unit 9 Tirmizi Hajj ka bayan


حج کا بیان

 


باب  مکہ کا حرم ہونا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَی مَکَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْکَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَکَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مَکَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِکَ فِيهَا دَمًا أَوْ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا لَهُ إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْذَنْ لَکَ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهِ سَاعَةً مِنْ النَّهَارِ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ کَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو قَالَ أَنَا أَعْلَمُ مِنْکَ بِذَلِکَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُرْوَی وَلَا فَارًّا بِخِزْيَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ الْعَدَوِيُّ وَهُوَ الْکَعْبِيُّ وَمَعْنَی قَوْلِهِ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ يَعْنِي الْجِنَايَةَ يَقُولُ مَنْ جَنَی جِنَايَةً أَوْ أَصَابَ دَمًا ثُمَّ لَجَأَ إِلَی الْحَرَمِ فَإِنَّهُ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ


ترجمہ

 ابوشریح عدوی (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے عمرو بن سعید  

 سے  جب وہ مکہ کی طرف  (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے)  لشکر روانہ کر رہے تھے کہا : اے امیر ! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ  ﷺ  نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : 

 مکہ  (میں جنگ و جدال کرنا)  اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ  ﷺ  کے قتال کو دلیل بنا کر  (قتال کا)  جواز نکالے تو اس سے کہو   اللہ نے اپنے رسول  ﷺ  کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں ، ابوشریح سے پوچھا گیا  اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا ؟ کہا  اس نے مجھ سے کہا  ابوشریح ! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں، حرم مکہ کسی نافرمان  (یعنی باغی)  کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوشریح (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 ابوشریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں

 اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 «ولا فارا بخربة» کی بجائے «ولا فارا بخزية» زائے منقوطہٰ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے

 اور «ولا فارا بخربة» میں «خربہ» کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی


  وضاحت 

 حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ٥ ھ یا ٦ ھ میں ہوئی اور بعض نے ٩ ھ یا ١٠ ھ کہا ہے ، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے

 عمرو بن سعید : یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر (رض) کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی


Translation

Sayyidina Abu Shurayh Adawi reported that he said to Amr ibn Sa’eed while he was despatching an army to Makkah, “Permit me, O Amir to narrate the hadith that Allah’s Messenger . delivered standing on the morning of the conquest (of Makkah). My two ears heard it and my heart remembers it and my two eyes observed it while he was speaking. He praised Allah and glorified Him. He said:  Allah has made Makkah sacred and men have not made it sacred. It is not lawful for a man who believes in Allah and the Last Day to shed blood here or to cut down its trees. So, if anyone regards fighting allowed because of the fighting of Allah’s Messenger L. here then tell them that Allah had permitted His Messenger and did not permit you. And, permission was given to me only for some time during the day and the sanctity is restored hereafter, today as its sanctity (unlawfulness) was last evening. So, let those who are present convey it to those who are not here.  Abu Shurayh was asked, “What did Amr ibn Sa’eed say to you?” (He said that Amr) said, “I know better than you about it, O Abu Shurayh. Indeed the Haram does not give refuge to the disobedient and the rebels or to those who flee after slaying someone or robbing someone.” 


 

باب حج اور عمرے کا ثواب


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا    حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور 

 کا بدلہ صرف جنت ہے 


    امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، اور ابن مسعود کی روایت سے غریب ہے

 اس باب میں عمر، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن حبشی، ام سلمہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں    


وضاحت 

 حج مبرور وہ حج ہے جس میں حاجی اللہ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرے اور بعض نے حج مبرور کے معنی حج مقبول کے کئے ہیں ، اس کی علامت یہ بتائی ہے کہ حج کے بعد وہ انسان اللہ کا عبادت گزار بن جائے جب کہ وہ اس سے پہلے غافل رہا ہو۔ اور ہر طرح کے شرک و کفر اور بدعت اور فسق و فجور کے کام سے تائب ہو کر اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارے


Translation

Sayyidina Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger ‘ said, ‘Let the Hajj and Umrah follow one another, for they remove poverty and sin as the bellows remove rust from iron, gold and silver. And there is no reward for an accepted Hajj but Paradise.”   


باب  حج اور عمرے کا ثواب


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَازِمٍ کُوفِيٌّ وَهُوَ الْأَشْجَعِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّة


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا 

  جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہیودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا  

 تو اس کے گزشتہ تمام گناہ  

 بخش دئیے جائیں گے 


    امام ترمذی کہتے ہیں  

ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 (غفر له ما تقدم من ذنبه کا لفظ شاذ ہے، اور اس کی جگہ رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمهصحیح اور متفق علیہ ہے، تراجع الالبانی ٣٤٢)    


وضاحت 

 «رفث» کے اصل معنی جماع کرنے کے ہیں ، یہاں مراد فحش گوئی اور بےہودگی کی باتیں کرنی اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے ، حج کے دوران چونکہ بیوی سے مجامعت جائز نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر اس سے گفتگو بھی ناپسندیدہ ہے ، اور «فسق» سے مراد اللہ کی نافرمانی ہے ، اور «جدال» سے مراد لوگوں سے لڑائی جھگڑا ہے ، دوران حج ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے

 اس سے مراد وہ صغیر  ( چھوٹے  )  گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ، رہے بڑے بڑے گناہ اور وہ چھوٹے گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں تو وہ توبہ حق کے ادا کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے

  

Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger said, ‘If anyone performs Hajj, not being immodest (with women) or sinful (and wickedfully transgressing), his past sins are forgiven.”   



باب  ترک حج کی مذمت


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَی رَبِيعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْبَاهِلِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَی بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا وَذَلِکَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي کِتَابِهِ وَلِلَّهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ وَهِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَجْهُولٌ وَالْحَارِثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ


ترجمہ

 علی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا 

  سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب  (قرآن)  میں فرمایا ہے   اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں     


امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے  

 ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں

 اس کی سند میں کلام ہے۔ ہلال بن عبداللہ مجہول راوی ہیں۔ اور حارث حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں

 

وضاحت 

 ضعیف ہے ، مگر علی (رض) کے اپنے قول سے صحیح ہے   اور ایسی بات کوئی صحابی اپنی رائے سے نہیں کہہ سکتا


Translation

Sayyidina Ali (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said, “If a person possesses enough provision of journey and a ridingbeast to take him to the House of Allah but does not perform Hajj then it makes no difference whether he dies a Jew or a Christian. and that is because Allah has said in His Book.”  And pilgrimage to the House is a duty of Mankind towards Allah, for him who is able to make his way to it. (3: 97)


باب  کتنے حج فرض ہے


حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي کُلِّ عَامٍ فَسَکَتَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي کُلِّ عَامٍ قَالَ لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَاسْمُ أَبِي البَخْتَرِيِّ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ فَيْرُوزَ


ترجمہ

 علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ  جب یہ حکم نازل ہوا کہ  اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں ، تو لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال  (فرض ہے)  ؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا ہر سال ؟ آپ نے فرمایا 

  نہیں ، اور  اگر میں ہاں کہہ دیتا تو  (ہر سال)  واجب ہوجاتا اور پھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا   اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تم پر شاق گزریں 


    امام ترمذی کہتے ہیں 

 علی (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

 ابوالبختری کا نام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں

 اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 (سند میں ابو البختری کی علی (رض) سے معاصرت وسماع نہیں ہے، اس لیے سند منقطع ہے)  

  

Translation

Sayyidina Ali narrated that when the verse. (3 : 97) was revealed, they said, O Messenger of Allah! ﷺ Is that every year?” So he observed silence. They said (again), “O Messenger of Allah, is that every year?” he said, “No! and if I had said Yes then that would have become fard (every year).” So Allah the Exalted, revealed: O you who believe! Question not about things which if they were disclosed to you, would annoy you. (5:101)


باب  نبی اکرم ﷺ نے کتنے حج کئے


حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ کَمْ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَجَّةً وَاحِدَةً وَاعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ عُمْرَةٌ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةُ الْحُدَيْبِيَةِ وَعُمْرَةٌ مَعَ حَجَّتِهِ وَعُمْرَةُ الجِعِرَّانَةِ إِذْ قَسَّمَ غَنِيمَةَ حُنَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ هُوَ أَبُو حَبِيبٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ جَلِيلٌ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ


ترجمہ

 قتادۃ کہتے ہیں کہ  میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا 

 نبی اکرم  ﷺ  نے کتنے حج کئے ؟ انہوں نے کہا  صرف ایک حج  

 اور چار عمرے کئے۔ ایک عمرہ ذی قعدہ میں، ایک عمرہ حدیبیہ  

 میں اور ایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ، اور ایک جعرانہ  

 کا عمرہ جب آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا


    امام ترمذی کہتے ہیں  

 یہ حدیث حسن صحیح ہے 

 

  وضاحت 

 یہ حجۃ الوداع ہے

 مکہ سے نو میل کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں صلح حدیبیہ منعقد ہوئی تھی

 مکہ سے نو میل کی دوری پر اور ایک قول کے مطابق چھ میل کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے

  

Translation

Qatadah (RA) said that he asked Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) how many times did the Prophet ﷺ perform Hajj, and he said, “Hajj once and Umrah four times. Umrah once in Zulqadah, Umrat ul-Hudaybiyah, an umrah with Hajj that he performed, and Umrat ul-Ji’ranah when he distributed the booty of Hunayn.   -----------------


باب  زرد راہ اور سواری کی ملکیت سے حج فرض ہوجاتا ہے


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً وَجَبَ عَلَيْهِ الْحَجُّ وَإِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْخُوزِيُّ الْمَکِّيُّ وَقَدْ تَکَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ


ترجمہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  ایک شخص نے نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آ کر پوچھا  اللہ کے رسول ! کیا چیز حج واجب کرتی ہے ؟ آپ نے فرمایا  سفر خرچ اور سواری 

  

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے

 ابراہیم ہی ابن یزید خوزی مکی ہیں اور ان کے حافظہ کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب سفر خرچ اور سواری کا مالک ہوجائے تو اس پر حج واجب ہوجاتا ہے

  ” ابراہیم بن یزید الخوزی “ متروک الحدیث راوی ہے)  

   

Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that a man came to the Prophet ﷺ and said, ‘O Messenger of Allah! ﷺ What makes Hajj obligatory?” He said, “Possession of provision of journey and a riding-beast.”


باب  نبی اکرم ﷺ نے کتنے حج کئے


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ ثَلَاثَ حِجَجٍ حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ وَحَجَّةً بَعْدَ مَا هَاجَرَ وَمَعَهَا عُمْرَةٌ فَسَاقَ ثَلَاثَةً وَسِتِّينَ بَدَنَةً وَجَائَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ بِبَقِيَّتِهَا فِيهَا جَمَلٌ لِأَبِي جَهْلٍ فِي أَنْفِهِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَنَحَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ کُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَطُبِخَتْ وَشَرِبَ مِنْ مَرَقِهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ وَرَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَوَی هَذَا الْحَدِيثَ فِي کُتُبِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَحْفُوظًا و قَالَ إِنَّمَا يُرْوَی عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلًا


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طور پر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ رسول اللہ  ﷺ  نے انہیں نحر کیا، پھر آپ نے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر اسے پکانے کا حکم دیا، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث سفیان کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کے طریق سے جانتے ہیں  

 میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث عبداللہ بن ابی زیاد کے واسطہ سے روایت کی ہے

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے سلسلے میں پوچھا تو وہ اسے بروایت «الثوري عن جعفر عن أبيه عن جابر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» نہیں جان سکے، میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا  یہ ثوری سے روایت کی جاتی ہے اور ثوری نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے مجاہد سے مرسلاً روایت کی ہے


  وضاحت 

 ابن ماجہ کے یہاں  عبدالرحمٰن بن داود  نے  زید بن حباب  کی متابعت کی ہے ، نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس (رض) کی روایت شاہد بھی موجود ہے


Translation

Sayyidina All narrated that when the verse. (3 : 97) was revealed, they said, O Messenger of Allah! ﷺ Is that every year?” So he observed silence. They said (again), “O Messenger of Allah, is that every year?” he said, “No! and if I had said Yes then that would have become fard (every year).” So Allah the Exalted, revealed: O you who believe! Question not about things which if they were disclosed to you, would annoy you. (5:101)


باب  نبی اکرم ﷺ نے کنتے عمرے کئے


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ وَعُمْرَةَ الثَّانِيَةِ مِنْ قَابِلٍ وَعُمْرَةَ الْقَضَائِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةَ الثَّالِثَةِ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ وَالرَّابِعَةِ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے چار عمرے کئے  حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ جعرانہ 

 کا، چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا

 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے

 اس باب میں انس، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


    وضاحت 

 جعرانہ طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے نبی اکرم  ﷺ  نے غزوہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا

 

 حديث نمبر 816   ابن عیینہ نے بسند عمرو بن دینار عن عکرمہ روایت کی کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے چار عمرے کئے، اس میں عکرمہ نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ performed umrah four times: the umratul Hudaybiyah, the second umrah (next year) in Dhulqa’dah to make up for the one of Hudaybiyah, the third umrah from Jiranah and the fourth which was with his Hajj.  


باب  نبی اکرم ﷺ نے کنتے عمرے کئے


قَالَ حَدَّثَنَا بِذَلِکَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ نَحْوَهُ


ترجمہ

 پھر ترمذی نے اپنی سند سے اسے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  … آگے اسی طرح کی حدیث ذکر کی


باب  نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا فَلَمَّا أَتَی الْبَيْدَائَ أَحْرَمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  جب نبی اکرم  ﷺ  نے حج کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔  (مدینہ میں)  لوگ اکٹھا ہوگئے، چناچہ جب آپ  (وہاں سے چل کر)  بیداء پہنچے تو احرام باندھا 

 

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن عمر، انس، مسور بن مخرمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


 وضاحت 

 آپ  ﷺ  نے درحقیقت ذو الحلیفہ کی مسجد میں نماز کے بعد احرام باندھا ، دیکھئیے اگلی حدیث


باب  نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ الْبَيْدَائُ الَّتِي يَکْذِبُونَ فِيهَا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ مِنْ عِنْدِ الشَّجَرَةِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں   بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ  ﷺ  پر جھوٹ باندھتے ہیں  (کہ وہاں سے احرام باندھا)   

 اللہ کی قسم ! رسول اللہ  ﷺ  نے مسجد  (ذی الحلیفہ)  کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا 


    امام ترمذی کہتے ہیں 

  یہ حدیث حسن صحیح ہے

   

 وضاحت 

 یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔  

 ان روایات میں بظاہر تعارض ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے ، پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے ، گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی


Translation

Sayyidinah lbn Umar said, ‘You lie (when you say) Allah’s Messenger assumed the ihram at Bayda. By Allah, he assumed it at the mosque (at Dhul Hulayfa) near the tree.”   [Bukhari 1541, Muslim 1186]


باب  نبی ﷺ نے کب احرام باند ھا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُحْرِمَ الرَّجُلُ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے نماز کے بعد احرام باندھا

   

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے

 ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو

 جس چیز کو اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی نماز کے بعد احرام باندھے


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said : The Prophet ﷺ recited the tahieel after offering the salah.    


باب  حج افراد


حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَائَةً عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ وَأَفْرَدَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے حج افراد  کیا۔    


امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے

 ابن عمر (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے حج افراد کیا، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی افراد کیا

 (   موطا امام  الطریق۔ (نبی اکرم ﷺ کا حج، حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے) 

  

  وضاحت 

 حج کی تین قسمیں ہیں  افراد ، قِران اور تمتع 

 حج افراد یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے 

 اور حج قران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے ، اور قربانی کا جانور ساتھ 

 جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے اور پھر آٹھویں تاریخ کو مکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے

 اب رہی یہ بات کہ آپ  ﷺ  نے کون سا حج کیا تھا ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قران کیا تھا ، تفصیل کے لیے حدیث رقم ٨٢٢ کا حاشیہ دیکھیں

 

Translation

Sayyidah Ayshah (RA) reported that Allahs Messenger ﷺ performed Hajj ifrad.  


