر اکٹھے ہی چلتے ہیں.

اب دونوں ایک ساتھ قدم اٹھانے لگے.



یونٹ 23

 اسلام کا پہلا مرکز


حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے. آپ نے دونوں کو اپنے پاس بٹھایا. جب یہ بیٹھ گئے تو آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کریم کی جو آیات آپ پر اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں، وہ پڑھ کر سنائیں. ان دونوں نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا. اسی روز شام تک یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہے. شام کو دونوں چپکے سے چلے آئے، حضرت عمار رضی اللہ عنہ سیدھے اپنے گھر پہنچے تو ان کے ماں باپ نے ان سے پوچھا کہ دن بھر کہاں تھے. انہوں نے فوراً ہی بتا دیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں. ساتھ ہی انہوں نے ان کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اور اس دن انہوں نے قرآن پاک کا جو حصہ یاد کیا تھا وہ ان کے سامنے تلاوت کیا. ان دنوں کو یہ کلام بے حد پسند آیا. دونوں فورا ہی بیٹے کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے. اسی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو الطیب المطیب کہا کرتے تھے یعنی پاک باز اور پاک کرنے والے.

اسی طرح حضرت عمران رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو کچھ عرصے بعد ان کے والد حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہو گئے. ان کے اسلام لانے کی تفصیل یوں ہے.

ایک مرتبہ قریش کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے لئے آئے. ان میں حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی تھے. قریش کے لوگ تو باہر رہ گئے. حصین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا.

ان بزرگ کو جگہ دو.

جب وہ بیٹھ گئے تب حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے کہا.

یہ آپ کے بارے میں ہمیں کیسی باتیں معلوم ہو رہی ہیں، آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا. 

اے حصین آپ کتنے معبودوں کو پوجتے ہیں؟ 

حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا. 

ہم سات معبودوں کی عبادت کرتے ہیں. ان میں سے چھ تو زمین میں ہیں، ایک آسمان پر 

اس پر آپ نے فرمایا.

اور اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو پھر آپ کس سے مدد مانگتے ہیں

حضرت حصین رضی اللہ عنہ بولے.

اس صورت میں ہم اس سے دعا مانگتے ہیں جو آسمان میں ہے.

یہ جواب سن کر آپ نے فرمایا.

وہ تو تنہا تمہاری دعائیں سن کر پوری کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے ہو. اے حصین کیا تم اپنے اس شرک سے خوش ہو. اسلام قبول کرو، اللہ تعالٰی تمہیں سلامتی دے گا.

حضرت حصین رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی مسلمان ہو گئے. اسی وقت ان کے بیٹے حضرت عمران رضی اللہ عنہ اٹھ کر باپ کی طرف بڑھے اور ان سے لپٹ گئے.

اس کے بعد حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا.

انہیں ان کے گھر تک پہنچا کر آئیں.

حضرت حصین رضی اللہ عنہ جب دروازے سے باہر نکلے تو وہاں قریش کے لوگ موجود تھے. انہیں دیکھتے ہی بولے.

لو یہ بھی بے دین ہو گیا.

اس کے بعد وہ سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور صحابہ کرام نے حضرت حصین رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر تک پہنچایا.

اسی طرح تین سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خفیہ طور پر تبلیغ کرتے رہے. اس دوران جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا. وہ مکہ کی گھاٹیوں میں چھپ کر نمازیں ادا کرتا تھا. پھر ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کچھ دوسرے صحابہ کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں تھے کہ اچانک وہاں قریش کی ایک جماعت پہنچ گئی. اس وقت صحابہ نماز پڑھ رہے تھے. مشرکوں کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا، وہ ان پر چڑھ دوڑے، ساتھ میں برا بھلا بھی کہہ رہے تھے، ایسے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اس کو ایک ضرب لگائی. اس سے اس کی کھال پھٹ گئی، خون بہہ نکلا. یہ پہلا خون ہے جو اسلام کے نام پر بہایا گیا.

اب قریشی دشمنی پر اتر آئے. اس بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لے آئے تاکہ دشمنوں سے بچاؤ رہے. اس طرح حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا یہ مکان اسلام کا پہلا مرکز بنا. اس مکان کو دار ارقم کہا جاتا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دار ارقم میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں کی ایک جماعت مسلمان ہو چکی تھی. اب نماز دار ارقم میں ادا ہونے لگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہیں پر نماز پڑھاتے، وہیں بیٹھ کر عبادت کرتے اور مسلمانوں کو دین کی تعلیم دیتے. اس طرح تین سال گزر گئے. پھر اللہ تعالٰی نے آپ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم فرمایا. اعلانیہ تبلیغ کی ابتدا بھی دار ارقم سے ہوئی، پہلے آپ یہاں خفیہ طور پر دعوت دیتے رہے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے سورہ الشعراء میں آپ کو حکم فرمایا.

اور آپ اپنے نزدیک کے اہل خاندان کو ڈرائیے.

یہ حکم ملتے ہی آپ کافی پریشان ہوئے. یہاں تک کہ آپ کی پھوپھیوں نے خیال کیا کہ آپ کچھ بیمار ہیں چنانچہ وہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آپ کے پاس آئیں. تب آپ نے ان سے فرمایا.

میں بیمار نہیں ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤں. اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمام بنی عبد المطلب کو جمع کروں اور انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دوں.

یہ سن کر آپ کی پھوپھیوں نے کہا.

ضرور جمع کریں مگر ابو لہب کو نہ بلائیے گا کیونکہ وہ ہرگز آپ کی بات نہیں مانے گا.

ابو لہب کا دوسرا نام عبد العزی تھا. یہ آپ کا چچا تھا اور بہت خوبصورت تھا مگر بہت سنگدل اور مغرور تھا.

دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی عبد المطلب کے پاس دعوت بھیجی. اس پر وہ سب آپ کے ہاں جمع ہو گئے. ان میں ابو لہب بھی تھا. اس نے کہا.

یہ تمہارے چچا اور ان کی اولادیں جمع ہیں تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، اور اپنی بے دینی کو چھوڑ دو، ساتھ ہی تم یہ بھی سمجھ لو کہ تمہاری قوم میں یعنی ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہاری خاطر سارے عربوں سے دشمنی لے سکیں، لہذا اگر تم اپنے معاملے پر اڑے رہے تو خود تمہارے خاندان والوں ہی کا سب سے زیادہ فرض ہو گا کہ تمہیں پکڑ کر قید کر دیں، کیونکہ قریش کے تمام خاندان اور قبیلے تم پر چڑھ دوڑیں، اس سے تو یہی بہتر ہو گا کہ ہم ہی تمہیں قید کر دیں. اور میرے بھتیجے حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو چیز اپنے رشتے داروں کے سامنے پیش کی ہے اس سے بد تر چیز کسی اور شخص نے آج تک پیش نہیں کی ہوگی. آپ نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی اور حاضرین کو اللہ کا پیغام سنایا. آپ نے فرمایا.

اے قریش. کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.

آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا.

اے قریش، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.

وہاں صرف آپ کے رشتے دار ہی جمع نہیں تھے بلکہ قریش کے دوسرے قبیلے بھی موجود تھے، اس لیے آپ نے ان کے قبیلوں کے نام لے لے کر انہیں مخاطب فرمایا یعنی آپ نے یہ الفاظ ادا فرمائے.

اے بنی ہاشم، اپنی جانوں کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ.... اے بنی عبد شمس، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاو، اے بنی عبد مناف، اے بنی زہرہ، اے کعب بن لوی، اے بنی مرو بن کعب، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے صفیہ، محمد کی پھوپھی، اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.

ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ الفاظ بھی فرمائے.

نہ میں دنیا میں تمہیں فائدہ پہنچا سکتا ہوں نہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں. سوائے اس صورت کے کہ تم کہو لا الہ الا اللہ. چونکہ تمہاری مجھ سے رشتہ داری ہے اس لیے اس کے بھروسے پر کفر اور شرک کے اندھیروں میں گم نہ رہنا.

اس پر ابو لہب آگ بگولہ ہو گیا. اس نے تلملا کر کہا.

تو ہلاک ہو جائے. کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا.

پھر سب لوگ چلے گئے



یونٹ 24

 اسلام کی تبلیغ


اس کے بعد کچھ دن تک آپ ﷺخاموش رہے۔ پھر آپﷺ کے پاس جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے آپ کو اللہ کی جانب سے اللہ تعالٰی کے پیغام کو ہر طرف پھیلا دینے کا حکم سنایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ لوگوں کو جمع فرمایا۔ان کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں خاص طور پر تمہاری طرف اور عام طور پر سارے انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اللہ کی قسم! تم جس طرح جاگتے ہو، اسی طرح ایک دن حساب کتاب کے لئے دوبارہ جگائے جاؤ گے۔ پھر تم جو کچھ کررہے ہو، اس کا حساب تم سے لیا جائے گا۔ اچھائیوں اور نیک اعمال کے بدلے میں تمہیں اچھا بدلہ ملے گا اور برائی کا بدلہ برا ملے گا، وہاں بلاشبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہے۔اللہ کی قسم! اے بنی عبد المطلب! میرے علم میں ایسا کوئی نوجوان نہیں جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر اور اعلی کوئی چیز لے کر آیا ہو۔ میں تمہارے واسطے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔ "

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبے کو سن کر ابو لہب نے سخت ترین انداز میں کہا:

"اے بنی عبد المطلب! اللہ کی قسم! یہ ایک فتنہ ہے اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا اس پر ہاتھ ڈالے، بہتر یہ ہے کہ تم ہی اس پر قابو پالو، یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر تم اس کی بات سن کر مسلمان ہوجاتے ہو، تو یہ تمہارے لئے ذلت و رسوائی کے بات ہوگی - اگر تم اسے دوسرے دشمنوں سے بچانے کی کرو گے تو تم خود قتل ہوجاؤگے -"

اس کے جواب میں اس کی بہن یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:

"بھائی! کیا اپنے بھتیجے کو اس طرح رسوا کرنا تمہارے لیے مناسب ہے اور پھر اللہ کے قسم! بڑے بڑے عالم یہ خبر دیتے آرہے ہیں کہ عبدالمطلب کے خاندان میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں، لہٰذا میں تو کہتی ہوں، یہی وہ نبی ہیں -" 

ابولہب کو یہ سن کر غصہ آیا، وہ بولا:

"اللہ کی قسم یہ بالکل بکواس اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں کی باتیں ہیں - جب قریش کے خاندان ہم پر چڑھائی کرنے آئیں گے اور سارے عرب ان کا ساتھ دیں گے تو ان کے مقابلے میں ہماری کیا چلے گی - خدا کی قسم ان کے لیے ہم ایک تر نوالے کی حیثیت ہوں گے -"

اس پر ابوطالب بول اٹھے:

"اللہ کی قسم! جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم ان کے حفاظت کریں گے -" 

اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور تمام قریش کو اسلام کی دعوت دی - ان سب سے فرمایا:

"اے قریش! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے جھوٹا خیال کرو گے -" 

سب نے ایک زبان ہوکر کہا:

"نہیں! اس لیے کہ ہم نے آپ کو آج تک جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا -" 

اب آپ نے فرمایا:

"اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ تعالی کے ہاں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا، میں تمہیں اس زبردست عذاب سے صاف ڈرا رہا ہوں جو تمہارے سامنے ہے، میں تم لوگوں کو دو کلمے کہنے کی دعوت دیتا ہوں، جو زبان سے کہنے میں بہت ہلکے ہیں، لیکن ترازو میں بے حد وزن والے ہیں، ایک اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اب تم میں سے کون ہے جو میری اس بات کو قبول کرتا ہے -"

آپ کے خاموش ہونے پر ان میں سے کوئی نہ بولا تو آپ نے اپنی بات پھر دہرائی، پھر آپ نے تیسری بار اپنی بات دہرائی مگر اس بار بھی سب خاموش کھڑے رہے - اتنا ہوا کہ سب نے آپ کی بات خاموشی سے سن لی اور واپس چلے گئے - 

ایک دن قریش کے لوگ مسجد حرام میں جمع تھے، بتوں کو سجدے کررہے تھے، آپ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا:

"اے گروہ قریش! اللہ کی قسم! تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے راستے سے ہٹ گئے ہو -" 

آپ کی بات کے جواب میں قریش بولے:

"ہم اللہ تعالٰی کی محبت ہی میں بتوں کو پوجتے ہیں تاکہ اس طرح ہم اللہ تعالٰی کے قریب ہوسکیں -" 

(افسوس! آج کل ان گنت لوگ بھی قبروں کو سجدہ بالکل اسی خیال سے کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں) 

اس موقع پر اللہ تعالٰی نے ان کی بات کے جواب میں وحی نازل فرمائی:

ترجمہ: آپ فرمادیجیے! اگر تم اللہ تعالٰی سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالٰی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے - (سورۃ آل عمران:آیت 31)

قریش کو یہ بات بہت ناگوار گزری - انہوں نے ابوطالب سے شکایت کی:

"ابوطالب! تمہارے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا کہا ہے، ہمارے دین میں عیب نکالے ہیں، ہمیں بےعقل ٹھہرایا ہے، اس نے ہمارے باپ دادا تک کو گمراہ کہا ہے، اس لیے یا تو ہماری طرف سے آپ نپٹیے یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جایئے، کیونکہ خود آپ بھی اسی دین پر چلتے ہیں جو ہمارا ہے اور اس کے دین کے آپ بھی خلاف ہیں -"

ابو طالب نے انہیں نرم الفاظ میں یہ جواب دے کر واپس بھیج دیا کہ 

اچھا میں انہیں سمجھاؤں گا - 

ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا - حضرت جبرئیل نہایت حسین شکل و صورت میں بہترین خوشبو لگائے ظاہر ہوئے اور بولے:

"اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ آپ تمام جنوں اور انسانوں کی طرف سے اللہ تعالی کے رسول ہیں، اس لیے انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف بلایئے -" 

یہ حکم ملتے ہی آپ نے قریش کو براہ راست تبلیغ شروع کردی اور حالت اس وقت یہ تھی کہ کافروں کے پاس پوری طاقت تھی اور وہ آپ کی پیروی کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، کفر اور شرک ان کے دلوں میں بسا ہوا تھا - بتوں کی محبت ان کے اندر سرایت کرچکی تھی - ان کے دل اس شرک اور گمراہی کے سوا کوئی چیز بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے - شرک کی یہ بیماری لوگوں میں پوری طرح سماچکی تھی - 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا یہ سلسلہ جب بہت بڑھ گیا تو قریش کے درمیان ہر وقت آپ ہی کا ذکر ہونے لگا - وہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آپ سے دشمنی پر اتر آئے - آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے - یہاں تک سوچنے لگے کہ آپ کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا جائے، لیکن یہ لوگ پہلے ایک بار پھر ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے بولے:

"ابوطالب! ہمارے درمیان آپ بڑے قابل، عزت دار اور بلند مرتبہ آدمی ہیں، ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے، مگر آپ نے کچھ نہیں کیا، ہم لوگ یہ بات برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے معبودوں کو اور باپ داداؤں کو برا کہا جائے - ہمیں بےعقل کہا جائے - آپ انہیں سمجھا لیں ورنہ ہم آپ سے اور ان سے اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ختم نہ ہوجائے -



یونٹ 25

 قتل کی کوشش


قریش تو یہ کہہ کر چلے گئے، ابوطالب پریشان ہوگئے - وہ اپنی قوم کے غصے سے اچھی طرح واقف تھے - دوسری طرف وہ اس بات کو پسند نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی بھی شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا کرنے کی کوشش کرے، اس لیے انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: 

"بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے یہ، یہ کہا ہے، اس لیے اپنے اوپر اور مجھ پر رحم کرو اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہ سکوں -" 

ابوطالب کی اس گفتگو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ اب چچا ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، وہ بھی اب آپ کی مدد نہیں کرنا چاہتے، آپ کی حفاظت سے ہاتھ اٹھارہے ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا: 

"چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور یہ کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں، تو بھی میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ خود اللہ تعالٰی اس کو ظاہر فرمادیں -" 

یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز بھرا گئی - آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے - پھر آپ اٹھ کر جانے لگے، لیکن اسی وقت ابوطالب نے آپ کو پکارا:

"بھتیجے! ادھر آؤ -" 

آپ ان کی طرف مڑے تو انہوں نے کہا:

"جاؤ بھتیجے! جو دل چاہے کہو، اللہ کی قسم میں تمہیں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا -" 

جب قریش کو اندازہ ہوگیا کہ ابوطالب آپ کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو وہ عمارہ بن ولید کو ساتھ لےکر ابوطالب کے پاس آئے اور بولے:

"ابوطالب! یہ عمارہ بن ولید ہے - قریش کا سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور سب سے زیادہ حسین نوجوان ہے - تم اسے لےکر اپنا بیٹا بنالو اور اس کے بدلے میں اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کردو، اس لیے کہ وہ تمہارے اور تمہارے باپ دادا کے دین کے خلاف جارہا ہے، اس نے تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان کی عقلیں خراب کردی ہیں - تم اسے ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اسے قتل کردیں... انسان کے بدلے میں ہم تمہیں انسان دے رہے ہیں -"

قریش کی یہ بےہودہ تجویز سن کر ابوطالب نے کہا:

"اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا - کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اونٹنی اپنے بچے کو چھوڑ کر کسی دوسرے بچے کی آرزومند ہوسکتی ہے -" 

ان کا جواب سن کر مطعم بن عدی نے کہا:

"ابوطالب! تمہاری قوم نے تمہارے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ہے اور جو بات تمہیں ناپسند ہے اس سے چھٹکارے کے لیے کوشش کی ہے - اب میں نہیں سمجھتا کہ اس کے بعد تم ان کی کوئی اور پیش کش قبول کرو گے -" 

جواب میں ابوطالب بولے:

"اللہ کے قسم! انہوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا - بلکہ تم سب نے مل کر مجھے رسوا کرنے اور میرے خلاف گٹھ جوڑ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، اس لیے اب جو تمھارے دل میں آئے کرلو -"

بعد میں یہ شخص یعنی عمارہ بن ولید حبشہ میں کفر کی حالت میں مرا۔ اس پر جادو کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ وحشت زدہ ہوکر جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرا کرتا تھا۔ اسی طرح دوسرا شخص مطعم بن عدی بھی کفر کی حالت میں مرا۔

غرض جب ابو طالب نے قریش کی یہ پیش کش بھی ٹھکرادی تو معاملہ حد درجے سنگین ہوگیا۔ دوسری طرف ابو طالب نے قریش کے خطرناک ارادوں کو بھانپ لیا، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو بلایا، ان سے درخواست کی کہ سب مل کر آپ کی حفاظت کریں، آپ کا بچاؤ کریں۔ ان کی بات سن کر سوائے ابو لہب کے سب تیار ہوگئے۔ ابو لہب نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یہ بدبخت سختی کرنے اور آپ کے خلاف آواز اٹھانے سے باز نہ آیا۔ اسی طرح جو لوگ آپ پر ایمان لےآئے تھے ان کی مخالفت میں بھی ابو لہب ہی سب سے پیش پیش تھا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکالیف پہنچانے میں بھی یہ قریش سے بڑھ چڑھ کر تھا۔

آپ کو تکالیف پہنچانے کے سلسلے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، ایک روز میں مسجد حرام میں تھا کہ ابو جہل وہاں آیا اور بولا: 

"میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، اگر میں محمد کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ لوں، تو میں ان کی گردن ماردوں۔"

حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ سن کر میں فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور آپ کو بتایا کہ ابو جہل کیا کہہ رہا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصے کی حالت میں باہر نکلے اور تیز تیز چلتے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے، یہاں تک کہ گزرتے وقت آپ کو دیوار کی رگڑ لگ گئی۔ اس وقت آپ سورة العلق کی آیت 1،2 پڑھ رہے تھے:

"ترجمہ: اے پیغمبر! آپ اپنے رب کا نام لے کر (قرآن) پڑھا کیجئے! وہ جس نے مخلوقات کو پیدا کیا۔ جس نے انہیں خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔"

تلاوت کرتے ہوئے آپ اس سورت کی آیت 6 تک پہنچ گئے:

"ترجمہ: سچ مچ بے شک کافر آدمی حد سے نکل جاتا ہے۔"

یہاں تک کہ آپ نے سورة کا آخری حصہ پڑھا جہاں سجدے کی آیت ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ سجدے میں گرگئے۔ اسی وقت کسی نے ابو جہل سے کہا:

"ابو الحکم! یہ محمد سجدے میں پڑے ہیں۔"

یہ سنتے ہی ابو جہل فوراً آپ کی طرف بڑھا، آپ کے نزدیک پہنچا، لیکن پھر اچانک وآپس آگیا۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا:

"ابو الحکم! کیا ہوا؟"

جواب میں اس نے اور زیادہ حیران ہوکر کہا:

"جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں وہ نظر نہیں آرہا؟"

اس کی بات سن کر لوگ اور زیادہ حیران ہوئے اور بولے:

"تمہیں کیا نظر آرہا ہے ابو الحکم؟"

اس پر ابو جہل نے کہا:

"مجھے اپنے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق نظر آرہی ہے۔"

اسی طرح ایک دن ابو جہل نے کہا:

"اے گروہ قریش! جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، محمد تمہارے دین میں عیب ڈال رہا ہے، تمہارے معبودوں کو برا کہہ رہا ہے، تمہاری عقلوں کو خراب بتا رہا ہے اور تمہارے باپ داداؤں کو گالیاں دے رہا ہے، اس لئے میں خدا کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ کل میں محمد کے لئے اتنا بڑا پتھر لے کر بیٹھوں گا جس کا بوجھ وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، جونہی وہ سجدے میں جائیں گے، میں وہ پتھر ان کے سر پر دے ماروں گا، اس کے بعد تم لوگوں کو اختیار ہے، چاہو تو اس معاملے میں میری مدد کرنا اور مجھے پناہ دینا، چاہو تو مجھے دشمنوں کے حوالے کر دینا، پھر بنی عبد مناف میرا جو بھی حشر کریں۔"

یہ سن کر قریش نے کہا:

"اللہ کی قسم! ہم تمہیں کسی قیمت پر دغا نہیں دیں گے، اس لئے جو تم کرنا چاہتے ہو، اطمینان سے کرو۔"

دوسرے دن ابو جہل اپنے پروگرام کے مطابق ایک بہت بھاری پتھر اٹھا لایا اور لگا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے۔ ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عادت کے مطابق صبح کی نماز کے بعد وہاں تشریف لے آئے۔ اس وقت آپ کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔ آپ نماز کے لئے رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہوا کرتے تھے، کعبے کو اپنے اور بیت المقدس کے درمیان کر لیا کرتے تھے۔ آپ نے آتے ہی نماز کی نیت باندھ لی۔ ادھر قریش کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ دیکھیں آج کیا ہوتا ہے؟ ابو جہل اپنے پروگرام میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟

پھر جونہی آپ سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھایا اور آپ کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی وہ آپ کے نزدیک ہوا، ایک دم اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ چہرے کا رنگ اڑگیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے پیچھے ہٹ آیا۔ ادھر پتھر پر اس کے ہاتھ اس طرح جم گئے کہ اس نے چاہا، ہاتھ اس پر سے ہٹالے، لیکن ہٹا نہ سکا۔ قریش کے لوگ فوراً اس کے گرد جمع ہوگئے اور بولے:

"ابو الحکم! کیا ہوا؟ "

اس نے جواب دیا:

"میں نے رات کو تم سے جو کہا تھا، اس کو پورا کرنے کے لئے میں محمد کی طرف بڑھا مگر جیسے ہی ان کے قریب پہنچا، ایک جوان اونٹ میرے راستے میں آگیا۔ میں نے اس جیسا زبردست اونٹ آج تک نہیں دیکھا۔ وہ ایک دم میری طرف بڑھا جیسے مجھے کھالے گا۔"

جب اس واقعے کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

"وہ جبرئیل علیہ السلام تھے اگر وہ میرے نزدیک آتا تو وہ ضرور اسے پکڑ لیتے۔"



یونٹ 26

کڑی آزمائش 


ایک روز حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھےکہ ابوجہل آپ کے پاس آیا اور بولا: 

" کیا میں نے آپ کو اس سے منع نہیں کیا تھا، آپ جانتے نہیں، میں سب سے بڑے گروہ والا ہوں۔"

اس پر سورۃ العلق کی آیت ۱۷، ۱۸ نازل ہوئیں۔

ترجمہ: سو یہ اپنے گروہ کے لوگوں کو بلالے، اگر اس نے ایسا کیا تو ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلالیں گے۔

حضرت ابن عباس رضی الله عنہہ فرماتے ہیں۔

" اگر ابوجہل اپنے گروہ کو بلاتا تو الله تعالٰی کے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ کر تہس نہس کردیتے۔"

ایک روز ابوجہل حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ سے مخاطب ہوا: 

" آپ کو معلوم ہے میں بطحا والوں کا محافظ ہوں اور میں یہاں ایک شریف ترین شخص ہوں۔ "

اس وقت اللہ تعالٰی نے سورہ دخان کی آیت 49 نازل فرمائی: 

" ترجمہ: چکھ تو بڑا معزز مکرم ہے۔"

آیت کا یہ جملہ دوزخ کے فرشتے ابوجہل کو ڈالتے وقت پھٹکارتے ہوئے کہیں گے۔

ابولہب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی میں آگے آگے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ میں رکاوٹیں ڈالتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا تھا۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی اس کے ساتھ شامل تھی، وہ جنگل سے کانٹے دار لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں بچھاتی، اس پر الله تعالٰی نے سورۃ اللھب نازل فرمائی ۔ اس میں ابولہب کے ساتھ اس کی بیوی کوبھی عذاب کی خبر دی گئ۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگئ، پتھر ہاتھ میں لیئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھی۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ تھے۔ انہوں نے ابولہب کی بیوی کو آتے دیکھا تو فرمایا: 

" الله کے رسول! یہ عورت بہت زبان دراز ہے، اگر آپ یہاں ٹھرے تو اس کی بدزبانی سے آپ کو تکلیف پہنچے گی۔"

ان کی بات سن کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

" ابوبکر! فکر نہ کرو، وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔"

اتنے میں ام جمیل نزدیک پہنچ گئ۔ اسے وہاں صرف ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ نظر آئے۔ وہ آتے ہی بولی: 

" ابوبکر! تمہارے دوست نے مجھے ذلیل کیا ہیں، کہاں ہے تمہارا دوست جو شعر پڑتا ہے۔"

ابوبکر بولے: 

" کیا تمہیں میرے ساتھ کوئی نظر آرہا ہے۔"

"کیوں کیا بات ہے، مجھے تو تمہارے ساتھ کوئی نظر نہیں آرہا۔"

انہوں نے پوچھا:

"تم ان کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟"

جواب میں اس نے کہا:

"میں یہ پتھر اس کے منہ پر مارنا چاہتی ہوں،اس نے میری شان میں نازیبا شعر کہے ہیں۔" وہ سورة اللہب کی آیات کو شعر سمجھ رہی تھی۔

اس پر انہوں نے کہا: 

" نہیں! اللہ کی قسم! وہ شاعر نہیں ہیں۔ وہ تو شعر کہنا جانتے ہی نہیں، نہ انہوں نے تمہیں ذلیل کیا ہے۔"

یہ سن کر وہ وآپس لوٹ گئی۔ بعد میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

" اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو دیکھ کیوں نہیں سکی۔"

آپ نے ارشاد فرمایا:

"ایک فرشتے نے مجھے اپنے پروں میں چھپالیا تھا۔"

ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا تھا:

"میرے اور اس کے درمیان ایک آڑ پیدا کردی گئی تھی۔"

ابو لہب کے ایک بیٹے کا نام عتبہ تھا اور دوسرے کا نام عتیبہ تھا۔ اعلانِ نبوّت سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح ابو لہب کے ان دونوں بیٹوں سے کردیا تھا۔ یہ صرف نکاح ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کا آغاز ہوا اور سورۂ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے غصے میں آکر اپنے بیٹوں سے کہا:

" اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دوگے تو میں تمہارا چہرہ نہیں دیکھوں گا۔"

چنانچہ ان دونوں نے انہیں طلاق دے دی۔( دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے لئے اس میں حکمت تھی گویا اللہ تعالٰی نے چاہا کہ یہ پاک صاحب زادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جاسکیں۔) یہ رشتہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر ختم کیا گیا، یعنی آپ دونوں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادیاں تھیں، اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔ 

اس موقع پر عتیبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ صاحب زادیوں کی وجہ سے پہلے ہی غمگین تھے، ان حالات میں آپ نے اس کے حق میں بد دعا فرمائی:

" اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرمادے۔"

عتیبہ یہ بد دعا سن کر وہاں سے لوٹ آیا، اس نے اپنے باپ ابو لہب کو سارا حال سنایا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا ایک قافلے کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں یہ لوگ ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں قریب ہی ایک راہب کی عبادت گاہ تھی۔ راہب ان کے پاس آیا۔ اس نے انہیں بتایا:

"اس علاقے میں جنگلی درندے رہتے ہیں۔"

ابو لہب یہ سن کر خوف زدہ ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا یاد آگئی۔اس نے قافلے والوں سے کہا:

"تم لوگ میری حیثیت سے باخبر ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرا تم پر کیا حق ہے۔"

انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:

"بےشک ہمیں معلوم ہے۔"

ابو لہب یہ سن کر بولا:

"تب پھر تم ہماری مدد کرو، میں محمد کی بد دعا کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا ہوں، اس لئے تم لوگ اپنا سامان اس عبادت گاہ کی طرف رکھ کر اس پر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے چاروں طرف تم لوگ اپنے بستر لگالو۔"

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہی نہیں، انہوں نے اپنے چاروں طرف اپنے اونٹوں کو بھی بٹھادیا۔ اس طرح عتیبہ ان سب کے عین درمیان میں آگیا۔ اب وہ سب اس کی پاسبانی کرنے لگے۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔نصف رات کے قریب ایک شیر وہاں آیا اور سوئے ہوئے لوگوں کو سونگھنے لگا۔ ایک ایک کو سونگھتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ لمبی چھلانگ لگا کر عتیبہ تک پہنچ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اسے چیر پھاڑ کر ہلاک کرڈالا۔

تکالیف پہنچانے کا ایک اور واقعہ اس طرح پیش آیا کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریب ہی کچھ جانور ذبح کئے گئے تھے۔ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ ان جانوروں کی ایک اوجھڑی ابھی تک وہیں پڑی تھی۔ ایسے میں ابو جہل نے کہا: 

"کیا کوئی شخص ایسا ہے جو اس اوجھڑی کو محمد کے اوپر ڈال دے۔"

ایک روایت کے مطابق کسی نے کہا:

"کیا تم یہ منظر نہیں دیکھ رہے ہو تم میں سے کون ہے جو وہاں جائے جہاں فلاں قبیلے نے جانور ذبح کئے ہیں، ان کا گوبر، لید، خون اور اوجھڑی وہاں پڑے ہیں۔ کوئی شخص وہاں جاکر گندگی اٹھالائے اور محمد کے سجدے میں جانے کا انتظار کرے۔ پھر جونہی وہ سجدے میں جائیں، وہ شخص گندگی ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے۔"

تب مشرکوں میں سے ایک شخص اٹھا۔ اس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ یہ گیا اور اوجھڑی اٹھالایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اوجھڑی آپ پر رکھ دی۔

اس پر مشرکین زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ ہنسی سے بے حال ہوگئے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسے میں کسی نے حضرت فاطمة الزهراء رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی۔ وہ روتی ہوئی حرم میں آئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح سجدے میں تھے اور اوجھڑی آپ کے کندھوں پر تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اوجھڑی کو آپ پر سے ہٹایا۔ اس کے بعد آپ سجدے سے اٹھے اور نماز کی حالت میں کھڑے ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے حق میں بد دعا فرمائی:

"اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے۔"

قریش جو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے تھے، یہ بد دعا سنتے ہی ان کی ہنسی کافور ہوگئی۔ اس بد دعا کی وجہ سے وہ دہشت زدہ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بھی بد دعا فرمائی:

"اے اللہ! تو عمرو بن ہشام کو سزا دے۔(یعنی ابو جہل کو)، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف کو سزا دے۔"

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

"اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جن قریشیوں کا نام لیا تھا، میں نے انہیں غزوۂ بدر میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا دیکھا، اور پھر ان کی لاشوں کو ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:

"ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرمارہے تھے، اس وقت آپ کا ہاتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ حجر اسود کے پاس تین آدمی بیٹھے تھے۔ جب آپ حجر اسود کے پاس سے گزرے اور ان کے قریب پہنچے تو ان تینوں نے آپ کی ذات با برکات پر چند جملے کسے۔ ان جملوں کو سن کر آپ کو تکلیف پہنچی۔ تکلیف کے آثار آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئے۔دوسرے پھیرے میں ابو جہل نے کہا:

" تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت کرنے سے روکتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں، لیکن ہم تم سے صلح نہیں کر سکتے۔" جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"میرا بھی یہی حال ہے۔"

پھر آپ آگے بڑھ گئے۔ تیسرے پھیرے میں بھی انہوں نے ایسا ہی کہا۔ پھر چوتھے پھیرے میں یہ تینوں یک دم آپ کی طرف جھپٹے۔



یونٹ 27

 قربانیاں ہی قربانیاں


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ابو جہل نے ایک دم آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک گھونسہ اس کے سینے پر مارا۔ اس سے وہ زمین پر گر پڑا۔ دوسری طرف سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف کو دھکیلا،تیسری طرف خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابی معیط کو دھکیلا۔ آخر یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا:

"اللہ کی قسم! تم لوگ اس وقت تک نہیں مرو گے، جب تک اللہ کی طرف سے اس کی سزا نہیں بھگت لوگے۔"

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"یہ الفاظ سن کر ان تینوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو خوف کی وجہ سے کانپنے نہ لگا ہو۔"

پھر آپ نے ارشاد فرمایا:

"تم لوگ اپنے نبی کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے۔"

یہ فرمانے کے بعد آپ اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔

جب آپ اپنے دروازے پر پہنچے تو اچانک ہماری طرف مڑے اور فرمایا:

"تم لوگ غم نہ کرو، اللہ تعالٰی خود اپنے دین کو پھیلانے والا، اپنے کلمے کو پورا کرنے والا اور اپنے نبی کی مدد کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کو اللہ بہت جلد تمہارے ہاتھوں ذبح کروائے گا۔"

اس کے بعد ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اور پھر اللہ کی قسم غزوۂ بدر کے دن اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں ذبح کرایا۔

ایک روز ایسا ہوا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، ایسے میں عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا، اس نے اپنی چادر اتار کر آپ کی گردن میں ڈالی اور اس کو بل دینے لگا۔ اس طرح آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دھکیلا۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا:

"کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے...اور جو تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آیا ہے۔"

بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

"مجھے بتائیے! مشرکین کی طرف سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ بدترین اور سخت ترین سلوک کس نے کیا تھا؟"

جواب میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز ادا فرمارہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس سے پوری قوت سے آپ کا گلا گھونٹا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے دھکیل کر ہٹایا۔"

یہ قول حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ہے، انہوں نے یہی سب سے سخت برتاؤ دیکھا ہوگا، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔

پھر جب مسلمانوں کی تعداد 38 ہوگئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: 

"اے اللہ کے رسول! مسجد الحرام میں تشریف لے چلئے تاکہ ہم وہاں نماز ادا کر سکیں۔"

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی ہے۔"

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر اسی خواہش کا اظہار کیا۔ آخر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد الحرام میں پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ لوگوں کو کلمہ پڑھ لینے کی دعوت دی۔ اس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں، جنہوں نے مجمعے میں کھڑے ہوکر اس طرح تبلیغ فرمائی۔ 

اس خطبے کے جواب میں مشرکین مکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے سب سے زیادہ مارا پیٹا، مارپیٹ کی انتہا کردی گئی۔ عقبہ نے تو انہیں اپنے جوتوں سے ماررہا تھا۔ اس میں دوہرا تلا لگا ہوا تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ان جوتوں سے اتنی ضربیں لگائیں کہ چہرہ لہو لہان ہوگیا۔ ایسے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگ وہاں پہنچ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی مشرکین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے پر لٹایا اور بے ہوشی کی حالت میں گھر لے آئے۔ ان سب کو یقین ہوچکا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آج زندہ نہیں بچیں گے۔ اس کے بعد بنو تمیم کے لوگ واپس حرم آئے۔ انہوں نے کہا :

"اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مرگئے تو ہم عقبہ کو قتل کر دیں گے۔"

یہ لوگ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انہوں نے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد نے ان سے بار بار بات کرنے کی کوشش کی، لیکن آپ بالکل بے ہوش تھے۔ آخر شام کے وقت کہیں جاکر آپ کو ہوش آیا اور بولنے کے قابل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا:

"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟"

گھر میں موجود افراد نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار اپنا سوال دہرا رہے تھے۔ آخر ان کی والدہ نے کہا:

"اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے دوست کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔"

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"اچھا تو پھر ام جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں، ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرکے مجھے بتائیں۔"

ام جمیل رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، اسلام قبول کرچکی تھیں،لیکن ابھی تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ ان کے پاس پہنچیں، انہوں نے ام جمیل رضی اللہ عنہا سے کہا:

"ابو بکر محمد بن عبد اللہ کی خیریت پوچھتے ہیں۔"

ام جمیل رضی اللہ عنہا چونکہ اپنے بھائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرتی تھی، وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے انہوں نے کہا:

"میں نہیں جانتی۔"

ساتھ ہی وہ بولیں:

"کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں؟"

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ نے فوراً کہا: 

"ہاں!"

اب یہ دونوں وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو زخموں سے چور دیکھا تو چیخ پڑیں:

جن لوگوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ یقیناً فاسق اور بد ترین لوگ ہیں، مجھے یقین ہے، اللہ تعالٰی ان سے آپ کا بدلہ لے گا۔"

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟"

ام جمیل رضی اللہ عنہا ایسے لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھیں جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، چنانچہ بولیں:

یہاں آپ کی والدہ موجود ہیں۔"

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:

"ان کی طرف سے بے فکر رہیں،یہ آپ کا راز ظاہر نہیں کریں گی۔"

اب ام جمیل رضی اللہ عنہا نے کہا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔"

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں۔"

"ام جمیل نے فرمایا: 

"دار ارقم میں ہیں۔"

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے:

"اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل نہ لوں۔"

ان دونوں نے کچھ دیر انتظار کیا...تاکہ باہر سکون ہو جائیں...آخر یہ دونوں انہیں سہارا دے کر لے چلیں اور دار ارقم پہنچ ہوگئیں، جونہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو بےحد صدمہ ہوا۔ آپ نے آگے بڑھ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں بوسہ دیا۔ باقی مسلمانوں نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

"آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ تو نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ میرے چہرے پر چوٹیں آئی ہیں۔ یہ میری والدہ میرے ساتھ آئی ہیں، ممکن ہے اللہ تعالٰی آپ کے طفیل انہیں جہنم کی آگ سے بچالے۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسی وقت ایمان لے آئیں، جس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کو بےحد خوشی ہوئی۔

ایک روز صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے۔ ایسے میں کسی نے کہا:

"اللہ کی قسم! قریش نے آج تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی زبان سے بلند آواز میں قرآن نہیں سنا۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو ان کے سامنے بلند آواز میں قرآن پڑھے۔"

یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بول اٹھے:

"میں ان کے سامنے بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا۔"



یونٹ 28

حقیقت روشن ہوگئی


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سن کر صحابہ نے کہا

"ہمیں قریش کی طرف سے آپ کے بارے میں خطرہ ہے، ہم تو ایسا آدمی چاہتے ہیں جس کا خاندان قریش سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔"

اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

تم میری پروا نہ کرو، اللہ تعالی خود میری حفاظت فرمائیں گے۔"

دوپہر کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیت اللہ میں پہنچ گئے۔آپ مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوگئے۔اس وقت قریش اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اب انہوں نے بلند آواز سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔

قریش نے یہ آواز سنی تو کہنے لگے، 

"اس غلام زاد کو کیا ہوا؟ "

کوئی اور بولا:

"محمد جو کلام لے کر آئے ہیں، یہ وہی پڑھ رہا ہے. "

یہ سنتے ہی مشرکین ان کی طرف دوڑ پڑےاور لگے انہیں مارنے پیٹنے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چوٹیں کھاتے جاتے تھے اور قرآن پڑھتے جاتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے سورۃ کا زیادہ تر حصہ تلاوت کرڈالا۔اس کے بعد وہاں سے اپنے ساتھیوں کے پاس آگئے۔ان کا چہرہ اس وقت تک لہولہان ہوچکا تھا۔ان کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان بول اٹھے:

"ہمیں تمہاری طرف سے اسی بات کا خطرہ تھا، "

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"اللہ کی قسم! اللہ کے دشمنوں کو میں نے اپنے لیے آج سے زیادہ ہلکا اور کمزور کبھی نہیں پایا۔اگر تم لوگ کہو تو کل پھر ان کے سامنے جا کر قرآن پڑھ سکتا ہوں-"

اس پر مسلمان بولے!

"نہیں، وہ لوگ جس چیز کو نا پسند کرتے ہیں، آپ انہیں وہ کافی سنا آئے ہیں،"

کفار کا یہ ظلم و ستم جاری رہا۔ایسے میں ایک دن حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی کے پاس موجود تھے۔ابوجہل آپ کے پاس سے گزرا۔اس نے آپ کو دیکھ لیا اورلگا گالیاں دینے، اس نے آپ کے سر پر مٹی بھی پہنکی۔عبداللہ بن جدعان کی باندی نے یہ منظر دیکھا۔پھر ابو جہل آپ کےپاس سے چل کر حرم میں داخل ہوا۔وہاں مشرکین جمع تھے۔وہ ان کے سامنے اپنا کارنامہ بیان کرنے لگا۔اسی وقت آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہوئے۔یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔تلوار ان کی کمر سے لٹک رہی تھی۔وہ اس وقت شکار سے واپس آئے تھے۔ان کی عادت تھی کہ جب شکار سے لوٹتے تو پہلے حرم جا کر طواف کرتے تھے پھر گھر جاتے تھے۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہونے سے پہلے عبداللہ بن جدعان کی باندی کے پاس سے گزرے، اسنے سارا منظر خاموشی سے دیکھا اور سنا تھا۔اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کہا:

"اے حمزہ! کچھ خبر بھی ہے، ابھی ابھی یہاں ابو حکم بن ہشام( ابو جہل)نے تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔وہ یہاں بیٹھے تھے، ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا، انہیں تکالیف پہنچائیں، گالیاں دیں اور بہت بری طرح پیش آیا، آپ کے بھتیجے نے جواب میں اسے کچھ بھی نہ کہا -"

ساری بات سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا:

"تم جو کچھ بیان کررہی ہو، کیا یہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے -" 

اس نے فوراً کہا:

"ہاں! میں نے خود دیکھا ہے -" 

یہ سنتے ہی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں آگئے - چہرہ غصے سے تمتما اٹھا - فوراً حرم میں داخل ہوئے، وہاں ابوجہل موجود تھا - وہ قریشیوں کے درمیان میں بیٹھا تھا، یہ سیدھے اس تک جاپہنچے - ہاتھ میں کمان تھی، بس وہی کھینچ کر اس کے سر پر دے ماری - ابوجہل کا سر پھٹ گیا - حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:

"تو محمد کو گالیاں دیتا ہے، سن لے! میں بھی اس کا دین اختیار کرتا ہوں - جو کچھ وہ کہتا ہے، وہی میں بھی کہتا ہوں، اب اگر تجھ میں ہمت ہے تو مجھے جواب دے -" 

ابوجہل ان کی منت سماجت کرتے ہوئے بولا:

وہ ہمیں بےعقل بتاتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے، ہمارے باپ دادا کے راستے کے خلاف چلتا ہے -"

یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بولے:

"اور خود تم سے زیادہ بے عقل اور بےوقوف کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر پتھر کے ٹکڑوں کو پوجتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں -" 

ان کے یہ الفاظ سن کر ابوجہل کے خاندان کے کچھ لوگ یک دم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور انہوں نے کہا:

"اب تمہارے بارے میں بھی ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ تم بھی بےدین ہوگئے ہو -" 

جواب میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"آؤ....کون ہے مجھے اس سے روکنے والا - مجھ پر حقیقت روشن ہوگئی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ حق اور سچائی ہے، اللہ کی قسم! میں انہیں نہیں چھوڑوں گا - اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ -" 

یہ سن کر ابوجہل نے اپنے لوگوں سے کہا:

"ابو عمارہ (یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) کو چھوڑدو، میں نے واقعی ان کے بھتیجے کے ساتھ ابھی کچھ برا سلوک کیا تھا -"

وہ لوگ ہٹ گئے - حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ گھر پہنچے - گھر آکر انہوں نے الجھن محسوس کی کہ یہ میں قریش کے سامنے کیا کہہ آیا ہوں... میں تو قریش کا سردار ہوں -

لیکن پھر ان کا ضمیر انہیں ملامت کرنے لگا، آخر شدید الجھن کے عالم میں انہوں نے دعا کی:

"اے اللہ! اگر یہ سچا راستہ ہے تو میرے دل میں یہ بات ڈال دے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے اس مشکل سے نکال دے، جس میں میں گھر گیا ہوں -"

وہ رات انہوں نے اسی الجھن میں گزاری - آخر صبح ہوئی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے - آپ سے عرض کیا:

"بھتیجے! میں ایسے معاملے میں الجھ گیا ہوں کہ مجھے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور ایک ایسی صورت حال میں رہنا، جس کے بارے میں میں نہیں جانتا، یہ سچائی ہے یا نہیں، بہت سخت معاملہ ہے -" 

اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے - آپ نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا - ثواب کی خوش خبری سنائی، آپ کے وعظ و نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کا نور عطا فرمادیا، وہ بول اٹھے:

"اے بھتیجے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ کے رسول ہو - بس اب تم اپنے دین کو کھل کر پیش کرو -"

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اسی واقعے پر قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:

ترجمہ: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اسے لیے ہوئے چلتا پھرتا ہے۔ (سورة الانعام)

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ خوشی ہوئی، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے سگے چچا تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ قریش میں سب سے زیادہ معزز فرد تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ قریش کے سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور خوددار انسان تھے۔ اور اسی بنیاد پر جب قریش نے دیکھا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید قوت حاصل ہوگئی ہے تو انہوں نے آپ کو تکالیف پہنچانے کا سلسلہ بند کردیا، لیکن اپنے تمام ظلم و ستم اب وہ کمزور مسلمانوں پر ڈھانے لگے۔ کس قبیلے کا بھی کوئی شخص مسلمان ہوجاتا وہ اس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجاتے، ایسے لوگوں کو قید کردیتے، بھوکا پیاسا رکھتے تپتی ریت پر لٹاتے، یہاں تک کہ اس کا یہ حال ہوجاتا کہ سیدھے بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہتا ۔ اس ظلم اور زیادتی پر سب سے زیادہ ابوجہل لوگوں کو اکساتا تھا ۔

ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ کا پورا نام بلال بن رباح تھا۔ یہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلے عبداللہ بن جدعان تیمی کے غلام تھے ۔ عبداللہ بن جدعان کے سو غلام تھے، یہ ان میں سے ایک تھے۔ جب اسلام کا آغاز ہوا اور اس کا نور پھیلا تو عبداللہ بن جدعان نے اپنے ٩٩ غلاموں کو اس خوف سے مکہ سے باہر بھجوا دیا کہ کہ کہیں وہ مسلمان نہ ہوجائیں ۔ بس اس نے حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ اس کی بکریاں چرایا کرتےتھے ۔ اسلام کی روشنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ تک بھی پہنچی ۔ یہ ایمان لے آئے مگر انہوں نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔ ایک روز انہوں نے کعبہ کے چاروں طرف رکھے بتوں پر گندگی ڈال دی۔ ساتھ ہی وہ ان پر تھوکتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: 

"جس نے تمہاری عبادت کی وہ تباہ ہوگیا"

یہ بات قریش کو معلوم ہوگئی۔ وہ فورا عبداللہ بن جدعان کے پاس آئے... اور اس سے بولے: 

"تم بے دین ہوگئے ہو۔"

اس نے حیران ہوکر کہا: 

"کیا میرے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے؟ "

اس پر وہ بولے: 

"تمہارے غلام بلال نے آج ایسا ایسا کیا ہے۔"

"کیا!!! "

وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔



یونٹ 29

آزمائشوں پر آزمائشیں 


عبداللہ بن جدان نے فوراً قریش کو ایک سو درہم دیےتاکہ بتوں کی جو توہین ہوئی ہے، اس کے بدلے ان کے نام پر کچھ جانور ذبح کردیے جائیں۔ پھر وہ حضرت بلال رضی الله عنہ کی طرف بڑھا۔ اس نے انہیں رسی سے باندھ دیا۔ تمام دن بھوکا اور پیاسا رکھا۔ پھر تو یہ اس کا روز کا معمول بن گیا۔ جب دوپہر کے وقت سورج آگ برسانے لگتا تو انہیں گھر سے نکال کر تپتی ہوئی ریت پر چت لٹادیتا۔ اس وقت ریت اس قدر گرم ہوتی تھی کہ اگر اس پر گوشت کا ٹکڑا رکھ دیا جاتا تو وہ بھی بھن جاتا تھا۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتا تھا، ایک وزنی پتھر منگاتا اور ان کے سینے پر رکھ دیتا تاکہ وہ اپنی جگہ پر سے ہل بھی نہ سکیں۔ پھر وہ بدبخت ان سے کہتا: 

" اب یا تو محمد کی رسالت اور پیغمبری سے انکار کر اور لات و عزیٰ کی عبادت کر ورنہ میں تجھے یہاں اسی طرح لٹائے رکھوں گا، یہاں تک کہ تیرا دم نکل جائے گا۔ "

حضرت بلال رضی الله عنہ اس کی بات کے جواب میں فرماتے: 

" احد.... احد ۔ "

یعنی الله تعالٰی ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔

جب حضرت بلال رضی الله عنہ کسی طرح اسلام سے نہ ہٹے تو تنگ آکر عبدالله بن جدعان نے انہیں امیہ بن خلف کے حوالے کردیا۔ اب یہ شخص ان پر اس سے بھی زیادہ ظلم و ستم ڈھانے لگا۔ 

ایک روز انہیں اسی قسم کی خوفناک سزائیں دی جارہی تھیں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس طرف سے گذرے ۔حضرت بلال رضی الله عنہ شدت تکلیف کی حالت میں احد احد پکار رہے تھے۔آپ نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا: 

" بلال! تمہیں یہ احد احد ہی نجات دلائےگا۔ "

پھر ایک روز حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اس طرف سے گذرے۔ امیہ بن خلف نے انہیں گرم ریت پر لٹا رکھا تھا۔ سینے پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا تھا۔انہوں نے یہ دردناک منظر دیکھ کر امیہ بن خلف سے کہا: 

" کیا اس مسکین کے بارے میں تمہیں الله کا خوف نہیں آتا، آخر کب تک تم اسے عذاب دیے جاؤگے۔"

امیہ بن خلف نے جل کر کہا: 

" تم ہی نے اسے خراب کیا ہے، اس لیے تم ہی اسے نجات کیوں نہیں دلادیتے۔"

اس کی بات سن کر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ بولے: 

" میرے پاس بھی ایک حبشی غلام ہے، وہ اس سے زيادہ طاقتور ہے اور تمہارے ہی دین پر ہے، میں ان کے بدلے میں تمہیں وہ دے سکتا ہوں ۔"

یہ سن کر امیہ بولا: 

" مجھے یہ سودہ منظور ہے۔ "

یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا حبشی غلام اس کے حوالے کردیا۔ اس کے بدلے میں حضرت بلال رضی الله عنہ کو لے لیا اور آزاد کردیا۔ سبحان الله! کیا خوب سودہ ہوا، یہاں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا حبشی غلام دنیا کے لحاظ سے بہت قیمتی تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیہ بن خلف نے غلام کے ساتھ دس اوقیہ سونا بھی طلب کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اس کا یہ مطالبہ بھی مان لیا تھا چنانچہ آپ نے اسے ایک یمنی چادر اور کچھ سونا دیا تھا - ساتھ ہی آپ نے امیہ بن خلف سے فرمایا تھا:

"اگر تم مجھ سے سو اوقیہ سونا بھی طلب کرتے تو بھی میں تمہیں دے دیتا -" 

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سے غلام مسلمانوں کو خرید کر آزاد فرمایا تھا، یہ وہ مسلمان غلام تھے جنہیں اللہ کا نام لینے کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا - ان میں ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی والدہ حمامہ رضی اللہ عنہا تھیں - ایک عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ تھے - انہیں اللہ کا نام لینے پر بڑے بڑے سخت عذاب دیے جاتے - یہ قبیلہ بنی تیم کے ایک شخص کے غلام تھے - وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رشتے دار تھا - آپ نے اپنے رشتے دار سے خرید کر انہیں بھی آزاد فرمایا - ایک صاحب ابو فکیہ رضی اللہ عنہ تھے - یہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے غلام تھے - یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے -

صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی ابتدا میں مسلمانوں کے سخت مخالف تھے - وہ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے - ایک روز انہوں نے حضرت ابو فکیہ رضی اللہ عنہ کو گرم ریت پر لٹا رکھا تھا - ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے - اس وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے:

"اسے ابھی اور عذاب دو، یہاں تک کہ محمد یہاں آکر اپنے جادو سے اسے نجات دلائیں -" 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے انہیں خرید کر آزاد کردیا - 

اسی طرح زنیرہ رضی اللہ عنہا نامی ایک عورت کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر اس قدر خوفناک سزائیں دی گئیں کہ وہ بےچاری اندھی ہوگئیں، ایک روز ابوجہل نے ان سے کہا:

جو کچھ تم پر بیت رہی ہے، یہ سب لات و عزی کر رہے ہیں.

یہ سنتے ہی زنیرہ رضی اللہ عنہا نے کہا.

ہر گز نہیں، اللہ کی قسم، لات و عزی نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ کوئی نقصان... یہ جو کچھ ہو رہا ہے، آسمان والے کی مرضی سے ہو رہا ہے. میرے پروردگار کو یہ بھی قدرت ہے کہ وہ مجھے میری آنکھوں کی روشنی لوٹا دے.

دوسرے دن وہ صبح اٹھیں تو ان کی آنکھوں کی روشنی اللہ تعالٰی نے لوٹا دی تھی.

اس بات کا جب کافروں کو پتا چلا تو تو وہ بول اٹھے.

یہ محمد کی جادوگری ہے.

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.

آپ نے زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کو بھی خرید کر آزاد کیا. اسی طرح نہدیہ نام کی ایک باندی تھیں. ان کی ایک بیٹی بھی تھیں. دونوں ولید بن مغیرہ کی باندیاں تھیں. انھیں بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آزاد کر دیا.

عامر بن فہیرہ کی بہن اور ان کی والدہ بھی ایمان لے آئی تھیں. یہ حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی باندیاں تھیں. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.

ایمان لانے والے جن لوگوں پر ظلم ڈھائے گئے. ان میں سے ایک حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بھی ہیں. کافروں نے انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوششیں کیں مگر یہ ثابت قدم رہے. انہیں جاہلیت کے زمانے میں گرفتار کیا گیا تھا، پھر انہیں ایک عورت ام انمار نے خرید لیا، یہ ایک لوہار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی دل جوئی فرماتے تھے. ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے. جب یہ مسلمان ہو گئے اور ام انمار کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے انہیں بہت خوفناک سزائیں دیں. وہ لوہے کا کڑا لے کر آگ میں گرم کرتی٬ خوب سرخ کرتی٬پھر اس کو حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھ دیتی، آخر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنی مصیبت کا ذکر کیا تو آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کے فوراً بعد اس عورت کے سر میں شدید درد شروع ہو گیا. اس سے وہ کتوں کی طرح بھونکتی تھی، آخر کسی نے اسے علاج بتایا کہ وہ لوہا تپا کر سر پر رکھوائے، اس نے یہ کام حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے ذمے لگایا. اب آپ وہ حلقہ خوب گرم کر کے اس کے سر پر رکھتے.



یونٹ 30

چاند دو ٹکڑے ہو گیا


حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر خوب ظلم کیا جاتا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا.

اے اللہ کے رسول، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے.

میرے الفاظ سنتے ہی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔پھر آپ نے فرمایا۔

تم سے پہلی امت کے لوگوں کو اپنے دین کے لیے کہیں زیادہ عذاب برداشت کرنے پڑے٬ ان کے جسموں پر لوہے کی کنگھییاں کی جاتی تھیں، جس سے ان کی کھال اور ہڈیاں الگ ہو جاتی تھیں، مگر یہ تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکیں۔ ان کے سروں پر آرے چلا چلا کر ان کے جسم دو کر دییے گئے مگر وہ اپنا دین چھوڑنے پر تیار پھر بھی نہ ہوئے. اس دین اسلام کو اللہ تعالٰی اس طرح پھیلا دے گا کہ صنعاء کے مقام سے حضر موت جانے والے سوار کو سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ چرواہے کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیوں کا ڈر نہیں ہو گا۔

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میرے لیے آگ دہکائی گئی، پھر وہ آگ میری کمر پر رکھ دی گئی اور پھر اس کو اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا جب تک کہ وہ آگ میری کمر کی چربی سے بجھ نہ گئی۔

ایسے ہی لوگوں میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے مشرکوں نے طرح طرح کے ظلم کیے، آگ سے جلا جلا کر عذاب دیے، مگر وہ دین پر قائم رہے۔

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں.

ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف تشریف لے جا رہے تھے اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آگ سے جلا جلا کر تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں۔ ان کی کمر پر جلنے کی وجہ سے کوڑھ جیسے سفید داغ پڑ گئے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا۔

اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا، جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہو گئی تھی۔

اس دعا کے بعد انہیں آگ کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔

حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، ان کے بھائی عبداللہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہم، ان سبھی کو اللہ کا نام لینے کی وجہ سے سخت ترین عذاب دیے گئے۔ ایک روز جب انہیں تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف سے گزرے، آپ نے ان کی تکالیف کو دیکھ کر فرمایا.

اے اللہ، آل یاسر کی مغفرت فرما.

ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل کے چچا حذیفہ بن ابن مغیرہ نے ابو جہل کے حوالے کر دیا۔یہ اس کی باندی تھیں۔ابو جہل نے انہیں نیزہ مارا۔اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ اس طرح اسلام میں انہیں سب سے پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آخر انہی مظالم کی وجہ سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔

اپنے ان مظالم اور بدترین حرکات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔

ایک روز ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:

"اے محمد! اگر تم سچے ہو تو ہمیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ، وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر نظر آئے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ پر نظر آئے۔"

مطلب یہ تھا کہ دونوں ٹکڑے کافی فاصلے پر ہوں تاکہ اس کے دو ٹکڑے ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔

اس روز مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ چاند پورا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ عجیب فرمائش سن کر فرمایا:

"اگر میں ایسا کر دکھاؤں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے ۔"

انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:

"ہاں!بالکل! ہم ایمان لے آئیں گے۔"

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ آپ کے ہاتھ سے ایسا ہوجائے،چنانچہ چاند فوراً دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک حصہ ابوقبیس کے پہاڑ کےاوپر نظر آیا، دوسرا قعیقعان پہاڑ پر، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"لو اب گواہی دو۔"

ان کے دلوں پر تو قفل پڑے تھے، کہنے لگے:

"محمد نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔"

کچھ نے کہا:

"محمد نے چاند پر جادو کردیا ہے مگر ان کے جادو کا اثر ساری دنیا کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا۔"

مطلب یہ تھا کہ ہر جگہ کے لوگ چاند کو دو ٹکڑے نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اب انہوں نے کہا:

"ہم دوسرے شہروں سے آنے والوں سے یہ بات پوچھیں گے۔"

چنانچہ جب مکہ میں دوسرے شہروں کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے چاند کے بارے میں ان سے پوچھا، آنے والے سب لوگوں نے یہی کہا:

"ہاں ہاں! ہم نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔"

یہ سنتے ہی مشرک بول اٹھے:

"بس! پھر تو یہ عام جادو ہے، اس کا اثر سب پر ہوا ہے۔"

کچھ نے کہا:

"یہ ایک ایسا جادو ہے جس سے جادوگر بھی متاثر ہوئے ہیں۔"

یعنی جادوگروں کو بھی چاند دو ٹکڑے نظر آیا ہے۔ 

اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ قمر کی آیات نازل فرمائی۔

"ترجمہ: قیامت نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہو جائے گا۔

مختلف قوموں کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا صرف مکہ میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ 

اسی طرح ایک دن مشرکین نے کہا:

"اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹادیجئے جن کی وجہ سے ہمارا شہر تنگ ہورہا ہے۔ تاکہ ہماری آبادیاں پھیل کر بس جائیں۔ اور اپنے رب سے کہہ کر ایسی نہریں جاری کرادیں جیسی شام اور عراق میں ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کراکے دکھائیں۔ ان دوبارہ زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو، اس لئے کہ وہ نہایت دانا اور عقل مند بزرگ تھا۔ ہم اس سے پوچھیں گے، آپ جو کچھ کہتے ہیں، سچ ہے یا جھوٹ، اگر ہمارے ان بزرگوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے ہمارے یہ مطالبے پورے کردیئے تو ہم آپ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور جان لیں گے کہ آپ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اللہ تعالٰی نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے...جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں۔"

ان کی یہ باتیں سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"مجھے ان باتوں کے لئے تمہاری طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔"



یونٹ 31

 مشرکین کے مطالبات


ایک مشرک کہنے لگا:

"آپ اسی طرح کھانا کھاتے ہیں جس طرح ہم کھاتے ہیں، اسی طرح بازاروں میں چلتے ہیں جس طرح ہم چلتے ہیں، ہماری طرح ہی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، لہٰذا آپ کو کیا حق ہے کہ نبی کہہ کر خود کو نمایاں کریں اور یہ کہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو آپ کی تصدیق کرتا۔"

اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ فرقان کی آیت 7 نازل فرمائی:

"ترجمہ: اور یہ کافر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر ڈرایا کرتا۔ اس کے پاس غیب سے کوئی خزانہ آ پڑتا یا اس کے پاس کوئی (غیبی) باغ ہوتا جس سے یہ کھایا کرتا اور ایمان لانے والوں سے یہ ظالم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو ایک بے عقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔"

پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالٰی کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ہم ہی میں سے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجے تو اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ یونس کی آیت نازل فرمائی:

"ترجمہ: کیا ان مکہ کے لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف چلنے پر ڈرائیں اور جو ایمان لے آئے، انہیں خوش خبری سنادیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پہنچ کر پورا رتبہ ملے گا۔"

اس کے بعد ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: 

"ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرادو، جیسا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تمہارا رب جو چاہے کر سکتا ہے۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم جس رحمن کا ذکر کرتے ہو وہ رحمن یمامہ کا ایک شخص ہے، وہ تمہیں یہ باتیں سکھاتا ہے، ہم لوگ اللہ کی قسم! کبھی رحمن پر ایمان نہیں لائیں گے۔"

یہاں رحمن سے ان لوگوں کی مراد یمامہ کے ایک یہودی کاہن سے تھی۔ اس بات کے جواب میں اللہ تعالٰی نے سورة الرعد کی آیت 30 نازل فرمائی:

"ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ وہی میرا مربی اور نگہبان ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کر لیا اور اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔"

اس وقت آپ پر رنج اور غم کی کیفیت طاری تھی۔ آپ کی عین خواہش تھی کہ وہ لوگ ایمان قبول کرلیں، لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس لئے غمگین تھے، اسی حالت میں آپ وہاں سے اٹھ گئے۔

مشرکین نے اس قسم کی اور بھی فرمائشیں کیں۔ کبھی وہ کہتے صفا پہاڑ کو سونے کا بناکر دکھائیں، کبھی کہتے سیڑھی کے ذریعے آسمان پر چڑھ کر دکھائیں اور فرشتوں کے ساتھ واپس آئیں۔ ان کی تمام باتوں کے جواب میں اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے آکر کہا:

"اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالٰی آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو صفا پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ اسی طرح ان کے جو مطالبات ہیں، ان کو بھی پورا کر دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر سابقہ قوموں کی طرح ان پر ہولناک عذاب نازل ہوگا، ایسا عذاب کہ آج تک کسی قوم پر نازل نہیں ہوا ہوگا اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو میں ان پر رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا۔"

یہ سن کر آپ نے عرض کیا:

"باری تعالٰی! آپ اپنی رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھیں۔"

دراصل آپ جانتے تھے کہ قریش کے یہ مطالبات جہالت کی بنیاد پر ہیں، کیونکہ یہ لوگ رسولوں کو بھیجنے کی حکمت کو نہیں جانتے تھے...رسولوں کا بھیجا جانا تو در اصل مخلوق کا امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ رسولوں کی تصدیق کریں اور رب تعالٰی کی عبادت کریں۔ اگر اللہ تعالٰی درمیان سے سارے پردے ہٹادے اور سب لوگ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں تو پھر تو انبیاء اور رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور غیب پر ایمان لانے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔

مکہ کے مشرکین نے دو یہودی عالموں کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔ یہ یہودی عالم مدینہ میں رہتے تھے۔ دونوں قاصدوں نے یہودی عالموں سے ملاقات کی اور ان سے کہا: 

"ہم آپ کے پاس اپنا ایک معاملہ لے کر آئے ہیں، ہم لوگوں میں ایک یتیم لڑکا ہے، اس کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔"

یہ سن کر یہودی عالم بولے:

"ہمیں اس کا حلیہ بتاؤ۔"

قاصدوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بتادیا۔ تب انہوں نے پوچھا:

"تم لوگوں میں سے کن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے؟"

انہوں نے جواب دیا:

"کم درجے کے لوگوں نے۔"

اب انہوں نے کہا:

"تم جاکر ان سے تین سوال کرو، اگر انہوں نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیے تو وہ اللہ کے نبی ہیں اور اگر جواب نہ دے سکے تو پھر سمجھ لینا، وہ کوئی جھوٹا شخص ہے۔"



یونٹ 32

تین سوال


پہلے ان سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کرو جو پچھلے زمانے میں کہیں نکل گئے تھے۔ یعنی اصحاب کہف کے بارے میں پوچھو کہ ان کا کیا واقعہ تھا۔ اس لئے کہ ان کا واقعہ نہایت عجیب و غریب ہے، ہماری پرانی کتابوں کے علاوہ اس واقعے کا ذکر کہیں نہیں ملے گا...اگر وہ نبی ہیں تو اللہ تعالٰی کی طرف سے خبر پاکر ان کے بارے میں بتادیں گے...ورنہ نہیں بتا سکیں گے۔

پھر ان سے یہ پوچھنا کہ سکندر ذو القرنين کون تھا، اس کا کیا قصہ ہے۔ پھر ان سے روح کے بارے میں پوچھنا کہ وہ کیا چیز ہے۔ اگر انہوں نے پہلے دونوں سوالوں کا جواب دے دیا اور ان کا واقعہ بتادیا اور تیسرے سوال یعنی روح کے بارے میں بتادیا تو تم لوگ سمجھ لینا کہ وہ سچے نبی ہیں، اس صورت میں تم ان کی پیروی کرنا۔"

یہ لوگ یہ تین سوالات لے کر واپس مکہ آئے اور قریش سے کہا:

"ہم ایسی چیز لے کر آئے ہیں کہ اس سے ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا۔"

اس کے بعد انہوں نے ان سب کو تفصیل سنائی۔ اب یہ مشرکین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ انہوں نے آپ سے کہا:

"اے محمد! اگر آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو ہمارے تین سوالات کے جوابات بتادیں، ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ اصحاب کہف کون تھے؟ دوسرا سوال ہے کہ ذوالقرنین کون تھے؟ اور تیسرا سوال ہے کہ روح کیا چیز ہے؟"

آپ نے ان کے سوالات سن کر فرمایا:

"میں ان سوالات کے جوابات تمہیں کل دوں گا۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے میں ان شاءاللہ نہ فرمایا، یعنی یہ نہ فرمایا، ان شاءاللہ میں تمہیں کل جواب دوں گا۔ قریش آپ کا جواب سن کر واپس چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا انتظار کرنے لگے، لیکن وحی نہ آئی۔ دوسرے دن وہ لوگ آگئے، آپ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے، وہ لوگ لگے باتیں کرنے۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا:

"محمد کے رب نے انہیں چھوڑدیا۔"

ان لوگوں میں ابو لہب کی بیوی ام جمیل بھی تھی۔ اس نے بھی یہ الفاظ کہے:

"میں دیکھتی ہوں کہ تمہارے مالک نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور تم سے ناراض ہو گیا ہے۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی یہ باتیں بہت شاق گزریں۔ آپ بہت پریشان اور غمگین ہو گئے۔ آخر جبرئیل علیہ السلام سورہ کہف لے کر نازل ہوئے۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو ہدایت کی گئی:

"اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ اس کو کل کردوں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا لیا کیجئے (یعنی ان شاءاللہ کہا کیجئے) آپ بھول جائیں تو اپنے رب کا ذکر کیا کیجئے اور کہہ دیجئے کہ مجھے امید ہے میرا رب مجھے (نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے) اس سے بھی نزدیک تر بات بتادے گا۔" (سورہ کہف)

مطلب یہ تھا کہ جب آپ یہ کہیں کہ آئندہ فلاں وقت پر میں یہ کام کروں گا تو اس کے ساتھ ان شاءاللہ ضرور کہا کریں۔ اگر آپ اس وقت اپنی بات کے ساتھ ان شاءاللہ ملانا بھول جائیں اور بعد میں یاد آجائے تو اس وقت ان شاءاللہ کہہ دیا کریں۔ اس لئے کہ بھول جانے کے بعد یاد آنے پر وہ ان شاء اللہ کہہ دینا بھی ایسا ہے جیسے گفتگو کے ساتھ کہہ دینا ہوتا ہے۔

اس موقعے پر وحی میں دیر اسی بنا پر ہوئی تھی کہ آپ نے ان شاء اللہ نہیں کہا تھا۔ جب جبرئیل علیہ السلام سورہ کہف لے کر آئے تو آپ نے ان سے پوچھا تھا:

"جبرئیل! تم اتنی مدت میرے پاس آنے سے رکے رہے اس سے تشویش پیدا ہونے لگی تھی۔"

جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا:

"ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہ ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں داخل ہو سکتے ہیں،نہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں، ہم تو صرف اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں، اور یہ جو کفار کہہ رہے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ کو چھوڑ دیا ہے تو آپ کے رب نے آپ کو ہرگز نہیں چھوڑا بلکہ یہ سب اس کی حکمت کے مطابق ہوا ہے۔"

پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اصحاب کہف کے بارے میں بتایا۔ ذوالقرنین کے بارے میں بتایا اور پھر روح کے بارے وضاحت کی۔ 

اصحاب کہف کی تفصیل تفسیر ابن کثیر کے مطابق یوں ہے:

"وہ چند نو جوان تھے، دین حق کی طرف مائل ہوگئے تھے اور راہ ہدایت پر آگئے تھے۔ یہ نوجوان پرہیزگار تھے۔ اپنے رب کو معبود مانتے تھے یعنی توحید کے قائل تھے۔ ایمان میں روز بروز بڑھ رہے تھے اور یہ لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دین پر تھے۔ لیکن بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے پہلے کا ہے، اس لئے کہ یہ سوال یہودیوں نے پوچھے تھے اور اس کا مطلب ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں یہ واقعہ موجود تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔

قوم نے ان کی مخالفت کی۔ ان لوگوں نے صبر کیا۔ اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا۔ وہ مشرک تھا،اس نے سب کو شرک پر لگا رکھا تھا۔ تھا بھی بہت ظالم۔ بت پرستی کراتا تھا۔ وہاں سالانہ میلہ لگتا تھا۔ یہ نوجوان اپنے ماں باپ کے ساتھ اس میلے میں گئے۔ وہاں انہوں نے بت پرستی ہوتے دیکھی۔ یہ وہاں سے بیزار ہو کر نکل آئے اور سب ایک درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ اس سے پہلے یہ لوگ الگ الگ تھے۔ ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے۔ آپس میں بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا، یہ سب بت پرستی سے بیزار ہو کر میلے سے چلے آئے ہیں۔ اب یہ آپس میں گھل مل گئے۔ انہوں نے اللہ کی عبادت کے لئے ایک جگہ مقرر کرلی۔ رفتہ رفتہ مشرک قوم کو ان کے بارے میں پتا چل گیا، وہ انہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ نے ان سے سوالات کئے تو انہوں نے نہایت دلیری سے شرک سے بری ہونے کا اعلان کیا۔ بادشاہ اور درباریوں کو بھی توحید کی دعوت دی۔ انہوں نے صاف کہہ دیا، ہمارا رب وہی ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت کریں۔

ان کی اس صاف گوئی پر بادشاہ بگڑا۔ اس نے انہیں ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ اگر یہ باز نہ آئے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا۔

بادشاہ کا حکم سن کر ان میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہوئی، ان کے دل اور مضبوط ہوگئے لیکن ساتھ ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہاں رہ کر وہ اپنی دین داری پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اس لئے انہوں نے سب کو چھوڑ کر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کر لیا۔ جب یہ لوگ اپنے دین کو بچانے کے لئے قربانی دینے پر تیار ہوگئے تو ان پر اللہ تعالٰی کی رحمت نازل ہوئی۔ ان سے فرما دیاگیا:

"جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو تم پر تمہارے رب کی رحمت ہوگی اور وہ تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرماوے گا۔"

پس یہ لوگ موقع پاکر وہاں سے بھاگ نکلے اور ایک پہاڑ کے غار میں چھپ گئے۔ قوم نے انہیں ہر طرف تلاش کیا، لیکن وہ نہ ملے...اللہ تعالٰی نے انہیں ان کے دیکھنے سے عاجز کردیا...بالکل اسی قسم کا واقعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا تھا جب آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار ثور میں پناہ لی تھی، لیکن مشرکین غار کے منہ تک آنے کے باوجود آپ کو نہیں دیکھ سکے تھے ۔

اس واقعے میں بھی چند روایات میں تفصیل اس طرح ہے کہ بادشاہ کے آدمیوں نے ان کا تعاقب کیا تھا اور غار تک پہنچ گئے تھے، لیکن غار میں وہ ان لوگوں کو نظر نہیں آئے تھے۔ قرآن کریم کا اعلان ہے کہ اس غار میں صبح و شام دھوپ آتی جاتی ہے۔ 

یہ غار کس شہر کے کس پہاڑ میں ہے، یہ یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں...پھر اللہ تعالٰی نے ان پر نیند طاری کردی۔ اللہ تعالٰی انہیں کروٹیں بدلواتے رہے۔ ان کا کتا بھی غار میں ان کے ساتھ تھا۔

اللہ تعالٰی نے جس طرح اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلادیا تھا، اسی طرح انہیں جگادیا۔ وہ تین سو نو سال تک سوتے رہے تھے۔ اب تین سو نو سال بعد جاگے تو بالکل ایسے تھے جیسے ابھی کل ہی سوئے تھے۔



یونٹ 33

لوہے کی دیوار


ان کے بدن، کھال، بال، غرض ہر چیز بالکل صحیح سلامت تھی ۔یعنی جیسے سوتے وقت تھے، بالکل ویسے ہی تھے ۔کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی ۔وہ آپس میں کہنے لگے: " کیوں بھئی! بھلا ہم کتنی دیر تک سوتے رہےہیں؟ 

ایک نے جواب دیا: 

ایک دن یا اس سے بھی کم " 

یہ بات اس نے اس لیے کہی تھی کہ وہ صبح کے وقت سوئے تھے اور جب جاگے تو شام کا وقت تھا ۔اس لیے انہوں نے یہی خیال کیا کہ وہ ایک دن یا اس سے کم سوئے ہیں ۔پھر ایک نے یہ کہہ کر بات ختم کردی 

اس کا درست علم تو اللہ کو ہے " 

اب انہیں شدید بھوک پیاس کا احساس ہوا ۔انہوں نے سوچا، بازار سے کھانا منگوانا چاہیے ۔پیسے ان کے پاس تھے ۔ان میں سے کچھ وہ الله کے راستے میں خرچ کرچکے تھے، کچھ ان کے پاس باقی تھے ۔ایک نے کہا: 

ہم میں سے کوئی پیسے لے کر بازار چلاجائے اور کھانے کی کوئی پاکیزہ اور عمدہ چیز لے آئے اور جاتے ہوئے اور آتے ہوئے اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑ جائے ۔سودا خریدتے وقت بھی ہوشیاری سے کام لے ۔کسی کی نظروں میں نہ آئے ۔اگر انہیں ہمارے بارے میں معلوم ہوگیا تو ہماری خیر نہيں ۔دقیانوس کے آدمی ابھی تک ہمیں تلاش کرتے پھررہے ہوں گے ۔

چنانچہ ان میں سے ایک غار سے باہر نکلا، اسے سارا نقشہ ہی بدلا نظر آیا۔اب اسے کیا معلوم تھا کہ وہ تین سو نو سال تک سوتے رہےہیں ۔اس نے دیکھا کوئی چیز اپنے پہلے حال پر نہيں تھی ۔شہر میں کوئی بھی اسے جانا پہچانا نظر نہ آیا ۔یہ حیران تھا، پریشان تھا اور ڈرے ڈرے انداز میں آگے بڑھ رہا تھا ۔اس کا دماغ چکرارہا تھا، سوچ رہاتھا، کل شام تو ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئےہیں پھر یہ اچانک کیا ہوگیاہے ۔جب زیادہ پریشان ہوا تو اس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا، مجھے جلد از جلد سودا لےکر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ جانا چاہیے ۔آخر وہ ایک دکان پر پہنچا، دکان دار کو پیسے دیے اور کھانے پینے کا سامان طلب کیا ۔دکان دار اس سکے کو دیکھ کر حیرت زده رہ گیا ۔اس نے وہ سکہ ساتھ والے دکان دار کو دکھایا اور بولا: 

بھائی ذرا دیکھنا! یہ سکہ کس زمانے کا ہے؟ 

اس نے دوسرے کو دیا ۔اس طرح سکہ کئی ہاتھوں میں گھوم گیا ۔کئی آدمی وہاں جمع ہوگئے ۔آخر انہوں نے اس سے پوچھا: 

تم یہ سکہ کہاں سے لائے ہو؟ تم کس ملک کے رہنے والے ہو؟ 

جواب میں اس نے کہا: 

میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں، کل شام ہی کو تو یہاں سے گیا ہوں، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے ۔وہ سب اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور بولے: 

یہ تو کوئی پاگل ہے، اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے چلو ۔

آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔وہاں اس سے سوالات ہوئے ۔اس نے تمام حال کہہ سنایا ۔

بادشاہ اور سب لوگ اس کی کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے ۔آخر انہوں نے کہا: اچھا ٹھیک ہے ۔تم ہمیں اپنے ساتھیوں کے پاس لے چلو....وہ غار ہمیں بھی دکھاؤ ۔

چنانچہ سب لوگ اس کے ساتھ غار کی طرف روانہ ہوئے ۔ان نوجوانوں سے ملے اور انہیں بتایا کہ دقیانوس کی بادشاہت ختم ہوئے تین صدیاں بیت چکی ہیں اور اب یہاں الله کے نیک بندوں کی حکومت ہے ۔بہرحال ان نوجوانوں نے اپنی بقیہ زندگی اسی غار میں گزاری اور وہیں وفات پائی ۔بعد میں لوگوں نے ان کے اعزاز کے طورپر پہاڑ کی بلندی پر ایک مسجد تعمیر کی تھی ۔ایک روایت یہ بھي ہےکہ جب شہر جانے والا پہلا نوجوان لوگوں کو لےکر غار کے قریب پہنچا تو اس نے کہا: 

تم لوگ یہیں ٹھہرو، میں جاکر انہيں خبر کردوں ۔

اب یہ ان سے الگ ہوکر غار میں داخل ہوگیا ۔ساتھ ہی الله تعالٰی نے ان پر پھر نیند طاری کردی...بادشاہ اور اس کے ساتھی اسے تلاش کرتے رہ گئے...نہ وہ ملا اور نہ ہی وہ غار انہیں نظر آیا، الله تعالٰی نے ان کی نظروں سے غار کو اور ان سب کو چھپادیا ۔

ان کے بارے میں لوگ خیال ظاہر کرتے رہے کہ وہ سات تھے، آٹھواں ان کا کتا تھا، یا وہ نو تھے، دسواں ان کا کتا تھا ۔بہرحال ان کی گنتی کا صحیح علم الله ہی کو ہے ۔

اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے ارشاد فرمایا: 

انکے بارے میں زیادہ بحث نہ کریں اور نہ ان کے بارے کسی سے دریافت کریں (کیونکہ ان کے بارے میں لوگ اپنی طرف سے باتیں کرتے ہیں ۔کوئی صحیح دلیل ان کے پاس نہیں) مشرکین کا دوسرا سوال تھا، ذوالقرنین کون تھا۔ذوالقرنین کے بارے تفصیلات یوں ملتی ہیں " ذوالقرنین ایک نیک، خدا رسیدہ اور زبردست بادشاہ تھا۔ انہوں نے تین بڑی مہمات سر کیں، پہلی مہم میں وہ اس مقام تک پہنچے، جہاں سورج غروب ہوتا ہے، یہاں انہیں ایک ایسی قوم ملی جس کے بارے میں اللہ نے انہیں اختیار دیا کہ چاہیں تو اس قوم کو سزا دیں، چاہیں تو ان کے ساتھ نیک سلوک کریں۔

ذولقرنین نے کہا کہ 

" جو شخص ظالم ہے، ہم اسے سزا دیں گے اور مرنے کے بعد الله تعالیٰ بھی اسے سزا دیں گے، البتہ مومن بندوں کونیک بدلہ ملے گا۔"

دوسری مہم میں وہ اس مقام تک پہنچے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے، وہاں انہیں ایسے لوگ ملے، جن کے مکانات کی کوئی چھت وغیرہ نہیں تھی۔ تیسری مہم میں وہ دو گھاٹیوں کے درمیان پہنچے، یہاں کے لوگ ان کی بات نہیں سمجھتے تھے۔انہوں نے اشاروں میں یا ترجمان کے ذریعے یاجوج ماجوج کی تباہ کاریوں کا شکوہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے اور یاجوج ماجوج کے درمیان بند بنادیں ۔ذوالقرنین نے لوہے کی چادریں منگوائیں ۔ پھر ان سے ایک دیوار بنادی۔ اس میں تانبا پگھلا کر ڈالا گیا۔ اس کام کے ہونے پر ذوالقرنین نے کہا: 

" یہ الله کا فضل ہے کہ مجھ سے اتنا بڑا کام ہوگیا ۔"

قیامت کے قریب یاجوج ماجوج اس دیوار کو توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

ذوالقرنین کے بارے میں مختلف وضاحتیں کتابوں میں ملتی ہیں۔ قرنین کے معنی دو سمتوں کے ہیں۔ ذوالقرنین دنیا کے دو کناروں تک پہنچے تھے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا۔ 

بعض نے قرن کے معنی سینگ کے لیے ہیں، یعنی دو سینگوں والے۔ ان کا نام سکندر تھا۔لیکن یہ یونان کے سکندر نہیں ہیں جسے سکندراعظم کہا جاتا ہے۔ یونانی سکندر کافر تھا جبکہ یہ مسلم اور ولی الله تھے۔ یہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ خضر علیہ السلام ان کی فوج کا جھنڈا اٹھانے والے تھے۔

تیسرے سوال یعنی روح کے بارے میں الله تعالٰی نے ارشاد فرمایا: 

" یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہے، آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے قائم ہے، یعنی روح کی حقیقت اسی کے علم میں ہے، اس کے سوا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

روح کے بارے میں یہودیوں کی کتابوں میں بھی بالکل یہی بات درج تھی کہ روح الله کے حکم سے قائم ہے۔ اس کا علم الله ہی کے پاس ہے اور اس نے اپنے سوا کسی کو نہیں دیا۔ یہودیوں نے مشرکوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے روح کے متعلق کچھ بتایا تو سمجھ لینا، وہ نبی نہیں ہیں۔ اگر صرف یہ کہا کہ روح الله کے حکم سے قائم ہے تو سمجھ لینا کہ وہ سچے نبی ہیں۔ آپ نے بالکل یہی جواب ارشاد فرمایا۔

لگے ہاتھوں یہاں ایک واقعہ بھی سن لیں، جب مسلمانوں نے ہندوستان فتح کیا تو ہندو مذہب کا ایک عالم مسلمان عالموں سے مناظرہ کرنے کے لیے آیا۔ اس نے مطالبہ کیا۔ 

میرے مقابلے میں کسی عالم کو بھیجو، اس پر لوگوں نے امام رکن الدین کی طرف اشارہ کیا۔



یونٹ 34

حق دلوادیا


اب اس ہندوستانی نے ان سے پوچھا: 

" تم کس کی عبادت کرتے ہوں۔"

انہوں نے جواب دیا: 

" ہم اس الله کی عبادت کرتے ہیں جو سامنے نہیں ہے۔"

اس پر اس ہندی عالم نے پوچھا: 

" تمہیں اس کی خبر کس نے دی۔ "

امام رکن الدین بولے: 

" حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے۔"

اس پر اس ہندی نے کہا: 

" تمہارے پیغمبر نے روح کے بارے میں کیا کہا ہے۔"

امام بولے

"یہ روح میرے رب کے حکم سے قائم ہے۔"

اس پر اس ہندی عالم نے کہا؛ 

" تم سچ کہتے ہو۔"

پھر وہ مسلمان ہوگیا۔

ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ رضی الله عنہم کے ساتھ مسجد حرام میں تشریف فرما تھے۔ایسے میں قبیلہ زبید کا ایک شخص وہاں آیا۔اس وقت نزدیک ہی قریش مکہ بھی مجمع لگائے وہاں بیٹھے تھے۔ قبیلہ زبید کا وہ شخص ان کے نزدیک گیا اور اردگرد گھومنے لگا۔پھر اس نے کہا: 

"اے قریش! کوئی شخص کیسے تمہارے علاقے میں داخل ہوسکتا ہے اور کوئی تاجر کیسے تمہاری سرزمین پر آسکتا ہے جبکہ تم ہر آنے والے پر ظلم کرتے ہو؟ "

یہ کہتے ہوئے جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھےتو آپ نے اس سے فرمایا: 

" تم پر کس نے ظلم کیا۔"

اس نے بتایا: 

" میں اپنے اونٹوں میں سے تین بہترین اونٹ بیچنے کے لیے لے کر آیا تھا مگر ابوجہل نے یہاں ان تینوں اونٹوں کی اصل قیمت سے صرف ایک تہائی قیمت لگائی۔اور ایسا اس نے جان بوجھ کر کیا، کیونکہ وہ جانتا ہے وہ اپنی قوم کا سردار ہے۔ اس کی لگائی ہوئی قیمت سے زیادہ رقم کوئی نہیں لگائے گا، مطلب یہ کہ اب مجھے وہ اونٹ اس قدر کم قیمت پر فروخت کرنے پڑیں گے، یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ میرا تجارت کا یہ سفر بے کار جائےگا۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پوری بات سن کر فرمایا: 

" تمہارے اونٹ کہاں ہیں۔"

اس نے بتایا: 

" یہیں خزورہ کے مقام پر ہیں۔"

آپ اس وقت اٹھے،اپنے صحابہ کو ساتھ لیا، اونٹوں کے پاس پہنچے۔ آپ نے دیکھا، اونٹ واقعی بہت عمدہ تھے۔ آپ نے اس سے ان کا بھاؤ کیا اور آخر خوش دلی سے سودا طے ہوگیا۔ آپ نے وہ اونٹ اس سے خریدلیے۔ پھر آپ نے ان میں سے دو زیادہ عمدہ فروخت کردیے اور ان کی قیمت بیوہ عورتوں میں تقسیم فرمادی۔ وہیں بازار میں ابوجہل بیٹھا تھا ۔اس نے یہ سودا ہوتے دیکھا، لیکن ایک لفظ بول نہ سکا۔ آپ اس کے پاس آئے اور فرمایا:

" خبردار عمرو! ( ابوجہل کا نام)اگر تم نے آئندہ حرکت کی تو بہت سختی سے پیش آوں گا۔"

یہ سنتے ہی وہ خوف زدہ انداز میں بولا: 

" محمد! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا. میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔"

اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے لوٹ آئے۔ادھر راستے میں امیہ بن خلف ابوجہل سے ملا۔ اس کے ساتھ دوسرے ساتھی بھی تھے۔ان لوگوں نے ابوجہل سے پوچھا: 

"تم تو محمد کے ہاتھوں بہت رسوا ہوکر آرہے ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو تم ان کی پیروی کرنا چاہتے ہو یا تم ان سے خوف زدہ ہوگئے ہو۔"

اس پر ابوجہل نے کہا: 

" میں ہرگز محمد کی پیروی نہیں کرسکتا، میری جو کمزوری تم نے دیکھی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں نے محمد(صلی الله علیہ وسلم)کو دیکھا تو ان کے دائیں بائیں بہت سارے آدمی نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے اور بھالے تھےاور وہ ان کو میری طرف لہرا رہے تھے۔اگر میں اس وقت ان کی بات نہ مانتا تو وہ سب لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑتے۔"

ابوجہل ایک یتیم کا سرپرست بنا، پھر اس کا سارا مال غضب کرکے اسےنکال باہر کیا۔ وہ یتیم حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ابوجہل کے خلاف فریاد لے کر آیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم اس یتیم کو لیے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ آپ نے اس سے فرمایا:

" اس یتیم کا مال واپس کردو۔"

ابوجہل نے فوراً مال اس لڑکے کے حوالے کردیا۔ مشرکین کو یہ بات معلوم ہوئی تو بہت حیران ہوئے، انہوں نے ابوجہل سے کہا: 

"کیا بات ہے؟ تم اس قدر بزدل کب سے ہوگئے کہ فوراً ہی مال اس لڑکے کے حوالے کردیا۔"

اس پر اس نے کہا: 

" تمہیں نہیں معلوم! محمد صلی الله علیہ وسلم کے دائیں بائیں مجھے بہت خوفناک ہتھیار نظر آئےتھے۔ میں ان سے ڈر گیا۔ اگر میں اس یتیم کا مال نہ لوٹاتا تو وہ ان ہتھیاروں سے مجھے مار ڈالتے۔"

قبیلہ خشعم کی ایک شاخ اراشہ تھی۔ اس کے ایک شخص سے ابوجہل نے کچھ اونٹ خریدے، لیکن قیمت ادا نہ کی۔ اس نے قریش کے لوگوں سے فریاد کی۔ ان لوگوں نے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا مذاق اڑانے کا پروگرام بنالیا۔انہوں نے اس اراشی سے کہا: 

" تم محمد کے پاس جاکر فریاد کرو۔"

