zakat pending

 


Unit 10

 زکوۃ کا بیان 


سوال : لغت اور شریعت کی رو سے زکاۃ کا مطلب کیا ہے؟

جواب : زکاۃ ( کا مطلب) لغت کی رو سے  پاکیزگی اور بڑھوتری ہے اور شریعت میں مالک بنانے والے سے ہر اعتبار سے منفعت  کاٹنے کے ساتھ صاحب نصاب کا اللّٰه تعالیٰ کیلئے مسلمان فقیر کو مال کے ( خاص) حصہ کا مالک بنانا ہے جس 
( حصہ) 
کو شارع نے اس کے مال میں معین( ومقرر) کیا ہے۔



سوال: اسلام میں زکاۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب: زکاۃ اللّٰه تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فرض اور اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ اللّٰه تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا حکم فرمایا ہے پس فرمایا


وَاَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ وَاٰ تُوا الزَّکٰوۃَ
(ترجمہ) 
اور نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو۔

اور جس نے اسکی فرضیت سے انکار کیا پس وہ کافر ملتِ اسلام سے خارج ہے۔


   کس پر زکاۃ فرض ہوتی ہے  



سوال: زکاۃ کس پر فرض ہوتی ہے؟

جواب: وہ آزاد ،مسلمان،بالغ،عاقل پر فرض ہے جب کہ وہ مکمل ملک کے اعتبار سے کامل نصاب کا مالک ہو اور اس( نصاب) پر سال گزر جاۓ۔


سوال: کامل نصاب کیا ہے؟

جواب: وہ چاندی کے دو سو درہم (١) یا سونے کے بیس مثقال(٢)یا رائج سکوں سے ان دونوں میں سے کسی ایک کا مالک ہونا یا تجارت کے مال کا مالک ہونا ہے جو ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت کو پہنچ جاۓ۔



سوال: صاحب نصاب شخص پر قرض ہے تو کیا زکاۃ اس پر فرض ہے؟

جواب: اس میں دیکھا جاۓ،اگر اس کا قرض اسکے تمام مال کو گھیرے ہوۓ ہے تو اس پر زکاۃ نہیں اور اگر اس کا مال قرض سے زیادہ ہے تو زکاۃ اس (مال) میں واجب ہوگی جو قرض کی مقدار سے زیادہ ہو جاۓ جبکہ زائد (مال ) نصاب کو پہنچ جاۓ۔



سوال: کیا تجارت کے مال میں زکاۃ ہے؟ 

جواب: جی ہاں!  تجارت کا مال دونوں نصابوں یعنی چاندی کے دو سو درہم اور سونے کے بیس مثقال میں سے کسی ایک ( نصاب) کو پہنچ جائے تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی۔




سوال:آپ کے قول " اور اس پر سال گزر جاۓ" کا مطلب کیا ہے؟


جواب: اس کا مطلب یہ ہے کہ آزاد بالغ مسلمان جب نصاب یا زیادہ کا مالک ہو جائے تو اپنے مال میں سے زکاۃ نکالنا اس پر فرض ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس( نصابی مال)  پر مکمل قمری سال گزر جاۓ اور اس میں شمسی سال کو شمار نہیں کیا جاتا۔



سوال:  رہائش کے گھروں ،بدن کے کپڑوں اور گھر کے سازو سامان کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ 

جواب: رہائشی گھروں، بدن کے کپڑوں ، گھریلو سازو سامان، سواری کے جانوروں ،خدمت کے غلاموں اور استعمال کے ہتھیاروں میں زکاۃ نہیں۔



سوال: اگر یہ چیزیں تجارت کے لیے ہوں تو کیا ان میں زکاۃ ہے؟

جواب:  جی ہاں! زکاۃ ان میں فرض ہوتی ہے جبکہ یہ نصاب کو پہنچ جائیں۔



سوال: سونا اور چاندی یا تجارت کے سامان میں زکاۃ واجب ہوئ پس جو( چیز) واجب ہوئ اس نے اس کی قیمت دے دی تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب: جی ہاں! زکاۃ میں قیمتوں کا دینا جائز ہے۔



سوال: جو اپنا تمام مال صدقہ کر دے اس حال میں کہ وہ زکاۃ کی نیت کرنے والا نہ ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: زکاۃ  کا فرض اس سے ساقط ہو گیا۔