باب  حج افراد


حَدَّثَنَا بِذَلِکَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی و قَالَ الثَّوْرِيُّ إِنْ أَفْرَدْتَ الْحَجَّ فَحَسَنٌ وَإِنْ قَرَنْتَ فَحَسَنٌ وَإِنْ تَمَتَّعْتَ فَحَسَنٌ و قَالَ الشَّافِعِيُّ مِثْلَهُ وَقَالَ أَحَبُّ إِلَيْنَا الْإِفْرَادُ ثُمَّ التَّمَتُّعُ ثُمَّ الْقِرَانُ


ترجمہ

- ثوری کہتے ہیں کہ حج افراد کرو تو بھی بہتر ہے، حج قران کرو تو بھی بہتر ہے اور حج تمتع کرو تو بھی بہتر ہے


 شافعی نے بھی اسی جیسی بات کہی

 کہا 

 ہمیں سب سے زیادہ افراد پسند ہے پھر تمتع اور قران


باب  حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں کرنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَبَّيْکَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَاخْتَارُوهُ مِنْ أَهْلِ الْکُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ


ترجمہ

 انس (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  ﷺ  کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا  

 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 انس کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں

 بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے


    وضاحت 

 اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا

 انس (رض) کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کرلیں تو آپ سے کہا گیا «قل عمرۃ فی حجۃ» اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی


Translation

Sayyiddina Anas (RA) said that he heard the Prophet ﷺ say, “Labbayk with umrah and hajj’, (meaning that he formed an intention for both).  


باب  تمتع کے بارے میں


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاکَ بْنَ قَيْسٍ وَهُمَا يَذْکُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَيْسٍ لَا يَصْنَعُ ذَلِکَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ فَقَالَ سَعْدٌ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي فَقَالَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَيْسٍ فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَی عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ  انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس (رض) سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کر رہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا 

 ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد (رض) نے کہا 

 بہت بری بات ہے جو تم نے کہی، میرے بھتیجے ! تو ضحاک بن قیس نے کہا 

 عمر بن خطاب (رض) نے اس سے منع کیا ہے، اس پر سعد (رض) نے کہا  رسول اللہ  ﷺ  نے اسے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیا ہے

    

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث صحیح ہے

 (سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)    

  

Translation

Muhammad ibn Abdullah ibn Harith ibn Nawfal heard Sad ibn Abu Waqqas (RA) and Dahhak ibn Qays discuss tamattu’ which includes Hajj and Umrah. Dahhaksaid, “Only he who is ignorant of Allah’s corn- mand will do it.” Sad said, “What a bad thing you have said, O nephew!” Dahhak said, “Indeed, Umar ibn al-Khattab had disallowed it.” Sad asserted, “Certainly. Allah’s Messenger ﷺ had performed it and those with him had performed it.” 


باب  تمتع کے بارے میں


حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ترجمہ

 ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ  سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا 

 یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا 

 آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے ؟ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا 

 ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ  ﷺ  نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ  ﷺ  کے حکم کی، تو اس نے کہا 

 رسول اللہ  ﷺ  کے حکم کی، تو انہوں نے کہا 

 رسول اللہ  ﷺ  نے ایسا کیا ہے  


 امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن عباس (رض) کی حدیث  ( ٨٢٢)  حسن ہے

 اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے

 اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہوگی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے

 متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے  (ابتدائی)  دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ (رض) بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے

 یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے

 اور بعض کہتے ہیں  ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے


  امام ترمذی کہتے ہیں  

 اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے


Translation

Ibn Shihab narrated that Saalim ibn Abdullah ﷺ told him that he heard a man of Syria ask Abdullah ibn Umar (RA) about tamattu’, the Hajj with umrah. Abdullah ibn Umar (RA) said to him. “It is lawful.” The Syrian said, “But, your father had disallowed it.” So, Abdullah ibn Umar (RA) said, “What would you say if my father disallowed it while Allah’s Messenger ﷺ performed it, will you obey my father’s command or the command of Allah’s Messenger ﷺ ?“ The man said, “Rather, the command of Allah’s Messenger ﷺ (will I obey).” So, he asserted, “Allah’s Messenger had done it indeed.”


باب  تمتع کے بارے میں


حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَی عَنْهَا مُعَاوِيَةُ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ وَجَابِرٍ وَسَعْدٍ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ وَالتَّمَتُّعُ أَنْ يَدْخُلَ الرَّجُلُ بِعُمْرَةٍ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ ثُمَّ يُقِيمَ حَتَّی يَحُجَّ فَهُوَ مُتَمَتِّعٌ وَعَلَيْهِ دَمٌ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيُسْتَحَبُّ لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ أَنْ يَصُومَ الْعَشْرَ وَيَکُونُ آخِرُهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فَإِنْ لَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ صَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ فِي قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ وَعَائِشَةُ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَصُومُ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْکُوفَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَهْلُ الْحَدِيثِ يَخْتَارُونَ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ فِي الْحَجِّ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے حج تمتع کیا 

 اور ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی 

 اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ (رض) ہیں  

   

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے۔  (سند میں لیث بن ابی سلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)  


  وضاحت 

 نبی اکرم  ﷺ  نے کون سا حج کیا تھا ؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں ، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور بعض سے حج تمتع اور بعض سے حج قران ، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے نبی اکرم  ﷺ  کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا ، اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا تھا اور بعد میں آپ قارن ہوگئے تھے ، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کا ارشاد ہے «لولا معي الهدى لأحللت»  اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا  ، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے ، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا ، کیونکہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہرحال حج قران میں بھی حاصل ہے ، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی روایت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبر دی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظر حج افراد تھا بعد میں آپ نے حج میں عمرہ کو بھی شامل کرلیا ، اور آپ سے کہا گیا : «قل عمرة في حجة» اس طرح آپ نے حج افراد کو حج قران سے بدل دیا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کون سی قسم افضل ہے ؟ تو احناف حج قرِان کو افضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کو پسند کیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے 

 امام احمد اور امام مالک نے حج تمتع کو افضل کہا ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اور نبی اکرم  ﷺ  نے ایک مرحلہ پر اس کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا تھا اور بعض نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے۔ آخری اور حق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے

 یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے 

 «قال عبدالله بن شقيق 

 کان عثمان ينهى عن المتعة وکان علي يأمربها» اور نیچے کی روایت سے عمر (رض) کا منع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے ، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی ، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہونے کا علم نہیں تھا ، پھر جب انہیں اس کا جواز معلوم ہوا تو انہوں نے بھی تمتع کیا

 روایات سے معاویہ (رض) سے پہلے عمر و عثمان (رض) سے ممانعت ثابت ہے ، ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی ، اور معاویہ (رض) کی نہی تحریمی ، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ (رض) کی اوّلیت تحریم کے اعتبار سے تھی

  

Translation

Sayyidina lbn Abbas said, “Allahs Messenger ﷺ performed tamattu. And Abu Bakr, Umar and Uthman (also performed it). And the first person to disallow it was Mu’awiyah.’ 


باب  تلبیہ ( لبیک) کہنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَهَلَّ فَانْطَلَقَ يُهِلُّ فَيَقُولُ لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ قَالَ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَقُولُ هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِهِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْکَ لَبَّيْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْکَ وَالْعَمَلُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ إِنْ شَائَ اللَّهُ وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَی تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنَّمَا قُلْنَا لَا بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللَّهِ فِيهَا لِمَا جَائَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِهِ مِنْ قِبَلِهِ لَبَّيْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْکَ وَالْعَمَلُ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  کا تلبیہ یہ تھا 

«لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك»

  حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں 


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ (رض)، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے

 شافعی کہتے ہیں 

 اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کرلے تو کوئی حرج نہیں ہوگا - ان شاء اللہ۔ لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ  ﷺ  کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں 

 ہم نے جو یہ کہا کہ  اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  ﷺ  سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں 

«لبيك والرغباء إليك والعمل»

  حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے  کا اضافہ کیا

  

 وضاحت 

 جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم  ﷺ  کے تلبیہ میں اپنی طرف سے «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم  ﷺ  سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے ، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے ، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے ، ابن عمر (رض) کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے


Translation

Qutaybah reported from Layth, from Nafi’, from lbn UmarL., that he recited the talbiyah in the same way. Sayyidina Ibn Umar (RA) .i said that this itself was the Prophet ﷺ ‘ talbiyah. Later he added these words on his own:  I am hare. I am here. Willingly obeying You. All good is in Your Hands. I am here My desires and deeds are for You.  


باب  تلبیہ اور قربانی کی فضیلت


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْکٍ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ قَالَ الْعَجُّ وَالثَّجُّ


ترجمہ

 ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  سے پوچھا گیا کہ کون سا حج افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا 

  جس میں کثرت سے تلبیہ پکارا گیا ہو اور خوب خون بہایا گیا ہو


 وضاحت 

 یعنی قربانی کی گئی ہو

  

Translation

Sayyidian Abu Bakr (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ was asked, “Which (kind of) Hajj is more excellent?” He said, “Al-Ajj wa ath-thajj meaning “The voiciferous which abounds with talbiyah and in which much blood flows.” 


باب  تلبیہ ( لبیک) کہنا


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتْ لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ


ترجمہ

 نافع کہتے ہیں 

  عبداللہ بن عمر (رض) نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے 

 «لبيك اللهم لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك»

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھے 

 یہ رسول اللہ  ﷺ  کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ  ﷺ  کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے 

 «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل» 

 حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے 


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that the talbiyah of the Prophet ﷺ was Here I am! O Allah, Here, I am! Here I am,no partner have You. Here I am. Surely all praise and blessing are for You and the dominion. No partner have You.  


باب  تلبیہ آواز سے پڑھنا


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالْإِهْلَالِ وَالتَّلْبِيَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ خَلَّادٍ عَنْ أَبِيهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَصِحُّ وَالصَّحِيحُ هُوَ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ خَلَّادُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادِ بْنِ سُوَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ


ترجمہ

 سائب بن خلاد (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا   میرے پاس جبرائیل نے آ کر مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز بلند کریں  

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 خلاد بن السائب کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے

 بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «خلاد بن السائب عن زيد بن خالد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہی ہے کہ خلاد بن سائب نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، اور یہ خلاد بن سائب بن خلاد بن سوید انصاری ہیں

 اس باب میں زید بن خالد، ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 


   وضاحت 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مردوں کے لیے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے «اصحابی» کی قید سے عورتیں خارج ہوگئیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز پست رکھیں۔ مگر وجوب کی دلیل بالصراحت کہیں نہیں ہے


Translation

Khallad ibn Saib reported from his father that Allah’s Messenger ﷺ said, “Jibrail came to me and instructed me to command my Companions that they should raise their voices on reciting the talbiyah.” (The narrator was not sure which word the Prophet ﷺ used : ihlal or talbiyah).   


باب  تلبیہ اور قربانی کی فضیلت


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي بَکْرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ وَقَدْ رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيهِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی أَبُو نُعَيْمٍ الطَّحَّانُ ضِرَارُ بْنُ صُرَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَکْرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْطَأَ فِيهِ ضِرَارٌ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ مَنْ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيهِ فَقَدْ أَخْطَأَ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ وَذَکَرْتُ لَهُ حَدِيثَ ضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ فَقَالَ هُوَ خَطَأٌ فَقُلْتُ قَدْ رَوَاهُ غَيْرُهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ أَيْضًا مِثْلَ رِوَايَتِهِ فَقَالَ لَا شَيْئَ إِنَّمَا رَوَوْهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ وَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَرَأَيْتُهُ يُضَعِّفُ ضِرَارَ بْنَ صُرَدٍ وَالْعَجُّ هُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ وَالثَّجُّ هُوَ نَحْرُ الْبُدْنِ


ترجمہ

 سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جو مسلمان بھی تلبیہ پکارتا ہے اس کے دائیں یا بائیں پائے جانے والے پتھر، درخت اور ڈھیلے سبھی تلبیہ پکارتے ہیں، یہاں تک کہ دونوں طرف کی زمین کے آخری سرے تک کی چیزیں سبھی تلبیہ پکارتی ہیں 

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوبکر (رض) کی حدیث غریب ہے، ہم اسے ابن ابی فدیک ہی کے طریق سے جانتے ہیں، انہوں نے ضحاک بن عثمان سے روایت کی ہے

 محمد بن منکدر نے عبدالرحمٰن بن یربوع سے اسے نہیں سنا ہے، البتہ محمد بن منکدر نے بسند «سعید بن عبدالرحمٰن بن یربوع عن أبیہ عبدالرحمٰن بن یربوع» اس حدیث کے علاوہ دوسری چیزیں روایت کی ہیں

 ابونعیم طحان ضرار بن صرد نے یہ حدیث بطریق : «ابن أبي فديك عن الضحاک بن عثمان عن محمد بن المنکدر عن سعيد بن عبدالرحمٰن بن يربوع عن أبيه عن أبي بکر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے اور اس میں ضرار سے غلطی ہوئی ہے

 احمد بن حنبل کہتے ہیں 

 جس نے اس حدیث میں یوں کہا 

 «عن محمد بن المنکدر عن ابن عبدالرحمٰن بن يربوع عن أبيه» اس نے غلطی کی ہے

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ضرار بن صرد کی حدیث ذکر کی جسے انہوں نے ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا 

 یہ غلط ہے، میں نے کہا 

 اسے دوسرے لوگوں نے بھی انہیں کی طرح ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا 

 یہ کچھ نہیں ہے لوگوں نے اسے ابن ابی فدیک سے روایت کیا ہے اور اس میں سعید بن عبدالرحمٰن کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، میں نے بخاری کو دیکھا کہ وہ ضرار بن صرد کی تضعیف کر رہے تھے

 اس باب میں ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 «عج» : تلبیہ میں آواز بلند کرنے کو اور «ثج»: اونٹنیاں نحر  (ذبح)  کرنے کو کہتے ہیں


باب  احرام باندھتے وقت غسل کرنا


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَعْقُوبَ الْمَدَنِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجَرَّدَ لِإِهْلَالِهِ وَاغْتَسَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الِاغْتِسَالَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ


ترجمہ

 زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لیے اپنے کپڑے اتارے اور غسل کیا


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے

 اہل علم کی ایک جماعت نے احرام باندھنے کے وقت غسل کرنے کو مستحب قرار دیا ہے

 یہی شافعی بھی کہتے ہیں


  وضاحت 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ احرام کے لیے غسل کرنا مستحب ہے ، اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے ، اور بعض نے اسے واجب کہا ہے

  

Translation

Kharijah ibn Zayd ibn Thabit reported from his father that he saw the Prophet ﷺ took off his garments and had a bath to assume his ihram.


باب  آفا قی کے لئے احرام باندھنے کی جگہ


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ مِنْ أَيْنَ نُهِلُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَأَهْلُ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ قَالَ وَيَقُولُونَ وَأَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  ایک شخص نے عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! ہم احرام کہاں سے باندھیں ؟ آپ نے فرمایا 

  اہل مدینہ ذی الحلیفہ  

 سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ   سے اور اہل نجد قرن سے  

 اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے 

  

  امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے 


 وضاحت 

 «مواقیت» میقات کی جمع ہے ، میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج کی نیت کرتا ہے

 مدینہ کے قریب ایک مقام ہے۔ جس کی دوری مدینہ سے مکہ کی طرف دس کیلو میٹر ہے اور یہ مکہ سے سب سے دوری پر واقع میقات ہے

 مکہ کے قریب ایک بستی ہے جسے اب رابغ کہتے ہیں

 اسے قرن المنازل بھی کہتے ہیں ، یہ مکہ سے سب سے قریب ترین میقات ہے۔ مکہ سے اس کی دوری ٩٥ کیلو میٹر ہے

 ایک معروف مقام کا نام ہے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that a man asked, ‘From where do we assume the ihram, O Messenger of Allah? ﷺ ” He said, from Dhul Hulayfah, the Syrians from Juhafah, the Najdis from Qarn, and the Yamanis from Yalamlam.”


باب  آفاقی کے لئے احرام باندھنے کی جگہ


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَشْرِقِ الْعَقِيقَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ أبُو جَعْفَرٍ مُحمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ حُسَيْنِ بنِ عَلِيِّ بنِ أبِي طَالبٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اہل مشرق کی میقات عقیق  

 مقرر کی


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے

 محمد بن علی ہی ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب ہیں 

 (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے، نیز محمد بن علی کا اپنے دادا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں ہے، اور حدیث میں وارد ” عقیق “ کا لفظ منکر ہے، صحیح لفظ ” ذات عرق “ ہے


وضاحت 

 یہ ایک معروف مقام ہے ، جو عراق کی میقات  ذات العرق  کے قریب ہے 


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ appointed Aqiq as the miqat for the people of the east.