ایسا انہوں نے اس لیے کہا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

اراشی حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ نے فوراً اسے ساتھ لیا اور ابوجہل کے مکان پر پہنچ گئے۔ اس کے دروازے پر دستک دی۔ابوجہل نے اندر سے پوچھا: 

" کون ہے؟ "

آپ نے فرمایا: 

" محمد! "

ابوجہل فوراً باہر نکل آیا۔آپ کا نام سنتے ہی اس کا چہرہ زرد پڑھ چکا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا:‌

" اس شخص کا حق فوراً ادا کردو"۔

اس نے کہا: 

" بہت اچھا! ابھی لایا۔"

اس نے اسی وقت اس کا حق ادا کردیا۔اب وہ شخص واپس اسی قریشی مجلس میں آیا اور ان سے بولا: 

" الله تعالیٰ ان( یعنی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم)کو جزائے خیر دے۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میرا حق مجھے دلوادیا۔"

مشرک لوگوں نے بھی اپنا ایک آدمی ان کے پیچھے بھیجا تھا اور اس سے کہا تھا کہ وہ دیکھتا رہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کیا کرتے ہیں، چنانچہ جب وہ واپس آیا تو انہوں نے اس سے پوچھا: 

" ہاں! تم نے کیا دیکھا؟ "

جواب میں اس نے کہا: 

" میں نے ایک بہت ہی عجیب اور حیرت ناک بات دیکھی ہے۔"



یونٹ 35

 مشرکین کی گستاخیاں


’’اللہ کی قسم! محمد نے جیسے ہی اس کے دروازے پر دستک دی تو وہ فورا اس حالت میں باہر نکل آیا گویا اس کا چہرہ بالکل بے جان اور زرد ہورہا تھا۔ محمد نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردو، وہ بولا، بہت اچھا۔ یہ کہہ کر وہ اندر گیا اور اسی وقت اس کا حق لاکردے دیا۔‘‘

قریشی سردار یہ سارا واقعہ سنب کر بہت حیران ہوئے۔ اب انہوں نے ابوجہل سے کہا: 

’’تمہیں شرم نہیں آتی، جو حرکت تم نے کی، ایسی تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘

جواب میں اس نے کہا:

’’تمہیں کیا پتا، جونہی محمد نے میرے دروازے پر دستک دی اور میں نے ان کی آواز سنی تو میرا دل خوف اور دہشت سے بھر گیا۔ پھر میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت قدآور اونٹ میرے سر پر کھڑا ہے، میں نے آج تک اتنا بڑٓ اونٹ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگر میں ان کی بات ماننے سے انکار کردیتا تو وہ اونٹ مجھے کھالیتا۔‘‘

کچھ مشرک ایسے بھی تھے جو مستقل طور پر آپ کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

ترجمہ: یہ لوگ جو آپ پر ہنستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو معبود قرار دیتے ہیں، ان سے آپ کے لئے ہم کافی ہیں (سورۃ الحجر آیت95)۔

ان مذاق اڑانے والوں میں ابوجہل، ابولہب، عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ (جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چچا تھا) اور عاص بن وائل شامل تھے۔

ابولہب کی حرکات میں سے ایک حرکت یہ تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گندگی پھینک جایا کرتا تھا۔ ایک روز وہ یہی حرکت کرکے جارہا تھا کہ اسے اس کے بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا، حضرت حمزہ رضٰی اللہ عنہ نے وہ گندگی اٹھاکر فورا ابولہب کے سر پر ڈال دی۔

اسی طرح عقبہ بن ابی معیط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گندگی ڈال جایا کرتا تھا۔ عقبہ نے ایک روز آپ کے چہرہ مبارک کی طرف تھوکا، وہ تھوک لوٹ کر اسی کے چہرے پر آپڑا۔ جس حصے پر وہ تھوک گرا، وہاں کوڑھ جیسا نشان بن گیا۔

ایک مرتبہ عقبہ بن ابی معیط سفر سے واپس آیا تو اس نے ایک بڑی دعوت دی۔ تمام قریشی سرداروں کو کھانے پر بلایا۔ اس موقعے پر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلایا مگر جب کھانا مہمانوں کے سامنے چنا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کردیا اور فرمایا:

’’میں اس وقت تک تمہارا کھانا نہیں کھاوٗں گا جب تک کہ تم یہ نہ کہو، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

چوں کہ مہمان نوازی عرب کے لوگوں کی خاص علامت تھی اور وہ مہمان کو کسی قیمت پر ناراض نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے عقبہ نے کہہ دیا: 

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھالیا۔ کھانے کے بعد سب لوگ اپنے گھر چلے گئے۔ عقبہ بن ابی معیط، ابی بن خلف کا دوست تھا۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ عقبہ نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ ابی بن خلف اس کے پاس آیا اور بولا: 

’’عقبہ! کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟‘‘

جواب میں اس نے کہا:

’’خدا کی قسم! میں بے دین نہیں ہوا (یعنی مسلمان نہیں ہوا ہوں)۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک معزز آدمی میرے گھر آیا اور اس نے یہ کہہ دیا کہ میں جب تک اس کے کہنے کے مطابق توحید کی گواہی نہیں دوں گا، وہ میرے ہاں کھانا نہیں کھائے گا، مجھے اس بات سے شرم آئی کہ ایک شخص میرے گھر آئے اور کھانا کھائے بغیر چلا جائے۔ اس لئے میں نے وہ الفاظ کہہ دیے اور اس نے کھانا کھالیا، لیکن سچ یہی ہے کہ میں نے وہ کلمہ دل سے نہیں کہا تھا۔‘‘

یہ بات سن کر ابی بن خلف کا اطمینان نہ ہوا، اس نے کہا:

’’میں اس وقت تک نہ اپنی شکل تمہیں دکھاؤں گا، نہ تمہاری شکل دیکھوں گا جب تک کہ تم محمد کا منہ نہ چڑاؤ، ان کے منہ پر نہ تھوکو اور ان کے منہ پر نہ مارو۔‘‘

یہ سن کر عقبہ نے کہا: 

’’یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘

اس کے بعد جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بدبخت کے سامنے آئے، اس نے آپ کا منہ چڑایا، آپ کے چہرہ مبارک پر تھوکا، لیکن اس کا تھوک آپ کے چہرہ مبارک تک نہ پہنچا بلکہ خود اس کے منہ پر آکر گرا۔ اس نے محسوس کیا، گویا آگ کا کوئی انگارہ اس کے چہرے پر آگیا ہے۔ اس کے چہرے پر جلنے کا نشان باقی رہ گیا اور مرتے دم تک رہا۔ 

اسی عقبہ بن معیط کے بارے میں سورہ فرقان کی آیت 37 نازل ہوئی: 

ترجمہ: جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا اور کہے گا، کیا ہی اچھا ہوتا، میں رسول کے ساتھ دین کی راہ پر لگ جاتا۔ 

اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: 

’’جس روز ظالم آدمی جہنم میں کہنی تک اپنا ایک ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، پھر دوسرے ہاتھ کو کاٹ کر کھائے گا، جب دوسرا کھاچکے گا تو پہلا پھر اُگ آئے گا اور وہ اس کو کاٹنے لگے گا۔ غرض اسی طرح کرتا رہے گا۔‘‘

اسی طرح حکم بن عاص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسخرہ پن کرتا تھا۔ ایک روز آپ ﷺچلے جارہے تھے۔ یہ آپ کے پیچھے چل پڑا۔ آپ کا مذاق اڑانے کے لئے منہ اور ناک سے طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگا۔ آپ چلتے چلتے اس کی طرف مڑے اور فرمایا:

’’تو ایسا ہی ہوجا۔‘‘

چنانچہ اس کے بعد یہ ایسا ہوگیا تھا کہ اس کے منہ اور ناک سے ایسی ہی آوازیں نکلتی رہتی تھیں۔ ایک ماہ تک یہ بے ہوشی کی حالت میں رہا۔ اس کے بعد مرنے تک اس کے منہ اور ناک سے ایسی ہی آوازیں نکلتی رہیں۔ 

اسی طرح عاص بن وائل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا:

’’محمد! اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو (نعوذ باللہ) یہ کہہ کر دھوکا دے رہے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، خدا کی قسم ہماری موت صرف زمانے کی گردش اور وقت کے گزرنے کی وجہ سے آتی ہے۔‘‘

اسی عاص بن وائل کا ایک واقعہ اور ہے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ مکہ میں لوہار کا کام کرتے تھے، تلواریں بناتے تھے۔ انہوں نے عاص بن وائل کو کچھ تلواریں فروخت کی تھیں، ان کی اس نے ابھی قیمت ادا نہیں کی تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اس سے قیمت کا تقاضا کرنے کے لئے گئے تو اس نے کہا:

’’خباب! تم محمد کے دین پر چلتے ہو، کیا وہ یہ دعوی نہیں کرتے کہ جنت والوں کو سونا، چاندی، قیمتی کپڑے، خدمت گار اور اولاد مرضی کے مطابق ملے گی؟‘‘

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بولے: 

’’ہاں! یہی بات ہے۔‘‘

اب عاص نے ان سے کہا:

’’میں اس وقت تک تمہارا قرض نہیں دوں گا جب تک کہ تم محمد کے دین کا انکار نہیں کروگے۔‘‘



یونٹ 36

مذاق اڑانے والے


جواب میں حضرت خباب بن ارت ؓ نے فرمایا:

اللہ کی قسم میں محمدﷺ کا دین نہیں چھوڑ سکتا‘‘

اسی طرح ان مذاق اڑانے والوں میں سے ایک اسود بن یغوث بھی تھا۔ یہ حضور ﷺ کا ماموں زاد تھا۔ جب بھی مسلمانوں کو دیکھتا تو اپنے ساتھیوں سے کہتا:

’’دیکھو!تمہارے سامنے روئے زمین کے وہ بادشاہ آرہے ہیں جو کسری اور قیصر کے وارث بننے والے ہیں۔‘‘

یہ بات وہ اس لئے کہتا تھا کیونکہ صحابہ ؓ میں سے اکثر کے لباس پھٹے پرانے ہوتے تھے ،وہ مفلس اور نادار تھے اور آپﷺ یہ پیش گوئی فرما چکے تھے کہ مجھے ایران اور روم کی سلطنتوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔

اسود آپﷺ سے یہ بھی کہا کرتا تھا:

’’محمد! آج تم نے آسمانوں کی باتیں نہیں سنائیں،آج آسمان کی کیا خبریں ہیں۔‘‘

یہ اور اس کے ساتھی جب آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ ؓ کو دیکھتے تو سیٹیاں بجاتے تھے،آنکھیں مٹکاتے تھے۔

اسی قسم کا ایک آدمی نضر بن حارث تھا۔ یہ بھی آپﷺ کا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا۔

ان میں سے اکثر لوگ ہجرت سے پہلے ہی مختلف آفتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوئے۔

ان مذاق اڑانے والوں میں سے ایک حضرت خالد بن ولیدؓ کا باپ ولید بن مغیرہ بھی تھا۔ یہ ابو جہل کا چچا تھا۔قریش کے دولت مند لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔حج کے زمانے میں تمام حاجیوں کو کھانا کھلاتا تھا، کسی کو چولہا نہیں جلانے دیتا تھا،لوگ اس کی بہت تعریف کرتے تھے، اس کے قصیدے پڑھتے تھے ، اس کے بہت سے باغات تھے۔ایک باغ تو ایسا تھا جس میں تمام سال پھل لگتا تھا ،لیکن اس نے آپﷺ کو اس قدر تکالیف پہنچائیں کہ آپﷺ نے اس کے لئے بددعا فرما دی۔ اس کے بعد اس کا تمام مال ختم ہو گیا،باغات تباہ ہو گئے، پھر حج کے دنوں میں کوئی اس کا نام لینے والا بھی نہ رہا۔

ایک روز جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس تشریف لائے ،اس وقت آپﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، جبرائیل علیہ السلام نے آ کر عرض کیا:

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپﷺ کو مذاق اڑانے والوں سے نجات دلاؤں۔‘‘

ایسے میں ولید بن مغیرا ادھر سے گزرا۔جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ سے پوچھا:

آپﷺ اسے کیسا سمجھتے ہیں ؟‘‘

آپﷺ نے فرمایا

اللہ تعالی کا برا بندہ ہے‘‘۔

یہ سن کر جبرائیل علیہ السلام نے ولید کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیا اور بولے:

میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا‘‘۔

پھر عاص بن وائل سامنے سے گزرا تو جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا:

اسے آپﷺ کیسا آدمی پاتے ہیں؟

آپﷺ نے فرمایا :

یہ بھی ایک برا بندہ ہے‘‘۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیر کی طرف اشارہ کیا اور پھر بولے:

میں نے اسے انجام تک پہنچا دیاہے۔‘‘

اس کے بعد اسود وہاں سے گزرا۔ اس کے بارے میں آپﷺ نے یہی فرمایا کہ برا آدمی ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا اور بولے:

میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا ہے ۔‘‘ پھر حارث بن عیطلہ گزرا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا :’’میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا ہے۔‘‘

اس واقعے کے بعد اسود بن یغوث اپنے گھر سے نکلا تو اس کو لو کے تھپیڑوں نے جھلسا دیا۔ اس کا چہرہ جل کر بالکل سیاہ ہو گیا۔ جب یہ واپس اپنے گھر میں داخل ہوا تو گھر کے لوگ اسے پہچان نہ سکے۔ انہوں نے اسے گھر سے نکال دیااور دروازے بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ زبردست پیاس میں مبتلا ہو گیا، مسلسل پانی پیتا رہتا تھا،یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا۔

حارث بن عیطلہ کے ساتھ یہ ہوا کہ اس نے ایک نمکین مچھلی کھا لی، اس کے بعد اسےشدید پیاس نے آلیا۔یہ پانی پیتا رہا، یہاں تک کہ اس کا بھی پیٹ پھٹ گیا۔

ولید بن مغیرہ ایک روز ایک شخص کے پاس سے گزرا وہ شخص تیر بنا رہا تھا ۔ اتفاق سے ایک تیر اس کے کپڑوں میں الجھ گیا۔ولید نے تکبر کی وجہ سے جھک کر اس کا تیر نکالنے کی کوشش نہ کی اور آگے بڑھنے لگا تو

وہ تیر اس کی پنڈلی میں چبھ گیا۔ اس کی وجہ سے زہر پھیل گیا اور وہ مر گیا۔

عاص بن وائل کے تلوے میں ایک کانٹا چبھا۔ اس کی وجہ سے اس کے پیر پر اتنا ورم آگیا کہ وہ چکی کے پاٹ کی طرح چپٹا ہو گیا۔ اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو گئی۔

حضرت ابن عباس ؓکی روایت کے مطابق یہ لوگ ایک ہی رات میں ہلاک ہوئے تھے۔

نبی کریمﷺ نے محسوس فرمایا کہ قریش مکہ مسلمانوں کو بے تحاشا تکالیف پہنچا رہے ہیں اور مسلمانوں میں ابھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس بارے میں کچھ کہہ سکیں ، چنانچہ آپﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا :

تم لوگ روئے زمین پر ادھر ادھر پھل جاؤ ،اللہ تعالی پھر تمہیں ایک جگہ جمع فرما دے گا ‘‘۔

ہم کہاں جائیں؟ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا۔

آپﷺ نے ملک حبشہ کی طرف اشار ہ کر تے ہوئے فرمایا:

تم لوگ ملک حبشہ کی طرف چلے جاؤ، اس لئے کہ وہاں کا باشاہ نیک ہے وہ کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا، وہ سچائی کی سر زمیں ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالی تمہاری ان مصیبتوں کا خاتمہ کر کے تمہارے لئے آسانیاں پیدا کر دے۔‘‘

حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اپنے دین کو بچانے کے لئے ادھر سے ادھر کہیں گیا، چاہے وہ ایک بالشت ہی چلا اس کے لئے جنت واجب کر دی جاتی ہے۔

چنانچہ اس حکم کے بعد بہت سے مسلمان اپنے دین کو بچانے کے لئے اپنے وطن سے ہجرت کر گئے۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہجرت کی اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے تنہا ہجرت کی۔ جن لوگوں نے بیوی بچوں سمیت ہجرت کی ،ان میں حضرت عثمان غنی ؓ بھی تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی یعنی آپﷺ کی صاحب زادی حضرت رقیہؓ بھی ہجرت کر گیئں۔

حضرت عثمان غنی ؓ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے شخص ہیں۔


یونٹ 37

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لاتے ہیں


اسی طرح حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہجرت کی. حضرت عامر ابن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی. جن صحابہ نے تنہا ہجرت کی، ان کے نام یہ ہیں. حضرت عبد الرحمن ابن عوف، حضرت عثمان ابن مظعون، حضرت سہیل ابن بیضاء، حضرت زبیر ابن العوام اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم.

کفار کو جب ان کی ہجرت کا پتا چلا تو وہ تعاقب میں دوڑے، لیکن اس وقت تک یہ حضرات بحری جہاز پر سوار ہو چکے تھے. وہ جہاز تاجروں کے تھے، اس طرح یہ حضرات حبشہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے. کچھ عرصے بعد ان لوگوں نے ایک غلط خبر سنی، وہ یہ تھی کہ تمام قریش مکہ مسلمان ہو گئے ہیں. اس اطلاع کے بعد حبشہ کے بہت سے مہاجرین مکہ روانہ ہوئے. نزدیک پہنچ کر پتا چلا کہ اطلاع غلط تھی. اب انہوں نے حبشہ جانا مناسب نہ سمجھا. اور کسی نہ کسی کی پناہ حاصل کر کے مکہ میں داخل ہو گئے.

پناہ حاصل کرنے والے ان مہاجرین نے جب اپنے مسلمان بھائیوں پر اسی طرح بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم و ستم دیکھا تو انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ ہم پناہ کی وجہ سے اس ظلم سے محفوظ رہیں. لہٰذا انہوں نے اپنی اپنی پناہ لوٹا دی اور کہا کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا سامنا کریں گے.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت تک اسلام دشمنی پر کمر باندھے ہوئے تھے. ایک روز وہ مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک قریشی شخص سے ہوئی. ان کا نام حضرت نعیم ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ تھا. یہ اس وقت تک اپنی قوم کے خوف سے اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تلوار تھی. یہ پریشان ہو گئے، ان سے پوچھا کہ کیا ارادے ہیں، وہ بولے.

محمد کو قتل کرنے جا رہا ہوں

یہ سن کر حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا.

پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جلال میں آ گئے. بہن کے گھر کا رخ کیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن کا نام فاطمہ تھا، ان کے شوہر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ تھے، یہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی بھی تھے. ادھر خود حضرت سعید کی بہن حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں.

بہن کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے دستک دی. اندر سے پوچھا گیا. کون ہے

انہوں نے اپنا نام بتایا تو اندر یک لخت خاموشی چھا گئی.

اندر اس وقت حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن پڑھا رہے تھے. انہوں نے فوراً قرآن کے اوراق چھپا دیے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اٹھ کر دروازہ کھولا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً بولے.

اے اپنی جان کی دشمن میں نے سنا ہے تو بے دین ہو گئی ہے.

ساتھ ہی انہوں نے انہیں مارا. ان کے جسم سے خون بہنے لگا. خون کو دیکھ کر بولیں.

عمر، تم کچھ بھی کر لو، میں مسلمان ہو چکی ہوں. اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا.

یہ کون سی کتاب تم پڑھ رہے تھے، مجھے دکھاؤ.

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں.

یہ کتاب تمہارے ہاتھ میں ہر گز نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ تم ناپاک ہو، پہلے غسل کر لو، پھر دکھائی جا سکتی ہے.

آخر انہوں نے غسل کیا، پھر قرآن مجید کے اوراق دیکھے. جیسے ہی ان کی نظر بسم اللہ الرحمن الرحیم پر پڑی، ان پر ہیبت طاری ہو گئی. آگے سورہ طہ تھی، اس کی ابتدائی آیات پڑھ کر تو ان کی حالت غیر ہو گئی. بولے.

مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس لے چلو.

حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما ادھر ادھر چھپے ہوئے تھے، ان کے الفاظ سن کر سامنے آ گئے، بعض روایات میں یہ آتا ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مارا پیٹا تھا، اس کا مطلب ہے صرف حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ چھپے ہوئے تھے.

بہرحال اس موقع پر وہ سامنے آ گئے اور بولے.

اے عمر، تمہیں بشارت ہو، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ، دو آدمیوں میں سے ایک کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما، یا تو عمرو ابن ہشام (ابو جہل) کے ذریعے یا پھر عمر بن خطاب کے ذریعے.

ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا تھا.

ان دونوں میں سے جو تجھے محبوب ہو، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما.

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا بدھ کے روز مانگی تھی. جمعرات کے روز یہ واقعہ پیش آیا. حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما انہیں دار ارقم لے گئے.

دروازے پر دستک دی گئی. اندر سے پوچھا گیا. کون ہے؟. انہوں نے کہا. عمر ابن خطاب. یہ بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بتائی گئی کہ دروازے پر عمر بن خطاب ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا.

دروازہ کھول دو، اگر اللہ تعالٰی نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا ہے تو ہدایت پا لے گا.

دروازہ کھولا گیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی، پھر دو صحابہ نے انہیں دائیں بائیں سے پکڑ کر آپ کی خدمت میں پہنچایا. آپ نے فرمایا.

انہیں چھوڑ دو.

انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا. وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کرتے کا دامن پکڑ کر انہیں اپنی طرف کھینچا اور فرمایا.

اے ابن خطاب. اللہ کے لیے ہدایت کا راستہ اختیار کرو.

انہوں نے فوراً کہا.

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.

ان کے یہ الفاظ سنتے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے خوشی سے بے تاب ہو کر اس قدر زور سے تکبیر کہی، مکہ کے گوشے گوشے تک یہ آواز پہنچ گئی. آپ نے تین بار ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا.

اے اللہ، عمر کے دل میں جو میل ہے، اس کو نکال دے، اور اس کی جگہ ایمان بھر دے.

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ قریش کے پاس پہنچے، انہیں بتایا کہ وہ اسلام لے آئے ہیں. قریش ان کے گرد جمع ہو گئے اور کہنے لگے.

لو عمر بھی بے دین ہو گیا ہے.

عتبہ بن ربیعہ آپ پر جھپٹا، لیکن آپ نے اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا، پھر کسی کو ان طرف بڑھنے کی جرات نہ ہوئی. اس کے بعد آپ نے اعلان فرمایا.

اللہ کی قسم، آج کے بعد مسلمان اللہ تعالٰی کی عبادت چھپ کر نہیں کریں گے.

اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے ساتھ دار ارقم سے نکلے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار ہاتھ میں لیے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہتے جا رہے تھے.

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

یہاں تک کہ سب حرم میں داخل ہو گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قریش سے فرمایا.

تم میں سے جس نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی، میری تلوار اس کا فیصلہ کرے گی.



یونٹ 38

نجاشی کے دربار میں


اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام مسلمانوں نے کعبہ کا طواف شروع کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آگے آگے رہے۔مسلمانوں نے کعبہ کے گرد نماز ادا کی۔سب نے بلند آواز سے قرآن کی تلاوت بھی کی۔جبکہ اس سے پہلے مسلمان ایسا نہیں کر سکتے تھے۔

اب تمام قریش نے مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے خاندان والوں سے کہا:

"تم ہم سے دو گنا خون بہا لے لو اور اسکی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمہیں فائدہ پہنچ جائے۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا۔اس پر قریش نے غصے میں آکر یہ طے کیا کہ تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور ساتھ ہی انہوں نے طے کیا کہ بنو ہاشم کو بازاروں میں نہ آنے دیا جائے تاکہ وہ کوئی چیز نہ خرید سکیں۔ان سے شادی بیاہ نہ کیا جائے اور نہ ان کے لیے کوئی صلح قبول کی جائے۔ان کے معاملے میں کوئی نرم دلی نہ اختیار کی جائیں،یعنی ان پر کچھ بھی گزرے، ان کے لیے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہ ہونے دیا جائے اور یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ بنی ہاشم کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قتل کرنے کے لیے قریش کے حوالے نہ کردیں - 

قریش نے اس معاہدے کی باقاعدہ تحریری لکھی، اس پر پوری طرح عمل کرانے اور اس کا احترام کرانے کے لیے اس کو کعبے میں لٹکادیا - 

اس معاہدے کے بعد ابولہب کو چھوڑ کر تمام بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب شعب ابی طالب میں چلے گئے، یہ مکہ سے باہر ایک گھاٹی تھی - ابولہب چونکہ قریش کا پکا طرفدار تھا اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن بھی تھا، اس لیے اسے گھاٹی میں جانے پر مجبور نہ کیا گیا - یوں بھی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے میں قریش کا ساتھ دیا تھا، ان کی مخالفت نہیں کی تھی - 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک 46 سال تھی - بخاری میں ہے کہ اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بہت مشکل اور سخت وقت گزارا - قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی - سب لوگ بھوک سے بےحال رہتے تھے - یہاں تک کہ انہوں نے گھاس پھوس اور درختوں کے پتے کھاکر یہ دن گزارے - 

جب بھی مکہ میں باہر سے کوئی قافلہ آتا تو یہ مجبور اور بےکس حضرات وہاں پہنچ جاتے تاکہ ان سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لیں لیکن ساتھ ہی ابولہب وہاں پہنچ جاتا اور کہتا:

"لوگو! محمد کے ساتھی اگر تم سے کچھ خریدنا چاہیں تو اس چیز کے دام اس قدر بڑھا دو کہ یہ تم سے کچھ خرید نہ سکیں، تم لوگ میری حیثیت اور ذمے داری کو اچھی طرح جانتے ہو -" 

چنانچہ وہ تاجر اپنے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بتاتے اور حضرات ناکام ہوکر گھاٹی میں لوٹ آتے - وہاں اپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتا تڑپتا دیکھتے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ادھر بچے انہیں خالی ہاتھ دیکھ کر اور زیادہ رونے لگتے ۔ابولہب ان تاجروں سے سارا مال خود خرید لیتا ۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آنحضرت ﷺ اور ان کے خاندان کے لوگ قریش کے اس معاہدے کے بعد حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خود اس گھاٹی میں چلے آئے تھے ۔یہ بات نہیں کہ قریش مکہ نے انہیں گرفتار کرکے وہاں قید کردیاتھا ۔

اس بائیکاٹ کے دوران بہت سے مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلےگئے ۔یہ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت تھی ۔اس ہجرت میں اڑتیس مردوں اور بارہ عورتوں نے حصہ لیا ۔ان لوگوں میں حضرت جعفر بن ابوطالب رضی الله عنہ اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللّٰہ عنہا بھي تھیں ان میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبیداللہ بن جحش اور اس کی بیوی ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی الله عنہا بھی تھے ۔یہ عبیداللہ بن جحش حبشہ جاکر اسلام سے پھرگیاتھا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کرلیاتھا ۔اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔اس کی بیوی ام حبیبہ رضی الله عنہا اسلام پر رہیں ۔ان سے بعد میں آنحضرت ﷺ نے نکاح فرمایا ۔

ان مسلمانوں کو حبشہ میں بہترین پناہ مل گئی، اس بات سے قریش کو اور زیادہ تکلیف ہوئی ۔انہوں نے ان کے پیچھے حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ اور عمارہ بن ولید کو بھیجا تاکہ یہ وہاں جاکر حبشہ کے بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں (حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ بعد میں مسلمان ہوئے) یہ دونوں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لئے بہت سے تحائف لے کر گئے ۔بادشاہ کو تحائف پیش کیے ۔تحائف میں قیمتی گھوڑے اور ریشمی جبے شامل تھے ۔بادشاہ کے علاوه انہوں نے پادریوں اور دوسرے بڑے لوگوں کو بھی تحفے دیے...تاکہ وہ سب ان کا ساتھ دیں ۔بادشاہ کے سامنے دونوں نے اسے سجدہ کیا، بادشاہ نے انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھالیا ۔اب انہوں نے بادشاہ سے کہا: 

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آپ کی سرزمین پر آئے ہیں ۔یہ لوگ ہم سے اور ہمارے معبودوں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے آپکا دین بھی اختیار نہیں کیا۔یہ ایک ایسے دین میں داخل ہوگئے ہیں، جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ اب ہمیں قریش کے بڑے سرداروں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں۔"

یہ سن کر نجاشی نے کہا: 

" وہ لوگ کہاں ہیں۔"

انہوں نے کہا: 

" آپ ہی کے ہاں ہیں۔"

نجاشی نے انہیں بلانے کے لیے فوراً آدمی بھیج دیے۔ایسے میں ان پادریوں اور دوسرے سرداروں نے کہا: 

" آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ زیادہ جانتے ہیں۔"


نجاشی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا: 

" پہلے میں ان سے بات کروں گا کہ وہ کس دین پر ہیں۔"

اب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: 

" نجاشی سے میں بات کروں گا۔"

ادھر نجاشی نے تمام عیسائی عالموں کو دربار میں طلب کرلیا تھا تاکہ مسلمانوں کی بات سن سکیں۔ وہ اپنی کتابیں بھی اٹھالائے تھے۔

مسلمانوں نے دربار میں داخل ہوتے وقت اسلامی طریقے کے مطابق سلام کیا، بادشاہ کو سجدہ نہ کیا، اس پر نجاشی بولا: 

" کیا بات ہے،تم نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ "

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فوراً بولے: 

" ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، الله تعالٰی نے ہمارے درمیان ایک رسول بھیجے ہیں... اور ہمیں حکم دیا کہ الله کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو، اللہ کے رسول کی تعلیم کے مطابق ہم نے آپ کو وہی سلام کیا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔"

نجاشی اس بات کو جانتا تھا، اس لیے کہ یہ بات انجیل میں تھی۔



یونٹ 39

 یہ تو وہی کلام ہے 


اس کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اللہ کے رسول نے ہمیں نماز کا حکم دیا ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔"

اس وقت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نجاشی کو بھڑکانے کے لیے اس سے کہا:"یہ لوگ ابن مریم یعنی عیسٰی علیہما السلام کے بارے میں آپ سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ انہیں اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔"

اس پر نجاشی نے پوچھا:

"تم لوگ عیسیٰ ابن مریم اور مریم علیہما السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟"

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا:

"ان کے بارے میں ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یعنی کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔"

پھر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کے دربار میں یہ تقریر کی:

"اے بادشاہ!ہم ایک گمراہ قوم تھے، پتھروں کو پوجتے تھے،مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے، بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ رشتے داروں کے حقوق غصب کرتے تھے۔پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ ہمارا ہر طاقت ور آدمی،کمزور کو دبا لیتا تھا۔ یہ تھی ہماری حالت، پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں اسی طرح ایک رسول بھیجا،جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے جاتے رہے ہیں، یہ رسول ہم ہی میں سے ہیں۔ ہم ان کا حسب نسب، ان کی سچائی اور پاک دامنی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک جانیں، اس کی عبادت کریں اور یہ کہ اللہ کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں،ہم انہیں چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں ، روزے رکھیں۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے،امانت پوری کرنے، رشتے داروں کی خبر گیری کرنے، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے، برائیوں اور خون بہانے سے بچنے اور بدکاری سے دور رہنے کا حکم دیا، اسی طرح گندی باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی ، ان پر ایمان لائے اور جو تعلیمات وہ لے کر آئے، ان کی پیروی کی۔ بس اس بات پر ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی تاکہ ہمیں پھر پتھروں کی پوجا پر مجبور کر سکے۔ ان لوگوں نے ہم پر بڑے بڑے ظلم کیے۔ نئے سے نئے ظلم ڈھائے، ہمیں ہر طرح تنگ کیا۔ آخر کار جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور یہ ہمارے دین کے راستے میں رکاوٹ بن گئے تو ہم آپ کی سرزمین کی طرف نکل پڑے، ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کو پسند کیا۔ ہم تو یہاں یہ امید لے کر آئے ہیں کہ آپ کے ملک میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔"

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر نجاشی نے کہا:

"کیا آپ کے پاس اپنے نبی پر آنے والی وحی کا کچھ حصہ موجود ہے؟"

"ہاں ! موجود ہے۔" جواب میں حضرت جعفر بولے ۔

"وہ مجھے پڑھ کر سنائیں۔"نجاشی بولا۔

اس پر انہوں نے قرآن کریم سے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیات پڑھیں۔ آیات سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ نجاشی بولا:

"ہمیں کچھ اور آیات سناؤ۔"

اس پر حضرت جعفر نے کچھ اور آیات سنائیں ۔تب نجاشی نے کہا: 

"اللہ کی قسم! یہ تووہی کلام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لےکر آئے تھے ۔خداکی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔"

اس طرح قریشی وفد ناکام لوٹا ۔دوسری طرف مکہ کے مسلمان اسی طرح گھاٹی شعب ابی طالب ميں مقیم تھے ۔وہ اس میں تین سال تک رہے، یہ تین سال بہت مصیبتوں کےسال تھے، اسی گھاٹی میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، یہ حالات دیکھ کر کچھ نرم دل لوگ بھی غمگین ہوتے تھے، ایسے لوگ کچھ کھانا پینا ان حضرات تک کسی نہ کسی طرح. پہنچا دیا کرتے تھے، ایسے میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہﷺ کو اطلاع دی کہ قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔معاہدے کے الفاظ میں سوائے اللہ کے نام کے اور کچھ باقی نہيں بچا، آنحضرت صلی اللہﷺ نے یہ بات ابو طالب کو بتائی، ابوطالب فوراﹰ گئے اور قریش کے لوگوں سے کہا ۔

تمہارے عہد نامے کو دیمک نے چاٹ لیا ہےاور یہ خبر مجھے میرے بھتیجے نے دی ہے۔اس معاہدے پر صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے، اگر بات اسی طرح ہے جیسا کہ میرے بھتیجے نے بتایا ہے تو معاملہ ختم ہوجاتاہے، لیکن اگر تم اب بھی باز نہ آئے تو پھر سن لو،. اللہ کی قسم! جب تک ہم میں آخری آدمی بھی باقی ہے، اس وقت تک ہم محمد ﴿صلی اللہﷺ ﴾کو، تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔،، 

یہ سن کر قریش نے کہا: 

“ہمیں تمہاری بات منظور ہے… ہم معاہدے کو دیکھ لیتے ہیں۔”

انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی ۔صرف اللہ کا نام باقی تھا ۔اس طرح مشرک اس. معاہدے سے باز آگئے۔یہ معاہدہ جس شخص نے لکھا تھا، اس کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔

معاہدہ کا یہ حال دیکھنے کے بعد قریشی لوگ شعب ابی طالب پہنچے۔ انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں سے کہا: 

" آپ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں۔ وہ معاہدہ اب ختم ہوگیا ہے۔"

اس طرح تین سال بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور ظلم کا یہ باب بند ہوا۔

اس واقعے کے بعد نجران کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔نجران ان کی بستی کا نام تھا۔ یہ بستی یمن اور مکہ کے درمیان واقع تھی اور مکے سے قریباً سات منزل دور تھی۔ اس وفد میں بیس آدمی تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں انہیں ان مہاجرین سے معلوم ہوا تھا جو مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ 

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس وقت حرم میں تھے۔ یہ لوگ آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ 

ادھر قریش مکہ بھی آس پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے کان آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس وفد کی بات چیت کی طرف لگادیے۔



یونٹ 40

 غم کا سال


جب نجران کے یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرچکے تو آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ قرآن کریم کی کچھ آیات پڑھ کر سنائیں۔ آیات سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کے دلوں نے اس کلام کی سچائی کی گواہی دے دی۔چنانچہ فوراً ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ ان لوگوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور خبریں پڑھ رکھی تھیں۔ اس لیے آپ کو دیکھ کر پہچان گئے کہ آپ ہی نبی آخرالزماں ہیں۔

اس کے بعد یہ لوگ اٹھ کر جانے لگے تو ابوجہل اور چند دوسرے قریشی سرداروں نے انہیں روکا اور کہا: 

" خدا تمہیں رسوا کرے، تمہیں بھیجا تو اس لیے گیا تھا کہ تم یہاں اس شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرکے انہیں بتاؤ مگر تم اس کے پاس بیٹھ کر اپنا دین ہی چھوڑ بیٹھے... تم سے زیادہ احمق اور بے عقل قافلہ ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔"

اس پر نجران کے لوگوں نے کہا: 

" تم لوگوں کو ہمارا سلام ہے... ہم سے تمہیں کیا واسطہ، تم اپنے کام سے کام رکھو،ہمیں اپنی مرضی سے کام کرنے دو۔"

اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں ان کی تعریف بیان فرمائی۔ اسی طرح قبیلہ اَزد کے ایک شخص جن کا نام ضماد تھا مکہ آئے۔ یہ صاحب جھاڑ پھونک سے جنات کا اثر زائل کیا کرتے تھے۔ مکہ کے لوگوں کو انہوں نے یہ کہتے سنا کہ محمد پر جن کا اثر ہے۔ یہ سن کر انہوں نے کہا: 

" اگر میں اس شخص کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ سے شفا عطا فرمادے۔"

اس کے بعد وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کا بیان ہے،میں نے آپ سے کہا: 

" اے محمد! میں جھاڑ پھونک سے علاج کرتا ہوں، لوگ کہتے ہے کہ آپ پر جنات کا اثر ہے۔اگر بات یہی ہے تو میں آپ کا علاج کرسکتا ہوں۔"

ان کی بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

" تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اسی کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتاہے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالٰی گمراہی نصیب کرتا ہے،اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔"

انہوں نے آپ کی بات سن کر کہا: 

" یہ کلمات میرے سامنے دوبارہ پڑھیے۔"

آپ نے کلمہ شہادت تین مرتبہ دہرایا۔تب انہوں نے کہا: 

" میں نے کاہنوں کے کلمات سنے ہیں۔جادوگروں اور شاعروں کے کلمات بھی سنے ہیں۔مگر آپ کے ان کلمات جیسے کلمات کبھی نہیں سنے۔ اپنا ہاتھ لایئے،میں اسلام قبول کرتا ہوں۔"

چنانچہ ضماد رضی اللہ عنہ نے اسی وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔آپ نے فرمایا: 

" اپنی قوم کے لیے بھی بیعت کرتے ہو۔"

جواب میں انہوں نے کہا: 

"ہاں! میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔"

اس طرح یہ صاحب جو آپ پر سے جنات کا اثر اتارنے کی نیت سے آئے تھے، خود مسلمان ہوگئے۔ ایسے اور بھی بہت سے واقعات پیش آئے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کو دس سال کا عرصہ گذر چکا تو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال کرگئیں۔اس سے چند دن پہلے ابوطالب فوت ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو حجون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے،انتقال کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 65 سال تھی۔ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں ہوا تھا۔ اس سال کو سیرت نگاروں نے عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔ کیونکہ ہر موقعے پر ساتھ دینے والی دو ہستیاں اس دنيا سے رخصت ہوگئ تھیں۔ آپ ہر وقت غمگین رہنے لگے،گھر سے بھی کم نکلتے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا شادی کے بعد پچیس سال تک آپ کے ساتھ رہیں۔اتنی طویل مدت تک آپ کا اور ان کا ساتھ رہا تھا۔

ابوطالب جب بیمار ہوئے تھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے آئے۔

اس وقت قریش کے سردار بھی وہاں موجود تھے۔آپ نے چچا سے فرمایا: 

" چچا! لا الله الا اللہ پڑھ لیجئے تاکہ میں قیامت کے دن آپ کی شفاعت کرسکوں۔"

اس پر ابوطالب نے کہا: 

" خدا کی قسم بھتجے! اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میرے بعد لوگ تمہیں اور تمہارے خاندان والوں کو شرم اور عار دلائیں گے اور قریش یہ کہیں گے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ کہہ دیاتو میں یہ کلمہ پڑھ کر ضرور تمہارا دل ٹھنڈا کرتا۔ میں جانتا ہوں، تمہاری یہ کتنی خواہش ہے کہ میں یہ کلمہ پڑھ لوں... مگر میں اپنے بزرگوں کے دین پر مرتا ہوں۔"

اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

"آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ جسے الله چاہے، ہدایت دیتا ہے اور ہدایت پانے والوں کاعلم بھی اسی کو ہے۔"(سورۃ القصص: آیات 56 )

اس طرح ابوطالب مرتے دم تک کافر ہی رہے، کفر پر ہی مرے۔ حضرت عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں، میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: " اے الله کے رسول! ابوطالب ہمیشہ آپ کی مدد اور حمایت کرتے رہے، کیا اس سے انہیں آخرت میں فائدہ پہنچے گا۔" جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"ہاں!مجھے ان کی قیامت کے دن کی حالت دکھائی گئی۔ میں نے انہیں جہنم کے اوپر والے حصے میں پایا، ورنہ وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔"( بخاری مسلم)

ابوطالب کے مرنے پر آپ صلیّ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

" خدا کی قسم! میں اس وقت تک آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا، جب تک کہ مجھے اللہ تعالٰی ہی اس سے نہ روک دے۔"

اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: 

" پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔اگرچہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں،اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد یہ لوگ دوزخی ہیں۔"( سورۃ التوبہ۔آیت ۱۱۳ )

اس سے بھی ثابت ہوا کہ ابوطالب ایمان پر نہیں مرے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال رمضان کے مہینے میں ہوا تھا۔ ان کی وفات کے چند ماہ بعد آپ نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی۔آپ سے پہلے ان کی شادی ان کے چچا کے بیٹے سکران رضی الله عنہا سے ہوئی تھی۔ حضرت سکران رضی الله عنہا دوسری ہجرت کے حکم کے وقت ان کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئےتھے۔ پھر مکہ واپس آگئے تھے۔اس کے کچھ عرصہ ہی بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ جب حضرت سودہ رضی الله عنہا کی عدت کا زمانہ پورا ہوگیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔ 

اس نکاح سے پہلے حضرت سودہ رضی الله عنہانے ایک عجیب خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر سکران رضی الله عنہا سے یہ خواب بیان کیا۔ خواب سن کر سکران رضی اللہ عنہا نے کہا: 

" اگر تم نے واقعی یہ خواب دیکھا ہے تو میں جلد ہی مرجاؤں گا۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم تم سے نکاح فرمائیں گے۔"

دوسری رات انہوں نے پھر خواب دیکھا کہ وہ لیٹی ہوئی ہے، اچانک چاند آسمان سے ٹوٹ کر ان کے پاس آگیا۔ انہوں نے یہ خواب بھی اپنے شوہر کو سنایا، وہ یہ خواب سن کر بولے: 

" اب شاید میں بہت جلد فوت ہوجاؤں گا۔"

اور اسی دن حضرت سکران رضی الله عنہا انتقال کرگئے۔ شوال کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے نکاح فرمایا۔



یونٹ 41

طائف کا سفر


ابو طالب کے انتقال کے بعد قریش کھل کر سامنے آ گئے۔ ایک روز انہوں نے آپ کو پکڑ لیا، ہر شخص آپ کو اپنی طرف کھینچنے لگا…اور کہنے لگا:

"یہ تو وہی ہے جس نے ہمارے اتنے سارے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا۔"

ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تڑپ کر یکدم آگے آگئے۔ اس بھیڑ میں گھس گئے۔ کسی کو انہوں نے مار کر ہٹایا،کسی کو دھکا دیا، وہ ان لوگوں کو آپ سے ہٹاتے جاتے اور کہتے جاتے تھے:

"کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے۔" اس پر وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں اتنا مارا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگئے۔ ہوش آیا تو حضور اکرم صلی اللہ ھو علیہ وسلم کی خیریت معلوم کی، پتا چلا کہ خیریت سے ہیں تو اپنی تکلیف کو بھول گئے۔

شوال ۱۰ نبوی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے۔ اس سفر میں صرف آپ کے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھے۔ طائف میں ثقیف کا قبیلہ آباد تھا۔ آپ یہ اندازہ کرنے کے لئے طائف تشریف لے گئے کہ قبیلہ ثقیف کے دلوں میں بھی اسلام کے لیے کچھ گنجائش ہے یا نہیں۔ آپ یہ امید بھی لے کر گئے تھے کہ ممکن ہے، یہ لوگ مسلمان ہو جائیں اور آپ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔

طائف پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے اس قبیلے کے سرداروں کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ یہ تین بھائی تھے۔ ایک کا نام عبدیالیل تھا۔ دوسرے کا نام مسعود تھا۔ تیسرے کا نام حبیب تھا۔ ان تینوں کے بارے میں پوری طرح وضاحت نہیں ملتی کہ یہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے یا نہیں۔

بہر حال! آپ نے ان تینوں سے ملاقات کی۔ اپنے آنے کا مقصد بتایا،اسلام کے بارے میں بتایا، انہیں اسلام کی دعوت دینے کے ساتھ مخالفوں کے مقابلے میں ساتھ دینے کی دعوت دی۔ ان میں سے ایک نے کہا:

"کیا وہ تم ہی ہو جسے خدا نے بھیجا ہے؟" ساتھ ہی دوسرے نے کہا:

" تمارے علاوہ خدا کو رسول بنانے کے لئے کوئی اور نہیں ملا تھا؟"اس کے ساتھ ہیں تیسرا بول اٹھا:

"خدا کی قسم! میں تم سے کوئی بات چیت نہیں کروں گا، کیونکہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو تمہارے ساتھ بات چیت کرنا بہت خطرناک ہے(یہ اس نے اس لیے کہا تھا کی وہ لوگ جانتے تھے، کسی نبی کے ساتھ بحث کرنا بہت خطرناک ہے) اور اگر تم نبی نہیں ہو تو تم جیسے آدمی سے بات کرنا زیب نہیں دیتا۔"

آپ ان سے مایوس ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ان تینوں نے اپنے یہاں کے اوباش لوگوں کو اور اپنے غلاموں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ آپ کے گرد جمع ہوگئے۔ راستے میں بھی دونوں طرف لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جب آپ ان کے درمیان سے گزرے تو وہ بد بخت ترین لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسانے لگے۔ یہاں تک کہ آپ جو قدم اٹھاتے،وہ اس پر پتھر مارتے۔ آپ کے دونوں پاؤں لہولہان ہو گئے۔ آپ کے جوتے خون سے بھر گئے۔ جب چاروں طرف پتھر مارے گئے تو تکلیف کی شدت سے آپ بیٹھ گئے… ان بدبخت اوباشوں نے آپ کی بغلوں میں بازو ڈال کر آپ کو کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا… جونہی آپ نے چلنے کے لئے قدم اٹھائے، وہ پھر پتھر برسانے لگے۔

ساتھ میں وہ ہنس رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔

زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ وہ آپ کو پتھروں سے بچانے کے لئے خود کو ان کے سامنے کر رہے تھے، اس طرح وہ بھی لہو لہان ہو گئے، لیکن اس حالت میں بھی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر تھی، اپنی کوئی پروا نہیں تھی۔ ان کے اتنے زخم آئے کہ سر پھٹ گیا۔

آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بستی سے نکل کر ایک باغ میں داخل ہو گئے۔ اس طرح ان بدبخت ترین لوگوں سے چھٹکارا ملا۔ آپ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اس وقت تک زخموں سے بالکل چور ہو چکے تھےاور بدن لہو لہان تھے۔ آپ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ آپ نے اللہ سے دعا کی:

اے اللہ! میں اپنی کمزوری، لا چاری اور بے بسی کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا ساتھی ہے اور تو ہی میرا رب ہے اور میں تجھ ہی پر بھروسہ کرتا ہوں... اگر مجھ پر تیرا غضب اور غصہ نہیں ہے تو مجھے کسی کی پروا نہیں۔"

اُسی وقت اچانک آپ نے دیکھا کہ وہاں باغ کے مالک عتبہ اور شیبہ بھی موجود ہیں۔وہ بھی دیکھ چکے تھے کہ طائف کے بدمعاشوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی آپ اٹھ کھڑے ہوئے، کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ وہ دونوں اللہ کے دین کے دشمن ہیں۔ ادھر ان دونوں کو آپ کی حالت پر رحم آگیا۔ انہوں نے فوراً اپنی نصرانی غلام کو پکارا۔ اس کا نام عداس تھا۔ عداس حاضر ہوا تو انہوں نے اسے حکم دیا:

اس بیل سے انگور کا خوشہ توڑو اور ان کے سامنے رکھ دو۔"

عداس نے حکم کی تعمیل کی۔ انگور آپ کو پیش کیے۔ آپ نے جب انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو فرمایا:

"بسم اللہ!"

عداس نے آپ کے منہ سے بسم اللہ سنا تو اس نے اپنے آپ سے کہا: "اس علاقے کے لوگ تو ایسا نہیں کہتے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "تم کس علاقے کے رہنے والے ہو،تمہارا دین کیا ہے؟"

عداس نے بتایا کہ وہ نصرانی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے اس کے منہ سے نینویٰ کا نام سن کر آپ نے فرمایا:

" تم تو یونس (علیہ السلام) کے ہم وطن ہو جو متی کے بیٹے تھے۔"

عداس بہت حیران ہوا،بولا:

"آپ کو یونس بن متی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا، خدا کی قسم جب میں نینویٰ سے نکلا تھا تو وہاں دس آدمی بھی ایسے نہیں تھے جو یہ جانتے ہوں کہ یونس بن متی کون تھے۔ اس لیے آپ کو یونس بن متی کے بارے میں کیسے معلوم ہو گیا؟"

اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وہ میرے بھائی تھے،اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالٰی ہی نے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی قوم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔"

آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سنتے ہی عداس فوراً آپ کے نزدیک آگیا اور آپ کے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا۔

باغ کے مالک عتبہ اور شیبہ دور کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے انہوں نے عداس کو آپ کے قدم چومتے دیکھا تو میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:

"تمہارے اس غلام کو تو اس شخص نے گمراہ کردیا۔"

پھر عداس ان کی طرف آیاتو ایک نے اس سے کہا:

"تیرا ناس ہو،تجھے کیا ہوگیا تھا کہ تو اس کے ہاتھ اور پیر چھونے لگا تھا۔"

اس پر عداس بولا:

"میرے آقا! اس شخص سے بہتر انسان پوری زمین پر نہیں ہوسکتا، اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جو کوئی نبی بتا سکتا ہے۔"

یہ سن کر عتبہ نے فوراً کہا:

"تیرا برا ہو،اپنے دین سے ہرگز مت پھرنا۔"

ان عداس کے بارے میں آتا ہے کہ یہ مسلمان ہوگئے تھے۔ عتبہ اور شیبہ کے باغ سے نکل کر آپ قرن ثعالب کے مقام پر پہنچے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے سر اٹھایا تو ایک بدلی آپ پر سایہ کئے نظرآئی۔ اس بدلی میں آپ کو جبرئیل علیہ السلام نظر آئے،انہوں نے آپ سے کہا:

"آپ نے اپنی قوم یعنی بنی ثقیف کو جو کہا اور انہوں نے جو جواب دیا، اس کو اللہ تعالیٰ نے سُن لیا ہے اور مجھے پہاڑوں کے نگراں کے ساتھ بھیجا ہے، اس لئے بنی ثقیف کے بارے میں جو چاہیں،اس فرشتے کو حکم دیں۔"

اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! اگر آپ چاہیں تو میں ان پہاڑوں کے درمیان اس قوم کو کچل دوں یا انہیں زمین میں دھنسا کر ان کے اوپر پہاڑ گرا دوں۔"



یونٹ 42

جنات سے ملاقات


پہاڑوں کے فرشتے کی بات کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا:

’’نہیں! مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالی ان کی اولاد میں ضرور ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ تعالی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹہرائے گے۔‘‘

اس پر پہاڑوں کے فرشتے نے جواب دیا:

’’اللہ تعالی نے جیسا آپﷺ کو نام دیا ہے آپﷺ حقیقت میں رؤف و رحیم ہیں یعنی بہت معاف کرنے والے اور بہت رحم کرنے والے ہیں۔‘‘

طائف کے اسی سفر سے واپسی پر ۹ جنوں کا آپﷺ کے پاس سے گزر ہوا۔وہ نصیبین کے رہنے والے تھے۔ یہ شام کے ایک شہر کا نام ہے۔آپﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ جنات نے آپﷺ کی قرات کی آواز سنی تو اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ پہلے وہ یہودی تھے۔

طائف سے واپسی پر آپﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو حرم میں آئے اور بیت اللہ کا طواف فرمایا۔ اس کے بعد گھر تشریف لے گئے۔

ادھر ۹ جن جب اپنی قوم میں گئے تو انہوں نے باقی جنوں کو آپﷺ کے بارے میں بتایا،چنانچہ وہ سب کے سب مکہ پہنچے۔ انہوں نے حجون کے مقام پر قیام کیا اور ایک جن کو آپﷺ کی خدمت میں بھیجا ۔اس نے آپﷺ سے عرض کیا:

’’میری قوم حجون کے مقام پر ٹھہری ہوئی ہے آپﷺ وہاں تشریف لے چلیے۔‘‘

آپﷺ نے اس سے وعدہ فرمایا کہ آپﷺ رات میں کسی وقت حجون آیئں گے۔ حجون مکہ کے ایک قبرستان کا نام تھا۔ رات کے وقت آپﷺ وہاں پہنچے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ آپﷺ کے ساتھ تھے۔ حجون پہنچ کر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گرد ایک خط کھینچ دیا اور فرمایا:

اس سے باہر مت نکلنا،اگر تم نے دائرے سے باہر قدم رکھ دیا تو قیامت کے دن تک تم مجھے نہیں دیکھ پاؤ گے اور نہ میں تمہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘

ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے ان سے یہ فرمایا:

میرے آنے تک تم اسی جگہ رہو۔تمہیں کسی چیز سے ڈر نہیں لگے گا، نہ کسی چیز کو دیکھ کر ہول محسوس ہو گا۔‘‘

اس کے بعد آپﷺ کچھ فاصلے پر جا کر بیٹھ گئے۔ اچانک آپﷺ کے پاس بالکل سیاہ فام لوگ آئے۔ یہ کافی تعداد میں تھے اور آپﷺ پر ہجوم کر کے ٹوٹے پڑ رہے تھے، یعنی قرآن پاک سننے کی خواہش میں ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔

اس موقع پر حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے چاہا کے آگے بڑھ کر ان لوگوں کو آپﷺ کے پاس سے ہٹا دیں، لیکن پھر انہیں آپﷺ کا ارشاد یاد آگیا اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ ادھر جنات نے آپﷺ سے کہا:

اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم جس جگہ کے رہنے والے ہیں یعنی جہاں ہمیں جانا ہے وہ جگہ دور ہے ، اس لئے ہمارے اور ہماری سواریوں کے لئے سامان سفر کا انتظام فرما دیجیے۔‘‘

جواب میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا :

ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو،جب تمہارے ہاتھوں میں پہنچے گی تو پہلے سے زیادہ پر گوشت ہو جائے گی اور یہ لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔‘‘

اس طرح جنات آپﷺ پر ایمان لائے۔



یونٹ 43

 طفیل بن عمرو دوسی ؓ کا قبول اسلام


طفیل بن عمرو دوسیؓ ایک اونچے درجے کے شاعر تھے۔ یہ ایک مرتبہ مکہ آئے۔ ان کی آمد کی خبر سن کر قریش ان کے گرد جمع ہو گئے۔ انہوں نے طفیل بن عمرو دوسیؓ سے کہا:

آپ ہمارے درمیان ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ ہمارے درمیان اس شخص نے اپنا معاملہ بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس نے ہمارا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ہم میں پھوٹ ڈال دی ہے۔اس کی باتوں میں جادو جیسا اثر ہے،اس نے دو سگے بھائیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اب ہمیں آپ کی اور آپ کی قوم کی طرف سے بھی پریشانی لاحق ہو گئی ہے،اس لئے اب آپ نہ تو اس سے کوئی بات کریں اور نہ اس کی کوئے بات سنیں‘‘۔

انہوں نے ان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے

’’نہ میں محمد کی کوئی بات سنوں گا اور نہ ان سے کوئی بات کروں گا۔‘‘

دوسرے دن طفیل بن عمرو دوسی ؓ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے گئے تو انہوں نے اپنے کانوں میں کپڑا ٹھونس لیاکہ کہیں ان کی کوئے بات ان کے کانوں میں نہ پہنچ جائے۔ آپﷺ اس وقت کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔یہ آپﷺ کے قریب ہی کھڑے ہو گئے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ آپﷺ کا کچھ کلام ان کے کانوں میں پڑ جائے۔چنانچہ انہوں نے ایک نہایت پاکیزہ اور خوب صورت کلام سنا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگے: ’’میں اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہوں۔اس لئے ان صاحب کی بات سن لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر یہ اچھی بات کہتے ہیں تو میں قبول کر لو ں گا اور بری بات ہوئی تو چھوڑ دوں گا ۔‘‘

کچھ دیر بعد آپﷺ نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف چلے تو انہوں نے کہا :

اے محمد! آپ کی قوم نے مجھ سے ایسا ایسا کہا ہے، اسی لئے میں آپ کی باتوں سے بچنے کے لئے کانوں میں کپڑا ٹھونس لیا تھا، مگر آپ اپنی بات میرے سامنے پیش کریں۔‘‘

یہ سن کر آپﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا اور ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت فرمائے،قرآن سنکر طفیل بن عمرو دوسی ؓ بول اٹھے:

اللہ کی قسم میں نے اس سے اچھا کلام کبھی نہیں سنا‘‘۔

اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے۔ پھر انہیوں نے عرض کیا :

اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اپنی قوم میں اونچی حیثیت کا مالک ہوں،وہ سب میری بات سنتے ہیں۔۔۔مانتے ہیں، میں واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دوں گا۔اس لئے آپﷺ میرے لئے دعا فرمائیں۔‘‘

اس پر آپﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔

پھر وہ واپس روانہ ہو گئے۔ اپنی بستی کے قریب پہنچے تو وہاں انہیں پانی کے پاس قافے کھڑے نظر آئے۔ عین اس وقت ان کی دونوں آنکھوں کے درمیاں چراغ کی مانند ایک نور پیدا ہو گیا اور ایسا آپﷺ کی دعا کی وجہ سے ہوا تھا۔ رات بھی اندھیری تھی۔ اس وقت انہوں نے دعا کی:

’’ اے اللہ ! اس نور کو میرے چہرے کے علاوہ کسی اور چیز میں پیدا فرما دے۔ مجھے ڈر ہے، میری قوم کے لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ دین بدلنے کی وجہ سے اس کی شکل بگڑ گئی -

چنانچہ اسی وقت وہ نور ان کے چہرے سے ان کے کوڑے میں آگیا -اب ان کا کوڑا کسی قندیل کی طرح روشن ہوگیا -

اسی بنیاد پر حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کو ذی النور کہا جانے لگا...یعنی نور والے وہ گھر پہنچے تو ان کے والد ان کے پاس آئے-انہوں نے ان سے کہا: 

آپ میرے پاس نہ آئیں،اب میرا آپ سے کوئی کوئی تعلق نہیں اور نہ آپ کا مجھ سے کوئی تعلق رہ گیا ہے -

یہ سن کر ان کے والد نے پوچھا: 

کیوں بیٹے! یہ کیا بات ہوئی؟ 

انہوں نے جواب دیا: 

میں مسلمان ہوگیاہوں،میں نے محمدﷺ کا دین قبول کرلیاہے-یہ سنتے ہی ان کے والد بول اٹھے: 

بیٹے جو تمہارا دین ہے،وہی میرا دین ہے -

تب طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے انہیں غسل کرنے اور پاک کپڑے پہننے کے لیے کہا-جب وہ ایسا کرچکے تو ان پر اسلام پیش کیا -وہ اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے -پھر ان کی بیوی ان کے پاس آئیں-انہوں نے بھي اسلام قبول کرلیا -

اب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں پر اسلام پیش کیا.....وہ لوگ بگڑ گئے -




یونٹ 44

مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک


ان کا یہ حال دیکھ کر حضرت طفیل بن عمرو رضی الله عنہ پھر حضور نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے عرض کیا: 

اے اللّٰہ کے رسول!قومِ دوس مجھ پر غالب آگئی،اس لئے آپ ان کےلئے دعا فرمائیے -

آپﷺ نے دعا فرمائی: 

اے الله! قوم دوس کو ہدایت عطا فرما،انہیں دین کی طرف لے آ -

حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ پھر اپنے لوگوں میں گئے-انہوں نے پھر دین اسلام کی تبلیغ شروع کی....وہ مسلسل انہیں تبلیغ کرتے رہے، یہانتک کہ حضور نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے-آخر وہ لوگ ایمان لے آئے-حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ انہیں ساتھ لے کر مدینہ آئے،اس وقت تک غزوہ بدر، غزوہ احد، اور غزوہ خندق ہوچکے تھے اور نبی کریم ﷺ خیبر کے مقام پر موجود تھے -حضرت طفیل بن عمرو دوسی کے ساتھ ستر، اسی گھرانوں کے لوگ تھے،ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے-چونکہ یہ لوگ وہاں غزوہ خیبر کے وقت پہنچے تھے، اس لئے نبی کریم ﷺ نے تمام مسلمانوں کے ساتھ ان کا بھی حصہ نکالا-اگرچہ وہ جنگ میں شریک نہيں ہوئے تھے ۔

طائف کے سفر کے بعد معراج کا واقعہ پیش آیا جو حضور نبی کریم ﷺ پر اللّٰہ تعالیٰ کا خاص انعام اور نبوت کا بہت بڑا معجزہ ہے۔یہ واقعہ اس طرح ہواکہ حضور ﷺ مکہ معظمہ میں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر رات کے آرام فرمارہےتھے کہ الله تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا وہ آپ کو مسجد الحرام لے گئے پھر وہاں سے براق پر سوار کرکے مسجد اقصیٰ لےگئے جہاں تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ کی اقتداء میں نماز اداکی۔اس کے بعد آپ کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی اور آپ الله تعالٰی سے ہم کلام ہوئے ۔اس سفر کی کچھ اہم تفصیلات یہ ہیں:

حضور نبی کریم ﷺ بیت المقدس پہنچنے سے پہلے حضرت جبرئیل کے ساتھ چلے جارہےتھے کہ راستے میں ایک سرسبز علاقے سے گزر ہو۱۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے کہا: 

یہاں اترکر دو رکعت نماز پڑھ لیجیے ۔

آپ نے براق سے اترکر دو رکعتیں ادا کیں ۔جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا،آپ کو معلوم ہے یہ کونسا مقام ہے ۔آپ نے فرمایا نہیں۔تب جبرئیل علیہ السلام نے کہا: 

یہ آپ نے طیبہ یعنی مدینہ منورہ میں نماز پڑھی ہے اور یہی آپ کی ہجرت گاہ ہے ۔(یعنی مکہ سے ہجرت کرکے آپ یہیں آنا ہے) 

اس کے بعد براق پھر روانہ ہوا۔اس کا ہر قدم جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں پڑتا تھا۔ایک اور مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ یہاں اترکر نماز پڑھیے۔آپ نے وہاں بھی دو رکعت اداکی۔انہوں نے بتایا: آپ نے مدین میں نماز پڑھی ہے۔

اس بستی کا نام مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدین کے نام پر رکھاگیا تھا۔

انہوں نے اسی مقام پر قیام کیا تھا۔اس کے بعد وہاں آبادی ہوگئ تھی۔حضرت شعیب علیہ السلام اسی بستی میں مبعوث ہوئے تھے۔

اس کے بعد پھر آپ اسی براق پر سوار ہوئے۔ایک مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے کہا،اب یہاں اتر کر نماز پڑھیے؛ آپ یہاں اترکر نماز پڑھیے؛ آپ دو رکعت نماز ادا کی۔جبرئیل علیہ السلام نے بتایا، یہ بیت اللحم ہے ۔

بیت اللحم بیت المقدس کے پاس ایک بستی ہے جہاں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔

اسی سفر میں آپ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کا حال دیکھا۔یعنی آپ کو آخرت کی مثالی شکل کے ذریعے مجاہدین کے حالات دکھائے گئے۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا :

یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے لوگ ہیں اللہ نے ان کی ہر نیکی کا ثواب سات سو گنا کردئے ہیں ۔

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دنیا لائی گئی،دنیا ایک حسین و جمیل عورت کی صورت میں دکھائی گئی۔اس عورت نے آپ سے کہا :

اے محمد! میری طرف دیکھیے میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں؛ 

آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا :

یہ کون ہے؟ 

انہوں نے بتایا :

یہ دنیا ہے اگر آپ اس طرف توجہ دیتے تو آپ کی امت آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلیتی۔

اس کے بعد آپ نے راستے میں ایک بڑھیا کو دیکھا آپ نے پوچھا :

یہ کون ہے؟

جبرئیل علیہ السلام نے بتایا :

یہ دنیا ہی ہے،دنیا کی عمر کا اتنا حصہ ہی باقی رہ گیا ہے جتنا کہ اس بڑھیا کا ہوسکتا ہے۔

اس کے بعد امانت میں خیانت کرنے والے فرض نماز کو چھوڑنے والے،زکوۃ ادا نہ کرنے والے، بدکاری کرنے والے، رہزنی کرنے والے،( ڈاکہ ڈالنے والے )دکھائے گئے ۔ان کے بھیانک انجام آپ کو دکھائے گئے۔

امانت میں خیانت کرنے والے اپنے بوجھ میں اضافہ کیے جارہے تھے اور بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں تھے۔فرض نمازوں کو چھوڑنے والوں کے سر کو کچلا جارہا تھا۔ان کے سر ریزہ ریزہ ہو رہے تھے اور پھر اصل حالت میں آجاتے تھے کچلنے کا عمل پھر شروع ہوجاتا تھا غرض انہیں ذرہ بھر مہلت نہیں دی جارہی تھی۔

اپنے مال میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کا انجام آپ نے دیکھا کہ ان کے ستر پر آگے اور پیچھے پھٹے ہوئے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے وہ اونٹوں اور بکریوں کی طرح چررہے تھے ..... اور زقوم درخت کے کڑوے پتے اور کانٹے کھا رہے تھے، زقوم درخت کے بارے میں آتا ہے کہ اس قدر کڑوا اور زہریلا ہے کہ اس کی کڑواہٹ کا مقابلہ دنیا کا کوئی درخت نہیں کرسکتا اس کا ایک ذرہ دنیا کے میٹھے دریاؤں میں ڈال دیا جائے تو تمام دریا کڑوے ہو جائیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دنیا میں مذاق اڑانے والوں کو بھی یہ درخت کھلایا جائے گا۔اس درخت کے پتوں اور کانٹوں کے علاوہ وہ لوگ جہنم کے پتھر چباتے نظر آئے۔

بدکاروں کا انجام آپ نے دیکھا کہ ان کے سامنے دسترخوان لگے ہوئے تھےان دسترخوانوں میں سے کچھ نہایت بہترین بھنا ہوا گوشت تھا، کچھ میں بالکل سڑا ہوا گوشت تھا ۔وہ اس بہترین گوشت کو چھوڑ کر سڑا ہوا بدبودار گوشت کھا رہے تھے اور بہترین گوشت نہیں کھا رہے تھے۔

ان کے بارے میں جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتلایا

"یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس پاک اور حلال عورتیں تھیں لیکن وہ ان کو چھوڑ کر بدکار عورتوں کے پاس جاتے تھے، یا یہ وہ عورتیں تھیں جن کے خاوند تھے،لیکن وہ ان کو چھوڑ کر بدکار مردوں کے پاس جاتی تھیں۔"

سود کھانے والوں کا انجام آپ کو یہ دکھایا گیا کہ وہ خون کے دریا میں تیر رہے تھے اور پتھر نگل رہے تھے۔

آپ کو ایسے عالموں کا انجام دکھایا گیا جو لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے اور خود بے عمل تھے،ان کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے،اور جیسے ہی کٹ جاتے تھے،فوراً پیدا ہو جاتے تھے اور پھر اسی طرح کاٹے جانے کا عمل شروع ہو جاتا تھا۔یعنی انہیں ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں مل رہی تھی۔

چغل خوروں کے ناخن تانبےکےتھے اور وہ ان سے اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے تھے۔

مسجد اقصیٰ میں انبیاء علیہم السلام کی نماز میں امامت فرمانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی، جلیل القدر انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کرائی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کا حال دکھایا گیا۔ آپ کا گزر جنت کی ایک وادی سے ہوا۔ اس سے نہایت بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی اور مشک سے زیادہ خوشبودار ٹھنڈی ہوا آرہی تھی اور ایک بہترین آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ آواز کہہ رہی تھی:

"میرے عشرت کدے میں ریشم،موتی،سونا،چاندی،مونگے،شہد، دودھ اور شراب کے جام و کٹورے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔"

اس پر اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں؛

"ہر وہ مؤمن مرد اور عورت تجھ میں داخل ہوگا جو مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھتا ہو،میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراتا ہوگا،،،، نہ مجھ سے بڑھ کر یا میرے برابر کسی کو مانتا ہوگا۔ سن لے،، جس کے دل میں میرا ڈر ہے، اس کا دل میرے خوف کی وجہ سے محفوظ رہتا ہے، جو مجھ سے مانگتا ہے میں اسے محروم نہیں رکھوں گا، جو مجھے قرض دیتا ہے یعنی نیک عمل کرتاہے اور میری راہ میں خرچ کرتا ہے میں اسے بدلہ دوں گا، جو مجھ پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے اس کی جمع پونجی کو اس کی ضرورت کے لئے پورا کرتا رہوں گا، میں ہی سچا معبود ہوں، میرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، میرا وعدہ سچا ہے، غلط نہیں ہوتا، مؤمن کی نجات یقینی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی برکت دینے والا ہے اور سب سے بہترین خالق یعنی پیدا کرنے والا ہے۔"

یہ سن کر میں نے کہا:

"بس اے میرے پروردگار میں خوش اور مطمئن ہوں۔"

[5:00 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 45


 الله سے ہم کلامی


دوزخ کا حال یہ دکھایا گیاکہ آپ وادی میں پہنچے۔وہاں آپ نے ایک بہت بدنما آواز سنی۔ آپ نے بدبو بھی محسوس کی۔ آپ نے پوچھا: 

" جبریئل! یہ کیا ہے؟ "

انہوں نے بتایا: 

یہ جہنم کی آواز ہے، یہ کہہ رہی ہے " اے میرے پروردگار!مجھے وہ غذا دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ میری زنجیریں اور بیڑیاں، میری آگ، میرے شعلے، گرمی، گرم ہوا، پیپ اور عذاب کے دوسرے ہیبت ناک سامان بہت بڑھ گئے ہیں، میری گہرائی اور اس گہرائی میں آگ کی تپش یعنی میرا پیٹ اور اس کی بھوک بہت زیادہ ہے، اس لیے مجھے میری وہ خوراک دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔"

جہنم کی اس پکار کے جواب میں الله تعالٰی نے فرمایا: 

"ہر کافر اور مشرک، بدطینت، بدمعاش اور خبیث مرد اور عورت تیری خوراک ہیں۔"

یہ سن کر جہنم نے جواب دیا: 

بس! میں خوش ہوگئی۔"

اسی سفر میں آپ کو دجال کی صورت دکھائی گئی۔ اس کی شکل عبدالعزی ابن قطن جیسی تھی۔

یہ عبدالعزٰی جاہلیت کے زمانے میں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہی مرگیا تھا۔

آپ کو وہاں کچھ لوگ دکھائے گئے۔ان کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں جیسے تھے اور ان کے ہاتھوں میں پتھروں کی طرح کے بڑے بڑےانگارے تھے۔ یعنی اتنے بڑے بڑے تھے کہ ایک ایک انگارے میں ان کا ہاتھ بھرگیا تھا۔ وہ لوگ انگاروں کو اپنے منہ میں ڈالتے تھے۔ آپ نے یہ منظر دیکھ کر جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا: 

" جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ " جواب میں انہوں نے بتایا: 

"یہ وہ لوگ ہیں جو زبردستی اور ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے تھے۔"

اس کے بعد آپ نے کچھ لوگ دیکھے، جن کے سامنے ایک طرف بہترین قسم کا گوشت رکھا تھا۔ دوسری طرف سڑا ہوا بدبودار گوشت تھا۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر بدبودار گوشت کھا رہے تھے۔ آپ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا: 

" یہ کون لوگ ہے۔"

انہوں نے بتایا: 

" یہ وہ لوگ ہیں جن کو الله تعالٰی نے پاک دامن عورتیں یعنی بیویاں دی دی تھیں مگر یہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔یا وہ ایسی عورتیں ہیں جو اپنے خاوند کو چھوڑ کر دوسرے مردوں کے پاس جاتی تھیں۔ "

آپ نے وہاں ایسے لوگ دیکھے جو اپنے ہی جسم سے پہلوﺅں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ان سے کہا جارہا تھا:

" یہ بھی اسی طرح کھاؤ جس طرح تم اپنے بھائی کا گوشت کھایا کرتے تھے۔"

آپ نے دریافت فرمایا: 

" یہ کون لوگ ہے؟ "

جبرئیل علیہ السلام نے کہا: 

" یہ وہ لوگ ہے جو ایک دوسرے پر آوازے کسا کرتے تھے۔"

جہنم دکھانے کے بعد آپ کو جنت دکھائی گئ۔آپ نے وہاں موتیوں کے بنے ہوئے گنبد دیکھے۔وہاں کی مٹی مشک کی تھی۔آپ نے جنت میں انار دیکھے، وہ بڑے بڑے ڈولوں جتنے تھے۔اور جنت کے پرندے اونٹوں جتنے بڑے تھے۔ساتوں آسمانوں کی سیر کی سیر کے بعد آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، یہ بیری کا ایک درخت ہے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں ایک چشمہ دیکھا۔اس سے دو نہریں پھوٹ رہی تھیں۔ایک کا نام کوثر اور دوسری کا نام رحمت۔آپ فرماتے ہیں، میں نے اس چشمے میں غسل کیا۔

ایک روایت کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے جنت کی چار نہریں نکل رہی ہیں۔ان میں سے ایک نہر پانی کی،دوسری دودھ کی، تیسری شہد کی اور چوتھی نہر شراب کی ہے۔

اسی وقت سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپ نے جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا یعنی جس شکل میں الله تعالٰی نے بنایا تھا۔ان کے چھ سو پر ہیں اور ہر پر اتنا بڑا ہے کہ اس سے آسمان کا کنارہ چھپ جائے۔ان پروں سے رنگا رنگ موتی اور یاقوت اتنی تعداد میں گر رہے تھے کہ ان کا شمار الله ہی کو معلوم ہے۔ 

پھر ایک بدلی نے آپ کو آکر گھیر لیا۔ آپ کو اسی بدلی کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا۔جبرئیل وہی رہ گئے۔( بدلی کی جگہ بعض روایات میں ایک سیڑھی کے ذریعے اٹھانے کا ذکر بھی آیا ہے۔)یہاں آپ نے صریر اقلام( یعنی لوح محفوظ پر لکھنے والے قلموں کی سرسراہٹ )کی آوازیں سنیں۔ یہ تقدیر کے قلم تھے اور فرشتے ان سے مخلوق کی تقدیریں لکھ رہے تھے۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جبرئیل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ سے آگےنہیں گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان سے اوپر ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عرش اعظم کے دائیں طرف ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ساتویں آسمان کے اوپر گئے۔ وہاں ایک نہر پر پہنچے۔اس میں یاقوتوں، موتیوں اور زبرجد کے خیمے لگے تھے۔ اس نہر میں ایک سبز رنگ کا پرندہ تھا۔ وہ اس قدر حسین تھا کہ اس جیسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا: 

"یہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالٰی نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔"

آپ فرماتے ہیں، میں نے دیکھا، اس میں یاقوت اور زمرد کے تھالوں میں رکھے ہوئے سونے اور چاندی کے جام تیر رہے تھے۔ اس نہر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، میں نے ایک جام اٹھایا۔اس نہر سے بھر کر پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔

آپ فرماتے ہیں، جبرائیل علیہ السلام مجھے لیے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔اس کے پاس حجاب اکبر ہے۔ حجاب اکبر کے پاس پہنچ کر انہوں نے کہا: 

" میری پہنچ کا مقام یہاں ختم ہوگیا۔ اب آپ آگے تشریف لے جائیں۔"

آپ فرماتے ہیں، میں آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ میں سونے کے ایک تخت تک پہنچ گیا۔ اس پر جنت کا ریشمی قالین بچھا تھا۔اسی وقت میں نے جبرائیل علیہ السلام کی آواز سنی...وہ کہہ رہے تھے: 

" اے محمد! الله تعالٰی آپ کی تعریف فرما رہا ہے۔آپ سنیے اور اطاعت کیجئے۔آپ کلام الہیٰ سے دہشت زدہ نہ ہوں۔"

چنانچہ اس وقت میں نے حق تعالٰی کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعد مجھے الله کا دیدار ہوا۔ میں فوراً سجدے میں گرگیا۔پھر الله نے مجھ پر وحی اتاری، وہ یہ تھی: 

" اے محمد! جب تک آپ جنت میں داخل نہیں ہوجائیں گے،اس وقت تک تمام نبیوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔اسی طرح جب تک آپ کی امت جنت میں داخل نہیں ہوگی، تمام امتوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔"

اس کے علاوہ الله تعالٰی نے فرمایا: 

" اے محمد!ہم نے کوثر آپ کو عطا فرما دی ہے۔اس طرح آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہوگئی ہے کہ تمام جنتی آپ کے مہمان ہوگے۔"

اس کے بعد پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔پچاس نمازیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے کم کرائی گئیں۔یہاں تک کہ ان کی تعداد پانچ کردی گئ تاہم الله تعالٰی نے فرمایا: 

" اے محمد! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا ثواب دس کے برابر ہوگا اور اس طرح ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ملے گا۔آپ کی امت میں سے جو شخص بھی نیکی کا ارادہ کرے اور پھر نہ کرسکے، تو میں اس کے حق میں صرف ارادہ کرنے پر ایک نیکی لکھوں گا اور اگر اس نے وہ نیک عمل کر بھی لیا تو اسے دس نیکیوں کے برابر لکھوں گا اور جو شخص کسی بدی کا ارادہ کرے اور پھر اس کو نہ کرے تو بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دوگا اور اگر اس نے وہ بدی کرلی تو اس کے نتیجے میں ایک بدی لکھوں گا۔"

آپ فرماتے ہیں،میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا: 

" صدقے کا صلہ دس گنا ہے اور قرض کا صلہ اٹھارہ گنا ہے۔"

میں نے جبرائیل سے پوچھا: 

" یہ کیا بات ہے کہ قرض دینا صدقے سے افضل ہے؟ "

جواب میں انہوں نے کہا: 

" اس کی وجہ یہ ہے کہ سائل جسے صدقہ دیاجاتا ہے، وہ مانگتا ہے تو اسی وقت اس کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔جب کہ قرض مانگنے والا اسی وقت قرض مانگتا ہے جب اس کے پاس کچھ نہ ہو۔

[5:00 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 46


 نماز کی ابتداء


حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے دوران جہنم کے داروغہ مالک کو دیکھا۔ وہ انتہائی سخت طبیعت کا فرشتہ ہے۔ اس کے چہرہ پر غصہ اور غضب رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کیا۔ داروغہ نے سلام کا جواب دیا۔ خوش آمدید بھی کہا،لیکن مسکرایا نہیں۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا؛

"یہ کیا بات ہے کہ میں آسمان والوں میں سے جس سے بھی ملا،اس نے مسکرا کر میرا استقبال کیا، مگر داروغہ جہنم نے مسکرا کر بات نہیں کی۔"

اس پر جبرئیل علیہ السلام نے کہا:

"یہ جہنم کا داروغہ ہے،جب سے پیدا ہوا ہے،آج تک کبھی نہیں ہنسا، اگر یہ ہنس سکتا تو صرف آپ ہی کے لیے ہنستا۔"

یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جاگنے کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوئی....بعض لوگ معراج کو صرف ایک خواب کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف روح گئی تھی جسم ساتھ نہیں گیا تھا.... اگر یہ دونوں باتیں ہوتیں تو پھر معراج کے واقعے کی بھلا کیا خصوصیت تھی۔خواب میں تو عام آدمی بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے....معراج کی اصل خصوصیت ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سمیت آسمانوں پر تشریف لے گئے....لہذا گمراہ لوگوں کے بہکاوے میں مت آئیں۔اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر یہ صرف خواب ہوتا، یا معراج صرف روح کو ہوتی تو مشرکین مکہ مزاق نہ اڑاتے۔جب کہ انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور مزاق بھی اڑایا۔خواب میں دیکھے کسی واقعے پر بھلا کوئی کیوں مزاق اڑاتا۔

معراج کے بارے میں اس مسئلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں۔۔۔۔اس بارے میں دونوں طرح کی احادیث موجود ہیں۔اس معاملے میں بہتر یہ ہے کہ ہم خاموشی اختیار کریں،کیونکہ یہ ہمارے اعتقاد کا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہم سے قیامت کے دن یہ سوال پوچھا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے بعد آسمانوں سے واپس زمین پر تشریف لے آئے۔جب اپنے بستر پر پہنچے تو وہ اسی طرح گرم تھا جس طرح چھوڑ کر گئے تھے۔ یعنی معراج کا یہ عجیب واقعہ اور اتنا طویل سفر صرف ایک لمحے میں پورا ہوگیا، یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دوران کائنات کے وقت کی رفتار کو روک دیا جس کے باعث یہ معجزہ نہایت تھوڑے وقت میں مکمل ہوگیا۔

معراج کی رات کے بعد جب صبح ہوئی اور سورج ڈھل گیا تو جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے۔انہوں نے امامت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تاکہ آپ کو نمازوں کے اوقات اور نمازوں کی کیفیت معلوم ہوجائے۔معراج سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح شام دو دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور رات میں قیام کرتے تھے،لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ فرض نمازوں کی کیفیت اس وقت تک معلوم نہیں تھی۔

جبرئیل علیہ السلام کی آمد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ سب لوگ جمع ہوجائیں..... چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کی اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔

یہ ظہر کی نماز تھی....اسی روز اس کا نام ظہر رکھا گیا۔اس لیے کہ یہ پہلی نماز تھی جس کی کیفیت ظاہر کی گئی تھی-چونکہ دوپہر کو عربی میں ظہیرہ کہتے ہیں اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے یہ نام اس بنیاد پر رکھا گیا ہو،کیونکہ یہ نماز دوپہر کو پڑھی جاتی ہے-اس نماز میں آپ نے چار رکعت پڑھائی اور قرآن کریم آواز سے نہیں پڑھا - 

اسی طرح عصر کا وقت ہوا تو عصر کی نماز ادا کی گئی-سورج غروب ہوا تو مغرب کی نماز پڑھی گئی-یہ تین رکعت کی نماز تھی، اس میں پہلی دو رکعتوں میں آواز سے قرأت کی گئی-آخری رکعت میں قرأت بلند آواز سے نہیں کی گئی-اس نماز میں بھی ظہر اور عصر کی طرح حضرت جبریل علیہ السلام آگے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے اور صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں- اس کا مطلب ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقتدی بھی تھے اور امام بھی- 

رہا یہ سوال کہ یہ نماز کہاں پڑھی گئیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں پڑھی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، کیونکہ اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا-حضور صلی اللّہ علیہ وسلم جب تک مکہ معظمہ میں رہے اسی کی سمت منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے- 

جبرائیل علیہ سلام نے پہلے دن نمازوں کے اول وقت میں یہ نماز پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ معلوم ہوجائے،نمازوں کے اوقات کہاں سے کہاں تک ہیں- 

اس طرح یہ پانچ نمازیں فرض ہوئیں اور ان کے پڑھنے کا طریقہ بھی آسمان سے نازل ہوا-آج کچھ لوگ کہتے نظر آتے ہیں... نماز کا کوئی طریقہ قرآن سے ثابت نہیں...لہٰذا نماز کسی بھی طریقے سے پڑھی جاسکتی ہے...ہم تو بس قرآن کو مانتے ہیں...ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں...نماز کا طریقہ بھی آسمان سے ہی نازل ہوا اور ہمیں نماز اسی طرح پڑھنا ہوں گی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم پڑھتے رہے-یہ بھی ثابت ہوگیا کہ فرض نمازیں پانچ ہیں،حدیث کے منکر پانچ نمازوں کا انکار کرتے ہیں وہ صرف تین فرض نمازوں کے قائل ہیں- لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں صرف تین نمازوں کا ذکر آیا ہے-حالانکہ اول تو ان کی یہ بات ہے ہی جھوٹ دوسرے یہ کہ جب احادیث سے پانچ نمازیں ثابت ہیں تو کسی مسلمان کے لیے ان سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی- 

پانچ نمازوں کی حکمت کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے پانچ حواس یعنی پانچ حسیں رکھیں ہیں-انسان گناہ بھی انہی حسوں کے ذریعے سے کرتا ہے-(یعنی آنکھ، کان، ناک، منہ، اعضاء و جوارح یعنی ہاتھ پاؤں) لہٰذا نمازیں بھی پانچ مقرر کی گئیں تاکہ ان پانچوں حواسوں کے ذریعے دن اور رات میں جو گناہ انسان سے ہوجائیں، وہ ان پانچوں نمازوں کے ذریعے دھل جائیں اس کے علاوہ بھی بے شمار حکمتیں ہیں-

یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج کے واقعے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر جانا ثابت کرتا ہے کہ آسمان حقیقت میں موجود ہیں- 

موجودہ ترقی یافتہ سائنس کا یہ نظریہ ہے کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ کائنات ایک عظیم خلا ہے-انسانی نگاہ جہاں تک جاکر رک جاتی ہے، وہاں اس خلا کی مختلف روشنیوں کے پیچھے ایک نیلگوں حد نظر آتی ہے-اسی نیلگوں حد کو انسان آسمان کہتا ہے- 

لیکن اسلامی تعلیم نے ہمیں بتایا ہے کہ آسمان موجود ہیں اور آسمان اسی ترتیب سے موجود ہیں،جو قرآن اور حدیث نے بتائی ہے-قرآن مجید کی بہت سی آیات میں آسمان کا ذکر ہے بعض آیات میں ساتوں آسمان کا ذکر ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان ایک اٹل حقیقت ہے نہ کہ نظر کا دھوکہ- 

الحمد للہ معراج کابیان تکمیل کو پہنچا-اس کے بعد سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم بہ قدم میں ہم معراج کے بعد کے واقعات بیان کریں گے-ان شاءاللہ-

[5:00 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 47


 کامیابی کی ابتدا


حج کے دنوں میں مکہ میں دور دور سے لوگ حج کرنے آتے تھے، یہ حج اسلامی طریقے سے نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں کفریہ اور شرکیہ باتیں شامل کر لی گئی تھیں، ان دنوں یہاں میلے بھی لگتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسلام کی دعوت دینے کے لیے ان میلوں میں بھی جاتے تھے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں پہنچ کر لوگوں سے فرماتے تھے۔

کیا کوئی شخص اپنی قوم کی حمایت مجھے پیش کر سکتا ہے،کیونکہ قریش کے لوگ مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم منی کے میدان میں تشریف لے جاتے۔لوگوں کے ٹھکانے پر جاتے اور ان سے فرماتے۔

لوگو،اللہ تعالٰی تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاقب کرتے ہوئے ابو لہب بھی وہاں تک پہنچ جاتا اور ان لوگوں سے بلند آواز میں کہتا۔

لوگو، یہ شخص چاہتا ہے تم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ذو الحجاز کے میلے میں تشریف لے جاتے اور لوگوں سے فرماتے۔

لوگو!لا الہ الا اللہ کہہ کر بھلائی کو حاصل کرو۔

ابو لہب یہاں بھی آ جاتا اور آپ کو پتھر مارتے ہوئے کہتا۔

لوگو!اس شخص کی بات ہرگز نہ سنو، یہ جھوٹا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ کندہ اور قبیلہ کلب کے کچھ خاندانوں کے پاس گئے۔ان لوگوں کو بنو عبداللہ کہا جاتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا۔

لوگو!لا الہ الا اللہ پڑھ لو....فلاح پا جاؤ گے۔

انہوں نے بھی اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنو حنیفہ اور بنو عامر کے لوگوں کے پاس بھی گئے۔ان میں سے ایک نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام سن کر کہا۔

اگر ہم آپ کی بات مان لیں،آپ کی حمایت کریں اور آپ کی پیروی قبول کر لیں پھر اللہ تعالٰی آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرما دے تو کیا آپ کے بعد یہ سرداری اور حکومت ہمارے ہاتھوں میں آ جائے گی۔

یعنی انہوں نے یہ شرط رکھی کہ آپ کے بعد حکمرانی ان کی ہوگی۔جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔

سرداری اور حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے سونپ دیتا ہے۔

اس کے بعد اس شخص نے کہا۔

تو کیا ہم آپ کی حمایت میں عربوں سے لڑیں،عربوں کے نیزوں سے اپنے سینے چھلنی کرا لیں اور پھر جب آپ کامیاب ہو جائیں تو سرداری اور حکومت دوسروں کو ملے۔نہیں، ہمیں آپ کی ایسی حکومت اور سرداری کی کوئی ضرورت نہیں۔

اس طرح ان لوگوں نے بھی صاف انکار کر دیا۔بنو عامر کے یہ لوگ پھر اپنے وطن لوٹ گئے۔وہاں ان کا ایک بہت بوڑھا شخص تھا۔بوڑھا ہونے کی وجہ سے وہ اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ حج کے لیے نہیں جا سکا تھا۔جب اس نے ان لوگوں سے حج اور میلے کے حالات پوچھے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا بھی ذکر کیا اور اپنا جواب بھی اسے بتایا۔

بوڑھا شخص یہ سنتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور افسوس بھرے لہجے میں بولا۔

اے بنی عامر۔تم سے بہت بڑی غلطی ہوئی....کیا تمہاری اس غلطی کا کوئی علاج ہو سکتا ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسماعیل علیہ السلام کی قوم میں سے جو شخص نبوت کا دعوٰی کر رہا ہے،جھوٹا نہیں ہو سکتا۔وہ بالکل سچا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کی سچائی تمہاری عقل میں نہ آ سکے۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو عبس، بنو سلیم، بنو غسان، بنو محارب، بنو فزارہ، بنو نضر، بنو مرہ اور بنو عذرہ سمیت کئی قبیلوں سے بھی ملے، ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور بھی برے جوابات دیے، وہ کہتے۔

آپ کا گھرانہ اور آپ کا خاندان آپ کو زیادہ چاہتا ہے، اسی لیے انہوں نے آپ کی پیروی نہیں کی۔

عرب قبیلوں میں سب سے زیادہ تکلیف یمامہ کے بنو حنیفہ سے پہنچی۔مسیلمہ کذاب بھی اسی بد بخت قوم کا تھا جس نے نبوت کا دعوٰی کیا تھا۔اسی طرح بنو ثقیف کے قبیلے نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت برا جواب دیا۔

ان تمام تر ناکامیوں کے بعد آخر کار اللہ تعالٰی نے اپنے دین کو پھیلانے، اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اکرام کرنے اور اپنا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم حج کے دنوں میں گھر سے نکلے۔وہ رجب کا مہینہ تھا۔عرب حج سے پہلے مختلف رسموں اور میلوں میں شریک ہونے کے لیے مکہ پہنچا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سال بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختلف قبیلوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم عقبہ کے مقام پر پہنچے۔

عقبہ ایک گھاٹی کا نام ہے۔جس جگہ شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔یہ گھاٹی ادی مقام پر ہے۔مکہ سے منی کی طرف جائیں تو یہ مقام بائیں ہاتھ پر آتا ہے۔اب اس جگہ ایک مسجد ہے۔

وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات مدینہ کے قبیلے خزرج کی ایک جماعت سے ہوئی۔اوس اور خزرج مدینہ منورہ کے مشہور قبیلے تھے۔یہ اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔یہ بھی دوسرے عربوں کی طرح حج کیا کرتے تھے۔یہ حضرات تعداد میں کل چھ تھے،ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد آٹھ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھا تو ان کے قریب تشریف لے گئے۔ان سے فرمایا۔

میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

وہ بولے۔

ضرور کہیں۔

فرمایا۔

بہتر ہوگا کہ ہم لوگ بیٹھ جائیں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس بیٹھ گئے۔ان لوگوں نے جب آپ کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں سچائی ہی سچائی اور بھلائی ہی بھلائی نظر آئی.... ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔

میں آپ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں....میں اللہ کا رسول ہوں۔

یہ سنتے ہی انہوں نے کہا۔

اللہ کی قسم..آپ کے بارے میں ہمیں معلوم ہے۔یہودی ایک نبی کی خبر ہمیں دیتے رہے ہیں اور ہمیں اس سے ڈراتے رہے ہیں (یعنی وہ کہتے رہے ہیں کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں) آپ ضرور وہی ہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے پہلے وہ آپ کی پیروی اختیار کرلیں۔

اصل میں بات یہ تھی کہ جب بھی یہودیوں اور مدینے کے لوگوں میں کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا تو یہودی ان سے کہا کرتے تھے۔

بہت جلد ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے،ان کا زمانہ نزدیک آ چکا ہے۔ہم اس نبی کی پیروی کریں گے اور ان کے جھنڈے تلے اس طرح تمہارا قتل عام کریں گے جیسے قوم عاد اور قوم ارم کا ہوا تھا۔

ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم تمہیں نیست و نابود کر دیں گے۔اسی بنیاد پر مدینے کے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کے بارے میں معلوم تھا....اور اسی بنیاد پر انہوں نے فوراً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان لی،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی اور مسلمان ہو گئے۔

پے در پے ناکامیوں کے بعد یہ بہت زبردست کامیابی تھی....اور پھر یہ کامیابی تاریخی اعتبار سے بھی بہت بڑی ثابت ہوئی۔اس بیعت نے تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا،گویا اللہ تعالٰی نے ان کے ذریعے ایک زبردست خیر کا ارادہ فرمایا تھا۔اسلام قبول کرتے ہی انہوں نے عرض کیا۔

ہم اپنی قوم اوس اور خزرج کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ ان کے درمیان زبردست جنگ جاری ہے، اس لیے اگر اللہ تعالٰی آپ کے ذریعے ان سب کو ایک کر دے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی۔

اوس اور خزرج دو سگے بھائیوں کی اولاد تھے۔پھر ان میں دشمنی ہو گئی۔لڑائیوں نے اس قدر طول کھینچا کہ ایک سو بیس سال تک وہ نسل در نسل لڑتے رہے، قتل پر قتل ہوئے....