سوال: جب مال زکاۃ واجب ہونے کے ساتھ ہلاک ہو جاۓ  تو مال کا مالک کیا کرے؟

جواب: جب تمام مال زکاۃ واجب ہونے کے بعد ہلاک ہو جاۓ تو زکاۃ ساقط ہو جاۓ گی پس (زکاۃ) کی ادائیگی فرض نہیں ہوگی۔ اور اگر کچھ مال ہلاک ہو گیا تو اس کے حساب سے زکاۃ ساقط ہوگی۔یہ (حکم) تب ہے جب مال ہلاک ہو جاۓ پس بہرحال جب وہ مال ہلاک کر دے تو زکاۃ ساقط نہیں ہو گی۔



Unit 11

 سونے اور چاندی کی زکاۃ کا بیان 


سوال : چاندی کی کتنی مقدار پر زکاۃ فرض ہوتی ہے؟

جواب: جب وہ چاندی کے دو سو درہموں

٢٠٠درہم :٥ء٥٢ تولہ یعنی ٣٦ء٦١٢ گرام

(اوزان شرعیہ مع تتمہ) 
 کا مالک ہو جاۓ اور ان پر سال گزر جاۓ تو زکاۃ اس میں فرض ہو جاتی ہے پس وہ اپنے مال میں سے چالیسواں حصہ ادا کرے اور وہ ہر دو سو درہموں میں سے پانچ درہم ہیں۔



سوال: جب دراہم دو سو درہموں  سے زیادہ ہو جائیں تو جو( مقدار) زیادہ ہوئ اس کی زکاۃ کیسے ادا کرے؟ 

جواب: حضرت ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ زیادت میں کچھ نہیں  یہاں تک کہ  وہ چالیس درہموں کو پہنچ جاۓ پس جب چالیس درہم دو سو درہموں سے زائد ہو جائیں تو زائد میں پانچ درہموں کے ساتھ ایک درہم ہے پھر چالیس درہموں میں ایک درہم ہے اور حضرت ابو یوسفؒ و حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ دو سو( درہموں) سے جو زائد ہو جاۓ پس اس کی زکاۃ اس کے حساب سے ہے زیادت کم ہو یا زیادہ۔



سوال: سونے کی کتنی مقدار میں زکاۃ فرض ہوتی ہے؟

جواب: جب وہ سونے کے بیس مثقال {٢٠ مثقال:٥ء٧ تولہ يعنى ٤٨ء ٨٧ گرام( اوزان شرعیہ مع تتمہ)} کا مالک ہو اس پر سال گزر جاۓ تو ان میں سے آدھا مثقال ادا کرے  اور وہ بھی چالیسواں حصہ ہے پھر زائد میں ہر چار مثقال میں دو قیراط{٨ء١رتى يعنى ٧ء٢١٨ ملی گرام( اوزان شرعیہ مع تتمہ)}ہیں اور چار مثقال سے کم زائد میں زکاۃ نہیں اور یہ حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اور آپکے صاحبینؒ فرماتے ہیں کہ بیس مثقال میں آدھا مثقال ہے اور جو بیس( مثقال) سے زائد ہو جاۓ اس میں زکاۃ اسکے حساب سے واجب ہوتی ہے۔



سوال: جب سونے یا چاندی سے  زیور یا برتن ڈھالا جاۓ تو کیا اس میں زکاۃ فرض ہوتی ہے؟

جواب: زکاۃ سونا اور چاندی میں اور ہر ایسی (شے) جو ان سے ڈھالی جاۓ یعنی انکی ڈلیوں،انکے زیورات اور انکے برتنوں میں فرض ہوتی ہے۔اور اس میں مستعمل  وغیر( مستعمل) برابر ہیں۔



سوال: جب سونا یا چاندی میں کچھ کھوٹ ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: جب چاندی کے سکہ پر غالب چاندی ہو تو وہ چاندی کے حکم میں ہے اور جب غالب کھوٹ ہو تو وہ سامان کے حکم میں ہے اور کھوٹا سونا چاندی کی مانند ہے اس( حکم) میں جو (ابھی) ہم ذکر کر چکے ہیں۔



سوال: ایک شخص کہ اسکے پاس نہ سونا ہے اور نہ چاندی لیکن وہ ان نوٹوں کا مالک ہے جن کو حکومتی بینک جاری کرتے ہیں تو کیا ان میں زکاۃ ہے؟