باب  کہ محرم ( احرام والے) کے لئے کون سالباس پہننا جائز نہیں


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْحَرَمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَنْ يَکُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا مَا أَسْفَلَ مِنْ الْکَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنْ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  ایک شخص نے کھڑ ہو کر عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں ؟ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  نہ قمیص پہنو، نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ موزے، الا یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ خف  (چمڑے کے موزے)  پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے سے نیچے کرلے  

 اور نہ ایسا کوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو  

 اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے 


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 اہل علم اسی پر عمل ہے


وضاحت 

 جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے «خف»  چمڑے کے موزوں  کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے «خف» (موزہ  )  پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس (رض) کی روایت «من لم يجد نعلين فليلبس خفين» جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے ، لیکن جمہور نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا ، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر (رض) کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس (رض) کی روایت عرفات کی ہے ، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر (رض) کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے

 ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے ، اس بات پر اجماع ہے کہ حالت احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں ، قمیص اور سراویل  ( پاجانے  )  میں تمام سلے ہوئے کپڑے داخل ہیں ، اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے ، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں ، عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے البتہ وہ ورس اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے نہ پہننے

 محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے ، مگر اس حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا ، برصغیر ہندو پاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکا لیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکا سکتی ہیں اور چونکہ اس وقت حج میں ہر وقت اجنبی مردوں کا سامنا پڑتا ہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پر لٹکائے رکھ سکتی ہیں


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that a man stood up and asked, “O Messenger of Allah ﷺ I What garments do you order us to wear in the state of ihram?” So, Allah’s Messenger ﷺ said : “Do not wear the shirt, the trousers, hooded cloak, turban or the socks; but, if one of you does not have the sandals then he may wear socks, cutting them below the ankles. And, do not wear garments on which saffron or wursO is applied. And, a woman must not put a veil over her face nor wear hand gloves.”  


باب  اگر تہبند اور جوتے نہ ہوں تو پاجامہ اور موزے پہن لے


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْمُحْرِمُ إِذَا لَمْ يَجِدْ الْإِزَارَ فَلْيَلْبَسْ السَّرَاوِيلَ وَإِذَا لَمْ يَجِدْ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا 

 محرم کو جب تہبند میسر نہ ہو تو پاجامہ پہن لے اور جب جوتے میسر نہ ہوں تو «خف»  (چمڑے کے موزے)  پہن لے 

   

Translation

Sayyidina lbn Abbas (RA) said that he heard Allahs Messenger ﷺ say, “If one who assumes the ihram does not have the lower wrapper theu he may wear the trousers. And if he does not have sandals, he may wear socks.   


باب  جو شخص قمیص یا جبہ پہنے ہوئے احرام باند ھے


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ رَأَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيًّا قَدْ أَحْرَمَ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْزِعَهَا


ترجمہ

 یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ایک اعرابی کو دیکھا جو احرام کی حالت میں کرتا پہنے ہوئے تھا۔ تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے اتار دے 


وضاحت 

 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جعرانہ میں تھے 

 

Translation

Ata reported from Yala ibn Ummayyah that the Prophet ﷺ saw a villager who was in a state of ihram wearing a robe. He commanded him to remove it.  


باب  اگر تہبند اور جوتے نہ ہوں تو پاجامہ اور موزے پہن لے


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرٍو نَحْوَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا لَمْ يَجِدْ الْمُحْرِمُ الْإِزَارَ لَبِسَ السَّرَاوِيلَ وَإِذَا لَمْ يَجِدْ النَّعْلَيْنِ لَبِسَ الْخُفَّيْنِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُهُمْ عَلَی حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْکَعْبَيْنِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکٌ


ترجمہ

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب محرم تہ بند نہ پائے تو پاجامہ پہن لے، اور جب جوتے نہ پائے تو «خف»  (چرمی موزے)  پہن لے۔ یہ احمد کا قول ہے

 بعض نے ابن عمر (رض) کی حدیث کی بنیاد پر جسے انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے کہا ہے کہ جب وہ جوتے نہ پائے تو «خف»  (چرمی موزے)  پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے کے نیچے کرلے، سفیان ثوری، شافعی، اور مالک اسی کے قائل ہیں


   وضاحت 

 اسی حدیث سے امام احمد نے استدلال کرتے ہوئے چمڑے کے موزہ کو بغیر کاٹے پہننے کی اجازت دی ہے ، حنابلہ کا کہنا ہے کہ قطع  ( کاٹنا  )  فساد ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے فساد وہ ہے جس کی شرع میں ممانعت وارد ہو ، نہ کہ وہ جس کی شریعت نے اجازت دی ہو ، بعض نے موزے کو پاجامے پر قیاس کیا ہے ، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس درست نہیں ، رہا یہ مسئلہ کہ جوتا نہ ہونے کی صورت میں موزہ پہننے والے پر فدیہ ہے یا نہیں تو اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے ، ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ فدیہ نہیں ہے ، لیکن حنفیہ کہتے ہیں فدیہ واجب ہے ، ان کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر فدیہ واجب ہوتا تو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اسے ضرور بیان فرماتے کیونکہ «تأخير البيان عن وقت الحاجة» جائز نہیں۔  ( یعنی ضرورت کے کے وقت مسئلہ کی وضاحت ہوجانی چاہیئے ، وضاحت اور بیان ٹالا نہیں جاسکتا ہے  )


باب  محرم کا کن جانوروں کو مارنا جائز ہے


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسُ فَوَاسِقَ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْغُرَابُ وَالْحُدَيَّا وَالْکَلْبُ الْعَقُورُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

 

ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  پانچ موذی جانور ہیں جو حرم میں یا حالت احرام میں بھی مارے جاسکتے ہیں  

 چوہیا، بچھو، کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا   

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


    وضاحت 

 کاٹ کھانے والے کتے سے مراد وہ تمام درندے ہیں جو لوگوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کردیتے ہوں مثلاً شیر چیتا بھیڑیا وغیرہ


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “Five noxious creatures may be killed in the Haram. They are : the rat, the scorpion, the crow, the eagle and the biting dog.”


باب  محرم کا کن جانوروں کو مارنا جائز ہے


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ السَّبُعَ الْعَادِيَ وَالْکَلْبَ الْعَقُورَ وَالْفَأْرَةَ وَالْعَقْرَبَ وَالْحِدَأَةَ وَالْغُرَابَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا الْمُحْرِمُ يَقْتُلُ السَّبُعَ الْعَادِيَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ کُلُّ سَبُعٍ عَدَا عَلَی النَّاسِ أَوْ عَلَی دَوَابِّهِمْ فَلِلْمُحْرِمِ قَتْلُهُ


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  محرم سرکش درندے، کاٹ کھانے والے کتے، چوہا، بچھو، چیل اور کوے مار سکتا ہے 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے

 وہ کہتے ہیں 

 محرم ظلم ڈھانے والے درندوں کو مار سکتا ہے، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں 

 محرم ہر اس درندے کو جو لوگوں کو یا جانوروں کو ایذاء پہنچائے، مار سکتا ہے


Translation

Sayyidina Abu Saeed reported that the Prophet ﷺ said, A pilgrim who has assumed tbe ihram may kill seven : the wild beasts, the dog that bites, the rat, the scorpion, the eagle, and the crow  


باب  محرم کے پچھنے لگانا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ وَعَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ قَالُوا لَا يَحْلِقُ شَعْرًا و قَالَ مَالِکٌ لَا يَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ و قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَجِمَ الْمُحْرِمُ وَلَا يَنْزِعُ شَعَرًا


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے 

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں انس 

 عبداللہ بن بحینہ  

 اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بال نہیں منڈائے گا

 مالک کہتے ہیں کہ محرم پچھنا نہیں لگوا سکتا، الا یہ کہ ضروری ہو

 سفیان ثوری اور شافعی کہتے ہیں 

 محرم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بال نہیں اتار سکتا


 وضاحت 

 اس روایت سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے ، البتہ اگر بچھنا لگوانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ دینا ضروری ہوگا ، یہ فدیہ ایک بکری ذبح کرنا ہے ، یا تین دن کے روزے رکھنا ، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا

 انس (رض) کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں کی پشت پر تکلیف کی وجہ سے پچھنا لگوایا

 عبداللہ ابن بحینہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حالت احرام میں لحی جمل میں اپنے سرکے وسط میں پچھنا لگوایا


Translation

Sayyidina lbn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ had himself cupped when he was in the state of ihram.   


باب  جو شخص قمیص یا جبہ پہنے ہوئے احرام باند ھے


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ وَهَذَا أَصَحُّ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَکَذَا رَوَاهُ قَتَادَةُ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ترجمہ

 یعلیٰ (رض)  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ یہ زیادہ صحیح ہے اور حدیث میں ایک قصہ ہے 


    امام ترمذی کہتے ہیں 

 اسی طرح اسے قتادہ، حجاج بن ارطاۃ اور دوسرے کئی لوگوں نے عطا سے اور انہوں نے یعلیٰ بن امیہ سے روایت کی ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جسے عمرو بن دینار اور ابن جریج نے عطاء سے، اور عطاء نے صفوان بن یعلیٰ سے اور صفوان نے اپنے والد یعلیٰ سے اور یعلیٰ نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے


  وضاحت 

 اس قصہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ابوداؤد المناسک ٣١  


Translation

Ibn Abu Umar reported a hadith of the same purport from Sufyan ibn Amr ibn Dinar, from Ata, from Safwan ibn Ya’la from his father, from the Prophet


باب احرم کی حالت میں نکاح کرنا مکروہ ہے


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ أَرَادَ ابْنُ مَعْمَرٍ أَنْ يُنْکِحَ ابْنَهُ فَبَعَثَنِي إِلَی أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ بِمَکَّةَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّ أَخَاکَ يُرِيدُ أَنْ يُنْکِحَ ابْنَهُ فَأَحَبَّ أَنْ يُشْهِدَکَ ذَلِکَ قَالَ لَا أُرَاهُ إِلَّا أَعْرَابِيًّا جَافِيًا إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْکِحُ وَلَا يُنْکَحُ أَوْ کَمَا قَالَ ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ مِثْلَهُ يَرْفَعُهُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ وَمَيْمُونَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ عُمَرَ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمُحْرِمُ قَالُوا فَإِنْ نَکَحَ فَنِکَاحُهُ بَاطِلٌ


ترجمہ

 نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ  ابن معمر نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی چاہی، تو انہوں نے مجھے ابان بن عثمان کے پاس بھیجا، وہ مکہ میں امیر حج تھے۔ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا 

 آپ کے بھائی اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو 

ہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے - «أو كما قال» - پھر انہوں نے  (اپنے والد)  عثمان (رض) سے روایت کرتے ہوئے اسی کے مثل بیان کیا، وہ اسے مرفوع روایت کر رہے تھے

  

  امام ترمذی کہتے ہیں 

عثمان (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابورافع اور میمونہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 بعض صحابہ کرام جن میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب اور ابن عمر (رض) بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے، اور یہی بعض تابعین فقہاء کا بھی قول ہے اور مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ لوگ محرم کے لیے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر محرم نے نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہوگا


  وضاحت 

 شرعی ضابطہ یہی ہے کہ محرم حالت احرام میں نہ تو خود اپنا نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرا سکتا ہے

 

Translation

Nubayh ibn Wahb reported that Ibn Ma’mar decided to have his son married. So, he sent Nubayh to the amir of the pilgrimage Aban ibn Uthman (RA). He went to him and said, ‘Your brother intends to have his son married and that you should witness the solemnising.’ He said, ‘I find him not but illiterate. Neither does a pilgrim in the state of ihram marry nor have anyone married.’ (Or, as he said). Then he narrated from Uthman like that a marfu hadith.  


باب  احرم کی حالت میں نکاح کرنا مکروہ ہے


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ وَبَنَی بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ وَکُنْتُ أَنَا الرَّسُولَ فِيمَا بَيْنَهُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ رَبِيعَةَ وَرَوَی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ رَبِيعَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ رَوَاهُ مَالِکٌ مُرْسَلًا قَالَ وَرَوَاهُ أَيْضًا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ رَبِيعَةَ مُرْسَلًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَرُوِي عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَلَالٌ وَيَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ هُوَ ابْنُ أُخْتِ مَيْمُونَةَ


ترجمہ

 ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میمونہ سے نکاح کیا اور آپ حلال تھے پھر ان کے خلوت میں گئے تب بھی آپ حلال تھے، اور میں ہی آپ دونوں کے درمیان پیغام رساں تھا


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے

 اور ہم حماد بن زید کے علاوہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے مطر وراق کے واسطے سے ربیعہ سے مسنداً روایت کیا ہو

 اور مالک بن انس نے ربیعہ سے، اور ربیعہ نے سلیمان بن یسار سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔ اسے مالک نے مرسلا روایت کیا ہے، اور سلیمان بن ہلال نے بھی اسے ربیعہ سے مرسلا روایت کیا ہے

 یزید بن اصم ام المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وسلم) نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے یعنی محرم نہیں تھے۔ یزید بن اصم میمونہ کے بھانجے ہیں۔   

 (اس کا آخری ٹکڑا میں ” أنا الرسول بينهما “ میں دونوں کے درمیان قاصد تھا) ، ضعیف ہے کیونکہ اس سے قوی روایت میں ہے کہ ” عباس (رض) “ نے یہ شادی کرائی تھی، اس کے راوی ” مطرالوراق “ حافظے کے ضعیف ہیں، اس روایت کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کا پہلا ٹکڑا حدیث رقم : ٨٤٥ کے طریق سے صحیح ہے)    


Translation

Sayyidina Abu Rafi (RA) narrated that when Allah’s Messenger ﷺ married Sayyidah Maymunah’ (RA)’ he had not assumed the ihram and when he consumated the marriage, he had (still) not assumed the ihram. Abu Rafi (RA) said, ‘I was the one who carried the proposal between them.”   


باب   محرم کو نکاح کی اجازت


حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْکُوفَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ بھی کہتے ہیں

(یہ روایت سنداً صحیح ہے، لیکن ابن عباس (رض) سے اس واقعہ کے نقل کرنے میں وہم ہوگیا تھا، اس لیے یہ شاذ کے حکم میں 

ہے، اور صحیح یہ ہے کہ میمونہ (رض) کی شادی حلال ہونے کے بعد ہوئی جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے 

وأخرجہ کل من    


Translation

Sayyidina lbn Abbas (RA) said that the Prophet ﷺ married Maymunah (RA) while he was a muhrim.


باب  محرم کو نکاح کی اجازت


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا الشَّعْثَائِ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الشَّعْثَائِ اسْمُهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ وَاخْتَلَفُوا فِي تَزْوِيجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا فِي طَرِيقِ مَکَّةَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ تَزَوَّجَهَا حَلَالًا وَظَهَرَ أَمْرُ تَزْوِيجِهَا وَهُوَ مُحْرِمٌ ثُمَّ بَنَی بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ بِسَرِفَ فِي طَرِيقِ مَکَّةَ وَمَاتَتْ مَيْمُونَةُ بِسَرِفَ حَيْثُ بَنَی بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدُفِنَتْ بِسَرِفَ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میمونہ سے شادی کی تو آپ محرم تھے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے میمونہ سے شادی کرنے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مکہ کے راستے میں ان سے شادی کی تھی، بعض لوگوں نے کہا   آپ نے جب ان سے شادی کی تو آپ حلال تھے البتہ آپ کے ان سے شادی کرنے کی بات ظاہر ہوئی تو آپ محرم تھے، اور آپ نے مکہ کے راستے میں مقام سرف میں ان کے ساتھ خلوت میں گئے تو بھی آپ حلال تھے۔ میمونہ کا انتقال بھی سرف میں ہوا جہاں رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ان سے خلوت کی تھی اور وہ مقام سرف میں ہی دفن کی گئیں۔     (صحیح) (سندا صحیح ہے، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم)     


Translation

Qutaybah reported from Dawud ibn Abdur Rahman Attar, from Amr ibn Dinar, from Abu Shatha on the authority of Sayyidina Ibn Abbas (RA) that the Prophet ﷺ married Sayyidah Maymunah while he was in a sacred state.  