اس وقت انہوں نے اپنی دشمنی کی طرف اشارہ کیا تھا،لہذا انہوں نے کہا۔

ہم اوس اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دیں گے۔ہو سکتا ہے اللہ تعالٰی آپ کے نام پر انہیں ایک کر دے۔اگر آپ کی وجہ سے وہ ایک ہو گئے،ان کا کلمہ ایک ہو گیا تو پھر آپ سے زیادہ قابل عزت اور عزیز کون ہوگا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات کو پسند فرمایا۔پھر یہ حضرات حج کے بعد مدینہ منورہ پہنچے۔

[5:00 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 48


 ہجرت کا آغاز


اگلے سال قبیلہ خزرج کے دس اور قبیلہ اوس کے دو آدمی مکہ آئے۔ان میں سے پانچ وہ تھے جو پچھلے سال عقبہ میں آپﷺ سے مل کر گئے تھے۔ان لوگوں سے بھی آپﷺ نے بیعت لی۔آپﷺ نے ان کے سامنے سورۃ النساء کی آیات تلاوت فرمائیں۔

بیعت کے بعد جب یہ لوگ واپس مدینہ منورہ جانے لگے تو آپﷺ نے ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم ؓ کو بھیجا۔ آپﷺ نے حضرت ابو مصعب ؓ بن عمیر کو بھی ان کےساتھ بھیجاتا کہ وہ نئے مسلمانوں کو دین سکھائیں،قرآن کی تعلیم دیں۔انہیں قاری کہا جاتا تھا۔ یہ مسلمانوں میں سب سے پہلے آدمی ہیں جنہیں قاری کہا گیا۔

حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز پڑھانا شروع کی۔ سب سے پہلا جمعہ بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔جمعہ کی نماز اگرچہ مکہ میں فرض ہو چکی تھی،لیکن وہاں مشرکین کی وجہ سے مسلمان جمعہ کی نماز ادا نہیں کر سکے۔سب سے پہلا جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد چالیس تھی۔

حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے مدینہ منورہ میں دین کی تبلیغ شروع کی تو حضرت سعد بن معاذ اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت اسید بن حضیر ؓ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔ان کے اسلام لانے کے بعد مدینہ میں اسلام اور تیزی سے پھیلنے لگا۔

اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر ؓ حج کے دنوں میں واپس مکہ پہنچے۔مدینہ منورہ میں اسلام کی کامیابیوں کی خبر سن کر آپﷺ بہت خوش ہوئے۔ مدینہ منورہ میں جو لوگ اسلا م لا چکے تھے ان میں سے جو حج کے لئے آئے تھے انہوں نے فارغ ہونے کے بعد منی میں رات کے وقت آپﷺ سے ملاقات کی۔جگہ اور وقت پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا۔ان لوگوں کے ساتھ چونکہ مدینہ سے مشرک لوگ بھی آئے ہوئے تھے اور ان سے اس ملاقات کو پوشیدہ رکھنا تھا،اس لئے یہ ملاقات رات کے وقت ہوئی۔یہ حضرات کل ۷۳ مرد اور ۲ عورتیں تھیں۔ملاقات کی جگہ عقبہ کی گھاٹی تھی۔وہاں ایک ایک دو دو کر کے جمع ہو گئے۔اس مجمع میں ۱۱ آدمی قبیلہ اوس کے تھے۔پھر آپﷺ تشریف لائے۔

آپﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلبؓ بھی ساتھ تھے۔ان کے علاوہ آپﷺ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ حضرت عباس ؓ بھی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس وقت آپﷺ گویا اپنے چچا کے ساتھ آئے تھے تا کہ اس معاملہ کو خود دیکھیں۔ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت علی ؓ بھی ساتھ آئے تھے۔سب سے پہلے حضرت عباس ؓ نے ان کے سامنے تقریر کی۔انہوں نے کہا:

تم لوگ جو عہد و پیمان ان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے کرو،اس کو ہر حال میں پورا کرنا،اگر پورا نہ کر سکو تو بہتر ہے کہ کوئی عہد و پیمان نہ کرو ‘‘۔

اس پر ان حضرات نے وفا داری نبھانے کے وعدے کیے۔ تب نبی اکرم ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا:

تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔۔۔اپنی ذات کی حد تک یہ کہتا ہوں کہ میری حمایت کرو اور میری حفاظت کرو۔‘‘

اس موقع پر ایک انصاری بولے:

اگر ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

اس کے بدلے تمہیں جنت ملے گی۔‘‘

اب وہ سب بول اٹھے:

یہ نفع کا سودا ہے ہم اسے ختم نہیں کریں گے۔

اب ان سب نے نبیﷺ سے بیعت کی حضور ﷺ کی حفاطت کا وعدہ کیا۔حضرت براء بن معرور ؓ نے کہا:

ہم ہر حال میں آپﷺ کا ساتھ دیں گے آپﷺ کی حفاطت کریں گے۔‘‘

حضرت براء بن معرور ؓیہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ ابو الہیثم بن التیہان ؓ بول اٹھے:

چاہے ہم پیسے پیسے کو محتاج ہو جائیں اور چاہے ہمیں قتل کر دیا جائے، ہم ہر قیمت پر آپﷺ کا ساتھ دیں گے۔‘‘

اس وقت حضرت عباس ؓ بولے:

ذرا آہستہ آواز میں بات کرو۔۔۔کہیں مشرک آواز نہ سن لیں‘‘۔

اس موقع پر ابو الہیثم ؓ نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اب ہم ان کو توڑ رہے ہیں،ایسا تو نہیں ہو گا کہ آپﷺ ہمیں چھوڑ کر مکہ آجائیں۔‘‘

یہ سن کر آپﷺ مسکرائے اور فرمایا:

نہیں ! بلکہ میرا خون اور تمہارا خون ایک ہے،جس سے تم جنگ کرو گے اس سے میں جنگ کروں گا ،جسے تم پناہ دو گے اسے میں پناہ دوں گا۔‘‘

پھر آپﷺ نے ان سے بارہ آدمی الگ کیے یہ نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے تھے-آپ نے ان سے فرمایا:

"تم میرے جاں نثار ہو...میرے نقیب ہو -" 

ان بارہ حضرات میں یہ شامل تھے- 

سعد بن عبادہ،اسعد بن رواحہ٬براء بن معرور ابوالہیثم ابن التیہان،اسید بن حضیر،عبداللہ بن عمرو بن حزام، عبادہ بن صامت اور رافع بن مالک رضی اللہ عنہم -ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کا نمائندہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جاں نثاروں سے فرمایا: 

"تم لوگ اپنی اپنی قوم کی طرف سے اس طرح میرے کفیل ہو جیسے عیسی علیہ السلام کے بارہ حواری ان کے کفیل تھے اور میں اپنی قوم یعنی مہاجروں کی طرف سے کفیل اور ذمے دار ہوں-" 

اس بیعت کو بیعتِ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے- یہ بہت اہم تھی- اس بیعت کے ہونے پر شیطان نے بہت واویلا کیا،چیخا اور چلایا کیوں کہ یہ اسلام کی ترقی کی بنیاد تھی- 

جب یہ مسلمان مدینہ پہنچے تو انہوں نے کھل کر اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا-اعلانیہ نمازیں پڑھنے لگے-مدینہ منورہ میں حالات سازگار دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا کیونکہ قریش کو جب یہ پتا چلا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگجو قوم کے ساتھ ناطہ جوڑ لیا ہے اور ان کے ہاں ٹھکانہ بنالیا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کا مکہ میں جینا اور مشکل کردیا،تکالیف دینے کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ اب تک ایسا نہیں کیا تھا -روز بروز صحابہ کی پریشانیاں اور مصیبتیں بڑھتی چلی گئیں-کچھ صحابہ کو دین سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے آزمائے گئے،طرح طرح کے عذاب دیے گئے-آخر صحابہ نے اپنی مصیبتوں کی فریاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اور مکہ سے ہجرت کر جانے کی اجازت مانگی-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند دن خاموش رہے-آخر ایک دن فرمایا:

"مجھے تمہاری ہجرت گاہ کی خبر دی گئی ہے...وہ یثرب ہے (یعنی مدینہ)-" 

اور اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہجرت کرنے کی اجازت دے دی-اس اجازت کے بعد صحابہ کرام ایک ایک دو دو کرکے چھپ چھپا کر جانے لگے- مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا، انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا-مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا،اسی طرح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد ابن ابی وقاص کے درمیان، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اور حضرت علی رضی اللہ کو خود اپنا بھائی بنایا- 

مسلمانوں میں سے جن صحابہ نے سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبد اللہ مخزومی رضی اللہ عنہ ہیں-انہوں نے سب سے پہلے تنہا جانے کا ارادہ فرمایا-جب یہ حبشہ سے واپس مکہ آئے تھے تو انہیں سخت تکالیف پہنچائی گئی تھیں-آخر انہوں نے واپس حبشہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا مگر پھر انہیں مدینہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ رک گئے اور ہجرت کی اجازت ملنے پر مدینہ روانہ ہوئے-مکہ سے روانہ ہوتے وقت یہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اپنی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے دودھ پیتے بچے کو بھی ساتھ سوار کرلیا - جب ان کے سسرال والوں کو پتا چلا تو وہ انہیں روکنے کے لیے دوڑے اور راستے میں جا پکڑا-ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔

[5:00 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 49


 قتل کی سازش


انہوں نے ان کے اونٹ کی مہار پکڑی اور بولے: 

"اے ابوسلمہ! تم اپنے بارے میں اپنی مرضی کے مختار ہو مگر ام سلمہ ہماری بیٹی ہے،ہم یہ گوارہ نہیں کرسکتے کہ تم اسے ساتھ لے جاؤ۔"

یہ کہہ کر انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کے اونٹ کی لگام کھینچ لی۔اسی وقت ابوسلمہ کے خاندان کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور بولے: 

" ابوسلمہ کا بیٹا ہمارے خاندان کا بچہ ہے۔جب تم نے اپنی بیٹی کو اس کے قبضے سے چھڑا لیا تو ہم بھی اپنے بچے کو اس کے ساتھ نہیں جانے دین گے۔"

یہ کہہ کر انہوں نے بچے کو چھین لیا۔اس طرح ان ظالموں نے حضرت ابوسلمہ رضی الله عنہ کو ان کی بیوی اور بچے سے جدا کردیا۔ابوسلمہ رضی الله عنہ تنہا مدینہ منوره پہونچے۔ 

ام سلمہ رضی الله عنہا شوہر اور بچے کی جدائی کے غم میں روزانہ صبح سویرے مکہ سے باہر مدینہ منورہ کی طرف جانے والے راستے میں جاکر بیٹھ جاتیں اور روتی رہتیں۔ایک دن ان کا ایک رشتے دار ادھر سے گزرا۔ اس نے انہیں روتے دیکھا تو ترس آگیا۔وہ اپنی قوم کے لوگوں میں گیا اور ان سے بولا: 

" تمہیں اس غریب پر رحم نہیں آتا...اسے اس کے شوہر اور بچے سے جدا کردیا، کچھ تو خیال کرو۔"

آخر ان کے دل پسیج گئے۔انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کو جانے کی اجازت دے دی۔یہ خبر سن کر ابوسلمہ رضی الله عنہ کے رشتہ داروں نے بچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ بچہ کو لے کر مدینہ چلی جائیں۔اس طرح انہوں نے مدینہ کی طرف تنہا سفر شروع کیا۔راستے میں حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا ملے۔یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، کعبہ کے چابی برادر تھے۔یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔یہ ان کی حفاظت کی غرض سے ان کے اونٹ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یہاں تک کہ انہیں قبا میں پہنچا دیا۔پھر حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے: " تمہارے شوہر یہاں موجود ہیں۔"

اس طرح ام سلمہ رضی الله عنہا مدینہ پہنچی۔آپ پہلی مہاجر خاتون ہیں جو شوہر کے بغیر مدینہ آئیں۔حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا نے انہیں مدینہ پہنچا کر جو عظیم احسان کیاتھا،اس کی بنیاد پر کہا کرتی تھیں: 

" میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ نیک اور شریف کسی کو نہیں پایا۔"

اس کے بعد مکہ سے مسلمانوں کی مدینہ آمد شروع ہوئی۔صحابہ کرام رضی الله عنہم ایک کے بعد ایک آتے رہے۔انصاری مسلمان انہیں اپنے گھروں میں ٹھراتے۔ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔حضرت عمر رضی الله عنہ اور عیاش بن ابو ربیعہ رضی الله عنہ بیس آدمیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ پہنچے۔حضرت عمر رضی الله عنہ کی ہجرت خاص بات یہ ہے کہ مکہ سے چھپ کر نہیں نکلے بلکہ باقاعدہ اعلان کرکے نکلے۔انہوں نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا،پھر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی،اس کے بعد مشرکین سے بولے: 

" جو شخص اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے،اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے یا اپنی ماں کی گود ویران کرنا چاہتا ہے...وہ مجھے جانے سے روک کر دکھائے۔"

ان کا یہ اعلان سن کر سارے قریش کو سانپ سونگھ گیا۔کسی نے ان کا پیچھا کرنے کی جرات نہ کی۔وہ بڑے وقار سے ان سب کے سامنے روانہ ہوئے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ بھی ہجرت کی تیاری کررہے تھے۔ ہجرت سے پہلے وہ آرزو کیا کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ وہ روانگی کی تیاری کرچکے تھے ایک دن حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: 

" ابوبکر! جلدی نہ کرو، امید ہے، مجھے بھی اجازت ملنے والی ہے۔"

چنانچہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ رک گئے۔ لانہوں نے ہجرت کے لیے دو اونٹنیاں تیار کرت رکھی تھی۔انہوں نے ان دونوں کو آٹھ سو درہم میں خریدا تھا اور انہیں چار ماہ سے کھلا پلا رہے تھے۔ 

ادھر مشرکین نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان مدینہ ہجرت کرتے جارہے ہیں اور مدینہ کے رہنے والے بڑے جنگ جو ہے...وہاں مسلمان روز بروز طاقت پکڑتے چلے جائیں گے تو انہیں خوف محسوس ہوا کہ الله کے رسول بھی کہیں مدینہ نہ چلے جائے اور وہاں انصار کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ کی تیاری نہ کرنے لگیں...تو وہ سب جمع ہوئے...اور سوچنے لگے کہ کیا قدم اٹھائیں۔

یہ قریش دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے۔دارالندوہ ان کے مشورہ کرنے کی جگہ تھی۔یہ پہلا پختہ مکان تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا۔قریش کے اس مشورے میں شیطان بھی شریک ہوا۔وہ انسانی شکل میں آیا تھا اور ایک بوڑھے کے روپ میں تھا،سبز رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔وہ دروازے پر آکر ٹھر گیا۔اسے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا: 

" آپ کون بزرگ ہیں۔"

اس نے کہا: 

" میں نجد کا سردار ہوں۔آپ لوگ جس غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں، میں بھی اسی کے بارے میں سن کر آیا ہوں تاکہ لوگوں کی باتیں سنوں اور ہوسکے تو کوئی مفید مشورہ بھی دوں۔"

اس پر قریشیوں نے اسے اندر بلالیا۔اب انہوں نے مشورہ شروع کیا۔ان میں سے کوئی بولا: 

" اس شخص( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم)کا معاملہ تم دیکھ ہی چکے ہو،الله کی قسم!اب ہر وقت اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ اپنے نئے اور اجنبی مددگاروں کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ کرے گا،لہذا مشورہ کرکے اس کے بارے میں کوئی ایک بات طے کرلو۔"

وہاں موجود ایک شخص ابوالبختری بن ہشام نے کہا: 

" اسے بیڑیاں پہنا کر ایک کوٹھری میں بند کردو اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک انتظار کرو،تاکہ اس کی بھی وہی حالت ہوجائے جو اس جیسے شاعروں کی ہوچکی ہے اور یہ بھی انہی کی طرح موت کا شکار ہوجائے۔"

اس پر شیطان نے کہا: 

" ہرگز نہیں!یہ رائے بالکل غلط ہے۔یہ خبر اس کے ساتھیوں تک پہنچ جائے گی،وہ تم پر حملہ کردیں گے اور اپنے ساتھی کو نکال کر لے جائیں گے...اس وقت تمہیں پچھتانا پڑے گا،لہذا کوئی اور ترکیب سوچو۔"

اب ان میں بحث شروع ہوگئ۔اسود بن ربیعہ نے کہا: 

" ہم اسے یہاں سے نکال کر جلاوطن کردیتے ہے...پھر یہ ہماری طرف سے کہیں بھی چلا جائے۔"

اس پر نجدی یعنی شیطان نے کہا: 

" یہ رائے بھی غلط ہے۔تم دیکھتے نہیں،اس کی باتیں کس قدر خوب صورت ہیں،کتنی میٹھی ہیں۔وہ اپنا کلام سناکر لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔الله کی قسم! اگر تم نے اسے جلاوطن کردیا تو تمہیں امن نہیں ملےگا۔ یہ کہیں بھی جاکر لوگوں کے دلوں کو موہ لے گا۔ پھر تم پر حملہ آوار ہوگا...اور تمہاری یہ ساری سرداری چھین لے گا... لہذا کوئی اور بات سوچو۔"

اس پر ابوجہل نے کہا: 

" میری ایک ہی رائے ہے اور اس سے بہتر رائے کوئی نہیں ہوسکتی۔"

سب نے کہا: 

" اور وہ کیا ہے۔"

ابوجہل نے کہا: 

" آپ لوگ ہر خاندان اور ہر قبیلےکا ایک ایک بہادر اور طاقتور نوجوان لیں۔ہر ایک کو ایک ایک تلوار دیں۔ان سب کو محمد پر حملہ کرنے کے لیے صبح سویرے بھیجیں۔وہ سب ایک ساتھ اس پر اپنی تلواروں کا ایک بھرپور وار کریں...اس طرح اسے قتل کردیں۔اس سے ہوگا یہ کہ اس کے قتل میں سارے قبیلے شامل ہوجائیں گے،لہذا محمد کے خاندان والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ان سب سے جنگ کریں...لہذا وہ خون بہا( یعنی فدیے کی رقم)لینے پر آمادہ ہوجائیں گے، وہ ہم انہیں دے دیں گے۔"

اس پر شیطان خوش ہوکر بولا: 

" ہاں! یہ ہے اعلیٰ رائے...میرے خیال میں اس سے اچھی رائے کوئی اور نہیں ہوسکتی۔"

چنانچہ اس رائے کو سب نے منظور کرلیا۔ الله تعالٰی نے فوراً جبرئیل علیہ السلام کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔انہوں نے عرض کیا: 

" آپ روزانہ جس بستر پر سوتے ہیں،آج اس پر نہ سوئیں۔"

اس کے بعد انہوں نے مشرکین کی سازش کی خبر دی، چنانچہ سورۃ الاانفال کی آیت ۳۰ میں آتا ہے: 

" ترجمہ: اور اس واقعے کا بھی ذکر کیجئے،جب کافر لوگ آپ کی نسبت بری بری تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آیا آپ کو قید کرلیں،یا قتل کرڈالیں، یا جلاوطن کردیں اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور الله اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے مضبوط تدبیر والا الله ہے۔"

غرض جب رات ایک تہائی گزر گئی تو مشرکین کا ٹولہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے گھر تک پہنچ کر چھپ گیا...وہ انتظار کرنے لگا کہ کب وہ سوئیں اور وہ سب یک دم ان پر حملہ کردیں۔ان کفار کی تعداد ایک سو تھی

[5:00 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 50


مکہ سے غار ثور تک


ادھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"تم میرے بستر پر سو جاؤ اور میری یمنی چادر اوڑھ لو۔"

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: 

"تمہارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔"

مشرکوں کے جس گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیر رکھا تھا، ان میں حکیم بن ابوالعاص، عقبہ بن ابی معیط، نصر بن حارث، اسید بن خلف، زمعہ ابن اسود اور ابوجہل بھی شامل تھے۔ ابوجہل اس وقت دبی آواز میں اپنے ساتھیوں سے رہا تھا:

"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتا ہے، اگر تم اس کے دین کو قبول کرلو گے تو تمہیں عرب اور عجم کی بادشاہت مل جائے گی اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی اور وہاں تمہارے لیے ایسی جنتیں ہوں گی، ایسے باغات ہوں گے جیسے اردن کے باغات ہیں، لیکن اگر تم میری پیروی نہیں کرو گے تو تم سب تباہ ہو جاؤ گے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو تمہارے لئے وہاں جہنم کی آگ تیار ہوگی اس میں تمہیں جلایا جائے گا۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے یہ الفاظ سُن لیے، آپ یہ کہتے ہوئے گھر سے نکلے:

"ہاں! میں یقیناً یہ بات کہتا ہوں۔"

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں کچھ مٹی اٹھائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

ترجمہ: یٰسن۔ قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک آپ پیغمبروں کے گروہ میں سے ہیں، سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ قرآن زبردست اللہ مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ (پہلے تو) ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے سو اسی سے یہ بے خبر ہیں، اُن میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں، پھر وہ ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں، جس سے ان کے سر اوپر کو اٹھ گئے ہیں اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی ہے اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی ہے جس سے ہم نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے سووا دیکھ نہیں سکتے۔"

یہ سورۃ یٰسین کی آیات 1 تا 9 کا ترجمہ ہے ۔ ان آیات کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کفار وقتی طور پر اندھا کردیا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے سے جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔

حضور صلی اللہ وعلیہ وسلم نے جو مٹی پھینکی تھی وہ ان سب کے سروں پر گری، کوئی ایک بھی ایسا نہ بچا جس پر مٹی نہ گری ہو۔

جب قریش کو پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سروں پر خاک ڈال کر جا چکے ہیں تو وہ سب گھر کے اندر داخل ہوئے۔ آپ صل اللہ و علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بولے:

"خدا کی قسم یہ تو اپنی چادر اوڑھے سو رہے ہیں لیکن جب چادر الٹی گی تو بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ مشرکین حیرت زدہ رہ گئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "تمارے صاحب کہاں ہیں؟"

مگر اُنھوں نے کچھ نہ بتایا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مارتے ہوئے باہر لے آئے اور مسجد حرام تک لائے، کچھ دیر تک انہوں نے انہیں روکے رکھا، پھر چھوڑ دیا۔

اب حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کو ہجرت کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ انہوں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا:

"میرے ساتھ دوسرا ہجرت کرنے والا کون ہوگا؟"

جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:

"ابوبکر صدیق ہونگے۔"

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک چادر اوڑھے ہوئے تھے اسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ دروازے پر دستک دی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں اور چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔

یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بول اُٹھے:

" اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً کسی خاص کام سے تشریف لائے ہیں۔"

پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی چارپائی پر بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"دوسرے لوگوں کو یہاں سے اٹھا دو۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! یہ تو سب میرے گھر والے ہیں۔"

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔"

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوراً بول اٹھے:

"میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ کے ساتھ جاؤں گا؟"

جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"ہاں! تم میرے ساتھ جاؤ گے -"

یہ سنتے ہی مارے خوشی کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے اپنے والد کو روتے دیکھا تو حیران ہوئی... اس لیے کہ میں اس وقت تک نہیں جانتی تھی کہ انسان خوشی کی وجہ سے بھی رو سکتا ہے - 

پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ ان دونوں اونٹنیوں میں سے ایک لے لیں، میں نے انہیں اسی سفر کے لیے تیار کیا ہے -" 

اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"میں یہ قیمت دے کر لے سکتا ہوں -" 

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! میں اور میرا سب مال تو آپ ہی کا ہے -" 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹنی لے لی - 

بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کی قیمت دی تھی - اس اونٹنی کا نام قصویٰ تھا - یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کے پاس ہی رہی - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اس کی موت واقع ہوئی - 

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں اونٹنیوں کو جلدی جلدی سفر کے لیے تیار کیا - چمڑے کی ایک تھیلی میں کھانے پینے کا سامان رکھ دیا - حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر پھاڑ کر اس کے ایک حصے سے ناشتے کی تھیلی باندھ دی - دوسرے حصے سے انہوں نے پانی کے برتن کا منہ بند کردیا - اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"اللہ تعالیٰ تمہاری اس اوڑھنی کے بدلے جنت میں دو اوڑھنیاں دے گا۔"

اوڑھنی کو پھاڑ کر دو کرنے کے عمل کی بنیاد پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ذات النطاقین کا لقب ملا یعنی دو اوڑھنی والی۔یاد رہے کہ نطاق اس دوپٹے کو کہا جاتا ہے جسے عرب کی عورتیں کام کے دوران کمر کے گرد باندھ لیتی تھیں۔

پھر رات کے وقت حضور صلی اللہ ھو علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اور پہاڑ ثور کے پاس پہنچے۔ سفر کے دوران کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:

"ابوبکر ایسا کیوں کر رہے ہو؟"

جواب میں انہوں نے عرض کیا:

"اللہ کےرسول! میں اس خیال سے پریشان ہوں کہ کہیں راستے میں کوئی آپ کی گھات میں نہ بیٹھا ہو۔" اس پہاڑ میں ایک غار تھا۔ دونوں گار کے دھانے تک پہنچے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:

"قسم اُس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا۔ آپ ذرا ٹھریے! پہلے غار میں داخل ہوں گا، اگر غار میں کوئی موذی کیڑا ہوا تو کہیں وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا دے…”

چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوئے۔ انہوں نے غار کو ہاتھوں سے ٹٹول کر دیکھنا شروع کیا۔ جہاں کوئی سوراخ ملتا اپنی چادر سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کو بند کر دیتے۔


[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 51


اللہ ہمارے ساتھ ہے


اس طرح انہوں نے تمام سوراخ بند کردیے مگر ایک سوراخ رہ گیا اور اسی میں سانپ تھا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی ۔اس کے بعد آنحضرت ﷺ غار میں داخل ہوئے ۔ادھر سانپ نے اپنے سوراخ پر ایڑی دیکھی تو اس پر ڈنک مارا ۔

تکلیف کی شدت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے لیکن انہوں نے اپنے منہ سے آواز نہ نکلنے دی، اس لیے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ ان کے زانو پر سر رکھ کر سورہےتھے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے سانپ کے ڈسنے کے باوجود اپنے جسم کو ذرا سی بھی حرکت نہ دی...نہ آواز نکالی کہ کہیں حضور ﷺ کی آنکھ نہ کھل جائے، تاہم آنکھ سے آنسو نکلنے کو وہ کسی طرح نہ روک سکے...وہ حضور ﷺ پر گرے ۔ان کے گرنے سے حضور ﷺ کی آنکھ کھل گئی ۔آپ ﷺنےحضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا: 

ابوبکر کیا ہوا؟ 

انہوں نے جواب دیا: 

آپ پر میرے ماں باپ قربان ۔مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے ۔

آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن سانپ کے کاٹے کی جگہ پر لگادیا۔اس سے تکلیف اور زہر کا اثر فوراﹰ دور ہوگیا ۔

صبح ہوئی، آنحضرت ﷺ کو حضرت ابوبکر رضی الله کے جسم پر چادر نظر نہ آئی ۔تو دریافت: 

ابوبکر! چادر کہاں ہے؟ 

انہوں بتادیا: 

اللّٰہ کے رسول! میں نے چادر پھاڑ پھاڑ کر کر اس غار کے سوراخ بند کیے ہیں ۔آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور اور فرمایا: 

اے اللّٰہ ابوبکر کو جنت میں میرا ساتھی بنانا ۔

اسی وقت الله تعالٰی نے وحی کے ذریعے خبر دی کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی ہے ۔

ادھر قریش کے لوگ نبی اکرم ﷺ کی تلاش میں اس غار کے قریب آپہنچے ۔ان میں سے چند ایک جلدی سے آگے بڑھ کر غار میں جھانکنے لگے ۔غار کے دہانے پر انہیں مکڑی کا جالا نظر آیا ۔ساتھ ہی دو جنگلی کبوتر نظر آئے ۔اس پر ان میں سے ایک نے کہا: اس غار میں کوئی نہیں ہے ۔ایک روایت میں یوں آیا ہے ان میں امیہ بن خلف بھی تھا، اس نے کہا: اس غار کے اندر جاکردیکھو: 

کسی نے جواب دیا: 

غار کے اندر جاکر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، غار کے منہ پر بہت جالے لگے ہوئے ہیں..اگر وہ اندر جاتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے، نہ یہاں کبوتر کے انڈے ہوتے، 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب ان لوگوں کو غار کے دہانے پر دیکھا تو آپ رو پڑے اور دبی آواز میں بولے: 

اللّٰہ کی قسم! میں اپنی جان کے لیے نہیں روتا میں تو اس لیے روتا ہوں کہ کہیں یہ لوگ آپ کو تکلیف نہ پہنچائیں -"

اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"ابوبکر! غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے -" 

اسی وقت اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل کو سکون بخش دیا - ان حالات میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیاس محسوس ہوئی - انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا... تو آپ نے ارشاد فرمایا:

"اس غار کے درمیان میں جاؤ اور پانی پی لو -" 

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اٹھ کر غار کے درمیان میں پہنچے - وہاں انہیں اتنا بہترین پانی ملا کہ شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبو والا تھا - انہوں نے اس میں سے پانی پیا، جب وہ واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

"اللہ تعالی نے جنت کی نہروں کے نگراں فرشتے کو حکم فرمایا کہ اس غار کے درمیان میں جنت الفردوس سے ایک چشمہ جاری کردیں تاکہ تم اس میں سے پانی پی سکو -" 

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حیران ہوئے اور عرض کیا:

"کیا اللہ کے نزدیک میرا اتنا مقام ہے -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"ہاں! بلکہ اے ابوبکر! اس سے بھی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے پیغام کے ساتھ نبی بناکر بھیجا ہے، وہ شخص جو تم سے بغض رکھے، جنت میں داخل نہیں ہوگا -" 

غرض قریش مایوس ہوکر غار ثور سے ہٹ آئے اور ساحلی علاقوں کی طرف چلے گئے - ساتھ ہی انہوں نے اعلان کردیا:

"جو شخص محمد یا ابوبکر کو گرفتار کرے یا قتل کرے، اسے سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس غار میں تین دن تک رہے - اس دوران ان کے پاس حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کے بیٹے عبداللہ رضی الله عنہہ بھی آتے جاتے رہے۔ یہ اس وقت کم عمر تھے مگر حالات کو سمجھتے تھے۔ اندھیرا پھیلنے کر بعد یہ غار میں آجاتے اور منہ اندھیرے فجر کے وقت وہاں سے واپس آجاتے، اس سے قریش یہ خیال کرتے کہ انہوں نے رات اپنے گھر میں گزاری ہے۔ اس طرح قریش کے درمیان دن بھر جو باتیں ہوتیں، یہ ان کو سنتے اور شام کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر بتادیتے۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے ایک غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی الله عنہہ تھے۔ یہ پہلے طفیل نامی ایک شخص کے غلام تھے۔ جب یہ اسلام لے آئے تو طفیل نے ان پر ظلم ڈھانا شروع کیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ نے اس سے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ یہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔

یہ بھی ان دنوں غار تک آتے جاتے رہے۔ شام کے وقت اپنی لکڑیاں لے کر وہاں پہنچ جاتے اور رات کو وہیں رہتے۔ صبح منہ اندھیرے حضرت عبداللہ رضی الله عنہ کے جانے کے بعد یہ بھی وہاں سے اپنی بکریاں اسی راستے سے واپس لاتے تاکہ ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ ان تین راتوں تک ان کا برابر یہی معمول رہا۔ یہ ایسا حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ کی ہدایت پر کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے ہی یہ حکم دیا تھا کہ وہ دن بھر قریش کی باتیں سنا کریں اور شام کو انہیں بتایا کریں۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو بھی ہدایت تھی کہ دن بھر بکریاں چرایا کریں اور شام کو غار میں ان کا دودھ پہنچایا کریں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی اسماء رضی الله عنہا بھی شام کے وقت ان کے لیے کھاناپہنچاتی تھیں ۔

ان تین کے علاوہ اس غار کا پتہ کسی کو نہیں تھا۔ تین دن اور رات گزرنے پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی الله عنہا سے فرمایا:

" اب تم علی کے پاس جاؤ، انہیں غار کے بارے میں بتادو اور ان سے کہو، وہ کسی رہبر کا انتظام کردیں۔ آج رات کا کچھ پہر گزرنے کے بعد وہ رہبر یہاں آجائے۔"

چنانچہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سیدھی حضرت علی رضی الله عنہ کے پاس آئیں۔ انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیغام دیا۔حضرت علی رضی اللہ نے فوراً اجرت کا ایک راہبر کا انتظام کیا۔ اس کا نام اریقط بن عبداللہ لیثی تھا۔ یہ راہبر رات کے وقت وہاں پہنچا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی اونٹ کی بلبلانے کی آواز سنی، آپ فوراً ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے ساتھ غار سے نکل آئے۔ اور راہبر کو پہچان لیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اونٹوں پر سوار ہوگئے۔

اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی الله عنہ کے ذریعے اپنے گھر سے وہ رقم بھی منگوالی تھی جو وہاں موجود تھی... یہ رقم چار پانچ ہزار درہم تھی۔ جب صدیق اکبر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تھے تو ان کے پاس چالیس پچاس ہزار درہم موجود تھے۔ گویا یہ تمام دولت انہوں نے الله کے راستے میں خرچ کردی تھی۔ جاتے وقت بھی گھر میں جو کچھ تھا، منگوالیا... ان کے والد ابوقحانہ رضی الله عنہ اس وقت تک مسلمان نہيں ہوئے تھے۔ ان کی بینائی ختم ہوگئی تھی... وہ گھر آئے تو اپنی پوتی حضرت اسماء رضی الله عنہا سے کہنے لگے؛ 

" میرا خیال ہے، ابوبکر اپنی اور اپنے مال کی کی وجہ سے تمہیں مصیبت میں ڈال گئے ہیں(مطلب یہ تھا کہ جاتے ہوئے سارے پیسے لے گئے ہیں)۔"

یہ سن کر حضرت اسماء رضی الله عنہا نے کہا: 

" نہیں بابا! وہ ہمارے لیے بڑی خیروبرکت چھوڑگئے ہیں۔"

حضرت اسماء کہتی ہیں: " اس کے بعد میں نے کچھ کنکر ایک تھیلی میں ڈالے اور ان کو طاق میں رکھ دیا۔ اس میں میرے والد اپنے پیسے رکھتے تھے۔ پھر اس تھیلی پر کپڑا ڈال دیا اور اپنے دادا کا ہاتھ ان پر رکھتے ہوئے میں نے کہا:

"یہ دیکھیے! روپیے یہاں رکھے ہیں۔"

ابوقحانہ رضی الله عنہ نے اپنا ہاتھ رکھ کر محسوس کیا اور بولے: 

" اگر وہ یہ مال تمہارے لیے چھوڑ گئے ہیں تب فکر کی کوئی بات نہیں، یہ تمہارے لیے کافی ہے۔"

حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ والد صاحب ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑ گئے تھے۔"

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 52

 سو اونٹنیوں کا انعام 


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کر جانے کی خبر ایک صحابی حضرت حمزہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو ملی تو کہنے لگے:

"اب میرے مکہ میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں -" 

پھر انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا - یہ گھرانہ مدینہ منورہ کے لیے نکل کھڑا ہوا - ابھی تنعیم کے مقام تک پہنچا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے - اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں یہ آیت نازل فرمائی:

"اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرے گا، پھر اسے موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ثابت ہوگیا اور اللہ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں، بڑے رحمت کرنے والے ہیں -" (آیت 100)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"حسان کیا تم نے ابوبکر کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟" 

انہوں نے عرض کیا:

"جی ہاں -" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا.

سناؤ، میں سننا چاہتا ہوں.

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بہت بڑے شاعر تھے، ان کو شاعر رسول کا خطاب بھی ملا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمائش پر انہوں نے جو دو شعر سنائے، ان کا ترجمہ یہ ہے.

حضرت ابوبکر صدیق جو دو میں کے دوسرے تھے، اس بلند و بالا غار میں تھے اور جب وہ پہاڑ پر پہنچ گئے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگائے.

یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق زار تھے جیسا کہ ایک دنیا جانتی ہے اور اس عشق رسول میں ان کا کوئی ثانی یا برابر نہیں تھا.

یہ شعر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مسکرانے لگے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک نظر آئے. پھر ارشاد فرمایا.

تم نے سچ کہا حسان، وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے کہا، وہ غار والے کے نزدیک (یعنی میرے نزدیک) سب سے زیادہ پیارے ہیں، کوئی دوسرا شخص ان کی برابری نہیں کر سکتا.

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے چلتے دیکھا تو ارشاد فرمایا.

اے ابو درداء، یہ کیا، تم اس شخص سے آگے چلتے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے افضل ہے. قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، انبیاء و مرسلین کے بعد ابو بکر سے زیادہ افضل آدمی پر نہ کبھی سورج طلوع ہوا اور نہ غروب ہوا.

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.

میرے پاس جبريل آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالٰی آپ کو حکم دیتا ہے کہ ابو بکر سے مشورہ کیا کیجیے.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا.

میری امت پر ابو بکر کی محبت واجب ہے.

یہ چند احادیث حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں اس لیے نقل کر دی گئیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہجرت کے ساتھی تھے اور یہ عظیم اعزاز ہے.

غار سے نکل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹوں پر سوار ہوئے اور راہبر کے ساتھ سفر شروع کیا. حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسی اونٹ پر سوار تھے.

غرض یہ مختصر سا قافلہ روانہ ہوا، راہبر انہیں ساحل سمندر کے راستے سے لے کر جا رہا تھا. راستے میں کوئی ملتا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھتا.

یہ تمہارے ساتھ کون ہیں.

تو آپ اس کے جواب میں فرماتے.

میرے ساتھ میرے راہبر ہیں.

یعنی میرے ساتھ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں. ان کا مطلب تھا کہ یہ دین کا راستہ دکھانے والے ہیں مگر پوچھنے والے اس گول مول جواب سے یوں سمجھتے کہ یہ کوئی راہبر (گائیڈ) ہیں جو ساتھ جا رہے ہیں.

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس طرح جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدایت دی تھی کہ لوگوں کو میرے پاس سے ٹالتے رہنا، یعنی اگر کوئی میرے بارے میں پوچھے تو تم یہی ذو معنی (گول مول) جواب دینا. کیونکہ نبی کے لیے کسی صورت میں جھوٹ بولنا مناسب نہیں... چاہے کسی بھی لحاظ سے ہو، چنانچہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں سوال کرتا رہا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یہی جواب دیتے. رہ گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ.... وہ ان راستوں سے اکثر تجارت کے لیے جاتے رہتے تھے، انہیں اکثر لوگ جانتے تھے، ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کون ہیں.

ادھر قریش نے سو اونٹنیوں کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی سنا جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے.

سراقہ رضی اللہ عنہ خود اپنی کہانی ان الفاظ میں سناتے ہیں.

میں نے یہ اعلان سنا ہی تھا کہ میرے پاس ساحلی بستی کا ایک آدمی آیا، اس نے کہا، کہ اے سراقہ. میں نے کچھ لوگوں کو ساحل کے قریب جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے ساتھی ہیں.

مجھے بھی یقین ہو گیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھی ہی ہو سکتے ہیں، چنانچہ میں اٹھا، گھر گیا اور اپنی باندی کو حکم دیا کہ میری گھوڑی نکال کر چپکے سے وادی میں پہنچا دے، اور وہیں ٹھہر کر میرا انتظار کرے، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ نکالا اور اپنے گھر کے پچھلی طرف نکل کر وادی میں پہنچا. اس رازداری میں مقصد یہ تھا کہ میں اکیلا ہی کام کر ڈالوں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کر لوں. میں نے اپنی زرہ بھی پہن لی تھی، پھر میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر اس طرف روانہ ہوا، میں نے اپنی گھوڑی کو بہت تیز دوڑایا. یہاں تک کہ آخر کار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ فاصلے پر پہنچ گیا، لیکن اسی وقت میری گھوڑی کو ٹھوکر لگی، وہ منہ کے بل نیچے گری، میں بھی نیچے گرا، پھر گھوڑی اٹھ کر ہنہنانے لگی. میں اٹھا، میرے ترکش میں فال کے تیر تھے. یہ وہ تیر تھے جن سے عرب کے لوگ فال نکالتے تھے، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا تھا، کرو، اور کسی پر لکھا ہوتا تھا، نہ کرو، میں نے ان میں سے ایک تیر لیا، اور فال نکالی،... یعنی میں جاننا چاہتا تھا، یہ کام کروں یا نہ کروں،... فال میں انکار نکلا، یعنی یہ کام نہ کرو، لیکن یہ بات میری مرضی کے خلاف تھی، میں سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کرنا چاہتا تھا، نہ والا تیر نکلنے کے باوجود میں گھوڑی پر سوار ہو کر آگے بڑھا. یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بہت قریب پہنچ گیا جو کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے تھے، البتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مڑ کر بار بار دیکھ رہے تھے.

اسی وقت میری گھوڑی کی اگلی دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئیں، حالانکہ وہاں زمین سخت اور پتھریلی تھی. میں گھوڑی سے اترا... اسے ڈانٹا.... وہ کھڑی ہو گئی لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک زمین میں دھنسی ہوئی تھیں وہ زمین سے نہ نکلیں.

میں نے پھر فال نکالی. انکار والا تیر ہی نکلا. آخر میں پکار اٹھا.

میری طرف دیکھیے، میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا اور نہ میری طرف سے آپ کو کوئی ناگوار بات پیش آئے گی.... میں سراقہ بن مالک ہوں، آپ کا ہمدرد ہوں.... آپ کو نقصان پہنچانے والا نہیں ہوں.... مجھے معلوم نہیں کہ میری بستی کے لوگ بھی آپ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں یا نہیں.

یہ کہنے سے میرا مطلب تھا، اگر کچھ اور لوگ اس طرف آ رہے ہوں گے تو میں انہیں روک دوں گا. اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا.

اس سے پوچھو، یہ کیا چاہتا ہے.

اب میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا.... اپنے ارادے کے بارے میں بتا دیا اور بولا.

بس آپ دعا کر دیجئے کہ میری گھوڑی کی ٹانگیں زمین سے نکل آئیں.... میں وعدہ کرتا ہوں، اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا.

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 53


 حضرت اُمّ معبد کے خیمے پر 


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی آپ کے دعا فرماتے ہی حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑی کے پاؤں زمین سے نکل آئے ۔

گھوڑی کے پاؤں جونہی باہر آئے، سراقہ رضی اللہ عنہ پھر اس پر سوار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:

"اے اللہ! ہمیں اس سے باز رکھ -" 

اس دعا کے ساتھ ہی گھوڑی پیٹ تک زمین میں دھنس گئی - اب انہوں نے کہا:

"اے محمد! میں قسم کھا کر کہتا ہوں... مجھے اس مصیبت سے نجات دلادیں... میں آپ کا ہمدرد ثابت ہوں گا -" 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"اے زمین! اسے چھوڑ دے -" 

یہ فرمانا تھا کہ ان کے گھوڑی زمین سے نکل آئی... بعض تفاسیر میں لکھا ہے کہ سراقہ رضی اللہ عنہ نے سات مرتبہ وعدہ خلافی کی... ہر بار ایسا ہی ہوا... بعض روایات میں ہے کہ ایسا تین بار ہوا... آخر حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچ سکتے... چنانچہ انہوں نے کہا:

"میں اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا... آپ میرے سامان میں سے کچھ لینا چاہیں تو لے لیں... سفر میں آپ کے کام آئے گا۔"

حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کچھ لینے سے انکار کردیا اور فرمایا: 

" تم بس اپنے آپ کو روکے رکھو اور کسی کو ہم تک نہ آنے دو۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے سراقہ رضی الله سے یہ بھی فرمایا: 

" اے سراقہ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔"

سراقہ رضی اللہ عنہہ یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے: 

" آپ نے کیا فرمایا... کسریٰ بادشاہ کے کنگن مجھے پہنائے جائیں گے۔"

ارشاد فرمایا: 

"ہاں! ایسا ہی ہوگا۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی یہ حیرت انگیز پیشن گوئی تھی... کیونکہ اس وقت ایسا ہونے کا قطعاً کوئی امکان دور دور تک نہیں تھا، لیکن پھر ایک وقت آیا کہ حضرت سراقہ رضی الله عنہ مسلمان ہوئے۔ حضرت عمر رضی الله عنہہ کے دور میں جب مسلمانوں کو فتوحات پر فتوحات ہوئیں اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کو شکست فاش ہوئی تو اس مال غنیمت میں کسریٰ کے کنگن بھی تھے۔ یہ کنگن حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے حضرت سراقہ رضی الله عنہہ کو پہنائے، اور اس وقت سراقہ رضی الله عنہہ کو یاد آیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت کے وقت ارشاد فرمایا تھا: 

" اے سراقہ! اس وقت تک تمہارا کیا حال ہوگا، جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔"

اپنے ایمان لانے کی تفصیل سراقہ رضی الله عنہہ یوں بیان کرتے ہیں: 

" جب رسول کریم صلی الله علیہ وسلم حنین اور طائف کے معرکوں سے فارغ ہوچکے تو میں ان سے ملنے کے لیے روانہ ہوا۔ ان سے میری ملاقات جعرانہ کے مقام پر ہوئی۔میں انصاری سواروں کے درمیان سے لشکر کے اس حصے کی طرف روانہ ہوا جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر تشریف فرما تھے۔ میں نے نزدیک پہنچ کر عرض کیا: 

" اے الله کے رسول! میں سراقہ ہوں۔"

ارشاد فرمایا: 

"قریب آجاؤ۔"

میں نزدیک چلا آیا اور پھر ایمان لے آیا۔ حضرت عمر صدیق رضی الله عنہہ نے کسریٰ کے کنگن مجھے پہناتے ہوئے فرمایاتھا: 

" تمام تعریفیں اس ذات باری تعالٰی کے لیے ہیں جس نے یہ چیزیں شاہ ایران کسریٰ بن ہرمز سے چھین لیں جو یہ کہا کرتا تھا، میں انسانوں کا پروردگار ہوں۔"

یہ سراقہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے معافی ملنے کے بعد واپس پلٹے اور راستے میں جو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں آتا ہوا انہیں ملا، یہ اسے یہ کہہ کر لوٹاتے رہے۔

"میں اس طرف ہی سے ہوکر آرہا ہوں... ادھر مجھے کوئی نہیں ملا... اور لوگ جانتے ہی ہیں مجھے راستوں کی کتنی پہچان ہے۔"

غرض اس روز یہ قافلہ تمام رات چلتا رہا... یہاں تک کہ چلتے چلتے اگلے دن دوپہر کا وقت ہوگیا۔ اب دور دور تک کوئی آتا جاتا نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں سامنے ایک چٹان ابھری ہوئی نظر آئی۔ اس کا سایہ کافی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس جگہ پر پڑاﺅ ڈالنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سواری سے اترے اور اپنے ہاتھوں سے جگہ کو صاف کرنے لگے تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم چٹان کے سائے میں سوسکیں، جگہ صاف کرنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنی پوستین وہاں بچھادی اور عرض کیا: 

" الله کے رسول! یہاں سوجائے... میں پہرہ دوں گا... "

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سوگئے۔ ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے ایک چرواہے کو چٹان کی طرف آتے دیکھا... شاید وہ بھی سائے میں آرام کرنا چاہتا تھا۔ 

ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ فوراً اس طرف مڑے اور اس سے بولے: 

" تم کون ہوں؟ "

اس نے بتایا: 

" میں مکہ کا رہنے والا ایک چرواہا ہوں۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ بولے: 

" کیا تمہاری بکریوں میں کوئی دودھ والی بکری ہے۔"

جواب میں اس نے کہا: " ہاں ہے" پھر وہ ایک بکری سامنے لایا۔ اپنے ایک برتن میں دودھ دوہا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو دیا۔ وہ دودھ کا برتن اٹھائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے جوکہ اس وقت سورہے تھے۔انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو جگانا مناسب نہ سمجھا، دودھ کا برتن لیے اس وقت تک کھڑے رہے، جب تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جاگ نہیں گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے دودھ میں پانی کی دھار ڈالی تاکہ وہ ٹھنڈا ہوجائے، پھر خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا: 

" یہ دودھ پی لیجئے۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا، اور پوچھا: 

" کیا روانگی کا وقت ہوگیا۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے عرض کیا: 

" جی ہاں! ہوگیا ہے۔"

اب یہ قافلہ پھر روانہ ہوا... ابھی کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ ایک خیمہ نظر آیا۔ خیمے کے باہر ایک عورت بیٹھی تھی۔یہ ام معبد رضی الله عنہا تھیں۔ جو اس وقت تک اسلام کی دعوت سے محروم تھیں۔ ان کا نام عاتکہ تھا۔ یہ ایک بہادر اور شریف خاتون تھیں۔

انہوں نے بھی آنے والوں کو دیکھ لیا۔اس وقت ام معبد رضی الله عنہا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ چھوٹا سا قافلہ کن ہستیوں کا ہے۔ نزدیک آنے پر حضور صلی الله علیہ وسلم کو ام معبد رضی الله عنہا کے پاس ایک بکری کھڑی نظر آئی... وہ بہت ہی کمزور اور دبلی پتلی سی بکری تھی۔ 

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ام معبد رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: 

" کیا اس کے تھنوں میں دودھ ہے؟ "

اُمّ معبد رضی اللہ عنہہ نے بولیں؛ 

" اس کمزور اور مریل بکری کے تھنوں میں دودھ کہا سے آئے گا۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

" کیا تم مجھے اس کو دوہنے کی اجازت دوگی۔"

اس پر اُمّ معبد رضی الله عنہا بولیں: 

" لیکن یہ تو ابھی ویسے بھی دودھ دینے والی نہیں ہوئی... آپ خود سوچیئے، یہ دودھ کس طرح دے سکتی ہے... میری طرف سے اجازت ہے، اگر اس سے آپ دودھ نکال سکتے ہیں تو نکال لیجئے۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اس بکری کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے ائے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کی کمر اور تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی: 

" اے الله! اس بکری میں ہمارے لیے برکت عطا فرما۔"

جونہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی‌... بکری کے تھن دودھ سے بھر گئےاور ان سے دودھ ٹپکنے لگا۔ 

یہ نظارہ دیکھ کر اُمّ معبد رضی الله عنہا حیرت زردہ رہ گئیں۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 54


مدینہ منورہ میں آمد 


آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"ایک برتن لاؤ -"

حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا ایک برتن اٹھا لائیں... وہ اتنا بڑا تھا کہ اس سے آٹھ دس آدمی سیراب ہوسکتے تھے - غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا دودھ نکالا - اس کے تھنوں میں دودھ بہت بھر گیا تھا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ پہلے اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دیا - انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، اس کے بعد ان کے گھر والوں نے پیا - آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود دودھ نوش فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا:

"قوم کو پلانے والا خود سب سے بعد میں پیتا ہے -"

سب کے دودھ پی لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بکری کا دودھ نکال کر اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور وہاں سے آگے روانہ ہوئے - 

شام کے وقت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو معبد رضی اللہ عنہ لوٹے، وہ اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے گئے ہوئے تھے - خیمے پر پہنچے تو وہاں بہت سا دودھ نظر آیا - دودھ دیکھ کر حیران ہوگئے، بیوی سے بولے:

"اے آُمّ معبد! یہ یہاں دودھ کیسا رکھا ہے... گھر میں تو کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں ہے؟"

مطلب یہ تھا کہ یہاں جو بکری تھی، وہ تو دودھ دے ہی نہیں سکتی تھی - پھر یہ دودھ کہاں سے آیا؟ 

حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا بولیں:

"آج یہاں سے ایک بہت مبارک شخص کا گزر ہوا تھا -"

یہ سن کر حضرت ابو معبد رضی اللہ عنہ اور حیران ہوئے، پھر بولے:

"ان کا حلیہ تو بتاؤ -"

جواب میں اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے کہا:

"ان کا چہرہ نورانی تھا، ان کی آنکھیں ان کی لمبی پلکوں کے نیچے چمکتی تھیں، وہ گہری سیاہ تھیں، ان کی آواز میں نرمی تھی، وہ درمیانے قد کے تھے - (یعنی چھوٹے قد کے نہیں تھے) - نہ بہت زیادہ لمبے تھے، ان کا کلام ایسا تھا جیسے کسی لڑی میں موتی پرو دئیے گئے ہوں، بات کرنے کے بعد جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر باوقار سنجیدگی ہوتی تھی - اپنے ساتھیوں کو کسی بات کا حکم دیتے تھے تو وہ جلد از جلد اس کو پورا کرتے تھے، وہ انہیں کسی بات سے روکتے تھے تو فوراً رک جاتے تھے - وہ انتہائی خوش اخلاق تھے، ان کی گردن سے نور کی کرنیں پھوٹتی تھیں، ان کے دونوں ابرو ملے ہوئے تھے - بال نہایت سیاہ تھے - وہ دور سے دیکھنے پر نہایت شاندار اور قریب سے دیکھنے پر نہایت حسین و جمیل لگتے تھے - ان کی طرف نظر پڑتی تو پھر دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی - اپنے ساتھیوں میں وہ سب سے زیادہ حسین و جمیل اور بارعب تھے - سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے -"

حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ حلیہ سن کر ان کے شوہر بولے:

"اللہ کی قسم! یہ حلیہ اور صفات تو انہی قریشی بزرگ کی ہے، اگر میں اس وقت یہاں ہوتا تو ضرور ان کی پیروی اختیار کرلیتا اور میں اب اس کی کوشش کروں گا -"

چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اُمّ معبد اور حضرت ابومعبد رضی اللہ عنہما ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تھا - 

حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کی جس بکری کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوہا تھا، وہ بکری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے تک زندہ رہی - 

ادھر مکہ میں جب قریش کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ پتہ نہ چلا تو وہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آئے - ان میں ابوجہل بھی تھا - دروازے پر دستک دی گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی بیٹی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا باہر نکلیں - ابوجہل نے پوچھا:

"تمہارے والد کہاں ہیں؟"

وہ بولیں:

"مجھے نہیں معلوم -"

یہ سن کر ابوجہل نے انہیں ایک زوردار تھپڑ مارا - تھپڑ سے ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر گرگئی - 

اس پر بھی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے انہیں کچھ نہ بتایا - ابوجہل اور اس کے ساتھی بڑبڑاتے ہوئے ناکام لوٹ گئے - 

ادھر مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ اللہ کے رسول مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے ہیں... اب تو وہ بے چین ہوگئے - انتظار کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا - روزانہ صبح سویرے اپنے گھروں سے نکل پڑتے اور حرہ کے مقام تک آجاتے جو مدینہ منورہ کے باہر ایک پتھریلی زمین ہے - جب دوپہر ہوجاتی اور دھوپ میں تیزی آجاتی تو مایوس ہوکر وآپس لوٹ آتے - پھر ایک دن ایسا ہوا... مدینہ منورہ کے لوگ گھروں سے مقام حرہ تک آئے - جب کافی دیر ہوگئی اور دھوپ میں تیزی آگئی تو وہ پھر وآپس لوٹنے لگے - ایسے میں ایک یہودی حرہ کے ایک اونچے ٹیلے پر چڑھا - اسے مکہ کی طرف سے کچھ سفید لباس والے آتے دکھائی دئیے - اس قافلے سے اٹھنے والی گرد سے نکل کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واضح طور پر نظر آئے تو وہ یہودی پکار اٹھا :

"اے گروہِ عرب! جن کا تمہیں انتظار تھا، وہ لوگ آگئے -"

یہ الفاظ سنتے ہی مسلمان وآپس دوڑے اور حرہ کے مقام پر پہنچ گئے - انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتے پایا - 

ایک روایت میں ہے کہ پانچ سو سے کچھ زائد انصاریوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا استقبال کیا - 

وہاں سے چل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبا تشریف لائے - اس روز پیر کا دن تھا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص کلثوم بن معدم رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا - بنی عمرو کا یہ گھرانہ قبیلہ اوس میں سے تھا - ان کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے ہی مسلمان ہوگئے تھے - 

قبا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی - اس کا نام مسجد قبا رکھا - اس مسجد کے بارے میں ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مکمل طور پر وضو کیا، پھر مسجد قبا میں نماز پڑھی تو اسے ایک حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا... حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اس مسجد میں تشریف لاتے رہے - اس مسجد کی فضیلت میں اللہ تعالٰی نے سورۃ التوبہ میں ایک آیت بھی نازل فرمائی - 

قبا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے - جونہی آپ کی آمد کی خبر مسلمانوں کو پہنچی، ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی - حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر جتنا خوش دیکھا، اتنا کسی اور موقع پر نہیں دیکھا... سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دونوں طرف آکھڑے ہوئے اور عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں تاکہ آپ کی آمد کا منظر دیکھ سکیں - عورتیں اور بچے خوشی میں یہ اشعار پڑھنے لگے:

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا 

مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ 

وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا 

مَا دَعَا لِلّهِ دَاعِ 

أَيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا 

جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمُطَاعِ 

ترجمہ:"چودھویں رات کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے - جب تک اللہ تعالٰی کو پکارنے والا اس سر زمین پر باقی ہے، ہم پر اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے - اے آنے والے شخص جو ہم میں پیغمبر بناکر بھیجے گئے ہیں آپ ایسے احکامات لےکر آئے ہیں جن کی پیروی اور اطاعت واجب ہے -"

راستے میں ایک جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے - حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے جب کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جوان نظر آتے تھے - حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے بال سیاہ تھے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دو سال بڑے تھے - 

اب ہوا یہ کہ جن لوگوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا، انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں خیال کیا کہ اللہ کے رسول یہ ہیں اور گرم جوشی سے ان سے ملنے لگے - یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً محسوس کرلی... اس وقت تک دھوپ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے لگی تھی، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کردیا - تب لوگوں نے جانا اللہ کے رسول یہ ہیں -

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ سے روانہ ہوئے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور ساتھ ساتھ بہت سے لوگ چل رہے تھے - ان میں سے کچھ سوار تھے تو کچھ پیدل - اس وقت مدینہ منورہ کے لوگوں کی زبان پر یہ الفاظ تھے:

"اللہ اکبر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے -"

راستے میں آپ کی خوشی میں حبشیوں نے نیزہ بازی کے کمالات اور کرتب دکھائے... ایسے میں ایک شخص نے پوچھا:

"اے اللہ کے رسول! آپ جو یہاں سے آگے تشریف لے جارہے ہیں تو کیا ہمارے گھروں سے بہتر کوئی گھر چاہتے ہیں؟"

اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"مجھے ایک ایسی بستی میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں کو کھالے گی -"

اس کا مطلب یہ تھا کہ دوسری بستی کے لوگوں پر اثر انداز ہوجائے گی یا دوسری بستیوں کو فتح کرلے گی - 

یہ جواب سن کر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا راستہ چھوڑ دیا - اس بستی کے بارے میں سب کو بعد میں معلوم ہو گیا کہ وہ مدینہ منورہ ہے - 

مدینہ منورہ کا پہلا نام یثرب تھا - یثرب ایک شخص کا نام تھا - وہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا - مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد جمعہ کے روز ہوئی، چنانچہ اس روز پہلا جمعہ پڑھا گیا.

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 55


مسجد نبوی کی تعمیر 


جمعہ کی یہ پہلی نماز مدینہ منورہ کے محلے بنی سالم کی جس مسجد میں آپ نے جمعہ ادا کیا، اب اس مسجد کو "مسجد جمعہ" کہا جاتا ہے۔یہ قبا کی طرف جانے والے راستے کے بائیں طرف ہے۔اس طرح یہ پہلی نماز جمعہ تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز سے پہلے خطبہ بھی دیا تھا۔اس پہلے خطبے میں جو کچھ ارشاد فرمایا، اس کا کچھ حصہ یہ تھا۔

"پس جو شخص اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہتا ہے تو ضرور بچالے۔چاہے وہ آدھے چھوہارے کے برابر ہی کیوں نہ ہو، جسے کچھ بھی نہ آتا ہو، وہ کلمہ طیبہ کو لازم کرلے، کیونکہ نیکی کا ثواب دوگنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے اور سلام ہو اللہ کے رسول پر اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔"

نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ جانے کے لیے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے۔اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑدی، یعنی اسے اپنی مرضی سے چلنے کی اجازت دی۔اونٹنی نے پہلے دائیں اور بائیں دیکھا، جیسے چلنے سے پہلے فیصلہ کررہی ہوکہ کس سمت میں جانا ہے، ایسے میں بنی سالم کے لوگوں( یعنی جن کے محلے میں جمعے کی نماز ادا کی گئی تھی)نے عرض کیا۔

"اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے ہاں قیام فرمایئے، یہاں لوگوں کی تعداد زیادہ ہے - یہاں آپ کی پوری حفاظت ہو گی... یہاں دولت بھی ہے، ہمارے پاس ہتھیار بھی ہیں... ہمارے پاس باغات بھی ہیں اور زندگی کی ضرورت کی سب چیزیں بھی موجود ہیں -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات سن کر مسکرائے، ان کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا:

"میری اونٹنی کا راستہ چھوڑدو، یہ جہاں جانا چاہے، اسے جانے دو، کیونکہ یہ مامور ہے -" 

مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے اونٹنی خود چلے گی اور اسے اپنی منزل معلوم ہے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو دعا دی:

"اللہ تعالٰی تمہیں برکت عطا فرمائے -" 

اس کے بعد اونٹنی روانہ ہوئی - یہاں تک کہ بنی بیاصہ کے محلے میں پہنچی - یہاں کے لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے ہاں ٹھہریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی وہی جواب دیا جو بنی سالم کو دیا تھا - اسی طرح بنی ساعدہ کے علاقے سے گزرے - ان حضرات نے بھی یہ درخواست کی - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب فرمایا - اونٹنی آگے بڑھی - اب یہ بنی عدی کے محلے میں داخل ہوئی، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کی ننھیال تھی - ان لوگوں نے عرض کیا:

"ہم آپ کے ننھیال والے ہیں، اس لیے یہاں قیام فرمایئے - یہاں آپ کی رشتہ داری بھی ہے، ہم تعداد میں بھی بہت ہیں - آپ کی حفاظت بھی بڑھ چڑھ کر کریں گے، پھر یہ کہ ہم آپ کے رشتہ دار بھی ہیں، سو ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی وہی جواب دیا کہ یہ اونٹنی مامور ہے، اسے اپنی منزل معلوم ہے - اونٹنی اور آگے بڑھی اور اسی محلے میں ایک جگہ بیٹھ گئی - یہ جگہ بنی مالک بن نجار کے محلے کے پاس تھی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے دروازے کے قریب تھی - 

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا نام خالد بن زید نجار انصاری تھا - یہ قبیلہ خزرج کے تھے - بیعت عقبہ کے موقع پر موجود تھے - ہر موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے - حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت قریبی معاونین میں سے رہے - ان کی وفات یزید کے دور میں قسطنطنیہ کے جہاد کے دوران ہوئی - 

اونٹنی بیٹھ گئی، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اُترے نہیں تھے کہ وہ اچانک پھر کھڑی ہوگئی... چند قدم چلی اور ٹھہر گئی... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی لگام بدستور چھوڑے رکھی تھی - اونٹنی اس کے بعد واپس اس جگہ آئی جہاں پہلے بیٹھی تھی - وہ دوبارہ اسی جگہ بیٹھ گئی - اپنی گردن زمین پر رکھ دی اور منہ کھولے بغیر ایک آواز نکالی - اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اترے - ساتھ ہی فرمایا:

"اے میرے پروردگار! مجھے مبارک جگہ پر اتارنا اور تو ہی بہترین جگہ ٹھہرانے والا ہے -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ چار مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر فرمایا:

"ان شاء اللہ! یہی قیام گاہ ہوگی -" 

اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان اتارنے کا حکم دیا - حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

"کیا میں آپ کا سامان اپنے گھر لے جاؤں -"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی - وہ سامان اتار کر لے گئے - اسی وقت حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ آگئے - انہوں نے اونٹنی کی مہار تھام لی اور اونٹنی کو لے گئے، چنانچہ اونٹنی ان کی مہمان بنی - 

بنی نجار کے ہاں اترنے پر ان کی بچیوں نے دف ہاتھوں میں لے لیے اور خوشی سے سرشار ہوکر ان کو بجانے لگیں اور یہ گیت گانے لگیں:

ترجمہ:"ہم بنی نجار کے پڑوسیوں میں سے ہیں، کس قدر خوش قسمتی کی بات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہیں -"

ان کی آواز سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے - ان کے نزدیک آئے اور فرمایا:

"کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟" 

وہ بولیں :

"ہاں! اے اللہ کے رسول -"

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"اللہ جانتا ہے، میرے دل میں بھی تمہارے لیے محبت ہی محبت ہے -"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر اس وقت تک ٹھہرے جب تک کہ مسجد نبوی اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ تیار نہیں ہوگیا -آپ تقریباً گیارہ ماہ تک وہاں ٹھہرے رہے - 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبا سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ساتھ اکثر مہاجرین بھی مدینہ منورہ آگئے تھے - اس وقت انصاری مسلمانوں کا جذبہ قابل دید تھا - ان سب کی خواہش تھی کہ مہاجرین ان کے ہاں ٹھہریں - اس طرح ان کے درمیان بحث ہوئی - آخر انصاری حضرات نے مہاجرین کے لیے قرعہ اندازی کی - اس طرح جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آئے، وہ انہی کے ہاں ٹھہرے، انصاری مسلمانوں نے انہیں نہ صرف اپنے گھروں میں ٹھہرایا بلکہ ان پر اپنا مال اور دولت بھی خرچ کیا - 

مہاجرین کی آمد سے پہلے انصاری مسلمان ایک جگہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے - حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھاتے تھے - جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد بنانے کی فکر ہوئی - آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی - اونٹنی چل پڑی، وہ اس جگہ جاکر بیٹھ گئی جہاں آج مسجد نبوی ہے، جس جگہ مسلمان نماز ادا کرتے رہتے تھے، وہ جگہ بھی اس کے آس پاس ہی تھی، اس وقت وہاں صرف دیواریں کھڑی کی گئی تھیں... ان پر چھت نہیں تھی - اونٹنی کے بیٹھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"بس! مسجد اس جگہ بنے گی -" 

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"تم یہ جگہ مسجد کے لیے فروخت کردو -" 

وہ جگہ دراصل دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی تھی اور اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ان کے سرپرست تھے - یہ روایت بھی آئی ہے کہ ان کے سرپرست معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ تھے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

"آپ یہ زمین لے لیں، میں اس کی قیمت ان دونوں کو ادا کردیتا ہوں -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار فرمایا اور دس دینار میں زمین کا وہ ٹکڑا خرید لیا - یہ قیمت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے ادا کی گئی (واہ! کیا قسمت پائی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہ قیامت تک مسجد نبوی کے نمازیوں کا ثواب ان کے نامہ اعمال میں لکھا جارہا ہے -) 

یہ روایت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں یتیم لڑکوں کو بلوایا - زمین کے سلسلے میں ان سے بات کی - ان دونوں نے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! ہم یہ زمین ہدیہ کرتے ہیں -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یتیموں کا ہدیہ قبول کرنے سے انکار فرمادیا اور دس دینار میں زمین کا وہ ٹکڑا ان سے خرید لیا - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں دس دینار ادا کردیں، چنانچہ انہوں نے وہ رقم ادا کردی -

زمین کی خرید کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ فرمایا، اینٹیں بنانے کا حکم دیا، پھر گارا تیار کیا گیا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے پہلی اینٹ رکھی - پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دوسری اینٹ وہ رکھیں - انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لگائی ہوئی اینٹ کے برابر دوسری اینٹ رکھ دی - اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا - انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اینٹ کے برابر تیسری اینٹ رکھی - اب آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا - انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اینٹ کے برابر چوتھی اینٹ رکھی - ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"میرے بعد یہی خلیفہ ہوں گے -" (مستدرک حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے) 

پھر حضور اقدس نے صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو حکم فرمایا:

"اب پتھر لگانا شروع کردو -"

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 56


مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرے کا آغاز


مسلمان پتھروں سے بنیادیں بھرنے لگے - بنیادیں تقریباً تین ہاتھ(ساڑھے 4 فٹ) گہری تھیں - اس کے لیے اینٹوں کی تعمیر اٹھائی گئی - دونوں جانب پتھروں کی دیواریں بنا کر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت بنائی گئی اور کھجور کے تنوں کے ستون بنائے گئے - دیواروں کی اونچائی انسانی قد کے برابر تھی - 

ان حالات میں کچھ انصاری مسلمانوں نے کچھ مال جمع کیا - وہ مال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے اور عرض کیا:

"اللہ کے رسول! اس مال سے مسجد بنائیے اور اس کو آراستہ کیجیے، ہم کب تک چھپر کے نیچے نماز پڑھیں گے -" 

اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"مجھے مسجدوں کو سجانے کا حکم نہیں دیا گیا -" 

اسی سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

"قیامت قائم ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں آرائش اور زیبائش کرنے لگیں گے جیسے یہود اور نصارٰی اپنے کلیساؤں اور گرجوں میں زیب و زینت کرتے ہیں -"

مسجد نبوی کی چھت کھجور کی چھال اور پتوں کی تھی اور اس پر تھوڑی سی مٹی تھی - جب بارش ہوتی تو پانی اندر ٹپکتا... یہ پانی مٹی ملا ہوتا... اس سے مسجد کے اندر کیچڑ ہو جاتا - یہ بات محسوس کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:

"یا رسول اللہ! اگر آپ حکم دیں تو چھت پر زیادہ مٹی بچھا دی جائے تاکہ اس میں سے پانی نہ رِسے، مسجد میں نہ ٹپکے -" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"نہیں! یونہی رہنے دو -" 

مسجد کے تعمیر کے کام میں تمام مہاجرین اور انصار صحابہ نے حصہ لیا - یہاں تک کہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اپنے ہاتھوں سے کام کیا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی چادر میں اینٹیں بھر بھر کر لاتے یہاں تک کہ سینہ مبارک غبار آلود ہو جاتا - صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اینٹیں اٹھاتے دیکھا تو وہ اور زیادہ جانفشانی سے ایینٹیں ڈھونے لگے - (یہاں اینٹوں سے مراد پتھر ہیں -) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ باقی صحابہ تو ایک ایک پتھر اٹھا کر لا رہے ہیں اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو پتھر اٹھا کر لا رہے تھے تو ان سے پوچھا:

"عمار! تم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ایک ایک پتھر کیوں نہیں لاتے -"

انہوں نے عرض کیا:

اس لیے کہ میں اللہ تعالٰی سے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب چاہتا ہوں -" 

حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بہت نفیس اور صفائی پسند تھے - وہ بھی مسجد کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھو رہے تھے - پتھر اٹھا کر چلتے تو اس کو اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تاکہ کپڑے خراب نہ ہوں - اگر مٹی لگ جاتی تو فوراً چٹکی سے اس کو جھاڑنے لگ جاتے - دوسرے صحابہ دیکھ کر مسکرادیتے - 

مسجد کی تعمیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس میں پانچ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے - اس کے بعد اللہ تعالٰی کے حکم سے قبلے کا رخ بیت اللہ کی طرف ہو گیا - مسجد کا پہلے فرش کچا تھا، پھر اس پر کنکریاں بچھا دی گئیں - یہ اس لیے بچھائی گئیں کہ ایک روز بارش ہوئی، فرش گیلا ہوگیا - اب جو بھی آتا، اپنی جھولی میں کنکریاں بھر کر لاتا اور اپنی جگہ پر ان کو بچھا کر نماز پڑھتا - تب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ سارا فرش ہی کنکریوں کا بچھا دو - 

پھر جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد کو وسیع کرنے کا ارادہ فرمایا - مسجد کے ساتھ زمین کا ایک ٹکڑا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تھا، یہ ٹکڑا انہوں نے ایک یہودی سے خریدا تھا - جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مسجد کو وسیع کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے زمین کا یہ ٹکڑا جنت کے ایک مکان کے بدلے میں خرید لیں -"

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زمین کا وہ ٹکڑا ان سے لے لیا - مسجد نبوی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"اگر میری یہ مسجد صنعا کے مقام تک بھی بن جائے(یعنی اتنی وسیع ہوجائے) تو بھی یہ میری مسجد ہی رہے گی، یعنی مسجد نبوی ہی رہے گی -" 

اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ، آپ نے مسجد نبوی کے وسیع ہونے کی اطلاع پہلے ہی دے دی تھی اور ہوا بھی یہی - بعد کے ادوار میں اس کی توسیع ہوتی رہی ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا - 

مسجد نبوی کے ساتھ ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے لیے دو حجرے بنائے گئے - یہ حجرے مسجد نبوی سے بالکل ملے ہوئے تھے - ان حجروں کی چھتیں بھی مسجد کی طرح کھجوروں کی چھال سے بنائی گئی تھیں - مسجد نبوی کی تعمیر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام پذیررہے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے مکان میں نچلی منزل میں قیام فرمایا تھا، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی تھی:

"حضور! آپ اوپر والی منزل میں قیام فرمائیں -" 

اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا:

"مجھے نیچے ہی رہنے دیں... کیونکہ لوگ مجھ سے ملنے کے لیے آئیں گے، اسی میں سہولت رہے گی -"

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" ایک رات ہماری پانی کی گھڑیاں ٹوٹ گئی - ہم گھبرا گئے کہ پانی نیچے نہ ٹپکنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پریشانی نہ ہو...تو ہم نے فوراً اس پانی کو اپنے لحاف میں جذب کرنا شروع کردیا... اور ہمارے پاس وہ ایک ہی لحاف تھا اور دن سردی کے تھے -" 

اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اوپر والی منزل پر قیام کرنے کی درخواست کی... آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات مان لی - 

ان کے گھر کے قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کھانا حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کے ہاں سے بھی آتا تھا - 

اس تعمیر سے فارغ ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت زید بن رافع رضی اللہ عنہما کو مکہ بھیجا تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر والوں کو لے آئیں - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سفر میں خرچ کرنے کے لیے 500 درہم اور دو اونٹ دئیے - رہبر کے طور پر ان کے ساتھ عبداللہ بن اریقط کو بھیجا - سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ اخراجات برداشت کیے - ان کے گھر والوں کو لانے کی ذمے داری بھی انہیں ہی سونپی گئی - اس طرح یہ حضرات مکہ معظمہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحب زادیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، اور دایہ ام ایمن رضی اللہ عنہا( جو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں )اور ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو لے کر مدینہ منورہ آگئے۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایا کے بیٹے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حد درجے عزیز تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا چونکہ شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس لیے انہیں ہجرت کرنے سے روک دیا گیا۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بعد میں ہجرت کی تھی اور اپنے شوہر کو کفر کی حالت میں مکہ ہی چھوڑ آئی تھیں۔ان کے شوہر ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ تھے۔یہ غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کے لشکر میں شامل ہوئے، گرفتار ہوئے، لیکن انہیں چھوڑ دیا گیا، پھر یہ مسلمان ہوگئے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ اپنے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پہلے ہی حبشہ ہجرت کرگئی تھیں۔یہ بعد میں حبشہ سے مدینہ پہنچے تھے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر والے بھی ساتھ ہی مدینہ منورہ آگئے۔ان میں ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام رومان، حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا شامل تھیں۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ آئے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔

"جس شخص کو جنت کی حوروں میں سے کوئی حور دیکھنے کی خواہش ہو، وہ ام رومان کو دیکھ لے۔"

ہجرت کے اس سفر میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے قبا میں ٹھہرنا پڑا۔ان کے ہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔بچے کی پیدائش کے بعد مدینہ پہنچیں اور اپنا بچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گود میں برکت حاصل کرنے کے لیے پیش کیا - یہ ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں پہلا بچہ تھا - ان کی پیدائش پر مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی، کیونکہ کفار نے مشہور کر دیا تھا کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مہاجرین مدینہ آئے ہیں، ان کے ہاں کوئی نرینہ نہیں ہوئی کیونکہ ہم نے ان پر جادو کردیا ہے - حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر ان لوگوں کی یہ بات غلط ثابت ہوگئی، اس لیے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی - 

مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوگئی تو رات کے وقت اس میں روشنی کا مسئلہ سامنے آیا - اس غرض کے لیے پہلے پہل کھجور کی شاخیں جلائی گئیں - پھر حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو وہ اپنے ساتھ قندیلیں، رسیاں اور زیتون کا تیل لائے -

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 57


اسلامی بھائی چارہ


حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے یہ قندیلیں مسجد میں لٹکادیں، پھر رات کے وقت ان کو جلادیا - یہ دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"ہماری مسجد روشن ہوگئی، اللہ تعالٰی تمہارے لیے بھی روشنی کا سامان فرمائے، اللہ کی قسم! اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی تم سے کردیتا -" 

بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد میں قندیل جلائی تھی - 

مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو حجرے اپنی بیویوں کے لیے بنوائے تھے - (باقی حجرے ضرورت کے مطابق بعد میں بنائے گئے) - ان دو میں سے ایک سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تھا اور دوسرا سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا - 

مدینہ منورہ میں وہ زمینیں جو کسی کی ملکیت نہیں تھیں، ان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کے لیے نشانات لگادئیے، یعنی یہ زمینیں ان میں تقسیم کر دیں - کچھ زمینیں آپ کو انصاری حضرات نے ہدیہ کی تھیں - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بھی تقسیم فرمادیا اور ان جگہوں پر ان مسلمانوں کو بسایا جو پہلے قبا میں ٹھہر گئے تھے، لیکن بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ قبا میں جگہ نہیں ہے تو وہ بھی مدینہ چلے آئے تھے -

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیویوں کے لیے جو حجرے بنوائے، وہ کچے تھے - کھجور کی شاخوں، پتوں اور چھال سے بنائے گئے تھے - ان پر مٹی لیپی گئی تھی - 

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مشہور تابعی ہیں اور یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا کہ تابعی اسے کہتے ہیں جس نے کسی صحابی کو دیکھا ہو - وہ کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں امہات المومنین کے حجروں میں جاتا تھا، ان کی چھتیں اس قدر نیچی تھیں کہ اس وقت اگرچہ میرا قد چھوٹا تھا، لیکن میں ہاتھ سے چھتوں کو چھو لیا کرتا تھا - 

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ابھی دو سال باقی تھے - وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی باندی خیرہ کے بیٹے تھے - حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس کسی کام سے بھیجا کرتی تھیں - صحابہ کرام انہیں برکت کی دعائیں دیا کرتے تھے - حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی لے گئی تھیں - حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ان الفاظ میں دعا دی تھی:

"اے اللہ! انہیں دین کی سمجھ عطا فرما اور لوگوں کے لیے یہ پسندیدہ ہوں -" 

مسجد نبوی کے چاروں طرف حضرت حارثہ بن نعمان کے مکانات تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد نکاح فرمائے تھے، جن میں دینی حکمتیں اور مصلحتیں تھیں، جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکاح فرماتے تو حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ اپنا ایک مکان یعنی حجرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کردیتے - اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ کا قیام ہوجاتا - یہاں تک کہ رفتہ رفتہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے سارے مکان اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کردیے - 

اسی زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار مسلمانوں کے سامنے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ کیا - اس معاہدے کی ایک تحریر بھی لکھوائی - معاہدے میں طے پایا کہ یہودی مسلمانوں سے کبھی جنگ نہیں کریں گے، کبھی انہیں تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں وہ کسی کی مدد نہیں کریں گے اور اگر کوئی اچانک مسلمانوں پر حملہ کرے تو یہ یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے - ان شرائط کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں کی جان و مال اور ان کے مذہبی معاملات میں آزادی کی ضمانت دی گئی - یہ معاہدہ جن یہودی قبائل سے کیا گیا، ان کے نام بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر ہیں - 

اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا - اس بھائی چارہ سے مسلمانوں کے درمیان محبت اور خلوص کا بے مثال رشتہ قائم ہوا - اس بھائی چارہ کو مواخات کہتے ہیں - بھائی چارہ کا یہ قیام حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان پر ہوا - یہ بھائی چارہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ہوا - اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا:

"اللہ کے نام پر تم سب آپس میں دودو بھائی بن جاؤ-" 

اس بھائی چارہ کے بعد انصاری مسلمانوں نے مہاجرین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا - خود مہاجرین پر اس سلوک کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ پکار اٹھے:

"اے اللہ کے رسول! ہم نے ان جیسے لوگ کبھی نہیں دیکھے - انہوں نے ہمارے ساتھ اس قدر ہمدردی اور غم گساری کی ہے، اس قدر فیاضی کا معاملہ کیا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی... یہاں تک کہ محنت اور مشقت کے وقت وہ ہمیں الگ رکھتے ہیں اور صلہ ملنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس میں برابر کا شریک کرلیتے ہیں... ہمیں تو ڈر ہے... بس آخرت کا سارا ثواب یہ تنہا نہ سمیٹ لے جائیں - "

ان کی یہ بات سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

" نہیں! ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور انہیں دعائیں دیتے رہو گے -"

بعض علماء نے لکھا ہیکہ بھائی چارہ کرانا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت میں سے ہے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کسی نبی نے اپنے امتیوں میں اس طرح بھائی چارہ نہیں کرایا -

اس سلسلہ میں روایت ملتی ہے کہ انصاری مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنی ہر چیز میں سے نصف حصہ دے دیا - کسی کے پاس دو مکان تھے تو ایک اپنے بھائی کو دے دیا - اسی طرح ہر چیز کا نصف اپنے بھائی کو دے دیا - یہاں تک کہ ایک انصاری کی دو بیویاں تھیں انھوں نے اپنے مہاجِر بھائی سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں میں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں - عِدّت پوری ہونے کے بعد تم اس سے شادی کرلینا - لیکن مہاجِر مسلمان نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا -

ان کاموں سے فارِغ ہونے کے بعد یہ مسئلہ سامنے آیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے بلایا کریں - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا - اس سلسلہ میں ایک مشورہ یہ دیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا لہرادیا جائے - لوگ اس کو دیکھیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اور ایک دوسرے کو بتادیا کریں گے - لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز کو پسند نا فرمایا - پھر کسی نے کہا کہ بگُل بجادیا کریں - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی نا پسند فرمایا کیونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا - اب کسی نے کہا کہ ناقوس بجا کر اعلان کردیا کریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی پسند نا فرمایا - اس لیے کہ یہ عیسائیوں کا طریقہ تھا - 

کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ جلادی جایا کرے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز کو بھی پسند نا فرمایا اس لیے کہ یہ طریقہ مجوسیوں کا تھا 

ایک مشورہ یہ دیا گیا 

ایک شخص مقرر کردیا جائے کہ وہ نماز کا وقت ہونے پر گشت لگالیا کرے " چنانچہ اس رائے کو قبول کرلیا گیا چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کرنے والا مقرر کردیا گیا – 

انہی دنوں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا انہوں نے ایک شخص کو دیکھا اس کے جسم پر دو سبز کپڑے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس (بگُل) تھا حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا " کیا تُم یہ ناقوس فروخت کرتے ہو " ......اس نے پوچھا 

"تم اس کا کیا کروگے "

میں نے کہا : "ہم اس کو بجا کر نمازیوں کو جمع کریں گے " اس پر وہ بولا :

" کیا میں تمہیں اس کے لیے اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں " 

میں نے کہا: " ضرور بتائیے" ..... اب اس نے کہا...... تم یہ الفاظ پکار کر لوگوں کو جمع کیا کرو " 

اور اس نے اذان کے الفاظ دہرادیے - یعنی پوری اذان پڑھ کر انھیں سنادی - پھر تکبیر کہنے کا طریقہ بھی بتادیا - 

صبح ہوئی تو حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا یہ خواب سُنایا ..... خواب سُن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : 

" بے شک ! یہ سچّا خواب ہے ان شاءاللہ! تم جاکر یہ کلمات بلال کو سکھادو تاکہ وہ ان کے ذریعے اذان دیں - ان کی آواز تم سے بلند ہے اور ذیادہ دل کش بھی ہے " 

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس آئے انھوں نے کلمات سیکھنے پر صبح کی اذان دی,..... اس طرح سب سے پہلے اذان فجر کی نماز کے لیے دی گئی

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 58


 یہودیوں کے سوالات


جونہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان گونجی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے وہ جلدی سے چادر سنبھالتے ہوئے اُٹھے اور تیز تیز چلتے مسجد نبوی میں پہنچے- مسجد میں پہنچ کر انہیں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے خواب کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے عرض کیا : 

" اے اللہ کے رسول اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے٬میں نے بھی بالکل یہی خواب دیکھا ہے" 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی خواب کی تصدیق سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : 

"اللّٰہ کا شکر ہے " 

اب پانچوں وقت کی نمازوں کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے ان پانچ نمازوں کے علاوہ کسی موقع پر لوگوں کو جمع کرنا ہوتامثلاً سورج گرہن اور چاند گرہن ہوجاتا یا بارش طلب کرنے کے لیے نماز پڑھنا ہوتی تو وہ "الصلاۃ جامعۃ " کہہ کر اعلان کرتے تھے 

اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ موذن رہے- ان کی غیر موجودگی میں حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے-

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے مدینہ منورہ کے یہودی قبیلۂ اوس اور قبیلۂ خزرج کے لوگوں سے یہ کہا کرتے تبھے : 

" بہت جلد ایک نبی ظاہر ہوں گے ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی(یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نشانیاں بتایا کرتے تھے) ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں کو سابقہ قوموں کی طرح تہس نہس کردیں گے- جس طرح قوم عاد اور قوم ثمود کو تباہ کیا گیا-ہم بھی تم لوگوں کو اسی طرح تباہ کردیں گے " 

جب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور مبارک ہوگیا تو یہی یہود حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ہوگئے اور سازشیں کرنےلگے- 

جب اوس اور خزرج کے لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تو بعض صحابہ نے ان یہودیوں نے کہا: 

" اے یہودیو! تم تو ہم سے کہا کرتے تھے کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی-ہم ان پر ایمان لاکر تم لوگوں لو تباہ و برباد کردیں گے لیکن اب جبکہ ان کا ظہور ہوگی ہے تو تم ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے-تم تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیہ تک بتایا کرتے تھے- 

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب یہ بات کہی تو یہودیوں میں سلام بن مشکم بھی تھا- یہ قبیلہ بنی نضیر کے بڑے آدمیوں میں سے تھا اس نے ان کی یہ بات سن کر کہا : 

" ان میں وہ نشانیاں نہیں ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے تھے " 

اس پر اللّٰہ تعالٰی نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 89 نازِل فرمائی- 

ترجمہ : اور جب انہیں کتاب پہنچی(یعنی قرآن) جو اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اس کی بھی تصدیق کرنے والی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے یعنی تورات٬ حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (اس نبی کے وسیلے سے) کفار کے خلاف اللّٰہ سے مدد طلب کرتے تھے٬پھر وہ چیز آپہنچی جس کو وہ خود جانتے پہچانتے تھے (یعنی حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نبوت)تو اس کا صاف انکار کر بیٹھے بس اللہ کی مار ہو ایسے کافروں پر- 

اس بارے میں ایک روایت میں ہے کہ ایک رات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کے ایک بڑے سردار مالک بن صیف سے فرمایا:

"میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے موسی علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی،کیا تورات میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ تعالٰی موٹے تازے"حبر" یعنی یہودی راہب سے نفرت کرتا ہے،کیونکہ تم بھی ایسے ہی موٹے تازے ہو،تم وہ مال کھا کھا کر موٹے ہوئے جو تمہیں یہودی لا لا کر دیتے ہیں-"

یہ بات سن کر مالک بن صیف بگڑ گیا اور بول اٹھا:

"اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری-" 

گویا اس طرح اس نے خود حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب تورات کا بھی انکار کردیا...اور ایسا صرف جھنجھلاہٹ کی وجہ سے کہا- دوسرے یہودی اس پر بگڑے-انھوں نے اس سے کہا:

"یہ ہم نے تمہارے بارے میں کیا سنا ہے-" 

جواب میں اس نے کہا:

محمد نے مجھے غصہ دلایا تھا...بس میں نے غصہ میں یہ بات کہہ دی-"

یہودیوں نے اس کی اس بات کو معاف نہ کیا اور اسے سرداری سے ہٹادیا-اس کی جگہ کعب بن اشرف کو اپنا سردار مقرر کیا- 

اب یہودیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرنا شروع کردیا،ایسے سوالات پوچھنے کی کوشش کرنے لگے جن کے جوابات ان کے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ دے سکیں گے-مثلاً ایک روز انھوں نے پوچھا:

عبداللّہ فارانی"اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)آپ ہمیں بتائیں،روح کیا چیز ہے؟-"

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سوال کے بارے میں وحی کا انتظار فرمایا،جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے-" 

یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:

ترجمہ:"اور یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں،آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے -"(سورۃ بنی اسرائیل:آیت85) 

پھر انھوں نے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ کب آئے گی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:

اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے...اس کے وقت کو اللّہ کے سوا کوئی اور ظاہر نہیں کرےگا-"(سورة الأعراف) 

اسی طرح دو یہودی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور پوچھا:

آپ بتائیے!اللّہ تعالٰی نے موسی علیہ السلام کی قوم کو کن باتوں کی تاکید فرمائی تھی- 

جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"یہ کہ اللّہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، بدکاری نہ کرو،اور حق کے سوا(یعنی شرعی قوانین کے سوا) کسی ایسے شخص کی جان نہ لو جس کو اللہ تعالٰی نے تم پر حرام کیا ہے،چوری مت کرو، سحر اور جادوٹونہ کرکے کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ،کسی بادشاہ اور حاکم کے پاس کسی کی چغل خوری نہ کرو، سود کا مال نہ کھاؤ، گھروں میں بیٹھنے والی(پاک دامن) عورتوں پر بہتان نہ باندھو-اوراے یہودیو! تم پر خاص طور پر یہ بات لازم ہے کہ ہفتے کے دن کسی پر زیادتی نہ کرو،اس لیے کہ یہ یہودیوں کا متبرک دن ہے -"

یہ نو ہدایات سن کر دونوں یہودی بولے:

"ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نبی ہیں-" 

اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"تب پھر تم مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟"

انھوں نے جواب دیا:

"ہمیں ڈر ہے،اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہودی ہمیں قتل کرڈالیں گے-"

دو یہودی عالم ملک شام میں رہتے تھے-انہیں ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کی خبر نہیں ہوئی تھی-دونوں ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے-مدینہ منورہ کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے:

"یہ شہر اس نبی کے شہر سے کتنا ملتا جلتا ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے ہیں-" 

اس کے کچھ دیر کے بعد انہیں پتا چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور ہوچکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے اس شہر مدینہ منورہ میں آچکے ہیں-یہ خبر ملنے پر دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے- انھوں نے کہا:

"ہم آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں،اگر آپ نے جواب دےدیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے-"

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"پوچھو!کیا پوچھنا چاہتے ہو؟" 

انھوں نے کہا:

"ہمیں اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی گواہی اور شہادت کے متعلق بتایئے-"

ان کے سوال پر سورۂ آل عمران کی آیت 19 نازل ہوئی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ ان کے سامنے تلاوت فرمائی- 

ترجمہ:اللہ نے اس کی گواہی دی ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی گواہی دی ہے اور وہ اس شان کے مالک ہیں کہ اعتدال کے ساتھ انتظام کو قائم رکھنے والے ہیں-ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں،وہ زبردست ہیں،حکمت والے ہیں-بلاشبہ دین حق اور مقبول،اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہے-"

یہ آیت سن کر دونوں یہودی اسلام لے آئے-اسی طرح یہودیوں کے ایک اور بہت بڑے عالم تھے-ان کا نام حصین بن سلام تھا-یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے-ان کا تعلق قبیلہ بنی قینقاع سے تھے- جس روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کرکے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں رہائش پذیر ہوئے،یہ اسی روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے-جونہی انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرۂ مبارک دیکھا،فوراً سمجھ گئے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا-پھر جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام سنا تو فوراً پکار اُٹھے:

"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور سچائی لے کر آئے ہیں-"

پھر ان کا اسلامی نام آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن سلام رکھا-اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اپنے گھر گئے-اپنے اسلام لانے کی تفصیل گھر والوں کو سنائی تو وہ بھی اسلام لے آئے

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 59


 ابتدائی غزوات


چند یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال پوچھا:

آپ یہ بتائیں،اس وقت لوگ کہاں ہوں گے جب قیامت کے دن زمین اور آسمان کی شکلیں تبدیل ہوجائیں گی؟"

اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا:

"اس وقت لوگ پل صراط کے قریب اندھیرے میں ہوں گے-" 

اسی طرح ایک مرتبہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بادلوں کی گرج اور کڑک کے بارے میں پوچھا-جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"یہ اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کا نگران ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا ایک کوڑا ہے،اس سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہوا اس طرف لے جاتا ہے جہاں پہنچنے کے لیے اللہ تعالٰی کا حکم ہوتا ہے-" 

ان یہودیوں ہی میں سے ایک گروہ منافقین کا تھا-یہ بات ذرا وضاحت سے سمجھ لیں-مدینہ منورہ میں جب اسلام کو عروج حاصل ہوا تو یہودیوں کا اقتدار ختم ہوگیا-بہت سے یہودی اس خیال سے مسلمان ہوگئے کہ اب ان کی جانیں خطرے میں ہیں-سو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہ جھوٹ موٹ کے مسلمان ہوگئے-اب اگرچہ کہنے کو وہ مسلمان تھے،لیکن ان کی ہمدردیاں اور محبتیں اب بھی یہودیوں کے ساتھ تھیں-ظاہر میں وہ مسلمان تھے،اندر سے وہی یہودی تھے،ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول نے منافق قرار دیا ہے-ان کی تعداد تین سو کے قریب تھی- 

انہی منافقوں میں عبداللہ ابن اُبیّ بھی تھا...یہ منافقوں کا سردار تھا- 

یہ منافقین ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ کب اور کس طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں...مسلمانوں کو پریشان کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے جیسا کہ آئندہ چل کر آپ پڑھیں گے- 

ہجرت کے پہلے سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی...یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر آگئیں-بعض روایات کے مطابق رخصتی ہجرت کے دوسرے سال ہوئی-

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب نبوت عطا کی گئی تھی تو اس وقت جنگ کے بغیر تبلیغ کا حکم ہوا تھا... اللہ تعالٰی نے فرمایا تھا کہ ان کافروں سے الجھیے مت بلکہ دامن بچائے رکھیے اور صبر کیجیے-یہ حکم مکّہ کی زندگی تک رہا- 

پھر ہجرت کے بعد اس طرح جنگ کرنے کی اجازت ملی کہ اگر مشرک جنگ کی ابتداء کریں تو مسلمان ان سے دفاعی جنگ کرسکتے ہیں،البتہ حرام(قابل احترام) مہینوں میں جنگ نہ کریں یعنی رجب،ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم میں...کچھ مدت بعد جنگ کی عام اجازت ہوگئی یعنی کافروں کے حملہ نہ کرنے کی صورت میں بھی مسلمان ان سے اقدامی جنگ کریں...اور کسی بھی مہینے میں جنگ کرسکتے ہیں-

جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالٰی کی طرف سے جہاد کی اجازت مل گئی تو 12ربیع الاول 2ہجری میں پہلی بار حضور صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کی غرض سے مدینہ سے روانہ ہوئے-مدینہ سے نکل کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ودان کے مقام پر پہنچے-یہ ایک بڑی بستی تھی اور ابواء کے مقام سے چھ یا آٹھ میل کے فاصلے پر تھی-ابواء مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک گاؤں تھا-اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف مہاجرین تھے-حضور صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ بنی ضمرہ پر حملہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ 70 صحابہ تھے...بنی ضمرہ کے سردار نے جنگ کے بغیر صلح کرلی... صلح کا معاہدہ لکھا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لے آئے-اس طرح یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلا غزوہ تھا-اس کو غزوہ بنی ضمرہ کہا جاتا ہے-اس غزوہ میں مسلمانوں کا جھنڈا سفید تھا اور یہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا گیا تھا- 

صلح کے معاہدے میں طے پایا تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے مقابلے پر نہیں آئیں گے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم انہیں جب بھی بلائیں گے،انہیں مدد کے لیے آنا ہوگا-اس غزوے میں مسلمانوں کو پندرہ دن لگے- 

اس کے بعد غزوۂ بواط ہوا-اس میں اسلامی لشکر میں دو سو مہاجرین تھے-جھنڈا سفید رنگ کا تھا-یہ ربیع الثانی 2ہجری میں پیش آیا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے تھے-اس قافلے کا سردار قریش کا سردار امیہ بن خلف تھا-اس کے ساتھ قریش کے سو آدمی تھے-قافلے میں دوہزار پانچ سو اونٹ تھے،ان پر تجارتی سامان لدا ہوا تھا- 

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس غزوے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تو اپنا قائم مقام حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنایا-مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بواط کے مقام پر پہنچے- یہ ایک پہاڑ کا نام ہے،اسی مناسبت سے اس غزوہ کا نام غزوہ بواط پڑا-لیکن بواط پہنچنے پر دشمنوں سے سامنا نہ ہوسکا،کیونکہ قریشی قافلہ مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے رخصت ہوچکا تھا...اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جنگ کے بغیر ہی تشریف لے آئے- 

جمادی الاولی کے مہینے میں غزوہ عشیرہ پیش آیا- اس مرتبہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک قریشی قافلے کو روکنے کے لیے تشریف لے گئے-وہ قافلہ ملک شام کی طرف جارہا تھا-قریش نے اس قافلے میں اپنا بہت سا مال و اسباب شامل کررکھا تھا... غرض مکّہ کے سبھی لوگوں نے اس میں مال شامل کیا تھا-اس قافلے کے ساتھ پچاس ہزار دینار تھے-ایک ہزار اونٹ تھے-قافلے کے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے(جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) - ستائیس آدمی بھی ہمراہ تھے- 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں ابوسلمہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنایا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ڈیڑھ سو کے قریب صحابہ کرام تھے-مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عشیرہ کے مقام تک پہنچے-اس غزوے میں بھی اسلامی جھنڈے کا رنگ سفید تھا،جھنڈا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا- 

اسلامی لشکر بیس اونٹوں پر سوار ہوا-سب لوگ باری باری سوار ہوتے رہے-عشیرہ کے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا کہ قافلہ وہاں سے گزر کر شام کی طرف جاچکا ہے،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پھر جنگ کے بغیر واپس تشریف لے آئے... تاہم اس دوران بنی مدلج سے امن اور سلامتی کا معاہدہ طے پایا-

اسی سفر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب کا لقب ملا-یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر حضرت علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو زمین پر اس طرح سوتے پایا کہ ان کے اوپر مٹی لگ گئی-آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پاؤں سے ہلایا اور فرمایا:

"اےابوتراب (یعنی اے مٹی والے) اٹھو-" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ عشیرہ سے واپس آئے تو چند دن بعد ہی پھر ایک مہم پیش آگئی-ایک شخص کرز بن جابر فہری نے مدینہ منورہ کی چراگاہ پر حملہ کردیا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ سفوان کی وادی میں پہنچے-یہ وادی میدان بدر کے قریب ہے-اسی مناسبت سے اس غزوے کو غزوہ بدر اولی بھی کہا جاتا ہے-کرز بن جابر مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی جاچکا تھا... اس غزوے کے لیے نکلنے سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنایا-اس مرتبہ بھی جھنڈا سفید تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا گیا تھا- 

اسی سال2ہجری کے دوران قبلے کا رخ تبدیل ہوا اور اس وقت تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے- 

قبلہ کی تبدیلی کا حکم ظہر کی نماز کے وقت آیا- ایک روایت میں یہ ہے کہ عصر کی نماز میں حکم آیا تھا - قبلے کی تبدیلی اس لیے ہوئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آرزو کی تھی کہ قبلہ بیت اللہ ہو - خاص طور پر یہ آرزو اس لیے تھی کہ یہودی کہتے تھے "محمد ہماری مخالفت بھی کرتے ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز بھی پڑھتے ہیں-اگر ہم سیدھے راستے پر نہ ہوتے تو تم ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نمازیں نہ پڑھا کرتے"-

ان کی بات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی کہ ہمارا قبلہ بیت اللہ ہوجائے اور اللہ تعالٰی نے یہ دعا منظور فرمائی- 

قبلے کی تبدیلی کا حکم نماز کی حالت میں آیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کے دوران ہی اپنا رخ بیت اللہ کی طرف کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی رخ تبدیل کرلیا-یہ نماز مسجد قبلتین میں ہورہی تھی-

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 60


 قریش کا تجارتیز قافلہ


حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ نماز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی،یہ مسجد سے نکل کر راستے میں دو انصاریوں کے پاس سے گزرے.... وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اس وقت رکوع میں تھے-انہیں دیکھ کر عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے کہا:

"میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے-" 

قبا والوں کو یہ خبر اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پہنچی-وہ لوگ اس وقت دوسری رکعت میں تھے کہ منادی نے اعلان کیا:

"لوگو!خبردار ہوجاؤ!قبلے کا رخ کعبہ کی طرف تبدیل ہوگیا ہے-" 

نماز پڑھتے ہوئے لوگ قبلے کی طرف گھوم گئے-اس طرح مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ بنا- 

اسی سال یعنی3ہجری میں رمضان کے روزے اور صدقۂ فطر کا حکم نازل ہوا-پھر مسجد نبوی میں منبر نصب کیا گیا،جب تک منبر نہیں بنا تھا،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے اور خطبہ دیتے تھے،جب منبر بن گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کے اس تنے کی بجائے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا تو وہ تنا رونے لگا... اس کے رونے کی آواز ایسی بلند ہوئی کہ تمام لوگوں نے اس آواز کو سنا-آواز اس قدر دردناک تھی کہ ساری مسجد ہل گئی،وہ اس طرح رورہا تھا جیسے کوئی اونٹنی اپنے بچے کے گم ہونے پر روتی ہے- 

اس کے رونے کی آواز سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر سے اتر کر اس کے پاس پہنچے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا،اس کے بعد اس میں سے ایک بچے کے سسکنے کی آوازیں آنے لگیں-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا:

"پرسکون اور خاموش ہوجا-" 

تب کہیں جا کر اس کا رونا بند ہوا-اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تنے کو منبر کے نیچے دفن کرنے کا حکم دیا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار ارشاد فرمایا:

"میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے-" 

یعنی یہ مقام جنت ہی کا ایک مقام ہے-اللہ تعالٰی نے اس مقام کو جنت میں شامل کردیا ہے- 

گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ قریش کے ایک تجارتی قافلے پر حملے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم روانہ ہوئے تھے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشیرہ کے مقام پر پہنچے تو قافلہ اس مقام سے گزرکر شام کی طرف روانہ ہوچکا تھا... چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لے آئے تھے-پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ وہ قافلہ شام سے واپس آرہا ہے اور اس سامانِ تجارت کا منافع مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا:

"قریش کا تجارتی قافلہ آرہا ہے،اس میں ان کا مال و دولت ہے-تم اس پر حملہ کرنے کے لیے بڑھو-ممکن ہے، اللہ تمہیں اس سے فائدہ دے-" 

ادھر اس قافلے کے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے... یہ قریش کے بھی سردار تھے-

(اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے) ان کی عادت تھی کہ جب ان کا قافلہ حجاز کی سرزمین پر پہنچتا تو جاسوسوں کو بھیج کر راستے کی خبریں معلوم کرلیتے تھے-انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خوف بھی تھا،چنانچہ ان کے جاسوس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس تجارتی قافلے کو گھیرنے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں-یہ سن کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ خوف زدہ ہوگئے-انھوں نے فوراً ایک شخص کو مکہ کی طرف روانہ کیا اور ساتھ ہی اسے یہ ہدایات دیں:

"تم اپنے اونٹ کے کان کاٹ دو،کجاوہ الٹ دو،اپنی قمیص کا اگلا اور پچھلا دامن پھاڑ دو،اسی حالت میں مکہ میں داخل ہونا -انہیں بتانا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)اپنے اصحاب کے ساتھ ان کے قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں-" ایسا اس لیے کیا تاکہ مشرکین جلد مدد کو آجائیں- 

وہ شخص بہت تیزی سے روانہ ہوا-اب ابھی یہ مکہ پہنچا نہیں تھا کہ وہاں عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا-حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی تھیں-(یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ بعد میں یہ اسلام لے آئی تھیں یا نہیں،روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے... کچھ روایات کہتی ہیں،ایمان لے آئیں تھیں، کچھ میں ہے کہ انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) خواب بہت خوف ناک تھا،یہ ڈر گئیں-انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنا خواب سنایا... لیکن اس شرط پر سنایا کہ وہ کسی اور کو نہیں سنائیں گے... انھوں نے پوچھا:

اچھا ٹھیک ہے... تم خواب سناؤ، تم نے کیا دیکھا ہے؟"

عاتکہ بنت عبدالمطلب نے کہا:

"میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار چلا آ رہا ہے-یہاں تک کہ وہ ابطخ کے پاس آکر رکا-(ابطخ مکہ معظمہ سے کچھ فاصلے پر ہے) وہاں کھڑے ہوکر اس نے پوری آواز سے پکار پکار کر کہا" لوگو! تین دن کے اندر اندر اپنی قتل گاہوں میں چلنے کے لیے تیار ہوجاؤ"پھر میں نے دیکھا کہ لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے ہیں،پھر وہ وہاں سے چل کر بیت اللہ میں داخل ہوا-لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے-پھر وہ شخص اونٹ سمیت کعبہ کی چھت پر نظر آیا-وہاں بھی اس نے پکار کر یہ الفاظ کہے،اس کے بعد وہ ابوقبیس کے پہاڑ پر چڑھ گیا-وہاں بھی اس نے پکار کر یہ الفاظ کہے-پھر اس نے ایک پتھر اٹھا کر لڑھکایا- پتھر وہاں سے لڑھکتا پہاڑ کے دامن میں پہنچا تو اچانک ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا-پھر مکہ کے گھروں میں سے کوئی گھر نہ بچا جہاں اس کے ٹکڑے نہ پہنچے ہوں-"

یہ خواب سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اللہ کی قسم عاتکہ!تم نے بہت عجیب خواب دیکھا ہے... تم خود بھی اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا-"

حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے نکلے تو راستے میں انہیں ولید بن عتبہ ملا،یہ ان کا دوست تھا-عباس رضی اللہ عنہ نے خواب اس سے بیان کردیا اور وعدہ لیا کہ کسی کو بتائے گا نہیں-ولید نے جاکر یہ خواب اپنے بیٹے عتبہ کو سنا دیا-اس طرح یہ خواب آگے ہی آگے چلتا رہا،یہاں تک کہ ہر طرف عام ہوگیا-مکہ میں اس خواب پر زور شور سے تبصرہ ہونے لگا-آخر تین دن بعد وہ شخص اونٹ پر سوار مکہ میں داخل ہوا جسے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بھیجا تھا-وہ مکہ کی وادی کے درمیان میں پہنچ کر اونٹ پر کھڑا ہوگیا اور پکارا:

"اے قریش!اپنے تجارتی قافلے کی خبر لو،تمہارا جو مال و دولت ابوسفیان لے کر آرہے ہیں،اس پر محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) حملہ کرنے والے ہیں... جلدی مدد کو پہنچو-" 

اس تجارتی قافلے میں سارے قریشیوں کا مال لگا ہوا تھا،چنانچہ سب کے سب جنگ کی تیاری کرنے لگے-جو مال دار تھے،انھوں نے غریبوں کی مدد کی... تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد جنگ کے لیے جائیں-جو بڑے سردار تھے، وہ لوگوں کو جنگ پر ابھارنے لگے-ایک سردار سہیل بن عمرو نے اپنی تقریر میں کہا:

"اے قریشیو!کیا یہ بات تم برداشت کرلو گے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے بے دین ساتھی تمہارے مال اور دولت پر قبضہ کرلیں، لہٰذا جنگ کے لیے نکلو... جس کے پاس مال کم ہو،اس کے لیے میرا مال حاضر ہے-"

اس طرح سب سردار تیار ہوئے،لیکن ابولہب نے کوئی تیاری نہ کی،وہ عاتکہ کے خواب کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا تھا،وہ کہتا تھا:

"عاتکہ کا خواب بالکل سچا ہے،اور اسی طرح ظاہر ہوگا-" 

ابولہب خود نہیں گیا،لیکن اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام کو چار ہزار درہم دےکر جنگ کے لیے تیار کیا، یعنی وہ اس کی طرف سے چلا جائے-

ادھر خوب تیاریاں ہورہی تھیں،ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے-مدینہ سے باہر بئر عتبہ نامی کنویں کے پاس لشکر کو پڑاؤ کا حکم فرمایا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کنویں سے پانی پینے کا حکم دیا اور خود بھی پیا-یہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:

"مسلمانوں کو گن لیا جائے-" 

سب کو گنا گیا،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کا معائنہ بھی فرمایا-جو کم عمر تھے،انہیں واپس فرمادیا - واپس کیے جانے والوں میں حضرت اسامہ بن زید اور رافع بن خدیجہ،براء بن عازب،اسید بن زھیر،زید بن ارقم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم شامل تھے- 

جب انہیں واپس چلے جانے کا حکم ہوا تو عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رونے لگے-آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اجازت دے دی،چنانچہ وہ جنگ میں شریک ہوئے-اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 61


 بدر کی طرف روانگی 


روحاء کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو گننے کا حکم دیا۔گننے پر معلوم ہوا مجاہدین کی تعداد 313 ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا: 

"یہ وہی تعداد ہے جو طالوت کے ساتھیوں کی تھی،جو ان کے ساتھ نہر تک پہنچے تھے۔"( طالوت بنی اسرائیل کے ایک نیک مجاہد بادشاہ تھے،ان کی قیادت میں 313 مسلمانوں نے جالوت نامی کافر بادشاہ کی فوج کو شکست دی تھی)

لشکر میں گھوڑوں کی تعداد صرف پانچ تھی۔اونٹ ستر کے قریب تھے۔اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین یا چار چار آدمیوں کے حصے میں دیا گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں جو اونٹ آیا، اس میں دو اور ساتھی بھی شریک تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس اونٹ پر اپنی باری کے حساب سے سوار ہوتے اور ساتھیوں کی باری پر انہیں سوار ہونے کا حکم فرماتے... اگرچہ وہ اپنی باری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینے کی خواہش ظاہر کرتے... وہ کہتے: 

"اے اللہ کے رسول!آپ سوار رہیں... ہم پیدل چل لیں گے۔"

جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: 

"تم دونوں پیدل چلنے میں مجھ سے زیادہ مضبوط نہیں ہو اور نہ میں تمہارے مقابلے میں اس کی رحمت سے بےنیاز ہوں۔"( یعنی میں بھی تم دونوں کی طرح اجر کا خواہش مند ہوں )۔

روحاء کے مقام پر ایک اونٹ تھک کر بیٹھ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو پتا چلا،اونٹ تھک کر بیٹھ گیا ہے اور اٹھ نہیں رہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پانی لیا۔اس سے کلی کی۔کلی والا پانی اونٹ والے کے برتن میں ڈالا اور اس کے منہ میں ڈال دیا۔اونٹ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اس قدر تیز چلا کہ لشکر کے ساتھ جاملا۔اس پر تھکاوٹ کے کوئی آثار باقی نہ رہے۔

اس غزوے کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کووہ مدینہ منورہ ہی میں ٹھہرنے کا حکم فرمایا،وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کی زوجہ محترمہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: 

"تمہیں یہاں ٹھہرنے کا بھی اجر ملے گا اور جہاد کرنے کا اجر بھی ملے گا۔"

اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنایا۔

طلحہ بن عبید اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو جاسوسی کی ذمے داری سونپی تاکہ یہ دونوں لشکر سے آگے جاکر قریش کے تجارتی قافلے کی خبر لائیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ سے ہی روانہ فرمادیا تھا۔روحاء کے مقام سے اسلامی لشکر آگے روانہ ہوا۔عرق ظبیہ کے مقام پر ایک دیہاتی ملا۔اس سے دشمن کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا۔اب لشکر پھر آگے بڑھا۔اس طرح اسلامی لشکر ذفران کی وادی تک پہنچ گیا۔اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قریش مکہ ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کو بچانے کے لیے مکہ سے کوچ کرچکے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اطلاع ملنے پر تمام لشکر کو ایک جگہ جمع فرمایا اور ان سے مشورہ کیا کیونکہ مدینہ منورہ سے مسلمان صرف ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے تھے... کسی باقاعدہ لشکر کے مقابلے کے لیے نہیں نکلے تھے... اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باری باری اپنی رائے دی... حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: 

"اے اللہ کے رسول!آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، اس کے مطابق عمل فرمایئے،ہم آپ کے ساتھ ہیں۔اللہ کی قسم!ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جاکر لڑ لیجئے،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.... بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں،ہم آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑیں گے،آخر دم تک لڑیں گے۔

حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو دعا دی۔حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی تقاریر کیں.... ان کی تقاریر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے طرف دیکھا،کیونکہ ابھی تک ان میں سے کوئی کھڑا نہیں ہوا تھا۔اب انصاری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ سمجھ گئے،چنانچہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: 

"اے اللہ کے رسول!شاید آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے.... تو عرض ہے کہ ہم ایمان لاچکے ہیں،آپ کی تصدیق کرچکے ہیں اور گواہی دے چکے ہیں،ہم ہر حال میں آپ کا حکم مانیں گے،فرماں برداری کریں گے۔"

ان کی تقریر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

"اب اٹھو،کوچ کرو، تمہارے لیے خوش خبری ہے،اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا۔"

ذفران کی وادی سے روانہ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے مقام پر پہنچے۔اس وقت تک قریشی لشکر بھی بدر کے قریب پہنچ چکا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قریش کے لشکر کی خبریں معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔انہیں دو ماشکی( پانی بھرنے والے)ملے... وہ قریشی لشکر کے ماشکی تھے۔ان دونوں سے لشکر کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں.... انہوں نے لشکر میں شامل بڑے بڑے سرداروں کے نام بھی بتادیئے... اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: 

"مکہ نے اپنا دل اور جگر نکال کر تمہارے مقابلے کے لیے بھیجے ہیں۔"

یعنی اپنے تمام معزز اور بڑے بڑے لوگ بھیج دیئے ہیں۔

اس دوران ابوسفیان رضی اللہ عنہ قافلے کا راستہ بدل چکے تھے اور اس طرح ان کا قافلہ بچ گیا.... جب کہ اس قافلے کو بچانے کے لیے جو لشکر آیا تھا،اس سے اسلامی لشکر کا آمنا سامنا ہوگیا۔ادھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ قافلہ تو اب بچ گیا ہے،اس لیے انہوں نے ابوجہل کو پیغام بھیجا کہ واپس مکہ کی طرف لوٹ چلو.... کیونکہ ہم اسلامی لشکر سے بچ کر نکل آئے ہیں لیکن ابوجہل نے واپس جانے سے انکار کردیا۔

قریشی لشکر نے بدر کے مقام پر اس جگہ پڑاؤ ڈالا،جس جگہ پانی نزدیک تھا۔دوسری طرف اسلامی لشکر نے جس جگہ ہٹاؤ ڈالا،پانی وہاں سے فاصلے پر تھا۔اس سے مسلمانوں کو پریشانی ہوئی۔تب اللہ تعالیٰ نے وہاں بارش برسادی اور ان کی پانی کی تکلیف رفع ہوگئی۔جب کہ اسی بارش کی وجہ سے کافر پریشان ہوئے۔وہ اپنے پڑاؤ سے نکلنے کے قابل نہ رہے.... مطلب یہ کہ بارش مسلمانوں کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے زحمت ثابت ہوئی۔

صبح ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: 

"لوگو! نماز کے لیے تیار ہوجاؤ۔"

چنانچہ صبح کی نماز ادا کی گئی... پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطبہ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"میں تمہیں ایسی بات کے لیے ابھارتا ہوں،جس کے لیے تمہیں اللہ نے ابھارا ہے تنگی اور سختی کے موقعوں پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ تمام تکالیف سے بچالیتا ہے اور تمام غموں سے نجات عطا فرماتا ہے۔"

اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کو لے کر آگے بڑھے... اور قریش سے پہلے پانی کے قریب پہنچ گئے۔مقام بدر پر پانی کا چشمہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں رکتے دیکھ کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: 

"اے اللہ کے رسول!قیام کے لیے یہ جگہ مناسب نہیں ہے، میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہوں... آپ وہاں پڑاؤ ڈالیں جو دشمن کے پانی سے قریب ترین ہو۔ہم وہاں ایک حوض بناکر پانی اس میں جمع کرلیں گے۔اس طرح ہمارے پاس پینے کا پانی ہوگا... ہم پانی کے دوسرے گڑھے اور چشمے پاٹ دیں گے،اس طرح دشمن کو پانی نہیں ملے گا۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو بہت پسند فرمایا... ایک روایت کے مطابق اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے اور بتایا کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی رائے بہت عمدہ ہے۔

اس رائے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کو لے کر آگے بڑھے اور اس چشمے پر آگئے جو اس جگہ سے قریب ترین تھا جہاں قریش نے پڑاؤ ڈالا تھا۔مسلمانوں نے یہاں قیام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسرے گڑھے بھرنے کا حکم دیا۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 62


 میدان بدرمیں


پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کچے کنویں پر ایک حوض بنوایا،جہاں اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں پانی بھروادیا اور ڈول ڈلوادیئے۔اس طرح حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل ہوا۔اس کے بعد سے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو ذی رائے کہا جانے لگا تھا۔

اس موقع پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: 

" اے اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک عریش بنادے۔( عریش کھجور کی شاخوں اور پتوں کا ایک سائبان ہوتا ہے) آپ اس میں تشریف رکھیں۔اس کے پاس آپ کی سواریاں تیار رہیں۔اور ہم دشمن سے جاکر مقابلہ کریں۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مشورہ قبول فرمایا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سائبان بنایا گیا۔یہ ایک اونچے ٹیلے پر بنایا گیا تھا۔اس جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے میدان جنگ کا معائنہ فرماسکتے تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں قیام فرمایا۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: 

"آپ کے ساتھ یہاں کون رہے گا تاکہ مشرکوں میں سے کوئی آپ کے قریب نہ آسکے۔"

حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: 

" اللہ کی قسم!یہ سن کر ہم میں سے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اپنی تلوار کا سایہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کرتے ہوئے بولے: 

" جو شخص بھی آپ کی طرف بڑھنے کی جرات کرے گا،اسے پہلے اس تلوار سے نمٹنا پڑے گا۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ان جُرات مندانہ الفاظ کی بنیاد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سب سے بہادر شخص قرار دیا۔ 

یہ بات جنگ شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔جب جنگ شروع ہوئی تو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سائبان کے دروازےپر کھڑے تھے۔اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی انصاری صحابہ کے ایک دستے کے ساتھ وہاں موجود تھے۔اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ 

اس طرح صبح ہوئی،پھر قریشی لشکر ریت کے ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہوا۔اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مشرکوں کے نام لے لے کر فرمایا کہ فلاں اس جگہ قتل ہوگا،فلاں اس جگہ قتل ہوگا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کے نام لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس جگہ قتل ہوگا،وہ بالکل وہیں قتل ہوئے،ایک انچ بھی ادھر ادھر پڑے نہیں پائے گئے۔ 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ قریش کا لشکر لوہے کا لباس پہنے ہوئے اور ہتھیاروں سے خوب لیس بڑھا چلا آرہا ہے تو اللہ رب العزت سے یوں دعا فرمائی: 

" اے اللہ!یہ قریش کے لوگ،یہ تیرے دشمن اپنے تمام بہادروں کے ساتھ بڑے غرور کے عالم میں تجھ سے جنگ کرنے( یعنی تیرے احکامات کے خلاف ورزی )اور تیرے رسول کو جھٹلانے کے لئے آئے ہیں،اے اللہ!آپ نے مجھ سے اپنی مدداور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے،لہذا وہ مدد بھیج دے۔اے اللہ!تو نے مجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے ثابت قدم رہنے کا حکم فرمایا ہے،مشرکوں کے اس لشکر پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔اے اللہ! انہیں آج ہلاک فرمادے۔

ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ صلی علیہ وسلم کی دعا میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں۔ 

" اے اللہ!اس امت کے فرعون ابوجہل کو کہیں پناہ نہ دے،ٹھکانہ نہ دے۔"

غرض جب قریشی لشکر ٹھر گیا تو انہوں نے عمیر بن وہب جہمی رضی الله عنہ کو جاسوسی کے لیے بھیجا۔ یہ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔اور بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ 

قریش نے عمیر رضی الله عنہ سے کہا: 

"جاکر محمد کے لشکر کی تعداد معلوم کرو اور ہمیں خبر دو۔"

عمیر رضی الله عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے۔ انہوں نے اسلامی لشکر کے گرد ایک چکر لگایا۔پھر واپس قریش کے پاس آئے اور یہ خبر دی: 

"ان کی تعداد تقریباﹰ تین سو ہے۔ممکن ہے کچھ زیادہ ہوں... مگر اے قریش!میں نے دیکھا ہے ان لوگوں کو لوٹ کر اپنے گھروں میں جانے کی کوئی تمنا نہیں اور میں سمجھتا ہوں،ان میں سےکوئی آدمی اس وقت تک نہیں مارا جائے گا جب تک کہ کسی کو قتل نہ کردے۔ گویا تمہارے بھی اتنے ہی آدمی مارے جائے گے...جتنا کہ ان کے...اس کے بعد پھر زندگی کاکیا مزہ رہ جائے گا،اس لیے جنگ شروع کرنے سے پہلے اس بارے میں غور کرلو۔"

ان کی بات سن کر کچھ لوگوں نے ابوجہل سے کہا: 

" جنگ کے ارادے سے بعض آجاؤ اور واپس چلو،بھلائی اسی میں ہے۔"

واپس چلنے کا مشورہ دینے والوں میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ابو جہل نے ان کی بات نہ مانی اور جنگ پر ٹل گیا اور جو لوگ واپس چلنے کی کہہ رہے تھے،انہیں بزدلی کا طعنہ دیا۔اس طرح جنگ ٹل نہ سکی۔ 

ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ اسود مخزومی نے قریش کے سامنے اعلان کیا:

" میں الله کے سامنے عہد کرتا ہو کہ یا تو مسلمانوں کے بنائے ہوئے حوض سے پانی پیوں گا...یا اس کو توڑ دوں گا یا پھر اس کوشش میں جان دے دوں گا۔"

پھر یہ اسود میدان میں نکلا۔حضرت حمزہ رضی الله عنہہ اس کے مقابلے میں آئے۔

حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے اس پر تلوار کا وار کیا، اس کی پنڈلی کٹ گئی،اس وقت یہ حوض کے قریب تھا،ٹانگ کٹ جانے کے بعد یہ زمین پر چت گرا،خون تیزی سے بہہ رہا تھا،اس حالت میں یہ حوض کی طرف سرکا اور حوض سے پانی پینے لگا۔حضرت حمزہ رضی الله عنہ فوراً اس کی طرف لپکے اور دوسرا وار کرکے اس کا کم تمام کردیا۔

اس کے بعد قریش کے کچھ اور لوگ حوض کی طرف بڑھے۔ ان میں حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں آتے دیکھ کر فرمایا: 

"انہیں آنے دو،آج کے دن ان میں سے جو بھی حوض سے پانی پی لے گا،وہ یہیں کفر کی حالت میں قتل ہوگا۔"

حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ نے پانی نہیں پیا، یہ قتل ہونے سے بچ گئے اور بعد میں اسلام لائے،بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔

اب سب سے پہلے عتبہ،اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید میدان میں آگے نکلے اور للکارے۔

"ہم سے مقابلے کے لیے کون آتا ہے۔"

اس للکار پر مسلمانوں میں سے تین انصاری نوجوان نکلے۔ یہ تینوں بھائی تھے۔ان کے نام معوذ، معاذ اور عوف رضی الله عنہم تھے۔ ان کے والد کا نام عفرا تھا۔ ان تینوں نوجوانوں کو دیکھ کر عتبہ نے پوچھا: 

" تم کون ہو؟ "

انہوں نے جواب دیا: 

" ہم انصاری ہیں۔"

اس پر عتبہ نے کہا: 

" تم ہمارے برابر کے نہیں...ہمارے مقابلے میں مہاجرین میں سے کسی کو بھیجو،ہم اپنی قوم کے آدمیوں سے مقابلہ کرے گے۔"

اس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں واپس آنے کا حکم فرمایا۔یہ تینوں اپنی صفوں میں واپس آگئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی اور انہیں شاباش دی۔

اب آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا: 

"اے عبیدہ بن حارث اٹھو!اے حمزہ اٹھو!اے علی اٹھو۔"

یہ تینوں فوراً اپنی صفوں میں سے نکل کر ان تینوں کے سامنے پہنچ گئے۔ان میں عبیدہ بن حارث رضی الله عنہ زیادہ عمر کے تھے، بوڑھے تھے۔ان کا مقابلہ عتبہ بن ربیعہ سے ہوا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مقابلہ شیبہ سے،اور حضرت علی کا مقابلہ ولید سے ہوا۔

حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے شیبہ کو وار کرنے کا موقع نہ دیا اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔اسی طرح حضرت علی رضی الله عنہ نے ایک ہی وار میں ولید کا کام تمام کردیا۔البتہ عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور عتبہ کے درمیان تلواروں کے وار شروع ہوگئے۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 63


تلواروں کے سائے میں


دونوں کے درمیان کچھ دیر تک تلواروں کے وار ہوتے رہے،یہاں تک کہ دونوں زخمی ہوگئے۔اس وقت تک حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی الله عنہما اپنے اپنے دشمن( مقابل )کا صفایا کرچکےتھے۔لہذا وہ دونوں ان کی طرف بڑھے اور عتبہ کو ختم کردیا۔ پھر زخمی عبیدہ بن حارت رضی الله عنہ کو اٹھا کر لشکر میں لے آئے۔انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لٹا دیا گیا۔ انہوں نے پوچھا: 

" اے الله کے رسول!کیا میں شہید نہیں ہوں؟ "

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

" میں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو۔"

اس کے بعد صفراء کے مقام پر حضرت عبیدہ بن حارث رضی الله عنہ کا انتقال ہوگیا۔انہیں وہی دفن کیا گیا، جب کہ حضور صلی الله علیہ وسلم غزوہ بدر سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ منوره کی طرف لوٹ روپے تھے۔

جنگ سے پہلے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضی الله عنہم کی صفوں کو ایک نیزے کے ذریعے سیدھا کیا تھا۔صفوں کو سیدھا کرتے ہوئے حضرت سواد بن غزیہ رضی الله عنہ کے پاس سے گذرے،یہ صف سے قدرے آگے بڑھے ہوئے تھے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک تیر سے ان کے پیٹ کو چھوا اور فرمایا: 

" سواد!صف سے آگے نہ نکلو،سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔"

اس پر حضرت سواد رضی الله عنہ نے عرض کیا: 

" الله کے رسول!آپ نے مجھے اس تیر سے تکلیف پہنچائی۔آپ کو الله تعالیٰ نے حق اور انصاف دے کر بھیجا ہے لہذا مجھے بدلہ دے۔"

آپ نے فوراً اپنا پیٹ کھولا اور ان سے فرمایا: 

" لو!تم اب اپنا بدلہ لے لو۔"

حضرت سواد آگے بڑھے اور آپ کے سینے سے لگ گئے اور آپ کے شکم مبارک کو بوسہ دیا۔اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیا: 

"سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟ "

انہوں نے عرض کیا: 

" الله کے رسول!آپ دیکھ رہے ہیں،جنگ سر پر ہے،اس لیے میں نے سوچا،آپ کے ساتھ زندگی کے جو آخری لمحات بسر ہوں،وہ اس طرح بسر ہوں کہ میرا جسم آپ کے جسم مبارک سے مس کررہا ہو...( یعنی اگر میں اس جنگ میں شہید ہوگیا تو یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں)۔

یہ سن کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ایک روایت میں آتا ہے،"جس مسلمان نے بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے جسم کو چھولیا،آگ اس جسم کو نہیں چھوئے گی۔"ایک روایت میں یوں ہے کہ"جو چیز بھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے جسم کو لگ گئی،آگ اسے نہیں جلائے گی۔"

پھر جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صفوں کو سیدھا کردیا تو فرمایا: 

"جب دشمن قریب آجائے تو انہیں تیروں سے پیچھے ہٹانا اور اپنے تیر اس وقت تک نہ چلاؤ جب تک کہ وہ نزدیک نہ آجائیں۔( کیونکہ زیادہ فاصلے سے تیراندازی اکثر بے کار ثابت ہوتی ہےاور تیر ضائع ہوتے رہتے ہے)اسی طرح تلواریں بھی اس وقت تک نہ سونتنا جب تک کہ دشمن بالکل قریب نہ آجائے۔"

اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو یہ خطبہ دیا: 

"مصیبت کے وقت صبر کرنے سے الله تعالیٰ پریشانیاں دور فرماتے ہیں۔اور غموں سے نجات عطا فرماتے ہیں۔"

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے سائبان میں تشریف لے گئے۔اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ آپ کے ساتھ تھے۔سائبان کے دروازے پر حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہ کچھ انصاری مسلمانوں کے ننگی تلواریں لیے کھڑے تھے تاکہ دشمن کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھنے سے روک سکیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہاں سواریاں بھی موجود تھیں۔تاکہ ضرورت کے وقت آپ سوار ہوسکیں۔

مسلمانوں میں سب سے پہلے مہجع رضی الله عنہ آگے بڑھے۔یہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے غلام تھے،عامر بن حضرمی نے انہیں تیر مارکر شہید کردیا۔ 

ادھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اپنے سائبان میں الله تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرے کر یوں دعا کی: 

"اے الله!اگر آج مومنوں کی جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔"

پھر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم اپنے سائبان سے نکل کر صحابہ کے درمیان تشریف لائے اور انہیں جنگ پر ابھارنے کے لیے فرمایا: 

" قسم ہے اس ذات کی،جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے،جو شخص بھی آج ان مشرکوں کے مقابلے میں صبر اور ہمت کے ساتھ لڑے گا،ان کے سامنے سینہ تانے جما رہے گا اور پیٹ نہیں پھیرے گا،الله تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ "

حضرت عمیر بن حمام رضی الله عنہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ الفاظ سن کر کھجوریں ہاتھ سے گرادیں اور بولے: 

" واہ واہ!تو، میرے اور جنت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ ان کافروں میں سے کوئی مجھے قتل کردے۔"

یہ کہتے ہی تلوار سونت کر دشمنوں سے بھڑ گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ 

حضرت عوف بن عفراء رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: 

" اللہ کے رسول!بندے کے کس عمل پر الله کو ہنسی آتی ہے۔"( یعنی اس کے کون عمل سے الله تعالیٰ خوش ہوتے ہیں)۔

جواب میں آپ نے فرمایا: 

" جب کوئی مجاہد زرہ بکتر پہنے بغیر دشمن پر حملہ آوار ہو۔"

یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے جسم پر سےزرہ بکتر اتار کر پھینک دی اور تلوار سونت کر دشمن پر ٹوٹ پڑے،یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ 

حضرت معبد بن وہب رضی الله عنہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لے کر جنگ میں شریک ہوئے۔یہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے ہم زلف تھے یعنی ام المومنین حضرت سودہ رضی الله عنہ کی بہن کے خاوند تھے۔

جنگ کے دوران حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھائی اور مشرکوں پر پھینک دی۔ایسا کرنے کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا تھا۔ 

کنکریوں کو مٹھی میں پھینکتے وقت حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

" یہ چہرے خراب ہوجائیں۔"

ایک روایت کے مطابق یہ الفاظ آئے ہیں: 

"اے اللہ!ان کے دلوں کو خوف سے بھردے،ان کے پاؤں اکھاڑ دیں۔"

الله کے حکم اور 

حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعا سے کوئی کافر ایسا نہ بچا جس پر وہ کنکریاں نہ پڑی ہوں۔ان کنکریوں نے کافروں کو بدحواس کردیا۔آخر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شکست کھاکر بھاگے۔ مسلمان ان کا پیچھا کرنے لگے۔انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔

کنکریوں کی مٹھی کے بارے میں الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: 

"اور اے نبی!کنکریوں کی مٹھی آپ نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی۔"( سورہ الا نفال: آیت 17)

حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے کافروں کے شکست کھا جانے کے بعد اعلان فرمایا: 

"مسلمانوں میں جس نے جس کافر کو مارا ہے...اس کا سامان اسی مسلمان کا ہے اور جس مسلمان نے جس کافر کو گرفتار کیا،وہ اسی مسلمان کا قیدی ہے۔"

وہ کافر جو بھاگ کر نہ جاسکے،انہیں گرفتار کرلیا گیا۔اس جنگ میں حضرت ابو عبیدہ بن الجرح رضی الله عنہ نے اپنے باپ کو قتل کیا۔پہلے خود باپ نے بیٹے پر وار کیا تھا۔لیکن یہ وار حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ بچاگئے اور خود اس پر وار کیا، جس سے وہ مارا گیا۔اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: 

"جو لوگ الله پر اور قیامت کے دن پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں،آپ انہیں نہ دیکھیں گے کہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہیں جو الله اور رسول کے خلاف ہیں اگرچہ وہ ان کے بیٹے یا بھائی یا خاندان میں سے کیوں نہ ہوں۔"( سورۃ المجادلتہ: 23 )

اس جنگ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو قیدی بنالیا۔اسلام سے پہلے مکہ میں یہ شخص حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کا دوست رہا تھا...اور یہی وہ امیہ بن خلف تھا جو حضرت بلال رضی الله عنہ پر بے تحاشہ ظلم کرتا رہا تھا...حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ ان دونوں کو لیے میدان جنگ سے گذر رہے تھے کہ حضرت بلال رضی الله عنہ کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 64


 کفار کی عبرتناک شکست 


حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ اسے دیکھ کر بلند آواز میں پکارے:کافروں کا سردار امیہ بن خلف یہ رہا...اگر امیہ بچ گیا تو سمجھو میں نہيں بچا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو امیہ اپنے بیٹے کے ساتھ ادھر ادھر بھاگتا نظر آیا تھا،حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں کئی زرہیں تھیں۔یہ مال غنیمت میدان جنگ سے ملا تھا،لیکن جونہی انہیں امیہ اور اس کا بیٹا نظر آیا،انہوں نے زرہیں گرادیں اور ان دونوں کو پکڑ لیا...اس طرح یہ دونوں اب ان کے قیدی بن گئے ۔یہ انہیں لیے جارہےتھے کہ حضرت بلال رضی الله عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور پکارنے لگے: یہ رہا امیہ بن خلف۔حضرت بلال رضی الله عنہ کے الفاظ سنتے ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن یہ دونوں اب میرے قیدی ہیں ۔

حضرت بلال نے پھر وہی الفاظ کہے: 

اگر آج امیہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا ۔

ساتھ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو پکارا: 

اے انصاریو!اے الله کے مددگارو!یہ کافروں کا امیہ بن خلف ہے۔اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہيں بچا۔

یہ سن کر انصاری ان کی طرف دوڑ پڑے،انہوں نے چاروں طرف سے انہیں گھیرلیا،حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ نے تلوار کھینچ لی اور اس پر وار کیا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امیہ کو بچانے کے لیے اس کے بیٹے کو آگے کردیا ۔امیہ جاہلیت کے زمانے میں ان کا دوست تھا۔اسی دوستی کے ناتے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ اسے قتل ہونے سے بچانا چاہتے تھے۔ادھر حضرت بلال رضی الله عنہ پر اس کے قتل کی دھن پوری طرح سوار تھی ۔

حضرت بلال رضی الله عنہ کی تلوار امیہ کے بیٹے کو لگی اور وہ زخمی ہوکر گرا،اسے گرتا دیکھ کر امیہ بھیانک انداز میں چیخا ۔یہ چیخ حد درجے خوفناک اور ہولناک تھی، ساتھ ہی تلواریں بلند ہوئیں اور امیہ کے جسم میں اتر گئیں ۔امیہ کو بچانے کے سلسلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ خود بھی معمولی سے زخمی ہوئے ۔وہ کہا کرتےتھے"الله تعالٰی بلال پر رحم فرمائیں،میرے حصے میں نہ زرہیں آئیں نہ قیدی۔ایسے میں حضور نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا 

کسی کو نوفل بن خویلد کا بھی پتہ ہے؟ 

جواب میں حضرت علي رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: 

الله کے رسول!اسے میں نے قتل کیا ہے۔

یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: 

اللہ اکبر!اللّٰہ کا شکر ہے جس نے اس شخص کے بارے میں میری دعا قبول فرمائی۔جنگ شروع ہونے سے پہلے اس نوفل بن خویلد نے بلند آواز میں کہا تھا 

اے گروہِ قریش!آج کا دن عزت اورسر بلندی کا دن ہے-اس کی بات سن کر آپ ﷺ نے فرمایا تھا:اے اللہ نوفل بن خویلد کا انجام مجھے دکھلا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا: 

قتل ہونے والے کافروں میں ابوجہل کی لاش کو تلاش کیا جائے" 

ابوجہل نے جنگ شروع ہونے سے پہلے کہاتھا: 

اے اللّٰہ!دونوں دینوں (یعنی اسلام اور کفار کے خود ساختہ دین) میں جو دین تیرے نزدیک افضل اور پسندیدہ ہو اسی کی مدد فرما اور نصرت فرما۔

حضرت معاذ بن عمرو جموح رضی اللّٰہ عنہ جو اس جنگ کے دوران کم سن صحابہ میں شمار ہوتےتھے،کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ ابوجہل کو اس کے بہت سے ساتھی حفاظت کے لیے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں اور وہ کہہ رہے تھے:اے ابو الحکم (ابوجہل کی کنیت تھی) تم تک کوئی نہیں پہنچ پائے گا۔

جب میں نے ان کی یہ بات سنی تو ابوجہل کی طرف بڑھا

اور اس پر تلوار کا ایک ہاتھ مارا۔اس وار سے اس کی پنڈلی کٹ گئی۔ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہ رضی اللّٰہ عنہ باپ کی مدد کے لیے بڑھے۔(یہ حضرت عکرمہ رضی الله عنہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے)انھوں نے مجھ پر تلوار کا وار کیا۔اس سے میرا بازو کٹ گیا۔صرف تھوڑی سی کھال کے ساتھ بازو اٹکا رہ گیا۔میں جنگ میں مصروف رہا،لیکن لٹکنے والے ہاتھ کی وجہ سے لڑنا مشکل ہورہاتھا۔میں تمام دن لڑتا رہا اور وہ بازو لٹکتا رہا۔آخر جب اس کی وجہ سے رکاوٹ زیادہ ہونے لگی تو میں نے اپنا پاؤں اس پر رکھ کر جھٹکا دیا۔اس سے وہ کھال بھی کٹ گئی۔میں نے اپنے بازو کواٹھا کر پھینک دیا۔ابوجہل زخمی حالت میں تھا کہ اس دوران اس کے پاس معوذ بن عفراء رضی اللّٰہ عنہ گزرے۔انہوں نے اس پر وار کیا۔اس وار سے وہ گرگیا اور وہ اسے مردہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے،لیکن وہ ابھي زندہ تھا۔

حضرت معوذ رضی اللہ عنہ جنگ کرتے آگے بڑھتے چلےگئے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔اتنے میں زخموں سے چور ابوجہل کے پاس سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا۔انہوں نے اپنا پیر اس کی گردن پر رکھ کر کہا:

”اے خدا کے دشمن!کیا تجھے خدا نے رسوا نہیں کر دیا۔“

اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےاس کا سر تن سے جدا کر دیا۔پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا:

”اے اللہ کے رسول!میں نےابو جہل کو قتل کیا ہے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”برتری اسی ذات باری تعالیٰ کے لئے ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ تین بار فرمایا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کی تلوار حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو عطا فرما دی۔اس خوبصورت اور قیمتی تلوار پر چاندی کا کام کیا گیا تھا۔

بدر کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے بھی مدد فرمائی تھی۔اس روز حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے نہایت سرفروشی سے جنگ کی۔ان کے جسم پر بہت بڑے بڑے زخم آۓ۔

اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک چھڑی عنایت فرمائی۔ وہ چھڑی ان کے ہاتھ میں آتے ہی معجزاتی طور پر ایک چمک دار تلوار بن گئی۔حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ اس تلوار سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔اس تلوار کا نام عون رکھا گیا۔یہ تلوار تمام غزوات میں حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور اسی تلوار سے وہ جنگ کیا کرتے تھے۔ان کے انتقال کے بعد یہ تلوار ان کی اولاد کو وراثت میں ملتی رہی،ایک سے دوسرے کے پاس پہنچتی رہی۔

اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم رضی اللہ عنہ کی تلوار بھی ٹوٹ گئی تھی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی جڑ عطا فرمائی اور فرمایا:

”اس سے لڑو“

انہوں نے جونہی اس جڑ کو ہاتھ میں لیا،وہ ایک نہایت بہترین تلوار بن گئی اور اس غزوہ کے بعد ان کے پاس رہی۔

حضرت خبیب بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک کافر نے میرے دادا پر تلوار کا وار کیا۔اس وار میں ان کی ایک پسلی الگ ہو گئی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب دہن لگا کر ٹوٹی پسلی اس کی جگہ رکھ دی۔وہ پسلی اپنی جگہ پر اس طرح جم گئی جیسے ٹوٹی ہی نہیں تھی۔

حضرت رفاعہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک تیر میری آنکھ میں آکر لگا،میری آنکھ پھوٹ گئی۔میں اسی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا،آنکھ اسی وقت ٹھیک ہو گئی اور زندگی بھر اس آنکھ میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ مشرکوں کی لاشوں کو ان جگہوں سے اٹھا لایا جاۓ جہاں جہاں ان کے قتل ہونے کی نشان دہی کی تھی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے ایک دن پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ ان شاءاللہ کل یہ عتبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہوگی،یہ شیبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہو گی۔یہ امیہ بن خلف کے قتل کی جگہ ہوگی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان جگہوں کی نشان دہی فرمائی تھی۔۔۔اب جب لاشیں جمع کرنے کا حکم ملا اور صحابہ کرام لاشوں کی تلاش میں نکلے تو کافروں کی لاشیں بالکل انہی جگہوں پر پڑی ملیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لاشوں کو ایک گڑھے میں ڈالنے کا حکم فرمایا۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 65


 فتح کےبعد


جب تمام مشرکوں کو گڑھے میں ڈال دیا گیا تو حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس گڑھے کے ایک کنارے پر آکھڑے ہوئے...وہ وقت رات کا تھا۔بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی غزوہ میں فتح حاصل ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اسی مقام پر تین رات قیام فرمایا کرتے تھے۔ تیسرے دن آپ نے لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔وہاں سے کوچ کرتے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ اس گڑے کے کنارے کھڑے ہوکر ان لاشوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: 

"اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں! کیا تم نے دیکھ لیا کہ اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ کتنا سچا تھا،میں نے تو اس وعدے کو سچ پایا جو الله تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا تھا۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کے نام بھی لیے... مثلاﹰ فرمایا: 

"اے عتبہ بن ربیعہ،اے شیبہ بن ربیعہ،اے امیہ بن خلف اور اے ابوجہل بن ہشام...تم لوگ نبی کا خاندان ہوتے ہوئے،بہت برے ثابت ہوئے،تم مجھے جھٹلاتے تھے جبکہ لوگ میری تصدیق کررہے تھے۔تم نے مجھے وطن سے نکالا،جب کہ دوسروں نے مجھے پناه دی۔تم نے میرے مقابلے میں جنگ کی جب کہ غیروں نے میری مدد کی۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم کے یہ الفاظ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ نے عرض کیا:

"اے الله کے رسول!آپ ان مردوں سے باتیں کررہے ہیں جو بے روح لاشیں ہیں۔"

اس کے جواب میں آپ نےارشاد فرمایا: 

"جو کچھ میں کہہ رہا ہوں،اس کو تم لوگ اتنا نہیں سن رہے ہیں مگر یہ لوگ اب جواب نہیں دے سکتے۔"

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فتح کی خبر مدینہ منورہ بھیج دی۔مدینہ منوره میں فتح کی خبر حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ لائے تھے۔انہوں نے یہ خوش خبری بلند آواز میں یوں سنائی: 

"اے گروہ انصار!تمہیں خوش خبری ہو،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سلامتی اور مشرکوں کے قتل اور گرفتاری کی۔قریشی سرداروں میں سے فلاں فلاں قتل اور فلاں فلاں گرفتار ہوگئے ہیں۔"

ان کے منہ سے یہ خوش خبری سن کر الله کا دشمن کعب بن اشرف یہودی طیش میں آگیا اور انہیں جھٹلانے لگا،ساتھ ہی اس نے کہا: 

"اگر محمد( صلی الله علیہ وسلم)نے ان بڑےبڑے سورماﺅں کو مار ڈالا ہے تو زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کےاندر رہنا بہتر ہے۔"( یعنی زندگی سے موت بہتر ہے)۔

فتح کی یہ خبر وہاں اس وقت پہنچی جب مدینہ منورہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی صاحبزادی وفات پاچکی تھیں اور ان کے شوہر حضرت عثمان رضی الله عنہ اور وہاں موجود صحابہ کرام ان کو دفن کر کے قبر کی مٹی برابر کررہے تھے۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جب حضرت رقیہ رضی الله عنہا کی وفات کی اطلاع دی گئی تو ارشاد فرمایا: 

" الحمد اللّٰه!اللّٰه تعالیٰ کا شکر ہے۔شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔"

فتح کی خبر سن کر ایک منافق بولا:

"اصل بات یہ ہے کہ تمہارے ساتھی شکست کھا کر تتر بتر ہوگئے ہیں،اور اب وہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکیں گے،محمد(صلی الله علیہ وسلم )بیٹھ کر آئے ہیں،اگر محمد(صلی الله علیہ وسلم )زندہ ہوتے تو اپنی اونٹنی پر خود سوار ہوتے مگر یہ زید ایسے بدحواس ہورہے ہیں کہ انہیں خود بھی پتا نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ "

اس پر حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے اس سے کہا: 

"اوہ الله کے دشمن!محمد صلی الله علیہ وسلم کو آلینے دے،پھر تجھے معلوم ہوجائے گا...کسے فتح ہوئی اور کسے شکست ہوئی ہے؟"

پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں صفراء کی گھاٹی میں پہنچے تو اس جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔اس مال میں ایک سو پچاس اونٹ اور دس گھوڑے تھے،اس کے علاوہ ہر قسم کا سامان، ہتھیار،کپڑے اور بے شمار کھالیں،اون وغیرہ بھی اس مال غنیمت میں شامل تھا۔یہ چیزیں مشرک تجارت کے لیے ساتھ لے آئے تھے۔ 

اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:

"جس شخص نے کسی مشرک کا قتل کیا،اس مشرک کا سامان اسی کو ملے گا اور جس نے کسی مشرک کو گرفتار کیا،وہ اسی کا قیدی ہوگا۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس مال میں سے ان لوگوں کے بھی حصے نکالے،جو غزوہ بدر میں حاضر نہیں ہوسکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں خودآنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کسی وجہ سے جنگ میں حصہ لینے سے روک دیا تھا کیونکہ حضرت رقیہ رضی الله عنہ بہت بیمار تھیں اور خود حضرت عثمان رضی الله عنہ کو چیچک نکلی ہوئی تھی،اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اصحاب بدر میں شمار فرمایا۔اسی طرح حضرت ابولبابہ رضی الله عنہ تھے،انہیں خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے پاس بطور محافظ چھوڑا تھا۔اور حضرت عاصم بن عدی رضی الله عنہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے قبا اور عالیہ والوں کے پاس چھوڑا تھا۔

اسی طرح حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان لوگوں کا بھی حصہ نکالا جنہیں جاسوسی کی غرض سے بھیجا گیا تھا تاکہ وہ دشمن کی خبر لائیں۔یہ لوگ اس وقت واپس لوٹے تھے جب جنگ ختم ہوچکی تھی۔

اسی مقام پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے قریش کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔یہ شخص قرآن کریم اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کرتا تھا۔اسی طرح کچھ آگے چل کر آپ نے عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم فرمایا۔یہ بھی بہت فتنہ پرور تھا۔اس نے ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر تھوکنے کی کوشش بھی کی تھی اور ایک بار حضور صلی الله علیہ وسلم کو نماز میں سجدے کی حالت میں دیکھ کر اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی گردن پر اونٹ کی اوجھ لا کر رکھ دی تھی۔حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا: 

"مکہ سے باہر میں جب بھی تجھ سے ملوں گا تو اس حالت میں ملوں گا کہ تلوار سے تیرا سر قلم کروں گا۔"

اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے اور پھر مدینہ منوره کے قریب پہنچ گئے۔یہاں لوگ مدینہ منوره سے باہر نکل آئے تھے تاکہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کا استقبال کرسکیں اور فتح کی مبارک باد دے سکیں۔

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ منوره میں داخل ہوئے تو شہر کی بچیوں نے دف بجا کر استقبال کیا۔وہ اس وقت یہ گیت گارہی تھیں: 

"ہمارے سامنے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے،اس نعمت کے بدلے میں ہم پر ہمیشہ اللّٰه تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔"

دوسری طرف مکہ معظمہ میں قریش کی شکست کی خبر پہنچی،خبر لانے والے نے پکار کر کہا:

"لوگو!عتبہ اور شیبہ قتل ہوگئے،ابوجہل اور امیہ بھی قتل ہوگئے اور قریش کے سرداروں میں سے فلاں فلاں بھی قتل ہوگئے...فلاں فلاں گرفتار کرلیے گئے۔"

یہ خبر وحشت ناک تھی۔خبر سن کر ابولہب گھسٹا ہوا باہر آیا۔اسی وقت ابوسفیان بن حارث رضی الله عنہ وہاں پہنچے،یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے۔اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔یہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ابولہب نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا: 

"میرے نزدیک آؤ اور سناؤ.... کیا خبر ہے؟"

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 66


 قیدیوں کی رہائی 


ابوسفیان بن حارث (رضی اللہ عنہ) نے جواب میں میدان جنگ کی جو کیفیت سنائی،وہ یہ تھی:

"خدا کی قسم!بس یوں سمجھ لو کہ جیسے ہی ہمارا دشمن سے ٹکراؤ ہوا،ہم نے گویا اپنی گردنیں ان کے سامنے پیش کردیں،اور انہوں نے جیسے چاہا،ہمیں قتل کرنا شروع کردیا،جیسے چاہاگرفتار کیا،پھر بھی میں قریش کو الزام نہیں دوں گا،کیونکہ ہمارا واسطہ جن لوگوں سے پڑا ہے،وہ سفید رنگ کے تھے اور سیاہ اور سفید رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے،وہ زمین اور آسمان کے درمیان پھر رہے تھے-اللہ کی قسم ان کے سامنے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تھی-"

ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،یہ سنتے ہی میں نے کہا:

"تب تو خدا کی قسم وہ فرشتے تھے-" 

میری بات سنتے ہی ابولہب غصہ میں آ گیا اس نے پوری طاقت سے تھپڑ میرے منھ پر دے مارا-پھر مجھے اٹھا کر پٹخ دیا اور میرے سینے پر چڑھ کر مجھے بے تحاشا مارنے لگا- 

وہاں میری مالکن یعنی ام فضل بھی موجود تھیں- انہوں نے ایک لکڑی کا پایہ اٹھا کر اتنے زور سے ابولہب کو مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا-ساتھ ہی ام فضل نے سخت لہجے میں کہا:

"تو اسے اس لیے کمزور سمجھ کر مار رہا ہے کہ اس کا آقا یہاں موجود نہیں-"

اس طرح ابولہب ذلیل ہوکر وہاں سے رخصت ہوا-جنگ بدر میں اس قدر ذلت آمیز شکست کے بعد ابولہب سات روز سے زیادہ زندہ نہ رہا-طاعون میں مبتلا ہوکر مرگیا- اسے دفن کرنے کی جرأت بھی کوئی نہیں کررہا تھا-آخر اسی حالت میں اس کی لاش سڑنے لگی،شدید بدبو پھیل گئی-تب اس کے بیٹوں نے ایک گڑھا کھودا اور لکڑی کے ذریعے اس کی لاش کو گڑھے میں دھکیل دیا- پھر دور ہی سے سنگ باری کرکے اس گڑھے کو پتھروں سے پاٹ دیا- 

اس شکست پر مکہ کی عورتوں نے کئی ماہ تک اپنے قتل ہونے والوں کا سوگ منایا-اس جنگ میں اسود بن ذمعہ نامی کافر کی تین اولادیں ہلاک ہوئیں-یہ وہ شخص تھا کہ مکہ میں جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا تھا،تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑایا کرتا تھااور کہتا تھا:

"لوگو!دیکھو تو!تمہارے سامنے روئے زمین کے بادشاہ پھررہے ہیں جو قیصر و کسری کے ملکوں کو فتح کریں گے!!!" 

اس کی تکلیف دہ باتوں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اندھا ہونے کی بددعا دی تھی،اس بددعا سے وہ اندھا ہوگیا تھا-بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے اندھا ہونے اور اس کی اولاد کے ختم ہوجانے کی بددعا فرمائی تھی-اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا قبول فرمائی،چنانچہ پہلے وہ اندھا ہوا،پھر اس کی اولاد جنگ بدر میں ماری گئی- 

جنگ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیدیوں کے بارے میں مشورہ فرمایا-حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ یہ تھا کہ ان کو فدیہ لے کررہا کردیا جائے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض مصلحتوں کے تحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ پسند فرمایا اور ان لوگوں کی جان بخشی کردی، ان سے فدیہ لے کر انہیں رہا کردیا-

تاہم اس سلسلے میں اللہ تعالٰی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کرتے ہوئے سورۃ الأنفال کی آیت 67تا70 نازل فرمائی-ان آیات میں اللہ تعالٰی نے واضح کیا کہ ان قیدیوں کو قتل کیا جانا چاہیے تھا- 

بدر کے قیدیوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند ابوالعاص رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے-اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ میں تھیں-جب زینب رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا کہ فدیہ لے کررہا کرنے کا فیصلہ ہوا ہے تو انہوں نے شوہر کے فدیہ میں اپنا ہار بھیج دیا-یہ ہار حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا-فدیے میں یہ ہار ابوالعاص رضی اللہ عنہ کا بھائی لے کر آیا تھا-اس نے ہار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا-ہار کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے-حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آ گئیں-حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:

"تم مناسب سمجھو تو زینب کے شوہر کو رہا کردو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کردو-"

صحابہ رضی اللہ عنہم نے فوراً کہا:

"ضرور یا رسول اللہ! 

چنانچہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو رہا کردیا گیا اور زینب رضی اللہ عنہا کا ہار لوٹادیا گیا-البتہ آپ نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے وعدہ لیا تھا کہ مکہ جاتے ہی وہ زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ بھیج دیں گے- انھوں نے وعدہ کرلیا- 

(یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی شادی ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے اس وقت ہوئی تھی جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت شروع نہیں کی تھی-جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت شروع کی تو مشرکین نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ پر زور دیا تھا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کو طلاق دے دیں،لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا-البتہ ابولہب کے دونوں بیٹوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی-ابھی صرف ان کا نکاح ہوا تھا،رخصتی نہیں ہوئی تھی-جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا تھا کہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے مشرکوں کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی-ابوالعاص رضی اللہ عنہ غزوہ بدر کے کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوگئے تھے-) 

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو لانے کے لیے مدینہ منورہ سے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا-ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے وعدے کے مطابق انہیں ان کے ساتھ بھیج دیا(اس وقت تک حجاب کا حکم نازل نہ ہوا تھا)اس طرح وہ مدینہ آگئیں-راستے میں کافروں نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی تھی،لیکن ابوالعاص کے بھائی ان کے راستے میں آگئے اور مشرک ناکام رہے- 

قیدیوں میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھائی ولید بن ولید (رضی اللہ عنہ) بھی تھے-انہیں ان کے بھائی ہشام اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے رہا کرایا-ان کا فدیہ ادا کیا گیا-جب وہ انہیں لے کر مکہ پہنچے تو وہاں انھوں نے اسلام قبول کرلیا-اس پران کے بھائی بہت بگڑے-انھوں نے کہا:

"اگر تم نے مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا تھا تو وہیں مدینہ میں کیوں نہیں ہوگئے-"

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 67


سازش ناکام ہوگئی 


بھائیوں کی بات کے جواب میں حضرت ولید بن ولید رضی اللہ عنہ بولے:

میں نے سوچا،اگر میں مدینہ منورہ میں مسلمان ہوگیا تو لوگ کہیں گے، میں قید سے گھبرا کر مسلمان ہوگیا ہوں-"

اب انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے بھائیوں نے ان کو قید کردیا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان کے لیے قنوت نازلہ میں رہائی کی دعا فرمانے لگے-آخر ایک دن ولید بن ولید رضی اللہ عنہ مکہ سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ منورہ پہنچ گئے- 

ایسے ہی ایک قیدی حضرت وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ(جو بعد میں اسلام لائے)نے بھی غزوہ بدر میں مسلمانوں سے جنگ کی تھی اور کافروں کی شکست کے بعد قیدی بنالیے گئے تھے-وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عمیر تھا....ان کے ایک دوست تھے، صفوان (رضی اللہ عنہ)-ان دونوں دوستوں کا تعلق مکہ کے قریش سے تھا-دونوں اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اور مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے-ایک روز یہ دونوں حجر اسود کے پاس بیٹھے تھے-دونوں بدر میں قریش کی شکست کے بارے میں باتیں کرنے لگے... قتل ہونے والے بڑے بڑے سرداروں کا ذکر کرنے لگے،صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اللہ کی قسم!ان سرداروں کے قتل ہوجانے کے بعد زندگی کا مزہ ہی ختم ہوگیا ہے-" 

یہ سن کر عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا:

"تم سچ کہتے ہو،خدا کی قسم!اگر مجھ پر ایک شخص کا قرض نہ ہوتا اور مجھے اپنے پیچھے بیوی بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)کے پاس پہنچ کر انہیں قتل کردیتا (معاذ اللہ)- میرے پاس وہاں پہنچنے کی وجہ بھی موجود ہے،میرا اپنا بیٹا وہب ان کی قید میں ہے،وہ بدر کی لڑائی میں شریک تھا..."

یہ سننا تھا کہ صفوان رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرتے ہوئے کہا:

"تمہارا قرض میرے ذمہ ہے،وہ میں ادا کروں گا اور تمہارے بیوی بچوں کی ذمہ داری بھی میرے ذمے ہے، جب تک وہ زندہ رہیں گے،میں ان کی کفالت کروں گا-" 

عمیر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا پختہ عزم کرلیا اور کہا:

"بس تو پھر ٹھیک ہے،یہ معاملہ میرے اور تمہارے درمیان راز رہے گا...نہ تم کسی سے اس ساری بات کا ذکر کروگے،نہ میں-" 

صفوان رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیا-عمیر رضی اللہ عنہ نے گھر جا کر اپنی تلوار نکالی،اس کی دھار کو تیز کیا اور پھر اس کو زہر میں بجھایا-پھر مکہ سے مدینہ کا رخ کیا- 

مسجد نبوی میں پہنچ کر عمیر رضی اللہ عنہ نے دیکھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے غزوہ بدر کی باتیں کررہے تھے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر ان پر پڑی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے،کیونکہ انھوں نے عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ لی تھی،انھوں نے کہا:

"یہ خدا کا دشمن ضرور کسی بُرے ارادے سے آیا ہے-" 

پھر وہ فوراً وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرۂ مبارک میں گئے اور عرض کیا:

"اللہ کے رسول!خدا کا دشمن عمیر ننگی تلوار لیے آیا ہے-"

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"عمر!اسے میرے پاس اندر لے آؤ-" 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً باہر نکلے،تلوار کا پٹکا پکڑ کر انہیں اندر کھینچ لائے-اس وقت وہاں کچھ انصاری موجود تھے-حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:

"تم لوگ بھی میرے ساتھ اندر آجاؤ...کیونکہ مجھے اس کی نیت پر شک ہے-"

چنانچہ وہ اندر آگئے-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمیر رضی اللہ عنہ کو اس طرح پکڑ کر لا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

" عمر!اسے چھوڑدو...عمیر!آگے آجاؤ-" 

چنانچہ عمیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب آگئے اور جاہلیت کے آداب کی طرح صبح بخیر کہا-حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"عمیر!ہمیں اسلام نے تمہارے اس سلام سے بہتر سلام عنایت فرمایا ہے،جو جنت والوں کا سلام ہے...اب تم بتاؤ،تم کس لیے آئے ہو؟" 

عمیر رضی اللہ عنہ بولے:

"میں اپنے قیدی بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں-" 

اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"پھر اس تلوار کا کیا مطلب...سچ بتاؤ،کس لیے آئے ہو؟" 

عمیر رضی اللہ عنہ بولے:

"میں واقعی اپنے بیٹے کی رہائی کے سلسلے میں آیا ہوں-" 

چونکہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے ارادے سے متعلق اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی پہلے سے بتادیا تھا،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

نہیں عمیر!یہ بات نہیں...بلکہ بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تم اور صفوان حجراسود کے پاس بیٹھے تھے اور تم دونوں اپنے مقتولوں کے بارے میں باتیں کررہے تھے، ان مقتولوں کی جو بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور جنہیں ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا تھا-اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر تمہیں کسی کا قرض نہ ادا کرنا ہوتا اور پیچھے تمہیں اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جاکر"محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو قتل کردیتا-اس پر صفوان نے کہا تھا،اگر تم یہ کام کرڈالو تو قرض کی ادائیگی وہ کردےگا اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی خیال وہی رکھےگا،ان کی کفالت کرےگا-مگر اللہ تعالٰی تمہارا ارادہ پورا ہونے نہیں دیں گے-" 

عمیر رضی اللہ عنہ یہ سن کر ہکّا بکّا رہ گئے،کیونکہ اس گفتگو کے بارے میں صرف انہیں پتا تھا یا صفوان رضی اللہ عنہ کو،چنانچہ اب عمیر رضی اللہ عنہ فوراً بول اُٹھے:

"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں،اور اے اللہ کے رسول!آپ پر جو آسمان سے خبریں آیا کرتی ہیں اور جو وحی نازل ہوتی ہے،ہم اس کو جھٹلایا کرتے تھے،جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے...تو اُس وقت حجر اسود کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی ہماری گفتگو کی کسی کو خبر ہے،کیونکہ ہم نے رازداری کا عہد کیا تھا- اس لیے اللہ کی قسم!آپ کو اللہ تعالٰی کے سوا اور کوئی اس بات کی خبر نہیں دےسکتا،پس حمدوثنا ہے اس ذاتِ باری تعالٰی کے لیے جس نے اسلام کی طرف میری رہنمائی کی اور ہدایت فرمائی اور مجھے اس راستے پر چلنے کی توفیق فرمائی-"

اس کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے،تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:

"اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو اور انہیں قرآن پاک پڑھاؤ اور ان کے قیدی کو رہا کرو-" 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فوراً حکم کی تعمیل کی-

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 68


سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی رخصتی 


اب حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:"اے اللہ کے رسول!میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اللہ کے اس نور کو بجھادوں اور جو لوگ اللہ کے دین کو قبول کرچکے ہیں،انہیں خوب تکالیف پہنچایا کرتا تھا-اب میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیں،تاکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں اور اسلام کی دعوت دوں-ممکن ہے،اللہ تعالٰی انہیں ہدایت عطا فرمادیں-"

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں مکہ جانے کی اجازت دے دی،چنانچہ یہ واپس مکہ آگئے-ان کی تبلیغ سے ان کے بیٹے وہب رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے- 

جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ عمیر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ بھونچکا رہ گئے اور قسم کھا لی اب کبھی عمیر رضی اللہ عنہ سے نہیں بولیں گے-اپنے گھر والوں کو دین کی دعوت دینے کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ صفوان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور پکار کہا:

"اے صفوان!تم ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہو،تمہیں معلوم ہے کہ ہم پتھروں کو پوجتے رہے ہیں اور اور ان کے نام پر قربانیاں دیتے رہے ہیں،بھلا یہ بھی کوئی دین ہوا...میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں-"

ان کی بات سن کر صفوان رضی اللہ عنہ نے کوئی جواب نہ دیا-بعد میں فتح مکہ کے موقع پر عمیر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے امان طلب کی تھی اور پھر یہ بھی ایمان لے آئے تھے-(ان کے اسلام لانے کا قصہ فتح مکہ کے موقع پر تفصیل سے آئے گا-ان شاء اللہ)- 

اسی طرح ان قیدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے- صحابہ کرام نے انہیں بہت سختی سے باندھ رکھا تھا- رسی کی سختی انہیں بہت تکلیف دے رہی تھی اور وہ کراہ رہے تھے-ان کی اس تکلیف کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بھی تمام رات بےچین رہے... جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس وجہ سے بےچین ہیں تو فوراً حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی رسیاں ڈھیلی کردیں...یہی نہیں!باقی تمام قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردیں...پھر انھوں نے اپنا فدیہ ادا کیا اور رہا ہوئے،اسی موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے تھے مگر انھوں نے مکہ والوں سے اپنا مسلمان ہونا پوشیدہ رکھا- 

قیدیوں میں ایک قیدی ابوعزہ جمحی بھی تھا-اس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے التجا کی:

"اے اللہ کے رسول!میں بال بچوں والا آدمی ہوں اور خود بہت ضرورت مند ہوں...میں فدیہ نہیں ادا کرسکتا...مجھ پر رحم فرمائیں-" 

یہ شاعر تھا،مسلمانوں کے خلاف شعر لکھ لکھ کر آپ کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا-اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی درخواست منظور فرمائی اور بغیر فدیے کے اسے رہا کردیا...البتہ اس سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں لکھے گا...اس نے وعدہ کرلیا،لیکن رہا ہونے کے بعد جب یہ مکہ پہنچا تو اس نے پھر اپنا کام شروع کردیا-مسلمانوں کے خلاف اشعار لکھنے لگا-یہ مکہ کے مشرکوں سے کہا کرتا تھا:

"میں نے محمد پر جادو کردیا تھا،اس لیے انھوں نے مجھے بغیر فدیے کے رہا کردیا-" 

اگلے سال یہ شخص غزوہ احد کے موقع پر کافروں کے لشکر میں شامل ہوا اور اپنے اشعار سے کافروں کو جوش دلاتا رہا-اسی لڑائی میں یہ قتل ہوا- 

بدر کے فتح کی خبر شاہِ حبشہ تک پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے-حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے مسلمان اس وقت تک حبشہ ہی میں تھے-شاہِ حبشہ نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر یہ خوش خبری سنائی- 

بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے صحابہ بدری کہلائے- نہیں بہت فضیلت حاصل ہے- 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"اللہ تعالٰی نے اصحابِ بدر پر اپنا خاص فضل و کرم فرمایا ہے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ جو چاہو کرو،میں تمہارے گناہ معاف کرچکا......یا یہ فرمایا کہ تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے-" 

مطلب یہ ہے کہ ان کے سابقہ گناہ تو معاف ہو ہی چکے ہیں،آئندہ بھی اگر ان سے کوئی گناہ ہوئے تو وہ بھی معاف ہیں-

غزوہ بدر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردی-شادی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ سے پوچھا:

"بیٹی تمہارے چچازاد بھائی علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے تمہارا رشتہ آیا ہے،تم اس بارے میں کیا کہتی ہو؟" 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں-گویا انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا-تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے پوچھا:

"تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟"(یعنی شادی کے لیے کیا انتظام ہے؟) 

انھوں نے جواب دیا:

"میرے پاس صرف ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے-" 

یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے،البتہ تم زرہ کو فروخت کردو-" 

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ زرہ چارسواسی درہم میں فروخت کردی اور رقم لاکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کردی- 

اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتا چلا کہ شادی کے سلسلے میں حضرت علی اپنی زرہ بیچ رہے ہیں تو انھوں نے فرمایا:

"یہ زرہ اسلام کے شہسوار علی کی ہے،یہ ہرگز فروخت نہیں ہونی چاہیے-" 

پھر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غلام کو بلایا اور انہیں چارسو درہم دیتے ہوئے کہا:

یہ درہم اس زرہ کے بدلے میں علی کو دے دیں-"

ساتھ ہی انھوں نے زرہ بھی واپس کردی...بہرحال اس طرح شادی کا خرچ پورا ہوا-حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا خطبہ پڑھا- پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کے لیے دعا فرمائی- 

غزوہ بدر کے بعد غزوہ بنی قینقاع پیش آیا-قینقاع یہودیوں کے ایک قبیلے کا نام تھا-یہودیوں میں یہ لوگ سب سے زیادہ جنگجو شمار ہوتے تھے-مدینہ منورہ میں آمد کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ فرمایا تھا-معاہدے میں طے ہوا تھا کہ یہ لوگ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے پر نہیں آئیں گے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں کو کوئی مدد دیں گے-جن لوگوں سے معاہدہ ہوا۔ان میں یہ تین قبیلے شامل تھے-بنی قینقاع،بنی قریظہ اور بنی نظیر- 

معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی دشمن مسلمانوں پر حملہ کرے گا تو یہ تینوں قبیلے مسلمانوں کی پوری پوری مدد کریں گے-ان کا ہر طرح ساتھ دیں گے،لیکن ان لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی-انھوں نے ایک مسلمان عورت سے بدتمیزی کی-ان کی بدتمیزی کو پاس سے گزرتے ہوئے ایک صحابی نے دیکھ لیا،انھوں نے اس یہودی کو قتل کردیا،یہ دیکھ کر محلے کے یہودیوں نے مل کر ان صحابی کو شہید کردیا-اس خبر کے پھیلنے پر وہاں اور مسلمان جمع ہوگئے-

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 69


 یہودیوں کے خلاف پہلا جہاد


حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے یہودیوں کو جمع کر کے ان سے فرمایا۔

اے یہودیو۔تم اللہ تعالٰی کی طرف سے ایسی تباہی سے بچنے کی کوشش کرو جیسی بدر کے موقع پر قریش پر نازل ہوئی ہے،اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ،تم جانتے ہو کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس حقیقت کو تم اپنی کتاب میں درج پاتے ہو۔

اس پر یہودیوں نے کہا۔

اے محمد۔آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی قوم کی طرح ہیں،اس دھوکے میں نہ رہیے گا،کیونکہ اب تک آپ کو ایسی قوموں سے سابقہ پڑا ہے جو جنگ اور اس کے طریقے نہیں جانتے۔لہذا آپ نے انہیں آسانی سے زیر کر لیا،لیکن اگر آپ نے ہم سے جنگ کی تو خدا کی قسم آپ کو پتا چل جائے گا کہ کیسے بہادروں سے پالا پڑا ہے۔

ان کے یہ الفاظ کہنے کی دراصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ جنگجو اور عسکری فنونِ کے بہت ماہر تھے۔پھر یہودیوں میں سب سے زیادہ دولت مند تھے،ہر قسم کا بہترین اسلحہ ان کے پاس تھا۔ان کے قلعے بھی بہت مضبوط تھے۔ان کے الفاظ پر اللہ تعالٰی کی طرف سے سورۃ آل عمران کی آیت نازل ہوئی۔

ترجمہ۔اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ بہت جلد تم (مسلمانوں کے ہاتھوں) شکست کھاؤ گے اور آخرت میں جہنم کی طرف جمع کر کے لے جائے جاؤ گے اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔

اس دھمکی کے بعد بنی قینقاع قلعہ بند ہو گئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم اس غزوہ میں سفید رنگ کا تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی بستیوں کا محاصرہ کر لیا۔یہ محاصرہ بہت سخت تھا۔پندرہ دن تک جاری رہا۔آخر اللہ تعالٰی نے ان یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب طاری کر دیا۔وہ اس محاصرے سے تنگ آ گئے،حالانکہ ان یہودیوں میں اس وقت تقریباً 700 جنگجو تھے۔اب انہوں نے درخواست کی کہ ہم یہاں سے نکل کر جانے کے لیے تیار ہیں،شرط یہ ہے کہ انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا جائے۔اس صورت میں وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہماری عورتیں اور بچوں کو بھی جانے دیا جائے۔مال و دولت اور ہتھیار وغیرہ وہ یہیں چھوڑ جائیں گے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور فرما لی۔اور انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا۔ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال غنیمت آیا۔ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکل جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی گئی۔یہ لوگ وہاں سے نکل کر ملک شام کی ایک بستی میں جا بسے۔ایک روایت کے مطابق ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کا اثر تھا۔

غزوہ قینقاع کے بعد چند چھوٹے چھوٹے غزوات اور ہوئے۔کچھ دنوں بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا-حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا-یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے-ان دونوں میں نبھ نہ سکی،لہٰذا طلاق ہوگئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا-یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فرمایا تھا اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تھی جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

"زینب کو جاکر خوشخبری سنادو،اللہ تعالٰی نے آسمان پر ان سے میرا نکاح کردیا ہے-"

اس بارے میں اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں آیت بھی نازل فرمائی...تاکہ لوگ شک و شبہ نہ کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا ہے-دراصل عرب کے جہالت زدہ معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح محرم سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے شادی ناجائز سمجھی جاتی تھی،ساتھ ساتھ اسے وراثت میں بھی حصہ ملتا تھا-اسلام نے اس فرسودہ رسم کو بالکل ختم کردیا اس کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دعوت ولیمہ بھی کھلائی- اسی روز پردے کی آیت نازل ہوئی- 

3ھ میں غزوہ احد پیش آیا-احد پہاڑ مدینہ منورہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے-اس پہاڑ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

یہ احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں-جب تم اس کے پاس سے گزرو تو اس کے درختوں کا پھل تبرک کے طور پر کھا لیا کرو،چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو-"

غزوہ احد کیوں ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ غزوہ بدر میں کافروں کو بدترین شکست ہوئی تھی-کافر جمع ہوکر اپنے سردار حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا:

"بدر کی لڑائی میں ہمارے بے شمار آدمی میں قتل ہوئے ہیں-ہم ان کے خون کا بدلہ لیں گے...آپ تجارت سے جو مال کما کر لاتے ہیں،اس مال کے نفع سے جنگ کی تیاری کی جائے-"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کی بات منظور کرلی اور جنگ کی تیاریاں زورشور سے شروع ہوگئیں-کہا جاتا ہے کہ سامانِ تجارت سے جو نفع ہوا تھا،وہ پچاس ہزار دینار تھا-غزوہ بدر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوحمزہ شاعر کو فدیہ لیے بغیر رہا کردیا تھا،اور اس سے اقرار لیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف شعر نہیں کہے گا...اب جب جنگ کی تیاریاں شروع ہوئیں تو لوگوں نے اس سے کہا:

"تم اپنے اشعار سے جوش پیدا کرو-" 

پہلے تو ابوحمزہ نے انکار کیا،کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وعدہ کر آیا تھا،لیکن پھر وعدہ خلافی پر اتر آیا اور اشعار پڑھنے لگا- 

آخر قریشی لشکر مکہ معظمہ سے نکلا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا-قریش کے لشکر میں عورتیں بھی تھیں-عورتیں بدر میں مارے جانے والوں کا نوحہ کرتی جاتی تھیں-اس طرح یہ اپنے مردوں میں جوش پیدا کررہی تھیں،انہیں شکست کھانے یا میدان جنگ سے بھاگ جانے پر شرم دلا رہی تھیں- 

قریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھیجی-انہوں نے یہ اطلاع ایک خط کے ذریعے بھیجی- خط لے جانے والے نے تین دن رات مسلسل سفر کیا اور یہ خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا-آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت قبا میں تھے

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 70


 غزوہ احد کی تیاری


حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبا سے مدینہ منورہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قریشی لشکر سے مقابلے کے سلسلے میں مشورہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ قریش پر شہر سے باہر حملہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر اپنا دفاع کیا جائے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اگر تمہاری رائے ہو تو تم مدینہ منورہ میں رہ کر ہی مقابلہ کرو،ان لوگوں کو وہیں رہنے دو،جہاں وہ ہیں،اگر وہ وہاں پڑے رہتے ہیں تو وہ جگہ ان کے لیے بدترین ثابت ہوگی اور اگر ان لوگوں نے شہر میں آ کر ہم پر حملہ کیا تو ہم شہر میں ان سے جنگ کریں گے اور شہر کے پیچ و خم کو ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں-"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رائے دی تھی،تمام بڑے صحابہ کرام کی بھی وہی رائے تھی-منافقوں کے سردار عبداللہ ابن اُبی نے بھی یہی مشورہ دیا-یہ شخص ظاہر میں مسلمان تھا اور اپنے لوگوں کا سردار تھا-

دوسری طرف کچھ پرجوش نوجوان صحابہ اور پختہ عمر کے صحابہ یہ چاہتے تھے کہ شہر سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے-یہ مشورہ دینے والوں میں زیادہ وہ لوگ تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور انہیں اس کا بہت افسوس تھا-وہ اپنے دلوں کے ارمان نکالنا چاہتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے کہا:

"ہمیں ساتھ لے کر دشمنوں کے مقابلے کے لیے باہر چلیں تاکہ وہ ہمیں کمزور اور بزدل نہ سمجھیں،ورنہ ان کے حوصلے بہت بڑھ جائیں گے اور ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ ہمیں دھکیلتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آئیں اور اے اللہ کے رسول!جو شخص بھی ہمارے علاقے میں آیا،ہم سے شکست کھاکر گیا ہے،اب تو آپ ہمارے درمیان موجود ہیں،اب دشمن سے کیسے ہم پر غالب آسکتا ہے؟"

حضرت حمزہ رضی االلہ عنہ نے بھی ان کی تائید کی-آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات مان لی- پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور لوگوں کے سامنے وعظ فرمایا-انہیں حکم دیا:

" مسلمانو! پوری تن دہی اور ہمت کے ساتھ جنگ کرنا،اگر تم لوگوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے،اب دشمن کے سامنے جاکر لڑنے کی تیاری کرو-"

لوگ یہ حکم سن کر خوش ہوگئے-اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی-اس وقت تک ارد گرد سے بھی لوگ آگئے تھے- پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تشریف لے گئے-ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر عمامہ باندھا اور جنگی لباس پہنایا-باہر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے اور صفیں باندھے کھڑے تھے- 

اس وقت حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما نے مسلمانوں سے کہا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی شہر میں رہ کر لڑنے کی تھی،تم لوگوں نے انہیں باہر نکل کر لڑنے پر مجبور کیا...بہتر ہوگا،تم اب بھی اس معاملے کو ان پر چھوڑ دو-حضورصلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم دیں گے،ان کی جو بھی رائے ہوگی،بھلائی اسی میں ہوگی،اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمابرداری کرو-"

باہر یہ بات ہورہی تھی،اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی لباس پہن رکھا تھا،دوہری زرہ پہن رکھی تھی- ان زرہوں کا نام ذات الفضول اور فضہ تھا-یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی قینقاع سے مال غنیمت سے ملی تھیں- 

ان میں سے ذات الفضول وہ ذرہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہودی کی رقم ادا کرکے اسے واپس لیا تھا- زرہیں آپ صلی للہ علیہ وسلم نے لباس کے اوپر پہن رکھی تھیں-اس وقت ان نوجوانوں نے عرض کیا:

"اللہ کے رسول!ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ کی رائے کی مخالفت کریں یا آپ کو مجبور کریں،لہٰذا آپ جو مناسب سمجھیں،وہ کریں-" 

اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"اب میں ہتھیار لگا چکا ہوں اور کسی نبی کے لیے ہتھیار لگانے کے بعد ان کا اتار دینا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ اللہ تعالی اس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرمادے-" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر تین پرچم بنوائے-ایک پرچم قبیلہ اوس کا تھا-یہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا-دوسرا پرچم مہاجرین کا تھا،یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا-تیسرا پرچم قبیلہ خزرج کا تھا،یہ حباب بن منذر رضی اللہ عنہ یا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا-

اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے-لشکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما چل رہے تھے-یہ دونوں قبیلہ اوس اور خزرج کے سردار تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا،مدینہ منورہ سے کوچ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثنیہ کے مقام پر پہنچے- پھر یہاں سے روانہ ہوکر شیخین کے مقام پر پہنچے، شیخین دو پہاڑوں کا نام تھا-یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کا معائنہ فرمایا اور کم عمر نوجوانوں کو واپس بھیج دیا-یہ ایسے نوجوان تھے جو ابھی پندرہ سال کے نہیں ہوئے تھے-ان کم سن مجاہدوں میں رافع بن خدیج اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما بھی تھے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دے دی-یہ دیکھ کر حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا: 

"آپ نے رافع کو اجازت دے دی جب کہ مجھے واپس جانے کا حکم فرمایا،حالانکہ میں رافع سے زیادہ طاقت ور ہوں-" 

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اچھا تو پھر تم دونوں میں کشتی ہوجائے-"

دونوں میں کشتی کا مقابلہ ہوا،سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو پچھاڑ دیا-اس طرح انہیں بھی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت ہوگئی-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کے معائنے سے فارغ ہوئے تو سورج غروب ہوگیا-حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اذان دی-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی- پھر عشاء کی نماز ادا کی گئی-نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانے کے لیے لیٹ گئے-رات کے وقت پہرہ دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس مجاہدوں کو مقرر کیا-ان کا سالار حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا-یہ تمام رات اسلامی لشکر کے گرد پہرہ دیتے رہے-رات کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین سے کوچ فرمایا اور صبح کی نماز کے وقت احد پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 71


 معرکہ احد کا آغاز


اسلامی لشکر نے جہاں پڑاؤ ڈالا اس مقام کا نام شوط تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں فجر کی نماز ادا فرمائی۔اس وقت لشکر میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا، یہ منافق تھا۔اس کے ساتھ تین سو جوان تھے، یہ سب کے سب منافق تھے۔اس مقام پر پہنچ کر عبداللہ بن ابی نے کہا! 