جواب: جی ہاں! ان میں زکاۃ ہے جبکہ وہ دونوں نصابوں یعنی سونے اور چاندی کے نصابوں میں سے کسی ایک ( نصاب ) کو پہنچ جائیں کیونکہ وہ رائج اثمان کی طرح ہیں( کہ) ہر چیز ان کے ساتھ خریدی جاتی ہے اور ان کے ساتھ تجارت کی جاتی ہے اور جو ان ( نوٹوں) کو بینک میں لاۓ حکومت اس کیلئے ضامن ہوتی ہے کہ اسے وہ نقود ( یعنی دراہم و دنانیر) واپس کرے یہ نوٹ جن( نقود) کے قائم مقام ہیں۔



Unit 12

 زکاۃ کے مصارف کا بیان 


سوال: زکاۃ کے مصارف بیان کیجئے؟

جواب : تحقیق اللّٰه تعالیٰ نے اپنی معزز کتاب میں اس کے مصارف بیان فرماۓ ہیں پس اللّٰه تعالیٰ فرماتے ہیں

 اِنّمَاالصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ

پس یہ آٹھ قسمیں ہیں  

(١)
الْفُقَرَآء 

 (٢)
الْمَسٰکِیْنِ

(٣)
اَلْعَامِلُوْنَ عَلَیْھَا۔ 

(٤)
وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْب  

(٥)
الرِّقَابِ

(٦)
الْغَارِمُوْن

(٧)
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه

(٨)
ابْنُ السَّبِیْلِ



سوال: فقیر کون ہے؟

جواب: یہ وہ ہے جس کے پاس معمولی چیز ہو اور اس کا مال نصاب کو نہ پہنچے۔



سوال: مسکین کی تعریف کیا ہے؟

جواب: یہ وہ ہے جس کے پاس کوئ چیز نہ ہو۔



سوال: عاملین علیھا سے کیا مراد ہے؟

جواب: یہ وہ ہیں جن کو امام اس  زکاۃ کے حاصل کرنے ( کا کام) سپرد کرتا ہے جو اللّٰه تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض فرمائ ہے۔پس یہ ان کے پاس جاتے ہیں اور زکاۃ وصول کرتے ہیں اور اپنے اوقات کو اس (کام) میں صرف کرتے ہیں پس امام ان کو ان کے عمل کی مقدار کے مطابق زکاۃ کے اموال میں سے دیتا ہے۔



سوال: اللّه تبارک و تعالی کے فرمان وَفِي الرِّقَاب کا مطلب کیا ہے؟ 

جواب: وہ یہ ہے کہ مکاتبوں کی ان کی گردنوں کے چھڑانے میں مدد کی جائے



سوال: غَارِم کون ہیں؟ 

جواب: یہ وہ ہیں جسکو قرض لازم ہوگیا اور وہ اپنے مال میں سے اپنے قرض کے لئے وفا 
(حقوق واجبہ کے پورا کرنے کے لائق مال ) 
نہ پائے 



سوال: اللّه تبارک و تعالی کے فرمان فِي سَبِيل اللّه سے کیا مراد ہے 
جواب:وہ غازیوں سے کٹ جانے والے ہیں یعنی جو اللّه کے راستے میں جہاد کیلیے نکلے پھر وہ اپنی جماعت سے کٹ گئے  اس حال میں کہ وہ نفقہ
 ( خرچہ اور وسائل جہاد )
 کے محتاج ہیں



سوال:  اِبْنُ السَّبِيْل سے کون ہے ؟ 

جواب: یہ وہ مسافر ہے جسکے پاس سفر  میں مال نہ ہو اگرچہ وہ اپنے وطن میں غنی مال دار ہو  



سوال: مُؤَلَّفَةُالقُلُوْب کے بارے میں سوال باقی رہ گیا ؟ 

جواب :  یہ وہ ( لوگ ) ہیں نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم  انکی دلجوئی کے لیے انہیں زکاة کے مال میں سے دیتے تھے تاکہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور وہ بعض قبائل کے سردار ہوتے تھے انکے اسلام لانے سے انکی قوم کے اسلام لانے کی امید کی جاتی تھی اور جب اللّه  تبارک و تعالی نے اسلام کا غلبہ عطا فرمایا اور ان سے بے نیاز کردیا تو انکو زکوة دینے کا حکم ساقط ہوگیا پس نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم کے زمانے کے بعد انہیں زکاة کے اموال نہیں دیے جاتے



سوال: آپ نے بیان فرمایا ہے اس ( بنا) پر سات قسمیں باقی رہ گئی جنکو زکاة دینا جائز ہے تو کیا مالک زکاة ہر قسم کو زکاة دے یا بعض اقسام پر اکتفا کرنا اسکے لئے جائز ہے  ؟ 