باب  محرم کو نکاح کی اجازت


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے  

 

 وضاحت

 سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ابن عباس کو اس سلسلہ میں وہم ہوا ہے کیونکہ ام المؤمنین میمونہ (رض) کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مجھ سے شادی کی تو ہم دونوں حلال تھے ، اسی طرح ان کے وکیل ابورافع کا بیان بھی جیسا کہ گزرا یہی ہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میمونہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے ، اس سلسلہ میں صاحب معاملہ کا بیان زیادہ معتبر ہوگا


Translation

Sayyidina Ayyub (RA) reported from Ikrimah who from Ibn Abbas (RA) that the Prophet ﷺ married Sayyidah Maymunah (RA) while he was a muhrim.


باب  محرم کو نکاح کی اجازت


حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ أَبَا فَزَارَةَ يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهُوَ حَلَالٌ وَبَنَی بِهَا حَلَالًا وَمَاتَتْ بِسَرِفَ وَدَفَنَّاهَا فِي الظُّلَّةِ الَّتِي بَنَی بِهَا فِيهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ مُرْسَلًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں 

  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ان سے شادی کی اور آپ حلال تھے اور ان سے خلوت کی تو بھی آپ حلال تھے۔ اور انہوں نے سرف ہی میں انتقال کیا، ہم نے انہیں اسی سایہ دار مقام میں دفن کیا جہاں آپ نے ان سے خلوت کی تھی


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے

 دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث یزید بن اصم سے مرسلاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے


Translation

Sayyidah Maymunah (RA) said that Allah’s Messenger ﷺ married her while he was not in a state of ihram. He cohabited with her also when he was not in the sacred state. She died (later) at Sarif and they buried her in the same place where he had cohabited with her. 


باب  محرم کو شکار کا گوشت کھانا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ الْمُطَّلِبِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَيْدُ الْبَرِّ لَکُمْ حَلَالٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَکُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَطَلْحَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ وَالْمُطَّلِبُ لَا نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا عَنْ جَابِرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ بَأْسًا إِذَا لَمْ يَصْطَدْهُ أَوْ لَمْ يُصْطَدْ مِنْ أَجْلِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ هَذَا أَحْسَنُ حَدِيثٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَقْيَسُ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خود نہ کیا ہو، نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔    


امام ترمذی کہتے ہیں 

 اس باب میں ابوقتادہ اور طلحہ (رض) سے بھی روایت ہے

 جابر کی حدیث مفسَّر ہے

 اور ہم مُطّلب کا جابر سے سماع نہیں جانتے،

 اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ محرم کے لیے شکار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جب اس نے خود اس کا شکار نہ کیا ہو، نہ ہی وہ اس کے لیے کیا گیا ہو

 شافعی کہتے ہیں 

 یہ اس باب میں مروی سب سے اچھی اور قیاس کے سب سے زیادہ موافق حدیث ہے، اور اسی پر عمل ہے۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے

 (سند میں عمروبن ابی عمرو ضعیف ہیں، لیکن اگلی روایت سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)      


Translation

Sayyidina Jabir (RA) reported that the Prophet ﷺ said, The flesh of the game is lawful for you while you have assumed the ihram provided you have not hunted it or had it hunted for you.”  


باب  محرم کو شکار کا گوشت کھانا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي حِمَارِ الْوَحْشِ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَلْ مَعَکُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  ابوقتادہ سے نیل گائے کے بارے میں ابونضر ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے البتہ زید بن اسلم کی اس حدیث میں اتنا زائد ہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے 

  

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے۔     


Translation

Qutaybah reported a hadith like the hadith of Abu an-Nadr about a wild animal from MaaliL from Zayd ibn Aslam, from Ata ibn Yasar, from Qatadah. But, it has these words too:  (The Prophet ﷺ said, Do you still have some of its flesh with you?’)  


باب  محرم کو شکار کا گوشت کھانا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ کَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا کَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَکَّةَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ فَرَأَی حِمَارًا وَحْشِيًّا فَاسْتَوَی عَلَی فَرَسِهِ فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ فَأَبَوْا فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ ثُمَّ شَدَّ عَلَی الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ فَأَکَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَی بَعْضُهُمْ فَأَدْرَکُوا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَکُمُوهَا اللَّهُ


ترجمہ

 ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ  وہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ جب مکہ کا کچھ راستہ طے کرچکے تو وہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے، اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا، تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دے دیں تو ان لوگوں نے اسے انہیں دینے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔ تو ان لوگوں نے اسے بھی اٹھا کردینے سے انکار کیا تو انہوں نے اسے خود ہی  (اتر کر)  اٹھا لیا اور شکار کا پیچھا کیا اور اسے مار ڈالا، تو بعض صحابہ کرام نے اس شکار میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا۔ پھر وہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے آ کر ملے اور اس بارے آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے پوچھا تو آپ نے فرمایا  

 یہ تو ایک ایسی غذا ہے جسے اللہ نے تمہیں کھلایا ہے  

 

   وضاحت 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خشکی کا شکار اگر کسی غیر احرام والے نے اپنے لیے کیا ہو اور محرم نے کسی طرح کا تعاون اس میں نہ کیا ہو تو اس میں اسے محرم کے لیے کھانا جائز ہے ، اور اگر کسی غیر محرم نے خشکی کا شکار محرم کے لیے کیا ہو یا محرم نے اس میں کسی طرح کا تعاون کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں


Translation

Sayyidina Abu Qatadah (RA) narrated that he was with the Prophet ﷺ till somewhere on the road to Makkah, he lagged behind with some of his companions who where muhrirn while he was not a muhrim. He observed a wild donkey: He jumped on his horse and asked his mates to give him a spear, but they declined. So he asked them for a whip, but they again dedined. So, he took (the weapon) himself and rushed towards the donkey and killed it. Some ot the sahahah (RA) of the Prophet ﷺ ate its flesh and some of them declined. They caught up with the Prophet ﷺ and asked him about it and he said, ‘That was only a meal br you that Allah fed you.   


باب  محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا مکروہ ہے


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ بِالْأَبْوَائِ أَوْ بِوَدَّانَ فَأَهْدَی لَهُ حِمَارًا وَحْشِيًّا فَرَدَّهُ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فِي وَجْهِهِ مِنْ الْکَرَاهِيَةِ فَقَالَ إِنَّهُ لَيْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَيْکَ وَلَکِنَّا حُرُمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَی هَذَا الْحَدِيثِ وَکَرِهُوا أَکْلَ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا وَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا إِنَّمَا رَدَّهُ عَلَيْهِ لَمَّا ظَنَّ أَنَّهُ صِيدَ مِنْ أَجْلِهِ وَتَرَکَهُ عَلَی التَّنَزُّهِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ وَقَالَ أَهْدَی لَهُ لَحْمَ حِمَارٍ وَحْشٍ وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  صعب بن جثامہ (رض) نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ابواء یا ودان میں ان کے پاس سے گزرے، تو انہوں نے آپ کو ایک نیل گائے ہدیہ کیا، تو آپ نے اسے لوٹا دیا۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، جب رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اسے دیکھا تو فرمایا 

  ہم تمہیں لوٹاتے نہیں لیکن ہم محرم ہیں 

   

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے اور انہوں نے محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے

 شافعی کہتے ہیں 

 ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے وہ گوشت صرف اس لیے لوٹا دیا کہ آپ کو گمان ہوا کہ وہ آپ ہی کی خاطر شکار کیا گیا ہے۔ سو آپ نے اسے تنزیہاً چھوڑ دیا

 زہری کے بعض تلامذہ نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے۔ اور اس میں «أهدى له حمارا وحشياً» کے بجائے «أهدى له لحم حمارٍ وحشٍ» ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے

 اس باب میں علی اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں

  

Translation

Ubaydullah ibn Abdullah reported that Sayyidina Ibn Abbas (RA) informed him from Sayyidina Sab ibn Jaththamah (RA) who said that Allah’s Messenger ﷺ met him at Ahwa or Waddan (between Makkah and Madinah). He presented him (the Prophet ﷺ a wild donkey hut he returned it to him. When Allah’s Messenger ﷺ observed on his face dislike (for that), he said, ‘It is not that I returned it to you (for any reason), hut I am in a sacred state.”   


باب  محرم کے لئے بجو کے شکار کا حکم


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرٍ الضَّبُعُ أَصَيْدٌ هِيَ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ آکُلُهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ أَقَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَرَوَی جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ أَصَحُّ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُحْرِمِ إِذَا أَصَابَ ضَبُعًا أَنَّ عَلَيْهِ الْجَزَائَ


ترجمہ

 ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ  میں نے جابر (رض) سے پوچھا 

 کیا لکڑ بگھا شکار میں داخل ہے ؟ انہوں نے کہا 

 ہاں،  (پھر)  میں نے پوچھا : کیا میں اسے کھا سکتا ہوں ـ؟ انہوں نے کہا 

 ہاں، میں نے کہا 

 کیا اسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہوسلم  نے فرمایا ہے ؟ انہوں نے کہا 

 ہاں

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کا بیان ہے کہ یہ حدیث جریر بن حزم نے بھی روایت کی ہے لیکن انہوں نے جابر سے اور جابر نے عمر (رض) سے روایت کی ہے، ابن جریج کی حدیث زیادہ صحیح ہے

 اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ محرم جب لگڑ بگھا کا شکار کرے یا اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے

 

Translation

Sayyidina Ibn Abu Ammar (RA) said that he asked Jabir jbn Abdullah (RA) about hunting the hyena.He said, “Yes (it is allowed).” He asked about eating it and he answered, “Yes (it is allowed).” He asked, “Did Allah’s Messenger ﷺ eat it?” Jabir r’said, “Yes!” 


باب  کہ محرم کے لئے سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ فَاسْتَقْبَلَنَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ فَجَعَلْنَا نَضْرِبُهُ بِسِيَاطِنَا وَعِصِيِّنَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلُوهُ فَإِنَّهُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْمُهَزِّمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبُو الْمُهَزِّمِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَقَدْ تَکَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلْمُحْرِمِ أَنْ يَصِيدَ الْجَرَادَ وَيَأْکُلَهُ وَرَأَی بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ صَدَقَةً إِذَا اصْطَادَهُ وَأَکَلَهُ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  ہم رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے نکلے تھے کہ ہمارے سامنے ٹڈی کا ایک دل آگیا، ہم انہیں اپنے کوڑوں اور لاٹھیوں سے مارنے لگے تو نبی اکرم   (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  اسے کھاؤ، کیونکہ یہ سمندر کا شکار ہے

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوالمھزم کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے

 ابوالمہزم کا نام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے ان میں کلام کیا ہے

 اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو ٹڈی کا شکار کرنے اور اسے کھانے کی رخصت دی ہے

 اور بعض کا خیال ہے کہ اگر وہ اس کا شکار کرے اور اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah said that they went out with Allah’s Messenger ﷺ to perform Hajj or Umrah. They encountered a swarm of locusts and they began to strike them with their sticks and whips. The Prophet ﷺ said, “Eat it, for it is the game of the sea.”  


باب  آنحضرت ﷺ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوئے


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَکَّةَ نَهَارًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مکہ میں دن کے وقت داخل ہوئے تھے

    

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے۔     کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” عبداللہ العمری “ ضعیف ہیں، دیکھئے صحیح ابی داود : ١٦٢٩، وسنن ابی داود : ١٨٦٥)    


وضاحت 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوا جائے مگر یہ قدرت اور امکان پر منحصر ہے

  

Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) said that the Prophet ﷺ entered makkah during day time. 


باب  مکہ داخل ہونے کے لئے غسل کرنا


حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الْبَلْخِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اغْتَسَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِدُخُولِهِ مَکَّةَ بِفَخٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ کَانَ يَغْتَسِلُ لِدُخُولِ مَکَّةَ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ يُسْتَحَبُّ الِاغْتِسَالُ لِدُخُولِ مَکَّةَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مکہ میں داخل ہونے کے لیے  (مقام)  فخ میں  

 غسل کیا


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غیر محفوظ ہے

 صحیح وہ روایت ہے جسے نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرتے تھے۔ اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے

عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں۔ احمد بن حنبل اور علی بن مدینی وغیرہما نے ان کی تضعیف کی ہے اور ہم اس حدیث کو صرف انہی کے طریق سے مرفوع جانتے ہیں

 (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم سخت ضعیف ہیں، لیکن مقام ” فخ “ کے ذکر کے بغیر مطلق دخول مکہ کے لیے غسل ابن عمر ہی سے بخاری ومسلم میں مروی ہے) 


  وضاحت 

 مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے

 

Translation

Sayyidjna lbn Umar said that before entering Makkah, the Prophet ﷺ had a bath at Fakh.


باب  نبی اکرم ﷺ مکہ میں بلندی کی طرف سے باہر نکلے


حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا جَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی مَکَّةَ دَخَلَ مِنْ أَعْلَاهَا وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  جب نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مکہ آتے تو بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور نشیب کی طرف سے نکلتے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے 

اس باب میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے


  وضاحت 

 بلندی سے مراد ثنیہ کداء ہے جو مکہ مکرمہ کی مقبرۃ المعلیٰ کی طرف ہے ، اور بلند ہے اور نشیب سے مراد ثنیۃ کدی ہے جو باب العمرۃ اور اب ملک فہد کی طرف نشیب میں ہے

  

Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said that when the Prophet ﷺ came to Makkah, he entered through its heights. When he departed, he went out through its lowlands.  


باب  بیت اللہ کے دیکھنے کے وقت ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي قَزَعَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنْ الْمُهَاجِرِ الْمَکِّيِّ قَالَ سُئِلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَيَرْفَعُ الرَّجُلُ يَدَيْهِ إِذَا رَأَی الْبَيْتَ فَقَالَ حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکُنَّا نَفْعَلُهُ قَالَ أَبُو عِيسَی رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي قَزَعَةَ وَأَبُو قَزَعَةَ اسْمُهُ سُوَيْدُ بْنُ حُجَيْرٍ


ترجمہ

 مہاجر مکی کہتے ہیں کہ  جابر بن عبداللہ سے پوچھا گیا 

 جب آدمی بیت اللہ کو دیکھے تو کیا اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ؟ انہوں نے کہا 

 ہم نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ حج کیا، تو کیا ہم ایسا کرتے تھے 

 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھانے کی حدیث ہم شعبہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں، شعبہ ابوقزعہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوقزعہ کا نام سوید بن حجیر ہے

      

   وضاحت 

 یہاں استفہام انکار کے لیے ہے ، ابوداؤد کی روایت میں «أفكنا نفعله» کے بجائے «فلم يكن يفعله» اور نسائی کی روایت میں «فلم نکن نفعله» ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس سے استدلال صحیح نہیں اس کے برعکس صحیح احادیث اور آثار سے بیت اللہ پر نظر پڑتے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے


Translation

Muhajir Makki said that Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) was asked if a man might raise his hands on seeing BaythAllah. He asked (in response), “We performed Hajj with Allah’s Messenger ﷺ , did we ever raise our hands?”


باب  حجر اسود سے رمل شروع کرنے اور اسی پر ختم کرنا


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَلَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَی الْحَجَرِ ثَلَاثًا وَمَشَی أَرْبَعًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالَ الشَّافِعِيُّ إِذَا تَرَکَ الرَّمَلَ عَمْدًا فَقَدْ أَسَائَ وَلَا شَيْئَ عَلَيْهِ وَإِذَا لَمْ يَرْمُلْ فِي الْأَشْوَاطِ الثَّلَاثَةِ لَمْ يَرْمُلْ فِيمَا بَقِيَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ عَلَی أَهْلِ مَکَّةَ رَمَلٌ وَلَا عَلَی مَنْ أَحْرَمَ مِنْهَا


ترجمہ

 جابر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل 

 کیا اور چار میں عام چل چلے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے

 شافعی کہتے ہیں 

 جب کوئی جان بوجھ کر رمل کرنا چھوڑ دے تو اس نے غلط کیا لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور جب اس نے ابتدائی تین پھیروں میں رمل نہ کیا ہو تو باقی میں نہیں کرے گا

 بعض اہل علم کہتے ہیں 

 اہل مکہ کے لیے رمل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر جس نے مکہ سے احرام باندھا ہو

  

  وضاحت 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمل حجر اسود سے حجر اسود تک پورے مطاف میں مشروع ہے 

 رہی ابن عباس کی روایت جس میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلنے کا ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے ، اس لیے کہ ابن عباس کی روایت عمرہ قضاء کے موقع کی ہے جو ٧ ھ میں فتح مکہ سے پہلے ہوا ہے اور جابر (رض) کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع کی ہے جو ١٠ ھ میں ہوا ہے


Translation

Sayyidina Jabir (RA) reported that the Prophet ﷺ began ramal from the Black stone back again to it after three rounds, and he walked the (remaining) four. 