"آپ نے میری بات نہیں مانی اور ان نوعمرلڑکوں کا مشورہ مانا۔حالانکہ ان کا مشورہ کوئی مشورہ ہی نہیں ہے۔اب خود ہی ہماری رائے کے بارے میں اندازہ ہوجائے گا، ہم بلاوجہ کیوں جانیں دیں۔اس لیئے ساتھیو! واپس چلو. "

اس طرح یہ لوگ واپس لوٹ گئے۔اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات سو صحابہ رہ گئے۔اس روز مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔ان میں سے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور دوسرا ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔شوط کے مقام سے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی گھاٹی میں پڑاؤ ڈالا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالتےوقت اس بات کا خیال رکھا کہ پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کی طرف رہے۔

اس جگہ رات بسر کی گئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی آذان دی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صفیں قائم کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔نماز کے بعد حضور ﷺ نے مسلمانوں کو خطبہ دیا ۔اس میں جہاد کے بارےمیں ارشاد فرمایا ۔جہاد کے علاوہ حضور ﷺ نے حلال روزی کمانے کے بارےمیں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا: 

جبرئیل (علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ وحی ڈالی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اپنے حصے کے رزق کا ایک ایک دانہ حاصل نہیں کرلیتا (چاہے کچھ دیر میں حاصل ہو مگر اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی) ۔اس لیے اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور رزق کی طلب میں نیک راستے اختیار کرو (ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہئے کہ رزق میں دیر لگنے کی وجہ سے تم الله کی نافرمانی حاصل کرنے لگو) ۔

آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: 

ایک مومن کا دوسرے مومن سے ایسا ہی رشتہ ہے جیسے سر اور بدن کا رشتہ ہوتاہے ۔اگر سر میں تکلیف ہو تو سارا بدن درد سے کانپ اٹھتا ہے....

اس کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ۔مشرکوں کے لشکر کے دائیں بائیں خالد بن ولید اور عکرمہ تھے ۔یہ دونوں حضرات اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ دے کر فرمایا: 

تم خالد بن ولید کےمقابلے پر رہنا اور اس وقت تک حرکت نہ کرنا جب تک کہ میں اجازت نہ دوں ۔پھر آپ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کے ایک دستے پر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں اس درے پر متعین فرمایا جو مسلمانوں کی پشت پر تھا ۔اس درے پر پچاس تیر انداز مقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پشت کی طرف سے دشمن حملہ نہ کرسکے ۔حضور اکرم ﷺ نے ان پچاس تیر اندازوں سے فرمایا: تم مشرکوں کے گھڑ سوار دستوں کو تیر اندازی کرکے ہم سے دور ہی رکھنا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پشت کی طرف سے آکر حملہ کردیں، ہمیں چاہے فتح ہو یا شکست.....تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا ۔اس کے بعد حضور اکرمﷺنے ایک تلوار نکالی اور فرمایا: 

کون مجھ سے یہ تلوار لےکر اس کا حق ادا کرسکتا ہے؟...

اس پر کئی صحابہ کرام اٹھ کر آپ ﷺ کی طرف لپکے، لیکن آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں نہيں دی ۔ان حضرات میں حضرت علی رضی الله عنہ بھی تھے ۔آپ ﷺ نے ان صحابہ سے فرمایا: 

بیٹھ جاؤ ۔

حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی وہ تلوار لینے کی تین بار کوشش کی، مگر آپ ﷺ نے ہر مرتبہ انکار کردیا ۔آخر صحابہ کے مجمع میں سے حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: 

میں اس تلوار کا حق ادا کروں گا ۔

آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں عطا فرمادی ۔ابودجانہ رضی الله عنہ بےحد بہادر تھے، جنگ کے دوران غرور کے انداز میں اکڑ کر چلا کرتےتھے ۔جب آپ ﷺ نے انہیں دونوں لشکروں کے درمیان اکڑ کر چلتے دیکھا تو فرمایا: یہ چال ایسی ہے جس سے اللہ تعالی نفرت فرماتا ہے،سوائے اس قسم کے موقعوں کے ۔(یعنی دشمنوں کا سامنا کرتے وقت یہ چال جائز ہے تاکہ یہ ظاہر ہوکہ ایسا شخص دشمن سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہے اور نہ اسے دشمن کے جنگی ساز و سامان کی پروا ہے ۔) پھر دونوں لشکر ایک دوسرے کے بالکل نزدیک آگئے ۔اس وقت مشرکوں کے لشکر سے ایک اونٹ سوار آگے نکلا اور مبارزت طلب کی یعنی مقابلے کے لیے للکارا ۔اس نے تین مرتبہ پکارا۔تب حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اسلامی صفوں سے نکل کر اس کی طرف بڑھے ۔حضرت زبیر رضی الله عنہ اس وقت پیدل تھے ۔جب کہ دشمن اونٹ پر سوار تھا ۔اس کے نزدیک پہنچتے ہی حضرت زبیر رضی الله عنہ ایک دم زور سے اچھلے اور اس کی اونچائی کے برابر پہنچ گئے ۔ساتھ ہی انہوں نے اس کی گردن پکڑلی....

دونوں میں اونٹ پر ہی زورآزمائی ہونے لگی ۔ان کی زورآزمائی دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔

ان میں سے جو پہلے نیچے گرے گا، وہی مارا جائےگا ۔اچانک وہ مشرک نیچے گرا پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس پر گرے، گرتے ہی انہوں نے فوراﹰ ہی اس پر تلوار کا وار کیا اور وہ جہنم رسید ہوگیا ۔

آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی: 

ہر نبی کا ایک حواری (یعنی خاص ساتھی) ہوتاہے اور میرے حواری زبیر ہیں ۔پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔اگر اس مشرک کے مقابلے کے لیے زبیر نہ نکلتے تو میں خود نکلتا ۔اس کے بعد مشرکوں کی صفوں میں سے ایک اور شخص نکلا ۔اس کا نام طلحہ بن ابو طلحہ تھا ۔یہ قبیلہ عبدالدار سے تھا ۔اس کے ہاتھ میں پرچم تھا ۔اب اس نے مبارزت طلب کی ۔اس نے بھی کئی بار مسلمانوں کو للکارا، تب حضرت علی رضی الله عنہ مسلمانوں کی صفوں میں سے نکل کر اس کے سامنے پہنچ گئے، اب ان دونوں میں مقابلہ شروع ہوا ۔دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار کے وار کیے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک وار اس کی ٹانگ پر لگا ۔ٹانگ کٹ گئی ۔وہ بری طرح گرا اور اس کے کپڑے الٹ گئے ۔اس طرح وہ برہنہ ہوگیا ۔وہ پکار اٹھا: 

میرے بھائی میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 72


 حق اداکردیا


حضرت علی رضی الله عنہ طلحہ بن ابو طلحہ کو چھوڑ کر لوٹ آئے... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: 

"اے علی! تم نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟ "

انہوں نے عرض کیا: 

"اللّٰه کے رسول! اس نے مجھے خدا کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی تھی۔"

آپﷺ نے ارشاد فرمایا: 

"اسے قتل کر آؤ۔"

چنانچہ حضرت علی رضی الله عنہ گئے اور اسے قتل کرڈالا۔اس کے قتل کے بعد مشرکوں کا پرچم اس کے بھائی عثمان بن ابوطلحہ نے لے لیا۔اس کے مقابلے پر حضرت حمزہ رضی الله عنہ آئے۔انہوں نے اس کے نزدیک پہچتے ہی تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کا کندھا کٹ گیا۔ وہ گر پڑا، اور دوسرے وار سے انہوں نے اس کا خاتمہ کردیا۔

اب طلحہ کا بیٹا مسافع آگے بڑھا۔حضرت عاصم بن ثابت بن ابوالافلح رضی الله عنہ نے اس پر تیر چلایا، وہ بھی ہلاک ہوگیا۔اس کے بعد اس کا بھائی حارث میدان میں نکلا، حضرت عاصم رضی الله عنہ نے اسے بھی تاک کر تیر مارا، وہ بھی مارا گیا۔

ان دونوں کی ماں بھی لشکر میں موجود تھی۔اس کا نام سلافہ تھا۔اس کے دونوں بیٹوں نے ماں کی گود میں دم توڑا۔مرنے سے پہلے سلافہ نے پوچھا: 

"بیٹے! تمہیں کس نے زخمی کیا ہے؟"

ایک بیٹے نے جواب دیا: 

"میں نے اس کی آواز سنی ہے، تیر چلانے سے پہلے اس نے کہا تھا، لے اس کو سنبھال، میں ابوالافلح کا بیٹا ہوں۔"

اس جملے سے سلافہ جان گئی کہ وہ تیر انداز حضرت عاصم بن ثابت رضی الله عنہ ہیں، چنانچہ اس نے قسم کھائی۔

"اگر عاصم کا سر میرے ہاتھ لگا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔"

ساتھ ہی اس نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی عاصم بن ثابت کا سر کاٹ کر لائے گا، میں اسے سو اونٹ انعام میں دوں گی۔"

حضرت عاصم رضی الله عنہ اس جنگ میں شہید نہیں ہوئے، یہ واقعہ رجیع میں شہید ہوئے جس کا ذکر اپنے وقت پر آئے گا، انشاءاللہ! 

ان دونوں کے قتل کے بعد ان کے بھائی کلاب بن طلحہ نے پرچم اٹھالیا، اسے حضرت زبیر رضی الله عنہ نے قتل کردیا، کلاب کے بعد اس کے بھائی جلاس بن طلحہ نے پرچم اٹھایا۔

اسے حضرت طلحہ بن عبید رضی الله عنہ نے قتل کر دیا۔اس طرح یہ چاروں اپنے باپ کی طرح وہیں قتل ہوگئے۔ان کے چچا عثمان بن طلحہ اور ابوسعید بن طلحہ بھی اسی غزوہ احد میں مارے گئے تھے۔ 

اس کے بعد قریشی پرچم ارطاۃ بن شرجیل نے اٹھایا، اس کے مقابلے میں حضرت علی رضی الله عنہ آئے، وہ ان کے ہاتھوں مارا گیا۔ 

اس کے بعد شریح ابن قارظ نے پرچم اٹھایا،وہ بھی مارا گیا۔روایت میں یہ نہیں آیا کہ یہ کس کے ہاتھوں مارا گیا۔اس کے بعد پرچم ابو زید بن عمرو نے اٹھایا، اسے حضرت قزمان رضی الله عنہ نے قتل کیا، اس کے بعد ان لوگوں کے غلام صواب نے پرچم اٹھایا، یہ ایک حبشی تھا۔اس نے لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ اس کا ایک ہاتھ کٹ گیا، یہ جلدی سے بیٹھ گیا، پرچم کو اپنی گردن اور سینے کے سہارے اٹھائے رہا یہاں تک کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔

اب عام جنگ شروع ہوگئی۔دونوں لشکر ایکدوسرے پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوئے۔ اس جنگ کے شروع ہی میں مشرکوں کے گھڑسوار دستے نے تین مرتبہ اسلامی لشکر پر حملہ کیا۔مگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پہاڑی کے اوپر تیراندازوں کا جو دستہ مقرر فرمایا تھا، وہ ہر مرتبہ تیروں کی باڑھ مارکر اس دستے کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا تھا۔مشرکین تینوں مرتبہ بدحواسی کے عالم میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔

اس کے بعد مسلمانوں نے مشرکوں پر بھرپور حملہ کیا۔یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ مشرکوں کی طاقت کو زبردست نقصان پہنچا۔اس وقت لڑائی پورے زوروں پر تھی۔

مشرکوں کی عورتوں میں ہندہ بھی تھی۔ یہ ابوسفیان کی بیوی تھی۔ اس وقت تک یہ اسلام نہ لائی تھیں اور مسلمانوں کی سخت ترین دشمن اور بہت تند مزاج تھیں۔انہوں نے اپنے ہاتھوں میں دف لےلیا، اور ان کے ساتھ دوسری عورتیں بھی تھیں... انہوں نے بھی دف لے لیے۔اب سب مل کر دف بجانے لگیں اور گیت گانے لگیں۔یہ قدم انہوں نے اپنے مردوں کو جوش دلانے کے لئے اٹھایا۔

ادھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ابودجانہ رضی الله عنہ کو جو تلوار عطا فرمائی تھی، انہوں نے اس کا حق ادا کردیا۔حضرت زبیر بن عوام رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا تو میرے تین مرتبہ تلوار مانگنے کے باوجود آپ نے وہ تلوار مجھے مرحمت نہ فرمائی، حالانکہ میں آپ کا پھوپھی زاد تھا۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تلوار ابودجانہ کو دے دی تو میں نے دل میں کہا، دیکھتا ہوں کہ یہ اس تلوار کا حق کس طرح ادا کرتے ہیں؟ اس کے بعد میں نے ان کا پیچھا کیا اور سائے کی طرح ان کے ساتھ لگا رہا۔میں نے دیکھا انھوں نے اپنے موزے میں سےایک سرخ رنگ کی پٹی نکالی، اس پٹی پر ایک طرف لکھا تھا، اللّٰه کی مدد اور فتح قریب ہے۔دوسری طرف لکھا تھا، جنگ میں بزدلی شرم کی بات ہے، جو میدان سے بھاگا وہ جہنم کی آگ سے نہیں بچ سکتا۔یہ پٹی نکال کر انھوں نے اپنے سر پر باندھ لی۔انصاری مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو وہ بول اٹھے: 

"ابودجانہ نے موت کی پٹی باندھ لی ہے۔"

انصاریوں میں یہ بات مشہور تھی کہ حضرت ابودجانہ رضی الله عنہ جب یہ پٹی سر پر باندھ لیتے تو پھر دشمنوں پر اس طرح ٹوٹتے ہیں کہ کوئی ان کے مقابلے پر ٹک نہیں سکتا۔

چنانچہ اس پٹی کے باندھنے کے بعد انہوں نے انتہائی خوفناک انداز میں جنگ شروع کردی۔وہ دشمن پر موت بن کر گرے، انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔دشمنوں کو اس حد تک قتل کیا کہ آخر یہ تلوار مڑگئ اور مڑ کر درانتی جیسی ہوگئ۔

اس وقت مسلمان پکار اٹھے: 

"ابودجانہ نے واقعی تلوار کا حق ادا کردیا۔"

حضرت زبیر رضی الله عنہ کہتے ہے کہ مشرکوں میں ایک شخص میدان جنگ میں زخمی مسلمانوں کو تلاش کرکر کے شہید کررہا تھا۔ میری نظر اس پر پڑی تو میں نے دعا مانگی: 

" یا اللّٰه! اس کا سامنہ ابودجانہ سے ہوجائے۔"

اللّٰه نے میری دعا قبول فرمائی اور اس کا آمنا سامنا ابودجانہ رضی الله عنہ سے ہوگیا۔ 

اب دونوں میں تلوار کے وار ہونے لگے۔اچانک اس مشرک نے ابودجانہ رضی الله عنہ پر تلوار بلند کی۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 73


 پانسہ پلٹ گیا


مشرک کے اس وار کو ابودجانہ رضی الله عنہ نے اپنی چمڑے کی ڈھال پر روکا۔مشرک کی تلوار ان کی ڈھال میں پھنس گئ۔بس اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابودجانہ رضی الله عنہ نے فوراً اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔ 

حضرت سعد بن وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ایک موقع پر میں نے ابودجانہ رضی الله عنہ کو وہی تلوار ہند بنت عتبہ کو قتل کرنےکے لئے بلند کرتے دیکھا، لیکن پھر انہوں نے اس عورت کو قتل نہ کیا۔ اس بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: 

"میں نے مناسب نہ سمجھا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تلوار سے ایک عورت کا قتل کروں، اس لیے اسے چھوڑ کر ہٹ آیا۔"

حضرت حمزہ رضی الله عنہ بھی ان کی طرح انتہائی سرفروشی سے جنگ کر رہے تھے۔ اس روز حضرت حمزہ رضی الله عنہ بیک وقت دو تلواروں سے لڑ رہے تھے، یعنی ان کے دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھیں... اور لڑتے ہوئے وہ کہتے جارہے تھے: 

"میں اللّٰه کا شیر ہوں۔"ایسے میں سباع بن عبدالعزی ان کے سامنے آ گیا۔انہوں نے اسے للکارا ۔پھر تیزی سے اس کی طرف بڑھے اور اس کے سر پر پہنچ کر تلوار کا وار کیا، سباع فوراً ہی ڈھیر ہوگیا۔

حضرت حمزہ رضی الله عنہ اس روز اس قدر دلیری سے لڑے کہ ان کے ہاتھ سے 31 مشرک مارے گئے۔سباع کو قتل کرنے کے بعد وہ اس کی ذرہ اتارنے کے لیے جھکے۔اس وقت حضرت وحشی کی نظر ان پر پڑی جو اس وقت مشرکین کے لشکر میں شامل تھے۔جھکنے کی وجہ سے حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی ذرہ پیٹ پر سے سرک گئ تھی۔ حضرت وحشی یہ واقعہ سناتے ہوئے فرماتے تھے "میں نے فوراً نیزہ تاک کر مارا، وہ ان کے پیٹ میں لگا، میں ان کی طرف بڑھا۔انہوں نے مجھے دیکھا اور شدید زخمی حالت کے باوجود انہوں نے اٹھ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن پھر کمزوری کی وجہ سے گر گئے۔کچھ دیر تک میں ایک طرف دبکا رہا جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ ان کی روح نکل چکی ہے، تب ان کے قریب گیا۔وہ واقعی شہید ہوچکے تھے۔میں وہاں سے ہٹ آیا اور اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا۔کیونکہ مجھے صرف ان کے قتل سے دلچسپی تھی۔اور اس جنگ میں کسی کو قتل کرنے کی خواہش نہیں تھی... اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر میں نے حضرت حمزہ رضی الله عنہ کو قتل کردیا تو مجھے آزاد کر دیا جائے گا۔"حضرت وحشی رضی الله عنہ حضرت جبیر بن مطعم رضی الله عنہہ کے غلام تھے اوروہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔

ادھر مشرکوں کے پرچم برادر جب ایک ایک کرکے ختم ہوگئے اور کوئی پرچم اٹھانے والا نہ رہا تو ان میں بددلی پھیل گئی... وہ پسپا ہونے لگے۔پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ایسے میں وہ چیخ اور چلارہے تھے۔ ان کی عورتیں جو دیر پہلے جوش دلانے کے لیے اشعار پڑھ رہی تھیں، اپنے دف پھینک کر پہاڑ کی طرف بھاگیں۔ان پر بدحواسی اس قدر سوار ہوئی کہ اپنے کپڑے نوچنے لگیں۔

مسلمانوں نے جب دشمن کو بھاگتے دیکھا تو ان کا پیچھا کرنے لگے، ان کے ہتھیاروں اور مال غنیمت پر قبضہ کرنے لگے۔

اب یہاں... اس موقع پر ایک عجیب واقعہ رونما ہوگیا۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پہاڑی کے درے پر پچاس تیرانداز مقرر فرمائے تھے اور انہیں واضح طور پر ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں... ان کے امیر حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ تھے... اس دستے نے جب کافروں کو بھاگتے دیکھا اور مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرتے دیکھا تو یہ بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگے۔یہ دیکھ کر حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ بولے: 

"کہاں جارہے ہوں؟ ہمیں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہیے ، اللّٰه کے رسول نے ہمیں ہدایت فرمائی تھی کہ اپنی جگہ جمے رہیں... اور یہاں سے نہ ہٹیں۔"

اس پر ان کے ساتھی بولے: 

"اب مشرکوں کو شکست ہوگئی ہے، اب ہم یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے۔"

حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ انہیں روکتے رہ گئے۔ لیکن وہ نہ مانے اور میدان میں چلے گئے۔لیکن حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ اور چند ساتھی البتہ وہی رکے رہے، ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔انہوں نے نیچے کا رخ کرنے والوں سے کہا: 

"ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کریں گے۔"

اس طرح وہاں دس سے بھی کم مجاہد رہ گئے... اس وقت حضرت خالد بن ولید کی نظر درے پر پڑی۔یہ کافروں کے ایک دستے کے سالار تھے۔ اور لشکر کے دائیں بازو پر مقرر تھے۔شکست کے بعد یہ اس طرف سے پسپا ہو رہے تھے کہ درے پر نظر پڑی...جنگ کے دوران بھی یہ اس طرف سے بار بار حملہ کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے، لیکن پچاس تیرانداوں کے تیروں کی بوچھاڑ نے ان کی پیش قدمی روک دی تھی... اب انہوں نے دیکھا کہ وہاں پچاس کے بجائے چند مسلمان رہ گئے ہیں تو یہ اپنے دستے کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوئے۔ان کے دستے کے ساتھ ہی عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے دستے کے ساتھ اس طرف پلٹ پڑے۔ 

اس طرح پورے دو دستوں نے ان چند مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ان کا یہ حملہ اس قدر زبردست تھا کہ پہلے ہی حملے میں حضرت عبداللہ ابن جبیر رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔

مشرکوں نے حضرت عبداللہ ابن جبیر رضی الله عنہہ کی لاش کا مثلہ کیا۔یعنی ان کے ناک، کان، ہاتھ اور پیر کاٹ ڈالے۔ان کے جسم پر اتنے نیزے لگے تھے کہ پورا جسم چھلنی ہوکر رہ گیا تھا۔لیکن آفرین ہے اس مرد مجاہد پر کہ وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر وہاں سے نہ ہٹے۔

اب ان دونوں دستوں نے اس درے کی طرف سے مسلمانوں کی پشت پر اچانک بہت زور کا حملہ کیا۔مسلمان اس وقت مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے۔ان میں سے اکثر نے اپنی تلواریں نیام میں ڈال لی تھیں۔اس تابڑ توڑ حملے نے انہیں بدحواس کردیا۔

کافر اس وقت پورے جوش کی حالت میں "یا ھبل یا عزیٰ "کے نعرے لگارہے تھے، یعنی اپنے بتوں کے نام پکار رہے تھے۔

مسلمان اس حملے سے اس قدر بدحواس ہوئے کہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔اس وقت تک انہوں نے جتنے کافروں کو قیدی بنالیا تھا یا جتنا مال غنیمت لوٹ چکے تھے وہ سب چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔

مشرکوں کا پرچم اس وقت زمین پر پڑا تھا... ایک مشرک عورت بنت علقمہ کی نظر اس پر پڑی تو اس نے لپک کر اس کو اٹھا لیا اور بلند کردیا۔اب تک جو مشرک بھاگ رہے تھے، وہ بھی اپنے پرچم کو بلند ہوتے دیکھ کر پلٹ پڑے وہ جان گئے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے۔اب سب دوڑ دوڑ کر اپنے پرچم کے گرد جمع ہونے لگے اور بدحواس مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے۔

ایسے میں ایک مشرک ابن قمہ نے پکار کر کہا: 

"محمد قتل کردیئے گئے۔"( معاذ الله )

اس خبر نے مسلمانوں کو اور زیادہ بدحواس کردیا۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 74


جب پروانے شمع رسالت پر نثار ہوئے


ایسے میں کسی صحابی نے کہا: 

"اب جب کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم قتل ہوچکے ہیں تو ہم لڑ کر کیا کریں گے؟ "

اس پر کچھ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کہا: 

"اگر اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو کیا تم اپنے نبی کے دین کے لیے لڑوگے، تاکہ تم شہید کی حیثیت سے اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوں۔"

حضرت ثابت بن وحداح رضی الله عنہ نے پکار کر کہا: 

"اے گروہ انصار! اگر محمد صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو اللّٰه تعالیٰ تو زندہ ہے، اسے تو موت نہیں آسکتی۔اپنے دین کے لیے لڑو، اللہ تعالیٰ فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے۔"

یہ سنتے ہی انصار کے ایک گروہ نے مشرکوں کے اس دستے پر حملہ کردیا۔جس میں خالدبن ولید، عکرمہ بن ابوجہل، عمرو بن عاص اور ضرار بن خطاب موجود تھے اور یہ چاروں زبردست جنگ جو تھے۔انصار کے حملے کے جواب میں خالد بن ولید نے ان پر جوابی حملہ کیا۔اس جوابی حملے میں ابن وحداح رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔

بدحواسی کے عالم میں کچھ لوگ مدینہ کی طرف پلٹ پڑے تھے، ان کے راستے میں اُمّ ایمن رضی الله عنہ آگئیں۔ وہ بولیں: 

"مسلمانو!! یہ کیا! تم پیٹ پھیر کر جارہے ہو؟ "

اس پر وہ پلٹ پڑے اور مشرکوں پر حملہ آور ہوئے۔دوسری طرف مسلمانوں کے تتر بتر ہوجانے کی وجہ سے مشرکوں کے ایک گروہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر حملہ کردیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس سخت وقت میں بھی ثابت قدم رہے اور اپنی جگہ پر جمے رہے، اس عالم میں آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمارہے تھے: 

"اے فلاں! میری طرف آؤ، اے فلاں! میری طرف آؤ، میں الله کا رسول ہوں۔"

ہر طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر تیروں کی بوچھاڑ ہورہی تھی... اس حالت میں ان تیروں سے الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی ۔اس نازک وقت میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت آپ صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع رہی... یہ جماعت مشرکوں کے مسلسل حملوں کو روک رہی تھی۔خود کو پروانوں کی طرح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر قربان کررہی تھی۔ان میں حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ بھی تھے۔ وہ دشمن کے وار اپنی ڈھال پر روک رہے تھے۔وہ بہت اچھے تیرانداز تھے، نشانہ بہت پختہ تھا۔چنانچہ دشمنوں پر مسلسل تیر بھی چلارہے تھے اور کہتے جاتے تھے: 

"میری جان آپ پر فدا ہوجائے، میرا چہرہ آپ کے لیے ڈھال بن جائے۔"

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو کسی مسلمان کے ترکش میں تیر نظر آتے تو اس سے فرماتے: 

"اپنا ترکش ابوطلحہ کے سامنے الٹ دو۔"

حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہ نے اس روز اس قدر تیراندازی کی کہ ان کے ہاتھ سے تین کمانیں ٹوٹ گئیں۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دشمن کو دیکھنے کے لیے سر اوپر کرتے تو حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہہ پکار اٹھتے: 

"اے اللّٰه کے رسول! آپ اپنا سر اوپر نہ کریں... کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔"

پھر خود پنجوں کے بل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالکل سامنے آجاتے تاکہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم محفوظ رہیں... کوئی تیر لگے تو مجھ کو لگے۔

اس دوران نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کمان تھی، اس کا نام کتوم تھا۔کمان کا ایک سرا ٹوٹ گیا تھا اور دست مبارک میں کمان کی بالشت بھر ڈوری رہ گئی تھی۔حضرت عکاشہ ابن محصن رضی الله عنہہ نے کمان کی ڈوری باندھنے کے لیے وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے لے لی مگر ڈوری تو چھوٹی ہوچکی تھی۔اس پر انہوں نے عرض کیا: 

"اللّٰه کے رسول! ڈوری چھوٹی ہوگئی ہے، اس لیے بندھ نہیں سکتی۔"

اس پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اس کو کھینچو! پوری ہوجائے گی۔"

عکاشہ رضی الله عنہہ کہتے ہیں: 

"الله کی قسم! میں نے اس ڈوری کو کھینچا تو وہ کھینچ کر اتنی لمبی ہوگئی کہ وہ کمان کی دونوں سروں پر پوری آگئی۔میں نے ایک سرے پر دو تین بل بھی دے دیئے اور پھر اس پر گرہ لگا دی۔"

اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے آس پاس جو صحابہ کرام رضی الله عنہم موجود تھے، انہوں نے دشمنوں سے زبردست جنگ کی۔ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ بھی تھے۔یہ بھی زبردست تیرانداز تھے۔یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تیر اٹھا اٹھا کر مجھے دے رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔

"اے سعد! تیراندازی کرتے جاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔"

وہ فرماتے ہیں:"حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے مجھے ایک تیر ایسا بھی ملا جس کے سرے پر پھل( تیز دھار نوک والا حصہ)نہیں تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا کہ تیر کا پھل نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"یہی تیر چلاؤ ۔"

اس پر حضرت سعد رضی الله عنہہ نے دعا کرتے ہوئے کہا: 

"اے اللّٰه! یہ تیرا تیر ہے، تو اس کو دشمن کے سینے میں پیوست کردے۔"

ساتھ ہی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم فرما رہے تھے: 

"اے اللّٰه! سعد کی دعا قبول فرما۔اے اللّٰه! اس کی تیراندازی کو درست فرما۔"

پھر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کا ترکش خالی ہوگیا، تیر ختم ہوگئے،تب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ترکش ان کے سامنے الٹ دیا، حضرت سعد رضی الله عنہہ پھر تیر چلانے لگے... کہا جاتا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی الله عنہ مستجاب الدعوات تھے، یعنی ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے کسی نے پوچھا: 

"آپ کی دعائیں کیوں فوراً قبول ہوتی ہیں۔"

انہوں نے جواب دیا: 

"میں زندگی بھر کوئی لقمہ یہ جانے بغیر منہ تک نہیں لے گیا کی یہ کہاں سے آیا ہے؟ "

(مطلب یہ کہ ہمیشہ حلال کھایا ہے۔)

اس بارے میں حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: 

"قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جب بھی کوئی بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔"

اس سلسلے میں ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: 

"جس کا کمانا حرام ہو، جس کا پینا حرام ہو اور جس کا لباس حرام ہو، اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟ "

اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے ۔ہر تیر پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: 

"تیراندازی کرو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔"

حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں: 

"میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ جملہ حضرت سعد کے علاوه کسی اور کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔"

حضرت سعد رضی الله عنہ رشتہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ماموں لگتے تھے، اس لیے ان کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے: 

"یہ سعد میرے ماموں ہیں، کوئی مجھے ایسا ماموں تو دکھائے۔"

اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ کے علاوہ حضرت سہیل بن حنیف رضی الله عنہ نے بھی تیر چلائے جوکہ اس نازک وقت میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں میں شامل تھے۔

حضرت زید بن عاصم رضی الله عنہ کی بیوی حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہ اس روز مجاہدوں کو پانی پلارہی تھی، جب جنگ کا پانسہ پلٹا مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی تو یہ اس وقت بھی زخمیوں کو پانی پلارہی تھی۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 75


 صحابہ اور صحابیات کی فداکاری 


حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا کا اصل نام نؤسیبہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا اور مشرکوں کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع ہوتے دیکھا تو بے چین ہوگئیں، جلدی سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب پہنچیں اور تلوار کے ذریعے دشمنوں سے لڑنے لگیں۔تلوار چلاتے چلاتے جب زخمی ہوگئیں، تو تیر کمان سنبھال لیا اور مشرکوں پر تیر چلانے لگیں۔

ایسے میں انہوں نے ابن قمیہ مشرک کو آتے دیکھا، وہ یہ کہتا ہوا چلا آرہا تھا: 

"مجھے بتاؤ... محمد کہاں ہیں؟ اگر آج وہ بچ گئے تو سمجھو، میں نہیں بچا۔"

یہ کہنے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ آج یا وہ رہیں گے یا میں رہوں گا۔، جب وہ قریب آیا تو حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا اور مصعب بن عمیر رضی الله عنہ نے اس کا راستہ روکا، اسی وقت اس نے حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا پر حملہ کیا، ان کے کندھے پر زخم آیا، حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے بھی اس پر تلوار کے کئی وار کیے، مگر وہ زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ان کے وار سے محفوظ رہا۔ان کی کوششوں کو دیکھ کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اللّٰه تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے۔"

اس پر حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے عرض کیا:

"اللّٰه کے رسول! ہمارے لیے دعا فرمایئے کہ ہم جنت میں آپ کے ساتھ ہوں"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"اے الله انہیں جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔"

اس وقت حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے کہا: 

"اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔"

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

"احد کے دن میں دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا، اُمّ عمارہ کو دیکھتا تھا کہ میرے بچاؤ اور میری حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا کر دشمنوں سے لڑ رہی ہیں۔"

غزوہ احد میں حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا کو بارہ زخم آئے۔ان میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی۔

اس روز حضرت ابودجانہ رضی الله عنہ نے بھی اپنے جسم کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنالیا تھا۔جو تیر آتا، وہ اس کو اپنی کمر پر روکتے، یعنی انہوں نے اپنا منہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف کر رکھا تھا، اس طرح وہ تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم محفوظ رہیں۔اس طرح ان کی کمر میں بہت سے تیر پیوست ہوگئے۔

اسی طرح حضرت زیاد بن عمارہ رضی الله عنہ بھی آپ کی حفاظت میں مردانہ وار زخم کھا رہے تھے۔یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"انہیں میرے قریب لاؤ۔"

ان کی خوش قسمتی دیکھیئے کہ انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب لایا گیا، جب انہیں زمین پر لٹایا گیا تو انہوں نے اپنا منہ اور رخسار حضور صلی الله علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیے اور اسی حالت میں جان دے دی... کس قدر مبارک موت تھی ان کی!!

اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو بچاتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔دراصل ابن قمیہ حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم سمجھ رہا تھا، اس لیے کہ ان کی شکل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔چنانچہ جب اس نے شہید کیا تو قریش کے سرداروں کو جاکر اطلاع دی کہ اس نے رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کو شہید کردیا ہے، حالانکہ اس نے حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو شہید کیا تھا۔

اسی دوران ابی بن خلف رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔اس پر کئی صحابہ اس کے راستے میں آگئے، لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اسے میری طرف آنے دو۔"

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھے: 

"اے جھوٹے! کہاں بھاگتا ہے؟ "

پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کے ہاتھ سے ایک نیزہ لیا اور نیزے کی نوک ابی بن خلف کی گردن میں بہت ہی آہستہ سے چبھودی، مطلب یہ کہ نیزہ اس قدر آہستہ چبھویا کہ اس سے خون بھی نہیں نکلا مگر اس ہلکی سی خراش ہی سے وہ بری طرح چیختا ہوا وہاں سے بھاگا... وہ کہہ رہا تھا: 

"خدا کی قسم! محمد نے مجھے مار ڈالا۔"

مشرکوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا: 

"تو تو بہت چھوٹے دل کا نکلا... تیری عقل جاتی رہی، اپنے پہلو میں تیر لیے پھرتا ہے، تیراندازی کرتا ہے... اور تجھے کوئی زخم بھی نہیں آیا... لیکن چیخ کتنا رہا ہے، ایک معمولی سی خراش ہے ایسی خراش پر تو ہم اف بھی نہیں کرتے۔"

اس پر ابی بن خلف نے درد سے کراہتے ہوئے کہا: 

"لات اور عزیٰ کی قسم! اس وقت مجھے جس قدر شدید تکلیف ہورہی ہے، اگر وہ ذی المجاز کے میلے میں سارے آدمیوں پر بھی تقسیم کردی جائے تو سب کے سب مرجائیں۔"

بات دراصل یہ تھی کہ مکہ میں ابی بن خلف نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کہا کرتا تھا: 

"اے محمد! میرے پاس ایک بہترین گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ بارہ مرتبہ چارہ کھلا کر موٹا کررہا ہوں، اس پر سوار ہوکر میں تمہیں قتل کروں گا۔"

اس کی بکواس سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم پر فرماتے تھے"انشاءاللہ! میں خود تجھے قتل کروں گا۔"

اب جب اسے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں خراش پہنچی تو اس کی ناقابل برداشت تکلیف نے اسے چیخنے پر مجبور کردیا... وہ بار بار لوٹ پوٹ ہورہا تھا اور کسی ذبیح کیے ہوئے بیل کی طرح ذکرا رہا تھا۔اس کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے اس کے کچھ ساتھی اسے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔

ایک حدیث میں آتا ہے: 

"وہ شخص جسے نبی نے قتل کیا ہو یا جسے نبی کے حکم سے قتل کیا گیا ہو، اسے اس کے قتل کے وقت سے قیامت کے دن تک عذاب دیا جاتا رہے گا۔"

ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں"سب سے زیادہ سخت عذاب اسے ہوتا ہے جسے نبی نے خود قتل کیا ہو۔"

احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک فتنہ باز کافر ابو عامر نے جگہ جگہ گڑھے کھود دیے تھے، تاکہ مسلمان بے خبری میں ان میں گرجائیں اور نقصان اٹھاتے رہیں، یہ شخص حضرت حنظلہ رضی الله عنہ کا باپ تھا... اور حضرت حنظلہ رضی الله عنہ وہ ہیں جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔

لڑائی جاری تھی کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک گڑھے میں گرگئے، حضرت علی رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو گرتے دیکھا، انہوں نے آگے بڑھ کر فوراً آپ صلی الله علیہ وسلم کو دونوں ہاتھوں پر لے لیا۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اوپر اٹھاکر باہر نکالا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم جب گڑھے میں گرے تو ابن قمیہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر پتھر برسائے، ان میں سے ایک پتھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پہلو میں لگا، عتبہ بن ابی وقاص نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو پتھر مارا۔اس کا پھینکا ہوا پتھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر لگا، حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا، حضرت حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب عتبہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم پر پتھر پھینکتے دیکھا تو اس کی طرف لپکا، میں نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے جالیا، میں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، میں نے فوراً اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، آپ کو عتبہ کے قتل کی خبر سنائی... آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اللّٰه تم سے راضی ہوگیا، اللّٰه تم سے راضی ہوگیا۔"

اس حملے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خود( لوہے کی ٹوپی ) بھی ٹوٹا، چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، ابن قمیہ کے حملے سے دونوں رخسار بھی زخمی ہوئے تھے خود کی دو کڑیاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں گڑ گئی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابن قمیہ کو بددعا دی: 

"اللّٰه تجھے ذلیل کردے اور برباد کردے۔"

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 76


 موت کے نرغہ میں


اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی۔ اس جنگ کے بعد جب ابن قمیہ اپنی بکریوں کے گلّے میں پہنچا تو انہیں لے کر پہاڑ پر چڑھا، وہ بکریوں اور مینڈھوں کو گھیر گھیر کر لے جارہا تھا کہ اچانک ایک مینڈھے نے اس پر حملہ کردیا، اس نے اسے اس زور سے سینگ مارا کہ وہ پہاڑ سے نیچے لڑھک گیا اور اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خون بہنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:

"وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو اس لیے خون سے رنگین کردیا کہ وہ انہیں ان کے پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔"

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں خود کی کڑیاں گھس گئی تھیں، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو کھینچ کھینچ کر نکالا، اس کوشش کے دوران ان کا اپنا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا۔ بہرحال کڑی نکل گئی، پھر انہوں نے دوسری کڑی کو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو ایک دانت اور ٹوٹ گیا...تاہم کڑی نکل گئی۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ جانے کے بعد ان کا چہرہ بدنما ہوجاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہوگیا۔

جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت دیکھا اور پکارے:

"اے مسلمانو! تمہیں خوش خبری ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ موجود ہیں۔"

جب مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت دیکھا تو پروانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے ساتھ ایک گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ عنہم تھے۔

اس روز حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی زبردست ثابت قدمی دکھائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں موت کی بیعت کی تھی، یعنی یہ عہد کیا تھا کہ آپ کی حفاظت میں جان تو دے دیں گے، لیکن ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان صحابہ کے ساتھ گھاٹی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ عثمان بن عبداللہ ایک سیاہ اور سفید گھوڑے پر سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا، وہ لوہے میں پوری طرح غرق تھا، آپ اس کی آواز سن کر رک گئے، اسی وقت عثمان بن عبداللہ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی، وہ ایک گڑھے میں گر گیا، ساتھ ہی حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ اس کی طرف لپکے اور اپنی تلوار سے اس پر وار کیا، اس نے تلوار کا وار روکا...تھوڑی دیر دونوں طرف سے تلوار چلتی رہی، پھر اچانک حضرت حارث نے اس کے پیر پر تلوار ماری، وہ زخم کھا کر بیٹھ گیا...حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے ایک بھرپور وار کرکے اس کا خاتمہ کر دیا، اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ کا شکر ہے جس نے اسے ہلاک کردیا۔"

اسی وقت عبداللہ بن جابر عامری نے حضرت حارث رضی اللہ عنہ پر حملہ کر دیا، اس کی تلوار حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے کندھے پر لگی، کندھا زخمی ہوگیا...ان لمحات میں حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن جابر پر حملہ کر دیا اور اپنی تلوار سے اسے ذبح کر ڈالا۔

مسلمان حضرت حارث رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر لے گئے تاکہ ان کی مرہم پٹی کی جاسکے۔

پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ فرمایا جو گھاٹی کے اندر ابھری ہوئی تھی، لیکن زخموں سے خون نکل جانے اور زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چڑھ نہ سکے، یہ دیکھ کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"طلحہ کے اس نیک عمل کی وجہ سے ان پر جنت واجب ہوگئی۔"

ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی، جب یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کندھوں پر اٹھا کر چلے تو چال میں لنگڑاہٹ تھی، اب ان کی کوشش یہ تھی کہ لنگڑاہٹ نہ ہو...تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کندھوں پر اٹھا کر چلنے کی برکت سے ان کی لنگراہٹ دور ہوگئی۔

اس وقت تک جنگ کی یہ خبریں مدینہ منورہ میں پہنچ چکی تھیں، لہٰذا وہاں سے عورتیں میدان احد کی طرف چل پڑیں، ان میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی دیکھا تو بے اختیار آپ سے لپٹ گئیں، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو دھویا، حضرت علی رضی اللہ عنہ پانی ڈالنے لگے، لیکن زخموں سے خون اور زیادہ بہنے لگا، تب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر جلایا، جب وہ جل کر راکھ ہو گیا تو وہ راکھ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں میں بھر دی، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون بہنے کا سلسلہ رکا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اس چٹان پر پہنچے تو دشمن کی ایک جماعت پہاڑ کے اوپر پہنچ گئی، اس جماعت میں خالد بن ولید بھی تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کو دیکھ کر فرمایا:

"اے اللہ! ہماری طاقت اور قوت صرف تیری ہی ذات ہے۔"

اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیل کر پہاڑ سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، کمزوری کی وجہ سے یہ نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔

اس لڑائی میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم پر تقریباً 70 زخم آئے، یہ نیزوں، برچھوں اور تلواروں کے تھے، تلوار کے ایک وار سے ان کی انگلیاں بھی کٹ گئیں، دوسرے ہاتھ میں ان کو ایک تیر آ کر لگا تھا، اس سے مسلسل خون بہنے لگا، یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر بےہوشی طاری ہوگئی، اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اس سے انہیں ہوش آیا تو فوراً پوچھا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

"خیریت سے ہیں۔"

یہ سن کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اللہ کا شکر ہے، ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے۔"

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے منہ پر ضرب لگی۔ اس ضرب سے ان کے دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم پر بیس زخم تھے۔ ایک زخم ایک پیر پر بھی آیا تھا۔ اس سے وہ لنگڑے ہوگئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے جسم پر بھی بیس کے قریب زخم آئے تھے۔ غرض اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شدید زخمی ہوئے تھے۔

احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک شخص قزمان نامی بھی مسلمانوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ وہ احد کی لڑائی میں بہت بہادری سے لڑا، لڑائی شروع ہونے پر سب سے پہلا تیر بھی اسی نے چلایا تھا، لڑتے لڑتے وہ مشرکوں کے اونٹ سوار دستے پر ٹوٹ پڑا اور آٹھ دس مشرکوں کو آن کی آن میں قتل کرڈالا۔ بعض صحابہ نے اس کی بہادری کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا...اس تذکرے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے تو اسے جہنمی فرمایا ہے اور وہ اس قدر دلیری سے لڑ رہا ہے...اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا:

"یہ شخص جہنمی ہے۔"

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر بہت حیران ہوئے۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 77


مشرکین کی واپسی


جب قزمان لڑتے لڑتے بہت زخمی ہوگیا تو اسے اٹھا کر بنی ظفر کے محلے میں پہنچایا گیا۔ یہاں لوگ اس کی تعریف کرنے لگے اس پر وہ بولا:

"مجھے کیسی خوش خبری سنارہے ہو، خدا کی قسم! میں تو صرف اپنی قوم کی عزت اور فخر کے لیے لڑا ہوں۔ اگر قوم کا یہ معاملہ نہ ہوتا تو میں ہرگز نہ لڑتا۔"

اس کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ بلند کرنے کے لیے نہیں لڑا تھا...پھر زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی۔ اس نے اپنی تلوار نکالی۔ اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر سارا بوجھ اس پر ڈال دیا۔ اس طرح تلوار اس کے سینے کے آر پار ہوگئی...اس طرح وہ حرام موت مرا۔ اسے اس طرح مرتے دیکھ کر ایک شخص دوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:

"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔"

آپ نے دریافت فرمایا:

"کیا ہوا؟"

جواب میں اس نے کہا:

"آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اس نے خودکشی کرلی ہے۔"

اس طرح قزمان کے بارے میں آپ کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی، اس کے بالکل الٹ ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ بنی عبد الاشہل کا ایک شخص اصیرم اپنی قوم کو اسلام لانے سے روکتا تھا...جس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، یہ شخص مدینہ آیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ بنی عبد الاشہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اچانک اس نے اسلام کے لیے رغبت محسوس کی، اس نے زرہ پہنی، اپنے ہتھیار ساتھ لیے اور میدان جنگ میں پہنچ گیا، پھر مسلمانوں کی ایک صف میں شامل ہوکر کافروں سے جنگ کرنے لگا۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا۔ جنگ کے بعد بنی عبد الاشہل کے لوگ اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے کہ اصیرم پر نظر پڑی۔ انہوں نے اسے پہچان لیا...اسے میدان جنگ میں زخموں سے چور دیکھ کر اس کے قبیلے کے لوگوں کو بہت حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا:

"تم یہاں کیسے آگئے...قومی جذبہ لے آیا یا اسلام سے رغبت ہوگئی ہے؟"

اصیرم نے جواب دیا:

"میں اسلام سے رغبت کی بنیاد پر شریک ہوا ہوں۔ پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا پھر میدان میں آکر جنگ کی...یہاں تک کہ اس حالت میں پہنچ گیا۔"

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مجھے ایسے شخص کا نام بتاؤ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی مگر وہ جنت میں چلا گیا۔ ان کا اشارہ حضرت اصیرم رضی اللہ عنہ کی طرف ہوتا تھا۔

اس لڑائی میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ احد کی لڑائی سے ایک دن پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دوسری صبح ہی غزوہ احد کا اعلان ہوگیا...یہ غسل کے بغیر لشکر میں شامل ہوگئے اور اسی حالت میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

"تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔"

اسی بنیاد پر حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو "غسیل الملائکہ" کہا گیا، یعنی وہ شخص جنہیں فرشتوں نے غسل دیا۔

غزوہ احد میں جنگ کے دوران ایک مشرک ابن عویف جنگجو اپنی صفوں سے نکل کر آگے آیا اور مقابلے کے لئے للکارا، ایک صحابی آگے بڑھے اور ابن عویف پر تلوار کا وار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا:

"لے میرا وار سنبھال! میں ایک فارسی غلام ہوں۔"

ابن عویف کی زرہ کندھے پر سے کٹ گئی، تلوار اس کے کندھے کو کاٹ گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جملہ سنا تو فرمایا:

"تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں۔"

اب ابن عویف کا بھائی آگے بڑھا، ان صحابی نے اس پر وار کیا اور اس کی گردن اڑادی، اس مرتبہ انہوں نے وار کرتے ہوئے کہا:

"لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں۔"

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:

"تم نے خوب کہا۔"

اسی غزوہ میں حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ یہ لنگڑے تھے، ان کے چار بیٹے تھے، جب یہ جنگ کے ارادے سے چلنے لگے تو چاروں بیٹوں نے ان سے کہا تھا:

"ہم جا رہے ہیں...آپ نہ جائیں۔"

اس پر عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ حضور نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے:

اللہ کے رسول! میرے بیٹے مجھے جنگ میں جانے سے روک رہے ہیں...مگر اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"تم معذور ہو، لہٰذا تم پر جہاد فرض نہیں ہے۔"

دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹوں سے فرمایا:

"تمہیں اپنے باپ کو جہاد سے روکنا نہیں چاہیے، ممکن ہے اللہ انہیں شہادت نصیب فرمادے۔"

یہ سنتے ہی حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے ہتھیار سنبھالے اور نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے اللہ سے دعا کی:

اے اللہ! مجھے شہادت کی نعمت عطا فرما اور گھر والوں کے پاس زندہ آنے کی رسوائی سے بچا۔"

چنانچہ یہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

"اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں...انہی لوگوں میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں، میں نے انہیں جنت میں ان کے اسی لنگڑے پن کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھا ہے۔"

اسی جنگ میں ان کے ایک بیٹے خلاد رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے اور ان کے سالے عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔

حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی بیوی کا نام ہندہ بنت حزام تھا، جنگ کے بعد یہ اپنے شوہر، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کی لاشیں ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے لگیں، تاکہ انہیں مدینہ منورہ میں دفن کیا جا سکے، لیکن اونٹ نے آگے جانے سے انکار کردیا اور بیٹھ گیا۔ اس کا رخ میدان احد کی طرف کیا جاتا تو چلنے لگتا، مدینہ منورہ کی طرف کرتے تو بیٹھ جاتا، آخر حضرت ہندہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ صورت حال بیان کی، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"یہ اونٹ مامور ہے (یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ یہ مدینہ نہ جائے) اس لئے ان تینوں کو یہیں دفن کردو۔"

اس سلسلے میں یہ روایت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ کیا عمرو بن جموح نے چلتے وقت کچھ کہا تھا، تب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دعا کی تھی: اے اللہ! مجھے زندہ واپس آنے کی رسوائی سے بچانا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ اونٹ مدینہ منورہ نہیں جائے گا۔

چنانچہ ان تینوں کو وہیں میدان احد میں دفن کیا گیا، مشرکوں کے ساتھ آنے والی عورتوں نے شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تھا...یعنی ان کے ناک کان اور ہونٹ وغیرہ کاٹ ڈالے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ہندہ (حضرت ابو سفیان کی اہلیہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔) نے ان کا کلیجہ نکال کے چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔

لاشوں کو مثلہ کرنے کے بعد مشرک واپس لوٹے...مسلمانوں نے بھی انہیں روکنے کی کوشش نہ کی...کیونکہ سب کی حالت خستہ تھی، البتہ ایسے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"دشمن کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو، وہ کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ اگر وہ لوگ اونٹوں پر سوار ہیں اور گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لے جارہے ہیں تو سمجھو وہ مکہ جارہے ہیں، لیکن اگر گھوڑوں پر سوار ہیں اور اونٹوں کو ہانک رہے ہیں تو سمجھو وہ مدینہ جارہے ہیں، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر انہوں نے مدینہ کا رخ کیا تو میں ہر قیمت پر مدینہ پہنچ کر ان کا مقابلہ کروں گا۔"

حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، آخر معلوم ہوا کہ مشرکوں نے مکہ جانے کا ارادہ کرلیا ہے، اس طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے مقتولین کی فکر ہوئی، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"کوئی سعد بن ربیع کا حال معلوم کرکے آئے...میں نے ان کے اوپر تلوار چمکتی دیکھی تھیں۔"

اس پر کچھ صحابہ کرام ان کا حال معلوم کرنے کے لیے جانے لگے، اس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"اگر تم سعد بن ربیع کو زندہ پاؤ تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ تم سے تمہارا حال پوچھتے ہیں۔"

ایک انصاری مسلمان نے آخر حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو تلاش کر لیا، وہ زخموں سے چور چور تھے، تاہم ابھی جان باقی تھی۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 78


شہداء احد کی تدفین


ان صحابی نے فوراً حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کہا:

رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم تمہارا حال پوچھتے ہیں

زندوں میں ہو یا مردوں میں ہو

حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا:

میں اب مردوں میں ہوں۔ میرے جسم پر نیزوں کے بارہ زخم لگے ہیں، میں اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ مجھ میں سکت باقی تھی۔ اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ ابن ربیع آپ کے لئے عرض کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے وہی بہترین جزا عطا فرمائے جو ایک امت کی طرف سے اس کے نبی کو مل سکتی ہے، نیز میری قوم کو بھی میرا سلام پہنچادینا اور ان سے کہنا کہ سعد بن ربیع تم سے کہتا ہے کہ اگر ایسی صورت میں تم نے دشمن کو اللہ کے نبی تک پہنچنے دیا کہ تم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہے تو اس جرم کے لئے اللہ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔

یہ کہنے کے چند لمحے بعد ہی ان کی روح نکل گئی۔ وہ انصاری صحابی اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ سعد پر رحمت فرمائے، اس نے صرف اللہ اور رسول کے لئے زندگی میں بھی اور مرتے وقت بھی (دونوں حالتوں میں) خیر خواہی کی ہے۔

حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی دو صاحبزادیاں تھیں، ان کی ایک صاحبزادی حضرت ابوبکر صدیق رضٰ اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ ان سے ملنے کے لئے آئیں۔ آپ نے ان کے لئے چادر بچھادی۔ ایسے میں حضرت عمر رضٰی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یہ خاتون کون ہیں؟ 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:

اے خلیفہ رسول وہ کون شخص تھا؟ 

آپ نے فرمایا:

وہ شخص وہ تھا جو سبقت کرکے جنت میں پہنچ گیا، میں اور تم رہ گئے، یہ سعد بن ربیع کی صاحبزادی ہیں۔

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حضرت حمزہ رضٰی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے۔ اس وقت ایک شخص نے عرض کیا:

میں نے انہیں چٹانوں کے قریب دیکھا ہے، وہ اس وقت کہہ رہے تھے، میں اللہ کا شیر ہوں اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔ 

اس کے بتانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چٹانوں کی طرف چلے جہاں اس شخص نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا، آخری وادی کے درمیان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا کی لاش نظر آئی۔ حالت یہ تھی کہ ان کا پیٹ چاک تھا اور ناک کان کاٹ ڈالے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ منظر بہت دردناک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اس جیسا تکلیف دہ منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خوب روئے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا آپ حمزہ رضی الله عنہہ کی لاش پر روئے۔

اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی الله عنہہ سے فرمایا: 

"اپنی والدہ کو اس طرف نہ آنے دینا، وہ پیارے چچا کی نعش دیکھنے نہ پائیں ۔"

حضرت زبیر رضی الله عنہہ کی والدہ کا نام حضرت صفیہ رضی الله عنہا تھا، وہ حضرت حمزہ رضی الله عنہہ کی بہن تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔حکم سنتے ہی حضرت زبیر رضی الله عنہہ مدینہ منورہ کے راستے پر پہنچ گئے۔اس طرف سے حضرت صفیہ رضی الله عنہا چلی آرہی تھیں، وہ انہیں دیکھتے ہی بولے: 

"ماں! آپ واپس چلی جائیں۔"

اس پر حضرت صفیہ رضی الله عنہا نے بیٹے کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: 

"کیوں چلی جاؤں؟... مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے، مگر یہ سب خدا کی راہ میں ہوا ہے، میں انشاءاللہ صبر کا دامن نہیں چھوڑوں گی۔"

ان کا جواب سن کر حضرت زبیر رضی الله عنہہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کا جواب آپ کو بتایا، تب آپ نے فرمایا: 

"اچھا! انہیں آنے دو۔"

چنانچہ انہوں نے آکر بھائی کی لاش کو دیکھا: "اناللہ واناالیہ وراجعون" پڑھا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔

اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"حمزہ کے لیے کفن کا انتظام کرو۔"

ایک انصاری صحابی آگے بڑھے۔انہوں نے اپنی چادر ان پر ڈال دی۔پھر ایک صحابی آگے بڑھا، انہوں نے بھی اپنی چادر ان پر ڈال دی۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی الله عنہہ سے فرمایا: 

"جابر! ان میں سے ایک چادر تمہارے والد کے لیے اور دوسری چادر میرے چچا کے لیے ہوگی۔"

حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو بھی کفن کے لیے صرف ایک چادر ملی، وہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے، پاؤں ڈھانکتے تو سر کھل جاتا تھا... آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو۔"

یہ مصعب بن عمیر رضی الله عنہ وہ تھے جو اسلام لانے سے پہلے قیمتی لباس پہنتے تھے، ان کا لباس خوشبوؤں سے مہکا کرتا تھا۔آج ان کی میت کے لیے پورا کفن بھی میسر نہیں تھا۔

باقی شہداء کو اسی طرح کفن دیا گیا،ایک ایک چادر میں دو دو تین تین لاشوں کو لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے شہداء پر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔

غزوہ احد کے شہداء میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی الله عنہ بھی تھے۔انہوں نے ایک دن پہلے دعا کی تھی:

"اے اللّٰه! کل کسی بہت طاقتور آدمی سے میرا مقابلہ ہو جو مجھے قتل کرے، پھر میری لاش کا مثلہ کرے... پھر میں قیامت میں تیرے سامنے حاضر ہوں تو تو مجھ سے پوچھے: اے عبداللہ! تیری ناک اور کان کس وجہ سے کاٹے گئے؟ تو میں کہوں گا کہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت وجہ سے اور اس وقت الله تعالیٰ فرمائیں، تو نے سچ کہا۔"

چنانچہ یہ اس لڑائی میں شہید ہوئے اور ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا، لڑائی کے دوران ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔تب حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔وہ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی تلوار بن گئی اور یہ اسی سے لڑے۔

اس جنگ میں حضرت جابر کے والد عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ بھی شہید ہوئے تھے۔ان کے چہرے پر زخم آیا تھا۔اس زخم کی وجہ سے جب ان کا آخری وقت آیا تو ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا۔جب ان کی لاش اٹھائی گئی اور ہاتھ کو زخم پر سے اٹھایا گیا تو زخم سے خون جاری ہوگیا۔اس پر ان کے ہاتھ کو پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔جونہی ہاتھ رکھا گیا، خون بند ہوگیا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عمرو بن جموح رضی الله عنہما کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔کافی مدت بعد احد کے میدان میں سیلاب آگیا، اس سے وہ قبر کھل گئی....لوگوں نے دیکھا کہ ان دونوں لاشوں میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا.... بالکل تروتازہ تھیں... یوں لگتا تھا جیسے ابھی کل ہی دفن کی گئی ہوں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کا ہاتھ اسی طرح اس زخم پر تھا... کسی نے ان کا ہاتھ ہٹادیا... ہاتھ ہٹاتے ہی خون جاری ہوگیا، چنانچہ پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔

حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہہ نے اپنے دور میں میدان احد سے ایک نہر کھدوائ، یہ نہر شہداء کی قبروں کے درمیان سے نکالی گئی، اس لیے انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے مردوں کو ان قبروں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کردیں... لوگ روتے ہوئے وہاں پہنچے، انہوں نے قبروں میں سے لاشوں کو نکالا تو تمام شہداء کی لاشیں بالکل تروتازہ تھیں، نرم، ملائم تھیں۔ان کے تمام جوڑ نرم تھے۔اور یہ واقعہ غزوہ احد کے چالیس سال بعد کا ہے، حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی لاش نکالنے کے لیے ان کی قبر کھودی جارہی تھی تو ان کے پاؤں میں کدال لگ گئی۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 79


شہداء احد کی تدفین


ان صحابی نے فوراً حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کہا:

رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم تمہارا حال پوچھتے ہیں

زندوں میں ہو یا مردوں میں ہو

حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا:

میں اب مردوں میں ہوں۔ میرے جسم پر نیزوں کے بارہ زخم لگے ہیں، میں اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ مجھ میں سکت باقی تھی۔ اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ ابن ربیع آپ کے لئے عرض کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے وہی بہترین جزا عطا فرمائے جو ایک امت کی طرف سے اس کے نبی کو مل سکتی ہے، نیز میری قوم کو بھی میرا سلام پہنچادینا اور ان سے کہنا کہ سعد بن ربیع تم سے کہتا ہے کہ اگر ایسی صورت میں تم نے دشمن کو اللہ کے نبی تک پہنچنے دیا کہ تم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہے تو اس جرم کے لئے اللہ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔

یہ کہنے کے چند لمحے بعد ہی ان کی روح نکل گئی۔ وہ انصاری صحابی اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ سعد پر رحمت فرمائے، اس نے صرف اللہ اور رسول کے لئے زندگی میں بھی اور مرتے وقت بھی (دونوں حالتوں میں) خیر خواہی کی ہے۔

حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی دو صاحبزادیاں تھیں، ان کی ایک صاحبزادی حضرت ابوبکر صدیق رضٰ اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ ان سے ملنے کے لئے آئیں۔ آپ نے ان کے لئے چادر بچھادی۔ ایسے میں حضرت عمر رضٰی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یہ خاتون کون ہیں؟ 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:

اے خلیفہ رسول وہ کون شخص تھا؟ 

آپ نے فرمایا:

وہ شخص وہ تھا جو سبقت کرکے جنت میں پہنچ گیا، میں اور تم رہ گئے، یہ سعد بن ربیع کی صاحبزادی ہیں۔

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حضرت حمزہ رضٰی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے۔ اس وقت ایک شخص نے عرض کیا:

میں نے انہیں چٹانوں کے قریب دیکھا ہے، وہ اس وقت کہہ رہے تھے، میں اللہ کا شیر ہوں اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔ 

اس کے بتانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چٹانوں کی طرف چلے جہاں اس شخص نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا، آخری وادی کے درمیان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا کی لاش نظر آئی۔ حالت یہ تھی کہ ان کا پیٹ چاک تھا اور ناک کان کاٹ ڈالے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ منظر بہت دردناک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اس جیسا تکلیف دہ منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خوب روئے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا آپ حمزہ رضی الله عنہہ کی لاش پر روئے۔

اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی الله عنہہ سے فرمایا: 

"اپنی والدہ کو اس طرف نہ آنے دینا، وہ پیارے چچا کی نعش دیکھنے نہ پائیں ۔"

حضرت زبیر رضی الله عنہہ کی والدہ کا نام حضرت صفیہ رضی الله عنہا تھا، وہ حضرت حمزہ رضی الله عنہہ کی بہن تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔حکم سنتے ہی حضرت زبیر رضی الله عنہہ مدینہ منورہ کے راستے پر پہنچ گئے۔اس طرف سے حضرت صفیہ رضی الله عنہا چلی آرہی تھیں، وہ انہیں دیکھتے ہی بولے: 

"ماں! آپ واپس چلی جائیں۔"

اس پر حضرت صفیہ رضی الله عنہا نے بیٹے کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: 

"کیوں چلی جاؤں؟... مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے، مگر یہ سب خدا کی راہ میں ہوا ہے، میں انشاءاللہ صبر کا دامن نہیں چھوڑوں گی۔"

ان کا جواب سن کر حضرت زبیر رضی الله عنہہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کا جواب آپ کو بتایا، تب آپ نے فرمایا: 

"اچھا! انہیں آنے دو۔"

چنانچہ انہوں نے آکر بھائی کی لاش کو دیکھا: "اناللہ واناالیہ وراجعون" پڑھا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔

اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"حمزہ کے لیے کفن کا انتظام کرو۔"

ایک انصاری صحابی آگے بڑھے۔انہوں نے اپنی چادر ان پر ڈال دی۔پھر ایک صحابی آگے بڑھا، انہوں نے بھی اپنی چادر ان پر ڈال دی۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی الله عنہہ سے فرمایا: 

"جابر! ان میں سے ایک چادر تمہارے والد کے لیے اور دوسری چادر میرے چچا کے لیے ہوگی۔"

حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو بھی کفن کے لیے صرف ایک چادر ملی، وہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے، پاؤں ڈھانکتے تو سر کھل جاتا تھا... آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو۔"

یہ مصعب بن عمیر رضی الله عنہ وہ تھے جو اسلام لانے سے پہلے قیمتی لباس پہنتے تھے، ان کا لباس خوشبوؤں سے مہکا کرتا تھا۔آج ان کی میت کے لیے پورا کفن بھی میسر نہیں تھا۔

باقی شہداء کو اسی طرح کفن دیا گیا،ایک ایک چادر میں دو دو تین تین لاشوں کو لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے شہداء پر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔

غزوہ احد کے شہداء میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی الله عنہ بھی تھے۔انہوں نے ایک دن پہلے دعا کی تھی:

"اے اللّٰه! کل کسی بہت طاقتور آدمی سے میرا مقابلہ ہو جو مجھے قتل کرے، پھر میری لاش کا مثلہ کرے... پھر میں قیامت میں تیرے سامنے حاضر ہوں تو تو مجھ سے پوچھے: اے عبداللہ! تیری ناک اور کان کس وجہ سے کاٹے گئے؟ تو میں کہوں گا کہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت وجہ سے اور اس وقت الله تعالیٰ فرمائیں، تو نے سچ کہا۔"

چنانچہ یہ اس لڑائی میں شہید ہوئے اور ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا، لڑائی کے دوران ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔تب حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔وہ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی تلوار بن گئی اور یہ اسی سے لڑے۔

اس جنگ میں حضرت جابر کے والد عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ بھی شہید ہوئے تھے۔ان کے چہرے پر زخم آیا تھا۔اس زخم کی وجہ سے جب ان کا آخری وقت آیا تو ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا۔جب ان کی لاش اٹھائی گئی اور ہاتھ کو زخم پر سے اٹھایا گیا تو زخم سے خون جاری ہوگیا۔اس پر ان کے ہاتھ کو پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔جونہی ہاتھ رکھا گیا، خون بند ہوگیا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عمرو بن جموح رضی الله عنہما کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔کافی مدت بعد احد کے میدان میں سیلاب آگیا، اس سے وہ قبر کھل گئی....لوگوں نے دیکھا کہ ان دونوں لاشوں میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا.... بالکل تروتازہ تھیں... یوں لگتا تھا جیسے ابھی کل ہی دفن کی گئی ہوں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کا ہاتھ اسی طرح اس زخم پر تھا... کسی نے ان کا ہاتھ ہٹادیا... ہاتھ ہٹاتے ہی خون جاری ہوگیا، چنانچہ پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔

حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہہ نے اپنے دور میں میدان احد سے ایک نہر کھدوائ، یہ نہر شہداء کی قبروں کے درمیان سے نکالی گئی، اس لیے انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے مردوں کو ان قبروں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کردیں... لوگ روتے ہوئے وہاں پہنچے، انہوں نے قبروں میں سے لاشوں کو نکالا تو تمام شہداء کی لاشیں بالکل تروتازہ تھیں، نرم، ملائم تھیں۔ان کے تمام جوڑ نرم تھے۔اور یہ واقعہ غزوہ احد کے چالیس سال بعد کا ہے، حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی لاش نکالنے کے لیے ان کی قبر کھودی جارہی تھی تو ان کے پاؤں میں کدال لگ گئی۔

[5:01 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 80


غزوہ حمراءالاسد اور کفّار کی پسپائی


یہ اعلان قریش کو ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ انھیں معلوم ہوجائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کے تعاقُّب میں تشریف لارہے ہیں - اور ساتھ میں انھیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں میں ابھی بھی طاقت موجود ہے - اُحد کی شکست کی وجہ سے وہ کمزور نہیں ہوگئے - 

اس طرح تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ روانہ ہوئے سب لوگ زخمی تھے لیکن کسی نے بھی اپنے زخموں کی پرواہ نہ کی -...... جبکہ حالت یہ تھی کہ بنو سلمہ کے چالیس آدمی زخمی ہوئے تھے - خود اللّہ کے رسول بھی زخمی تھے - اور اسی حالت میں صحابہ کو لیکر روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زخموں کی صورت یہ تھی کہ چہرہ مبارک زرہ کے گڑجانے کی وجہ سے زخمی تھا - چہرہ مبارک پر پتھر کا ایک زخم بھی تھا - نچلا ہونٹ اندر کی طرف سے زخمی تھا - ایک روایت میں اوپر کا ہونٹ زخمی ہونے کا ذکر بھی موجود ہے - ان زخموں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دایاں کندھا بھی زخمی تھا - اس کندھے پر ابن قیمیہ نے اس وقت وار کیا تھا جب آپ گڑھے میں گرے تھے گڑھے میں گِر جانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں گھٹنے بھی زخمی تھے - ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

طلحہ تمہارے ہتھیار کہاں ہے ؟ 

انھوں نے فرمایا :

" یہیں ہیں اللّٰه کے رسول! "

یہ کہ کر وہ گئے اور ہتھیار پہن کر آگئے حالانکہ ان کے سینے پر صرف نو زخم تھے جبکہ پورے جسم پر ستّر زخم تھے..... اللّٰہ اکبر - 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لشکر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ حمراءالاسد کے مقام پر ٹھہرا - یہ جگہ مدینہ منوّرہ سے تقریباً 12 کلومیٹر دور ہے - اس مقام پر مسلمانوں نے تین دِن تک قیام کیا - ہر رات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پڑاو میں جگہ جگہ آگ روشن کرتے رہے تاکہ دشمن کو دور سے روشنیاں نظر آتی رہیں - اس تدبیر سے دشمن نے خیال کیا کہ مسلمان بڑی تعداد کے ساتھ آئے ہیں - چنانچہ ان پر رعب پڑ گیا - 

اس مہم کو غزوۂ حمراءالاسد کہا جاتا ہے - حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس غزوے میں مسلمانوں کے پاس کھانے کے لیے صرف کھجوریں تھیں یا صرف اونٹ ذبح کیے جاتے تھے - 

کفّار نے جب یہ خبر سنیں کہ مسلمان تو ایک بار پھر تیاری کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو وہ مکّہ کی طرف لوٹ گئے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مدینہ کوچ فرمایا -

حمراءالاسد کے مقام پر مسلمانوں نے ابوعزہ شاعر کو گرفتار کیا - یہ شخص مسلمانوں کے خلاف اشعار کہا کرتا تھا - غزوہ بدر کے موقع پر بھی گِرفتار ہوا تھا - گِرفتار ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لایا گیا تھا تو گِڑ گڑانے لگا تھا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا - لیکن یہ اپنے وعدے سے پھر گیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف اشعار کہتا رہا تھا - اس موقع پر یہ پھر گِرفتار ہوا- اب پھر اس نے رونا گِڑ گِڑانا شروع کیا... لگا معافی مانگنے.... اس نے کہا "اے محمّد مجھے چھوڑدیجئے! مجھ پر احسان کیجیے! میری بیٹیوں کی خاطر رہا کردیجیے میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا - "

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : 

" نہیں اب تو مسلمانوں کو دکھ نہیں پہنچا سکے گا " اس کے بعد اس کو قتل کردیا گیا - 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا : 

" مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا -" حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کی وضاحت علماء نے یہ بھی لکھی ہے کہ مومن کو چاہیے کوئی اسے دھوکہ دے تو اس سے ہوشیار رہے اور پھر اس کے دھوکے میں نہ آئے - 

اسی سال یعنی ٣ہجری میں شراب حرام ہوئی - 

۴ہجری میں غزوہ بنو نضیر پیش آیا - اس کی وجہ یہ بنی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بنو نضیر کے محلے میں تشریف لے گئے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک ضروری معاملہ میں بنو نضیر سے بات طئے کرنا تھی - یہ یہودیوں کا قبیلہ تھا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدہ کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کو کسی کا خون بہادینا پڑا تو بنو نضیر بھی اس سلسلہ میں مدد کریں گے - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب ان کے محلے میں تشریف لے گئے تو صحابۂ کرام کی ایک مختصر جماعت بھی ساتھ تھی - ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی - ان میں حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں پہنچ کر ان سے بات شروع کی تو وہ بولے : 

"ہاں ہاں! کیوں نہیں.... ہم ابھی رقم ادا کردیتے ہیں " آپ پہلے کھانا کھالیں :" اس طرح وہ بظاہر بہت خوش ہوکر ملے " لیکن دراصل وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کی سازش پہلے سے تیار کر چکے تھے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو انھوں نے ایک دیوار کے ساتھ بٹھایا - پھر ان میں سے ایک یہودی اس مکان کی چھت پر چڑھ گیا - وہ چھت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک بڑا سا پتھر گرانا چاہتا تھا - ابھی وہ ایسا کرنے ہی والا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا - انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش سے باخبر کردیا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے وہاں سے اٹھے - انداز ایسا تھا جیسے کوئی بات یاد آگئی ہو... آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر مدینہ منورہ لوٹ آئے - 

جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی واپسی میں دیر ہوئی صحابہ کرام حیران ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے - انہیں مدینہ منورہ سے آتا ہوا ایک شخص دکھائی دیا... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا - اس نے بتایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں دیکھ کر آرہا ہے - اب صحابہ رضی اللہ عنہم فوراً مدینہ منورہ پہنچے - تب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سازش کے بارے میں بتایا - 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنو نظیر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ پیغام دیا:

"میرے شہر (یعنی مدینہ) سے نکل جاؤ، تم لوگ اب اس شہر میں نہیں رہ سکتے - اس لیے کہ تم نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ غداری تھی -" 

تمام یہودیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہوں نے کیا سازش کی تھی، اس لیے کہ سب کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا - سازش کی تفصیل سن کر یہودی خاموش رہ گئے - کوئی منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکا - پھر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص بھی یہاں پایا گیا، اس کی گردن مار دی جائے گی -" 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سن کر یہودیوں نے وہاں سے کوچ کی تیاریاں شروع کردیں... اونٹوں وغیرہ کا انتظام کرنے لگے، لیکن ایسے میں منافقوں کی طرف سے انہیں پیغام ملا کہ اپنا گھربار اور وطن چھوڑ کر ہرگز کہیں نہ جاؤ، ہم لوگ تمہارے ساتھ ہیں، اگر جنگ کی نوبت آئی تو ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اور اگر تم لوگوں کو یہاں سے نکلنا ہی پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے -"

یہودیوں کو روکنے میں سب سے زیادہ کوشش منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے کی، اس نے یہودیوں کو پیغام بھیجا:

" اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر مت جاؤ، اپنی حویلیوں میں جمے رہو... میرے ساتھ دو ہزار جانباز ہیں، ان میں میری قوم کے لوگ بھی ہیں اور عرب کے دوسرے قبائل بھی ہیں، وقت آن پڑا تو یہ لوگ تمہاری حویلیوں میں پہنچ جائیں گے اور آخر دم تک لڑیں گے، تم پر آنچ نہیں آنے دیں گے، تم سے پہلے جانیں دیں گے... ہمارے ساتھ قبیلہ بنی قریظہ کے لوگ بھی ہیں اور قبیلہ غطفان کے لوگ بھی... یہ سب تمہاری طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں -"

بنی نظیر کو یہ پیغامات ملے تو انہوں نے جلاوطن ہونے کا خیال ترک کردیا... چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا:

"ہم اپنا وطن چھوڑ کر ہرگز نہیں جائیں گے... آپ کا جو جی چاہے، کرلیں -" 

یہ پیغام سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ تکبیر بلند کیا، آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا:

"یہودی جنگ پر آمادہ ہیں لہٰذا جہاد کی تیاری کرو -" 

مسلمانوں نے جہاد کی تیاری شروع کردی، اس وقت یہودیوں کو جنگ پر ابھارنے والا شخص حیی بن اخطب تھا، اسی شخص کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں جو بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور ام المومنین کا اعزاز پایا - حیی بن اخطب بنو نضیر کا سردار تھا، بنو نظیر کے ایک دوسرے سردار سلام بن مشکم نے اسے سمجھانے اور جنگ سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، لیکن حیی بن اخطب منافقوں کی شہہ پر باز نہ آیا اور جنگ پر تلا رہا، اس پر سلام بن مشکم نے اس سے کہا:

"تم نے میری بات نہیں مانی، اب تم دیکھنا، ہم اپنے وطن سے بے وطن کردیئے جائیں گے، ہماری عزت خاک میں مل جائے گی، ہمارے گھر والے قیدی بنا لیے جائیں گے اور ہمارے نوجوان اس جنگ میں مارے جائیں گے -" 

حیی بن اخطب پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔


[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 81


 غزوۂ بنی نظیر اور غزوۂ بنی مصطلق


آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے ساتھ بنونظیر کی طرف روانہ ہوئے - اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا - جنگی پرچم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اٹھایا - نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسلامی لشکر کے ساتھ آگے بڑھے - شام کے وقت مسلمان بنونظیر کی بستی میں پہنچ گئے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا - ادھر یہودی اپنی حویلیوں میں بند ہوگئے اور چھتوں پر سے تیر برسانے لگے، پتھر گرانے لگے - 

وہ دن اسی طرح گزرا - دوسرے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم لکڑی کے ایک قبے(گنبد نما سائبان) میں قیام پذیر ہوئے، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بنایا تھا - 

یہودیوں میں سے ایک شخص کا نام غزول تھا، وہ زبردست تیرانداز تھا... اس کا پھینکا ہوا تیر دور تک جاتا تھا - اس نے ایک تیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قبے کی طرف پھینکا - تیر وہاں تک پہنچ گیا - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے قبے کو ذرا دور منتقل کردیا - 

رات کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ غائب ہوگئے - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حیرت ہوئی، انہوں نے آپ سے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! علی نظر نہیں آرہے؟" 

آپ نے فرمایا:

"فکر نہ کرو، وہ ایک کام سے گئے ہیں -" 

کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزول کا سر اٹھائے ہوئے آگئے - اب ساری صورتحال کا پتا چلا، جب غزول نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سائبان کی طرف تیر پھینکا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی وقت سے اس کے پیچھے لگ گئے تھے اور آخر اس کا سر کاٹ لائے - اس کے ساتھ دس آدمی اور تھے، وہ غزول کو قتل ہوتے دیکھ کر بھاگ لیے تھے - نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دس آدمی اور بھی روانہ فرمائے تھے - ان میں حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ بھی تھے - یہ جماعت ان لوگوں کی تلاش میں نکلی... جو غزول کے مارے جانے پر بھاگ نکلے تھے - آخر اس جماعت نے انہیں جالیا اور سب کو قتل کردیا - 

بنونظیر کا محاصرہ جاری رہا، یہاں تک کہ چھ راتیں گزر گئیں - اس دوران منافق عبداللہ بن ابی برابر یہودیوں کو پیغامات بھیجتا رہا کہ تم اپنی حویلیوں میں ڈٹے رہو - ہم تمہاری مدد کو آرہے ہیں، لیکن یہودیوں کو اس سے کوئی مدد نہیں پہنچی - اب تو یہود کا سردار حیی بن اخطب بہت پریشان ہوا... کچھ عقل مند یہودیوں نے اسے عبداللہ بن ابی کے مشورے پر عمل نہ کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن حیی بن اخطب نے ان کی بات نہیں مانی تھی - اب انہوں نے طعنے کے طور پر کہا:

"عبداللہ بن ابی کی وہ مدد کہاں گئی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا... اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے؟" 

وہ کوئی جواب نہ دے سکا، یہودی اب بہت پریشان ہوچکے تھے، ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سختی سے ان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، آخر اللہ تعالٰی نے یہودیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ انھیں یہاں سے نکل جانے دیا جائے... وہ ہتھیار ساتھ نہیں لے جائیں گے، البتہ اپنا گھریلو سامان لے جائیں گے -"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی، چنانچہ یہودیوں نے اپنے اونٹوں پر اپنی عورتوں اور بچوں کو سوار کرلیا اور اپنا سارا سامان بھی اس پر لاد لیا، یہ کل چھ سو اونٹ تھے، ان اونٹوں پر بہت سا سونا چاندی اور قیمتی سامان تھا - 

اس طرح بنی نظیر کے یہ یہودی جلاوطن ہوکر خیبر میں جابسے، خیبر کے یہودیوں نے انہیں وہاں آباد ہونے میں مدد دی، کچھ لوگ شام کی طرف بھی چلے گئے - 

غزوہ بنو نظیر کے بعد غزوہ ذات الرقاع، غزوہ بدر ثانی اور غزوہ دومتہ الجندل پیش آئے... یہ چھوٹے چھوٹے غزوات تھے جو یکے بعد دیگرے پیش آئے - پھر غزوہ بنی مصطلق پیش آیا... قبیلہ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار تھا، اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کے لیے ایک لشکر تیار کیا، اس لشکر میں اس کی قوم کے علاوہ دوسرے عرب بھی شامل تھے -

اس اطلاع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جنگ کی تیاری کی، اسلامی لشکر 2شعبان 5ہجری کو روانہ ہوا، ادھر جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے ساتھیوں کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ملی تو بہت سے لوگ بدحواس ہوکر حارث کا ساتھ چھوڑ گئے اور ادھر ادھر بھاگ نکلے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلے پر حملہ آور ہوئے، مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کے مشرکوں پر حملہ کردیا، یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ان میں سے دس فوراً مارے گئے، باقی گرفتار ہوگئے، ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا - 

ان قیدیوں میں بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برّہ بنت حارث بھی تھیں، مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو برّہ، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگئیں، اب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے برّہ سے طے کیا کہ اگر وہ نو اوقیہ سونا دےدیں تو وہ انہیں آزاد کردیں گے -

یہ سن کر برّہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:

"اے اللہ کے رسول! میں مسلمان ہوچکی ہوں، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں، ہمارے ساتھ جو ہوا، اس کو آپ جانتے ہیں، میں قوم کے سردار کی بیٹی ہوں... ایک سردار کی بیٹی اچانک باندی بنالی گئی... ثابت بن قیس نے آزاد ہونے کے لیے میرے ذمہ جو سونا مقرر کیا ہے وہ میری طاقت سے کہیں زیادہ ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں -"

اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ بتادوں؟" 

برّہ بولیں: 

"وہ کیا اے اللہ کے رسول -" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"تمہاری طرف سے سونا میں دے دیتا ہوں اور میں تم سے نکاح کرلوں -" 

اس پر برّہ بولیں :

"اے اللہ کے رسول! میں تیار ہوں -" 

چنانچہ آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو بلایا، برّہ کو ان سے مانگا، وہ بولے:

"اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! برّہ آپ کی ہوگئی -" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اتنا سونا ادا کردیا اور برّہ سے شادی کرلی، اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی، ان کا نام برّہ سے جویریہ رکھا گیا، اس طرح وہ امّ المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہوگئیں - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت خوب صورت خاتون تھیں - 

بعد میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا باپ حارث ان کا فدیہ لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس فدیے میں بہت سے اونٹ تھے، حارث ابھی راستے میں تھا کہ اس کی نظر ان میں سے دو خوب صورت اونٹوں پر پڑی، اس نے ان دونوں کو وہیں عقیق کی گھاٹی میں چھپادیا اور باقی فدیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کرکے کہا:

"یہ فدیہ لے لیں اور میری بیٹی کو رہا کردیں -" 

اس کی بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"اور وہ دو اونٹ کیا ہوئے جنھیں تم عقیق کی گھاٹی میں چھپا آئے ہو؟" 

حارث بن ابی ضرار یہ سنتے ہی پکار اٹھا:

"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں... اس بات کا علم میرے اور اللہ کے سوا کسی کو نہیں... اس سے ثابت ہوا، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں -" 

اس طرح وہ مسلمان ہوگئے، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن حارث بھی مسلمان ہوگئے، اس کے بعد بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا، کچھ سے فدیہ لیا گیا، کچھ بغیر فدیے کے چھوڑ دیے گئے - 

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"بنی مصطلق پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چڑھائی سے تین دن پہلے میں نے خواب دیکھا کہ یثرب(مدینہ منورہ) سے چاند طلوع ہوا اور چلتے چلتے میری گود میں آرہا، پھر جب ہم قیدی بنالیے گئے تو میں نے خواب کے پورا ہونے کی آرزو کی... جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے نکاح فرمالیا تو مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی -"

اس غزوہ سے فارغ ہوکے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک بہت دردناک واقعہ پیش آگیا۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 82


 منافقین کی سازش 


سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوچ کا اعلان ہوتے ہی میں قضائے حاجت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور لشکر سے دور جنگل کی طرف چلی گئی، جب میں فارغ ہوگئی تو واپس لشکر گاہ کی طرف روانہ ہوئی، میرے گلے میں ایک ہار تھا، وہ ہار کہیں ٹوٹ کر گر گیا، مجھے اس کے گرنے کا پتا نہ چلا، جب اس کا خیال آیا تو ہار کی تلاش میں واپس جنگل کی طرف گئی، اس طرح اس ہار کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی، لشکر میں جو لوگ میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا کرتے تھے، انہوں نے خیال کیا کہ میں ہودج میں موجود ہوں، انہوں نے ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا، اور انہیں احساس نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں، کیونکہ میں دبلی پتلی اور کم وزن کی تھی... میں کھاتی بھی بہت کم تھی، جسم پر موٹاپے کے آثار نہیں تھے، اس طرح لشکر روانہ ہوگیا -(ہودج محمل کو کہتے ہیں، یہ ایک ڈولی نما چیز ہوتی ہے جو اونٹ پر نشست کے طور پر بلند کی جاتی ہے تاکہ عورت پردے میں رہے -) 

ادھر کافی تلاش کے بعد میرا ہار مل گیا اور میں لشکر کی طرف روانہ ہوئی، وہاں پہنچی تو لشکر جاچکا تھا، دور دور تک سناٹا تھا، میں جس جگہ ٹھہری ہوئی تھی، وہیں بیٹھ گئی... میں نے سوچا، جب انہیں میری گم شدگی کا پتا چلے گا تو سیدھے یہیں آئیں گے، بیٹھے بیٹھے مجھے نیند نے آلیا - صفوان سلمی رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ کسی کا کوئی سامان رہ جائے یا گر جائے تو اٹھا لیا کریں، اس روز بھی لشکر سے پیچھے تھے، چنانچہ جب یہ اس جگہ پہنچے جہاں قافلہ تھا... تو انہوں نے مجھے دور سے دیکھا اور خیال کیا کہ کوئی آدمی سویا ہوا ہے، نزدیک آئے تو انہوں نے مجھے پہچان لیا، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھا، ان کی آواز سن کر میں جاگ گئی، انہیں دیکھتے ہی میں نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی - 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

"صفوان سلمی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ہوا، لیکن منہ سے انہوں نے ایک لفظ نہ کہا، نہ میں نے ان سے کوئی بات کی، انہوں نے اپنی اونٹنی کو میرے قریب بٹھادیا، اور صرف اتنا کہا - 

" ماں! سوار ہوجایئے! "

میں نے اونٹ پر سوار ہوتے وقت کہا:

"حَسْبِيَ اللّهُ وَ نِعْمَ الوَكِيْل." 