جواب: زکاة دینے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک قسم پر اکتفا کرے ایک فرد ہو یا زیادہ یا دو قسموں اور  اس سے زائد کو ادا کرے 



سوال: کیا کافر مسکین یا فقیر کو زکاة  کا مال دینا جائز ہے ؟ 

جواب: اسکو زکاة کا مال دینا جائز نہیں جو ملت اسلام سے خارج ہو برابر ہے کہ ذمی ہو یا غیر 
( ذمی )



سوال : کیا جائز ہے کہ زکوة کے مال  میں سے میت کو کفن دیا جائے یا اسکے ساتھ مسجد یا مدرسہ یا پل یا عام (لوگوں ) کے گزرنے کیلئے راستہ بنایا جائے ؟

جواب: یہ (کام ) زکوة کے مال سے جائز نہیں پس اگر اس نے ان (کاموں ) میں(زکوة) خرچ کی تو دوبارہ زکوة  ادا کرے اور ضابطہ اسمیں یہ ہے کہ زکوة ادا کرنے کے لیے اسکو مالک بنانا ضروری ہے جو( زکوة ) کا مستحق ہے اور میت کو کفن دینے اور مذکورہ(چیزوں ) میں سے مسجد وغیرہ بنانے میں تملیک نہیں


سوال : اگر زکوة کا مال اسکو دیا جو مدرسہ کے امور کا متولی ہے اسکا حکم کیا ہے؟ 

جواب : اگر مدرسہ کے منتظم کو زکوة کا مال دیا اور اسے وکیل بنایا کہ طلبہ علوم میں سے فقراء ومساکین پر خرچ کرے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ منتظم انکو مالک بناے  پس انکے لے کھانا مباح کرنے سے اور مدرسہ کی عمارت بنانے سے اور مدرسین یا تنخواہ داروں کو انکی ماہانہ تنخواہوں میں(زکوة) کا مال  دینے سے لوگوں کی زکوة ادا نہیں ہوگی



سوال: اگر اس نے زکوة کے مال سے رَقبًه ( غلام یا لونڈی ) خریدی اور اسے آزاد کر دیا تو کیا اس ( عمل ) سے اسکی زکوة ادا ہوجائے گی؟ 

جواب :  نہیں 



سوال: اگر زکوة دینے والے نے اپنے فقراء رشتہ داروں کو اپنی زکاة  دی تو کیا یہ جائز ہے؟ 

جواب: رشتہ دار دو قسم کے ہیں  : ایک قسم کہ انکے اور زکاة دینے والے کے درمیان ولادت کی رشتہ داری ہے جیسے والدین، اجداد( دادا،نانا) ،جدات
(  نانی ،دادی) 
اولاد اور 
احفاد( پاتاپوتی،نواسہ،نواسی) اور ایک قسم کہ اسکے اور انکے درمیان ولادت ( کی رشتہ داری ) نہیں بھائی، بہنیں اور جیسے چچے ،پھوپھیاں اور جیسے ماموں، خالائیں اور ان سب کی اولاد _ پس پہلی قسم کی زکاة دینا جائز نہیں  پس اگر اس نے اپنی زکاة کا مال اپنے ولد یا ولد کے ولد کو دی لڑکا ہو یا لڑکی اگرچہ نیچے تک ہویا اپنے باپ یا اپنی ماں یا اپنے اجداد یا اپنی جدات کو ( زکاة ) دی تو اسکی زکاة ادا نہیں ہوگی  
بہرحال دوسری قسم ! ان کو زکاة دینا جائز ہے اور انکو (زکاة ) دینے میں دو اجر ہیں زکاة ادا کرنے کا اجر اور صلہ رحمی کا اجر۔



سوال: یہ (لوگ زکاۃ)  نہیں لیتے جب ان سے کہا جاۓ یہ زکاۃ کا مال ہے تو   انہیں (زکاۃ)دینے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: اس کے اظہار کی ضرورت نہیں بلکہ جب آپ نیت کریں کہ آپ اپنے مال کی زکاۃ ادا کر رہے ہیں اور ان پر ظاہر کریں کہ یہ ہدایہ ہے تو یہ ( عمل)  زکاۃ ادا کرنے سے کفایت کرے گا بشرطیکہ یہ( لوگ) زکاۃ کے مستحق ہوں اس( بنا) پر جو اقسام کے بیان میں گزر چکا اور وہ بنو ہاشم میں سے نہ ہوں۔ 



سوال: کیا زکاة ادا ہوجاتی ہے جب وہ( زکاة ) اپنی بیوی کو دے یا بیوی اپنے شوہر کو دے؟ 