باب  بیت اللہ کے دیکھنے کے وقت ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَکَّةَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ ثُمَّ مَضَی عَلَی يَمِينِهِ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَی أَرْبَعًا ثُمَّ أَتَی الْمَقَامَ فَقَالَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی فَصَلَّی رَکْعَتَيْنِ وَالْمَقَامُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ثُمَّ أَتَی الْحَجَرَ بَعْدَ الرَّکْعَتَيْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّفَا أَظُنُّهُ قَالَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  جب نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مکہ آئے تو آپ مسجد الحرام میں داخل ہوئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھر اپنے دائیں جانب چلے آپ نے تین چکر میں رمل کیا  

 اور چار چکر میں عام چال چلے۔ پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پاس آ کر فرمایا 

  مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ، چناچہ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا۔ پھر دو رکعت کے بعد حجر اسود کے پاس آ کر اس کا استلام کیا۔ پھر صفا کی طرف گئے۔ میرا خیال ہے کہ  (وہاں)  آپ نے یہ آیت پڑھی 

 «‏‏‏‏ (إن الصفا والمروة من شعائر الله»  صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں 


   امام ترمذی کہتے ہیں

جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے

 

وضاحت 

 رمل یعنی اکڑ کر مونڈھا ہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتا ہے ، یہ طواف کعبہ کے پہلے تین پھیروں میں سنت ہے ، نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقتور اور توانا ہونے کا مظاہرہ کرسکیں ، کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور کردیا ہے


Translation

Sayyidina Jabir (RA) reported that when the Prophet ﷺ came to Makkah, he entered the mosque, he kissed the Black stone. Then he went to its right and practised ramal three times and walked four times. Then he came to the station (of Ibrahim) and said: Take to yourselves Ibrahim’s station as a place for prayer. (2:125) .There he prayed two raka’at, placing the station between him and the House. Then he came to the stone, after the two raka’at, kissed it and went to Safa. The narrator said that he thought h, recited:  Surely the Safa and the Marwa are among the emblemce of Allah. (2:158)  


باب  حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی چیز کو بوسہ نہ دے


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ وَمَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ کُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمُعَاوِيَةُ لَا يَمُرُّ بِرُکْنٍ إِلَّا اسْتَلَمَهُ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَکُنْ يَسْتَلِمُ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ وَالرُّکْنَ الْيَمَانِيَ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لَيْسَ شَيْئٌ مِنْ الْبَيْتِ مَهْجُورًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَسْتَلِمَ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ وَالرُّکْنَ الْيَمَانِيَ


ترجمہ

 ابوالطفیل کہتے ہیں کہ  میں ابن عباس (رض) کے ساتھ تھا، معاویہ (رض) جس رکن کے بھی پاس سے گزرتے، اس کا استلام کرتے  

 تو ابن عباس نے ان سے کہا 

 نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہیں کیا، اس پر معاویہ (رض) نے کہا 

 بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑی جانے کے لائق نہیں  


    امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے

 اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہ کیا جائے


  وضاحت 

 خانہ کعبہ چار رکنوں پر مشتمل ہے ، پہلے رکن کو دو فضیلتیں حاصل ہیں ، ایک یہ کہ اس میں حجر اسود نصب ہے

 دوسرے یہ کہ قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور دوسرے رکن کو صرف دوسری فضیلت حاصل ہے یعنی وہ بھی قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور رکن شامی اور رکن عراقی کو ان دونوں فضیلتوں میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں ، یہ دونوں قواعد ابراہیمی پر قائم نہیں اس لیے پہلے کی تقبیل  ( بوسہ  )  ہے اور دوسرے کا صرف استلام  ( چھونا  )  ہے اور باقی دونوں کی نہ تقبیل ہے نہ استلام ، یہی جمہور کی رائے ہے ، اور بعض لوگ رکن یمانی کی تقبیل کو بھی مستحب کہتے ہیں ، جو ممنوع نہیں ہے

 معاویہ (رض) کے اس قول کا جواب امام شافعی نے یہ کہہ کردیا ہے کہ ان رکن شامی اور رکن عراقی دونوں کا استلام نہ کرنا انہیں چھوڑنا نہیں ہے حاجی ان کا طواف کر رہا ہے انہیں چھوڑ نہیں رہا ، بلکہ یہ فعلاً اور ترکاً دونوں اعتبار سے سنت کی اتباع ہے ، اگر ان دونوں کا استلام نہ کرنا انہیں چھوڑنا ہے تو ارکان کے درمیان جو جگہیں ہیں ان کا استلام نہ کرنا بھی انہیں چھوڑنا ہوا حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں 


Translation

Abu Tufayl reported that they were (performing tawaf) with Sayyidina Ibn Abbas (RA) and Mu’awiyah (RA)would never go by a corner without kissing it. So, Sayyidina Ibn Abbas (RA) said to him, “Surely the Prophet ﷺ never kissed (any corner) except the Hajr Aswad and Rukn Yamani.” Sayyidina Mu’awiyah (RA) said, “There is nothing in the House that may be forsaken.”  


باب  نبی اکرم ﷺ نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ ابْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بِالْبَيْتِ مُضْطَبِعًا وَعَلَيْهِ بُرْدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ جُبَيْرَةَ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ ابْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَی بْنُ أُمَيَّةَ


ترجمہ

 یعلیٰ بن امیہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اضطباع کی حالت میں 

 بیت اللہ کا طواف کیا، آپ کے جسم مبارک پر ایک چادر تھی


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 یہی ثوری کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے اور اسے ہم صرف کے انہی طریق سے جانتے ہیں

 عبدالحمید جبیرہ بن شیبہ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے ابن یعلیٰ سے اور ابن یعلیٰ نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یعلیٰ سے مراد یعلیٰ بن امیہ ہیں (رض)


وضاحت 

 چادر ایک سرے کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر سینے سے گزارتے ہوئے پیٹھ کی طرف کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈالنے کو اضطباع کہتے ہیں ، یہ طواف کے سبھی پھیروں میں سنت ہے ، بخلاف رمل کے ، وہ صرف شروع کے تین پھیروں  ( چکروں  )  میں ہے ، طواف کے علاوہ کسی جگہ اور کسی حالت میں اضطباع نہیں ہے بعض لوگ حج و عمرہ میں احرام ہی کے وقت سے اضطباع کرتے ہیں ، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے


Translation

Ibn Abu Ya’la reported from his father that the Prophet ﷺ circumambulated the Ka’bah observing idtiba; He had a green mantle on him.  


باب  سعی صفا سے شروع کرنا چاہیے


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَکَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَأَتَی الْمَقَامَ فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّی فَصَلَّی خَلْفَ الْمَقَامِ ثُمَّ أَتَی الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ قَالَ نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا وَقَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِالصَّفَا قَبْلَ الْمَرْوَةِ فَإِنْ بَدَأَ بِالْمَرْوَةِ قَبْلَ الصَّفَا لَمْ يُجْزِهِ وَبَدَأَ بِالصَّفَا وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّی رَجَعَ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ مَکَّةَ فَإِنْ ذَکَرَ وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْهَا رَجَعَ فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَإِنْ لَمْ يَذْکُرْ حَتَّی أَتَی بِلَادَهُ أَجْزَأَهُ وَعَلَيْهِ دَمٌ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ و قَالَ بَعْضُهُمْ إِنْ تَرَکَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّی رَجَعَ إِلَی بِلَادِهِ فَإِنَّهُ لَا يُجْزِيهِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ الطَّوَافُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَاجِبٌ لَا يَجُوزُ الْحَجُّ إِلَّا بِهِ


ترجمہ

 جابر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جس وقت مکہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور یہ آیت پڑھی 

 «‏‏‏‏ (واتخذوا من مقام إبراهيم مصلی»  مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ یعنی وہاں نماز پڑھو

   (البقرہ : ١٢٥) 

 پھر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی، پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اس کا استلام کیا پھر فرمایا 

  ہم  (سعی)  اسی سے شروع کریں گے جس سے اللہ نے شروع کیا ہے۔ چناچہ آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور یہ آیت پڑھی 

 «إن الصفا والمروة من شعائر الله»  صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں  

 (البقرہ : ١٥٨) 


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سعی مروہ کے بجائے صفا سے شروع کی جائے۔ اگر کسی نے صفا کے بجائے مروہ سے سعی شروع کردی تو یہ سعی کافی نہ ہوگی اور سعی پھر سے صفا سے شروع کرے گا

 اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی، یہاں تک کہ واپس گھر چلا گیا، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی نے صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی یہاں تک کہ وہ مکہ سے باہر نکل آیا پھر اسے یاد آیا، اور وہ مکہ کے قریب ہے تو واپس جا کر صفا و مروہ کی سعی کرے۔ اور اگر اسے یاد نہیں آیا یہاں تک کہ وہ اپنے ملک واپس آگیا تو اسے کافی ہوجائے گا لیکن اس پر دم لازم ہوگا، یہی سفیان ثوری کا قول ہے

اور بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے صفا و مروہ کے درمیان سعی چھوڑ دی یہاں تک کہ اپنے ملک واپس آگیا تو یہ اسے کافی نہ ہوگا۔ یہ شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی واجب ہے، اس کے بغیر حج درست نہیں


Translation

Sayyidina Jabir (RA) reported that when the Prophet ﷺ came to Makkah, he made the tawaf of the House seven rounds. He came to the Station and recited “Appoint for yourselves a place of prayer on the standing-place of Ibrahim. “(verse 2 : 125). Then prayed salah behind tbe Station, and came to the Hajr and kissed it. After that he said, “We begin with what Allah had begun.” So, he began Safa, reciting “Surely the Safa and the Marwa are among the signs appointed by Allah” (2:158, hadith 857).   


باب  حجر اسود کو بوسہ دینا


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ إِنِّي أُقَبِّلُکَ وَأَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُکَ لَمْ أُقَبِّلْکَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَکْرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ  میں نے عمر بن خطاب (رض) کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے 

 میں تیرا بوسہ لے رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا 


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عمر کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں


  وضاحت 

 اپنے اس قول سے عمر (رض) لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے


Translation

Aabis ibn Rabi’ah said that he saw Sayyidina Umar kiss the Stone and say. “I kiss you while I know well that you are a stone, and had I not seen Allah’s Messenger kiss you I would not have kissed you.” 


باب  حجر اسود کو بوسہ دینا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ فَقَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ فَقَالَ الرَّجُلُ أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْهِ أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ قَالَ وَهَذَا هُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَى أَبَا سَلَمَةَ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَلَمَهُ بِيَدِهِ وَقَبَّلَ يَدَهُ وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَقْبَلَهُ إِذَا حَاذَى بِهِ وَكَبَّرَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ  ایک شخص نے ابن عمر (رض) سے حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا 

 میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا 

 اچھا بتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہوجاؤں اور اگر میں بھیڑ میں پھنس جاؤں ؟ تو اس پر ابن عمر نے کہا 

 تم  (یہ اپنا)  اگر مگر یمن میں رکھو  

 میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ زبیر بن عربی وہی ہیں، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔ انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔ اور ان سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اور ائمہ نے روایت کی ہیں

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھو لے اور اپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر وہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تو اس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے، یہ شافعی کا قول ہے


   وضاحت 

مطلب یہ ہے کہ  اگر مگر  چھوڑ دو ، اس طرح کے سوالات سنت رسول کے شیدائیوں کو زیب نہیں دیتے ، یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے ، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے


باب  صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ کَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ قَالَ رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَمْشِي فِي السَّعْيِ فَقُلْتُ لَهُ أَتَمْشِي فِي السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ قَالَ لَئِنْ سَعَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَی وَلَئِنْ مَشَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَأَنَا شَيْخٌ کَبِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ


ترجمہ

 کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ  میں نے ابن عمر (رض) کو سعی میں عام چال چلتے دیکھا تو میں نے ان سے کہا 

کیا آپ صفا و مروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں ؟ انہوں نے کہا 

اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو دوڑتے بھی دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے، اور میں کافی بوڑھا ہوں


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عمر سے اسی طرح مروی ہے


Translation

Kathir ibn Jumhan said that he saw Sayyidina Ibn Umar (RA) walk during Sa’i. So he asked him, “Do you walk durin Sa’i betw Safa and Marwah?” So, he said, “If I run then I have seen Allah’s Messenger ﷺ also run. And if I walk then, indeed, I saw Allah’s Messenger walk. And I am an old man.” 


باب  صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا سَعَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيُرِيَ الْمُشْرِکِينَ قُوَّتَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَسْعَی بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَإِنْ لَمْ يَسْعَ وَمَشَی بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَأَوْهُ جَائِزًا


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھا سکیں


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں عائشہ، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے، اگر وہ سعی نہ کرے بلکہ صفا و مروہ کے درمیان عام چال چلے تو اسے جائز سمجھتے ہیں


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ made the rounds of the House and between Safa and Marwah so that the idolators might observe his strength.  


باب  سوری پر طواف کرنا


حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَافَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ فَإِذَا انْتَهَی إِلَی الرُّکْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي الطُّفَيْلِ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ کَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَطُوفَ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَاکِبًا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)   نے اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا جب  

 آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے  

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

اس باب میں جابر، ابوالطفیل اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 اہل علم کی ایک جماعت نے بیت اللہ کا طواف، اور صفا و مروہ کی سعی سوار ہو کر کرنے کو مکروہ کہا ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو، یہی شافعی کا بھی قول ہے


   وضاحت 

 سواری پر طواف آپ نے اس لیے کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ سے حج کے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگ آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے

 یہ اشارہ آپ اپنی چھڑی سے کرتے تھے پھر اسے چوم لیتے تھے جیسا کہ ابوالطفیل (رض) کی روایت میں ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said that the Prophet ﷺ made the tawaf on his riding beast. When he came to a corner (Hajr Aswad), he would make a gesture towards it.  


باب  طواف کی فضیلت کے بارے میں


حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَمَانٍ عَنْ شَرِيکٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ خَمْسِينَ مَرَّةً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ إِنَّمَا يُرْوَی هَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جس نے بیت اللہ کا طواف پچاس بار کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے اسی دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے 


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 اس باب میں انس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

ابن عباس (رض) کی حدیث غریب ہے

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا 

 یہ تو ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے روایت کیا جاتا ہے

   (سند میں سفیان بن وکیع یحییٰ بن یمان شریک القاضی اور ابواسحاق سبیعی سب میں کلام ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا اپنا قول ہے)


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Allah’s Messenger said, “If anyone made tawaf of the House fifty times then he will be (as) absolved of his sins, as on the day his mother had given him birth.”


باب  طواف کی فضیلت کے بارے میں


قَوْلُهُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ قَالَ کَانُوا يَعُدُّونَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَفْضَلَ مِنْ أَبِيهِ وَلِعَبْدِ اللَّهِ أَخٌ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَقَدْ رَوَی عَنْهُ أَيْضًا


ترجمہ

 ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ  لوگ عبداللہ بن سعید بن جبیر کو ان کے والد سے افضل شمار کرتے تھے۔ اور عبداللہ کے ایک بھائی ہیں جنہیں عبدالملک بن سعید بن جبیر کہتے ہیں۔ انہوں نے ان سے بھی روایت کی ہے  


    وضاحت 

 مؤلف نے یہ اثر پچھلی حدیث کے راوی  عبداللہ بن سعید بن جبیر  کی تعریف میں پیش کیا ہے


Translation

Ibn Abu Umar reported from Sufyan ibn Uyaynah, from Ayyub that the scholars consider Abdullah ibn Sa’eed ibn Jubayr more excellaent than his father. He also had a brother Abdul Maalik ibn Sa’eed ibn Jubayr who was also a narrator.