(اللہ تعالٰی کی ذات ہی مجھے کافی ہے اور وہی میرا بہترین سہارا ہے) پھر میرے سوار ہونے کے بعد انھوں نے اونٹ کو اٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ لشکر میں پہنچ گئے، لشکر اس وقت نخلِ ظہیرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور وہ دوپہر کا وقت تھا، جب ہم لشکر میں پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو بہتان لگانے کا موقع مل گیا - اس نے کہا:

"یہ عورت کون ہے جسے صفوان ساتھ لایا ہے؟" 

اس کے ساتھی منافق بول اٹھے:

"یہ عائشہ ہے... صفوان کے ساتھ آئی ہیں -" 

اب یہ لوگ لگے باتیں کرنے... پھر جب لشکر مدینہ منورہ پہنچ گیا تو منافق عبداللہ بن اُبی دشمنی کی بنا پر اور اسلام سے اپنی نفرت کی بنیاد پر اس بات کو شہرت دینے لگا - 

امام بخاری لکھتے ہیں:

جب منافق اس واقعہ کا ذکر کرتے تو عبداللہ بن اُبی بڑھ چڑھ کر ان کی تائید کرتا تاکہ اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملے -"

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

"مدینہ منورہ آکر میں بیمار ہوگئی... میں ایک ماہ تک بیمار رہی، دوسری طرف منافق اس بات کو پھیلاتے رہے، بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہے، اس طرح یہ باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک اور میرے ماں باپ تک پہنچیں، جب کہ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم ہوسکا تھا... البتہ میں محسوس کرتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے پہلے کی طرح محبت سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ پہلے بیماری کے دنوں میں میرا خیال رکھتے تھے - (دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھرانے پر منافقین کی الزام تراشی سے سخت غمزدہ تھے اس فکر ورنج کی وجہ سے گھر والوں سے اچھی طرح گھل مل بات کرنے کا موقع بھی نہ ملتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس طرزِ عمل سے میں پریشان رہنے لگی، میری بیماری کم ہوئی تو اُمّ مسطح رضی اللہ عنہا نے مجھے وہ باتیں بتائی جو لوگوں میں پھیل رہی تھیں، ام مسطح رضی اللہ عنہا نے خود اپنے بیٹے مسطح کو بھی برا بھلا کہا کہ وہ بھی اس بارے میں یہی کچھ کہتا پھرتا ہے... یہ سنتے ہی میرا مرض لوٹ آیا، مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، بخار پھر ہوگیا... گھر آئی تو بری طرح بےچین تھی، تمام رات روتے گزری... آنسو رکتے نہیں تھے، نیند آنکھوں سے دور تھی، صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:"کیا حال ہے؟ -"تب میں نے عرض کیا:

"کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر ہو آؤں؟" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اجازت دے دی... دراصل میں چاہتی تھی، اس خبر کے بارے میں والدین سے پوچھوں - جب میں اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی تو میری والدہ (ام رومان رضی اللہ عنہا) مکان کے نچلے حصے میں تھیں... جب کہ والد اوپر والے حصے میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے، والدہ نے مجھے دیکھا تو پوچھا:

"تم کیسے آئیں؟" 

میں نے ان سے پورا قصہ بیان کردیا... اور اپنی والدہ سے کہا:

"اللہ آپ کو معاف فرمائے، لوگ میرے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہیں، لیکن آپ نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں -" 

اس پر میری والدہ نے کہا:

"بیٹی! تم فکر نہ کرو! اپنے آپ کو سنبھالو، دنیا کا دستور یہی ہے کہ جب کوئی خوب صورت عورت اپنے خاوند کے دل میں گھر کر لیتی ہے تو اس سے جلنے والے اس کی عیب جوئی شروع کردیتے ہیں -" 

یہ سن کر میں نے کہا:"اللہ کی پناہ! لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں، کیا میرے ابا جان کو بھی ان باتوں کا علم ہے -"

انھوں نے جواب دیا:"ہاں! انھیں بھی معلوم ہے -"

اب تو مارے رنج کے میرا برا حال ہوگیا، میں رونے لگی، میرے رونے کی آواز والد کے کانوں تک پہنچی تو وہ فوراً نیچے اتر آئے، انھوں نے میری والدہ سے پوچھا:"اسے کیا ہوا؟".....تو انھوں نے کہا:"اس کے بارے میں لوگ جو افواہیں پھیلا رہے ہیں، وہ اس کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں -"

اب تو والدہ بھی رونے لگیں، والد بھی رونے لگے، اس رات بھی میں روتی رہی، پوری رات سو نہ سکی، میری والدہ بھی رو رہی تھیں، والد بھی رو رہے تھے... ہمارے ساتھ گھر کے دوسرے لوگ بھی رو رہے تھے، ایسے میں ایک انصاری عورت ملنے کے لیے آگئی... میں نے اسے اندر بلالیا، ہمیں روتے دیکھ کر وہ بھی رونے لگی، یہاں تک کہ ہمارے گھر میں جو بلی تھی... وہ بھی رو رہی تھی...ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے... آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کیا اور بیٹھ گئے... جب سے یہ باتیں شروع ہوئی تھی... آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے پاس بیٹھنا چھوڑ دیا تھا، لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس بیٹھ گئے، ان باتوں کو ایک ماہ ہوچکا تھا... اس دوران آپ پر وحی بھی نازل نہیں ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھنے کے بعد کلمہ شہادت پڑھا اور فرمایا:

"عائشہ! مجھ تک تمہارے بارے میں ایسی باتیں پہنچی ہیں، اگر تم ان تہمتوں سے بری ہو اور پاک ہو تو اللہ تعالٰی خود تمہاری براءت فرمادیں گے اور اگرتم اس گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ تعالٰی سے استغفار کرو اور توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول کرتے ہیں -"

اس پر میں نے اپنے والد اور والدہ سے عرض کیا:

"جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے، اس کا جواب دیجیے -" 

جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"میں نہیں جانتا، اللہ کے رسول سے کیا کہوں -" 

تب میں نے عرض کیا:

آپ سب نے یہ باتیں سنی ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان الزامات سے بری ہوں اور میرا اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو کیا اس پر یقین کرلیں گے... لہٰذا میں صبر کروں گی، میں اپنے رنج اور غم کی شکایت اپنے اللہ سے کرتی ہوں -"

اس کے بعد میں اٹھی اور بستر پر لیٹ گئی، اس وقت میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اللہ تعالٰی میرے معاملے میں آیات نازل فرمائے گا، جن کی تلاوت کی جایا کرے گی، جن کو مسجدوں میں پڑھا جایا کرے گا... البتہ میرا خیال تھا کہ اللہ تعالٰی میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی خواب دکھادیں گے اور مجھے اس الزام سے بری فرمادیں گے... ابھی ہم لوگ اسی حالت میں تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے آثار محسوس ہوئے۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 83


 آسمانی گواہی


حضور ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی توچہرۂ مبارک پر تکلیف کے آثار ظاہر ہوتےتھے-یہ بات محسوس کرتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑااوڑھادیااور آپﷺ کے سر کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا-سید عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: 

میں نے جب آپﷺ پر وحی کے آثار دیکھےتومیں نے کوئی گھبراہٹ محسوس نہیں کی، کیونکہ میں بے گناہ تھی، البتہ میرے ولدین پر بے تحاشہ خوف طاری تھا..،، 

آخر آپﷺ سے وحی کے آثار ختم ہوئے، اس وقت آپﷺ ہنس رہےتھےاور آپﷺ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہےتھے دوقطرے موتیوں کی طرح نظر آرہے تھے، اس وقت آپﷺ نے جو پہلا جملہ فرمایا، وہ یہ تھا: 

عائشہ! اللہ تعالی نے تمہیں بری کردیاہے-،، 

اللہ تعالی نے اس موقع پر سورۃ نور کی آیٰت نازل فرمائی تھیں: 

ترجمہ: جن لوگوں نے یہ طوفان برپاکیاہے( یعنی تہمت لگائی ہے)اے مسلمانوں! وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے، تم اس( طوفان)کو برانہ سمجھو، بلکہ یہ انجام کےاعتبار سے تمہارےحق میں بہتر ہی بہتر ہے، ان میں سے ہر شخص نےجتنا کچھ کہاتھا، اسے اسی کے مطابق گناہ ہوا اور ان میں سے جس نے اس طوفان میں سب سے زیادہ حصہ لیا( عبد اللہ بن ابی)اسے( زیادہ)سخت سزاملے گی-جب تم لوگوں نےیہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنے آپس والوں کےساتھ نیک گمان کیوں نہ کیا اور زبان سے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے-یہ الزام لگانے والے اپنے قول پر چار گواہ کیوں نہ لائے، سو قاعدے کےمطابق یہ لوگ چار گواہ نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک یہ جھو ٹے ہیں اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل نہ ہوتا تو جس کام میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب واقع ہوتا-جب کہ تم اس جھوٹ کو اپنی زبانوں سے نقل درنقل کر رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کر رہے تھے، جس کی تمہیں کسی دلیل سے قطعا خبر نہیں تھی اورتم اس کی ہلکی بات( یعنی گناہ واجب نہ کرنے والی)سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات ہے-اور تم نے جب( پہلی بار)اس بات کوسناتو یوں کیوں نہ کہا کہ ہمیں زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے نکا لیں-معاذاللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے-اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر ایسی حرکت مت کرنا، اگر تم ایمان والے ہو- اللہ تم سے صاف احکام بیان کرتاہے اور اللہ جاننے والا، بڑاحکمت والاہے-جولوگ( ان آیٰت کے نزول کے بعد بھی )چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچاہو، ان کے لئے دنیا وآخرت میں سزادرد ناک مقرر ہےاور( اس بات پر سزاکا تعجب مت کرو، )کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے-اور اے توبہ کرنے والو! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ کا فضل وکرم ہے( جس نے تمہیں توبہ کی توفیق دی)اور یہ کہ اللہ تعالیٰ بڑا شفیق،بڑارحیم ہے( توتم بھی وعید سے نہ بچتے)( سورہ نور آیات11تا20)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ان آیات کہ نزول سے پہلےمیں نے خواب دیکھاتھا، خواب میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا، کیابات ہے، آپ کیوں غمگین رہتی ہیں، میں نے اسے بتایاکہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، میں اس کی وجہ سے غمگین ہوں-تب اس نوجوان نے کہا کہ آپ ان الفاظ میں دعاء کریں:

ترجمہ: اے نعمتوں کی تکمیل کرنے والے اور آئے غموں کو دور کرنے والے، پریشانیوں کو دور کرنے والے، مصیبتوں کے اندھیرے سے نکالنے والے، فیصلوں میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے اور ظالم سے بدلہ لینے والے، اور اے اوّل اور اے آخر! میری اس پریشانی کو دور فرما دے اور میرے لیے گلو خلاصی کی کوئی راہ نکال دے۔"

دعاء سن کر میں نے کہا، بہت اچھا، اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی، میں ان الفاظ میں دعاء کی، اس کے بعد میرے لیے برأت کے دروازے کھول دیئے گئے۔

الزام لگانے والوں میں مسطح رضی اللہ عنہ بھی 

تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی خبر گیری کرتے تھے، انہوں نے ہی انکی پرورش کی تھی…لیکن یہ بھی الزام لگانے والوں میں شامل ہوگئے،جب اللہ تعالی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بری فرما دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے مسطح رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر سے نکال دیا اور ان سے کہا:

"اللہ کی قسم آئندہ میں کبھی بھی تم پر اپنا مال خرچ نہیں کروں گا،نا تمہارے ساتھ کبھی محبت اورشفقت کابرتاؤ کروں گا۔"

اس پر اللہ تعالی نے سورۃ النور کی یہ آیت نازل فرمائی :

ترجمہ:"اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی اور (دنیاوی) وسعت والے ہیں،وہ قرابت داروں کو اور مسکینوں کو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں، بلکہ چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں،کیا تم یہ بات نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہارے قصور معاف کردے،بے شک اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔"

اس آیت کے نزول پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کردے؟"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "اللہ کی قسم! میں یقینا چاہتا ہوں کہ میری مغفرت ہوجائے۔"

پھر وہ مسطح رضی اللہ عنہٗ کے پاس گئے ان کا جو وظیفہ بند کر دیا تھا اس کو پھر سے جاری کردیا…نہ صرف جاری کر دیا بلکہ دوگنا کردیا اور کہا"آئندہ میں کبھی مسطح کا خرچ بند نہیں کروں گا۔"

انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ بھی ادا کیا۔

اسی غزوہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار دو مرتبہ گم ہوا تھا،پہلی بار جب ہار گم ہوا تو اس کی تلاش کے سلسلے میں سب لوگ رکے رہے، اسی دوران صبح کی نماز کا وقت ہو گیا،اس وقت مسلمان کسی چشمے کے قریب نہیں تھے،اس لیے پانی کی تنگی تھی،جب لوگوں کو تکلیف ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ڈانٹا، اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر رکھ کر سو رہے تھے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: 

"تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب لوگوں کی منزل کھوٹی کر دی،نہ یہاں لوگوں کی پاس پانی ہے، نہ قریب میں کوئی چشمہ ہے۔"

یہ کہنے کے ساتھ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیٹی کی کمر پر ٹوکے بھی مارے،ساتھ ہی وہ کہتے جاتے تھے:

"لڑکی! تو سفر میں تکلیف کا سبب بن جاتی ہے،لوگوں کے پاس ذرا سا بھی پانی نہیں ہیں ہے۔"

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس موقع پر میں اپنے جسم کو حرکت سے روکے رہی، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تھے تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار نہیں کرتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہوتے تھے،کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نیند میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہورہا ہے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے وقت بیدار ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو بتایا گیا کہ پانی نہیں ہے، اس وقت اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی - 

اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 

"بیٹی! جیسا کہ تم خود بھی جانتی ہو، تم واقعی مبارک ہو -" 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:

"عائشہ! تمہارا ہار کس قدر مبارک ہے -" 

حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اے آلِ ابی بکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دیتے ہیں -" 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:

"ہار کی تلاش کے سلسلے میں ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا، جس پر میں سوار تھیں تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا -" 

مطلب یہ کہ اس واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں کو تیمم کی سہولت عطا ہوئی، اس سے پہلے مسلمانوں کو تیمم کے بارے میں معلوم نہیں تھا - 

اس واقعہ کے بعد جب آگے سفر ہوا تو منافقین کی سازش کا وہ واقعہ پیش آیا جو آپ نے پیچھے پڑھا - 

اسی سال چاند کو گرہن لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خسوف پڑھائی یعنی چاند گرہن کی نماز پڑھائی، جبکہ یہودی اس وقت زور زور سے ڈھول بجارہے تھے اور کہہ رہے تھے چاند پر جادو کردیا گیا ہے۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 84


غزوہ خندق


بنی نضیر کے یہودیوں کو مدینہ منورہ میں ان کے علاقے سے نکال دیا گیا تھا، اسی وجہ سے ان کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ گئے... قریش کو ساری تفصیل بتائی اور قریش کو دعوت دی کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لیے میدان میں آئیں، انہوں نے قریش کو خوب بھڑکایا اور کہا:

جنگ کی صورت میں ہم تمہارے ساتھ ہوں گے، یہاں تک کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے ساتھیوں کو نیست و نابود کردیں گے، مسلمانوں سے دشمنی میں ہم تمہارے ساتھ ہیں -"

یہ سن کر مشرکین کے سردار ابوسفیان نے کہا:

"ہمارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ شخص وہ ہے، جو محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کی دشمنی میں ہمارا مددگار ہو، لیکن ہم اس وقت تک تم پر بھروسہ نہیں کریں گے جب تک کہ تم ہمارے معبودوں کو سجدہ نہ کرلو... تاکہ ہمارے دل مطمئن ہوجائیں -" 

یہ سنتے ہی یہودیوں نے بتوں کو سجدہ کرڈالا، اب قریش نے کہا:

"اے یہودیو! تم اہل کتاب ہو اور تمہاری کتاب سب سے پہلی کتاب ہے، اس لیے تمہارا علم بھی سب سے زیادہ ہے، لہٰذا تم بتاؤ... ہمارا دین بہتر ہے یا محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کا -"

یہودیوں نے جواب میں کہا:

"تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے اور حق و صداقت میں تم لوگ ان سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے ہو -" 

یہودیوں کا جواب سن کر قریش خوش ہوگئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو انھوں نے جنگ کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی انھوں نے قبول کرلیا... چنانچہ اسی وقت قریش کے پچاس نوجوان نکلے، انھوں نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر اس کو اپنے سینے سے لگا کر یہ حلف دیا کہ وقت پر ایک دوسرے کو دغا نہیں دیں گے، جب تک ان میں سے ایک شخص بھی باقی ہے، محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کے خلاف متحد رہیں گے - 

اب قریش نے جنگ کی تیاری شروع کردی، یہودیوں نے بھی اور قبائل کو ساتھ ملانے کی کوشش جاری رکھیں، اس طرح ایک بڑا لشکر مسلمانوں کے خلاف تیار ہوگیا - 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار کی تیاریوں کی اطلاعات موصول ہوئیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشورہ کے لیے طلب کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دشمن کی جنگی تیاریوں کے بارے میں بتایا، پھر ان سے مشورہ طلب فرمایا کہ ہم مدینہ منورہ میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں یا باہر نکل کر کریں - 

اس پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا:

"اے اللہ کے رسول! اپنے ملک فارس میں جب ہمیں دشمن کا خوف ہوتا تھا تو شہر کے گرد خندق کھودلیا کرتے تھے -" 

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا یہ مشورہ سبھی کو پسند آیا، چنانچہ مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے کا کام شروع کردیا، سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خندق کی کھدائی میں حصہ لیا... خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی خندق کھودی، خندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھوک نے ستایا، وہ زمانہ عام تنگ دستی کا تھا -

کھدائی کے دوران ایک جگہ سخت پتھریلی زمین آگئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جگہ کھدائی نہ کرسکے، آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور اس جگہ ماری، ایک ہی ضرب میں وہ پتھریلی زمین ریت کی طرح بھربھرا گئی - 

ضرب لگانے کے دوران روشنی کے جھماکے سے نظر آئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ روشنی کے جھماکے کیسے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"پہلے جھماکے میں اللہ تعالٰی نے مجھے یمن کی فتح کی خبر دی ہے، دوسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالٰی نے مجھے شام اور مغرب پر غلبہ عطا فرمانے کی اطلاع دی اور تیسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالٰی نے مشرق کی فتح مجھے دکھائی ہے -" 

غرض جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خندق کی کھدائی سے فارغ ہوئے تو اس وقت قریش اور اس کے حامیوں کا لشکر مدینہ منورہ کے باہر پہنچ گیا، اس جنگ میں کافروں کی دس ہزار تعداد کے مقابلے میں مسلمان صرف تین ہزار تھے، مشرکوں کا لشکر مدینہ منورہ کے گرد خندق دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، وہ پکار اٹھے:

""خدا کی قسم! یہ تو بڑی زبردست جنگی چال ہے، عرب تو اس جنگی تدبیر سے واقف نہیں تھے -" 

مشرکوں کے دستے بار بار خندق تک آتے رہے اور واپس جاتے رہے... مسلمان بھی اچانک خندق تک آتے اور کافروں کی طرف تیر برساتے، پھر واپس لوٹ جاتے، کافروں میں سے نوفل بن عبداللہ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر خندق کو عبور کرنے کی کوشش کی... لیکن اس کا گھوڑا خندق کے آرپار نہ پہنچ سکا اور سوار سمیت خندق میں گرا - نوفل کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی - ایک روایت میں ہے یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خندق میں اتر کر اسے قتل کردیا تھا -

کافروں اور مسلمانوں کے درمیان بس اس قسم کی چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی... کافر دراصل خندق کی وجہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے قابل نہیں رہے تھے - 

لڑائی سے پہلے عورتوں اور بچوں کو ایک چھوٹے سے قلعہ میں پہنچا دیا گیا تھا - یہ جگہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تھی - خود حضرت حسان رضی اللہ عنہ بھی وہیں تھے - ان عورتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی بطور محافظ تھیں - ایک یہودی جاسوسی کے لیے اس طرف نکل آیا - حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی نظر اس یہودی پر پڑی تو انھوں نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے کہا:

"اے حسان! یہ شخص دشمن کو اس قلعہ میں عورتوں اور بچوں کی موجودگی کی خبر کردے گا... اور دشمن اس طرف سے حملہ آور ہوسکتے ہیں، لہٰذا تم نیچے اتر کر اسے قتل کردو -" 

اس پر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا:

"تمہیں معلوم ہے، میں اس کام کا آدمی نہیں ہوں -" 

حضرت حسان رضی اللہ عنہ دراصل شاعر تھے اور جنگ کے طریقوں سے واقف نہیں تھے... پھر ان کی عمر بھی بہت زیادہ تھی، بوڑھے اور کمزور تھے اس لیے انھوں نے ایسی بات کہی تھی - حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ حسان رضی اللہ عنہ یہ کام نہیں کریں گے تو تو انھوں نے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھالیا اور نیچے اتر آئیں - خاموشی سے اس کے پیچھے گئیں اور اچانک اس پر حملہ آور ہوئیں... انھوں نے ڈنڈے کے کئی وار اس پر کیے، یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا - پھر تلوار سے اس کا سر کاٹ کر ان یہودیوں کی طرف اچھال دیا جو اس کے پیچھے آرہے تھے - وہ سب خوف زدہ ہوکر بھاگ نکلے - 

ادھر مشرکوں میں سے چند لوگ آگے بڑھے - انھوں نے خندق عبور کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کو دور لے جاکر خوب دوڑایا اور جس جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی، اس جگہ سے لمبی چھلانگ لگاکر آخر خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگئے - ان لوگوں میں عمرو بن عبدِ وَد بھی تھا... وہ عرب کا مشہور پہلوان تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بہادر ہے اور اکیلا ایک ہزار آدمیوں کے لیے کافی ہے - خندق عبور کرتے ہی وہ للکارا:

"کون ہے جو میرے مقابلے میں آتا ہے؟" 

اس کی للکار سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے - انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا:

"اللہ کے رسول! اس کے مقابلے پر میں جاؤں -" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"بیٹھ جاؤ... یہ عمرو بن عبدِ وَد ہے -" 

ادھر عمرو نے پھر آواز دی - حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر اٹھ کھڑے ہوئے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پھر بٹھادیا... اس نے تیسری بار پھر مقابلے کے لیے آواز لگائی - آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اجازت دےدی - حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ شعر پڑھتے ہوئے میدان میں آئے - 

"جلدی نہ کر، تیری للکار کو قبول کرنے والا تیرے سامنے آگیا ہے - جو تجھ سے کسی طرح عاجز اور کمزور نہیں ہے -" 

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار ذوالفقار عطا فرمائی، اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اور اللہ سے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی - 

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مقابلے سے پہلے اسے اسلام کی دعوت دی اور بولے:

"میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاتا ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں -" 

اس نے انکار کیا اور کہا:

"بھتیجے! میں تمہیں قتل کرنا نہیں چاہتا... واپس لوٹ جاؤ -" 

جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"لیکن میں تو تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں -" 

یہ سن کر عمرو بن عبدِ وَد کو غصہ آگیا - وہ اس وقت پوری طرح لوہے میں غرق تھا - چہرہ بھی خود میں چھپا ہوا تھا - وہ گھوڑے سے کود پڑا اور تلوار سونت کر ان کی طرف بڑھا - اس کی تلوار سے خود کو بچانے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فوراً ڈھال آگے کردی - عمرو کی تلوار ڈھال پر پڑی، ڈھال پھٹ گئی، تلوار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی تک پہنچ گئی پیشانی پر زخم آگیا۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 85


غزوۂ خندق کے واقعات 


عَمروْ کے وار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی سے خون بہہ نکلا مگر انھوں نے فوراً جوابی حملہ کیا، عمرو بن عبدِوَد کی گردن کے نچلے حصے پر ان کی تلوار لگی، تلوار ہنسلی کی ہڈی کو کاٹتی چلی گئی، وہ خاک و خون میں لوٹتا نظر آیا، مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نعرہ سنا تو جان لیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمرو کو قتل کردیا ہے، اس کے گرتے ہی جو لوگ اس کے ساتھ آئے ہوئے تھے، واپس بھاگے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کیا اور بھاگتے ہوئے ایک کافر پر تلوار کا وار کیا، وہ دو ٹکڑے ہوگیا، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار اس کے سر سے ہوتی ہوئی کولہے تک پہنچ گئی، اس پر بعض مسلمانوں نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا:

"اے ابا عبداللہ! ہم نے تمہاری تلوار جیسی کاٹ کسی کی نہیں دیکھی... اللہ کی قسم... یہ تلوار کا نہیں... تلوار چلانے والے کا کمال ہے -" 

"تمام دن جنگ ہوتی رہی، خندق کے ہر حصے پر لڑائی جاری رہی، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور کوئی مسلمان بھی ظہر سے عشاء تک کوئی نماز نہ پڑھ سکا، اس صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان بار بار کہتے رہے:" ہم نماز نہیں پڑھ سکے -"یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے:"نہ ہی میں پڑھ سکا" آخر جنگ رکنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا انھوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھائی، اس کے فوراً بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عصر کی تکبیر پڑھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی نماز پڑھائی... اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت قضا پڑھی گئیں - 

غرض خندق کی لڑائی مسلسل جاری رہی، ایک روز خالد بن ولید نے مشرکوں کے ایک دستے کے ساتھ حملہ کیا، لیکن اس طرف اس وقت حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ دوسو سواروں کے ساتھ موجود تھے، جونہی حضرت خالد بن ولید نے اپنے دستے کے ساتھ خندق پار کی، یہ ان کے سامنے آگئے، اس طرح حضرت خالد بن ولید ناکام لوٹ گئے - 

اس صورتِ حال نے طول پکڑا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوگئے، آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی، اس کے جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالٰی دشمن پر ہوا کا طوفان نازل فرمائے گا، طوفان کے ساتھ اللہ اپنے لشکر(فرشتے ) بھی ان پر نازل کرےگا - 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خبر دےدی، سب نے اللہ کا شکر ادا کیا - 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان قبول ہوئی، آخر سرخ آندھی کے طوفان نے مشرکوں کو آلیا، ان دنوں موسم یوں بھی سرد تھا، اوپر سے انھیں اس سرد طوفان نے گھیرلیا، مشرکوں کے خیمے الٹ گئے، برتن الٹ گئے، ہوا کے شدید تھپیڑوں نے ہر چیز ادھر سے اُدھر کردی، لوگ سامان کے اوپر اور سامان لوگوں پر آگرا، پھر تیز ہوا سے اس قدر ریت اڑی کہ ان میں سے نہ جانے کتنے ریت میں دفن ہوگئے، ریت کی وجہ سے آگ بجھ گئی، چولہے ٹھنڈے ہوگئے، آگ بجھنے سے اندھیرے نے گویا انھیں نگل لیا، یہ اللہ کا عذاب تھا جو فرشتوں نے ان پر نازل کیا، وہ درہم برہم ہوگئے، اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں:

"پھر ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسی فوج بھیجی جو تمہیں دکھائی نہیں دیتی تھی اور اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں -"(سورۃ الأحزاب) 

جہاں تک فرشتوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے خود جنگ میں شرکت نہیں کی، بلکہ اپنی موجودگی سے مشرکوں کے دلوں میں خوف اور رعب پیدا کردیا اور اس رات جو ہوا چلی، اس کا نام بادِصبا ہے، یعنی وہ ہوا جو سخت سرد رات میں چلے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"بادِصبا سے میری مدد کی گئی اور ہوائے زرد کے ذریعے اس قوم کو تباہ کیا گیا -"

ہوائے زرد نے مشرکوں کی آنکھوں میں گردوغبار بھردیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں، یہ طوفان بہت دیر تک اور مسلسل جاری رہا تھا، ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مشرکوں میں پھوٹ پڑنے کے بارے میں پتاچلا، وہ ایسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا تھا کہ کون ہے جو ہمیں دشمنوں کی خبر لادے، اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا:

"اللہ کے رسول! میں جاؤں گا -" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایا، تینوں مرتبہ زبیر رضی اللہ عنہ ہی بولے، آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

ہر نبی کے حواری یعنی مددگار ہوتے ہیں، میرے حواری زبیر ہیں -"

پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا... تھکن کی وجہ سے ان میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ جاسکتے، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے دعا فرمائی:"جاؤ، اللہ تعالٰی تمہارے سامنے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے تمہاری حفاظت فرمائے اور تم خیریت سے لوٹ کر ہمارے پاس آؤ -"

یہ وہاں سے چل کر دشمن کے پڑاؤ میں پہنچ گئے، وہاں انھوں نے ابوسفیان کو کہتے سنا:

اے گروہِ قریش! ہر شخص اپنے ہم نشینوں سے ہوشیار رہے اور جاسوسوں سے پوری طرح خبردار رہے -"

پھر اس نے کہا:

"اے قریش! ہم نہایت برے حالات کا شکار ہوگئے ہیں، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے ہیں... بنوقریظہ کے یہودیوں نے ہمیں دغا دیا ہے اور ان کی طرف سے ناخوش گوار باتیں سننے میں آئی ہیں... اوپر سے اس طوفانی ہوا نے جو تباہ کاری کی ہے، وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو، اس لیے واپس چلے جاؤ، میں بھی واپس جارہا ہوں -"

حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ خبریں لےکر آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے دشمن کا حال سنایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس پڑے یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دانت مبارک نظر آنے لگے... جب کفّار کا لشکر مدینہ منورہ سے بدحواس ہوکر بھاگا، تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"اب یہ آئندہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے -" 

خندق کی جنگ کے موقع پر کچھ خاص واقعات پیش آئے - جب خندق کھودی جارہی تھی تو اس دوران ایک صحابی بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی بیٹی ایک پیالے میں کچھ کھجوریں لائی، یہ کھجوریں وہ اپنے باپ اور ماموں کے لیے لائی تھی...حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ان کھجوروں پر پڑی تو فرمایا:

"کھجوریں ادھر لاؤ -" 

اس لڑکی نے کھجوروں کا برتن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں میں الٹ دیا، کھجوریں اتنی نہیں تھی کہ دونوں ہاتھ بھر جاتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر ایک کپڑا منگوایا، اس کو پھیلا کر بچھایا، پھر پاس کھڑے صحابی سے فرمایا:

"لوگوں کو آواز دو... دوڑ کر آئیں -" 

چنانچہ سب جلد ہی آگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھوں سے کھجوریں اس کپڑے پر گرانے لگے، سب لوگ اس پر سے اٹھا اٹھا کر کھاتے رہے، کھجوریں شروع کرنے سے پہلے سب لوگ بھوکے تھے، بھوک کی حالت میں ان سب نے یہ کھجوریں کھائیں، سب کے پیٹ بھرگئے... اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں سے کھجوریں ابھی تک گر رہی تھیں - 

ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا پیش آیا، انہیں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شدید بھوک کا علم ہوا تو گھر گئے، ان کے گھر میں بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور کچھ گندم بھی تھی، انھوں نے کہا کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھوک لگی ہے... لہٰذا یہ بکری ذبح کرکے سالن تیار کرلو،، گندم کو پیس کر روٹیاں پکالو، میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر آتا ہوں -"حضرت جابر رضی اللہ عنہ کچھ دیر بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آہستہ آواز میں کہا کہ آپ کے لیے گھر میں کھانا تیار کرایا ہے، یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی سے کہا:

"اعلان کردو... جابر کے ہاں سب کی دعوت ہے -" 

چنانچہ پکار کر اعلان کیا گیا کہ سب لوگ جابر کے گھر پہنچ جائیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے کہ وہ تھوڑا سا کھانا اتنے لوگوں کو کیسے پورا ہوگا - انھوں نے پریشانی کے عالم میں "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھی اور پھر گھر آگئے... وہ کھانا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"اللہ برکت دے -" 

پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ پڑھی، سب نے کھانا شروع کیا، باری باری لوگ آتے رہے اور کھا کر اٹھتے رہے، ان کی جگہ دوسرے لیتے رہے... یہاں تک کہ سب لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اس وقت ان مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

"اللہ کی قسم! جب سب کھانا کھا کر چلے گئے تو ہم نے دیکھا...گھر میں اب بھی اتنا ہی کھانا موجود تھا... جتنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھا گیا تھا -"

جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ خندق سے فارغ ہوکر گھر آئے تو وہ دوپہر کا وقت تھا...حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز ادا کی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابھی غسل فرمارہے تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام سیاہ رنگ کا ریشمی عمامہ باندھے وہاں آگئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک خچر پر سوار تھے، انہوں نے آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا:

"اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں؟" 

آپ نے فرمایا:

"ہاں! اتار دیے ہیں -" یہ سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:

"لیکن اللہ تعالٰی کے فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے -"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 86


 غزوۂ بنی قریظہ


اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:

"اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اسی وقت بنو قریظہ کے مقابلے کے لیے کوچ کریں، میں بھی وہیں جارہا ہوں -" 

اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرایا:

"ہر اطاعت گزار شخص عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں پہنچ کر پڑھے -" 

اس اعلان سے مراد یہ تھی کہ روانہ ہونے میں دیر نہ کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فوراً ہتھیار لگائے، زرہ بکتر پہنی، اپنا نیزہ دست مبارک میں لیا، تلوار گلے میں ڈالی... اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے - 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہتھیار لگائے گھوڑوں پر موجود تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد تین ہزار تھی، ان میں 36 گھڑ سوار تھے، ان میں بھی تین گھوڑے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے، اس غزوہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ اپنا قائم مقام مقرر فرمایا - 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ پرچم لیے ہوئے بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آگے روانہ ہوئے تھے، اس لیے پہلے وہاں پہنچے، انہوں نے مہاجرین اور انصار کے ایک دستے کے ساتھ بنو قریظہ کے قلعے کے سامنے دیوار کے نیچے پرچم نصب کیا، ایسے میں یہودیوں نے حضور ﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کیا، اس پر حضرت علی اور دوسرے صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کو غصہ آگیا، نبی اکرمﷺ وہاں پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں یہودیوں کی بدزبانی کے بارے میں بتایا، آپ ﷺ نے ان کی پوری آبادی کو گھیرے میں لینے کا حکم دے دیا، یہ محاصرہ پچیس دن تک جاری رہا ۔یہودی اس محاصرے سے تنگ آگئے، اور آخر کار آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہوگئے ۔

حضور ﷺ نے انہیں باندھنے کا حکم فرمایا ۔ان کی مشکیں کس دی گئیں، ان کی تعداد چھ سو یا ساڑھے سات سو تھی، انہیں ایک طرف جمع کردیاگیا ۔یہ سب وہ تھے جو لڑنے والے تھے، ان کے بعد یہودی عورتوں اور بچوں کو حویلیوں سے نکال کر ایک طرف جمع کیا گیا، ان بچوں اور عورتوں کی تعداد ایک ہزار تھی، ان پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کو نگران بنایاگیا ۔اب یہ لوگ بار بار آپ کے پاس آکر معافی مانگنے لگے ۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: 

کیا تم اس بات پر رضامند ہو کہ تمہارے معاملے کا فیصلہ تمہارا ہی (منتخب کیا ہوا) کوئی آدمی کردے ‌‌" ‌‌" انہوں نے جواب دیا سعد بن معاذ (رضی الله عنہ) جو فیصلہ بھی کردیں، ہمیں منظور ہے ۔سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے سے پہلے ان یہودیوں کے دوست اور ان کے نزدیک قابل احترام شخصیت تھے، حضور اکرمﷺ نے ان کی یہ بات مان لی، سعد بن معاذ رضی الله عنہ غزوہء خندق میں شدید زخمی ہوگئے تھے، وہ اس وقت مسجد نبوی کے قریب ایک خیمے میں تھے، اب آنحضرت ﷺ کے حکم پر انھیں بنو قریظہ کی آبادی میں لایا گیا، ان کی حالت بہت خراب تھی ۔آخر وہ نبئ اکرم ﷺ وسلم کے پاس پہنچ گئے، انہیں ساری بات بتائی گئی... اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہہ نے کہا: 

"فیصلے کا حق تو الله تعالیٰ ہی کا ہے یا پھر اللہ کے رسول کو ہے۔"

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"الله ہی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ یہود کے بارے میں فیصلہ کرو۔"

اب انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا: 

"میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، ان کا مال اور دولت مال غنیمت کے طور پر لے لیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بنالیا جائے۔"( حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہہ نے یہودیوں سے اپنی سابقہ دوستی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اتنا سخت فیصلہ اس لیے سنایا تھا کہ ان یہودیوں کا ظلم و ستم اور ان کی فتنہ انگیزی حد سے بڑھ گئی تھی، اگر انہیں یوں ہی زندہ چھوڑ دیا جاتا تو یقینی طور پر یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف بدترین سازشیں کرتے رہتے۔ان کا مزاج بچھو اور سانپ کی مانند ہوچکا تھا، جو کبھی ڈسنے سے باز نہیں آسکتا، اس لیے ان کا سر کچلنا ضروری تھا۔)

ان کا فیصلہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

" تم نے الله تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ سنایا ہے...اس فیصلے کی شان بہت اونچی ہے... آج صبح سحر کے وقت فرشتے نے آکر مجھے اس فیصلے کی اطلاع دے دی تھی۔"

اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بنو قریظہ کی حویلیوں میں جو کچھ مال اور ہتھیار وغیرہ ہیں، سب ایک جگہ جمع کردیے جائیں۔"

چنانچہ سب کچھ نکال کر ایک جگہ ڈھیر کردیا گیا، اس سارے سامان میں پندرہ سو تلواریں اور تین سو زرہیں تھیں۔دو ہزار نیزے تھے، اس کے علاوہ بےشمار دولت تھی، مویشی بھی بے تحاشا تھے، سب چیزوں کے پانچ حصے کیے گئے، ان میں سے چار حصے سب مجاہدین میں تقسیم کیے گئے... یہاں شراب کے بہت سے مٹکے بھی ملے، ان کو توڑ کر شراب کو بہادیا گیا، اس کے بعد یہودی قیدیوں کو قتل کردیا گیا، قتل ہونے والوں میں ان کا سردار حئ بن اخطب بھی تھا۔بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈی بنالیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہ غزوۂ خندق میں لگنے والے زخموں کے باعث شہید ہوگئے، ان کے جنازے میں فرشتوں نے بھی شرکت کی، انہیں دفن کیا گیا تو قبر سے خوشبو آنے لگی۔

قیدی عورتوں کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"جو عورتیں فروخت کی جائیں، اپنے بچوں سے جدا نہ کی جائیں( یعنی جہاں ماں رہے، وہیں اس کے بچے رہیں، جب تک کہ بچہ جوان نہ ہوجائیں )اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو فروخت کرنا چاہے تو اسے اس کے بچے سے جدا نہ کرے۔"

اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے قبیلہ بنو ہزیل سے ان کی ناپاک حرکت کا انتقام لینے کا ارادہ فرمایا، بنو ھذیل نے رجیع کے مقام پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو شہید کیا تھا، یہ لوگ خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور درخواست کی تھی کہ ان کے علاقے میں اسلام کی تعلیم کے لیے کچھ حضرات کو بھیج دیا جائے۔چنانچہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دس صحابہ رضی الله عنہہ کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا، ان لوگوں نے انہیں دھوکے سے شہید کردیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کی مظلومانہ شہادت کا بے حد رنج تھا۔چنانچہ ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کو تیاری کا حکم فرمایا... پھر لشکر کو لے کر روانہ ہوئے۔بظاہر تو شام کی طرف کوچ کیا تھا، مگر اصل مقصد بنو ہزیل کے خلاف کاروائی تھی، منزل کو اس لیے خفیہ رکھا گیا تاکہ دشمنوں کو جاسوسوں کے ذریعے پہلے سے معلوم نہ ہو اور مسلمان ان ظالموں پر بے خبری میں جاپڑیں۔

مدینہ منوره میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا قائم مقام حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم کو مقرر فرمایا۔اس غزوۂ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ کافی تعداد میں صحابہ رضی اللّٰہ عنہم تھے، ان میں سے بیس گھوڑوں پر سوار تھے۔

پہلے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے، جہاں صحابہ کرام رضی الله عنہم کو شہید کیا گیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہاں ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی، ادھر کسی طرح بنو ھزیل کو پتہ چل گیا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں۔وہ ڈر کے مارے پہاڑوں میں جا چھپے، جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ان کے فرار کا پتہ چلا تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مختلف سمتوں میں روانہ فرمایا... لیکن ان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔

آخر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم واپس روانہ ہوئے، اس غزوہ کو غزوہ بنی لحیان کہا جاتا ہے۔

راستے میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ابواء کے مقام سے گذرے، یہاں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی والدہ کو دفن کیا گیا تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو اپنی والدہ کی قبر نظر آگئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی... پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم روئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو روتے دیکھ کر صحابہ کرام رضی الله عنہہ بھی روپڑے۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ پہنچے، ابھی چند راتیں ہی گذریں تھیں کہ خبر ملی... عیینہ ابن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ مل کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپا مارا... اس چراگاہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیس اونٹ تھے... اونٹوں کی حفاظت کے لیے حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ کے بیٹے تھے، اور حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی بیوی بھی وہاں تھیں۔ان حملہ آوروں نے حضرت ابوذر رضی الله عنہ کے بیٹے کو قتل کردیا۔

اس واقعہ کا سب سے پہلے حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ کو پتہ چلا... وہ اپنی کمان اٹھائے صبح ہی صبح چراگاہ کی طرف جارہے تھے، ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا، وہ ان کا، گھوڑا لے کر آیا تھااور لگام سے پکڑ کر اسے ہنکارہا تھا، راستے میں ان کی ملاقات حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کے غلام سے ہوئی۔اس نے حضرت سلمہ رضی الله عنہ کو بتایا کہ عیینہ بن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپہ مارا ہے... اور وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے اونٹوں کو لے گئے ہیں...چراگاہ کے محافظ کو انہوں نے قتل کردیا... اور ایک خاتون کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔

یہ سنتے ہی حضرت سلمہ رضی الله عنہ نے اپنے غلام سے کہا: 

"اس گھوڑے پر بیٹھ کر روانہ ہوجاؤ اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو خبر کردو۔"

غلام تو اسی وقت روانہ ہوگی، ساتھ ہی سلمہ رضی الله عنہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر پکارے: 

"لوگو! دوڑو... کچھ لوگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اونٹ لے اڑے ہیں۔"

یہ اعلان تین بار دہرا کر وہ اکیلے ہی لٹیروں کی طرف دوڑ پڑے۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 87


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب


حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ چیتے کی سی تیزی سے دوڑے، یہاں تک کہ وہ حملہ آوروں تک پہنچ گئے، جونہی انہوں نے حملہ آوروں کو دیکھا، ان پر تیر اندازی شروع کردی، جب بھی تیر چلاتے، تو پکار کر کہتے:

’’لے سنبھال! میں ابن اکوع ہوں، آج کا دن ہلاکت اور بربادی کا دن ہے۔‘‘

جب دشمن اپنے گھوڑے موڑکر ان کی طرف رخ کرتے تو یہ اپنی جگہ سے ہٹ کر کسی دوسری جگہ پہنچ جاتے اور وہاں سے تیر اندازی شروع کردیتے، یہ مسلسل اسی طرح کرتے رہے، دشمن کے پیچھے لگے رہے، دشمن ان کے تیروں کا شکار ہوتا چلا گیا۔

خود حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

’’میں بھاگ کر ان میں سے کسی کے سر پر پہنچ جاتا، اس کے پیر میں تیر مارتا، وہ اس سے زخمی ہوجاتا، لیکن جب ان میں سے کوئی پیچھے مڑتا تو میں کسی درخت کے پیچھے چھپ جاتا اور پھر اس جگہ سے تیر اندازی کرکے حملہ آور کو زخمی کردیتا، یا پتھر ان پر گرانے لگتا۔۔۔ میری اس تیر اندازی اور پتھروں کی بارش سے وہ بری طرح تنگ آگئے، یہاں تک کہ میری تیروں کی بارش نے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا، زخمی ہوکر بھاگنے والوں نے تیس سے زیادہ نیزے اور اتنی ہی چادریں راستے میں گرادیں تاکہ ان کا بوجھ کم ہو اور وہ آسانی سے بھاگ سکیں۔ وہ جو چیز بھی کہیں پھینکتے، میں اس پر پتھر رکھ دیتا، تاکہ بعد میں ان کو جمع کرسکوں، غرض!میں ان کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ سوائے چند ایک کے وہ تمام اونٹ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔۔۔ پیچھے رہ گئے، دشمن آگے نکل گیا اور خود میں بھی ان کے تعاقب میں ان اونٹوں سے آگے نکل آیا۔۔۔ اس طرح میں نے حملہ آوروں سے تمام اونٹ چھڑالیے۔‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پکار کے بارے میں پتا چلا تو مدینہ منورہ میں اعلان کرادیا کہ اے اللہ کے سوارو! تیار ہوجاؤ! اور سوار ہوکر چلو۔

اس اعلان کے بعد گھڑ سواروں میں سے جو صحابی سب سے پہلے تیار ہوکر آئے، وہ حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے، انہیں ابن اسود بھی کہا جاتا ہے، ان کے بعد حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ آئے، پھر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ آئے، پھر باقی گھڑسوار صحابہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو ان کا سالار مقرر فرمایا اور حکم فرمایا: 

’’تم لوگ روانہ ہوجاؤ، میں باقی لوگوں کے ساتھ تم سے آملوں گا۔‘‘

چنانچہ یہ گھڑسوار دستہ دشمن کی تلاش میں نکلا۔۔۔ اور دشمن کے سر پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

سواروں میں سب سے پہلے جو شخص دشمن تک پہنچا، ان کا نام محدر بن فضلہ تھا، انہیں اخرم اسدی بھی کہا جاتا ہے، یہ آگے بڑھ کر دشمن کے سامنے جاکھڑے ہوئے اور بولے:

’’اے ملعون لوگو! ٹھہرجاؤ، مہاجرین اور انصار تمہارے مقابلے پر نکل پڑے ہیں۔‘‘

اخرم اسدی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے دشمن کے قریب پہنچ گئے ان کی طرف بڑھنے لگے، تو حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے اپنے مورچے سے نکل کر ان کے گھوڑے کی لگام پکڑلی اور بولے:

"اے اخرم! ابھی دشمن پر حملہ نہ کریں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب کو آنے دیں -"

یہ سن کر اخرم اسدی رضی اللہ عنہ بولے:

" سلمہ! اگر تم اللہ تعالٰی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور یہ جانتے ہوکہ جنت بھی برحق ہے اور دوزخ بھی برحق ہے، تو میرے اور شہادت کے درمیان سے ہٹ جاؤ -" 

ان کے الفاظ سن کر سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے گھوڑے کی لگام چھوڑ دی، فوراً آگے بڑھے... انھوں نے وار کرکے ایک دشمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا، اسی وقت ایک اور دشمن نے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ کو نیزہ دے مارا... وہ شہید ہوگئے... ایسے میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے، ایک دشمن نے ان کے گھوڑے پر وار کیا، گھوڑا زخمی ہوگیا، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس پر وار کرکے اس کو قتل کردیا - 

اسی وقت ایک گُھڑسوار ان کے مقابلے پر آیا، اس کا نام مسعدہ فراری تھا، آتے ہی کہنے لگا:

"تم مجھ سے کس طرح مقابلہ کرنا پسند کروگے... تلوار بازی، نیزہ بازی یا پھر کشتی؟" 

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بولے:

"جو تم پسند کرو -" 

اس پر اس نے کشتی لڑنا پسند کیا، وہ گھوڑے سے اتر آیا، اپنی تلوار درخت سے لٹکادی،حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی گھوڑے سے اتر آئے، انھوں نے بھی تلوار درخت سے لٹکادی، اب دونوں میں کشتی شروع ہوئی... آخر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو فتح یاب فرمایا، انھوں نے درخت سے لٹکی تلوار کھینچ لی اور اسے قتل کردیا، پھر انھوں نے مسعدہ کے بھتیجے پر حملہ کیا، اس نے خوف زدہ ہوکر باقی اونٹوں کو چھوڑ دیا... حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اونٹوں کو لےکر لوٹے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے نظر آئے... حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹوں کو ساتھ میں دیکھ کر فرمایا:

"ابوقتادہ تمہارا چہرہ روشن ہو -" 

اس پر انھوں نے کہا:

"اے اللہ کے رسول! آپ کا بھی چہرہ روشن رہے -" 

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:

"اللہ تم میں، تمہاری اولاد میں اور اولاد کی اولاد میں برکت عطا فرمائے -" 

ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ان کی پیشانی پر پڑی... وہاں ایک زخم تھا اور تیر کا پھل زخم ہی میں رہ گیا تھا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تیر کا وہ حصہ آہستہ سے نکال دیا، پھر ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگایا اور اپنی ہتھیلی زخم پر رکھ دی - 

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

"قسم ہے، اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ نے جونہی زخم پر ہاتھ رکھا، تکلیف بالکل غائب ہوگئی -"

اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو مسعدہ کا گھوڑا اور اس کے ہتھیار عطا فرمائے اور انہیں دعا دی -

حضرت ابوقتادہ اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہما کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر فرمایا:

"ہمارے سواروں میں بہترین سوار ابوقتادہ ہیں اور ہمارے پیدل مجاہدین میں بہترین پیدل سلمہ ہیں -" 

پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے - 

کچھ دن بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خواب دیکھا، یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ امن کی حالت میں مکہ میں داخل ہورہے ہیں، پھر عمرہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ نے بال منڈوائے ہیں اور کچھ نے بال کتروائے ہیں، اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کی چابی لی اور عرفات میں قیام کرنے والوں کے ساتھ قیام فرمایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور صحابہ نے بیت اللہ کا طواف کیا - 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا یہ خواب صحابہ کرام کو سنایا، سب اس بشارت سے بہت خوش ہوئے،پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا:

"میرا ارادہ عمرے کا ہے -" 

یہ سننے کے بعد سب نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں، آخر ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے - عمرے کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے ہی کرادیا تھا، تاکہ لوگ اس قافلے کو حاجیوں کا قافلہ ہی خیال کریں اور مکے کے لوگ اور اس پاس کے لوگ جنگ کے لیے نہ اٹھ کھڑے ہوں، مشرکوں اور دوسرے دشمنوں کو پہلے معلوم ہوجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کی نیت سے آرہے ہیں... اور کوئی نیت نہیں ہے - 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھا، پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی... پھر مسجد سے ہی اونٹنی پر سوار ہوئے...اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہیں سے احرام باندھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس سفر پر ذی قعدہ کے مہینے میں روانہ ہوئے تھے، قافلے کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے، ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، جانوروں پر جھولیں ڈالیں، تاکہ جان لیا جائے کہ یہ قربانی کے ہیں ان کے کوہانوں پر نشان لگایا گیا، یہ نشان زخم لگاکر ڈالا جاتا ہے، اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے... چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کی نیت سے روانہ ہوئے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور صحابہ کے پاس سوائے تلوار کے اور کوئی ہتھیار نہیں تھا۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 88


 رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے چند معجزات


سفر کے دوران ایک مقام پر پانی ختم ہوگیا... صحابہ رضی اللہ عنہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے وضو فرمارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا:

"کیا بات ہے؟" 

صحابہ نے بتایا:

"آپ کے پاس اس برتن میں جو پانی ہے، اس پانی کے علاوہ پورے لشکر میں کسی کے پاس اور پانی نہیں ہے -" 

یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کے برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھ دیا، جونہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ مبارک پانی میں رکھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی اس طرح نکلنے لگا جیسے برتن میں چشمے پھوٹ پڑے ہوں، ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی کے فوارے نکلتے دیکھے -حضرت موسی علیہ السلام کے لیے ایک پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا تھا، لیکن یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی جاری ہوگیا تھا، علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ موسی علیہ السلام والے واقعہ سے کہیں زیادہ حیرت ناک ہے... کیونکہ چشمے پہاڑوں چٹانوں ہی سے نکلتے ہیں، لہٰذا پتھر سے پانی کا جاری ہونا اتنی عجیب بات نہیں، جتنی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک انگلیوں سے پانی جاری ہونا عجیب ہے - 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

"جونہی یہ پانی کا چشمہ پھوٹا، ہم سب پینے لگے... ہم نے پیا بھی اور اس پانی سے وضو بھی کیا اور اپنے برتن بھی بھرے... اگر ہم اس وقت ایک لاکھ بھی ہوتے تو بھی پانی ہمارے لیے کافی ہوجاتا، جب کہ اس وقت ہماری تعداد چودہ سو تھی -" 

مسلمانوں کا قافلہ "عسفان" کے مقام پر پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بشر بن سفیان عتکی رضی اللہ عنہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے ہی انہیں جاسوس بناکر مکہ کی طرف روانہ کردیا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیت اگرچہ صرف عمرے کی تھی، لیکن قریش کے بارے میں اطلاعات رکھنا ضروری تھا - بشر رضی اللہ عنہ نے آکر بتایا:

اے اللہ کے رسول! قریش کو اطلاع مل چکی ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہوچکے ہیں، دیہاتوں میں جو ان کے اطاعت گزار لوگ ہیں، قریش نے ان سے بھی مدد طلب کی ہے، بنی ثقیف بھی ان کی مدد کرنے پر آمادہ ہیں... اور ان کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی ہیں، وہ لوگ مکے سے نکل کر "ذی طوی" کے مقام تک آگئے ہیں، انھوں نے ایک دوسرے سے عہد کیا ہے کہ وہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیں گے... دوسرے یہ کہ خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) گُھڑسوار دستہ لیے کراعِ غمیم کے مقام تک آگئے ہیں، ان کے دستے میں دوسو سوار ہیں، اور وہ آپ کے خلاف صف بندی کرچکے ہیں -"

یہ اطلاعات ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ مسلمان گھُڑ سواروں کے ساتھ آگے بڑھیں، یہ آگے بڑھے اور حضرت خالد بن ولید کے دستے کے سامنے پہنچ گئے، انھوں نے بھی صف بندی کرلی -

نماز کا وقت ہوا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز شروع کی، جب مسلمان نماز سے فارغ ہوئے تو کچھ مشرکوں نے کہا:

"ہم نے ایک اچھا موقع گنوادیا، ہم اس وقت ان پر حملہ کرسکتے تھے، جب کہ یہ نماز پڑھ رہے تھے، ہم اس وقت انہیں آسانی سے ختم کرسکتے تھے -" 

ایک اور مشرک نے کہا:

"کوئی بات نہیں! ایک اور نماز کا وقت آرہا ہے اور نماز ان لوگوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، ظاہر ہے یہ نماز پڑھے بغیر تو رہیں گے نہیں... سو ہم اس وقت ان پر حملہ کریں گے -" 

نماز عصر کا وقت ہوا تو اللہ تعالٰی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا - وہ صلوۃِ خوف کی آیت لےکر آئے تھے، جس میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:

ترجمہ:"اور جب آپ ان کے درمیان ہوں اور آپ انہیں نماز پڑھانا چاہیں تو یوں کرنا چاہیے کہ لشکر کا ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور وہ لوگ ہتھیار لےلیں، پھر جب یہ لوگ سجدہ کرچکیں تو یہ آپ کے پیچھے آجائیں اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آجائے اور نماز پڑھ لے اور یہ اپنے بچاؤ کا سامان، ہتھیار وغیرہ لےلیں -"(سورۃ النساء) 

چنانچہ اس طرح نماز ادا کی گئی... یہ نمازِخوف تھی، یعنی جب دشمن سے مقابلہ ہو تو آدھا لشکر پیچھے ہٹ کر دو رکعت ادا کرلے اور واپس اپنی جگہ پر آجائے، باقی جو لوگ رہ گئے ہیں، اب وہ جاکر دو رکعت ادا کریں - اس نماز کی ادائیگی کا تفصیلی طریقہ فقہ کی کتب میں دیکھا جاسکتا ہے - 

مسلمانوں نے جب عصر کی نماز اس طرح ادا کی تو مشرک بول اٹھے:

"افسوس! ہم نے ان کے خلاف جو سوچا تھا، اس پر عمل نہ کرسکے -" 

ادھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ قریشِ مکہ آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے روکنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں مشورہ کیا اور ان سے فرمایا:

"لوگو! مجھے مشورہ دو، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم بیت اللہ کی زیارت کا فیصلہ کرلیں اور جو بھی ہمیں اس سے روکے، اس سے جنگ کریں -" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اے اللہ کے رسول! آپ صرف بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ فرماکر نکلے ہیں، آپ کا مقصد جنگ اور خوں ریزی ہرگز نہیں، اس لیے آپ اسی ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں، اگر کوئی ہمیں اس زیارت سے روکے گا تو اس سے جنگ کریں گے -" 

حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے وہ نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جاکر جنگ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں... ہم تو آپ سے کہتے ہیں آپ اور آپ کا رب جنگ کریں، ہم بھی آپ کے ساتھ جنگ کریں گے، اور اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر آپ ہمیں لےکر "برکِ غماد" بھی جانا چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پس و پیش نہیں کرےگا -"(برکِ غماد مدینہ منورہ سے بہت دور دراز کے ایک مقام کا نام ہے) - 

ان دونوں حضرات کی رائے لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"بس تو پھر اللہ کا نام لےکر آگے بڑھو -" 

چنانچہ مسلمان آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، اس جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی خود بخود بیٹھ گئی، لوگوں نے اٹھانا چاہا، لیکن وہ نہ اٹھی، لوگوں نے کہا:

"قصوی اڑ گئی ہے -" 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:

"یہ اڑی نہیں اور نہ اڑنے کی اس کی عادت ہے، بلکہ اسے اس ذات نے روک لیا ہے، جس نے ابرہہ کے لشکر کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا -" 

مطلب یہ تھا کہ قصوی خود نہیں رکی، اللہ کے حکم سے رکی ہے - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقام پر قیام کا حکم فرمایا، اس پر صحابہ نے عرض کیا:

"اللہ کے رسول! یہاں پانی نہیں ہے؟" 

یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر ناجیہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو دیا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی کے جانوروں کے نگران تھے - 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ یہ تیر کسی گڑھے میں گاڑدو - تیر ایک ایسے گڑھے میں گاڑ دیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی موجود تھا - فوراً ہی اس میں سے میٹھے پانی کا چشمہ ابلنے لگا، یہاں تک کہ تمام لوگوں نے پانی پی لیا، جانوروں کو بھی پانی پلایا، پھر سب جانور اسی گڑھے کے گرد بیٹھ گئے - 

جب تک تیر اس گڑھے میں لگا رہا، اس میں سے پانی ابلتا رہا... 

گڑھے سے پانی ابلنے کی خبریں قریش تک بھی پہنچ گئیں... ابوسفیان نے لوگوں سے کہا:

"ہم نے سنا ہے، حدیبیہ کے مقام پر کوئی گڑھا ظاہر ہوا ہے، اس میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ہے، ذرا ہمیں بھی تو دکھاؤ، محمد نے یہ کیا کرشمہ دکھایا ہے -"

چنانچہ انہوں نے وہاں جاکر اس گڑھے کو دیکھا... گڑھے میں لگے تیر کی جڑ سے پانی نکل رہا تھا، یہ دیکھ کر ابوسفیان اور اس کے ساتھی کہنے لگے:

"اس جیسا واقعہ تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا، یہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کا چھوٹا سا جادو ہے -"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 89


 صلح حدیبیہ


حدیبیہ پہنچ کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی طرف قاصد بھیجنے کا ارادہ فرمایا تاکہ بات چیت ہوسکے.... کفار پر واضح ہوجائے کہ مسلمان لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے... بلکہ عمرہ کرنے کی نیت سے آئے ہیں... اس غرض کےلیے دو یا تین قاصد بھیجے گئے، لیکن بات نہ بن سکی... آخر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کو بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ مکہ میں ان مسلمان مردوں اور عورتوں کے پاس جائیں جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں... انہیں فتح کی خوش خبری سنائیں اور یہ خبر دیں کہہ بہت جلد الله تعالیٰ مکہ میں اپنے دین کو سربلند فرمائیں گے، یہاں تک کہ وہاں کسی کو اپنا ایمان چھپانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

غرض آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر حضرت عثمان رضی الله عنہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔مکہ میں داخل ہونے سے پہلے سیدنا عثمان رضی الله عنہ نے ابان بن سعید کی پناہ لی جو کہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بعد میں مسلمان ہوئے۔ابان بن سعید نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کی پناہ منظور کرلی۔انہوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اپنے آگے کرلیا... خود ان کے پیچھے چلے تاکہ لوگ جان لیں، یہ ان کی پناہ میں ہیں...اس طرح عثمان رضی الله عنہ قریش مکہ تک پہنچے۔انہیں رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔

جواب میں قریش نے کہا: 

"محمد( صلی الله علیہ وسلم)ہماری مرضی کے خلاف کبھی مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے... ہاں تم چاہو تو بیت الله کا طواف کرلو۔"

اس پر حضرت عثمان رضی الله عنہ نے جواب دیا: 

"یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بغیر طواف کرلوں۔"

قریش نے بات چیت کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کو تین دن تک روکے رکھا، ایسے میں کسی نے یہ خبر اڑادی کہ قریش نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو شہید کردیا ہے... اس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے غمزدہ ہوکر ارشاد فرمایا: 

"اب ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک دشمن سے جنگ نہیں کرلیں گے۔"

اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"الله تعالیٰ نے مجھے مسلمانوں سے بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے۔"

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بات پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے پکار پکار کر بیعت کا اعلان کیا، اس اعلان پر سب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے، صحابہ کرام نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی۔

"کسی حالت میں آپ کا ساتھ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔فتح حاصل کریں گے یا شہید ہوجائیں گے۔"

مطلب یہ کہ یہ بیعت موت پر بیعت تھی۔اس بیعت کی خاص بات یہ تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کی طرف سے خود بیعت کی... اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا: 

"اے اللّٰه! یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے، کیونکہ وہ تیرے اور تیرے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، اس لیے ان کی طرف سے میں خود بیعت کرتا ہوں۔"

پھر چودہ سو صحابہ کرام رضی الله عنہم نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے باری باری بیعت کی۔ بعد میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع مل گئی کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کو شہید نہیں کیا گیا... وہ زندہ سلامت ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا: 

"اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مغفرت کردی، جو غزوہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے۔"

اس بیعت کا ذکر الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں کیا: 

"اے پیغمبر! جب مومن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، تو اللّٰه تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور جو سچائی اور خلوص ان کے دلوں میں تھا، اس نے وہ معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔

ادھر قریش کو جب موت کی اس بیعت کا پتہ چلا تو وہ خوفزدہ ہوگئے، ان کے عقل مند لوگوں نے مشورہ دیا کہ صلح کرلینا مناسب ہوگا... اور صلح اس شرط پر کرلی جائے کہ مسلمان اس سال تو واپس لوٹ جائیں، آئندہ سال آجائیں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہرکر عمرہ کرلیں۔جب یہ مشورہ طے پاگیا تو انہوں نے بات چیت کے لیے سہیل بن عمرو کو بھیجا، اس کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔سہیل آپ کے سامنے پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، بات چیت شروع ہوئی، سہیل نے بہت لمبی بات کی، آخر صلح کی بات چیت طے ہوگئی۔دونوں فریق اس بات پر راضی تھے کہ خوں ریزی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ صلح کرلی جائے۔صلح کی بعض شرائط بظاہر بہت سخت تھیں۔

اس معاہدے میں یہ شرائط لکھی گئیں۔

1- دس سال تک آپس میں کوئی جنگ نہیں کی جائے گی۔

2- جو مسلمان اپنے ولی اور سرپرست کی اجازت کے بغیر مکہ سے بھاگ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے گا، الله کے رسول اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔

( یہ شرط ظاہر میں مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھی، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ یہ شرط بھی دراصل مسلمانوں کے حق میں تھی۔کیونکہ اس طرح بیت الله مسلمانوں سے آباد رہا اور دین کا کام جاری رہا۔)

3- کوئی شخص جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو اور وہ بھاگ کر قریش کے پاس آجائے تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔

4- کوئی شخص، یا کوئی خاندان یا کوئی قبیلہ اگر مسلمانوں کا حلیف( معاہدہ برادر )بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور جو شخص یا خاندان یا قبیلہ قریش کا حلیف بننا چاہے تو وہ ان کا حلیف بن سکتا ہیں۔

5- مسلمانوں کو اس سال عمرہ کیے بغیر واپس جانا ہوگا، البتہ آئندہ سال تین دن کے لیے قریش مکہ کو خالی کردیں گے، لہذا مسلمان یہاں غیر مسلح حالت میں آکر ٹھہر سکتے ہیں اور عمرہ کرسکتے ہیں۔

یہ شرائط بظاہر قریش کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف تھیں۔اس لیے صحابہ کرام کو ناگوار بھی گزریں، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے بھی ناگواری محسوس کی، وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آئے اور بولے: 

"ابوبکر! کیا حضور صلی الله علیہ وسلم اللّٰه کے رسول نہیں ہیں۔"

حضرت صدیق اکبررضی الله عنہ نے فرمایا: 

"بے شک حضور صلی الله علیہ وسلم اللّٰه کے رسول ہیں۔"

اس پر فاروق اعظم بولے: 

"کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ "

ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے فرمایا: 

"بالکل! ہم مسلمان ہیں۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا:

"کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟"

ابوبکرصدیق رضی الله عنہ بولے:،

"ہاں! بے شک وہ مشرک ہیں۔"

اب حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا: 

تب پھر ہم ایسی شرائط کیوں قبول کریں... جن سے مسلمان نیچے ہوتے ہیں ۔

اس وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے بہت ہی خوب جواب دیا، فرمایا:

"اے عمر! وہ الله کے رسول ہیں... ان کے احکامات اور فیصلوں پر سر جھکاؤ، الله تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہیں۔"

یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی الله عنہ فوراً بولے: 

"میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں۔"

اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسی قسم کے سوالات کیے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان کی باتوں کے جواب میں جو الفاظ فرمائے وہ بالکل وہی تھے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرما چکے تھے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"میں الله کا بندہ اور رسول ہوں میں کسی حالت میں بھی الله کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا، وہی میرا مددگار ہے۔"

اسی وقت حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ بول اٹھے: 

"اے عمر! جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں، کیا تم اس کو سن نہیں رہے ہو؟ ہم شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔"

تب حضرت عمر رضی الله عنہ بھی بولے : 

"میں شیطان مردود سے الله کی پناہ مانگتا ہوں۔"

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

"اے عمر! میں تو ان شرائط پر راضی ہوں اور تم انکار کررہے ہو۔"

چنانچہ حضرت عمر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے، میں نے اس وقت جو باتیں کی تھیں، اگرچہ وہ اس تمنا میں تھیں، کہ اس معاملے میں خیر اور بہتری ظاہر ہو، مگر اپنی اس وقت کی گفتگو کے خوف سے میں اس کے بعد ہمیشہ روزے رکھتا رہا، صدقات دیتا رہا، نمازیں پڑھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا۔

پھر اس صلح کی تحریر لکھی گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اوس بن خولہ رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ یہ معاہدہ لکھیں، اس پر سہیل بن عمرو نے کہا: 

"یہ معاہدہ علی لکھیں گے یا پھر عثمان؟ "

حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم فرمایا اور فرمایا لکھو: 

" بسم الله الرحمن الرحیم۔"

اس پر سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا: 

"میں رحمٰن اور رحیم کو نہیں مانتا... آپ یوں لکھوائیں "بِسْمِکَ اَللّٰہُم "( یعنی شروع کرتا ہوں، اے اللّٰه تیرے نام سے)حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا: 

"اسی طرح لکھ دو۔"

انہوں نے لکھ دیا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"لکھو! محمد رسول اللّٰه نے ان شرائط پر سہیل بن عمرو سے صلح کی۔"

حضرت علی رضی الله عنہ لکھنے لگے، لیکن سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا: 

"اگر میں یہ شہادت دے چکا ہوتا کہ آپ اللّٰه کے رسول ہیں، تو پھر نہ تو آپ کو بیت اللّٰه سے روکا جاتا نہ آپ سے جنگ ہوتی ، اس لیے یوں لکھیے: 

"محمد بن عبداللہ "

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 90

فتح مبین


اس وقت تک حضرت علی رضی اللّٰه عنہ حضور اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق وہ عبارت لکھ چکےتھے، اس لیے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: 

اس کو مٹادو (یعنی لفظ رسول اللّٰه کو مٹادو) 

حضرت علی رضی اللّٰه عنہ نے عرض کیا ۔میں تو کبھی نہيں مٹاسکتا ۔

اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: مجھے دکھاؤ ۔یہ لفظ کس جگہ لکھاہے؟ 

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے لفظ آپ ﷺ کو دکھایا، حضور اقدس ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کا حکم فرمایا، لکھو: 

یہ وہ سمجھوتا ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح کی ۔اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: الله کی قسم! میں الله کا رسول ہوں، چاہے تم مجھے جھٹلاتے رہو اور میں ہی محمد ابن عبداللہ ہوں " "

یہ معاہدہ ابھی لکھا جارہاتھا کہ اچانک ایک مسلمان حضرت ابو جندل ابن سہیل رضی الله عنہ اپنی بیڑیوں کو کھینچتے وہاں تک آپہنچے ۔مشرکوں نے انھیں قید میں ڈال رکھاتھا ۔ان کا جرم یہ تھا کہ اسلام کیوں قبول کیا....اسلام چھوڑ دو یا پھر قید میں رہو....یہ ابو جندل رضی اللّٰه عنہ اسی سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے جو معاہدہ طے کررہاتھا ۔یہ کسی طرح قید سے نکل کر وہاں تک آگئے تھے تاکہ اس ظلم سے نجات مل جائے ۔

انہیں دیکھ کر سب مسلمان خوش ہوگئے اور جان بچاکر نکل آنے پر انھیں مبارکباد دینے لگے ۔ادھر جونہی سہیل نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو یک دم کھڑا ہوا، اور ایک زناٹے دار تھپڑ ان کے منہ پر دے مارا ۔یہ بھی روایت آئی ہے کہ اس نے انھیں چھڑی سے مارا پیٹا ۔مسلمان ان کی یہ حالت دیکھ کر رو پڑے ۔اب سہیل نے انھیں گریبان سے پکڑ لیا اور نبی کریمﷺ سے بولا: 

اے محمد! یہ پہلا مسلمان ہے جو ہم لوگوں کے پاس سے یہاں آگیاہے، اس معاہدے کے تحت آپ اسے واپس کریں، کیونکہ یہ معاہدہ لکھا جاچکاہے ۔

اس کی بات سن کر حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے، لے جاؤ ۔اس پر ابوجندل رضی اللہ عنہ بےقرار ہو کر بولے: کیا آپ مجھے پھر ان مشرکوں کے ساتھ واپس بھیج دینگے؟ 

اسلام لانے کی وجہ سے حضرت ابوجندل رضی الله عنہ پر بہت ظلم ڈھائے گئےتھے ۔لہذا اس صورت حال پر سب لوگ بری طرح بے چین ہوگئے ۔اس موقع پر رسول الله ﷺ نے ان سے فرمایا: 

ابوجندل! صبر اور ضبط سے کام لو، اللہ تعالٰی تمہارے لیے اور تم جیسے اور مسلمانوں کے لیے کشادگی اور سہولت پیدا فرمانے والا ہے، ہم قریش سے ایک معاہدہ کرچکے ہیں ۔اس معاہدے کی رو سے ہم تمہیں واپس بھیجنے کے پابند ہیں ۔ہم نے انہیں الله کے نام عہد دیا ہے لہٰذا اس کی خلاف ورزی ہم نہیں کریں گے۔"

مسلمانوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے... وہ بےتاب ہوگئے... حضرت عمر رضی الله عنہ جیسے شخص بھی رو پڑے... لیکن معاہدے کی وجہ سے سب مجبور تھے۔اس طرح ابوجندل رضی الله عنہ کو واپس بھیج دیا گیا۔

ابوجندل رضی الله عنہ کا اصل نام عاص تھا۔ابوجندل ان کی کنیت تھی، ان کے ایک بھائی عبداللہ بن سہیل تھے جو کہ ان سے بھی پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔عبداللہ بن سہیل رضی الله عنہ اس طرح مسلمان ہوئے تھے کہ مشرکوں کے ساتھ بدر کے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آئے تھے... لیکن بدر کے میدان میں آتے ہی یہ کافروں کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔

اس معاہدے کے بعد بنو خزاعہ کے لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دوست قبیلے کی حیثیت سے شامل ہوگئے، یعنی مسلمانوں کے حلیف بن گئے۔

معاہدہ لکھا جاچکا تو دونوں کی طرف سے اہم لوگوں نے اس پر بطور گواہ دستخط کیے، معاہدے سے فارغ ہوکر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سر منڈوانے اور قربانی کا حکم فرمایا۔بلکہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے سر منڈوایا اور قربانی کی، پھر تمام مسلمانوں نے بھی ایسا کیا۔

پھر جب مسلمان اس مقام سے واپس روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی۔اللّٰه تعالیٰ نے اس سورۃ میں یہ خوش خبری سنائی کہ بے شک آپ کو ایک کھلی فتح دے دی گئی اور اللّٰه کی نعمت آپ پر تمام ہونے والی ہے۔

سفر کے دوران ایک مقام پر خوراک ختم ہوگئی۔صحابہ کرام رضی الله عنہ نے یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کو بتائی۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ایک چادر بچھانے کا حکم فرمایا۔پھر حکم فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ بچا کچا کھانا ہو، اس چادر پر ڈال دے۔صحابہ کرام رضی الله عنہہ نے ایسا ہی کیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔پھر سب کو حکم دیا، اس چادر سے اپنے اپنے برتن بھر لیں، چنانچہ سب نے برتن بھرلیے، خوب سیر ہوکر کھایا، لیکن کھانا جوں کا توں بچارہا۔اس موقع پر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ہنس پڑے اور ارشاد فرمایا: 

"اَشهدُ اَنٌ لَا اِلٰہ اِلااللہ وَاِنّی رَسُوْلُ الله اللّٰه کی قسم ان دو گواہیوں کے ساتھ جو شخص بھی اللّٰه تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا، دوزخ سے محفوظ رہے گا۔"

جب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: 

"اے اللّٰه کے رسول! آپ کو یہ فتح مبارک ہو۔"

اس پر صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو مبارک باد دی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں: 

"اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی مسلمانوں کو کوئی فتح نہیں ہوئی۔"

یعنی یہ اس قدر بڑی فتح تھی... جب کہ لوگ اس کی حقیقت کو اس وقت بالکل نہیں سمجھ سکے تھے، جب معاہدہ لکھا جارہا تھا۔

سہیل بن عمرو جنہوں نے یہ معاہدہ لکھا تھا... بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔حجتہ الودع کے موقع پر انہیں اس جگہ پر کھڑے دیکھا گیا تھا جہاں قربانیاں کی جاتی ہیں۔وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو قربانی کے جانور پیش کررہے تھے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے انہیں ذبیح کررہے تھے۔اس کے بعد سہیل بن عمرو رضی الله عنہ نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا سر منڈانے کے لیے حجام بلایا۔اس وقت یہ منظر دیکھا گیا کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا جو بال بھی گرتا تھا، سہیل بن عمرو اسے اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے۔اندازہ لگایئے ان میں کس قدر زبردست تبدیلی آچکی تھی... صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ رسول اللّٰه کا لفظ لکھے جانے پر طیش میں آگئے تھے اور اب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کو آنکھوں سے لگارہے تھے۔

اسی سال چھ ہجری کو شراب حرام ہوئی، حکم آنے پر لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دیے اور شراب بارش کے پانی کی طرح نالیوں میں بہتی نظر آئی۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 91


خیبرکی فتح


خیبر ایک بڑا قصبہ تھا۔اس میں یہودیوں کی بڑی بڑی حویلیاں، کھیت اور باغات تھے۔یہ یہودی مسلمانوں کو بہت ستاتے تھے اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔مدینہ منوره سے خیبر کا فاصلہ 150 کلومیٹر کا ہے۔حدیبیہ سے تشریف لانے کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک ماہ تک یا اس سے کچھ کم مدت تک یعنی ذی الحجہ 6 ھ کے آخر تک مدینہ ہی میں رہے اور اس کے بعد رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے صرف ان لوگوں کو چلنے کا حکم فرمایا جو حدیبیہ میں بھی ساتھ تھے، جو لوگ حدیبیہ کے سفر میں نہیں گئے تھے، انہوں نے بھی چلنے کا ارادہ ظاہر کیا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"میرے ساتھ چلنا ہے تو صرف جہاد کے ارادے سے چلو، مال غنیمت میں سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔"

مدینہ منوره سے روانہ ہوتے وقت رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سباع بن عرفط رضی الله عنہ کو مدینہ منوره میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔اس غزوے میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ازواج میں سے حضرت اُمّ سلمہ رضی الله عنہا بھی ہمراہ تھیں ۔اللّٰه کے رسول صلی الله علیہ وسلم جب خیبر کے سامنے پہنچے تو یہ صبح کا وقت تھا۔حضرت عبدالله بن قیس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے پیچھے تھا۔ایسے میں میں نے "لاحول ولا قوۃ الا بالله العلی العظیم " پڑھا۔

میرے منہ سے یہ کلمہ سن کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اے عبدالله! کیا میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہیں۔"

میں نے عرض کیا: 

"اے اللّٰه کے رسول! ضرور بتایئے۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"وہ یہی کلمہ ہے جو تم نے پڑھا ہے، یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے اور یہ کلمہ اللّٰه تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔"

خیبر کے لوگوں نے جب آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے لشکر کو دیکھا تو چیختے چلاتے میدانوں اور کھلی جگہوں میں نکل آئے اور پکار اٹھے۔

"محمد! ایک زبردست لشکر لے کر آگئے ہیں۔"

یہودیوں کی تعداد وہاں تقریباﹰ دس ہزار تھی، اور وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ مسلمان ان سے مقابلہ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔جب مسلمان جنگ کی تیاری کررہے تھے تو اس وقت بھی حیران ہو ہو کر کہہ رہے تھے: 

"حیرت ہے... کمال ہے... "

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہودیوں کے ان قلعوں میں سے سب سے پہلے ایک قلعہ نطات کی طرف توجہ فرمائی اور اس کا محاصرہ کرلیا۔اس مقام پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مسجد بھی بنوائی۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جتنے دن خیبر میں رہے، اسی مسجد میں نماز ادا فرماتے رہے۔اس جنگ کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو زرہیں پہن رکھی تھیں اور گھوڑے پر سوار تھے۔رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے گھوڑے کا نام ظرب تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں میں نیزه اور ڈھال بھی تھی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو پرچم دیا۔وہ پرچم اٹھائے آگے بڑھے۔انہوں نے زبردست جنگ کی، لیکن ناکام لوٹ آئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے پرچم ایک دوسرے صحابی کو دیا، وہ بھی ناکام لوٹ آئے۔محمد بن مسلمہ رضی الله عنہ کے بھائی محمود بن مسلمہ رضی الله عنہ قلعہ کی دیوار کے نیچے تک پہنچ گئے۔لیکن اوپر سے مرحب نامی یہودی نے ان کے سر پر ایک پتھر دے مارا اور وہ شہید ہوگئے۔کہا جاتا ہے کہ قلعہ کی دیوار کے قریب انہوں نے بہت سخت جنگ کی تھی، جب بالکل تھک گئےتو اس قلعہ کی دیوار کے سائے میں دم لینے لگے۔اسی وقت اوپر سے مرحب نے پتھر گرایا تھا۔

قلعہ نطات کے لوگ سات دن تک برابر جنگ کرتے رہے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم روزانہ محمد بن مسلم رضی الله عنہ کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلتے رہے۔پڑاؤ میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کو نگراں بناتے۔شام کے وقت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اسی جگہ واپس آجاتے۔زخمی مسلمان بھی وہیں پہنچا دیے جاتے۔رات کے وقت ایک دستہ لشکر کی نگرانی کرتا، باقی لشکر سوجاتا۔آپ صلی الله علیہ وسلم بھی نگرانی کرنے والے دستے کے ساتھ گشت کے لیے نکلتے۔کئی روز تک جب قلعہ فتح نہ ہوا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی الله عنہ سے فرمایا: 

"آج میں پرچم اس شخص کو دوں گا جو الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللّٰه اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اور وہ پیٹھ دکھانے والا نہیں، اللّٰه تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائیں گے اور اس طرح اللّٰه تعالیٰ تمہارے بھائی کے قاتل پر قابو عطا فرمائے گا۔

صحابہ کرام نے جب یہ اعلان سنا تو ہر ایک نے چاہا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم پرچم اسے دیں، مگر پھر رسول اللّٰه نے حضرت علی رضی الله عنہ کو طلب فرمایا۔ان دنوں حضرت علی رضی الله عنہ کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔چنانچہ لوگوں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بتایا کہ ان کی تو آنکھیں دکھنے آئی ہوئی ہیں۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کوئی انہیں میرے پاس لے آئے، تب حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ گئے اور انہیں لے آئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور پھر ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔لعاب کا آنکھوں میں لگنا تھا کہ وہ اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

"اس کے بعد زندگی بھر میری آنکھوں میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پرچم حضرت علی رضی الله عنہ کو مرحمت فرمایا اور ارشاد فرمایا: 

"جاؤ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔"

حضرت علی رضی الله عنہ پرچم کو لہراتے ہوئے قلعہ کی طرف روانہ ہوئے، پھر قلعہ کے نیچے پہنچ کر انہوں نے جھنڈے کو نصب کردیا، قلعہ کے اوپر بیٹھے ہوئے ایک یہودی نے انہیں دیکھ کر پوچھا: 

"تم کون ہو؟ "

جواب میں انہوں نے فرمایا: 

"میں علی ابن ابی طالب ہوں۔"

اس پر یہودی نے کہا: 

"تم لوگوں نے بہت سر اٹھایا ہے، حالانکہ حق وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔"

پھر یہودی قلعہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے، ان میں سب سے آگے حرش تھا۔وہ ایک مرحب کا بھائی تھا۔یہ شخص اپنی بہادری کے سلسلے میں بہت مشہور تھا، اس نے نزدیک آتے ہی حضرت علی رضی الله عنہ پر حملہ کیا۔حضرت علی رضی الله عنہ نے اس کا وار روکا اور جوابی حملہ کیا، اس طرح دونوں کے درمیان تلوار چلتی رہی۔آخر حضرت علی رضی الله عنہ نے اسے خون میں نہلادیا... اس کے گرتے ہی مرحب آگے آیا۔یہ اپنے بھائی سے زیادہ بہادر اور جنگ جو تھا۔آتے ہی اس نے زبردست حملہ کیا۔حضرت علی رضی الله عنہ پر تلوار کا وار کیا۔

حضرت علی رضی الله عنہہ نے اس کی تلوار کو اپنی ڈھال پر روکا... حملہ اس قدر سخت تھا کہ ڈھال ان کے ہاتھ سے نکل کر دور جاگری ۔مرحب اس وقت دو زرہیں پہننے ہوئے تھا، دو تلواریں لگا رکھی تھی اور عمامے بھی دو پہن رکھے تھے۔ان کے اوپر خود پہن رکھا تھا۔دیکھنے کے لیے خود میں آنکھوں کی جگہ دو سوراخ کررکھے تھے، اس کے ہاتھ میں نیزہ تھا، اس میں تین پھل لگے تھے۔

اب حضرت علی رضی الله عنہ نے اس پر وار کیا اور ان کی تلوار اسے کاٹتی چلی گئی۔اس طرح حضرت علی رضی الله عنہ نے اسے قتل کردیا۔مرحب کے بعد اس کا بھائی یاسر آگے آیا۔

وہ آگے آکر للکارا: 

"کون ہے جو میرے مقابلے میں آئے گا۔"

حضرت زبیر بن عوام رضی الله عنہ مسلمانوں کی طرف سے آگے آئے اور اسے ٹھکانے لگادیا۔

خیبر کی جنگ ہورہی تھی کہ ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس کا نام اسود راعی تھا اور وہ یہودی تھا۔ایک شخص کا غلام تھا۔اس کی بکریاں چراتا ہوا اس طرف آگیا تھا، اس نے کہا: 

"اے اللّٰه کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے۔"

رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم نے مختصر طور پر اسلام کی خوبیاں بیان فرمائیں اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے فوراً کلمہ پڑھ لیا۔اس کے بعد یہ اسود راعی رضی الله عنہ تلوار لے کر مسلمانوں کے ساتھ قلعہ کی طرف بڑھے اور جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔جب ان کی لاش آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے لائی گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اللّٰه تعالیٰ نے اس غلام کو بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے۔"

اسود رضی الله عنہ کس قدر خوش قسمت تھے، نہ کوئی نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا... نہ حج کیا، لیکن پھر بھی جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

آخر یہ قلعہ فتح ہوگیا۔اس قلعے کے محاصرے کے دوران مسلمانوں کو کھانے کہ تنگی ہوگئی۔وہ بھوک سے بے حال ہونے لگے، لوگوں نے اس تنگی کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذکر کیا۔اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائ: 

"اے اللّٰه ! ان قلعوں میں سے اکثر قلعوں کو فتح کرا کہ ان میں رزق اور گھی کی بہتات ہو۔"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 92


 خیبر کے قلعے


اس کے بعد حضور صلی اللہ علییہ وسلم نے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو پرچم عنایت فرمایا اور لوگوں کو جنگ کے لئے جوش دلایا۔ ناعم نامی قلعہ میں سے جولوگ یہودیوں میں سے جان بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ وہاں سے صعب نامی قلعہ میں پہنچ گئے، یہ فطات کے قلعوں میں سے ایک تھا، اس قلعہ کا محاصرہ دو دن تک جاری رہا۔ قلعہ میں یہودیوں کے پانچ سو جانباز تھے، محاصرے کے بعد اس میں سے ایک جنگ جو نکل کر میدان میں آیا اور مقابلے کے لئے للکارا، اس جنگ جو کا نام یوشع تھا، اس کے مقابلے کے لئے حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ گئے اور اسے پہلے ہی وار میں قتل کرنے میں کامیاب رہے، اس کے بعد دوسرا یہودی نکلا، اس نے بھی مقابلے کے لئے للکارا، اس کا نام دیال تھا، اس کے مقابلے کے لئے حضرت عمارو بن عقبہ غفاری رضی اللہ عنہ نکلے، انہوں نے ایک دم دیال کی کھوپڑی پر وار کردیا اور بولے: 

لے سنبھال، میں ایک غفاری ہوں۔

دیال پہلے ہی وار میں ڈھیر ہوگیا۔ اب یہودیوں نے زبردست حملہ کیا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا اور وہ ادھر ادھر بکھرتے چلے گئے، یہودی آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھوڑے سے اتر کر نیچے کھڑے تھے، اس حالت میں حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ پوری طرح ثابت قدم رہے اور جم کر لڑتے رہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکارا اور جوش دلایا تو وہ پلٹ کر یہودیوں پر حملہ آور ہوئے، انہوں نے یہودیوں پر ایک بھرپور حملہ کیا، حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے دشمن پر زبردست یلغار کی، یہودی اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور تیزی سے پسپا ہوئے، یہاں تک کہ اپنی حویلیوں تک پہنچ گئے، اندر گھستے ہی انہوں نے دروازے بند کرلیے، اب مسلمانوں نے یلغار کی اور یہودیوں کو قتل کرنے لگے، ساتھ میں انہیں گرفتار کرنے لگے، آخر قلعہ فتح ہوگیا۔ اس قلعہ میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر گیہوں، کھجوریں، گھی، شہد، شکر، زیتون کا تیل اور چربی ہاتھ آئی، یہاں سے مسلمانوں کو بہت سا جنگی سامان بھی ہاتھ لگا۔ اس میں منجنیق، زرہیں، تلواریں وغیرہ شامل تھیں۔ اس قلعہ سے جو یہودی جان بچاکر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، انہوں نے قلہ نامی قلعہ میں پناہ لی، یہ قلعہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا، مسلمانوں نے اس کا بھی محاصرہ کرلیا، ابھی محاصرے کو تین دن گزرے تھے کہ ایک یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: 

اے ابوالقاسم! آپ اگر میری جان بخشی کردیں تو میں آپ کو ایسی اہم خبریں دوں گا کہ آپ اطمینان سے قلعہ فتح کرلیں گے۔ ورنہ آپ اگر اس قلعہ کا ایک مہینے تک محاصرہ کئے رہے تو بھی اس کو فتح نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ اس قلعہ میں زمین دوز نہریں ہیں، وہ لوگ رات کو نکل کر نہروں میں سے ضرورت کا پانی لے لیتے ہیں، اب اگر آپ ان کا پانی بند کردیں تو یہ لوگ آسانی سے شکست مان لیں گے۔ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امان دے دی، اس کے بعد اس کے ساتھ ان نہروں پر تشریف لے گئے اور یہودیوں کا پانی بند کردیا، اب یہودی قلعہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے خون ریز جنگ ہوئی اور آخر کار یہودی شکست کھاگئے، اس طرح مسلمانوں نے فطات کے تینوں حصے فتح کرلئے۔ اب وہ شق کے قلعوں کی طرف بڑھے، اس میں بھی کئی قلعہ تھے۔مسلمان سب سے پہلے قلعہ ابئ کی طرف بڑھے، یہاں زبردست جنگ ہوئی، سب سے پہلے یہودیوں میں سے ایک جنگ جو باہر نکلا، اس کا نام غزوال تھا، اس نے مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی، اس کی للکار پر حضرت حباب بن منذر رضی الله عنہ آگے آئے، انہوں نے نزدیک پہنچتے ہی غزوال پر حملہ کردیا، پہلے ہی وار میں اس کا دایاں ہاتھ کلائی پر سے کٹ گیا... وہ زخمی ہوکر واپس بھاگا، حضرت حباب رضی الله عنہ نے اس کا پیچھا کیا...اور بھاگتے بھاگتے دوسرا وار کیا۔یہ وار غزوال کی ایڑی پر لگا، زخم کھا کر وہ گرا، اسی وقت حباب رضی الله عنہ نے اس کا کام تمام کردیا۔

اس وقت ایک اور یہودی مقابلے کے لیے نکلا، اس کے مقابلے میں ایک اور مسلمان آئے، لیکن وہ اس کے ہاتھوں شہید ہوگئے، یہودی اپنی جگہ کھڑا رہا، اس مرتبہ اس کے مقابلے کے لیے مسلمانوں میں سے حضرت ابودجانہ رضی الله عنہ نکلے اور نزدیک پہنچتے ہی اس پر حملہ آور ہوئے، پہلے وار میں انہوں نے اس کا پاؤں کاٹ ڈالا اور دوسرے وار میں اس کا کام تمام کردیا۔

پھر کسی یہودی نے میدان میں آکر مسلمانوں کو نہ للکارا، اس پر مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور قلعہ پر حملہ کردیا۔مسلمان قلعہ کے اندر گھس گئے۔ان میں سب سے آگے ابودجانہ رضی الله عنہ تھے، اس قلعہ سے بھی مسلمانوں کو بہت مال ہاتھ لگا، مویشی اور کھانے پینے کا سامان بھی ملا۔قلعہ میں جو لوگ تھے، وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے شق کے دوسرے قلعہ میں پناہ لی، اس کا نام قلعہ بری تھا۔شق کے دو ہی قلعہ تھے۔ایک ابئ اور دوسرا بری قلعہ بری میں یہودیوں نے بہت زبردست حفاظتی انتظام کر رکھے تھے، ان لوگوں نے مسلمانوں پر بہت سخت تیراندازی کی، پتھر بھی برسائے، بعض تیر تو اس جگہ آکر گرے جہاں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھائی اور اس کو قلعہ کی طرف پھینک دیا۔

ان کے پھینکنے سے یہ قلعہ لرز اٹھا، یہودی بھاگ نکلے، یہاں سے بھی مسلمانوں کو مال غنیمت ہاتھ آیا، یہودیوں کے برتن بھی ہاتھ لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان کو دھوکر استعمال میں لاؤ۔