جواب: حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس سے زکاة ادا نہیں ہوتی اور آپکے صاحبینؒ فرماتے ہیں کہ اگر بیوی نے اپنے شوہر کو زکاة کا مال دیا تو یہ اسے کفایت کرے گا



سوال: اگر مال دار کو یا مال دار کے ولد کو زکاة دی تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: مالدار یعنی نصاب کے مالک کو زکاۃ دینا جائز نہیں( نصاب) جس مال سے ہو اور مالدار کے ولد کو  ( زکاۃ ) دینا جائز نہیں جبکہ وہ نابالغ بچہ ہو اور مالدار کے بڑے بچے ( یعنی بالغ) کو ( زکاۃ) دینا جائز ہے  جبکہ وہ فقیر ہو نصاب کا مالک نہ ہو۔



سوال: کیا فقراء و مساکین میں سے ایسا ( شخص)  ہے جسے زکاۃ دینا جائز نہیں؟

جواب: جی ہاں! بنو ہاشم کو زکاۃ دینا جائز نہیں اگرچہ وہ فقراء و مساکین  ہوں اور وہ ( یعنی بنو ہاشم) اولاد علی،آل عباس ،آل جعفر،آل عقیل اور آل حارث بن عبد المطلب رضی اللّٰه تعالیٰ عنہم ہیں۔



سوال:  اگر یہ ( حضرات) ضروتمند ہوں تو کیسے ان کی مدد کرے اور ان کی نصرت کرے؟

جواب: زکاۃ کے مال کے بغیر اور صدقاتِ واجبہ کے بغیر ان سے تبرع کرے۔



سوال: ایک شخص نے اپنی زکاۃ کا مال  ایسے شخص کو دیا جس کے بارے میں اس نے خیال کیا کہ وہ زکاۃ کا مصرف ہے پھر ظاہر ہوا کہ وہ مالدار یا ہاشمی یا کافر ہے یا اس نے اندھیرے میں فقیر کو ( زکاۃ کا مال) دیا پھر ظاہر ہوا کہ وہ اس کا باپ یا اس کا بیٹا ہے تو کیا اس سے اس کی زکاۃ ادا ہو جاۓ گی؟

 جواب: یہ( مال) اس کی زکاۃ سے ادا ہو جاۓ گا اور( زکاۃ) دوبارہ دینا اس کے زمہ نہیں۔یہ حضرت ابو حنیفہؒ و حضرت محمدؒ کے نزدیک ہے اور حضرت ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ ان تمام صورتوں میں دوبارہ دینا اس پر لازم ہے۔



سوال: اگر اس نے ایسے شخص کو( زکاة)  دی جسکو زکاة کا مستحق سمجھا پھر علم ہوا کہ وہ اسکا غلام یا اسکا مکاتب ہے تو ہمارے تینوں امام ( امام ابو حنیفہؒ ، امام ابو یوسفؒ ، اورامام محمدؒ ) اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ 

جواب: اگر یہ واقع ہوا تو ان سب کے قول میں اسے کفایت نہیں کیا



سوال: جب کوئی شخص تندرست کمانے والا نصاب کا مالک نہ ہو تو کیا اسکو زکاة دینا جائز ہے؟ 

جواب: جی ہاں! جائز ہے 



سوال: اگر صاحب زکاة نے اپنی زکاة کا مال جس (شہر ) میں وہ رہتا ہے اس شہر کے علاوہ کسی شہر کی طرف منتقل کیا تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب: ضابطہ اس بارے میں یہ ہے کہ ہر قوم کی زکاة انہیں میں تقسیم کی جائے اور وہ اپنا مال دوسرے شہر کی طرف نہ نکالے اور اگر اس نے یہ کیا تو مکروہ ہوگا الا یہ کہ وہ زکاة اپنے رشتہ داروں کی طرف ایسی قوم کی طرف منتقل کرے جو اسکے شہر والوں سے زیادہ محتاج ہیں




 زکوٰۃ کی اہمیت و مسائل 


زکوٰۃ دین اسلام کا چوتھا اور بنیادی رکن ہے۔ اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا بیان بیاسی مقامات پر آیا ہے۔

زکوٰۃ کے لغوی معنی ہیں پاک ہونا، بڑھنا، نشوونما پانا۔جبکہ شرعی اصطلاح میں صاحب نصاب کا اپنے مخصوص مال کو خاص شرائط کے ساتھ، خاص شرح کے مطابق ادا کرنا، زکوۃ کہلاتا ہے۔