باب  عصر اور فجر کے بعد طواف کے دو ( نفل) پڑھنا


حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّی أَيَّةَ سَاعَةٍ شَائَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جُبَيْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهَ أَيْضًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ بِمَکَّةَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ وَالطَّوَافِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا و قَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا طَافَ بَعْدَ الْعَصْرِ لَمْ يُصَلِّ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَکَذَلِکَ إِنْ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ أَيْضًا لَمْ يُصَلِّ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّهُ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمْ يُصَلِّ وَخَرَجَ مِنْ مَکَّةَ حَتَّی نَزَلَ بِذِي طُوًی فَصَلَّی بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ


ترجمہ

 جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  اے بنی عبد مناف ! رات دن کے کسی بھی حصہ میں کسی کو اس گھر کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 جبیر مطعم (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 عبداللہ بن ابی نجیح نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن باباہ سے روایت کی ہے،  

 اس باب میں ابن عباس اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 مکہ میں عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں 

 عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے اور طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے  

 انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی حدیث  

 سے دلیل لی ہے۔ اور بعض کہتے ہیں 

 اگر کوئی عصر کے بعد طواف کرے تو سورج ڈوبنے تک نماز نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی فجر کے بعد طواف کرے تو سورج نکلنے تک نماز نہ پڑھے۔ ان کی دلیل عمر (رض) کی حدیث ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد طواف کیا اور نماز نہیں پڑھی پھر مکہ سے نکل گئے یہاں تک کہ وہ ذی طویٰ میں اترے تو سورج نکل جانے کے بعد نماز پڑھی۔ یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے

 

 وضاحت 

 اور یہی ارجح و اشبہ ہے

 جو اس باب میں مذکور ہے ، اس کا ماحصل یہ ہے کہ مکہ میں مکروہ اور ممنوع اوقات کا لحاظ نہیں ہے۔  ( خاص کر طواف کے بعد دو رکعتوں کے سلسلے میں  )  جب کہ عام جگہوں میں فجر و عصر کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے


Translation

Sayyidina Jubayr ibn Mut’im narrated that the Prophet ﷺ said, “O Children of Abd Manaf, do not disallow anyone who makes tawaf of this house to offer salah at whichever hour of night or day he likes.”   


باب  طواف کی دو رکعتوں میں کیا پڑھا جائے


أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَائَةً عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي رَکْعَتَيْ الطَّوَافِ بِسُورَتَيْ الْإِخْلَاصِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے طواف کی دو رکعت میں اخلاص کی دونوں سورتیں یعنی

 «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھیں  

    (جعفر صادق کے طریق سے صحیح مسلم میں مروی طویل حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ مولف کی اس سند میں عبدالعزیز بن عمران متروک الحدیث راوی ہے)    


وضاحت 

 «قل يا أيها الکافرون» کو سورة الاخلاص تغلیباً کہا گیا ہے۔  


Translation

Sayyidina Jabir ibn Abdullah reported that Allah’s Messenger ﷺ recited in the two rakaat of tawaf, the surah al-Kafirun and al-Ikhlas.


باب  طواف کی دو رکعتوں میں کیا پڑھا جائے


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ کَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يَقْرَأَ فِي رَکْعَتَيْ الطَّوَافِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ وَحَدِيثُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ


ترجمہ

 محمد  (محمد بن علی الباقر)  سے روایت ہے کہ  وہ طواف کی دونوں رکعتوں میں 

 «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 سفیان کی جعفر بن محمد عن أبیہ کی روایت عبدالعزیز بن عمران کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، 

 اور  (سفیان کی روایت کردہ)  جعفر بن محمد کی حدیث جسے وہ اپنے والد  (کے عمل سے)  سے روایت کرتے ہیں  (عبدالعزیز کی روایت کردہ)  جعفر بن محمد کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ اپنے والد سے اور وہ جابر سے اور وہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کرتے ہیں  

 عبدالعزیز بن عمران حدیث میں ضعیف ہیں


    وضاحت

 امام ترمذی کے اس قول میں نظر ہے کیونکہ عبدالعزیز بن عمران اس حدیث کو «عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہیں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں  ( برقم : ١٢١٨) «حاتم بن اسماعیل المدنی عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے

 

Translation

Hannad reported from Waki, from Sufyan, from Jafar ibn Muhammad who from his father that it is rnustahabb to recite surah al-Kafirun and al-Ikhlas in the two raka’at of salah.


باب  کعبہ میں نماز پڑھنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ بِلَالٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی فِي جَوْفِ الْکَعْبَةِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ يُصَلِّ وَلَکِنَّهُ کَبَّرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بِلَالٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّلَاةِ فِي الْکَعْبَةِ بَأْسًا و قَالَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ النَّافِلَةِ فِي الْکَعْبَةِ وَکَرِهَ أَنْ تُصَلَّی الْمَکْتُوبَةُ فِي الْکَعْبَةِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ أَنْ تُصَلَّی الْمَکْتُوبَةُ وَالتَّطَوُّعُ فِي الْکَعْبَةِ لِأَنَّ حُکْمَ النَّافِلَةِ وَالْمَکْتُوبَةِ فِي الطَّهَارَةِ وَالْقِبْلَةِ سَوَائٌ


ترجمہ

 بلال (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں 

 آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 بلال (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں اسامہ بن زید، فضل بن عباس، عثمان بن طلحہ اور شیبہ بن عثمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے

 مالک بن انس کہتے ہیں 

 کعبے میں نفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اور انہوں نے کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے

 شافعی کہتے ہیں 

 کعبہ کے اندر فرض اور نفل کوئی بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ نفل اور فرض کا حکم وضو اور قبلے کے بارے میں ایک ہی ہے 


  وضاحت 

 راجح بلال (رض) کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے ، رہی ابن عباس (رض) کی نفی ، تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید (رض) نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کرلیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہوگئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہوگئے ، نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  دوسرے گوشے میں تھے اور بلال (رض) آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے ، نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہوسکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی ، «واللہ اعلم»


Translation

Sayyidina Bilal (RA) said that the Prophet ﷺ offered salah inside the Ka’bah. But Sayyidina Ibn Abbas (RA) said that he never prayed but called the takbir.


باب ننگے ہو کر طواف کرنا حرام ہے


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ قَالَ سَأَلْتُ عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْئٍ بُعِثْتَ قَالَ بِأَرْبَعٍ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَلَا يَجْتَمِعُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَمَنْ کَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَعَهْدُهُ إِلَی مُدَّتِهِ وَمَنْ لَا مُدَّةَ لَهُ فَأَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ


ترجمہ

 زید بن اثیع کہتے ہیں کہ  میں نے علی (رض) سے پوچھا 

 آپ کو کن باتوں کا حکم دے کر بھیجا گیا ہے ؟  

 انہوں نے کہا 

 چار باتوں کا 

 جنت میں صرف وہی جان داخل ہوگی جو مسلمان ہو، بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے۔ مسلمان اور مشرک اس سال کے بعد جمع نہ ہوں، جس کسی کا نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے کوئی عہد ہو تو اس کا یہ عہد اس کی مدت تک کے لیے ہوگا۔ اور جس کی کوئی مدت نہ ہو تو اس کی مدت چار ماہ ہے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 علی (رض) کی حدیث حسن ہے، 

 اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے


   وضاحت 

 یہ اس سال کے حج کی بات ہے جب نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ابوبکر (رض) کو حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا ،  ( آٹھویں یا نویں سال ہجرت میں  )  اور پھر اللہ عزوجل کی طرف سے حرم مکی میں مشرکین و کفار کے داخلہ پر پابندی کا حکم نازل ہوجانے کی بنا پر آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے علی (رض) کو ابوبکر (رض) کے پاس مکہ میں یہ احکام دے کر روانہ فرمایا تھا ، راوی حدیث زید بن اثیع الہمدانی ان سے انہی احکام و اوامر کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں جو ان کو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی طرف سے دے کر بھیجا گیا تھا


Translation

Ibn Uthay said that he asked Sayyidina Ali , “With what were you sent (by the Prophet ﷺ )“ ?‘ He said, “With four things : No one but a Muslim will enter Paradise. Do not make tawaf of the House in the nude. The Muslims and the idolators will not come together (for Hajj) after this year. If there is a covenant between anyone and the Prophet ﷺ then that will be valid till its expriy but if no period is stipulated then it will operate for four months.’


باب  ننگے ہو کر طواف کرنا حرام ہے


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ نَحْوَهُ وَقَالَا زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ وَهَذَا أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَشُعْبَةُ وَهِمَ فِيهِ فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ


ترجمہ

 ہم سے ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے بیان کیا، یہ دونوں کہتے ہیں کہ  ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور سفیان نے ابواسحاق سبیعی سے اسی طرح کی حدیث روایت کی، البتہ ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے  (زید بن اثیع کے بجائے)  زید بن یثیع کہا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 شعبہ کو اس میں وہم ہوا ہے، انہوں نے 

 زید بن اثیل کہا ہے۔     


Translation

Ibn Abu Umar and Nasr ibn Ali reported the like of it from Sufyan, from Abu Ishaq and they name Zayd ibn Yathi’ said and this is (more) sahih.


باب  خانہ کعبہ میں داخل ہونا


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِي وَهُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ طَيِّبُ النَّفْسِ فَرَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ حَزِينٌ فَقُلْتُ لَهُ فَقَالَ إِنِّي دَخَلْتُ الْکَعْبَةَ وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ فَعَلْتُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَکُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  میرے پاس سے نکل کر گئے، آپ کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں اور طبیعت خوش، پھر میرے پاس لوٹ کر آئے، تو غمگین اور افسردہ تھے، میں نے آپ سے  (وجہ)  پوچھی، تو آپ نے فرمایا 

  میں کعبہ کے اندر گیا۔ اور میری خواہش ہوئی کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ میں ڈر رہا ہوں کہ اپنے بعد میں نے اپنی امت کو زحمت میں ڈال دیا 


  امام ترمذی کہتے ہیں

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


Translation

Say’dah Ayshah (RA) said that once the Prophet ﷺ departed from her with cool eyes and a happy disposition. When he returned to her he was grieved. She asked him and he said, “I entered the Ka’bah and I wished that I had not done that. I fear that I have put my ummah to inconvenience after me.”   


باب  حجر اسود رکن یمانی اور مقام ابر اہیم کی فضیلت


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنْ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  حجر اسود جنت سے اترا، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کردیا  


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں


 وضاحت 

 زیادہ طور پر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کیونکہ عقلاً و نقلاً اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے حجر اسود کی تعظیم شان میں مبالغہ اور گناہوں کی سنگینی بتانا مقصود ہے

  

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said, “The Black Stone was sent down from Paradise and it was more white than milk, but the sins of the children of Aadam turned it black.”


باب  خانہ کعبہ کو توڑ کر بنا نا


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ لَهُ حَدِّثْنِي بِمَا کَانَتْ تُفْضِي إِلَيْکَ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي عَائِشَةَ فَقَالَ حَدَّثَتْنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا لَوْلَا أَنَّ قَوْمَکِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ لَهَدَمْتُ الْکَعْبَةَ وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ قَالَ فَلَمَّا مَلَکَ ابْنُ الزُّبَيْرِ هَدَمَهَا وَجَعَلَ لَهَا بَابَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 اسود بن یزید سے روایت ہے کہ  عبداللہ بن زبیر (رض) نے ان سے کہا 

 تم مجھ سے وہ باتیں بیان کرو، جسے ام المؤمنین یعنی عائشہ (رض) تم سے رازدارانہ طور سے بیان کیا کرتی تھیں، انہوں نے کہا 

 مجھ سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ان سے فرمایا 

  اگر تمہاری قوم کے لوگ جاہلیت چھوڑ کر نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے، تو میں کعبہ کو گرا دیتا اور اس میں دو دروازے کردیتا ، چناچہ ابن زبیر (رض) جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے کعبہ گرا کر اس میں دو دروازے کردیئے

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے 


Translation

As wad ibn Yazid said that lbn Zubayr (RA) asked him to report to him that which the Mother of the Believers, Sayyidah Ayshah (RA) had disclosed to him. So he told him that she had said that Allah’s Messenger ﷺ said to her, “If your people had not been very recent (Muslims after) jahiliyah, I would have demolished the Ka’bah and made two doors into it.” So when Ibn Zubayr (RA) became governor of Makkah, he demolished it and made two doors for it. 


باب  حطیم میں نماز پڑھنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ عَنْ أُمِّهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ الْبَيْتَ فَأُصَلِّيَ فِيهِ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَأَدْخَلَنِي الْحِجْرَ فَقَالَ صَلِّي فِي الْحِجْرِ إِنْ أَرَدْتِ دُخُولَ الْبَيْتِ فَإِنَّمَا هُوَ قِطْعَةٌ مِنْ الْبَيْتِ وَلَکِنَّ قَوْمَکِ اسْتَقْصَرُوهُ حِينَ بَنَوْا الْکَعْبَةَ فَأَخْرَجُوهُ مِنْ الْبَيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ هُوَ عَلْقَمَةُ بْنُ بِلَالٍ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں 

  میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم  

 کے اندر کردیا اور فرمایا  اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کردیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کردیا

 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح 


   وضاحت 

 حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے ، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیئے ، اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہوگا


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) narrated that she longed to enter the Ka’bah and pray (salah) therein. So, Allah’s Messenger took her by her hand and admitted her into the hijr  (hatirn) and said to her, “Offer the salah, if you like to enter the House, for, it is a part of the House. Your people made it small when they built the Ka’bah and took this out of the House.”


باب  منٰی کی طرف جانا اور قیام کرنا


حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی بِمِنًی الظُّهْرَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ غَدَا إِلَی عَرَفَاتٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی قَالَ شُعْبَةُ لَمْ يَسْمَعْ الْحَکَمُ مِنْ مِقْسَمٍ إِلَّا خَمْسَةَ أَشْيَائَ وَعَدَّهَا وَلَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ فِيمَا عَدَّ شُعْبَةُ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے منیٰ میں ظہر اور فجر پڑھی  

 پھر آپ صبح ہی صبح  

 عرفات کے لیے روانہ ہوگئے


 امام ترمذی کہتے ہیں  

مقسم کی حدیث ابن عباس سے مروی ہے  

 شعبہ کا بیان ہے کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ چیزیں سنی ہیں، اور انہوں نے انہیں شمار کیا تو یہ حدیث شعبہ کی شمار کی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی،  

 اس باب میں عبداللہ بن زبیر اور انس سے بھی احادیث آئی ہے


 وضاحت 

 یعنی 

 ظہر سے لے کر فجر تک پڑھی۔ ظہر ، عصر جمع اور قصر کر کے ، پھر مغرب اور عشاء جمع اور قصر کر کے۔  

 یعنی نویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے فوراً بعد


Translation

Sayyidina Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ prayed with us the zuhr and fajr salah. Then he went to Arafat in the morning.


باب  حجر اسود رکن یمانی اور مقام ابر اہیم کی فضیلت


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ رَجَائٍ أَبِي يَحْيَی قَال سَمِعْتُ مُسَافِعًا الْحَاجِبَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الرُّکْنَ وَالْمَقَامَ يَاقُوتَتَانِ مِنْ يَاقُوتِ الْجَنَّةِ طَمَسَ اللَّهُ نُورَهُمَا وَلَوْ لَمْ يَطْمِسْ نُورَهُمَا لَأَضَائَتَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا يُرْوَی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا قَوْلُهُ وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ أَيْضًا وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا 

  حجر اسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے یاقوت میں سے دو یاقوت ہیں، اللہ نے ان کا نور ختم کردیا، اگر اللہ ان کا نور ختم نہ کرتا تو وہ مشرق و مغرب کے سارے مقام کو روشن کردیتے۔    


امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے  

 یہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے موقوفاً ان کا قول روایت کیا جاتا ہے

 اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے

 (صحیح) (سند میں رجاء بن صبیح ابو یحییٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے صحیح الترغیب رقم 

  

Translation

Qutaybah reported from Yazid ibn Zuray’ from Raja’ Abu Yahya who said that he heard Ibn Umar (RA) say that he heard Allah’s Messenger ﷺ say, “The rukn and te Maqam  (Station of Ibrahim) are two rubies from the rubies of Paradise. If Allah had not blotted out their light then they would have brightened that which is between the east and the west.” 


باب  منٰی کی طرف جانا اور قیام کرنا


حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًی الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ غَدَا إِلَی عَرَفَاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ قَدْ تَکَلَّمُوا فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  ہمیں رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے منیٰ  

 میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پڑھائی  

 پھر آپ صبح  

 ہی عرفات کے لیے روانہ ہوگئے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 اسماعیل بن مسلم پر ان کے حافظے کے تعلق سے لوگوں نے کلام کیا ہے۔     (سند میں اسماعیل بن مسلم کے اندر ائمہ کا کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)  


  وضاحت 

 منیٰ 

 مکہ اور مزدلفہ کے درمیان کئی وادیوں پر مشتمل ایک کھلے میدان کا نام ہے ، مشرقی سمت میں اس کی حد وہ نشیبی وادی ہے جو وادی محسّر سے اترتے وقت پڑتی ہے اور مغربی سمت میں جمرہ عقبہ ہے۔  

 یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ۔  

 یعنی سورج نکلنے کے بعد۔   

  

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said, “Allah’s Messenger ﷺ prayed with us at Mina the salah of zuhr and asr and maghrib and isha and fajr. Then he departed for Arafat in the early morning.”  