اس طرح فطات اور شق کے پانچ قلعوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ان جگہوں سے بھاگنے والے یہودیوں نے کتیبہ کے قلعوں میں پناہ لی، کتیبہ کے بھی تین قلعہ تھے۔ان میں سب سے پہلے قلعہ کا نام غوص تھا۔دوسرے کا وطیع اور تیسرے کا نام سلالم تھا، ان تمام تر قلعوں میں غوص کا قلعہ سب سے بڑا اور مضبوط تھا۔مسلمان بیس دن تک اس کا محاصرہ کیے رہے۔آخر حضرت علی رضی الله عنہ کے ہاتھ پر اللّٰه تعالیٰ نے اس قلعہ کو بھی فتح کرادیا، اسی قلعہ سے حضرت صفیہ بنت حئ بن اخطب گرفتار ہوئیں۔بعد میں اللّٰه تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا کہ مسلمان ہوئیں اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں۔

قموص کی فتح کے بعد مسلمانوں نے قلعہ وطیع اور قلعہ سلالم کا محاصرہ کرلیا۔دونوں کا محاصرہ چودہ دن تک رہا مگر دونوں میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا۔چودہ دن بعد انہوں نے صلح کی درخواست کی، اس شرط پر صلح ہوگئی کہ یہ یہودی اپنے بیوی بچوں کو لے کر وہاں سے نکل جائیں گے اور بدن کے کپڑوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں لے جائیں گے، اس طرح یہ دونوں قلعہ بغیر خون ریزی کے فتح ہوئے، مسلمانوں کے ہاتھ ايک بڑا خزانہ بھی لگا۔

خیبر ہی میں آپ کی خدمت میں اشعری اور دوسی قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے، اشعری لوگوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری بھی تھے۔اور دوسیوں میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ تھے۔ان حضرات کو بھی مال غنیمت دیا گیا۔

خیبر کی فتح کے موقع پر حبشہ سے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی الله عنہ وہاں پہنچے۔انہوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، یہ اس موقع پر وہاں لوٹے تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے، کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔ان کی پیشانی پر بوسہ دیا، اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"اللّٰه کی قسم! میں نہیں جانتا، مجھے خیبر کی فتح کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے آنے پر زیادہ خوشی ہے۔"

اس وقت حضرت جعفر رضی الله عنہ کے ساتھ حبشہ کے رہنےوالے بہت سے لوگ بھی تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین پڑھ کر سنائی، اس کو سن کر یہ لوگ رو پڑے اور ایمان لے آئے۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی زبردست خاطر تواضع فرمائی اور فرمایا: 

"ان لوگوں نے میرے صحابہ کی بہت عزت افزائی کی تھی۔"

مطلب یہ تھا کہ جب مکہ کے مشرکوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے تو بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے، اس وقت وہاں ان کی بہت عزت افزائی ہوئی تھی۔

حبشہ سے جو لوگ آئے تھے، ان میں حضرت اُمّ حبیبہ بنت ابوسفیان رضی الله عنہا بھی تھیں۔اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل تھیں، حبشہ میں رہتے ہوئے ان کا نکاح آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہوا تھا۔مکہ سے دوسری ہجرت کے موقع پر انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔اس وقت ان کا پہلا خاوند عبداللہ بن حجش ساتھ تھا۔لیکن حبشہ پہنچ کر وہ مرتد ہوگیا تھا۔اس نے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا اور اسی حالت میں مرگیا تھا۔جب کہ اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا اسلام پر قائم رہی تھیں۔ 7ھ محرم کے مہینے میں، اللّٰه کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ خمری رضی الله عنہ کو نجاشی کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا کا نکاح آپ سے کردیں، چنانچہ یہ نکاح نجاشی نے پڑھایا تھا۔اس نکاح سے پہلے حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے ایک خواب دیکھا تھا، اس میں انہیں کوئی پکارنے والا "اُمّ المومنین "کہہ کر پکار رہا تھا، اس سے اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا گھبرا سی گئیں، جب انہیں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا تو تب انہیں اس کی تعبیر معلوم ہوئی۔ان کا مہر بھی شاه نجاشی کی طرف سے ادا کیا گیا... شادی کا کھانا بھی انہیں کی طرف سے کھلایا گیا، نجاشی کی جس کنیز کے ذریعے یہ سارے معاملات طے ہوئے۔وہ کنیز بھی اللّٰه کے رسول پر ایمان لے آئی تھیں اور انہوں نے اپنے ایمان لانے کا پیغام حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا کے ذریعے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا تھا، آپ کو جب اس کنیز کا پیغام ملا تو آپ مسکرائے اور فرمایا "اس پر سلامتی ہو"۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 93


 قتل کا ناکام منصوبہ 


خیبر کی فتح کے بعد وہاں کی ایک بستی فدک کے لوگ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جو لوگ حاضر ہوئے، ان کے سردار کا نام نون بن یوشع تھا۔اس نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: 

"ہم اس بات پر صلح کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہماری جان بخشی کردی جائے اور ہم لوگ اپنا مال اور سامان لے کر فدک سے جلاوطن ہوجائیں۔"آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور فرمالی، اس سلسلے میں ایک روایت یہ ہے کہ یہودیوں نے فدک کا نصف دینے کی بات کی تھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو منظور فرمایا تھا۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا بہتر ہوگا، فدک کی یہ بستی چونکہ جنگ کے بغیر حاصل ہوگئی تھی، اس لیے یہ مال فے تھا۔ یعنی دشمن سے جنگ کیے بغیر حاصل کیا جانے والا مال جس کے خرچ کا مسلمانوں کے حکمران کو اختیار ہوتا ہے۔چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی آمدنی میں سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کیا کرتے تھے، بنی ہاشم کے چھوٹے بچوں کی پرورش بھی اس کی آمدنی سے فرماتے تھے۔بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کرتے تھے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ خلیفہ بنے تو حضرت فاطمہ رضی الله عنہا نے سمجھا کہ فدک کا علاقہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ملکیت تھا۔

لہذا مجھے وراثت میں ملنا چاہیے۔چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ سے درخواست کی کہ فدک کا علاقہ انہیں دیا جائے۔ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے انہیں مسئلہ سمجھایا اور فرمایا: 

"رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم نبیوں کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔"حضرت فاطمہ رضی الله عنہا مطمئن ہوگئیں اور پھر دوبارہ یہ مطالبہ نہ کیا۔ 

جس زمانے میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم خیبر پہنچے تھے اس وقت کھجوریں ابھی پکی نہیں تھی، چنانچہ کچی کھجوروں کو کھانے سے اکثر صحابہ بخار میں مبتلا ہوگئے، انہوں نے اپنی پریشانی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے بیان کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: 

"گھڑوں میں پانی بھرلو اور ٹھنڈا کرلو، فجر کے وقت اللّٰہ کا نام پڑھ کر اس پانی کو اپنے اوپر ڈالو۔

صحابہ نے اس ہدایت پر عمل کیا تو ان کا بخار جاتا رہا۔خیبر کی جنگ میں سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ زخمی ہوگئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے تین مرتبہ ان کے زخموں پر دم کیا، انہیں اسی وقت آرام آگیا۔

اس غزوے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو قضائے حاجت کے لیے جانا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے فرمایا کہ دیکھو، کوئی اوٹ کی جگہ نظر آرہی ہے یا نہیں ۔عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے چاروں طرف دیکھا.؟؟ کوئی اوٹ کی جگہ نظر نہ آئی، البتہ انہیں ایک اکیلا درخت نظر آیا، انہوں نے بتایا کہ صرف درخت نظر آرہا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اِدھر اُدھر دیکھو، کوئی اور اوٹ کی چیز نظر آتی ہے۔" اب انہوں نے پھر اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک اور درخت کافی دور نظر آیا، انہوں نے اس دوسرے درخت کے بارے میں آپ کو بتایا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"ان دونوں درختوں سے کہو، اللّٰه کے رسول تمہیں حکم دیتے ہیں کہ دونوں ایک جگہ جمع ہوجاؤ... یعنی آپس میں مل جاؤ۔"

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے ان دونوں درختوں کو مخاطب کرکے یہ بات کہہ دی، فوراً دونوں درخت حرکت میں آئے اور ایک دوسرے سے مل گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا پردہ بنالیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے فارغ ہونے کے بعد دونوں درخت اپنی جگہ پر لوٹ گئے۔

جب خیبر فتح ہوگیا تو ایک عورت مسلمانوں کی طرف آتی نظر آئی، وہ لوگوں سے پوچھ رہی تھی کہ الله کے رسول کو بکری کے گوشت کا کون سا حصہ زیادہ پسند ہے، لوگوں نے اسے بتایا حضور صلی الله علیہ وسلم کو دستی کا گوشت پسند ہے۔

اس عورت کا نام زینب تھا، یہ مرحب کی بھتیجی اور سلام بن مشکم یہودی کی بیوی تھی۔یہ بات معلوم کرنے کے بعد وہ واپس لوٹ گئی، اس نے ایک بکری کو ذبح کیا، پھر اس کو بھونا اور اس کے دستی والے حصے میں زہر ملادیا۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھاکر واپس تشریف لائے تو اس عورت کو منتظر پایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے آنے کا سبب پوچھا تو بولی:

"اے ابوالقاسم! میں آپ کے لیے ایک ہدیہ لائی ہوں۔"

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر اس کا ہدیہ لے لیا گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا، اس وقت وہاں بشر بن براء بن معرور رضی الله عنہ بھی موجود تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: 

"قریب آجاؤ"

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دستی سے کھانا شروع فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہی بشر بن براء نے بھی دستی سے گوشت کا لقمہ منہ میں ڈال لیا اور اسے نگل گئے، جب کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ابھی لقمہ صرف منہ میں ڈالا تھا، دوسرے لوگوں نے دوسری جگہوں سے لقمہ لیا... جونہی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لقمہ منہ میں ڈالا، فوراً اگل دیا اور فرمایا: 

"ہاتھ روک لو، یہ گوشت مجھے بتارہا کہ اس میں زہر ہے۔"

اس وقت بشر بن براء رضی الله عنہ نے عرض کیا: 

"اے اللّٰہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو لقمہ میں نے کھایا تھا، اس میں مجھے کچھ محسوس ہوا تھا، لیکن میں نے اس کو صرف اس لیے نہیں اگلا کہ آپ کا کھانا خراب ہوگا پھر جب آپ نے اپنا لقمہ اگل دیا تو مجھے اپنے سے زیادہ آپ کا خیال آیا اور مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے اس کو اگل دیا۔"

اس کے بعد ان کا رنگ نیلا ہوگیا، وہ ایک سال تک اس زہر کے زیر اثر رہے اور اس کے بعد فوت ہوگئے۔

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اس یہودی عورت کو بلوایا اور اس سے پوچھا: 

"کیا تونے بکری کے گوشت میں زہر ملایا تھا؟ "

اس نے پوچھا: 

"آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟ "

جواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"مجھے گوشت کے اسی ٹکڑے نے یہ بات بتائی جو میں نے منہ میں رکھا تھا۔"

اس نے اقرار کیا: "ہاں! میں نے زہر ملایا تھا۔"

تب آپ نے اس سے پوچھا: 

"تم نے ایسا کیوں کیا؟ "

جواب میں اس نے کہا: 

"آپ لوگوں نے( خیبر کی جنگ میں)میرے باپ، بھائی اور میرے شوہر کو قتل کیا اور میری قوم کو تباه کیا، اس لیے سوچا، اگر آپ صرف ایک بادشاہ ہیں تو اس زہر کے ذریعے ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو آپ کو اس زہر کی پہلے ہی خبر ہوجائے گی ۔"

اس کا جواب سن کر آپ نے اسے معاف فرمادیا... کیونکہ آپ اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے، البتہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچاتا تو اس سے بدلہ لیتے تھے۔جہاں تک تعلق ہے بشر بن براء رضی الله عنہ کا... تو وہ اس وقت فوت نہیں ہوئے تھے۔لیکن جب بعد میں زہر سے ان کی موت واقع ہوگئی تو اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس عورت زینب کو بدلے میں قتل کرادیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وفات کے وقت اس زہر کا اثر محسوس کیا تھا اور فرمایا تھا: "اس زہر کے اثر سے میری رگیں کٹ رہی ہیں۔"

غرض! خیبر کی جنگ کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس غزوے کا مال غنیمت تقسیم فرمایا۔

خیبر کی جنگ کے بعد حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ پیش آیا۔

اس بارے میں خود حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں: "جب اللّٰه تعالیٰ نے مجھے عزت اور خیر عطا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اچانک میرے دل میں اسلام کی تڑپ پیدا فرمادی اور مجھے ہدایت کا راستہ نظر آنے لگا، اس وقت میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں ہر موقع پر محمد صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے اور مخالفت میں سامنے آیا اور ہر بار ہی مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ہمیشہ ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ میں غلطی پر ہوں، محمد صلی الله علیہ وسلم کا بول بالا ہورہا ہے۔پھر جب محمد صلی الله علیہ وسلم عمرے کے لیے مکہ میں تشریف لائے تو میں مکہ سے غائب ہوگیا۔تاکہ آپ کے مکہ میں داخلے کا منظر نہ دیکھ سکوں۔میرا بھائی ولید بن ولید آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔وہ مجھ سے بہت پہلے مسلمان ہوچکا تھا۔اس نے مکہ پہنچ کر مجھے تلاش کرایا، مگر میں وہاں تھا ہی نہیں، آخر اس نے میرے نام خط لکھا۔اس خط کے الفاظ یہ تھے: 

"میرے لیے سب سے زیادہ حیرت کی بات یہی ہے کہ تم جیسا آدمی آج تک اسلام سے دور بھاگتا پھررہا ہے، تمہاری کم عقلی پر تعجب ہے، رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے تمہارے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا کہ خالد کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: اللّٰه بہت جلد اسے آپ تک لائے گا۔اس پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اس جیسا شخص اسلام سے بےخبر نہیں رہ سکتا، اگر وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکوں کے خلاف استعمال کرے تو ان کے لیے خیر ہی خیر ہےاور ہم دوسروں کے مقابلے میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔اس لیے میرے بھائی اب بھی موقع ہے کہ جو کچھ تم کھوچکے ہو، اسے پالو، تم بڑے اچھے اچھے مواقع کھوچکے ہو۔"

حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے اپنے بھائی کا یہ خط ملا تو مجھ میں جانے کی امنگ پیدا ہوگئی، دل اسلام کی محبت میں گھر کرگیا۔ساتھ ہی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے میرے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا۔اس سے مجھے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی، پھر رات کو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 94


 پہلا عمرہ


حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک انتہائی تنگ اور خشک علاقے میں ہوں... لیکن پھر اچانک وہاں سے نکل کر ایک نہایت سرسبز شاداب اور بہت بڑے علاقے میں پہنچ گیا ہوں - 

اس کے بعد جب ہم نے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے کا فیصلہ کیا تو مجھے صفوان ملے - میں نے ان سے کہا:

"صفوان! تم دیکھ رہے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم عرب و عجم پر چھاتے جارہے ہیں، اس لیے کیوں نہ ہم بھی ان کے پاس پہنچ کر ان کی اطاعت قبول کرلیں، کیونکہ حقیقت میں ان کی سربلندی خود ہماری ہی سربلندی ہوگی -" 

اس پر صفوان نے کہا:"میرے علاوہ اگر ساری دنیا بھی ان کی اطاعت قبول کرلے، میں پھر بھی نہیں کروں گا -"

اس کا جواب سن کر میں نے سوچا، اس کا باپ اور بھائی جنگِ بدر میں مارے گئے ہیں، لہٰذا اس سے امید رکھنا فضول ہے، چنانچہ اس سے مایوس ہوکر میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کے پاس گیا اور اس سے بھی وہی بات کہی جو صفوان سے کہی تھی، مگر اس نے بھی وہی جواب دیا... میں نے کہا:

"اچھا خیر... لیکن تم میری بات کو راز میں رکھنا -" 

جواب میں عکرمہ نے کہا:"ٹھیک ہے، میں کسی سے ذکر نہیں کروں گا -"

اس کے بعد میں عثمان بن طلحہ سے ملا، یہ میرا دوست تھا، اس کے بھی باپ اور بھائی وغیرہ غزوہ بدر میں مارے جاچکے تھے، لیکن میں نے اس سے دل کی بات کہہ دی، اس نے فوراً میری بات مان لی، ہم نے مدینہ جانے کا وقت، دن اور جگہ طے کرلی... ہم دونوں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، ایک مقام پر ہمیں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ملے، ہمیں دیکھ کر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، ہم نے بھی انہیں مرحبا کیا، اس کے بعد عمرو نے پوچھا:

"آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟" 

ہم نے صاف کہہ دیا:"اسلام قبول کرنے جارہے ہیں -"

عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فوراً بولے:

"میں بھی تو اسی لیے جارہا ہوں -" 

اس پر تینوں خوش ہوئے... اور مدینہ منورہ کی طرف چلے، آخر حرّہ کے مقام پر پہنچ کر ہم اپنی سواریوں سے اترے، ادھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہماری آمد کی اطلاع ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا:

"مکہ نے اپنے جگرپارے تمہارے سامنے لا ڈالے ہیں -"

اس کے بعد ہم اپنے بہترین لباس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلے، اسی وقت میرے بھائی ولید ہم تک پہنچ گئے اور بولے:

" جلدی کرو، اللہ کے رسول تمہاری آمد پر بہت خوش ہیں اور تم لوگوں کا انتظار فرمارہے ہیں -" 

چنانچہ اب ہم تیزی سے آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پہنچ گئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گرم جوشی سے سلام کا جواب دیا، اس کے بعد میں نے کہا:

"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں -" 

اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں، جس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی... میں جانتا تھا کہ تم عقلمند ہو، اسی لیے میری آرزو تھی اور مجھے امید تھی کہ تم خیر کی طرف ضرور جھکو گے -" 

اس کے بعد میں نے عرض کیا:

"اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے دعا فرمائیں کہ وہ میری ان غلطیوں کو معاف فرمادیں جو میں نے آپ کے مقابلے پر آکر کی ہے -" 

حضور صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرمایا:

"اسلام قبول کرنا سابقہ تمام غلطیوں اور گناہوں کو مٹا دیتا ہے -" 

اسی طرح عمرو بن عاص اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما آگے آئے اور انہوں نے بھی اسلام قبول کیا -"

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دراصل اس سے پہلے شاہِ حبشہ نجاشی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا، اس طرح ایک تابعی کے ہاتھ پر ایک صحابی نے اسلام قبول کیا، کیونکہ نجاشی صحابی نہیں ہیں...انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں دیکھا تھا، لیکن تابعی وہ اس لیے ہیں کہ انھوں نے صحابہ کرام کو دیکھا تھا -

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہمیشہ گُھڑ سوار دستے کا امیر بنائے رکھا - 

یہ تھی تفصیل ان تین حضرات کے ایمان لانے کی... حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی بہترین جنگی صلاحیتوں کے مالک تھے... وہ خود فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہمارے مسلمان ہونے کے بعد اللہ کے رسول نے جنگی معاملات میں میرے اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران بھی ہمارا یہی درجہ رہا -

صلح حدیبیہ میں طے پایا تھا کہ مسلمان اس سال تو عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے، البتہ انہیں آئندہ سال عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی، اس معاہدے کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عمرۂ قضا کی نیت کرکے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دوہزار صحابہ تھے، روانہ ہوتے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا تھا کہ جو لوگ صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے، ان سب کا ساتھ چلنا ضروری ہے، چنانچہ وہ سبھی صحابہ ساتھ روانہ ہوئے، ان کے علاوہ کچھ وہ تھے جو حدیبیہ میں شریک نہیں تھے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے، اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے احتیاط کے طور پر ہتھیار بھی ساتھ لیے تھے... مسلمانوں میں سے ایک سو آدمی گُھڑسوار تھے، ان کے امیر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے -

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجدِ نبوی کے دروازے پر احرام باندھ لیا تھا، قریش کے کچھ لوگوں نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہتھیار دیکھے تو وہ بوکھلا کر مکہ معظمہ پہنچے اور قریش کو بتایا کہ مسلمان ہتھیار لے آئے ہیں... اور ان کے ساتھ تو گُھڑ سوار دستہ بھی ہے، قریش یہ سن کر بدحواس ہوئے اور کہنے لگے:

"ہم نے تو کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو اس معاہدے کے خلاف ہو، بلکہ ہم معاہدے کے پابند ہیں، جب تک صلح نامے کی مدت باقی ہے، ہم اس کی پابندی کریں گے، پھر آخر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کس بنیاد پر ہم سے جنگ کرنے آئیں ہیں؟"... آخر قریش نے مکرز بن حفص کو قریش کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کیا، انہوں نے آپ سے ملاقات کی اور کہا:"آپ ہتھیار بند ہوکر حرم میں داخل ہونا چاہتے ہیں، جب کہ معاہدہ یہ نہیں ہوا تھا -"

اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:"ہم ہتھیار لے کر حرم میں داخل نہیں ہوں گے، معاہدے کے تحت صرف میانوں میں رکھی ہوئی تلواریں ہمارے ساتھ ہوں گی... باقی ہتھیار ہم باہر چھوڑ کر جائیں گے -"

مکرز نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن کر اطمینان کا اظہار کیا اور قریش کو جاکر اطمینان دلایا، جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے مکہ معظمہ میں داخلے کا وقت آیا تو قریش کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ سے نکل کر کہیں چلے گئے، ان لوگوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے بغض تھا، دشمنی تھی، وہ مکہ معظمہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نکل گئے - آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے، صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دائیں بائیں تلواریں لیے چل رہے تھے، اور سب "لبيك اللهم لبيك" پڑھ رہے تھے - روانہ ہونے سے پہلے باقی ہتھیار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جگہ محفوظ کرادیے تھے، وہ جگہ حرم سے قریب ہی تھی، مسلمانوں کی ایک جماعت کو ان ہتھیاروں کی نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا تھا - 

مکّہ کے مشرکوں نے مسلمانوں کو بہت مدت بعد دیکھا تھا... وہ انہیں کمزور کمزور سے لگے تو آپس میں کہنے لگے:"یثرب کے بخار نے مہاجرین کو کمزور کردیا ہے -"

یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو حکم فرمایا:"اللہ تعالٰی اس شخص پر رحمت فرمائے گا جو ان مشرکوں کو اپنی جسمانی طاقت دکھائے گا -"

اس بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں یعنی اکڑ اکڑ کر اور سینہ تان کر چلیں اور مشرکین کو دکھادیں کہ ہم پوری طرح طاقتور ہیں - 

اس کے بعد جب مسلمانوں نے رمل شروع کیا تو مکہ کے دوسرے مشرکوں نے ان مشرکوں سے جنھوں نے مسلمانوں کو کمزور بتایا تھا، کہا:"تم تو کہہ رہے تھے کہ انہیں یثرب کے بخار نے کمزور کردیا ہے، حالانکہ یہ تو پوری طرح طاقتور نظر آرہے ہیں -"

اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چادر اس طرح اپنے اوپر ڈال رکھی تھی کہ دایاں کندھا کھلا تھا اور اس کا پلّو بائیں کندھے پر تھا - چنانچہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ایسے ہی کرلیا، اس طرح چادر لینے کو اضطباع کہتے ہیں... اور اکڑ کر چلنے کو رمل کہتے ہیں... یہ اسلام میں پہلا اضطباع اور پہلا رمل تھا... اب حج کرنے والوں ہوں یا عمرہ کرنے والے ، انہیں یہ دونوں کام کرنے ہوتے ہیں - 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم معاہدے کے مطابق تین دن تک مکہ معظمہ میں ٹھہرے، تین دن پورے ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ سے باہر نکل آئے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت میمونہ بنتِ حارث رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا، ان کا پہلا نام برّہ تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نام تبدیل کرکے میمونہ رکھا۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 95


 موتہ کی جنگ


عمرے سے فارغ ہوکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے، تو ایک سنگین واقعہ پیش آگیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط روم کے بادشاہ ہرقل کے نام بھیجا تھا، یہ خط حضرت حارث بن عمیر ازدی رضی اللہ عنہ لے کر روانہ ہوئے، موتہ کے مقام پر پہنچے تو شرجیل( سرخ بیل)غسانی نے انہیں روک لیا۔یہ شرجیل قیصر روم کی طرف سے شام کے اس علاقے کا بادشاہ تھا۔شرجیل نے حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: 

"تم کہاں جارہے ہو.... کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدوں میں سے ہو۔"

جواب میں انہوں نے کہا: 

"ہاں! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔"

یہ سنتے ہی شرجیل نے انہیں رسیوں سے بندھوادیا اور پھر انہیں قتل کردیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدوں میں سے یہ پہلے قاصد ہیں جنہیں شہید کیا گیا۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقع سے بہت رنج ہوا۔آپ نے فوراً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک لشکر تیار کیا، اس کی تعداد تین ہزار تھی۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو شاہ روم سے جنگ کرنے کا حکم فرمایا اور اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔جب یہ لشکر کوچ کرنے کے لیے تیار ہوگیا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اگر زید بن حارثہ شہید ہوجائیں تو ان کی جگہ جعفر بن ابی طالب لشکر کے امیر ہوں گے۔اگر جعفر بن ابی طالب بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ ان کی جگہ لیں گے اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان جس پر راضی ہوں، اسے اپنا امیر بنالیں۔"

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایات فرمائیں، اس وقت ایک یہودی شخص بھی وہاں موجود تھا اور یہ سب سن رہا تھا، اس نے کہا: 

"اگر یہ واقعی نبی ہیں تو میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جن لوگوں کے نام انہوں نے لیے ہیں وہ سب شہید ہوجائیں گے۔"

یہ بات حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے سن لی تو بولے: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفید رنگ کا پرچم تیار کیا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا، پھر آپ نے مجاہدین کو نصیحت فرمائی: 

"جہاں حارث بن عمیر کو قتل کیا گیا ہے، جب تم وہاں پہنچو تو پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا، وہ دعوت قبول کرلیں تو ٹھیک، ورنہ اللہ تعالیٰ سے ان کے مقابلے میں مدد مانگنا اور ان سے جنگ کرنا۔"

لشکر کو روانہ کرتے وقت مسلمانوں نے کہا: "اللہ تمہارا ساتھی ہو، تمہاری مدد فرمائے، اور تم لوگوں کو خیر اور خوشی کے ساتھ ہمارے درمیان واپس لائے۔"

جب یہ لشکر روانہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثنیتہ الوداع کے مقام تک انہیں رخصت کرنے کے لیے ساتھ چلے، وہاں پہنچ کر انہیں نصیحت کی: "میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں، تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں، ان سب کے لیے عافیت مانگتا ہوں، اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو، اللہ کے اور اپنے دشمنوں سے شام کی سرزمین میں جاکر جنگ کرو.... وہاں تمہیں عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں رہنے والے ایسے لوگ ملیں گے جو دنیا سے کٹ گئےہیں، ان سے نہ الجھنا، کسی عورت پر کسی بچے پر تلوار مت اٹھانا، نہ درختوں کو کاٹنا اور نہ عمارتوں کو مسمار کرنا ۔

عام مسلمانوں نے بھی انھیں رخصت ہوتے ہوئے کہا، الله تمہاری حفاظت فرمائے اور تمہیں مال غنیمت کے ساتھ واپس لائے ۔ان دعاؤں کے ساتھ لشکر روانہ ہوا اور شام کی سرزمین میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا ۔اس وقت صحابہ کرام رضی الله عنہم کو معلوم ہوا کہ روم کا بادشاہ شہنشاہ ہرقل دولاکھ فوج کے ساتھ ان کے مقابلے کے لیے تیار ہے، اس کے علاوہ عرب کے نصرانی قبائل بھی چاروں طرف سے آکر ہرقل کی فوج میں شامل ہوگئےہیں اور ان کی تعداد بھی ایک لاکھ کے قریب ہے، اس طرح لشکر کی تعداد تین لاکھ تک جا پہنچی تھی، ان کے پاس بے شمار گھوڑے، ہتھیار اور سازوسامان بھی تھا ۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی کل تعداد صرف تین ہزار تھی اور ان کے پاس سازوسامان بھی برائے نام تھا ۔

یہ تفصیلات معلوم ہونے پر اسلامی لشکر وہیں رک گیا، دو رات تک انھوں نے وہاں قیام کیا اور آپس میں مشورہ کیا، کیونکہ اتنی بڑی تعداد والے دشمن سے صرف تین ہزار آدمیوں کے مقابلہ کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا ۔قدرتی بات ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعين یہ سن کر پریشان ہوئے تھے، کسی نے مشورہ دیا: 

ہمیں چاہیے یہاں رک کر رسول الله ﷺ کو اطلاع دیں تاکہ ہمیں کمک بھیجیں یا واپسی کا حکم فرمائیں ‌‌" ‌‌اس پر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پرجوش لہجےمیں کہا: لوگو! تم اسی مقصد سے جان بچارہے ہو جس کے لیے وطن سے نکلے ہو، تم شہادت کی تلاش میں نکلے تھے ۔ہم دشمنوں سے نہ تو تعداد کے بل پر لڑتے ہیں، اور نہ طاقت کے بل پر ۔ہم تو صرف دین کے لیے لڑتے ہیں ۔دین کے ذریعے ہی الله تعالٰی نے ہمیں سرفراز فرمایاہے اب یا ہمیں فتح ہوگی یا شہادت نصیب ہوگی ۔

یہ پرجوش الفاظ سن کر صحابہ کرام بول اٹھے: 

الله کی قسم! ابن رواحہ نے باالکل ٹھیک کہا ۔چنانچہ اس کے بعد لشکر آگے روانہ ہوا اور یہاں تک کہ موتہ کے مقام پر پہنچ گئے، اسی مقام پر رومی لشکر بھی مسلمانوں کے سامنے آگیا ۔حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ نے رسول الله ﷺ کا پرچم ہاتھ میں لیا اور دشمن کی طرف بڑھے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی قیادت میں رومی لشکر پر حملہ آور ہوئے ۔مسلمانوں نے زبردست حملہ کیاتھا ۔ادھر رومی بھی آخر تین لاکھ تھے ۔انھوں نے بھی بھرپور حملہ کیا، تلواروں سے تلواریں ٹکرانے لگیں ۔نیزے اور تیر چلنے لگے، زخمیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں..گھوڑوں کے ہنہنانے اور اونٹوں کے بلبلانے کی آوازیں گونجنے لگیں...اس حالت میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پرچم اٹھائے جنگ کررہےتھے اور مسلسل آگے بڑھ رہے تھے ۔ان پر جوش کی ایک ناقابل بیان کیفیت طاری تھی...ان کے ہاتھوں کتنے ہی رومی جہنم رسید ہوئے.....آخر وہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ۔

اسی وقت حضرت جعفر رضی الله عنہ نے پرچم لے لیا ۔وہ اپنے سرخ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھے ۔اب مسلمان ان کی قیادت میں جنگ کرنے لگے، انھوں نے اس قدر شدید جنگ کی کہ بیان سے باہر ہے ۔لڑتے لڑتے ان کا ایک بازو کٹ گیا ۔انھوں نے پرچم بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا ۔کچھ ہی دیر بعد کسی نے ان کے بائیں بازو پر وار کیا اور وہ بھی کٹ گیا ۔انھوں نے پرچم کو اپنی گود کے سہارے سنبھالے رکھا اور اسی حالت میں شہادت کا جام نوش فرمایا ۔

اس وقت حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ آگے آئے اور پرچم اٹھالیا ۔انھوں نے گھوڑے کے بجائے پیدل جنگ کرنا مناسب جانا اور دشمنوں سے مقابلہ شروع کردیا، انھوں نے بھی بہت دلیری سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوگئے اب مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کی صفوں میں گھس چکے تھے... اور جنگ گھمسان کی ہورہی تھی... کافروں کی تعداد چونکہ بہت زیادہ تھی اور مسلمان صرف تین ہزار تھے....لہٰذا ان کی تعداد کو اس تعداد سے کوئی نسبت ہی نہیں تھی، اس لیے ان حالات میں بعض مسلمانوں نے پسپائی اختیار کرنے کا ارادہ کیا..... لیکن اسی وقت حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ پکارے:

"لوگو! اگر انسان سینے پر زخم کھاکر شہید ہوتو یہ اس سے بہتر ہے کہ پیٹھ پر زخم کھاکر مرے۔"

ایسے میں حضرت ثابت بن ارقم رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر گرا ہوا پرچم اٹھالیا اور بلند آواز میں بولے : 

"مسلمانو! اپنے میں سے کسی کو امیر بنالو... تاکہ پرچم اسے دیا جاسکے۔"

بہت سے صحابہ پکار اٹھے: 

"آپ ہی ٹھیک ہیں۔"

یہ سن کر وہ بولے: 

"لیکن میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔"

ان حالات میں سب کی نظریں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر پڑیں.... سب نے انہیں امیر بنانے پر اتفاق کرلیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود حضرت ثابت بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ہی پرچم ان کے حوالے کیا تھا اور کہا تھا: 

"جنگ کے اصول اور فن آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔"

اس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بولے: 

"نہیں! میرے مقابلے میں آپ اس پرچم کے زیادہ حق دار ہیں، کیونکہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوچکے ہیں۔"

آخر سب کا اتفاق حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر ہوگیا۔اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جنگ شروع ہوئی۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 96


 اللہ کی تلوار


حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پرچم سنبھالتے ہی دشمن پر زبردست حملہ کیا، اس طرح جنگ کا پانسہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں پلٹ گیا، اس طرح کفار پر مسلمانوں کا رعب چھاگیا اور وہ مزید لڑائی سے کترانے لگے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باہمی مشورے سے اس حد تک کامیابی حاصل کرنے کے بعد واپسی اختیار کی۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوج کا امیر بنتے ہی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کردیا اور پچھلے حصے کو آگے لے آئے، اسی طرح دائیں حصے کو بائیں جانب، اور بائیں حصے کو دائیں جانب سے لے آئے، اس طرح انہوں نے پورے لشکر کی ترتیب بدل کر رکھ دی۔جب رومیوں سے آمنا سامنا ہوا تو انہیں ہر طرف نئے لوگ نظر آئے۔اس طرح انہوں نے خیال کیا کہ مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے۔

یہ جنگ مسلسل سات دن تک جاری رہی تھی، امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جنگ موتہ کے موقع پر ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں، صرف ایک یمنی تلوار باقی رہ گئی تھی، جو آخر تک ان آپ کے ہاتھ میں رہی۔

ادھر تو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہورہی تھی اور ادھر مدینہ منورہ میں کیا ہورہا تھا، وہاں کا منظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال بتادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جنگ کی خبریں سنانے کے لیے مسجد نبوی میں بلایا اور خود منبر پر تشریف فرما ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو تھے.... آپ نے بتانا شروع کیا۔

"لوگو! خیر کا دروازہ... خیر کا دروازہ... خیر کا دروازہ کھل گیا ہے، میں تمہیں، تمہارے لشکر کے بارے میں بتاتا ہوں، ان غازیوں کے بارے میں بتاتا ہوں، وہ لوگ یہاں سے رخصت ہوکر چلے گئے، یہاں تک کہ دشمن سے ان کی مڈبھیڑ ہوگئی اور زید بن حارثہ شہید ہوگئے، ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو، پھر جعفر نے پرچم لیا اور بڑی ثابت قدمی سے لڑے، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو، پھر عبداللہ بن رواحہ نے پرچم اٹھایا اور وہ بھی شہید ہوگئے، پھر خالد بن ولید نے پرچم اٹھالیا، وہ لشکر کے امیر نہیں تھے، وہ خود اپنی ذات کے امیر تھے.... مگر وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں۔اس لیے اللہ کی مدد تیار ہے، اللہ تعالیٰ نے اس تلوار کو کافروں پر سونت دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے دشمن پر فتح نصیب فرمائی۔"

اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بارے میں دعا فرمائی۔

"اے اللہ! وہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، تو اس کی مدد فرما۔"

اسی دن سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سیف اللہ کہا جانے لگا۔

حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔جس روز اس لڑائی میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: 

"جعفر کے بچوں کو میرے پاس لاؤ۔"

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بچوں کو آپ کے پاس لے آئیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار کرنے لگے اور ساتھ میں روتے بھی رہے، یہاں تک کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی.... حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو حیرت ہوئی، پوچھنے لگیں: 

"اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ کیوں رورہے ہیں، کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کوئی خبر آئی ہے؟ "

جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

"ہاں! وہ اور ان کے ساتھی آج ہی شہید ہوئے ہیں۔"

وہ یک دم کھڑی ہوگئیں اور رونے لگیں.... یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت حضرت جعفر اور ان کے ساتھی مدینہ منورہ سے بہت فاصلے پر ملک شام میں لڑرہے تھے اور وہاں سے کسی طرح بھی خبر آنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اب ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی، آپ نے حضرت اسماء کو بلند آواز سے روتے دیکھا تو فرمایا:

"اے اسماء نہ بین کرنا چاہیئے اور نہ رونا پیٹنا چاہیئے۔"

جلد ہی وہاں عورتیں جمع ہوگئیں... وہ بھی یہ خبر سن کر رونے لگیں، نوحہ اور ماتم کرنے لگیں کسی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر بتایا۔

"عورتیں بہت ماتم اور نوحہ کررہی ہیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: 

"جاکر انہیں خاموش کرو۔"

وہ گئے اور جلد ہی واپس آکر بولے: 

"اللہ کے رسول! وہ خاموش نہیں ہورہیں۔"

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"جاؤ! انہیں خاموش کرنے کی کوشش کرو اور اگر نہ مانیں تو ان کے منہ میں مٹی پھینکو۔"

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے بارے میں دعا فرمائی۔

"اے اللہ! جعفر بہترین ثواب کے حقدار ہوگئے ہیں، تو ان کی اولاد کو ان کا بہترین جانشین بنا۔"

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس تشریف لائے اور اپنے گھر والوں سے فرمایا:

"جعفر کی بیوی بچوں سے غافل نہ ہو جانا، آج وہ بہت غمگین ہیں، ان کے لیے کھانا تیار کرکے بھیجو۔"

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"اللہ تعالی نے جعفر کے دونوں بازؤوں کی جگہ پر دو پر لگا دیے ہیں وہ ان کے ذریعے جنت میں اڑتے پھرتے ہیں۔"

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی لاش پر ان کے سینے اور مونڈھوں کے درمیانی حصے میں نوے زخم آئے تھے یہ تلوار اور نیزے کے تھے۔

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اس روز تھے بھی روزے سے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت جعفر کے پاس شام کے وقت پہنچا، وہ میدان جنگ میں زخموں سے چور پڑے تھے، میں نے انہیں پانی پیش کیا تو انہوں نے فرمایا:

"میں روزے سے ہوں، تم یہ پانی میرے منہ کے پاس رکھ دو، اگر میں سورج غروب ہونے تک زندہ رہا تو اس پانی سے روزہ افطار کر لونگا۔"

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی وہ شہید ہوگئے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ فرمایا، لوگوں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! یہ آپ نے کیوں فرمایا؟"

جواب میں ارشاد فرمایا:

"ابھی میرے پاس سے جعفر ابن ابی طالب فرشتوں کے جمگھٹ میں گزرے ہیں، انہوں نے مجھے سلام کیا تھا۔"

غزوہ موتہ سے واپس آنے والا لشکر جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچا، تو وہیں آکر اللہ کے رسول اور مسلمانوں نے ان سے ملاقات کی، شہر میں بچوں نے اشعار گا کر انہیں خوش آمدید کہا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف لا رہے تھے، ان بچوں کو دیکھ کر فرمایا:

"انہیں اٹھا کر سواریوں پر بٹھا لو اور جعفر کے بچوں کو میرے پیچھے بٹھا دو۔"

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس طرح یہ لشکر مدینہ منورہ میں داخل ہوا، تین لاکھ دشمنوں کے مقابلے میں صرف تین ہزار صحابہ کا مقابلہ کرنا اور ان کے بے شمار لوگوں کو قتل کر کے لشکر کا صحیح سلامت واپس مدینہ منورہ لوٹ آنا ایک بہت بڑی کامیابی تھی… اس بہت بڑی کامیابی پر جس قدر بھی خوشی محسوس کی جاتی تھی کم تھی۔

اس جنگ کے بعد مکہ فتح ہوا۔ یہ غزوہ رمضان 8ھ میں پیش آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ دوسرے عرب قبیلوں میں سے کوئی قبیلہ بھی دونوں فریقوں میں سے کسی بھی طرف سے اس صلح نامے میں شامل ہوسکتا ہے، یعنی اگر کوئی قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے، اس صورت میں وہ ان شرائط کا پابند ہوگا، جن کے پابند قریش تھے۔

اس شرط کی رو سے بنی بکر کا قبیلہ قریش کی طرف سےاور بنی خزاعہ کا قبیلہ رسول اللہ کی طرف سےاس صلح میں شامل ہوا، جب کہ ان دونوں قبیلوں میں بہت پرانی دشمنی تھی، دونوں کے درمیان کافی قتل و غارت گری ہو چکی تھی، خون کے بدلے باقی تھے…

لیکن اسلام کی آمد نے ان دشمنیوں کو دبا دیا تھا۔

اب ہوا یہ کہ بنی بکر کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز شعر لکھے اور ان کو گانے لگا، بنی خزاعہ کے ایک نوجوان نے ان اشعار کو سن لیا، اس نے بنی بکر کے شخص کو پکڑ کر مارا، اس سے وہ زخمی ہوگیا، اس پر دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ پرانی دشمنی تو ان میں پہلے سے چلتی آرہی تھی۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 97


قریش کی بدعہدی


بنی بکر نے ساتھ میں قریش سے بھی مدد مانگ لی، قریشی سرداروں نے ان کی درخواست قبول کرلی، ان کی مدد کے لیے آدمی بھی دیئے اور ہتھیار بھی، پھر یہ سب مل کر ایک رات اچانک بنی خزاعہ پر ٹوٹ پڑے، وہ لوگ اس وقت بے فکری سے سوئے ہوئے تھے، ان لوگوں نے بنی خزاعہ کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کیا۔بنی خزاعہ کے بعض افراد جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگے اور ایک مکان میں گھس گئے... قریش نے انہیں وہاں بھی جاگھیرا اور پھر اس مکان میں گھس کر انہیں قتل کیا۔

اس طرح قریش نے بنی بکر کی مدد کے سلسلے میں اس صلح نامے کی دھجیاں اڑادیں... 

جب یہ سب کر بیٹھے تو احساس ہوا کہ یہ ہم نے کیا کیا۔اب وہ جمع ہوکر اپنے سردار ابوسفیان کے پاس آئے، سارا واقع سن کر انہوں نے کہا: 

"یہ ایسا واقعہ ہے کہ میں اگرچہ اس میں شریک نہیں ہوں، لیکن بے تعلق بھی نہیں رہا اور یہ بہت برا ہوا۔اللّٰہ کی قسم! محمد( صلی الله علیہ وسلم )اب ہم سے جنگ ضرور کریں گے... اور میں تمہیں بتائے دیتا ہوں... میری بیوی ہندہ نے ایک بہت بھیانک خواب دیکھا ہے، اس نے دیکھا ہے کہ حجون کی طرف سے خون کا ایک دریا بہتا ہوا آیا اور خندمہ تک پہنچ گیا۔لوگ اس دریا کو دیکھ کر سخت پریشان اور بدحواس ہورہے ہیں۔"

اس پر قریش نے ان سے کہا: 

"جو ہونا تھا، وہ تو ہوچکا، اب آپ محمد( صلی الله علیہ وسلم )کے پاس جائیں اور ان سے نئے سرے سے معاہدہ کرے... آپ کے سوا یہ کام کوئی نہیں کرسکتا... "

اس پر ابوسفیان اپنے ایک غلام کے ساتھ مدینہ منوره کی طرف روانہ ہوئے... اِدھر ان سے پہلے بنی خزاعہ کا ایک وفد آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا اور جو کچھ ہوا تھا، تفصیل سے بیان کردیا۔

حضور صلی الله علیہ وسلم اس وقت مسجد نبوی میں اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے۔بنی خزاعہ کی دردبھری روداد سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور ارشاد فرمایا: 

"اگر میں بنی خزاعہ کی مدد انہی چیزوں سے نہ کروں،جن سے میں اپنی مدد کرتا ہوں تو اللّٰہ تعالیٰ میری مدد نہ فرمائے۔"

اسی وقت آسمان پر ایک بدلی آکر تیرنے لگی، حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: 

"یہ بدلی بنی خزاعہ کی مدد کے لیے بلند ہوئی ہے۔"

اُمّ المومنین حضرت میمونہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم میرے پاس تھے،رات میں اٹھ کر انہوں نے نماز پڑھنے کے لیے وضو کیا، ایسی حالت میں، میں نے انہیں لبیک لبیک لبیک فرماتے سنا... یعنی میں حاضر ہوں... میں حاضر ہوں... میں حاضر ہوں، ساتھ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: 

"میں مدد کروں گا، میں مدد کروں گا، میں مدد کروں گا۔"

اب وہاں کوئی اور تو تھا نہیں... چنانچہ میں نے عرض کیا: 

"اے اللّٰہ کے رسول! میں نے آپ کو تین بار لبیک اور میں مدد کروں گا، فرماتے ہوئے سنا ہے... یہ کیا معاملہ ہے؟ "

جواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"بنی خزاعہ کے ساتھ کوئی واقعہ ہوگیا ہے۔"

اس کے تین دن بعد بنی خزاعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے تھے... گویا اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی، جب کہ ابوسفیان اس کوشش میں تھے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے وہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے جاکر ملیں... یعنی ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے مسلمانوں کو اس واقعہ کی خبر نہ ہو۔حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو بھی پہلے ہی ان الفاظ میں خبر دے دی تھی۔

"بس یوں سمجھو! نئے سرے سے معاہدہ کرنے اور اس کی مدت بڑھانے کے لیے ابوسفیان آیا ہی چاہتا ہے۔"

پھر ابوسفیان سے پہلے ہی بنی خزاعہ کا وفد مدینہ منوره پہنچ گیا۔یہ لوگ حضور صلی الله علیہ وسلم سے مل کر واپس روانہ ہوئے تو راستے میں ابوسفیان سے ان کا سامنا ہوا، ابوسفیان نے ان سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی، لیکن وہ بتائے بغیر آگے بڑھ گئے... تاہم ابوسفیان نے بھانپ لیا کہ یہ لوگ اسی سلسلے میں مدینہ منوره گئے تھے۔

مدینہ منوره پہنچتے ہی ابوسفیان سیدھے اپنی بیٹی، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت اُم المومنین اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا کے پاس گئے... گھر میں داخل ہونے کے بعد جب ابوسفیان نے بستر پر بیٹھنا چاہا تو اُمّ المومنین اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے بستر لپیٹ دیا، یہ دیکھ کر ابوسفیان حیرت زدہ رہ گئے، انہوں نے کہا: 

"بیٹی یہ کیا! مہمان کے آنے پر بستر بچھاتے ہیں کہ اٹھاتے ہیں۔"

حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے فرمایا: 

"یہ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کا بستر ہے... اور آپ ابھی مشرک ہیں۔"

یہ سن کر ابوسفیان بولے: 

"اللّٰہ کی قسم! میرے پاس سے آنے کے بعد تجھ میں خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔"

اس پر حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے فرمایا: 

"یہ بات نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ مجھے اسلام کی ہدایت عطا ہوگئی ہے، جب کہ آپ پتھروں کو پوجتے ہیں، ان بتوں کو جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں... آپ پر تعجب ہے،آپ قبیلہ قریش کے سردار اور بزرگ ہیں، سمجھ دار آدمی ہیں، اور اب تک شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں۔"

ان کے جواب میں ابوسفیان بولے: 

"تو کیا میں اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر محمد( صلی الله علیہ وسلم )کے دین کو اختیار کر لوں۔"

پھر ابوسفیان وہاں سے نکل کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے نئے سرے سے معاہدہ کرنے سے انکار فرمادیا، اب وہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کے پاس گئے... انہوں نے بھی کوئی بات نہ سنی... وہ بار بار سبھی بڑے لوگوں کے پاس گئے... لیکن کسی نے ان سے بات نہ کی... آخر ابوسفیان مایوس ہوگئے اور واپس مکہ لوٹ آئے انہوں نے قریش پر واضح کردیا کہ وہ بالکل ناکام لوٹے ہیں۔

ادھر ابوسفیان کے روانہ ہونے کے بعد ہی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کوچ کا حکم فرمایا، مسلمانوں کے ساتھ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو بھی تیاری کا حکم فرمایا،لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی تھی کہ کہاں جانا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے آس پاس کے دیہاتوں میں یہ پیغام بھیج دیا، ان لوگوں کو حکم ہوا کہ رمضان کا مہینہ مدینہ منوره میں گزاریں، اس اعلان کے فوراً بعد چاروں طرف سے لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی: 

"اے اللّٰہ قریش کے جاسوسوں اور سن گن لینے والوں کو روک دے، تاکہ ہم ان کے علاقے میں اچانک جاپڑیں۔"

ادھر تو حضور صلی الله علیہ وسلم یہ احتیاط فرمارہے تھے کہ کسی طرح قریش کو ان کی تیاریوں کا علم نہ ہو... ادھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہہ نے قریش کے تین بڑے سرداروں کے نام خط لکھا۔اس خط میں انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تیاریوں کی اطلاع دی تھی، یہ خط انہوں نے ایک عورت کو دیا اور اس سے کہا: 

"اگر تم یہ خط قریش تک پہنچادو تو تمہیں زبردست انعام دیا جائے گا۔"

اس نے خط پہچانا منظور کرلیا، اس پر حضرت حاطب رضی الله عنہہ نے اسے دس دینار اور ایک قیمتی چادر دی اور اس سے کہا: 

"جہاں تک ممکن ہو، اس خط کو پوشیدہ رکھنا اور عام راستوں سے سفر نہ کرنا...کیونکہ جگہ جگہ نگرانی کرنے والے بیٹھے ہیں۔"

وہ عورت عام راستہ چھوڑ کر ایک اور راستے سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئی، اس کا نام سارہ تھا، وہ مکہ کی ایک گلوکارہ تھی، مدینہ منوره میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر مسلمان ہوئی تھی، اس نے اپنی خستہ حالی کی شکایت کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی مدد بھی کی تھی، پھر یہ مکہ چلی گئی، لیکن وہاں جاکر اسلام سے پھر گئی... پھر یہ وہاں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز اشعار پڑھنے لگی، ان دنوں ساره دوبارہ مدینہ آئی ہوئی تھی... حضرت حاطب رضی الله عنہہ نے اسے یہ خط دیا تو وہ یہ کام کرنے پر رضامند ہوگئی۔

اس نے وہ خط اپنے سر کے بالوں میں چھپالیا اور مدینہ منوره سے روانہ ہوئی... ادھر یہ روانہ ہوئی، اُدھر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس بارے میں خبر بھیج دی۔آسمان سے اطلاع ملتے ہی آپ نے اپنے چند صحابہ کرام رضی الله عنہم کو اس کے تعاقب میں روانہ فرمایا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: 

"وہ عورت تمہیں فلاں مقام پر ملے گی... اس کے پاس ایک خط ہے، خط میں قریش کے خلاف ہماری تیاریوں کی اطلاع ہے، تم لوگ اس عورت سے وہ خط چھین لو... اگر وہ خط دینے سے انکار کرے تو اسے قتل کردینا۔"

یہ صحابہ حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت مقداد رضی الله عنہم تھے۔حکم ملتے ہی یہ اس مقام کی طرف روانہ ہوگئے...نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے عین مطابق وہ عورت ٹھیک اسی مقام پر جاتے ہوئے ملی، انہوں نے اسے گھیر لیا۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 98


مکہ کی طرف کوچ


انہوں نے اس عورت سے پوچھا: 

"وہ خط کہاں ہے۔"

اس نے قسم کھاکر کہا: 

"میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔"

آخر اسے اونٹ سے نیچے اتارا گیا۔تلاشی لی گئی مگر خط نہ ملا۔اس پر حضرت علی رضی الله عنہہ نے فرمایا: 

"میں قسم کھاکر کہتا ہوں، رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کبھی غلط بات نہیں کہتے... "

جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ لوگ کسی طرح نہیں مانیں گے تو اس نے اپنے سر کے بال کھول ڈالے اور ان کے نیچے چھپا ہوا خط نکال کر انہیں دے دیا۔بہرحال ان حضرات نے خط لاکر حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔خط حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہہ نے لکھا تھا اور اس میں درج تھا کہ اللّٰه کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری شروع کردی ہے اور یہ تیاری ضرور تم لوگوں کے خلاف ہے۔میں نے مناسب جانا کہ تمہیں اطلاع دے کر تمہارے ساتھ بھلائی کروں۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی الله عنہہ کو طلب فرمایا۔انہیں خط دکھایا اور پوچھا: 

"حاطب! اس خط کو پہچانتے ہو؟ "

جواب میں انہوں نے عرض کیا: 

"اے اللّٰہ کے رسول! میں پہچانتا ہوں... میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے! میرا قریش سے کوئی تعلق نہیں، جب کہ آپ کے ساتھ جو مہاجرین مسلمان ہیں، ان سب کی قریش کے ساتھ رشتے داریاں ہیں... اس وجہ سے مشرک ہونے کے باوجود وہاں موجود ان کے رشتے دار محفوظ ہیں... وہ انہیں کچھ نہیں کہتے... لیکن چونکہ میری ان سے رشتے داری نہیں، اس لیے مجھے اپنے گھر والوں کے بارے میں تشویش رہتی ہے... میری بیوی اور بیٹا وہاں پھنسے ہوئے ہیں... سو میں نے سوچا، اس موقع پر قریش پر یہ احسان کردوں... تاکہ وہ میرے گھر والوں کے ساتھ ظلم نہ کریں اور بس... اس خط سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا... قریش پر اللّٰه کا قہر نازل ہونے والا ہے۔"

ان کی بات سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمایا: 

"تم نے حاطب کی بات سنی! انہوں نے سب کچھ سچ سچ بتادیا ہے... اب تم لوگ کیا کہتے ہو؟ "

اس پر حضرت عمر رضی الله عنہہ نے عرض کیا: 

"اے اللّٰہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ اس شخص کا سر قلم کردوں، کیونکہ یہ منافق ہوگیا ہے۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اے عمر! یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور عمر تمہیں کیا پتہ، ممکن ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اہل بدر سے یہ فرمادیا ہو کہ تم جو چاہے کرو، میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔"

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک سن کر حضرت عمر رضی الله عنہہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ادھر اللّٰہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت نازل فرمائی: 

"ترجمہ: "اے ایمان والوں! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو، حالانکہ تمہارے پاس جو دین آچکا ہے، وہ اس کے منکر ہیں وہ رسول کو اور تمہیں اس بنا پر شہر بدر کرچکے ہیں کہ تم الله تعالیٰ پر ایمان لے آئے ہو۔"

اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منوره سے کوچ فرمادیا۔مدینہ میں اپنا قائم مقام ابوحضرت رہم کلثوم ابن حصن انصاری رضی الله عنہہ کو بنایا۔آپ صلی الله علیہ وسلم 10 رمضان کو مدینہ منوره سے روانہ ہوئے۔اس غزوے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ 10 ہزار صحابہ تھے۔یہ تعداد انجیل میں بھی آئی ہے... وہاں یہ کہا گیا ہے کہ "وہ رسول دس ہزار قدسیوں کے ساتھ فاران کی چوٹیوں سے اترے گا۔"... اس موقع پر مہاجرین اور انصار میں سے کوئی پیچھے نہیں رہا تھا۔ان کے ساتھ تین سو گھوڑے اور نوسو اونٹ تھے۔

ان مقدس صحابہ کے علاوہ راستے میں کچھ قبائل بھی شامل ہوگئے تھے۔

اس سفر میں روزوں کی رخصت کی اجازت بھی ہوئی، یعنی جس کا جی چاہے سفر میں روزہ رکھ لے، جو رکھنا نہ چاہے، وہ بعد میں رکھے... اس طرح سفر اور جنگ کے موقعوں پر یہ اجازت ہوگئی۔سفر کرتے کرتے آخر لشکر مرظہران کے مقام پر پہنچ گیا۔اس مقام کا نام اب بطن مرد ہے۔لشکر کی روانگی سے پہلے چونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی کہ قریش کو اسلامی لشکر کی آمد کی خبر نہ ہو... اس لیے انہیں خبر نہ ہوسکی۔

مرظہران کے مقام پر پہنچ کر رات کے وقت مسلمانوں نے آگ جلائی۔چونکہ بارہ ہزار کے قریب تعداد تھی، اس لیے بہت دور دور تک آگ کے الاؤ روشن ہوگئے۔جس وقت یہ لشکر مدینہ منوره سے روانہ ہوا تھا، اسی وقت حضور صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی الله عنہہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منوره کی طرف روانہ ہوئے تھے تاکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیں... لیکن نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم سے ان کی ملاقات راستے ہی میں ہوگئی۔یہ ملاقات مقام حجِفہ پر ہوئی... حضرت عباس رضی الله عنہہ یہیں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ چل پڑے، انہوں نے اپنے گھر کے افراد کو مدینہ منوره بھیج دیا۔ اس موقع پر اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: 

"اے چچا! آپ کی یہ ہجرت اسی طرح آخری ہجرت ہے، جس طرح میری نبوت آخری نبوت ہے۔"

یہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا کہ عام طور پر مسلمان قریش کے ظلم سے تنگ آکر مدینہ منوره ہجرت کرتے تھے، لیکن اب آپ صلی الله علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کے لیے تشریف لے جارہے تھے، اس کے بعد تو مکہ سے ہجرت کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ یہ آپ کی اسی طرح آخری ہجرت ہے۔جس طرح میری نبوت آخری ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان سے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کا مکمل طور پر رد ہوگیا۔( ختم نبوت زندہ باد)

حضرت عباس رضی الله عنہہ اس خیال سے مکہ کی طرف چلے کہ قریش کو بتائیں، اللّٰه کے رسول کہاں تک آچکے ہیں اور قریش کے حق میں بہتر ہے کہ مکہ معظمہ سے نکل کر پہلے ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں... 

ادھر یہ اس ارادے سے نکلے، ادھر ابوسفیان، بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے متعلق خبریں حاصل کرنے کے لیے نکلے... کیونکہ اتنا ان لوگوں کو اس وقت معلوم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے لشکر کے ساتھ مدینہ منوره سے کوچ فرمایا ہے... لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کس طرف گئے ہیں... اب جو یہ باہر نکلے تو ہزاروں جگہوں پر آگ روشن دیکھی تو بری طرح گھبرا گئے۔

ابوسفیان رضی الله عنہ کے منہ سے نکلا:

"میں نے آج کی رات جیسی آگ کبھی نہیں دیکھی اور نہ اتنا بڑا لشکر کبھی دیکھا... یہ تو اتنی آگ ہے جتنی عرفہ کے دن حاجی جلاتے ہے۔"

جس وقت ابوسفیان نے یہ الفاظ کہے، اسی وقت حضرت عباس رضی الله عنہہ وہاں سے گزرے۔انہوں نے الفاظ سن لیے، چنانچہ انہوں نے ان حضرات کو دیکھ لیا اور ان کی طرف آگئے۔حضرت عباس رضی الله عنہ بھی حضرت ابوسفیان کے دوست تھے۔

"ابوحنظلہ! یہ تم ہو؟ "حضرت عباس رضی الله عنہ بولے۔ابوحنظلہ ابوسفیان کی کنیت تھی۔

"ہاں! یہ میں ہوں... اور میرے ساتھ بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام ہیں... تم کہاں؟ "

جواب میں حضرت عباس رضی الله عنہ نے کہا: 

"اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم تمہارے مقابلے میں اتنا بڑا لشکر لے آئے ہیں... اب تمہارے لیے فرار کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔"

ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور کہنے لگے: 

"آه! اب قریش کا کیا ہوگا... کوئی تدبیر بتاؤ۔"

یہ سن کر حضرت عباس رضی الله عنہ نے کہا : 

"اللّٰہ کی قسم! اگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے تم پر قابو پالیا تو تمہارا سر قلم کرادیں گے... اس لیے بہتر یہی ہے کہ میرے خچر پر سوار ہوجاؤ تاکہ میں تمہیں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤں اور تمہاری جان بخشی کرالوں۔"

حضرت ابوسفیان فوراً ہی حضرت عباس رضی الله عنہ کے پیچھے خچر پر سوار ہوگئے۔حضرت عباس رضی الله عنہہ اور ابوسفیان اس جگہ سے گزرے جہاں حضرت عمر رضی الله عنہہ نے آگ جلا رکھی تھی، حضرت عمر رضی الله عنہ نے انہیں دیکھ لیا، فوراﹰ اٹھ کر ان کی طرف آئے اور پکار اٹھے:

"کون! اللّٰہ کا دشمن ابوسفیان ۔"

یہ کہتے ہی حضرت عمر رضی الله عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے... یہ دیکھ کر حضرت عباس رضی الله عنہہ نے بھی خچر کو ایڑ لگادی اور حضرت عمر رضی الله عنہہ سے پہلے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے... پھر جلدی سے خچر سے اتر کر خیمے میں داخل ہوگئے۔ان کے فوراً بعد حضرت عمر رضی الله عنہ بھی خیمے میں داخل ہوگئے... اور بول اٹھے: 

"یارسول اللّٰہ! یہ دشمن خدا ابوسفیان ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر بغیر کسی معاہدے کے ہمیں قابو عطا فرمایا ہے لہذا مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔"

مگر اس کے ساتھ ہی حضرت عباس رضی الله عنہہ نے فرمایا: 

"اے اللّٰه کے رسول! میں انہیں پناه دے چکا ہوں۔"

اب منظر یہ تھا کہ حضرت عمر رضی الله عنہہ ننگی تلوار سونتے کھڑے تھے کہ اِدھر حکم ہو، اُدھر وہ ابوسفیان کا سر قلم کردیں... دوسری طرف حضرت عباس رضی الله عنہ کہہ رہے تھے: 

"اللّٰہ کی قسم! آج رات میرے علاوہ کوئی شخص اس کی جان بچانے کی کوشش کرنے والا نہیں ہے۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 99


 جب بت منہ کے بل گرنے لگے


آخر نبی رحمت صلّی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"عباس!ابوسفیان کو اپنے خیمے میں لے جاؤ اور صبح انھیں میرے پاس لےآنا-" 

صبح کو اذان ہوئی تو لوگ تیزی سے نماز کے لیے لپکنے لگے-ابوسفیان لشکر میں یہ ہل چل دیکھ کر گھبرا گئے-انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا- 

"ابوالفضل!یہ کیا ہورہا ہے؟" 

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا:

"لوگ نماز کے لیے جارہے ہیں-" 

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ دراصل اس خیال سے گھبرائے تھے کہ کہیں اُن کے بارے میں کوئی حکم نہ دیا گیا ہو-پھر انہوں نے دیکھا،لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا پانی جمع کررہے ہیں پھر انہوں نے دیکھا،اللہ کے رسول رکوع کرتے ہیں تو سب لوگ بھی آپ کے ساتھ رکوع کرتے ہیں اور آپ سجدہ کرتے ہیں تو لوگ بھی سجدہ کرتے ہیں- 

نماز کے بعد انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:

"اے عباس!محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)جو بھی حکم دیتے ہیں،لوگ فوراً اس کی تعمیل کرتے ہیں-"

جواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بولے:

"ہاں!اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو کھانے پینے سے روک دیں تو یہ اس پر بھی عمل کریں گے-" 

اس پر ابوسفیان بولے:

"میں نے زندگی میں ان جیسا بادشاہ نہیں دیکھا-نہ کسری ایسا ہے،نہ قیصر...اور نہ بنی اظفر کا بادشاہ-" 

یہ سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"یہ بادشاہت نہیں،نبوت ہے-" 

پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ انھیں لےکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوسفیان کو دیکھ کر فرمایا:

"ابوسفیان!افسوس ہے!کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم"لَا اِلهَ اِلّا اللهُ" کی گواہی دو-"

ابوسفیان فوراً بولے:

"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں-" 

ان کے ساتھ بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام بھی ایمان لے آئے...یہ لوگ واپس نہیں گئے تھے...کہیں رک کر حالات کا انتظار کرنے لگے تھے- 

اس کے بعد ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول!لوگوں میں امان اور جاں بخشی کا اعلان کرادیجیے-" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"ہاں!جس نے ہاتھ روک لیا(یعنی ہتھیار نہ اٹھایا) اسے امان ہے اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امان ہے اور جو شخص تمہارے گھر میں آجائے گا اسے بھی امان ہے...اور جو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے گا اسے بھی امان ہے-"

ساتھ ہی آپ نے ابورُدیحہ رضی اللہ عنہ کو ایک پرچم دے کر فرمایا:

"جو شخص ابورُدیحہ کے پرچم کے نیچے آجائے گا، اسے بھی امان ہے-" 

پھر آپ نے ابوسفیان،حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء کے بارے میں ہدایت فرمائی:

"ان تینوں کو وادی کے تنگ حصے کے پاس روک لو تاکہ جب اللہ کا لشکر وہاں سے گزرے تو وہ اس کو اچھی طرح دیکھ سکیں-"

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا...اس طرح تمام قبائل حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے سامنے سے گزرے-جو قبیلہ بھی ان کے سامنے سے گزرتا، تین مرتبہ نعرۂ تکبیر بلند کرتا-اس عظیم لشکر کو دیکھ کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ بول اٹھے:

"اللہ کی قسم ابوالفضل!آج تمہارے بھتیجے کی مملکت بہت زبردست ہوچکی ہے-" 

جواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"یہ سلطنت اور حکومت نہیں بلکہ نبوت اور رسالت ہے-" 

پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے قریب پہنچے تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بلند آواز میں کہا:

"اے گروہِ قریش!یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنا عظیم الشان لشکر لےکر تمہارے سروں پر پہنچ گئے ہیں...اس لیے اب جو میرے گھر میں داخل ہوجائے گا، اسے امان ہوگی..."

یہ سن کر قریش کہنے لگے:

" کیا تمہارا گھر ہم سب کے لیے کافی ہوجائے گا؟"

ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے گا اسے بھی امان ہے،جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے گا اسے بھی امان ہے اور جو حکیم بن حزام کے گھر میں پناہ لےگا اسے بھی امان ہے اور جو ہتھیار ڈال دےگا اسے بھی امان ہے-"

یہ سنتے ہی لوگ دوڑ پڑے...اور جسے پناہ کی جو جگہ بھی مل سکی...وہاں جاگھسے-اس طرح مکہ معظمہ جنگ کے بغیر فتح ہوا-یہ تاریخ انسانیت کا منفرد واقعہ ہے کہ ایک مغلوب قوم بغیر کشت و خون کے اپنے جانی دشمنوں پر غالب آگئی اور اس نے کوئی انتقام نہ لیا ہو- 

اس عام معافی کے اعلان کے باوجود گیارہ آدمی ایسے تھے جن کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے، یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی خانہ کعبہ کا پردہ بھی پکڑ کر کھڑا ہوجائے،اسے بھی قتل کیا جائے-ان میں عبداللہ بن ابی سرح بھی تھے-یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے یہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے،اس لیے قتل نہیں کئے گئے-دوسرے عکرمہ بن ابوجہل تھے، یہ بھی بعد میں مسلمان ہوگئے تھے- غرض ان گیارہ میں سے زیادہ تر مسلمان ہوگئے تھے،اس لیے قتل ہونے سے بچ گئے-

اس روز کچھ مشرکوں نے مقابلہ کرنے کی بھی ٹھانی- ان میں صفوان بن امیہ،عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو شامل تھے-یہ لوگ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خندمہ کے مقام پر جمع ہوئے-خندمہ مکہ معظمہ کا ایک پہاڑ ہے-ان لوگوں کے مقابلے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا-اس مقابلے میں اٹھائیس کے قریب مشرک مارے گئے-باقی بھاگ نکلے- 

آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے...آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنی اونٹنی قصوی پر سوار تھے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یمنی چادر کا ایک پلہ سر پر لپیٹ رکھا تھا...اور عاجزی اور انکساری سے سر کو کجاوے پر رکھا ہوا تھا...اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمارہے تھے:

"اے اللہ!زندگی اور عیش صرف آخرت کا ہے-" 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کداء کے مقام سے مکہ میں داخل ہوئے-یہ مقام مکہ کی بالائی سمت میں ہے...مکہ میں داخل ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل بھی فرمایا تھا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شعب ابی طالب کے مقام پر قیام فرمایا-یہ وہی گھاٹی تھی جس میں قریش نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تین سال تک رہنے پر مجبور کردیا تھا...اور وہ تین سال مسلمانوں کے لیے انتہائی دکھ اور درد کے سال تھے-جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم شہر میں داخل ہوئے اور مکہ کے مکانات پر نظر پڑی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی-

مکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پیر کے دن داخل ہوئے...جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ سے ہجرت کی تھی،وہ بھی پیر ہی کا دن تھا-آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم حرم میں داخل ہوئے... ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر چل رہے تھے...اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے باتیں کررہے تھے-پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے ہی کعبہ کے سات طواف کیے-حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے تھے-ان چکروں کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ مبارک سے حجرِ اسود کا استیلام کیا یعنی بوسہ دینے کا اشارہ کیا- 

اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے-عرب کے ہر قبیلے کا بت الگ الگ تھا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں اس وقت ایک لکڑی تھی،جس سے ہر بت کو ہلاتے چلے گئے...بت منہ کے بل گرتے چلے گئے... اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 81 تلاوت فرمارہے تھے...اس کا ترجمہ یہ ہے:

"حق آیا اور باطل گزر گیا اور واقعی باطل چیز تو یونہی آنی جانی ہے-"

طواف کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہُبل بت کے پاس پہنچے،قریش کو اس بت پر بہت فخر تھا،وہ اس کی عبادت بہت فخر سے کیا کرتے تھے-یہ قریش کے سب سے بڑے بتوں میں سے ایک تھا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ لکڑی اس بت کی آنکھوں پر ماری...پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے بت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا-

اس وقت حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے کہا:

"اے ابوسفیان!ہبل توڑ دیا گیا...تم اس پر فخر کیا کرتے تھے-" 

یہ سن کر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بولے:

"اے ابن عوام!اب ان باتوں کا کیا فائدہ-" 

پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم مقام ابراہیم پر پہنچے-اس وقت یہ مقام خانہ کعبہ سے ملا ہوا تھا... اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"میرے کندھوں پر کھڑے ہوکر کعبہ کی چھت پر چڑھ جاؤ اور چھت پر بنی خزاعہ کا جو بت ہے...اس پر چوٹ مارو-" 

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی اور چھت پر چڑھ کر بت کو ضرب لگائی...یہ آہنی سلاخوں سے نصب کیا گیا تھا...آخر اکھڑ گیا-حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو اٹھا کر نیچے پھینک دیا- اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:

"بلال!عثمان بن ابی طلحہ سے کعبہ کی چابیاں لے آؤ-"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 100


فتحِ مکہ کے بعد


چابیاں آگئیں تو دروازہ کھولا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کعبہ میں داخل ہوئے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ کعبہ میں پہنچ کر وہاں بنی ہوئی تصاویر مٹادیں،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم،کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی تصاویر مٹائی جاچکی تھیں،لیکن ان تصاویر میں ایک تصویر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی تھی-حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو نہیں مٹایا تھا-اس پر نظر پڑی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"عمر!کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ کعبہ میں کوئی تصویر باقی نہ چھوڑنا-" 

اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

"اللہ تعالٰی ان لوگوں کو ہلاک کرے جو ایسی چیزوں کی تصاویر بناتے ہیں جنہیں وہ پیدا نہیں کرسکتے... اللہ تعالٰی انہیں ہلاک کرے،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے،نہ نصرانی بلکہ وہ پکے سچّے مسلمان تھے-" 

اس کے بعد اس تصویر کو بھی مٹادیا گیا-پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں دو ستونوں کے درمیان میں دورکعت نماز ادا فرمائی-جب آپ اور آپ کے چند ساتھی کعبہ کے اندر داخل ہوئے تھے،اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پہرہ دینے کے لیے دروازے پر کھڑے ہوگئے،وہ مزید لوگوں کو اندر داخل ہونے سے روکتے رہے- 

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور مقام ابراہیم پر پہنچے-مقام ابراہیم اس وقت خانہ کعبہ سے ملا ہوا تھا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں دو رکعتیں ادا کیں،اس کے بعد آبِ زمزم منگا کر پیا اور وضو فرمایا-صحابہ کرام اس وقت لپک لپک کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا پانی لے کر اپنے چہروں پر ملنے لگے-مطلب یہ کہ وہ آپ کے وضو کے پانی کو نیچے نہیں گرنے دے رہے تھے-مشرکینِ مکہ نے جب یہ حالت دیکھی تو پکار اٹھے:

"ہم نے آج تک ایسا منظر دیکھا نہ سنا...نہ یہ سنا کہ کوئی بادشاہ اس درجے کو پہنچا ہو-"

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جب حرم میں آکر بیٹھ گئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارد گرد جمع ہوگئے-ایسے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھ کر گئے اور اپنے والد ابوقحافہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں لے آئے-ابوقحافہ کی بینائی جاتی رہی تھی-ادھر جونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نگاہ حضرت ابوقحافہ پر پڑی تو فرمایا:

"اے ابوبکر!تم نے والدِ محترم کو گھر پر ہی کیوں نہ رہنے دیا،میں خود ان کے پاس چلا جاتا-" 

اس پر ابوبکر نے عرض کیا:

"اللہ کے رسول!یہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ خود چل کر آپ کے پاس آئیں-" 

پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ابوقحافہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بٹھادیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک ان کے سینے پر پھیرا اور فرمایا:

"مسلمان ہوکر عزت اور سلامتی کا راستہ اختیار کرو-" 

وہ اسی وقت مسلمان ہوگئے-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"ابوبکر!تمہیں مبارک ہو-" 

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے:

"قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق اور صداقت کے ساتھ ظاہر فرمایا،میرے والد ابوقحافہ کے اسلام کے مقابلے میں آپ کے چچا ابوطالب ایمان لے آتے تو یہ میرے لیے زیادہ خوشی کی بات ہوتی-"

اس وقت حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے بال بڑھاپے کی وجہ سے بالکل سفید ہوچکے تھے-حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:

"ان بالوں کو مہندی سے رنگ لو...لیکن سیاہ خضاب نہ لگاؤ-" 

مؤرخین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بالوں کی سفیدی کا احساس ہوا تھا- جب زیادہ عمر ہونے پر بال سفید ہونے لگے تو انھوں نے اللہ تعالٰی سے عرض کیا کہ اے باری تعالٰی!یہ کیسی بدصورتی ہے جس سے میرا روپ بدنما ہوگیا ہے۔اس پر اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:

"یہ چہرے کا وقار ہے،اسلام کا نور ہے-میری عزت کی قسم!میرے جلال کی قسم!جس نے یہ گواہی دی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میری خدائی میں کوئی شریک نہیں اور اس کے بال بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوگئے تو قیامت کے دن مجھے اس بات سے حیا آئے گی کہ اس کے لیے میزانِ عدل قائم کروں یا اس کا نامہ اعمال سامنے لاؤں یا اسے عذاب دوں-"

اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی:

"اے پروردگار!پھر تو اس سفیدی کو میرے لیے اور زیادہ کردے-" 

چنانچہ اس کے بعد ان کا سر برف کی طرح سفید ہوگیا-اس سے معلوم ہوا کہ بڑھاپے کی سفیدی اور خود بڑھاپا اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت ہے اور مومن کے لیے عمر کی یہ منزل بھی شکر کا مقام ہے- 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ ان کا سارا کا سارا گھر…

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 101


 غزوہ حنین


پھر اس روز آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں،چنانچہ حضرت بلال رضی الله عنہ نے اذان دی۔اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"جو شخص اللّٰہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے گھر میں کوئی بت نہ چھوڑے،اس کو توڑ دے۔"

لوگ بتوں کو توڑنے لگے۔حضرت ابوسفیان رضی الله عنہ کی بیوی ہندہ رضی الله عنہا جب مسلمان ہوگئیں تو اپنے اپنے گھر میں رکھے بت کی طرف بڑھیں اور لگیں اس کو ٹھوکریں مارنے،ساتھ میں کہتی جاتی تھیں: 

"ہم لوگ تیری وجہ سے بہت دھوکے اور غرور میں تھے۔"

پھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے گردونواح میں بھی صحابہ کرام رضی الله عنہم کو بھیجا...تاکہ ان علاقوں میں رکھے بتوں کو بھی توڑ دیا جائے۔بعض علاقوں میں لوگوں نے باقاعدہ عبادت گاہیں بنا رکھی تھی،ان میں بت رکھے گئے تھے...مشرکین ان بتوں کو اور عبادت خانوں کا اتنا ہی احترام کرتے تھے جتنا کہ کعبہ کا۔دو دن میں جانور بھی قربان کرتے تھے،جس طرح کہ کعبہ میں کیے جاتے تھے،حد یہ کہ ان عبادت خانوں کا طواف بھی کیا جاتا تھا۔

غرض ہر خاندان کا الگ بت تھا۔

فتح مکہ کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انیس دن تک وہاں قیام فرمایا۔اس دوران آپ قصر نمازیں پڑھتے رہے۔اس دوران ایک عورت نے چوری کرلی۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔اس کی قوم کے لوگ جمع ہوکر حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کے پاس آئے کہ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے سفارش کردیں۔حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے جب اس عورت کی سفارش کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا،فرمایا: 

"کیا تم اللّٰہ کے مقرر کردہ سزاؤں میں سفارش کرتے ہو؟"

حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے فوراً عرض کیا: 

"اے اللّٰہ کے رسول!میرے لیے استغفار فرمایئے۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسی وقت کھڑے ہوئے۔پہلے اللّٰہ کی حمدوثنا بیان کی پھر یہ خطبہ دیا: 

"لوگو!تم سے پہلی قوموں کو صرف اسی بات نے ہلاک کیا کہ اگر ان میں کوئی باعزت آدمی چوری کرلیتا تو اسے سزا نہیں دیتے تھے،لیکن اگر کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اسے سزا دیتے تھے...قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے...اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا"اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم سے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عتاب بن اسید رضی الله عنہ کو مکہ معظمہ کا والی مقرر فرمایا۔انہیں حکم فرمایا کہ لوگوں کو نماز پڑھایا کریں۔یہ پہلے امیر ہیں،جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مکہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کو عتاب بن اسید رضی الله عنہہ کے پاس چھوڑا...تاکہ وہ لوگوں کو حدیث اور فقہ کی تعلیم دیں۔

عتاب بن اسید رضی الله عنہ دھوکے بازوں اور بے نمازوں پر بہت سخت تھے...وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ جس کے بارے میں میں نے سنا کہ وہ بلاوجہ جماعت کی نماز چھوڑتا ہے،میں اسے قتل کردوں گا...ان کی اس سختی کو دیکھ کر مکہ کہ لوگوں نے ان کی شکایت ان الفاظ کی: 

"اے اللّٰہ کے رسول!آپ نے اللّٰہ کے گھروالوں پر عتاب بن اسید جیسے دیہاتی اور اجڈ آدمی کو امیر مقرر کردیا ہے۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: 

"میں نے خواب میں دیکھا کہ عتاب جنت کے دروازے پر آئے اور بڑے زور سے زنجیر ہلائی۔آخر دروازہ کھلا اور وہ اس میں داخل ہوگئے۔ان کے ذریعے اللّٰہ نے اسلام کو سربلند فرمایا ہے،جو شخص مسلمانوں پر ظلم کرنا چاہتا ہے،عتاب اس کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔"

فتح مکہ کہ بعد غزوہ حنین پیش آیا۔حنین طائف کے قریب ایک گاؤں ہے۔اس غزوے کو غزوہ ہوازن اور غزوہ اوطاس بھی کہتے ہیں۔جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں پر مکہ فتح فرمادیا تو سبھی قبیلوں نے اطاعت قبول کرلی مگر قبیلہ بنی ہوازن اور بنی ثقیف نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ دونوں قبیلے بہت سرکش اور مغرور تھے۔اپنے غرور میں وہ کہنے لگے: 

"خدا کی قسم!محمد کو اب تک ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جو جنگوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں تھے۔"

اب انہوں نے جنگ کی تیاری شروع کردی...انہوں نے مالک بن عوف نضیری کو اپنا سردار بنالیا۔( یہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے)جب مالک بن عوف کو سب نے متفقہ طور پر تمام قبیلوں کا سردار بنالیا تو ہر طرف سے مختلف قبیلے بڑی تعداد میں آ آ کر لشکر میں شامل ہونے لگے۔

آخر مالک بن عوف نے اپنا یہ لشکر لے کر اوطاس کے مقام پر جاکر پڑاؤ ڈالا۔

ادھر جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو خبریں ملیں کہ بنی ہوازن نے ایک بڑا لشکر جمع کرلیا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن ابی حدوداسلمی کو ان کی جاسوسی کے لیے روانہ کیا اور رخصت کرتے ہوئے ان سے فرمایا: 

"ان کے لشکر میں شامل ہوجانا اور سننا کہ وہ کیا فیصلے کررہے ہیں؟ "

چنانچہ وہ بنی ہوازن کے لشکر میں شامل ہوگئے...ان کی باتیں سنتے رہے،پھر واپس آکر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو ساری تفصیلات سنائیں۔قبیلہ بنی ہوازن والے اپنے ساتھ اپنی عورتیں،بچے اور مال اور دولت بھی لے آئےتھے۔جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو مسکرائے اور ارشاد فرمایا: 

"انشاءاللہ!کل یہ سب کچھ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنے گا۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بنی ہوازن سے مقابلے کے لیے باره ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ان میں دو ہزار نوجوان مکہ معظمہ اور گردونواح کے تھے۔باقی دس ہزار وہ صحابہ تھے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ آئے تھے اور جن کے ہاتھ پر اللّٰہ تعالیٰ نے مکہ فتح کرایا تھا۔جب اسلامی لشکر دشمن کے پڑاؤ کے قریب پہنچ گیا تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے لشکر کی صف بندی فرمائی۔مہاجرین اور انصار میں جھنڈے تقسیم فرمائے۔مہاجرین کا پرچم آپ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے سپردفرمایا،ایک پرچم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کو اور ایک حضرت عمر رضی الله عنہ کو بھی عنایت فرمایا۔انصار میں سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے پرچم حباب بن منزر رضی الله عنہ کو عطا فرمایا ایک پرچم اسید بن حفیر رضی الله عنہ کو عنایت فرمایا۔

جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار ہوئے تو دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔

خود( لوہے کا ہیلمٹ )بھی پہن رکھا تھا...حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے لشکر کو لے کر آگے بڑھے۔

مشرکوں کے لشکر کی تعداد بیس ہزار تھی۔اور انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑوں اور دروں میں چھپا رکھا تھا۔جونہی اسلامی لشکر وادی میں داخل ہوا،مشرکین نے اچانک ان جگہوں سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔اور زبردست تیراندازی شروع کردی۔یہ لوگ تھے بھی بہت ماہر تیرانداز...ان کا نشانہ بہت پختہ تھا۔اس اچانک اور زبردست حملے سے مسلمان گھبرا گئے...ان کے پاؤں اکھڑ گئے... مشرکین کے ہزاروں تیر ایک ساتھ آرہے تھے...بہت سے مسلمان منہ پھیر کر بھاگے... لیکن اللّٰہ کے رسول اپنی جگہ جمے رہے...ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔

مسلمانوں کے لشکر میں اس روز دراصل مکہ کے کچھ مشرک بھی چلے آئے...یہ مال غنیمت کے لالچ میں آئے تھے...جب زبردست تیراندازی ہوئی تو یہ ایک دوسرے کو کہنے لگے: 

"بھئی موقع ہے میدان سے بھاگ نکلنے کا...اس طرح مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔"

اس کے ساتھ ہی وہ یک دم بھاگ کھڑے ہوئے۔انہیں بھاگتے دیکھ کر بعض ایسے مسلمان جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا یہ سمجھے کہ ان کے ساتھی مسلمان بھاگ رہے ہیں۔ان پر گھبراہٹ طاری ہوگئی وہ بھی بھاگنے لگے،اس طرح ایک دوسرے کو بھاگتا دیکھ سب پریشان ہوگئے...لہذاٰ باقیوں کے بھی پاؤں اکھڑ گئے...آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے آس پاس صرف چند صحابہ رہ گئے...ان میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر،حضرت علی،حضرت عباس،ان کے بیٹے حضرت فضل،ربیعہ بن حارث اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ابوسفیان بن حارث رضی الله عنہ شامل تھے...ان کے علاوہ نوے کے قریب اور صحابہ کرام تھے...گویا آپ کے آس پاس صرف سو کے قریب صحابہ رہ گئے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس وقت فرمارہے تھے: 

"میں اللّٰہ کا رسول ہوں!میں محمد بن عبداللہ ہوں!میں اللّٰہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔"

اس کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی الله عنہ سے فرمایا: 

"عباس!لوگوں کو پکارو!اور کہو!اے گروہ انصار!اے بیعت رضوان والوں!اے مہاجرین۔"

حضرت عباس رضی الله عنہ بلند آواز میں پکارے... مسلمانوں کو بلایا...جو مسلمان حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع تھے،انہوں نے کافروں پر زبردست حملہ کردیا... 

ادھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی اٹھائی اور کافروں کی طرف پھینک دی،ساتھ میں فرمایا: 

"یہ چہرے بگڑ جائے۔"

اس وقت تک حضرت عباس رضی الله عنہ اور چند دوسرے صحابہ کی آواز سن کر بھاگتے ہوئے مسلمان بھی واپس پلٹ چکے تھے اور انہوں نے جم کر لڑنا شروع کردیا...اس طرح جنگ ایک بار پھر ہوچکی تھی... کنکریوں کی اس مٹھی کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے کافروں کی آنکھوں تک پہنچادیا...یہ ان کی آنکھوں میں کیا گری کہ وہ بری طرح بدحواس ہوگئے...وہ بری طرح بھاگ نکلے۔اس جنگ کے شروع ہونے سے پہلے لشکر کی تعداد دیکھ کر ایک صحابی نے یہ کہا تھا: 

"اے اللّٰہ کے رسول!آج ہماری تعداد اس قدر ہے کہ دشمن سے شکست نہیں کھاسکتے۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار گزری تھی،یہ الفاظ بہت گراں محسوس ہوئے تھے... کیونکہ ان میں فخر اور غرور کی بو تھی...اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک بھی یہ جملہ ناپسندیدہ تھا...شاید اسی لیے شروع میں مسلمانوں نے شکست ہوئی تھی...لیکن پھر اللّٰہ نے کرم فرمایا اور مسلمانوں کے قدم جم گئے...پھر جب مشرکوں کو شکست ہوئی تو وہ بری طرح بھاگے تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا: 

"جو مشرک ہاتھ لگے،اسے قتل کردیا جائے۔"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 102


طائف کا محاصرہ


ساتھ ہی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: 

"جس شخص نے کسی مشرک کو قتل کیا ہے،اس کے ہتھیار وغیرہ اسی کے ہوں گے۔"

حنین کے میدان سے شکست کھاکر بنی ہوازن کے کچھ لوگ اوطاس کے مقام پہنچ گئے۔انہوں نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوعامر اشعری رضی الله عنہ کو ایک دستہ دے کر ان کی طرف روانہ فرمایا اور خود اپنے خیمے میں تشریف لے آئے۔

حضرت عائذ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین میں میری پیشانی میں ایک تیر آکر لگا... خون بہہ کر میرے سینے پر گرنے لگا،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میری پیشانی سے پیٹ تک پھیرا۔خون اسی وقت بند ہوگیا اور میرے لیے دعا فرمائی۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ کا نشان میری پیشانی پر باقی رہ گیا۔

حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ بھی اس جنگ میں زخمی ہوئے تھے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کے زخم پر لگایا۔وہ فرماتے ہیں کہ تکلیف اسی وقت جاتی رہی۔

حنین میں مشرکوں کی شکست کے بعد بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔وہ جان گئے تھے کہ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کو اللّٰہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہے... 

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا:

"تمام قیدی اور مال غنیمت ایک جگہ جمع کردیا جائے۔"

جب یہ مال اور قیدی جمع ہوگئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سب کچھ جعرانہ کے مقام پر بھیجوادیا... غزوہ طائف سے واپسی تک یہ سارا سامان وہیں رہا، یعنی اس کے بعد مسلمانوں میں تقسیم ہوا۔

پھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بنی ہوازن اور اس کا سردار مالک بن عوف شکست کھانے کے بعد طائف پہنچ گئے ہیں۔طائف اس وقت بھی ایک بڑا شہر تھا۔

ان لوگوں نے وہاں ایک قلعہ میں پناه لے رکھی تھی۔

یہ اطلاع ملنے پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم طائف کی طرف روانہ ہوئے۔آپ نے ہر اول دستہ پہلے روانہ فرمایا۔اس دستے کا سالار حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کو مقرر فرمایا۔آخر یہ لشکر طائف پہنچ گیا اور اس قلعہ کے پاس جاٹھیرا جس میں مالک بن عوف اور اس کا بچا کھچا لشکر پناه لے چکا تھا۔مشرکوں نے جونہی اسلامی لشکر کو دیکھا،انہوں نے قلعہ پر سے زبردست تیراندازی کی...ان تیروں سے بہت سے مسلمان زخمی ہوگئے۔ایک تیر حضرت ابوسفیان بن حرب رضی الله عنہ کی آنکھ میں لگا۔ان کی آنکھ باہر نکل آئی۔یہ اپنی آنکھ ہتھیلی پر رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: 

"اللّٰہ کے رسول!میری یہ آنکھ اللّٰہ کے راستے میں جاتی رہی۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اگر تم چاہو تو میں دعا کروں گا اور تمہاری یہ آنکھ واپس اپنی جگہ پر ٹھیک ہوجائے گی... 

اگر آنکھ نہ چاہو تو پھر بدلے میں جنت ملے گی۔"

اس پر انہوں نے فرمایا: 

"مجھے تو جنت ہی عزیز ہیں۔"

یہ کہا اور آنکھ پھینک دی... 