 زکوٰۃ کی اہمیت قرآن حکیم کی روشنی میں 


قرآن پاک میں متعدد آیات میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے 


وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَ  

 (البقره،2 :43)

 اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو


اس آیہ کریمہ میں جن احکامات الہٰی کا ذکر کیا گیا ہے 

وہ یہ ہیں۔ 1۔ نماز قائم کرنا، 2۔ زکوٰۃ دینا، 3۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا یعنی اللہ کے حضور جھکنے والوں کے ساتھ جھکنا۔ اس کے احکامات کے آگے سر تسلیم خم کرنے والوں کے ساتھ سر تسلیم خم کرنا اور خداوند تعالیٰ کے تمام ارشادات اور فرمودات کی مکمل طور پر اطاعت کرنے والوں کے ساتھ اطاعت کرنا۔

سورہ المزمل کا مطالعہ اور مفہوم کو پیش نظر رکھیں تو اس سورہ میں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کی اہمیت اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب ایک گروہ نے بارگاہ نبوت پر حاضر ہوکر اسلام کی تعلیمات دریافت کیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعمال میں سب سے پہلے نماز اور پھر زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحلت کے بعد جب بعض لوگوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف قرآن نے سخت وعید سنائی ہے جس کا اندازہ قرآن مجید کی ان آیات سے لگایا جاسکتا ہے 

 جو لوگ سونا چاندی سینت سینت کر (جمع کرکے، خزانہ بناکر) رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنادیجئے۔ اس (قیامت کے) دن اس (سونے چاندی) کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر اس کے ساتھ ان کے چہرے، ان کے پہلو اور ان کی پشتیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم اپنے لئے جمع کرکے لائے ہو۔ اب اس کا مزہ چکھو۔ جو تم جمع کرتے رہے تھے  

(سوره التوبه، 35 :34)


چونکہ زکوٰۃ کے لغوی معنی ہی پاک کرنے کے ہیں اس لئے جو انسان زکوٰۃ ادا کرتا ہے وہ خدا کے حکم کے مطابق نہ صرف اپنے مال کو پاک کرلیتا ہے بلکہ اپنے دل کو بھی دولت کی ہوس سے پاک کرتا ہے۔ ادائیگی زکوٰۃ سے اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ جو دولت وہ کماتا ہے، وہ درحقیقت اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے۔

جب انسان دولت جیسی نعمت اللہ تعالیٰ کے حکم پر خرچ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے ایثار کی قدر کرتے ہوئے اس خرچ شدہ مال کو اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ فرماتا ہے کہ بندے کا یہ قرض وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا۔ 

سورۃ التغابن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے 

اِنْ تُقْرِضُوا اﷲَ قَرْضًا حَسَنًا يُضٰعِفْهُ لَکُمْ وَيَغْفِرْلَکُمْط وَاﷲُ شَکُوْرٌ حَلِيْمٌ 

(التغابن،64 :17)

اگر تم اللہ کو (اخلاص اور نیک نیتی سے) اچھا قرض دوگے تو وہ اسے تمہارے لیے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑا قدر شناس ہے بُردبار ہے


 زکوٰۃ کی اہمیت احادیث کی روشنی میں 


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا 

جب تو نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی تو تو نے اپنا فرض ادا کردیا۔ 

(ترمذی، ابواب الزکاۃ، رقم618، بیہقی، شعب الایمان رقم 3557)


حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا

 اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ بنالو اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو 


زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں طبرانی اور ابودائود میں احادیث درج ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں سے فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! وہ (چھ چیزیں ) کون سی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا

الصلاة، والزکاة، والامانة، والفرج، والبطن واللسان

نماز، زکوٰۃ (کی ادائیگی)، امانت داری، شرم گاہ (کی حفاظت)، پیٹ (کو حرام سے بچانا) اور زبان (سے بری بات نہ کہنا)


 مسائل زکوٰۃ 

زکوٰۃ ان لوگوں پر فرض ہے جن کے پاس ایک خاص مقدار میں سونا، چاندی، روپیہ پیسہ یا سامان تجارت ہو۔ اس خاص مقدار کو نصاب کہتے ہیں۔ مختلف اشیاء کا نصاب یہ ہے 

1 سونا ساڑھے سات تولے (87.48 گرام) 2۔ چاندی ساڑھے باون تولے (612.36 گرام)

زکوٰۃ کسی مال پر اس وقت واجب ہوتی ہے جب اسے جمع کئے ہوئے پورا ایک سال گزر چکا ہو۔