باب  عرفات میں ٹھہر نا اور دعا کرنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَيْبَانَ قَالَ أَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ وَنَحْنُ وُقُوفٌ بِالْمَوْقِفِ مَکَانًا يُبَاعِدُهُ عَمْرٌو فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْکُمْ يَقُولُ کُونُوا عَلَی مَشَاعِرِکُمْ فَإِنَّکُمْ عَلَی إِرْثٍ مِنْ إِرْثِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَابْنُ مِرْبَعٍ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ


ترجمہ

 یزید بن شیبان کہتے ہیں 

 ہمارے پاس یزید بن مربع انصاری (رض) آئے، ہم لوگ موقف  (عرفات)  میں ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جسے عمرو بن عبداللہ امام سے دور سمجھتے تھے  

 تو یزید بن مربع نے کہا 

 میں تمہاری طرف رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تم لوگ مشاعر  

 پر ٹھہرو کیونکہ تم ابراہیم کے وارث ہو

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یزید بن مربع انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اسے ہم صرف ابن عیینہ کے طریق سے جانتے ہیں، اور ابن عیینہ عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں،  

 ابن مربع کا نام یزید بن مربع انصاری ہے، ان کی صرف یہی ایک حدیث جانی جاتی ہے،  

 اس باب میں علی، عائشہ، جبیر بن مطعم، شرید بن سوید ثقفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں  


وضاحت 

 یہ جملہ مدرج ہے عمرو بن دینار کا تشریحی قول ہے

 مشاعر سے مراد مواضع نسک اور مواقف قدیمہ ہیں ، یعنی ان مقامات پر تم بھی وقوف کرو کیونکہ ان پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے دور سے بطور روایت چلا آ رہا ہے


Translation

Sayyidina Yazid ibn Shayban (RA) said that Ibn Mirba’ Ansari (RA) came to them while they were standing at the Mawqif (place of standing), a place distant from Amr (the imam). He (lbn Mirba) said, “I am the envoy of Allah’s Messenger ﷺ to you. Stand, all of you, at your places so that you keep to the legacy of Ibrahim ‘  


باب  منٰی میں پہلے والا قیام کا زیادہ حقدار ہے


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَکَ عَنْ أُمِّهِ مُسَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَبْنِي لَکَ بَيْتًا يُظِلُّکَ بِمِنًی قَالَ لَا مِنًی مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  ہم نے عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے لیے منی میں ایک گھر نہ بنادیں جو آپ کو سایہ دے۔ آپ نے فرمایا 

 نہیں  

 منیٰ میں اس کا حق ہے جو وہاں پہلے پہنچے 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


   وضاحت 

 کیونکہ منی کو کسی کے لیے خاص کرنا درست نہیں ، وہ رمی ، ذبح اور حلق وغیرہ عبادات کی سر زمین ہے ، اگر مکان بنانے کی اجازت دے دی جائے تو پورا میدان مکانات ہی سے بھر جائے گا اور عبادت کے لیے جگہ نہیں رہ جائے گی

  

Translation

Sayyidah Ayshah reported that they said, “O Messenger of Allah! ﷺ Shall we build for you a structure in Mina to give you shade?” He said, “No. He who comes to Mina first, it is his place.”  


باب  عرفات میں ٹھہر نا اور دعا کرنا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ کَانَ عَلَی دِينِهَا وَهُمْ الْحُمْسُ يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ يَقُولُونَ نَحْنُ قَطِينُ اللَّهِ وَکَانَ مَنْ سِوَاهُمْ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَمَعْنَی هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ کَانُوا لَا يَخْرُجُونَ مِنْ الْحَرَمِ وَعَرَفَةُ خَارِجٌ مِنْ الْحَرَمِ وَأَهْلُ مَکَّةَ کَانُوا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَيَقُولُونَ نَحْنُ قَطِينُ اللَّهِ يَعْنِي سُکَّانَ اللَّهِ وَمَنْ سِوَی أَهْلِ مَکَّةَ کَانُوا يَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَالْحُمْسُ هُمْ أَهْلُ الْحَرَمِ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں 

  قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ - اور یہ «حمس»  

 کہلاتے ہیں - مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے 

 ہم تو اللہ کے خادم ہیں۔  (عرفات نہیں جاتے) ، اور جوان کے علاوہ لوگ تھے وہ عرفہ میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے آیت کریمہ «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس»

  اور تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں   (البقرہ : ١٩٩)  نازل فرمائی


    امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اہل مکہ حرم سے باہر نہیں جاتے تھے اور عرفہ حرم سے باہر ہے۔ اہل مکہ مزدلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے 

 ہم اللہ کے آباد کئے ہوئے لوگ ہیں۔ اور اہل مکہ کے علاوہ لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے حکم نازل فرمایا 

 «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» 

 تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں  «حمس» سے مراد اہل حرم ہیں

  

 وضاحت 

 «حمس» کے معنی بہادر اور شجاع کے ہیں۔ مکہ والے اپنے آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کیا کرتے تھے


Translation

Sayyidah Ayshah narrated that the Quraysh and those who were on their religion, the Hums, stood at Muzdalifa. They used to say. We are servants of Allah. (so they did not go to Arafat). And those besides them would (go and) stand at Arafat. So Allah the Majestic and Glorious revealed:  Then hasten onward from the place wherefrom the people hasten onward. (2 : 199)


باب  منٰی میں قصر نماز پڑھنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًی آمَنَ مَا کَانَ النَّاسُ وَأَکْثَرَهُ رَکْعَتَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًی رَکْعَتَيْنِ وَمَعَ أَبِي بَکْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ رَکْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ بِمِنًی لِأَهْلِ مَکَّةَ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ لِأَهْلِ مَکَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًی إِلَّا مَنْ کَانَ بِمِنًی مُسَافِرًا وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَيَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُهُمْ لَا بَأْسَ لِأَهْلِ مَکَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًی وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ وَمَالِکٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ


ترجمہ

 حارثہ بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 حارثہ بن وہب کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اور ابن مسعود (رض) سے بھی مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان (رض) کے ساتھ ان کے ابتدائی دور خلافت میں دو رکعتیں پڑھیں، 

 اہل مکہ کے منیٰ میں نماز قصر کرنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے

 بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ میں نماز قصر کریں  

، بجز ایسے شخص کے جو منیٰ میں مسافر کی حیثیت سے ہو، یہ ابن جریج، سفیان ثوری، یحییٰ بن سعید قطان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے

 بعض کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے منیٰ میں نماز قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اوزاعی، مالک، سفیان بن عیینہ، اور عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے  


  وضاحت 

 ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے ، مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے ، اور جوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے

  

Translation

Sayyidina Harithahi bnWahb (RA) said, “I prayed with the Prophet ﷺ (RA) at Mina, all people being at peace, and they prayed two raka’at (qasr, or shortened salah). 


باب  تمام عرفات ٹھہر نے کی جگہ ہے


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَقَالَ هَذِهِ عَرَفَةُ وَهَذَا هُوَ الْمَوْقِفُ وَعَرَفَةُ کُلُّهَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَجَعَلَ يُشِيرُ بِيَدِهِ عَلَی هِينَتِهِ وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ وَيَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْکُمْ السَّکِينَةَ ثُمَّ أَتَی جَمْعًا فَصَلَّی بِهِمْ الصَّلَاتَيْنِ جَمِيعًا فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَی قُزَحَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ وَقَالَ هَذَا قُزَحُ وَهُوَ الْمَوْقِفُ وَجَمْعٌ کُلُّهَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حَتَّی انْتَهَی إِلَی وَادِي مُحَسِّرٍ فَقَرَعَ نَاقَتَهُ فَخَبَّتْ حَتَّی جَاوَزَ الْوَادِيَ فَوَقَفَ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ ثُمَّ أَتَی الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَی الْمَنْحَرَ فَقَالَ هَذَا الْمَنْحَرُ وَمِنًی کُلُّهَا مَنْحَرٌ وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ کَبِيرٌ قَدْ أَدْرَکَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ حُجِّي عَنْ أَبِيکِ قَالَ وَلَوَی عُنُقَ الْفَضْلِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّکَ قَالَ رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنْ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ قَالَ احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ قَالَ وَجَائَ آخَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ ثُمَّ أَتَی الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ ثُمَّ أَتَی زَمْزَمَ فَقَالَ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَکُمْ النَّاسُ عَنْهُ لَنَزَعْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الثَّوْرِيِّ مِثْلَ هَذَا وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ فِي وَقْتِ الظُّهْرِ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ فِي رَحْلِهِ وَلَمْ يَشْهَدْ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ إِنْ شَائَ جَمَعَ هُوَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِثْلَ مَا صَنَعَ الْإِمَامُ قَالَ وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ ابْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام


ترجمہ

 علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا 

  یہ عرفہ ہے، یہی وقوف  (ٹھہرنے)  کی جگہ ہے، عرفہ  (عرفات)  کا پورا ٹھہرنے کی جگہ ہے، پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تو وہاں سے لوٹے۔ اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا، اور آپ اپنی عام رفتار سے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہتے جاتے تھے 

  لوگو ! سکون و وقار کو لازم پکڑو ، پھر آپ مزدلفہ آئے اور لوگوں کو دونوں نمازیں  (مغرب اور عشاء قصر کر کے)  ایک ساتھ پڑھائیں، جب صبح ہوئی تو آپ قزح  

 آ کر ٹھہرے، اور فرمایا 

  یہ قزح ہے اور یہ بھی موقف ہے اور مزدلفہ پورا کا پورا موقف ہے ، پھر آپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر  

 پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پار کرلی، پھر آپ نے وقوف کیا۔ اور فضل بن عباس (رض) کو  (اونٹنی پر)  پیچھے بٹھایا، پھر آپ جمرہ آئے اور رمی کی، پھر منحر  (قربانی کی جگہ)  آئے اور فرمایا 

  یہ منحر ہے، اور منیٰ پورا کا پورا منحر  (قربانی کرنے کی جگہ)  ہے ، قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا، اس نے عرض کیا 

 میرے والد بوڑھے ہوچکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہوچکا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں تو کافی ہوگا ؟ آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کرلے ۔ علی (رض) کہتے ہیں 

 آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فضل کی گردن موڑ دی، اس پر آپ سے، عباس (رض) نے پوچھا 

 اللہ کے رسول ! آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی ؟ تو آپ نے فرمایا 

  میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تو میں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا   

، پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر کہا 

 اللہ کے رسول ! میں نے سر منڈانے سے پہلے طواف افاضہ کرلیا۔ آپ نے فرمایا 

  سر منڈوا لو یا بال کتروا لو کوئی حرج نہیں ہے ۔ پھر ایک دوسرے شخص نے آ کر کہا 

 اللہ کے رسول ! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی، آپ نے فرمایا 

  رمی کرلو کوئی حرج نہیں   

 پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا، پھر زمزم پر آئے، اور فرمایا 

  بنی عبدالمطلب ! اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی  (تمہارے ساتھ)  پانی کھینچتا ۔  (اور لوگوں کو پلاتے)


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ یعنی عبدالرحمٰن بن حارث بن عیاش کی سند سے، اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے،  

 اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے،  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کو ملا کر ایک ساتھ پڑھے،  

 اور بعض اہل علم کہتے ہیں 

 جب آدمی اپنے ڈیرے  (خیمے)  میں نماز پڑھے اور امام کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑھ لے، جیسا کہ امام نے کیا ہے

  

  وضاحت 

 مزدلفہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے

 منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیات ھا۔  

 یعنی 

 مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے ، شیطان ان کو بہکا نہ دے۔  

 حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چار کام کرنے پڑتے ہیں  

 جمرہ عقبیٰ کی رمی  

نحر ہدی  ( جانور ذبح کرنا  )   

 حلق یا قصر 

 طواف افاضہ ، ان چاروں میں ترتیب افضل ہے ، اور اگر کسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگا جب کہ بعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہوگا لیکن دم لازم آئے گا۔ مگر ان کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے

 


Translation

Sayyidina Ali ibn Abu Talib (RA) narrated : Allah’s Messenger ﷺ stood at Arafat. He said, ‘This is Arafat and it is the Mawqif (standing place), and all of it is the Mawqif.”  Then, he returned when the sun set and took Usamah ibn Zayd (RA)as his co-rider. And as was his wont, he began to gesture with his hand. And the people were on the right and left beating the track.° He turned towards them and said, “O People! You must be peaceful.’ Then they all came to Muzdalifah and he prayed with them the two prayers (of maghrib and isha) together. When it was dawn, he came to Quzah and stood there and said, “This is quzah and it is the mawqif. Rather, the whole of Muzdalifah is the mawqif.” Then, he moved forward till he came to the valley Muhassir where he struck his she-camel a whip so that it began to run till they were beyond the valley. He stopped and took Fadi ibn Abbas as his co-rider and came to the jamrah and hit it with pebbles (which is called rami). Then he came to the slaughtering place. He said, “This is the mazbah (slaughtering place) and all of Mina is place of slaughtering.  A young girl of the tribe Kath’am said, “My father is old. The obligation of Hajj is on him. May I perform Hajj on his behalf?” He said, “Perform Hajj on behalf of your father.” He then turned away Fadi’s neck from this girl. So, Abbas asked. “O Messenger of Allah! ﷺ Why did you turn the neck of the son of your uncle?” He said, “I saw a young man and a young woman and was apprehensive of the devil’s Mischief.” A man came shortly and said, “O Messenger of Allah! ﷺ I have performed the tawaf of if’adah before shaving my head.” He said, “Shave it now. There is no sin in that.”  Another man came and submitted, “O Messenger of Allah! ﷺ I have made the sacrifice before pelting the stones.” He said, “Make rami (pelt stones) now. There is no sin.”  Then he came to the House (of Allah), made the tawaf and came to the well of zamzam. He said, “O children of Abdul Muttalib! Were it not that people would overpower you (and draw water) I would have drawn for myself.”  


باب  عرفات سے واپسی


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ وَبِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ وَأَبُو نُعَيْمٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ وَزَادَ فِيهِ بِشْرٌ وَأَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ وَعَلَيْهِ السَّکِينَةُ وَأَمَرَهُمْ بِالسَّکِينَةِ وَزَادَ فِيهِ أَبُو نُعَيْمٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ وَقَالَ لَعَلِّي لَا أَرَاکُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  وادی محسر میں تیز چال چلے۔  (بشر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ)  آپ مزدلفہ سے لوٹے، آپ پرسکون یعنی عام رفتار سے چل رہے تھے، لوگوں کو بھی آپ نے سکون و اطمینان سے چلنے کا حکم دیا۔  (اور ابونعیم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ)  آپ نے انہیں ایسی کنکریوں سے رمی کرنے کا حکم دیا جو دو انگلیوں میں پکڑی جاسکیں، اور فرمایا 

  شاید میں اس سال کے بعد تمہیں نہ دیکھ سکوں 

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 جابر کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں اسامہ بن زید (رض) سے بھی روایت ہے


Translation

Sayyidina Jabir reported that the Prophet ﷺ hurried out of the valley Muhassir. Bishr (RA) added that when he returned from the assembly (Muzdalilfah), he was at peace and commanded them (the sahabah) to be at peace. Abu Nu’aym added that the Prophet ﷺ commanded them to cast such pebbles at the jamrah which they could hoid in their fingers. He also said, “Perhaps, I may not see you after this year.” 


باب  مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرنا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلَّی بِجَمْعٍ فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَقَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ هَذَا فِي هَذَا الْمَکَانِ


ترجمہ

 عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ  ابن عمر (رض) نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا 

 میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے   (ہر صلاة کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)


   وضاحت 

 اس کے برخلاف جابر (رض) کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے ، «واللہ اعلم»


Translation

Abdullah ibn Maalik said that Sayyidina Ibn Umar (RA) led the salah at Muzdalifah, combining two prayers with one iqamah. He said, “I had seen Allah’s Messenger ﷺ do like this at this place.”   