غزوہ طائف میں جو لوگ تیروں سے زخمی ہوئے تھے، ان میں سے بارہ آدمی شہادت پا گئے۔آخر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم قلعہ کے پاس سے ہٹ کر اس جگہ آگئے جہاں اب مسجد طائف ہے۔

قلعہ کا محاصرہ جاری تھا کہ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ لشکر سے آگے نکل کر آگے بڑھے اور پکارے۔

"کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے۔"

ان کی للکار کے جواب میں کوئی مقابلے کے لیے نہ آیا۔قلعہ کے اوپر سے عبدیالیل نے کہا: 

"ہم میں سے کوئی شخص بھی قلعہ سے اتر کر تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ہم قلعہ بند رہیں گے،ہمارے پاس کھانے پینے کا اتنا سامان ہے کہ ہمیں برسوں کافی ہوسکتا ہے... جب تک ہمارا غلہ ختم نہیں ہوجاتا،ہم باہر نہیں آئیں گے...تم اس وقت تک ٹھر سکتے ہو تو ٹھیرے رہو۔"

محاصرے کو جب کئی دن گزر گئے تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: 

"آپ طائف والوں پر فیصلہ کن حملہ کیوں نہیں فرمارہے۔"

اس کے جواب میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔

"ابھی مجھے طائف والوں کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم نہیں ملا...میرا خیال ہے کہ ہم اس وقت اس شہر کو فتح نہیں کریں گے۔"

آخر جب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ ملا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے واپسی کا حکم فرمادیا... لوگوں کو فتح کے بغیر واپس جانا اچھا نہ لگا... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کی ناگواری بھانپ لی چنانچہ فرمایا: 

"اچھا تو پھر حملے کی تیاری کرو۔"

لوگوں نے فوراً حملے کی تیاری کی اور قلعہ پر دھاوا بول دیا...اس طرح بہت سے مسلمان زخمی ہوگئے۔اس کے بعد آپ نے پھر اعلان فرمایا: 

"اب ہم انشاءاللہ روانہ ہورہے ہیں۔"

اس مرتبہ یہ اعلان سن کر لوگ خوش ہوگئے...اور فرمابرداری کے ساتھ کوچ کی تیاری کرنے لگے۔یہ دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم ہنس پڑے...آپ کو ہنسی اس بات پر آئی کہ پہلے تو لڑنے پر تیار تھےاور واپس جانا برا محسوس کررہے تھے...اب کس قدر جلد اور خوشی سے واپس جانے کے لیے تیار ہوگئے۔

دراصل اب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے جان لیا تھا کہ اللّٰہ کے رسول کی رائے ہی بالکل درست تھی۔

واپس روانگی کے وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس کا وعدہ سچا ہے۔اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی...اس اکیلے نے "احزاب"کو شکست دی۔"( احزاب کا مطلب ہے وہ فوج جس میں بہت سے گروہ جمع ہوں۔)"

کچھ آگے بڑھنے پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"ہم لوٹنے والے ہیں،توبہ کرنے والے ہیں اور عبادت کرنے والے ہیں اپنے پروردگار کی اور اس کی تعریفیں بیان کرتے ہیں۔"

طائف وہ شہر تھا جہاں کے لوگوں نے ہجرت سے پہلے بھی حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بہت ستایا تھا،لہولہان کردیا تھا مگر اس کے باوجود پہلے بھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بددعا نہیں کی تھی اور اب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم طائف کے لوگوں کے لیے یہ دعا فرمائی: 

"اے اللّٰہ!بنی ثقیف کو ہدایت عطا فرما اور انہیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے پاس بھیج دے۔"

اس لڑائی میں حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی الله عنہ بھی زخمی ہوئے تھے،اس زخم کے اثر سے وہ چند سال بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کی خلافت کے دور میں انتقال کرگئے۔

واپسی کے سفر میں جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم جعرانہ کے مقام پر پہنچنے کے لیے نشیب میں اترے تو وہاں سراقہ بن مالک ملے۔سراقہ وہ شخص ہیں کہ جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے انعام کے لالچ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا تعاقب کیا تھا،نزدیک پہنچنے پر ان کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے تھے،انہوں نے معافی مانگی تو گھوڑے کے پاؤں نکل آئے،یہ پھر قتل کے ارادے سے آگے بڑھے تو پھر گھوڑے کے پاؤں دھنس گئے،تین بار ایسا ہوا،آخر انہیں عقل آگئی اور سچے دل سے معافی مانگی...پھر واپس لوٹ گئے تھے،اس وقت یہ مسلمان نہیں ہوئے تھے،لیکن انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا تھا: 

"اے محمد! میں جانتا ہوں...ایک دن ساری دنیا میں آپ کا بول بالا ہونے والا ہے... 

آپ لوگوں کی جانوں کے مالک ہوں گے...اس لیے مجھے اپنی طرف سےایک تحریر لکھ دیجئے تاکہ جب آپ کی حکومت کے دور میں آپ کے پاس آؤں تو آپ میرے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔"

ان کی درخواست پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ یا ان کے غلام عامر بن ابی فہیرہ رضی الله عنہ سے تحریر لکھوا کر انہیں دی تھی...سراقہ اب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے ہی آئے تھے اور جعرانہ کے مقام پر یہ ملاقات ہوگئی...اسی مقام پر مسلمان غزوہ حنین کا مال غنیمت منتقل کرچکے تھے...سراقہ بن مالک اس وقت یہ پکار رہے تھے: 

"میں سراقہ بن مالک ہوں...اور میرے پاس اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تحریر موجود ہے۔"

اس کے الفاظ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"آج وفا،محبت اور وعدے کا دن ہے،اسے میرے قریب لاؤ۔"

صحابہ کرام نے سراقہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے قریب لاکھڑا کیا...آپ ان سے بہت مہربانی سے پیش آئے۔

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حنین کے مال غنیمت کا حساب لگوایا اور اس کو مسلمانوں میں تقسیم فرمایا... حنین میں جو قیدی ہاتھ لگے،ان میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیما بنت حلیمہ سعدیہ بھی تھیں۔یعنی آپ کی دایہ حضرت حلیمہ سعدیہ کی بیٹی تھیں اور بچپن میں آپ کی دودھ شریک بہن تھیں۔جب یہ گرفتار ہوئی تھیں تو صحابہ سے کہنے لگیں کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں...لیکن انہوں نے شیما کی بات پر یقین نہیں کیا تھا... 

آخر انصار کی ایک جماعت انہیں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئی۔شیما جب آپ کے سامنے آئیں تو بولیں: 

"اے محمد! میں آپ کی بہن ہوں۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: 

"اس بات کا کیا ثبوت ہے۔"

جواب میں شیما بولیں: 

"میرے انگوٹھے پر آپ کے کاٹنے کا نشان ہے...جب میں نے آپ کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس نشان کو پہچان لیا ۔پہچانتے ہی آپ کھڑے ہوگئے۔ان کے لیے اپنی چادر بچھائی اور انہیں عزت سے بٹھایا۔اس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے...اور فرمایا: 

"تم جو کچھ مانگو گی،دیا جائے گا...جس بات کی سفارش کروگی، قبول کی جائے گی۔"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 103


 غزوۂ تبوک


اس پر شیما نے اپنی قوم کے قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا-قیدیوں کی تعداد چھ ہزار تھی-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سب قیدی شیما کے حوالے کردیے اور انھوں نے سب کو چھوڑ دیا-یہ حد درجے شریفانہ سلوک تھا،اس طرح شیما اپنی قوم کے لیے بے حد بابرکت ثابت ہوئیں...اس کے بعد بنی ہوازن کے دوسرے قیدیوں کو بھی رہائی مل گئی-مالک بن عوف جنگ کے میدان سے فرار ہوکر طائف چلے گئے تھے،جب کہ ان کے گھر والے قیدی بنالیے گئے تھے-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بھی رہا کردیا تھا-جب مالک بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنے گھرانے کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حسنِ سلوک کا پتا چلا تو وہ بھی طائف سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے...آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت جعرانہ کے مقام پر تھے...انھوں نے اسلام قبول کرلیا -آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بنی ہوازن کے ان لوگوں کا امیر بنادیا جو مسلمان ہوگئے تھے- 

جعرانہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ روانہ ہونے لگے تو عمرے کا احرام باندھ لیا - وہاں سے روانہ ہوکر رات کے وقت مکہ میں داخل ہوئے- آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلسل لبیک(یعنی تلبیہ) پڑھتے رہے- عمرے سے فارغ ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم 27ذی قعدہ کو واپس مدینہ منورہ تشریف لائے-فتح مکہ کے بعد عرب کے تمام قبائل پر اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے- 

رجب 9ہجری میں غزوۂ تبوک پیش آیا-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے اطلاعات ملیں کہ رومیوں نے شام میں بہت زبردست لشکر جمع کرلیا ہے اور یہ کہ انھوں نے اپنے ہر اول دستوں بلقاء کے مقام تک پھیلا دیا ہے...بلقاء ایک مشہور مقام تھا-ان اطلاعات کی بنیاد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تیاری کا حکم فرمایا...آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنگ کی تیاری کا حکم فرماتے تھے تو یہ نہیں بتاتے تھے کہ جانا کہاں ہے...مطلب یہ کہ اس بات کو خفیہ رکھتے تھے،لیکن غزوۂ تبوک کی باری میں آپ نے معاملہ راز میں نہ رکھا، اس لیے کہ رومیوں کا لشکر بہت زیادہ فاصلے پر تھا... راستے کی تکالیف کا اندازہ کیے بغیر چل پڑنا مناسب نہیں تھا...اس کے علاوہ دشمن کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی،اس لیے اس کے مطابق تیاری کرنے کی ضرورت تھی- 

غزوۂ تبوک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری غزوہ ہے-اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی غزوے میں تشریف نہ لے جاسکے-البتہ مہمات کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روانہ فرماتے رہے- 

سامانِ جنگ اور ضرورت کی دوسری چیزوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے امداد کا اعلان فرمایا...اس اعلان کا سننا تھا کہ صحابہ کرام نے اپنا مال اور دولت پانی کی طرح خرچ کیا-حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو اس قدر دولت لٹائی کہ کوئی دوسرا شخص مقدار کے لحاظ سے ان کی برابری نہ کرسکا-انھوں نے نوسو اونٹ،ایک سو گھوڑے،دس ہزار دینار اور ان کے علاوہ بے شمار زادِ راہ دیا-حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فیاضی کا حال دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"اے اللہ!میں عثمان سے راضی ہوں،تو بھی ان سے راضی ہوجا-" 

ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کافی رات گئے تک ان کے لیے دعا فرماتے رہے- 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے یہ الفاظ بھی ارشاد فرمائے:

"آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا-" 

یہ الفاظ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دیناروں کو الٹ پلٹ رہے تھے-حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ جو دوسرے مال دار صحابہ تھے،انہوں نے بھی لشکر کی تیاری میں زبردست امداد دی-حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو قربانی میں سب سے بڑھ گئے-وہ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے...اس کی تعداد چار ہزار درہم کے برابر تھی-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا:

"ابوبکر!اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے یا نہیں؟" 

جواب میں انہوں نے عرض کیا:

"میں نے ان کے لیے اللہ اور اللہ کا رسول چھوڑا ہے-" 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لائے- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی بہت سا مال لائے-حضرت عباس بن عبد المطلب بھی بہت مال لائے-عورتوں نے اپنے زیورات اتار کر بھیجے-حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے ستر وسق کھجوروں کے دیے-ایک وسق اتنے وزن کو کہتے ہیں جتنا وزن ایک اونٹ پر لادا جاسکے...یہ وزن تقریباً پونے چار ٹن بنتا ہے- 

آخرکار جنگ کی تیاری مکمل ہوگئی-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے- اس لشکر میں دس ہزار گھوڑے تھے-آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا- 

اس لشکر میں کچھ منافقین بھی شامل ہوئے...ان میں منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی سلول بھی تھا... یہ مہم چونکہ بہت دشوار تھی...طویل فاصلے والی تھی،اس لیے اکثر منافقین تو شروع ہی سے ساتھ نہیں دیتے تھے،پھر جانے والوں میں سے بھی بہت سوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور وہ کچھ ہی دور چلنے کے بعد واپس لوٹ گئے-اس طرح منافقوں کا پول کھل گیا- 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غزوے کے لیے کئی پرچم تیار کرائے تھے-سب سے بڑا پرچم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا-حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ ہی میں ٹھہرنے کا حکم فرمایا-اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ پریشانی محسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری حیثیت میرے لیے وہی ہو جو موسی علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام کی تھی،فرق یہ ہے کہ ہارون علیہ السلام نبی تھے...اور میرے بعد کوئی نبی نہیں-"

یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ مطمئن ہوگئے... سوائے غزوۂ تبوک کے اور کوئی غزوہ ایسا نہیں جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ہوں- 

اس سفر کے دوران تبوک کی طرف جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کھنڈرات کے پاس سے گزرے جو قوم ثمود کا وطن تھا اور جنھیں اللہ تعالٰی نے عذاب سے تباہ و برباد کردیا تھا-اس مقام سے گزرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر مبارک پر کپڑا ڈال لیا تھا اور سواری کے رفتار تیز کردی تھی تاکہ جلد از جلد وہاں سے گزر جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:

"ان کھنڈرات کے پاس روتے ہوئے گذرو،کہیں تم بھی اس بلا میں گرفتار نہ ہوجاؤ جس میں یہ قوم ہوئی تھی-"آپ نے یہ اعلان بھی فرمایا"آج رات ان پر آندھی کا زبردست طوفان آئے گا-جس کے پاس اونٹ یا گھوڑا ہے،وہ اس کو باندھ کر رکھے-" 

ساتھ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:

"آج رات کوئی شخص تنہا اپنے پڑاؤ سے باہر نہ جائے بلکہ کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ ضرور رکھے-"

پھر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک شخص کسی ضرورت سے تنہا باہر نکل گیا-نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دم گھٹ گیا- ایک دوسرا شخص اپنے اونٹ کی تلاش میں نکل گیا- اس کا انجام یہ ہوا کہ ہوا اسے اڑا لے گئی اور پہاڑوں پر جا پھینکا-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جب ان دو واقعات کا علم ہوا تو فرمایا:

"کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ کوئی تنہا نہ جائے؟ باہر جانا پڑ جائے تو کسی کو ساتھ لے کر نکلے-" 

اس سفر کے دوران ایک روز پانی بالکل ختم ہوگیا- پیاس نے لوگوں کو پریشان کردیا-آخر لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تک ہاتھ اٹھائے رہے جب تک کہ بارش نہ ہوگئی-اور اتنی بارش ہوئی کہ سب سیراب ہوگئے-لشکر نے اپنے برتن بھی بھر لیے- 

ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی گم ہوگئی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹنی کو تلاش کرنے کا حکم فرمایا...لشکر میں کچھ منافق رہ گئے تھے...وہ واپس نہیں گئے تھے...اس موقع پر وہ کہنے لگے:

محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ نبی ہیں...اور یہ مسلمانوں کو آسمان کی خبریں سناتے ہیں،لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے-"

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک منافقین کی یہ باتیں فوراً ہی پہنچ گئیں-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے سامنے ارشاد فرمایا:

"مجھ تک کچھ لوگوں کی یہ بات پہنچی ہے،اللہ کی قسم!میں انہی باتوں کو جانتا ہوں جو اللہ تعالٰی مجھے بتادیتے ہیں...اور اونٹنی کے بارے میں مجھے ابھی اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ وہ فلاں وادی میں ہے،اس کی مہار ایک درخت کی ٹہنی میں الجھ گئی ہے-تم لوگ وہاں جاؤ اور اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ-"

لوگ وہاں گئے تو اونٹنی کو اسی حالت میں پایا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا- 

سفر جاری تھا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اونٹ تھک گیا...جب اونٹ کسی طرح چلنے کے لیے تیار نہ ہوا تو تنگ آکر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے سامان اس پر سے اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا اور پیدل چل پڑے-یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ گئے-لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی خبر دے چکے تھے کہ ابوذر پیچھے رہ گئے ہیں...کیونکہ ان کا اونٹ تھک گیا ہے-یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"اسے اس کے حال پر چھوڑدو...اگر ابوذر میں کوئی خیر ہے تو اللہ تعالٰی اسے تم تک پہنچا دےگا اور اگر خیر کے بجائے برائی ہے تو سمجھ لو...اللہ نے تمہیں اس سے امن دے دیا-" 

پھر لوگوں نے دور سے کسی کو آتے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"ابوذر ہوں گے-اللہ ان پر رحمت فرمائے،اکیلے ہی پیدل چلے آرہے ہیں،اکیلے ہی مریں گے-"(یعنی ان کی موت ویرانے میں ہوگی)اور اکیلے ہی دوبارہ زندہ ہوکر قیامت میں اٹھیں گے-"

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی-حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہ ربذہ کے ویران مقام پر چلے گئے تھے... وہیں ان کی موت واقع ہوئی تھی- 

آخر اسلامی لشکر نے تبوک کے مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا-

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 104


 تبوک سے واپسی


وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ تبوک کے چشمے میں پانی بہت کم ہے-لشکر کی ضرورت اس سے پوری نہیں ہوسکتی-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے اپنے دستِ مبارک میں پانی لیا اور اس کو منہ میں لے کر واپس چشمے کے دہانے پر کلی کردی...چشمہ اسی وقت ابلنے لگا اور پورا بھر گیا-اس طرح سب نے پانی سے سیرابی حاصل کی-یہ علاقہ اس وقت بالکل بنجر تھا...اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:

"اے معاذ!اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم دیکھو گے یہ علاقہ باغ و بہار بن جائے گا-" 

یعنی گرد و پیش کی یہ سرزمین باغات والی نظر آئے گی-مورخ علامہ ابن عبد البر اندلسی لکھتے ہیں کہ میں نے وہ علاقہ دیکھا تھا...تمام کا تمام باغات سے بھرا ہوا تھا- 

تبوک کے مقام تک پہنچنے سے ایک رات پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک رات سوئے تو صبح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھ دیر سے کھلی،بیدار ہوئے تو سورج سوا نیزے کے قریب بلند ہوچکا تھا-اس سے پہلے رات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو جاگ کر نگرانی کرنے اور فجر کے وقت اٹھانے کا حکم دیا تھا- 

حضرت بلال رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے- اتفاق سے ان کی بھی آنکھ لگ گئی تھی،وہ بھی سوتے رہ گئے تھے-اس طرح نماز کا وقت نکل گیا-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ ہمیں فجر کے وقت جگادینا؟" 

جواب میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول!جس چیز نے آپ کو غافل کردیا، اسی نے مجھے غافل کردیا-" 

یعنی مجھے بھی نیند آگئی تھی-

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں سے پڑاؤ اٹھانے کا حکم فرمایا اور اس کے بعد فجر کی نماز ادا کی گئی- یعنی یہ قضا نماز تھی-

تبوک کے سفر کے دوران ایک جگہ پھر پانی ختم ہوگیا...آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا:

"کہیں سے پانی تلاش کرکے لاؤں" 

یہ دونوں حضرات وہاں سے چل کر راستے پر آبیٹھے...جلد ہی انھوں نے دور سے ایک بوڑھی عورت کو آتے دیکھا...وہ اونٹ پر سوار تھی-اس نے پاؤں دونوں طرف لٹکا رکھے تھے اور مشکیزوں میں پانی بھر رکھا تھا-انھوں نے اس سے پانی مانگا-اس پر وہ بولی:

"میں اور میرے گھر والے تم سے زیادہ پانی کے ضرورت مند ہیں...میرے بچے یتیم ہیں-" 

اس پر انہوں نے کہا:

"تم پانی سمیت ہمارے ساتھ رسول اللہ کے پاس چلو-" 

یہ سن کر وہ بولی:

"کون رسول اللہ!وہ جادوگر...جن کو بےدین کہا جاتا ہے...پھر تو یہی بہتر ہے کہ میں ان کے پاس نہ جاؤں-" 

اس کا جواب سن کر حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما اسے زبردستی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے آئے...حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب انہیں اس بڑھیا کو اس طرح لاتے دیکھا تو ان سے فرمایا:

"اسے چھوڑدو-" 

پھر اس سے ارشاد فرمایا:

"کیا تم ہمیں اپنے پانی کو استعمال کرنے کی اجازت دوگی،تمہارا پانی جوں کا توں جتنا تم لے کر آئی ہو،اتنا ہی محفوظ رہے گا؟" 

بڑھیا بولی:"ٹھیک ہے-"

اب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:"ایک برتن لے آؤ-"

وہ برتن لے آئے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کا مشکیزہ کھولا اور اس برتن میں تھوڑا سا پانی لیا...پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک اس میں ڈالا...اور لوگوں سے فرمایا:"میرے قریب آجاؤ اور پانی لینا شروع کردو-"

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا...پانی اس برتن میں چشمے کی طرح ابل رہا تھا...یوں لگتا تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے نکل رہا ہو-سب اس برتن سے پانی لینے لگے...پینے لگے...اپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے-پھر انھوں نے اپنے خالی برتن بھر لیے... یہاں تک کہ تمام جانور سیراب ہوگئے...تمام برتن بھر گئے اور پانی اس برتن میں اسی طرح جوش مار رہا تھا...اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ پانی واپس اس عورت کے مشکیزے میں ڈال دیا اور اس کا منہ بند کرنے کے بعد فرمایا:

"تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہو،لے آؤ-" 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک کپڑابچھادیا... صحابہ کرام اس کے لیے گوشت اور کھجور وغیرہ لے آئے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ سب اسے دے کر فرمایا:

"ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ نہیں لیا...یہ سب چیزیں لے جاؤ...اپنے یتیم بچوں کو کھلا دینا-"

عورت حیرت زدہ تھی...اس نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،ایسا منظر اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا...جب یہ اپنے گھر پہنچی تو گھر والوں نے کہا کہ تم نے بہت دیر لگادی-اس پر اس نے سارا واقعہ سنایا...اس بستی کے لوگوں کو بھی اس واقعہ کا علم ہوگیا-آخر یہ بڑھیا بستی کے لوگوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی،اس نے اور اس کے قبیلے والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- 

غزوۂ تبوک میں ایک موقع پر کھانے کا سامان ختم ہوگیا-حالت یہاں تک پہنچی کہ ایک کھجور مل جاتی تو ایک پوری جماعت لے کر بیٹھ جاتی...پھر سب باری باری اسے چوستے...اور دوسروں کی طرف بڑھادیتے-آخر لوگوں نے عرض کیا:

"اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرکے کھالیں-" 

اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:

"اے اللہ کے رسول!اگر آپ نے یہ اجازت دے دی تو سواری کے جانور ختم ہوجائیں گے...آپ ان سے فرمایئے کہ جس کے پاس بھی کوئی بچی ہوئی چیز ہو، وہ لے آئے... پھر آپ اس خوراک میں برکت کی دعا کریں-" 

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا-ایک کپڑا بچھایا گیا...جس کے پاس کوئی چیز تھی،وہ لے آیا...جب سب چیزیں کپڑے پر جمع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا:

"اب تم لوگ اپنے اپنے برتن اس خوراک سے بھر لو-" 

سب اپنے برتن بھرنے لگے-سب نے خوب سیر ہوکر کھایا بھی اور برتن بھی بھرے،پورے لشکر میں کوئی برتن ایسا نہ رہا جو بھر نہ لیا گیا ہو- 

تبوک کے مقام پر پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس پندرہ دن ٹھہرے-رومی چونکہ اسلامی لشکر سے خوف زدہ ہوگئے تھے،اس لیے مقابلے پر نہ آئے...اور اس طرح تبوک کے مقام پر جنگ نہ ہوسکی- 

اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم قصر نمازیں پڑھتے رہے یعنی مسافر کی نماز،جس میں ظہر،عصر اور عشاء کی فرض نمازوں میں چار چار رکعت کی دو رکعت ادا کی جاتی ہیں- 

آخر تبوک سے واپسی کا سفر شروع ہوا...راستے میں چند منافقوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کھائی میں دھکا دے کر قتل کرنے کی سازش کی،لیکن ان کی سازش کی اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے خبر دے دی...اس طرح ان کی سازش ناکام ہوئی- 

مدینہ منورہ کا سفر ابھی ایک دن کا باقی تھا اور اسلامی لشکر ذی اوان کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ مسجد ضرار کو گرادیں...یہ مسجد منافقوں نے بنائی تھی...وہ اس مسجد کو اپنی سازشوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے...جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تبوک کے لیے روانہ ہوئے تھے اور اس مسجد کے پاس سے گزرے تھے، تب ان منافقوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس مسجد میں دو رکعت ادا کرنے کی درخواست کی تھی- اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ واپسی پر پڑھوں گا...لیکن واپسی پر اللہ تعالٰی نے ان کی سازش سے باخبر کردیا تھا،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا:

"اس مسجد میں جاؤ اور جن لوگوں نے وہ مسجد بنائی ہے،ان کی آنکھوں کے سامنے اس کو آگ لگا کر گرادو...اس مسجد کو بنانے والے بڑے ظالم لوگ ہیں-" 

چنانچہ صحابہ نے حکم کی تعمیل کی...مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں ایسا کیا گیا-مسجد کو بالکل زمین کے برابر کردیا گیا- 

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو فرمایا:

"یہ شہر پاکیزہ اور پرسکون ہے-میرے پروردگار نے اس کو آباد کیا ہے-یہ شہر اپنے باشندوں کے میل کچیل کو اسی طرح نکال دیتا ہے جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرکے صاف کردیتی ہے-"

پھر احد کے پہاڑ کے لیے فرمایا:

"یہ احد کا پہاڑ ہے،یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں-" 

اس سفر میں جانے سے کچھ لوگوں نے جی چرایا تھا...مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:

"جب تک میں حکم نہ دوں،تم اس وقت تک ان لوگوں سے نہ بولنا،نہ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا-"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 105


واقعہ رجیع اور بئر معونہ


یہ حکم ملتے ہی سب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کرلی۔خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بھی بات چیت بند کردی۔صحابہ کرام نے تو یہاں تک کیا کہ اگر ان لوگوں میں کسی کا باپ اور بھائی بھی تھا تو اس نے اس سے بھی بات چیت ترک کردی۔

جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تبوک کے لیے روانہ ہوئے تھے،اس وقت منافقوں کی ایک جماعت مدینہ منوره ہی میں رہ گئی تھی۔ان کی تعداد 80 کے قریب تھی۔انہوں نے جہاد پر نہ جانے کے لیے مختلف حیلے بہانے کیے تھے...لیکن ان کے علاوہ تین مسلمان ایسے تھے جو صرف سستی کی وجہ سے نہیں گئے تھے، یہ حضرت کعب بن مالک،مراره بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی الله عنہم تھے۔ان حضرات سے مسلمانوں نے بات چیت ترک کردی۔جب انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا اپنا عذر پیش کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: 

"تم لوگ جاؤ!اللّٰہ تمہارے حق میں فیصلہ فرمائیں گے۔"

چند دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اپنی بیویوں سے بھی الگ رہنے کا حکم فرمادیا... 

انہوں نے بیویوں کو اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دیا... البتہ حضرت بلال بن امیہ رضی اللّٰہ عنہ بوڑھے تھے۔ان کے بڑھاپے کی وجہ سے انہیں اتنی اجازت دی گئی کہ بیوی گھر میں ره کر خدمت کرسکتی ہے...لیکن رہیں گے الگ الگ۔

اس طرح پچاس دن گزرگئے۔سب لوگ ان تین حضرات سے بات چیت چھوڑ چکے تھے۔پچاس دن بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔لوگوں نے انہیں مبارک باد دی...تینوں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے...آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی انہیں مبارک باد دی...ان حضرات نے اس خوشی میں اپنا بہت سا مال صدقہ کیا۔

غزوہ تبوک کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کسی جنگ میں خود حصہ نہیں لیا۔البتہ صحابہ کرام کو مختلف مہمات پر آپ روانہ فرماتے رہے۔جن مہمات میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بذات خود حصہ نہیں لیا۔ان مہمات کو سرایا کہا جاتا ہے۔سرایا،سریہ کی جمع ہے...ایسے سرایا غزوہ تبوک سے پہلے بھی ہوئے اور بعد میں بھی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں 47 مرتبہ کے قریب صحابہ کرام کو سرایا کے لیے روانہ فرمایا۔ان میں سے واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ بہت دردناک اور مشہور ہیں۔پہلے واقعہ رجیع کی تفصیلات پڑھیے۔

قبیلہ عضل اور قبیلہ قاره کا ایک گروه آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ان لوگوں نے کہا "اے اللّٰہ کے رسول! ہمارے علاقے میں دین سکھانے کے لیے اپنے کچھ صحابہ بھیج دیجئے۔"

رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چھ صحابہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ان کے نام یہ ہیں۔مرثد بن ابو مرثد غنوی،خالد بن بکیر لیثی،عاصم بن ثابت بن ابوالافلح،خبیب بن عدی،زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق رضی الله عنہم۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مرثد بن ابو مرثد کو ان پر امیر مقرر فرمایا۔وہ ان لوگوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔آخر یہ لوگ رجیع کے مقام پر پہنچے۔رجیع حجاز کے ایک ضلع میں واقع تھا۔

یہاں پہنچ کر قبیلہ عضل اور قاره کے لوگوں نے قبیلہ ہزیل کو آواز دی،قبیلہ ہزیل کے لوگ فوراً آگئے...گویا سازش پہلے ہی تیار کرلی گئی تھی...یہ لوگ انہیں سازش کے تحت لائے تھےتھے...قبیلہ ہزیل کے لوگوں کی تعداد سو کے قریب تھی۔

ان لوگوں نے ان صحابہ کو گھیر لیا...انہوں نے بھی تلواریں سونت لیں...اس طرح جنگ شروع ہوگئی...اس جنگ کے نتیجے میں حضرت مرثد،خالد بن بکیر، حضرت عاصم اور عبداللہ بن طارق رضی الله عنہ شہید ہوگئے۔زید بن دثنہ اور خبیب بن عدی رضی الله عنہ گرفتار ہوگئے۔حضرت زید بن دثنہ رضی الله عنہ نے غزوہ بدر میں امیہ بن خلف کو قتل کیا تھا۔اس کے بیٹے صفوان نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے انہیں ان لوگوں سے خرید لیا اور قتل کروادیا۔ره گئے خبیب بن عدی رضی الله عنہ انہیں مکہ سے باہر تعنیم کے مقام پر لایا گیا...تاکہ انہیں پھانسی پرلٹکادیں۔اس وقت حضرت خبیب بن عدی رضی الله عنہ نے ان سے فرمایا: 

"مناسب سمجھو تو قتل کرنے سے پہلے مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو۔"

انہوں نے اجازت دے دی۔حضرت خبیب رضی الله عنہ نے دو رکعت بہت اچھی طرح اطمینان اور سکون سے پڑھیں۔پھر ان لوگوں سے فرمایا: 

"میرا جی چاہتا تھا،یہ دو رکعت زیادہ لمبی پڑھوں... لیکن تم خیال کرتے کہ میں موت کے خوف سے نماز لمبی کررہا ہوں۔"

تاریخ اسلام میں قتل سے پہلے دو رکعت نماز سب سے پہلے حضرت خبیب بن عدی رضی الله عنہ نے ادا کی۔اس کے بعد پھانسی کے تختے پر کھڑا کیا گیا اور اچھی طرح باندھا گیا۔اس وقت انہوں نے فرمایا: 

"اے اللّٰہ! میں نے تیرے رسول کا پیغام پہنچادیا،پس تو بھی رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر پہنچادے کہ ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔"

اس کے بعد یہ دعا پڑھی: 

"اے اللّٰہ!ان کفار کو گِن لے اور انہیں الگ الگ کرکے قتل کر اور ان میں سے ایک بھی نہ چھوڑ۔"

اس کے بعد کفار نے انہیں شہید کردیا۔

قریش مکہ کی ایک عورت سلافہ کے دو بیٹے حضرت عاصم رضی الله عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔اس نے منت مانی تھی کہ کوئی مجھے عاصم رضی الله عنہ کا سر لاکر دے گا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیوں گی...حضرت عاصم رضی الله عنہ کو اس منت کا پتا تھا،چنانچہ شہید ہونے سے پہلے انہوں نے دعا کی تھی کہ اے اللّٰہ میری لاش ان کے ہاتھ نہ لگے...چنانچہ جب انہیں شہید کردیا گیا اور وہ لوگ لاش کو اٹھانے کے لیے بڑھے تو ان پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا... وہ بھاگ کھڑے ہوئے،پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت لاش اٹھالیں گے،رات کو تو شہد مکھیاں نہیں ہوں گی...لیکن رات کو اللّٰہ تعالیٰ نے پانی کا ایک ریلہ بھیجا جو لاش کو بہالے گیا۔

اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی لاش کی حفاظت فرمائی۔

حضرت خبیب رضی الله عنہ کی دعا بھی پوری ہوگئی... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیاہے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی یہ خبر سنائی۔

واقعہ رجیع کے دنوں ہی میں بئر معونہ کا واقعہ پیش آیا۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: 

حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس قبیلہ بنی عامر کا سردار آیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔اسلام قبول کرنے کے بجائے اس نے کہا: 

"میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا پیغام نہایت شریفانہ اور اچھا ہے۔بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے کچھ صحابہ کو نجد والوں کی طرف بھیج دیں...وہاں قبیلہ بنی عامر اور بنی سلیم آباد ہیں،وہ وہاں دین کی دعوت دیں،مجھے امید ہے کہ نجد کے لوگ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔"

اس پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"مجھے نجد والوں کی طرف سے اندیشہ ہے...کہیں وہ میرے صحابہ کو نقصان نہ پہنچائیں۔"

یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے فرمائی کہ ابو عامر کا چچا عامر بن طفیل اسلام کا بدترین دشمن تھا اور وہاں کے لوگ بھی سخت مخالف تھے۔آپ کی بات سن کر ابوعامر نے کہا:

"آپ کے صحابہ میری پناه میں ہوں گے،میری ذمہ داری میں ہوں گے۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے وعدہ کرلیا...وعدہ لے کر ابوعامر چلا گیا۔آپ نے حضرت منذر بن عمرو رضی الله عنہ کو چالیس یا ستر آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا۔

یہ سب کے سب نہایت عابد اور زاہد صحابہ تھے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ایک خط بھی لکھ کر دیا۔یہ لوگ مدینہ منوره سے روانہ ہوئے اور بئر معونہ پر جا ٹھرے۔بئر معونہ بنی عامر اور بنی سلیم کی سرزمین کے درمیان تھا۔بئر کنویں کو کہتے ہیں۔یعنی معونہ کا کنواں۔اس علاقے کو حرّه کہا جاتاہے۔یہاں سیاہ پتھر کثرت سے تھے۔

یہاں پہنچ کر ان حضرات نے حضرت حرام بن ملحان رضی الله عنہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط دے کر عامر بن طفیل کی طرف بھیجا۔

حضرت حرام رضی الله عنہ اس کے پاس پہنچے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط اسے دیا۔اس نے خط پڑھنا بھی گوارا نہ کیا۔ ادھر حضرت حرام رضی الله عنہ نے خط دیتے وقت ان سے کہا: 

"اے لوگوں!میں رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں،اس لیے اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لےآؤ۔"

ابھی وہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ عامر بن طفیل نے ایک شخص کو اشارہ کیا...وہ ان کے پیچھے آیا اور پہلو میں نیزہ دے مارا۔نیزہ ان کے جسم کے آر پار ہوگیا۔فوراً ہی ان کے منہ سے نکلا: 

"اللّٰہ اکبر!رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔"

انہیں شہید کرانے کے بعد عامر بن طفیل نے اپنے لوگوں سے کہا:

"اب اس کے باقی ساتھیوں کو بھی قتل کردو۔"

انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا...کیونکہ کہ انہیں یہ بات معلوم تھی کہ یہ آنے والے حضرات ابوعامر کی پناه میں ہیں۔ان کی طرف سے انکار سن کر عامر بن طفیل نے بنی سلیم کو پکارا۔اس کی پکار پر قبیلہ عصب،رعل اور ذکوان کے لوگ فوراً آگئے۔یہ سب مسلمانوں کی طرف بڑھے اور انہیں گھیرلیا۔مسلمانوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فوراً تلواریں سونت لیں...جنگ شروع ہوگئی...آخر لڑتے لڑتے یہ صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ان میں صرف کعب بن زید رضی الله عنہ زندہ بچ گئے،وہ شدید زخمی تھے۔کفار نے انہیں مردہ خیال کیا... بعد میں انہیں میدان جنگ سے اٹھایا گیا تھا...اور یہ ان زخموں سے تندرست ہوگئے تھے۔

ان کے علاوہ حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھ ایک اور صحابی بھی اس لڑائی میں زندہ بچ گئے...جب مشرکوں نے مسلمانوں کو گھیرے میں لیا تھا تو یہ دونوں اس وقت اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔جب ادھر ان صحابہ کو شہید کیا جارہا تھا،اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔

گھیرے میں آنے کے بعد مسلمانوں نے یہ دعا مانگی: 

"اے اللّٰہ!ہمارے پاس تیرے سوا ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو ہماری طرف سے تیرے رسول کو یہ خبر پہنچادے۔"

اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی...حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فوراً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے خطبے کے دوران ہی یہ خبر صحابہ کرام رضی الله عنہم کو سنائی۔

"تمہارے بھائی مشرکوں سے دوچار ہوگئے۔مشرکوں نے انہیں شہید کردیا ہے۔"

ادھر عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔

ان دونوں نے پڑاؤ کی طرف مردار خور پرندوں کو منڈلاتے دیکھا تو پریشان ہوگئے،سمجھ گئے کہ کوئی خاص واقعہ پیش آگیا ہے۔چنانچہ یہ فوراﹰ اپنے ساتھیوں کی طرف روانہ ہوئے...اس وقت تک صحابہ کرام کے قاتل وہیں موجود تھے۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 106


فرمانرواؤں کودعوتی خطوط


یہ ہولناک منظر دیکھ کر حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ کے ساتھی نے پوچھا: 

"اب کیا رائے ہے۔"

حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ بولے: 

"میری رائے ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں اور اس سانحے کی خبر دیں۔"

اس پر ان کے ساتھی نے فرمایا: 

"مگر جس جگہ منذر بن عمرو رضی الله عنہ جیسا آدمی شہید ہوچکا ہے،میں وہاں سے اپنی جان بچا کر نہیں جاؤں گا۔"

"اچھی بات ہے...میں بھی تیار ہوں۔"

اب دونوں نے تلواریں سونت لیں۔دشمن کو للکارا اور ان سے جنگ شروع کردی...

آخرکار حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہہ گرفتار ہوگئے جب کہ ان کے ساتھی صحابی شہید ہوگئے۔عامر بن طفیل کی ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مان رکھی تھی...اس نے اپنی ماں کی منت پوری کرنے کی خاطر عمرو بن امیہ رضی الله عنہ کو آزاد کردیا۔یہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت رنج ہوا۔سارے صحابہ غمگین ہوگئے۔

اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے عامر بن طفیل کے لیے بددعا کی۔بددعا کے نتیجہ میں وہ طاعون کے مرض میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوگیا۔

بئر معونہ کی لڑائی کی خاص بات یہ ہے کہ ان شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت عامر بن فہیرہ رضی الله عنہہ بھی تھے، جب یہ شہید ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی نعش کو اوپر اٹھالیا۔ان کی لاش پھر زمین پر اتاردی گئی۔انہیں قتل ہونے والوں میں تلاش کیا گیا۔لیکن کی لاش نہ ملی... یہ بات سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

"عامر بن فہیرہ کی لاش کو فرشتوں نے دفن کیا ہے۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعہ سے اتنا صدمہ ہوا تھا کہ مسلسل ایک ماہ تک صبح کی نماز میں دعائے قنوت نازلہ پڑھتے رہے اور بئر معونہ پر شہید کیے جانے والے صحابہ کے قاتلوں کے حق میں بددعا کرتے رہے۔اسی طرح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم واقعہ رجیع کے قاتلوں کے حق میں بھی بددعا فرماتے رہے۔

غزوہ تبوک کے بعد سرایا بھیجے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔اس دوران آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ہر طرف سے وفد آنے لگے۔یعنی لوگ وفدوں کی شکل میں آ آ کر اسلام قبول کرنے لگے۔ایک روز بنی حنیفہ کا وفد آیا۔اس میں مسیلمہ کذاب بھی تھا۔ان لوگوں نے اس شخص کو کپڑوں میں ڈھانپ رکھا تھا۔اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجور کی ٹہنی تھی۔ٹہنی کے سرے پر کچھ پتے بھی تھے۔مسیلمہ نے آپ کے نزدیک آکر کہا: 

"آپ مجھے اپنی نبوت میں شریک کرلیجئے ۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کی بے ہودہ بات کے جواب میں ارشاد فرمایا: 

"اگر تو مجھ سے یہ ٹہنی بھی مانگے تو میں تو تجھے یہ بھی نہیں دے سکتا۔"

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس کی آمد سے پہلے یہ صحابہ کرام سے فرما چکے تھے کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے ہی میں مجھے وحی کی کہ ان پر پھونک ماریں۔میں نے پھونک ماری تو ت دونوں کنگن اڑگئے۔اس سے میں نے یہ تعبیر لی کہ دو کذاب یعنی جھوٹے نبی ظاہر ہونے والے ہیں۔

یہ دو جھوٹے طلیحہ اور مسیلمہ تھے۔طلیحہ تو یمن کے شہر صنعا کا رہنے والا تھا اور مسیلمہ عمامہ کا۔

دونوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی زندگی مبارک ہی میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کردیا تھا۔

اس وقت یہی مسیلمہ آیا تھا۔واپس اپنے لوگوں میں جاکر اس نے یہ بات اڑادی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے مجھے نبوت میں حصے دار بنالیا ہے۔پھر یہ قرآن کریم کی آیات کی نقالی میں...اوٹ پٹانگ قسم کے عربی جملے بولنے لگا...اور لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ پر یہ وحی آئی ہے...اپنی الٹی سیدھی کرامات دکھانے لگا...فرضی معجزات دکھانے لگا...اس طرح لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے۔اس روسیاہ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو ایک خط بھی لکھا تھا...اس میں لکھا: 

"مجھے آپ کی نبوت میں شریک کرلیا گیا ہے... ہم دونوں آدھے آدھے کے مالک ہیں مگر قریش کے لوگ انصاف پسند نہیں ہیں۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہ خط لکھوایا: 

"بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔یہ خط محمد صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ہے۔سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت اور سیدھے راستے کی پیروی کی۔اما بعد!یہ روئے زمین اللّٰہ کی مالک ہے۔وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے،اس کا وارث بنادے۔درحقیقت بہتر انجام تو اللّٰہ سے ڈرنے والوں کا ہی ہوتا ہے۔"

آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ خط دو قاصدوں کے ذریعے بھیجا۔اس نے خط پڑھ کر ان دونوں سے کہا: 

"کیا تم بھی وہی بات کہتے ہو جو انہوں نے لکھا ہے؟ "

جواب میں دونوں قاصدوں نے فرمایا:

"ہاں! ہم بھی یہی کہتے ہے۔"

اس پر اس نے کہا: 

"اگر قاصدوں کو قتل کرنا دستور کے خلاف نہ ہوتا تو میں تمہاری گردنیں ماردیتا۔"

اس جھوٹے کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے دور میں جنگ لڑی گئی۔اس جنگ کو جنگ یمامہ کہتے ہیں۔اس میں مسیلمہ کذاب حضرت وحشی بن حرب رضی الله عنہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔حضرت وحشی رضی الله عنہ وہ ہیں جن کے ہاتھوں غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی الله عنہ شہید ہوئے تھے...بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔

حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے دنیا کے بادشاہوں کے نام خطوط لکھوائےاور ان خطوط میں،ان بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دی۔روم کے بادشاہ ہرقل کو بھی خط لکھوایا،یہ خط حضرت دحیہ کلبی رضی الله عنہہ لے کر گئے۔روم کے بادشاہ خود کو قیصر کہلواتے تھے۔

قیصر نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے خط کا احترام کیا...لیکن ایمان لانا اس کے مقدر میں نہیں تھا۔اسی طرح حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایران کے بادشاہ کسریٰ پرویز کے نام خط لکھوایا۔یہ خط عبداللہ سہمی رضی الله عنہ لے کر گئے۔اس نے خط سننے سے پہلے ہی اسے چاک کرنے کا حکم دیا۔اس کے حکم پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط پھاڑ کردیا گیا۔اس نے اپنے دربار سے قاصد کو بھی نکال دیا۔حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی الله عنہ اپنی سواری پر بیٹھے اور واپس روانہ ہوئے۔مدینہ منوره پہنچ کر انہوں نے ساری تفصیل سنادی۔

یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"کسریٰ کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔"

ادھر کسریٰ پرویز نے اپنے یمن کے حاکم کو لکھا: 

"مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریش کے ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔تم فوراً اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو۔"

یمن کے گورنر بازان نے دو آدمی بھیج دیئے،دونوں مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کے حلیے دیکھ کر فرمایا: 

"تمہارا برا ہو!یہ تم نے اپنے چہرے کیسے بنارکھے ہیں۔تمہیں ایسا حلیہ اختیار کرنے کا حکم کس نے دیا؟ "

جواب میں وہ بولے: 

"ہمارے پروردگار کسریٰ نے۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: 

"اب جاؤ اور کل میرے پاس آنا۔"

دونوں چلے گئے اس دوران اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے خبر دی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کسریٰ پر اس کے بیٹے کو مسلط کردیا ہے،وہ فلاں مہینے اور دن اسے قتل کردے گا۔

اس وحی کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلایا اور یہ اطلاع انہیں دی۔ساتھ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے بازان کے نام خط لکھوایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ کسریٰ کو فلاں مہینے اور فلاں دن قتل کردے گا۔ 

بازان کو یہ خط ملا تو اس نے سوچا،اگر وہ نبی ہیں تو جیسا انہوں نے لکھا ہے،ویسا ہی ہوگا۔

چنانچہ اسی طرح ہوا...اس کے بیٹے شیرویہ نے اسی دن اسے قتل کردیا جس کی پیشن گوئی ہوچکی تھی۔بازان کو جب یہ اطلاع ملی تو اس نے فوراً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع دی۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے شاہ حبشہ نجاشی کے نام بھی خط لکھوایا۔نجاشی کے پاس جب یہ خط پہنچا تو انہوں نے اس مکتوب مبارک کو آنکھوں سے لگایا،تخت سے اتر کر زمین پر آبیٹھے اور اسلام قبول کیا۔پھر ہاتھی دانت کی صندوقچی منگوا کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خط مبارک اس میں ادب سے رکھا۔اس خط کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے نام ایک دوسرا خط بھی لکھوایا۔اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے لکھوایا کہ نجاشی حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نکاح کردیں۔

نجاشی نے اس خط کو بھی چوما...آنکھوں سے لگایا اور حکم کی تعمیل کی اور حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نکاح پڑھایا۔یہ دونوں خط حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ لے کر گئے تھے۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 107


حجۃ الوداع کے لیے روانگی


10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔اس حج کو حجتہ الوداع کہا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 24 ذی قعدہ 10ھ جمعرات کے دن مدینہ منورہ سے حجتہ الوداع کے لیے روانہ ہوئے۔روانگی دن کے وقت ہوئی۔روانہ ہونے سے پہلے بالوں میں کنگھا کیا،سر مبارک میں تیل لگایا، مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ادا فرمائی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں ادا فرمائ۔

اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں۔ان کی تعداد اس وقت نو تھی۔انہوں نے اونٹوں پر ہودجوں میں سفر کیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصوی پر سوار تھے۔یہ اونٹنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت احرام میں تھے۔قصوی پر اس وقت ایک پرانا کجاوہ تھا جو چار درہم قیمت کا رہا ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چادر بھی معمولی سی کی تھی۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے تھے۔

ترجمہ:"اے اللہ!اس حج کو مقبول بنادے اور ایسا بنادے جس میں نہ تو ریاکاری اور دھوکا ہو اور نہ دکھاوا اور ظاہرداری ہو۔"

سفر کے دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے۔ انہوں نے عرض کیا: 

آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ تلبیہ میں اپنی آواز بلند کریں۔یہ حج کا شعار ہے۔

چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایسا کرنے کا حکم فرمایا۔انہوں نے بلند آواز میں تلبیہ شروع کردیا۔راستے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو طوی کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔رات وہیں قیام فرمایا۔ صبح کی نماز پڑھ کر وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ مکہ کے سامنے پہنچ گئے اور وہیں قیام فرمایا۔پھر دن میں چاشت کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوئے،باب عبد مناف سے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔یہ دروازہ باب سلام کے نام سے مشہور ہے۔بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی آپ ﷺ نے ان الفاظ میں دعا فرمائی :

ترجمۃ:اے اللہ !تو خود سلامتی والا ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی آتی ہے۔ پس اے ہمارے پروردگار تو ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور اس گھر کی عزت اور دبدبہ میں اضافہ ہی اضافہ فرما۔

پھر بیت اللہ کے گرد طواف کیا،سات چکر لگائے،طواف کی ابتدا آپ ﷺ نے حجر اسود سے کی۔پہلے اسکے پاس گئے اور اسکو چھوا۔اس وقت آپ ﷺ کی آنکھون میں آنسوں آگئے،طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل فرمایا یعنی سینہ تان کر تیز رفتار سے چکر لگائے،باقی چار چکروں میں معمولی رفتار سے لگائے،طواف سے فارغ ہونے کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا،اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھے اور انکو چہرہء مبارک پر پھیرا۔طواف سے فارغ ہونے کے بعد آنحضور ﷺ نے مقام ابراھیم پر دو رکعت نماز پڑھی پھر آب زم زم نوش فرما۔

اب آپ ﷺ صفا پہاڑی کی طرف چلے۔اس وقت آپ ﷺ یہ آیت پڑھ رہے تھے۔

ترجمۃ:" بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔"(سورۃ البقرہ)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔یہ دو پہاڑیاں ہیں ان کے درمیاں چکر لگانے کو سعی کرنا کہتے ہیں۔ پہلے تین پھیروں میں آپ تیز تیز اور باقی چار میں عام رفتار سے چلے، جب صفا پر چڑھتے اور کعبہ کی طرف منہ کرلیتے تو اس وقت اللہ کی توحید یوں بیان فرماتے:

ترجمۃ:"اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں،اللہ سب سے بڑا ہے۔اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ تن تنہا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا،اپنے بندوں کی مدد کی اور اسنے تن تنہا متحدہ لشکروں کو شکست دی۔" 

مروہ پر پہنچ کر بھی حضور ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی۔صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم فرمایا جن کےساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے۔ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے۔انھیں حکم فرمایا کہ وہ احرام کو برقرار رکھیں۔

8 ذی الحجہ کو حضور ﷺ منیٰ کیلئے روانہ ہوئے۔منیٰ کی طرف روانگی سے پہلے ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لئے جو پہلے احرام کھول چکے تھے۔منیٰ میں آنحضرت ﷺ نے ظہر،عصر،مغرب اور عشا کی نمازیں ادا فرمائیں، رات وہیں گزاری ۔وہ جمعہ کی رات تھی۔ صبح کی نماز بھی آپ ﷺ نے منیٰ میں پڑھی۔سورج طلوع ہونے کے بعد وہاں سے عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ میرے لئے اونٹ کے بالوں کا ایک قبہ بنا دیا جائے ۔ میدان عرفات میں حضور اکرم ﷺ اس قبے میں ٹہرے یہاں تک کہ زوال کا وقت ہو گیا۔اس وقت حضور ﷺ نے اپنی اونٹنی قصویٰ کو لانے کا حکم فرمایا۔ قصویٰ پر سوار ہوکر آپ ﷺ وادی کے اندر پہنچے اور اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے ہی مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا۔ اس خطبہ میں آنحضور ﷺ نے فرمایا:

"لوگو!میری بات سنو۔دیکھو میں جانتا نہیں کہ اس سال کے بعد اس جگہ میں تم سے کبھی ملوں گا یا نہیں۔لوگو!سن لو،تمہارے خون (یعنی تمہاری جانیں)اور تمہارے اموال ایک دوسرے پر اپنے رب سے ملنے تک(یعنی زندگی بھر)اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح تمہارے لئے یہ دن اور یہ مہینہ قابل احترام ہے۔دیکھو تم(مرنے کے بعد )عنقریب اپنے رب سے ملوگے،وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرےگا اور میں (ہر عمل کے متعلق ) تمام احکام تمہیں پہنچا چکا ہوں،پس جس کے پاس(کسی کی )امانت ہو، اسے چاہئے کہ وہ اس امانت کو مانگنے پر اسی شخص کے حوالے کردے جس نے امانت دار سمجھ کر امانت رکھوائی تھی۔

دیکھو ہرقسم کا سود(جو کسی کا کسی کے ذمے تھا ) ساقط کردیا گیا،البتہ تمہارا اصل مال تمہارے لئے حلال ہے۔نہ تم زیادتی کروگے اور نہ تمہارے ساتھ زیادتی کی جائے گی۔اللہ تعالی نے فیصلہ کردیا ہے کہ اب کوئی سود جائز نہیں اور عباس بن عبد المطلب کا سارا سود ساقط کر دیا گیا۔اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جو بھی قتل کا مقدمہ تھا،وہ بھی ختم کردیا گیا(اب اسکا انتقام نہیں لیا جائےگا)اور سب سے پہلے جو قتل کا بدلہ میں ختم کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا قتل ہے اور ابن ربیعہ نے بنو لیث میں دودھ پیا تھا،ہذیل نے اسے قتل کردیا تھا۔پس یہ پہلا قتل ہے جس سے میں معافی کی ابتداء کر رہا ہوں۔

لوگو!غور سے سنو،شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے اب اس سر زمین میں کبھی اسکی عبادت کی جائےگی،لیکن اگر اسکی اطاعت کروگے تو وہ تمہارے ان گناہوں سے جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو،راضی ہو جائے گا۔ اسلئے تم لوگ دین کے معاملے میں شیطان سے بچتے اور ڈرتے رہو۔

لوگو!غور سے سنو!تمہاری عورتوں پر تمہارا حق ہے اور تم پر ان عورتوں کا حق ہے۔ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کرتے رہو کیوکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔لوگو!میری بات سمجھنے کی کوشش کرو،میں نے تو(ہر حکم)پہنچا دیا اور تمہارے اندر وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا، تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ کھلی ہوئی چیز ہے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ - 

لوگو!میری بات سن کر غور کرو،خوب سمجھ لو کہ ہر مسلمان دوسرے دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں،لہٰذا کسی بھی آدمی کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز(بلا اجازت)حلال نہیں،ہاں مگر اس وقت جب وہ دل کی خوشی سے کوئی چیز خود دے دے-پس تم لوگ اپنے آپ پر کسی بھی حالت میں ظلم مت کرنا-لوگو!بتاؤ میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا؟ "

لوگوں نے جواب میں کہا" یقیناً یقیناً"اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کی طرف رخ کیا اور شہادت کی انگلی اٹھاکر فرمایا:

" اَللّهُمَّ اشْهَدْ،اَللّهُمَّ اشْهَدْ،اَللّهُمَّ اشْهَدْ. (اے اللہ آپ گواہ رہیے گا،اے اللہ آپ گواہ رہیے گا،اے اللہ آپ گواہ رہیے گا) -"

خطبے سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا- اذان کے بعد ظہر کی تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی- پھر عصر کی نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی-یعنی دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کی گئیں- دونوں نمازوں کے لیے اذان ایک کہی گئی،اور تکبیریں الگ الگ ہوئیں- 

عرفات میں ایک جماعت خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی-انھوں نے پوچھا:

"حج کس طرح کیا جاتا ہے؟" 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"حج دراصل وقوفِ عرفات کا نام ہے، یعنی عرفات میں ٹھہرنا حج کرنا ہے-عرفات کا پورا میدان وقوف کی جگہ ہے-" 

اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مشعر الحرام یعنی مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے-اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو اطمینان سے چلنے کا حکم فرماتے رہے-اس طرح مزدلفہ پہنچے-یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائیں-یہ دونوں نمازیں عشاء کے وقت پڑھی گئیں-عورتوں اور بچوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ آدھی رات کے ایک گھنٹے بعد ہی مزدلفہ سے منی روانہ ہوجائیں تاکہ وہاں ہجوم ہونے سے پہلے شیطان کو کنکریاں مارسکیں- 

فجر کا وقت ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مزدلفہ میں منہ اندھیرے ہی نماز پڑھائی-پھر سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے- جمرہ عقبہ(بڑے شیطان) پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات کنکریاں ماریں-شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے عمل کو رمی کہتے ہیں-یہ کنکریاں مزدلفہ سے چن لی جاتی ہیں-ہر کنکری مارتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ اکبر فرماتے رہے-اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اونٹنی پر سوار تھے-حضرت بلال اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے-حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی لگام پکڑ رکھی تھی اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کیے ہوئے تھے-اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو خطبہ دیا-اس میں ایک دوسرے کے مال اور عزت کو حرام قرار دیا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو حرمت کا دن قرار دیا اور فرمایا:

"اے لوگو!تمہارا خون،تمہارا مال اور تمہاری عزت اور ناموس تمہارے درمیان ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن تمہارے لیے حرمت کا دن ہے جس طرح اس شہر کی حرمت ہے اور جس طرح اس مہینے کی حرمت ہے-" 

یہ الفاظ کئی بار فرمائے...آخر میں دریافت فرمایا:

"اے لوگو!کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا-" لوگوں نے اقرار کیا-

پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"اب تم میں سے جو موجود ہے،وہ غائب تک یہ تبلیغ پہنچادے...میرے بعد تم کفر کی تاریکیوں میں لوٹ نہ جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو-" 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے یہ بھی فرمایا کہ وہ مجھ سے حج کے مناسک (ارکان) سیکھ لو-کیونکہ ممکن ہے اس سال کے بعد مجھے حج کا موقع نہ ملے- 

(اور ایسا ہی ہوا...کیونکہ اس حج کے صرف تین ماہ بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئی تھی-)

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں قربانی کی جگہ تشریف لائےاور 63 اونٹ قربان فرمائے- یہ سب جانور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ ہی سے لائے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرمائے-گویا اپنی عمر کے ہر سال کے بدلے ایک جانور قربان فرمایا- 

قربانی کے گوشت میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کچھ گوشت پکایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تناول فرمایا-باقی اونٹوں کو ذبح کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا-کل سو اونٹ تھے-اس طرح 37 اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح فرمائے- 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جانوروں کا گوشت اور دوسری چیزیں لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا-منی کا تمام مقام قربانی کرنے کی جگہ ہے... اس کے کسی بھی حصے میں جانور قربان کیا جاسکتا ہے- 

قربانی سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر منڈوایا-سر مبارک کے بال صحابہ کرام میں تقسیم کیے گئے-اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی:

ترجمہ:"اے اللہ!سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما-"

سر منڈوانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو لگائی- 

اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ جانے کے لیے سواری پر تشریف فرما ہوئے-مکہ پہنچ کر ظہر سے پہلے طواف کیا-یہ طوافِ افاضہ تھا جو حج میں فرض ہے - اس کے بغیر حج نہیں ہوتا-پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے زم زم کے کنوئیں سے زم زم نوش فرمایا-کچھ پانی اپنے سر مبارک پر بھی چھڑکا-پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی واپس تشریف لے گئے-وہیں ظہر کی نماز ادا کی- 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں تین دن ٹھہرے- تین دن تک رمئ جمرات کی،یعنی شیطانوں کو کنکریاں ماریں - ہر شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں-منی کے قیام کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ تشریف لائے اور صحابہ کرام کو حکم فرمایا:

"لوگو!اپنے وطن لوٹنے سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرلو-" 

اسے طوافِ وداع کہتے ہیں،یعنی رخصت ہوتے وقت کا طواف...اور یہ ہر حاجی پر واجب ہے۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 108


 لشکرِ اسامہ رضی اللہ عنہ


طوافِ وداع کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے-واپسی کے سفر میں غدیرِ خم نامی تالاب کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کو جمع فرمایا،ان کے سامنے خطبہ دیا-جس میں فرمایا:

لوگو!درحقیقت میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں اور بندہ ہوں-ممکن ہے،اب جلد ہی میرے رب کا ایلچی میرے پاس آجائے-(یعنی میرا بلاوا آجائے) اور میں اس کے آگے سرِ تسلیم خم کردوں،میں بھی اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں اور تم بھی جواب دہ ہو،اب تم کیا کہتے ہو؟"

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:

"ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا،اس میں پوری محنت فرمائی اور نصیحت تمام کردی-" 

تب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"کیا تم اس کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ جنت،دوزخ اور موت برحق چیزیں ہیں اور یہ کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے اور یہ کہ قیامت آنے والی چیز ہے-اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ کہ اللہ تعالٰی ان لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے گا جو قبروں میں پہنچ چکے ہیں؟"

صحابہ کرام نے عرض کیا:

"بےشک ہم ان سب باتوں کی گواہی دیتے ہیں-" 

اس پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"اے اللہ!آپ گواہ رہیے گا-" 

پھر فرمایا:

"لوگو!قرآن پر جمے رہنا-میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں-ایک اللہ کی کتاب،دوسرے اپنے گھر والے(جس میں ازواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادیاں سب آگئیں)... تم منتشر ہوکر پھوٹ مت ڈال لینا،یہاں تک کہ تم حوضِ کوثر پر میرے پاس جمع ہوجاؤ-"

اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ فرمائے:

"میں جس کا مولی اور آقا ہوں علی بھی اس کے مولی اور آقا ہیں-اے اللہ جو علی کا مددگار ہو تو بھی اس کا مددگار ہوجا...اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ-جو اس سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ...جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو اس کی اعانت کرے تو بھی اس کی اعانت فرما،جو بھی اسے رسوا کرے تو اسے رسوا فرما،یہ جہاں بھی ہو،تو حق اور صداقت کو اس کا ساتھی بنانے-"

لفظ مولا کے بہت سے معانی ہیں-یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام اہلِ ایمان کے لیے بزرگ،سردار اور قابلِ احترام ہیں،مولا کا ایک مطلب مددگار بھی ہے-غرض مولا کے بیس کے قریب معانی ہیں-

مشہور محدث امام نووی رحمۃاللہ علیہ سے پوچھا گیا:

"آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ جو ارشاد ہے کہ جس کا میں مولا ہوں،اس کے مولی علی بھی ہیں، کیا اس ارشاد کا یہ مطلب ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ امامت کے زیادہ حق دار ہیں-" 

اس سوال کے جواب میں امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"اس حدیث سے یہ مطلب نہیں نکلتا بلکہ ان علماء کے نزدیک جو اس میدان میں نمایاں ہیں اور جن کی تحقیق پر اعتماد کیا جاسکتا ہے،اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کا مددگار،آقا اور محبوب میں ہوں تو علی بھی اس کے مددگار،آقا اور محبوب ہیں-" 

اس سفر سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے راستے میں ذوالحلیفہ کے مقام پر رات بسر فرمائی-اور رات کے وقت مدینہ منورہ میں داخل ہونے کو پسند نہیں فرمایا-پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر مدینہ منورہ پر پڑی تو تین مرتبہ تکبیر کہی اور یہ کلمات پڑھے:

اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ تنہا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،حکومت اور تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،ہم توبہ کرتے ہوئے اور اپنے پروردگار کو سجدہ کرتے ہوئے اور اس کی تعریفیں کرتے ہوئے لوٹنے والے ہیں،اللہ کا وعدہ سچا ہوگیا-اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور سب گروہوں کو اس تنہا نے شکست دی-"

پھر صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے-11ھ میں پیر کے دن جب کہ ماہِ صفر کی آخری تاریخیں تھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے رومیوں کی عظیم سلطنت کے خلاف تیاری کا حکم فرمایا،اس سے اگلے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:

"اس مقام کی طرف بڑھو جہاں تمہارے والد شہید ہوئے تھے اور اس علاقے کو اسلامی شہسواروں سے پامال کرو،میں تمہیں اس لشکر کا امیر بناتا ہوں... نہایت تیزی سے سفر کرکے اپنی منزل کی طرف بڑھو تاکہ جاسوسوں کی اطلاعات سے پہلے دشمن کے سر پر پہنچ جاؤ...اگر اللہ تعالٰی تمہیں ان پر فتح عطا فرمائے تو ان لوگوں کے درمیان زیادہ دیر مت ٹھہرنا اور اپنے ساتھ جاسوس اور مخبر لے جانا-"

اگلے روز بدھ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک میں درد شروع ہوگیا-اس کے بعد بخار بھی ہوگیا-جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تکلیف کے باوجود اپنے دستِ مبارک سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پرچم بنا کر دیا،پھر فرمایا:

"اللہ کا نام لے کر اس کے راستے میں جہاد کے لیے جاؤ اور جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے،ان سے جنگ کرو-" 

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنا پرچم لے کر اسلامی لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے-وہ اس وقت بالکل نوجوان تھے...اس نوجوانی کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں لشکر کا سالار مقرر فرمایا تھا جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بڑے بڑے ممتاز اور تجربہ کار لوگ موجود تھے...اس بنیاد پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ حضرات نے اس بات کو محسوس کیا کہ جب اتنے بڑے اور تجربہ کار حضرات موجود ہیں تو ایک نوعمر کو سپہ سالار کیوں مقرر فرمایا گیا-جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان باتوں کی خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے- یہاں تک کہ اسی وقت اپنے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے...اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھیbاور بدن مبارک پر ایک چادر تھی-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں داخل ہوئے اور منبر پر تشریف لائے-اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی،پھر صحابہ کرام کو خطاب فرمایا:

"لوگو!یہ کیسی باتیں ہیں جو اسامہ کو امیر بنانے پر تم لوگوں کی طرف سے مجھ تک پہنچی ہیں؟اس سے پہلے جب میں نے اسامہ کے والد کو امیر بنایا تھا تو اس وقت بھی اس قسم کی کچھ باتیں سننے میں آئی تھیں، قسم ہے اللہ عزوجل کی کہ وہ یعنی زید بن حارثہ امیر بننے کے لیے موزوں ترین آدمی تھے اور اب ان کے بعد ان کا بیٹا امیر بننے کے لیے موزوں ترین ہے،یہ دونوں باپ بیٹے ایسے ہیں کہ ان سے خیر ہی کا گمان کیا جاسکتا ہے،لہٰذا اسامہ کے بارے میں خیر ہی کا گمان رکھو،کیونکہ وہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ایک ہے-"

اب جو صحابہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جہاد کے لیے جانے والے تھے،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے لیے آنے لگے-اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طبیعت کافی ناساز تھی،اس کے باوجود فرمارہے تھے،"اسامہ کے لشکر کو روانہ کردو..."اپنی طبیعت کی خرابی کے پیشِ نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لشکر کے ساتھ جانے سے روک دیا تھا اور انہیں حکم فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں- 

اتوار کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا...حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر ٹھہر گئے تھے- وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات کے لیے آئے... جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم آنکھیں بند کیے نڈھال سی حالت میں لیٹے ہوئے تھے-حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آہستہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک دبایا اور پیشانی کو بوسہ دیا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی بات نہ کی،دونوں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھائے اور ان کو اسامہ پر رکھ دیا-حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے لیے دعا فرمارہے ہیں-اس کے بعد اسامہ رضی اللہ عنہ پھر اپنے لشکر میں لوٹ آئے...لشکر اس وقت جرف کے مقام پر تھا-اسلامی لشکر روانہ ہونے کی تیاری کررہا تھا کہ مدینہ منورہ سے پیغام ملا:

"آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طبعیت ناساز ہوگئی ہے...آپ نہ جائیں-" 

اس طرح یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا...طبیعت خراب ہونے سے پہلے ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آدھی رات کے وقت قبرستان بقیع میں تشریف لے گئے اور وہاں ہر مومن کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی-

قبرستان سے واپس لوٹے تو سر مبارک میں شدید درد شروع ہوگیا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سر درد کے بارے میں بتایا،انھوں نے سر دبانا شروع کیا...سر درد کے ساتھ بخار بھی شروع ہوگیا- 

مرض شروع ہونے کے بعد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی تمام ازواج کے ہاں باری کے مطابق تشریف لے جاتے تھے-جس دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اس دن مرض میں شدت پیدا ہوگئی-تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تمام ازواج کو بلایا اور ان سے اجازت لی کہ آپ کی تیمارداری حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ہو-سب نے خوشی سے اس کی اجازت دے دی- 

پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر غشی طاری رہنے لگی...بخار کی شدت زیادہ ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف کنووں سے،سات مشکیں پانی منگوائیں اور اپنے اوپر ڈالنے کا حکم فرمایا۔

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 109


 آخری ایام


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ان سات مشکوں کا پانی ڈالنا شروع کیا گیا۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا: 

"بس کافی ہے۔"

زندگی کے ان آخری ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: 

"اے عائشہ!مجھے خیبر میں جو زہر دیا گیا تھا،اس کی تکلیف میں اب محسوس کرتا ہوں۔"

اس کا مطلب ہے کہ آخری دنوں میں اس زہر کا اثر دوبار ظاہر ہوگیا تھا اور اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت درجہ شہادت کو پہنچتی ہے۔

پانی اپنے اوپر ڈلوانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ مبارک سے باہر نکلے۔اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے لیے دعا مانگی۔بہت دیر تک ان کے لیے دعا فرماتے رہے،پھر ارشاد فرمایا: 

"اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے سامنے ایک طرف دنیا رکھی اور دوسری طرف وہ سب کچھ رکھا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔پھر اس بندے کو اختیار دیا کہ وہ ان دونوں چیزوں میں سے کوئی ایک چن لے۔اس بندے نے اپنے لیے وہ پسند کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان باتوں کا مطلب فوراً سمجھ گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے مراد اپنی ذات ہے،چنانچہ رونے لگے اور عرض کیا 

" اے اللہ کے رسول ہم اپنی جانیں اور اپنی اولادیں آپ پر قربان کر دیں گے۔" 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روتے ہوئے دیکھ کر فرمایا : 

" ابوبکر خود کو سنبھالو" 

پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: 

" لوگو!ساتھ دینے کے اعتبار سے اور اپنی دولت خرچ کرنے کے اعتبار سے جس شخص کا مجھ پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ ابوبکر ہیں۔ " 

یہ حدیث صحیح ہے اس کو دس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

" مسجد سے ملے ہوئے تمام دروازے بند کر دیے جاییں٬ بس ابوبکر کا دروازہ رہنے دیا جائے،کیونکہ میں اس دروازہ میں نور دیکھتا ہوں،

صحبت اور رفاقت کے اعتبار سے میں کسی کو ابوبکر سے افضل نہیں سمجھتا،" 

ایک روایت میں ہے۔

"ابوبکر میرے ساتھی ہیں اور میرے غمگسار ہیں،اس لئے مسجد میں کھلنے والی ہر کھڑکی بند کر دو،سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا: 

"میرے ساتھی ابوبکر کے بارے میں مجھے تکلیف نہ پہنچاؤ۔"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد مبارک ہے۔

"جب لوگوں نے مجھے جھوٹا کہا تھا تو ابوبکر نے مجھے سچا کہا تھا،جب لوگوں نے اپنا مال روک لیا تھا تو ابوبکر نے میرے لئے اپنے مال کو فیاضی سے خرچ کیا۔

جب لوگوں نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا تو ابوبکر نے میری غم خواری کی تھی۔"

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : 

"اے اللہ کے رسول! یہ کیا بات ہے کہ آپ نے ابوبکر کا دروازہ تو کھلا رہنے دیا اور باقی لوگوں کے دروازے بند کروادیے" 

ان کی بات کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"اے عباس نہ میں نے اپنے حکم سے کھلوایے اور نہ بند کروا ۓ" 

مطلب یہ تھا کہ ایسا کرنے ک حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

اپنے اوپر سات مشکوں کا پانی ڈلوانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا تو مہاجرین سے ارشاد فرمایا : 

" اے مہاجرین انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا،خیر کا سلوک کرنا،کیونکہ یہ لوگ میری پناہ گاہ تھے،ان کے پاس مجھے ٹھکانہ ملا،اس لئے ان کی بھلائیوں کے بدلے میں ان کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کی برایٔوں سے درگزر کرنا " 

اتنا فرمانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے۔ 

اپنے مرض وفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں۔وہ نماز عشاء کی تھی...جب حضرت بلال نے اذان دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"میرے لئے برتن میں پانی لاؤ" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا،پھر مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا مگر غشی طاری ہوگئ۔ 

کچھ دیر بعد افاقہ ہوا تو دریافت فرمایا : 

"کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟" 

صحابہ کرام نے عرض کیا:"لوگ آپکا انتظار کر رہے ہیں" اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پانی لانے کا حکم دیا،وضو کیا،پھر مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا،لیکن پھر غشی طاری ہوگئ۔اس کے بعد پھر افاقہ ہوا تو پوچھا : 

"کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟" 

صحابہ کرام نے پھر عرض کیا:" نہیں،لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ " 

اب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا،نماز کا ارادہ فرمایا ،لیکن غشی طاری ہوگئ۔

افاقہ ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی بتایا گیا، تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یہ حکم ملا توانھوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : 

"اے عمر تم نماز پڑھا دو" 

اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: 

"آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں" 

آخر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھائی...اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نمازیں پڑھاتے رہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سترہ نمازیں پڑھائیں۔

اس دوران صبح کی ایک نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی امامت میں دوسری رکعت میں شریک ہوئے اور اپنی پہلی رکعت بعد میں ادا فرمائی۔ 

اس نماز کے لیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد تک آۓ تھے۔ان دو میں سے ایک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت نماز پڑھا رہے تھے ...انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھا تو فوراً پیچھے ہٹنے لگے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امامت فرمایٔں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ساتھیوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے بائیں جانب بٹھادیا۔

اس طرح حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی،ان کے پیچھے باقی تمام صحابہ نے بھی کھڑے رہ کر نماز ادا کی اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پوری فرمائی۔

امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کے پیچھے تین مرتبہ نماز پڑھی۔

اس بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ پہلی مرتبہ حضرت عمر رضی الله عنہ امامت کرنے لگے تھے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جب ان کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا: 

"نہیں...نہیں...نہیں...ابوبکر ہی نماز پڑھائیں۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ پیچھے ہٹ آئے تھے اور حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی تھی۔

پھر آخری روز آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے سر مبارک پردے کے باہر سے نکال کر مسجد میں دیکھا۔لوگ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے پیچھے نماز ادا کر رہے تھے...یہ دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم مسکرا دیے...یہ دن پیر کا دن تھا...وہی دن جس میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے وفات پائی۔مسکرا کر صحابہ کرام کو دیکھنے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے پردہ گرادیا۔

اس وقت لوگوں نے محسوس کیا کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت اب پہلے سے بہت بہتر ہے اور یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تکلیف میں کمی ہوگئی ہے...سو آپ کے آس پاس موجود صحابہ اپنے گھروں کو چلے گئے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ بھی مدینہ منوره کے قریب"مسخ"نامی دیہات چلے گئے جہاں ان کی دوسری زوجہ محترمہ کا گھر تھا۔یہ جگہ مدینہ منوره سے ایک یا ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھی۔جانے سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے اجازت لی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس روز صبح آپ صلی الله علیہ وسلم کے رُخ انور پر بہت بشاشت تھی۔چہرہ انور چمک رہا تھا،لہذا لوگوں نے خیال کیا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی حالت سنبھل گئی ہے۔لیکن دوپہر کے قریب آپ صلی الله علیہ وسلم کا بخار تیز ہوگیا۔یہ خبر سنتے ہی تمام ازواج مطہرات پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آگئیں۔آپ صلی الله علیہ وسلم پر اس وقت بار بار غشی طاری ہو رہی تھی،ہوش میں آتے تو فرماتے: 

"میں اپنے رفیق اعلیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 110


سفرآخرت


جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اپنا ہاتھ مبارک پانی میں ڈال کر اپنے چہرہ انور پر پھیرنے لگے۔اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم فرمارہے تھے: 

"اے اللّٰہ!موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔"

سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم پر بےچینی کے آثار دیکھے تو میں پکار اٹھی: 

"ہائے میرے والد کی بے چینی!"

یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"آج کے بعد پھر کوئی بےچینی تمہارے باپ کو نہیں ہوگی۔"

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر وفات کے وقت جو اس قدر تکلیف اور بےچینی کے آثار ظاہر ہوئے،اس میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت ہے...یہ کہ اگر کسی مسلمان کو موت کے وقت اس طرح کی تکلیف اور بےچینی ہو تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تکلیف کو یاد کرکے خود کو تسلی دے سکتا ہے۔یعنی دل میں کہہ سکتا ہے کہ جب اللّٰہ کے رسول پر موت کے وقت اتنی تکلیف گذری تو میری کیا حیثیت ہے؟یوں بھی موت کی سختی مومن کے درجات بلند ہونے کا سبب بنتی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: "آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر موت کی تکلیف کے بعد اب میں کسی پر بھی موت کے وقت سختی کو ناگوار محسوس نہیں کرتی۔"

جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی تھی تو فرمایا کرتے تھے: 

"اے تمام لوگوں کے پروردگار!یہ تکلیف دور فرمادے اور شفا عطا فرمادے کہ تو ہی شفا دینے والا ہے،تیری دی ہوئی شفا ہی اصل شفا ہے جس میں بیماری کا نام و نشان نہیں ہوتا۔"

حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی بےچینی بڑھی تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور دعا کے یہی کلمات پڑھ کر دم کرنے لگی۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک کھینچ لیا اور یہ دعا پڑھی: 

" اے اللّٰہ! میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ عطا فرما۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی کوئی تکلیف ہوتی عافیت اور شفا کی دعا کیا کرتے تھے۔لیکن جب مرض وفات ہوا تو اس میں شفا کی دعا نہیں مانگی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ اس حالت میں میرے بھائی عبدالرحمن رضی الله عنہ آئے،ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس مسواک کو دیکھنے لگے۔میں سمجھ گئی کہ مسواک کی خواہش محسوس کررہے ہیں، کیونکہ مسواک کرنا آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت پسند تھا،چنانچہ میں نے پوچھا: 

"آپ کو مسواک دو۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے سر مبارک سے ہاں کا اشارہ فرمایا۔میں نے مسواک دانتوں سے نرم کر کے دی۔اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مجھ سے سہارا لیے ہوئے تھے۔ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: 

"میرے اوپر اللّٰہ کے خاص انعامات میں سے ایک انعام یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا انتقال میرے گھر میں ہوا۔آپ کا جسم مبارک اس وقت میرے جسم سے سہارا لیے ہوا تھا۔وفات کے وقت اللّٰہ تعالیٰ نے میرا لعاب دہن آپ صلی الله علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ملادیا، کیونکہ اس مسواک کو میں نے نرم کرنے کے لیے چبایا تھااور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس سے اپنے دانتوں پر پھیرا تھا۔"

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہوئی تو سب ازواج مطہرات آس پاس جمع ہوگئیں۔

مرض کے دوران آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے چالیس غلام آزاد فرمائے۔گھر میں اس وقت چھ یا سات دینار تھے۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کو حکم دیا کہ ان دیناروں کو صدقہ کردے...ساتھ ہی ارشاد فرمایا: 

"محمد اپنے رب کے پاس کیا گمان لے کر جائے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات ہو اور یہ مال اس کے پاس ہو۔"

سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے اسی وقت ان دیناروں کو صدقہ کردیا۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بیماری سے چند روز پہلے حضرت عباس رضی الله عنہ نے خواب دیکھا تھا کہ چاند زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف چلا گیا۔انہوں نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو خواب سنایا تھا...خواب سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔

"اے عباس!وہ تمہارا بھتیجا ہے۔"

یعنی یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔

اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے پناه محبت تھی۔علالت کے دوران آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا۔وہ تشریف لائیں تو ان کے کان میں کچھ باتیں کیں،وہ سن کر رونے لگیں،پھر ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں۔بعد میں انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو بتایا کہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں وفات پا جاؤں گا،یہ سن کر میں رو پڑی...دوسری بار فرمایا کہ خاندان میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی۔یہ سن کر میں ہنس پڑی۔

چنانچہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے کچھ عرصے بعد سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھرانے میں حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کا ہی انتقال ہوا۔

وفات سے ایک یا دو دن پہلے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا: 

"یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو،انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاه بنالیا۔"

یہ بھی فرمایا کہ یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو اور فرمایا: 

"لوگو!نماز...نماز...نماز کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔"

وفات سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام ملک الموت کے ساتھ آئے۔انہوں نے عرض کیا: 

"اے محمد صلی الله علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ آپ کے مشتاق ہیں۔"

یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"تو حکم کے مطابق میری روح قبض کرلو۔"

ایک روایت کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام ملک الموت کے ساتھ آئے تھے۔انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا تھا: 

"اے اللّٰہ کے رسول!یہ ملک الموت ہیں اور اور آپ سے اجازت مانگتے ہیں...آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی اور نہ آپ کے بعد کسی سے اجازت مانگیں گے۔کیا آپ انہیں اجازت دیتے ہے؟۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔تب عزرائیل علیہ السلام اندر آئے۔انہوں نے آپ کو سلام کیا،اور عرض کیا: 

"اے اللّٰہ کے رسول اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔اگر آپ مجھے حکم دیں کہ میں آپ کی روح قبض کروں تو میں ایسا ہی کروں گا اور اگر آپ حکم فرمائیں کہ چھوڑ دو تو میں ایسا ہی کروں گا۔ "

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: 

"کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ روح قبض کیے بغیر چلے جاؤ؟ "

انہوں نے عرض کیا: 

"ہاں!مجھے یہی حکم دیا گیا ہے۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی طرف دیکھا تو انہوں نے عرض کیا: 

"اے اللّٰہ کے رسول!اللّٰہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں۔"

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 

"مجھے اپنے پروردگار سے ملاقات عزیز ہیں۔"

پھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے فرمایا: 

"تمہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے،اس کو پورا کرو۔" 

چنانچہ ملک الموت نے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی روح قبض کرلی انا لله و انا الیه راجعون۔

اس روز پیر کا دن تھا اور دوپہر کا وقت تھا۔تاریخ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔معتبر قول کے مطابق ربیع الاول کی 9 تاریخ تھی۔وفات کے فوراً بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کو اطلاع بھیجی گئی...وہ فوراً آئے۔آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے،انہوں نے آتے ہی رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو بوسہ دیا۔اور یہ الفاظ کہے: 

"آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔آپ زندگی میں بھی پاک اور مبارک تھے اور موت کی حالت میں بھی پاک اور مبارک ہیں،جو موت آپ کو آنا تھی آچکی،اب اللّٰہ تعالیٰ آپ کو موت نہیں دیں گے۔"

[5:02 PM, 7/15/2021] Sabahat Baji Hadess Class: سیرت النبی ﷺ

یونٹ 111


 اسی کے پاس سب کو جاناہے


باہر صحابہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔حضرت عمر رضی الله عنہ کی حالت اتنی پریشان کن تھی کہ مسجد نبوی کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے،اور لوگوں کو مخاطب ہوکر کہنے لگے: 

"اللّٰہ کی قسم!رسول اللّٰہ کا انتقال نہیں ہوا...رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہ منافقوں کے ہاتھ پیر نہیں توڑ دیں گے۔اور اگر کسی نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا... بعض منافق یہ کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں،حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ اسی طرح اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام گئے تھے اور پھر چالیس راتوں کے بعد اپنی قوم میں واپس آگئے تھے،جب کہ لوگ ان کے بارے میں کہنے لگے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے۔اللّٰہ کی قسم!رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بھی اسی طرح واپس تشریف لائیں گے جیسے موسیٰ علیہ السلام لوٹ آئے تھے...پھر ان لوگوں کے ہاتھ پیر کٹوائیں گے۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ غم کی زیادتی کی وجہ سے ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ تشریف لائے اور منبر پر چڑھے۔انہوں نے بلند آواز میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

"لوگو!جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا،وہ جان لے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔"

یہ کہہ کر انہوں نے سورۃ آل عمران کی آیت 44 تلاوت فرمائی۔اس کا مفہوم یہ ہے: 

"اور محمد رسول ہی تو ہیں۔ان سے پہلے اور بھی بہت رسول گذر چکے ہیں۔سو اگر ان کا انتقال ہوجائے یا وہ شہید ہوجائے تو کیا تم لوگ الٹے پھر جاؤ گے...اور جو شخص الٹے پیروں پھر بھی جائے گا تو اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور اللّٰہ تعالیٰ جلد ہی حق شناس لوگوں کو بدلہ دے گا۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں۔

"یہ آیت سن کر مجھے لگا جیسے میں نے آج سے پہلے یہ آیت سنی ہی نہیں تھی۔"

اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: 

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ،صَلَوَٰتٌۭ وَسَلَامٌ عَلَى رْسَولِہ صلی الله علیہ وسلم 

(بے شک ہم سب اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر درود و سلام ہو۔)

حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے قرآن کریم کی اس آیت سے سب کے لیے موت کا برحق ہونا ثابت فرمایا اور فرمایا:

"اللّٰہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔

"آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں( عام مخلوق کو)بھی مرنا ہے۔"( سورۃ الزمر : آیت 30)

پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ پر تمام مسلمانوں نے بیعت کرلی۔اس کے بعد لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔

(اور یہ کس قدر حیرت انگیز اتفاق ہے کہ یہ قسط ربیع الاول کی انہی تاریخوں میں شائع ہورہی ہے...جن میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی،یہ قدرتی ترتیب اسی طرح بن گئی ورنہ میرا ایسا کوئی باقاعدہ ارادہ نہ تھا۔)

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔ غسل حضرت علی،حضرت عباس اور ان کے بیٹوں فضل اور قثم رضی الله عنہم نے دیا۔حضرت فضل اور حضرت اسامہ رضی الله عنھما غسل دینے والوں کو پانی دے رہے تھے۔غسل کے وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی قمیص نہیں اتاری گئی۔غسل کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تین سفید کپڑوں میں کفن کا دیا گیا، عود وغیرہ کی دھونی دی گئی۔اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو چار پائی پر لٹاکر ڈھانپ دیا گیا۔

نماز جنازہ کی کسی نے امامت نہیں کی۔سب نے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھی ۔یعنی جتنے لوگ حجرہ مبارک میں آسکتے تھے،بس اتنی تعداد میں داخل ہوکر نماز ادا کرتے اور باہر آجاتے،پھر دوسرے صحابہ اندر جاکر نماز ادا کرتے۔

حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی الله عنہ چند دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ حجرے میں داخل ہوئے تو ان الفاظ میں سلام کیا۔


پھر تمام مہاجرین اور انصار نےبھی اسی طرح سلام کیا۔نماز جنازہ میں سب نے چار تکبیرات کہیں۔

انصاری حضرات سقیفہ بنی ساعدہ( ایک جگہ کا نام)میں جمع ہورہے تھے تاکہ خلافت کا فیصلہ کیا جائے۔کسی نے اس بات کی خبر حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنھما کو دی۔یہ دونوں حضرات فوراً وہاں پہنچے،اور خلافت کے بارے میں ارشاد نبوی سنایا۔

خلافت کا مسئلہ طے ہوگیا تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو دفن کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا...سوال یہ کیا گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟اس موقع پر بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ آگے آئے اور فرمایا: 

"آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں وفات ہوئی ہے... 

میرے پاس ایک حدیث ہے... میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کی روح اسی جگہ قبض کی جاتی ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہ ہوتی ہے۔ 

چنانچہ یہ بات طے ہوگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ دفن کیا جائے۔

اب یہ سوال اٹھا کہ قبر کیسی بنائی جائے،بغلی بنائی جائے یا شق کی۔۔۔اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت ابوطلحۃ بن زید بن سہل رضی اللہ عنہ بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح شق کی قبر کھودتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 

ان دونوں کو بلالاؤ۔۔۔ان میں سے جو پہلے پہنچے گا، اسی سے قبر بنوالی جائے گی۔

ان کی طرف آدمی بھیجنے کے ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی: 

اے اللہ!اپنے رسول کے لئے خیر ظاہر فرما۔

حضرتابوطلحہ رضی اللہ عنہ پہلے آئے،چنانچہ بغلی قبر تیار ہوئی۔ایک حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بغلی قبر ہی کا حکم فرمایا تھا۔ حضرت عباس،حضرت علی،حضرت فضل،حضرت قثم اور حضرت شقران رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں اتارا۔ 

حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے قبر میں ایک سرخ رنگ کا کپڑا بچھایا۔یہ وہی سرخ کپڑا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جاتے وقت اونٹ کے پالان پر بچھاتے تھے۔یہ کپڑا اس لئے بچھایا گیا کہ وہاں نمی تھی۔اس وقت حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے:

خدا کی قسم!آپ کے بعد اس کپڑے کو کوئی نہیں پہن سکے گا۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین منگل اور بدھ کی درمیانی رات میں ہوئی۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اس روز ہم سب ازواج ایک جگہ جمع ہوکر رورہی تھیں۔ہم میں سے کوئی سو نہ سکا۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی۔ اذان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آیا تو سارا مدینہ رونے لگا۔لوگ اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔اس سے بڑا صدمہ ان پر کبھی نہیں گذرا تھا اور نہ آئندہ کبھی کسی پر گذرے گا۔ 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: 

تمہارے دلوں نے کیسے برداشت کرلیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو؟۔

اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ہاں!لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پھیرنے والا کوئی نہیں۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آدمی اسی مٹی میں دفن ہوتا ہے جہاں سے اس کا خمیر اٹھایاجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اور حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر رضی اللہ عنہما ایک ہی جگہ کی مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور بھوکی پیاسی مر گئی۔

علمائےاسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دفن ہیں،وہ جگہ روئے زمین میں تمام مقامات سے افضل ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واقعۂ فیل والے سال میں پیدا ہوئے۔۔۔یعنی جس سال ابرہہ بادشاہ نے کعبہ پرچڑھائی کی تھی۔اس واقعہ کے چالیس یا پچاس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت صبح طلوع فجر کے وقت ہوئی۔وہ پیر کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اس روز معتبر قول کے مطابق 9 تاریخ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس روز بھی ربیع الاول کی نو یا بارہ تاریخ تھی۔ 

اے اللہ درود وسلام ہو اس ذات پر کہ جس نے کفر وشرک کے اندھیروں میں شمع ہدایت روشن کی اور جن کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔وہ تیرے بندے اور رسول اور ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کامل ہے۔ میدان حشر میں ہمیں ان کے گروہ میں شامل فرما اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث کے خادموں میں داخل فرما۔آمین۔ سوائے اللہ رب العزت کی ذات عظیم کے کسی کو دوام حاصل نہیں۔

وصلی اللہ علی النبی الامی وعلی الہ واصحابہ اجمعین۔

۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ اس قسط کے ساتھ ہی سیرت النبی قدم بہ قدم کا یہ سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔اسے جس قدر پسند کیا گیا،اس پر اللہ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے، اس میں تقریبا دو سال لگے۔۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے ان گنت پہلو پھر بھی اس میں شامل نہ ہوسکے۔۔۔۔اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔ دنیا کے تمام انسان تمام عمر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک پر لکھتے رہیں،تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔۔۔موجودہ حالات کا تقاضا ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کیا جائے، قول سے، عمل سے یا جس طرح بھی بن پڑے یہ کام ضرور کیا جائے۔ اس وقت انسانیت کو کسی آئیڈیل کی تلاش ہے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات ہوسکتی ہے۔ بقول ذکی کیفی۔۔۔

تنگ آجائے گی خود اپنے چلن سے دنیا

تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی




No comments:

Powered by Blogger.