ادائیگی زکوٰۃ کے مصارف (مصارف مصرف کی جمع ہے جس کا معنٰی خرچ کرنے کی جگہ کے ہیں)

تقسیم زکوٰۃ کی مدات بھی اللہ تعالیٰ نے خود متعین فرمادی ہیں جو کہ سورہ التوبہ کی آیت نمبر60 سے واضح ہیں۔ 


ارشاد خداوندی ہے

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌ

(التوبه،9 :60)

بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

ان آیات اور مصارف سے واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کی رو سے بنائے گئے آٹھ مصارف میں سب سے پہلے اپنے غریب و مستحق رشتہ داروں، پڑوسیوں، ملنے والوں، اپنے ہم پیشہ، اپنے شہر والوں اور بعد میں دوسرے لوگوں کو زکوٰۃ دی جائے۔ اس کے علاوہ خود دار، سفید پوش اور غیرت مند لوگ جو ناداری کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ان کو ترجیح دینی چاہئے۔


 ادائیگی زکوٰۃ کے چند اصول 


 زکوٰۃ صرف مسلمانوں ہی سے لی جاتی ہے۔

وہ عزیز و اقارب جن کی کفالت شرعاً فرض ہے (مثلا ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، شوہر، بیوی وغیرہ) انہیں زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی البتہ دور کے عزیز غیروں کے مقابلے میں قابل ترجیح ہیں۔

ایک بستی کی زکوٰۃ عام حالات میں خود اس بستی میں ہی تقسیم ہونی چاہئے۔ البتہ اس بستی میں مستحق زکوٰٰۃ نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی دوسری بستی میں ہنگامی صورت حال مثلاً سیلاب، زلزلہ، قحط وغیرہ کے موقع پر زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

 زکوۃ دینے والوں کو چاہئے کہ زکوٰۃ لینے والوں کے مستحق زکوٰۃ ہونے کا ممکن حد تک اطمینان کرلیں۔

زکوۃ کی رقم سے ضرورت کی اشیاء بھی خرید کر دی جاسکتی ہیں۔

 مستحق زکوۃ کو بتانا بھی ضروری نہیں کہ یہ پیسہ یا مال زکوٰۃ کا ہے۔

جب اسلامی نظام حکومت قائم ہو تو اجتماعی زکوٰۃ دینا بھی لازم ہے۔ البتہ اگر کسی خطہ زمین میں سے مسلمان غیر اسلامی حکومت کے تابع ہوں تو اس صورت میں مختلف تنظیموں یا باہمی تعاون کے دوسرے اداروں کے ذریعے زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔ زکوٰۃ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ اگر لاشعوری طور پر مالدار کو دے دی جائے جو اس کا حق دار نہ ہو تو معلوم ہونے پر دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔

 زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ نابالغ شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

 زکوٰۃ عاقل مسلمانوں یعنی وہ مسلمان جو اپنے ہوش و حواس میں ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہے، پاگل یا دیوانے پر نہیں۔

آزاد مسلمان پر زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم ہے۔ غلام یا لونڈی پر نہیں۔ صاحب مال ہو اور اس کو اپنے مال پر کامل ملکیت حاصل ہو۔

 زندگی کی بنیادی ضروریات سے زیادہ ہو۔

ایسا مسلمان زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم میں آتا ہے جس پر قرضہ نہ ہو یعنی قرض وغیرہ سے فارغ ہو۔

 اس مال پر زکوٰۃ دی جائے گی جس کی بڑھوتری ہوتی ہو جیسے مال تجارت یا سونا چاندی وغیرہ۔


  زکوٰۃ کی شرائط  


 کرنسی شرعی نصاب کو پہنچ چکی ہو

 اس پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو

وہ قرض سے فارغ ہو

ضروریات زندگی سے زیادہ ہو

رہائشی مکان، پلاٹ اور فلیٹ وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں البتہ جو مکان یا فلیٹ ، پلاٹ وغیرہ کاروباری مقاصد کے لئے استعمال ہوں۔ ان کی مالیت پر زکوٰۃ ہے۔ اس میں قیمت خرید پر نہیں بلکہ موجودہ قیمت پر زکوٰۃ ہوگی۔

 ایجنسی ہولڈرز اور تاجر حضرات کی جو رقم بطور زر ضمانت کسی ادارے یا فرم کے پاس جمع ہیں اور قابل واپسی ہے اس رقم کی زکوٰۃ بھی اصل مالک کو ادا کرنا ہوگی

جو اشیاء نفع حاصل کرنے کے لئے خریدو فروخت کے لئے مہیا کی گئی ہوں وہ سامان تجارت کہلاتی ہیں مثلاً غلہ، کپڑا، جانور اور گھریلو سازو سامان وغیرہ۔ ان پر زکوٰۃ فرض ہے جبکہ آلات تجارت پر زکوٰۃ فرض نہیں

مشترک کاروبار میں حصہ دار اپنے اپنے حصے کی نسبت سے زکوٰۃ ادا کرے گا

ٹیکس دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی


  رمضان اور زکوٰۃ  


زکوٰۃ سال میں ایک ہی دفعہ ادا کرنا فرض ہے۔ اس کے لئے یکمشت بھی ادائیگی کی جاسکتی ہے اور تھوڑی تھوڑی رقم وقتاً فوقتاً بھی زکوٰۃ کی نیت سے ادا کی جاسکتی ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ تر لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس مقدس مہینے میں ہر نیک عمل کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔


 ادائیگی زکوٰۃ کے فوائد اور حکمتیں 


زکوٰۃ چونکہ مالی عبادت ہے اس لئے اس کا تعلق اقتصادیات سے بھی ہے۔ اس لئے اس کے ثمرات دو طرح سے ظاہر ہوتے ہیں معاشرتی بھی اور معاشی بھی۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو احکامات دیئے ہیں ان کی مکمل حکمتیں تو وہی جانتے ہیں مگر انسان کی ناقص عقل میں جو نکات آتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں 

 زکوٰۃ سے مال پاک ہوتا ہے۔

زکوٰۃ سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔

 نادار و مفلس لوگوں کی مدد ہوتی ہے۔

زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ مال کی محبت اور حرص جیسی روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور انسان بخیلی اور کنجوسی جیسے گناہوں سے بچا رہتا ہے۔ مال کی نعمت کی وجہ سے انسان کے دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔


 معاشرتی فوائد 

معاشرے میں دولت کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں خون کی۔ اگر یہ سارا خون دل (یعنی مالدار طبقے) میں جمع ہوجائے تو پورے اعضائے جسم (یعنی عوام) کو مفلوج کردینے کے ساتھ ساتھ خود دل کے لئے بھی مضر ثابت ہوگا۔ اگر ایک طرف مفلس طبقہ، ناداری کے مصائب سے دوچار ہوگا تو دوسری طرف صاحب ثروت طبقہ دولت کی فراوانی سے پیدا ہونے والی اخلاقی بیماریاں (مثلاً عیاشی، آرام کوشی اور فکر آخرت سے غفلت) کا شکار ہوجائے گا اور ایسی صورت میں ان دونوں طبقوں میں حسد اور حقارت کے علاوہ کوئی اور رشتہ باقی نہ رہے گا۔ یہ کشیدگی بڑھتے بڑھتے دشمنی میں بدل جائے گی اور معاشرے کا نظام خراب کرنے کا سبب بنے گی۔


اسی چیز کے پیش نظر جب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینے کی اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فوراً یہ آیات نازل فرمائیں

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا

(التوبه،9 :103)

آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں 



معاشی فوائد


سودی نظام معیشت میں محنت کے مقابلے میں سرمایہ کی افادیت کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے محنت کش طبقہ اور کارکن طبقہ مسلسل غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے اور سرمایہ دار طبقہ مختلف طریقوں سے یہ دولت ہتھیار کر امیر سے امیر تک ہوتا جاتا ہے اور اس طرح پورا معاشی نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔ اس نظام کے ذریعے دولت کی تقسیم امیر اور غریب دونوں طبقے میں یکساں ہوجاتی ہے جس سے غریب کی معاشی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ اسی مسئلے کو اللہ پاک نے سورۃ البقرہ میں یوں بیان فرمایا ہے


يَمْحَقُ اﷲُ الرِّبٰوا وَيُرْبِی الصَّدَقٰتِ

(البقره،2 :276)

اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)


ادائیگی زکوٰۃ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لئے صاحب مال اپنی دولت کسی نہ کسی نفع بخش کاروبار میں لگانے کی کوشش کرتا ہے جس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے چونکہ زکوٰۃ کی شرح صرف اڑھائی فیصد ہے۔ لہذا لوگ اس رقم کو دوسرے بھاری ٹیکسوں کے مقابلے میں زیادہ خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں


 Sight   Of   Right 

No comments:

Powered by Blogger.