باب  امام کو مزدلفہ میں پا نے والے نے حج کو پا لیا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ عَطَائٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ فَسَأَلُوهُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَی الْحَجُّ عَرَفَةُ مَنْ جَائَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَکَ الْحَجَّ أَيَّامُ مِنًی ثَلَاثَةٌ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ قَالَ وَزَادَ يَحْيَی وَأَرْدَفَ رَجُلًا فَنَادَی


ترجمہ

 عبدالرحمٰن بن یعمر (رض) کہتے ہیں کہ  نجد کے کچھ لوگ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس آئے، اس وقت آپ عرفہ میں تھے۔ انہوں نے آپ سے حج کے متعلق پوچھا تو آپ نے منادی کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا 

 حج عرفات میں ٹھہرنا ہے  

 جو کوئی مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے عرفہ آ جائے، اس نے حج کو پا لیا  

 منی کے تین دن ہیں، جو جلدی کرے اور دو دن ہی میں چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو دیر کرے تیسرے دن جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔  (یحییٰ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ)  آپ نے ایک شخص کو پیچھے بٹھایا اور اس نے آواز لگائی


  وضاحت 

 یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہوجاتا ہے۔  

 یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے اور حج کے فوت ہوجانے سے مامون و بےخوف ہوگیا ، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہوگیا اور اسے اب کچھ اور نہیں کرنا ہے ، ابھی تو طواف افاضہ جو حج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہوسکتا ہے


Translation

Sayyidina Abdur Rahman ibn Yamur (RA) said that some people of Najd met Allahs Messenger ﷺ while he was at Arafat. They asked him (about Hajj), so he ordered an announcer to proclaim and he proclaimed that Hajj was (the standing) at Arafah. One who reaches Arafat before rise of dawn on the night of Muzdalifah has, indeed, performed Hajj. The days of Mina are three days, but Then whosoever hastens (his departure) after his stay of two days (at Mina) there is no sin on him and whosoever delays there is no sin on him. (2 203) Muhammad said that Yahya added, The Prophet ﷺ took a co-rider and got him to proclaim.  


باب  مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرنا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ يَحْيَی وَالصَّوَابُ حَدِيثُ سُفْيَانَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنُ عُمَرَ فِي رِوَايَةِ سُفْيَانَ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ وَحَدِيثُ سُفْيَانَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّهُ لَا تُصَلَّی صَلَاةُ الْمَغْرِبِ دُونَ جَمْعٍ فَإِذَا أَتَی جَمْعًا وَهُوَ الْمُزْدَلِفَةُ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ وَلَمْ يَتَطَوَّعْ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَذَهَبَ إِلَيْهِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ سُفْيَانُ وَإِنْ شَائَ صَلَّی الْمَغْرِبَ ثُمَّ تَعَشَّی وَوَضَعَ ثِيَابَهُ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ يُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَيُقِيمُ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ ثُمَّ يُقِيمُ وَيُصَلِّي الْعِشَائَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی إِسْرَائِيلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَخَالِدٍ ابْنَيْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَحَدِيثُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا رَوَاهُ سَلَمَةُ بْنُ کُهَيْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَأَمَّا أَبُو إِسْحَقَ فَرَوَاهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَخَالِدٍ ابْنَيْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  ابن عمر (رض) نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ محمد بن بشار نے  («حدثنا» کے بجائے)  «قال یحییٰ» کہا ہے۔ اور صحیح سفیان والی روایت ہے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عمر (رض) کی حدیث جسے سفیان نے روایت کی ہے اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور سفیان کی حدیث صحیح حسن ہے،  

 اسرائیل نے یہ حدیث ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی نے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور عبداللہ اور خالد نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سعید بن جبیر کی حدیث جسے انہوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، سلمہ بن کہیل نے اسے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے

 رہے ابواسحاق سبیعی تو انہوں نے اسے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور ان دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے،  

 اس باب میں علی، ابوایوب، عبداللہ بن سعید، جابر اور اسامہ بن زید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس لیے کہ مغرب مزدلفہ آنے سے پہلے نہیں پڑھی جائے گی، جب حجاج جمع  

 یعنی مزدلفہ جائیں تو دونوں نمازیں ایک اقامت سے اکٹھی پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھیں گے۔ یہی مسلک ہے جسے بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری کا بھی قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہے تو مغرب پڑھے پھر شام کا کھانا کھائے، اور اپنے کپڑے اتارے پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے،  

 اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرے۔ مغرب کے لیے اذان کہے اور تکبیر کہے اور مغرب پڑھے، پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے یہ شافعی کا قول ہے    وضاحت 

 جمع مزدلفہ کا نام ہے ، کہا جاتا ہے کہ آدم اور حوا جب جنت سے اتارے گئے تو اسی مقام پر آ کر دونوں اکٹھا ہوئے تھے اس لیے اس کا نام جمع پڑگیا


Translation

Muhammad ibn Bashshar reported like this in a marfu’ form from Yahya ibn Sa’eed from Isma’il ibn Abu Khalid, from Abu Ishaq, from Sa’eed ibn Jubyr from the Prophet ﷺ Muhammad ibn Bashshar said on the authority of Yahya ibn Saeed that the hadith of Sufyan is sahih.


باب  امام کو مزدلفہ میں پا نے والے نے حج کو پا لیا


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ عَطَائٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ و قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُ مَنْ لَمْ يَقِفْ بِعَرَفَاتٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ فَاتَهُ الْحَجُّ وَلَا يُجْزِئُ عَنْهُ إِنْ جَائَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ وَيَجْعَلُهَا عُمْرَةً وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ عَطَائٍ نَحْوَ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ قَالَ و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَکِيعًا أَنَّهُ ذَکَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ هَذَا الْحَدِيثُ أُمُّ الْمَنَاسِکِ


ترجمہ

- ابن ابی عمر نے بسند سفیان بن عیینہ عن سفیان الثوری عن بکیر بن عطاء عن عبدالرحمٰن بن یعمر عن النبی کریم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں 

 قال سفیان بن عیینہ، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے، 

 وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا کہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں ام المناسک کی حیثیت رکھتی ہے، 

 صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمٰن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ  جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا، اس کا حج فوت ہوگیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تو یہ اسے کافی نہیں ہوگا۔ اسے عمرہ بنا لے اور اگلے سال حج کرے ، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔  ابن ابی عمر نے بسند «سفيان الثوري عن بكير بن عطاء عن عبدالرحمٰن بن يعمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں 

 «قال سفيان بن عيينة» ، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے،  

 وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا کہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں  ام المناسک  کی حیثیت رکھتی ہے،  

 صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمٰن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ  جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا، اس کا حج فوت ہوگیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تو یہ اسے کافی نہیں ہوگا۔ اسے عمرہ بنا لے اور اگلے سال حج کرے ، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے

  

Translation

A had ith of same meaning is reported by Ibn Abu Umar from Sufyan ibn Uyaynah (RA) from Sufyan Thawrim from Bukayr ibn Ata, from Abdur Rahman ibn Yamur and he from the Prophet ﷺ .


باب  ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے جلدی روانہ کرنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَقَلٍ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَقَلٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَرَوَی شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُشَاشٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ وَهَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيهِ مُشَاشٌ وَزَادَ فِيهِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَی ابْنُ جُرَيْجٍ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَمُشَاشٌ بَصْرِيٌّ رَوَی عَنْهُ شُعْبَةُ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں 

  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مجھے مزدلفہ سے رات ہی میں اسباب  (کمزور عورتوں اور ان کے اسباب)  کے ساتھ روانہ کردیا


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 اس باب میں عائشہ (رض)، ام حبیبہ، اسماء بنت ابی بکر اور فضل بن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

   

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said, “The Prophet ﷺ sent me away from Muzdalifah while it was still night with the luggage.”  


باب  امام کو مزدلفہ میں پا نے والے نے حج کو پا لیا


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ وَإِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ وَزَکَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ الطَّائِيِّ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُزْدَلِفَةِ حِينَ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّئٍ أَکْلَلْتُ رَاحِلَتِي وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي وَاللَّهِ مَا تَرَکْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ شَهِدَ صَلَاتَنَا هَذِهِ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّی نَدْفَعَ وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ ذَلِکَ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّهُ وَقَضَی تَفَثَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ قَوْلُهُ تَفَثَهُ يَعْنِي نُسُکَهُ قَوْلُهُ مَا تَرَکْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ إِذَا کَانَ مِنْ رَمْلٍ يُقَالُ لَهُ حَبْلٌ وَإِذَا کَانَ مِنْ حِجَارَةٍ يُقَالُ لَهُ جَبَلٌ


ترجمہ

 عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام الطائی (رض) کہتے ہیں 

  میں رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس مزدلفہ آیا، جس وقت آپ نماز کے لیے نکلے تو میں نے آپ سے عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! میں قبیلہ طی کے دونوں پہاڑوں سے ہوتا ہوا آیا ہوں، میں نے اپنی سواری کو اور خود اپنے کو خوب تھکا دیا ہے، اللہ کی قسم ! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جہاں میں نے  (یہ سوچ کر کہ عرفات کا ٹیلہ ہے)  وقوف نہ کیا ہو تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جو بھی ہماری اس نماز میں حاضر رہا اور اس نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے روانہ ہوں اور وہ اس سے پہلے دن یا رات میں عرفہ میں وقوف کرچکا ہو  

 تو اس نے اپنا حج پورا کرلیا، اور اپنا میل کچیل ختم کرلیا   


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 «تَفَثَهُ» کے معنی «نسكه» کے ہیں یعنی مناسک حج کے ہیں۔ اور اس کے قول 

 «ما ترکت من حبل إلا وقفت عليه» 

کوئی ٹیلہ ایسا نہ تھا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو  کے سلسلے میں یہ ہے کہ جب ریت کا ٹیلہ ہو تو اسے حبل اور جب پتھر کا ہو تو اسے جبل کہتے ہیں

 

  وضاحت 

 اس سے معلوم ہوا کہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت نو ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے ان دونوں وقتوں کے بیچ اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج ادا ہوجائے گا۔  

 یعنی حالت احرام میں پراگندہ ہو کر رہنے کی مدت اس نے پوری کرلی اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کرسکتا ہے

  

Translation

Sayyidina Urwah ibn Mudarris ibn Aws ibn Harithah ibn al-Umm at-Ta’i said that he met Allahs Messenger at Muzdalifah while he was coming out for salah. He submitted, O Messenger of Allah, I have come from Mount Tai. I have tired my riding beast (she-camel) and wearied myself. By Allah, I have not let any mountain go where I have not stood. Is my Hajj valid?” So Allah’s Messenger ﷺ said, ‘He who offered this prayer with us and stays with us till we are here and he has observed the standing at Arafat before this during (any portion of) day or night, has indeed performed Hajj and done his duty.”


باب  ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے جلدی روانہ کرنا


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ وَقَالَ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يَتَقَدَّمَ الضَّعَفَةُ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ بِلَيْلٍ يَصِيرُونَ إِلَی مِنًی و قَالَ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ لَا يَرْمُونَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يَرْمُوا بِلَيْلٍ وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ لَا يَرْمُونَ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اپنے گھر والوں میں سے کمزوروں  (یعنی عورتوں اور بچوں)  کو پہلے ہی روانہ کردیا، اور آپ نے  (ان سے)  فرمایا 

  جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا  


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 ابن عباس (رض) کی حدیث «بعثني رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ثقل» صحیح حدیث ہے، یہ ان سے کئی سندوں سے مروی ہے، شعبہ نے یہ حدیث مشاش سے اور مشاش نے عطاء سے اور عطا نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اپنے گھر والوں میں سے کمزور لوگوں کو پہلے ہی رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ کردیا تھا، یہ حدیث غلط ہے۔ مشاش نے اس میں غلطی کی ہے، انہوں نے اس میں  فضل بن عباس  کا اضافہ کردیا ہے۔ ابن جریج اور دیگر لوگوں نے یہ حدیث عطاء سے اور عطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس میں فضل بن عباس کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے،  

 مشاش بصرہ کے رہنے والے ہیں اور ان سے شعبہ نے روایت کی ہے،  

 اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کمزور لوگ مزدلفہ سے رات ہی کو منیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں

 اکثر اہل علم نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی حدیث کے مطابق ہی کہا ہے کہ لوگ جب تک سورج طلوع نہ ہو رمی نہ کریں،  

 اور بعض اہل علم نے رات ہی کو رمی کرلینے کی رخصت دی ہے۔ اور عمل نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی حدیث پر ہے کہ وہ رمی نہ کریں جب تک کہ سورج نہ نکل جائے، یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے


  وضاحت 

 اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ بھیج دینا جائز ہے تاکہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہوجائیں لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں ، ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے 

 اے میرے بچو جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ سورج نہ نکل جائے ، یہی قول راجح ہے

 

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated that the Prophet ﷺ sent ahead the weak people of his household and told them that they should not pelt the pebbles on the jamrah before the sun rise. 



حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًی وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِکَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَا يَرْمِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلَّا بَعْدَ الزَّوَالِ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  دسویں ذی الحجہ کو  (ٹھنڈی)  چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے


 وضاحت 

 اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر  ( دسویں ذوالحجہ ، قربانی والے دن  )  کے علاوہ دوسرے ، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے ، یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاؤس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے ، اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے ، عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے ، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے ، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہو رہی کا قول قابل اعتماد ہے


Translation

Sayyidina Jabir (RA) reported that the Prophet ﷺ cast pebbles at the time of duha (chaast) on the day of sacrifice (tenth Dul Hajjah). Thereafter, he cast them after zawal (declination of the sun).  


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًی وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِکَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ 


باب  مزدلفہ طلوع آفتاب سے پہلے نکلنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا کَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَنْتَظِرُونَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ يُفِيضُونَ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)   (مزدلفہ سے)  سورج نکلنے سے پہلے لوٹے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں عمر (رض) سے بھی روایت ہے،  

 جاہلیت کے زمانے میں لوگ انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا پھر لوٹتے تھے

  (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” حکم “ نے ” مقسم “ سے صرف پانچ احادیث سنی ہیں، اور یہ حدیث شاید ان میں سے نہیں ہے ؟ ) 

  

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Prophet ﷺ returned (from Muzdalifah) before sunrise.  


باب  مزدلفہ طلوع آفتاب سے پہلے نکلنا


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ يُحَدِّثُ يَقُولُ کُنَّا وُقُوفًا بِجَمْعٍ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ الْمُشْرِکِينَ کَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَکَانُوا يَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ فَأَفَاضَ عُمَرُ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ  ہم لوگ مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، عمر بن خطاب (رض) نے کہا 

 مشرکین جب تک کہ سورج نکل نہیں آتا نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے 

 ثبیر ! تو روشن ہوجا  (تب ہم لوٹیں گے) ، تو رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ان کی مخالفت کی، چناچہ عمر (رض) سورج نکلنے سے پہلے لوٹے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


Translation

Abu Ishaq narrated that he heard Amr ibn Maymum say: We were at Muzdalifah when Umar ibn Khattab (RA) said, “The idolators did not depart from Muzdalifah till the sun had risen. They used to say. “Let Thabir shine (before going). But, Allah’s Messenger miS’ j_1_ differentiated from them.” So, Umar went onward before sunrise.  


باب  زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مارنا


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارَ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  رمی جمار اس وقت کرتے جب سورج ڈھل جاتا 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے (صحیح) (سابقہ حدیث نمبر ٨٩٤ سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، حکم نے مقسم سے صرف پانچ احادیث ہی سنی ہیں، اور یہ شاید ان میں سے نہیں)


    وضاحت 

 یعنی یوم النحر کے علاوہ باقی دنوں میں

  

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said that Allah’s Messenger used to cast the pebbles after the sun had passed the meridian.   


باب  چھوٹی چھوٹی کنکریاں مارنا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارَ بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ عَنْ أُمِّهِ وَهِيَ أُمُّ جُنْدُبٍ الْأَزْدِيَّةُ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ تَکُونَ الْجِمَارُ الَّتِي يُرْمَی بِهَا مِثْلَ حَصَی الْخَذْفِ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں 

  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو دیکھا کہ آپ ایسی کنکریوں سے رمی جمار کر رہے تھے جو انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے درمیان پکڑی جاسکتی تھیں  


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے 

 اس باب میں سلیمان بن عمرو بن احوص  (جو اپنی ماں ام جندب ازدیہ سے روایت کرتے ہیں) ، ابن عباس، فضل بن عباس، عبدالرحمٰن بن عثمان تمیمی اور عبدالرحمٰن بن معاذ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اور اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ کنکریاں جن سے رمی کی جاتی ہے ایسی ہوں جو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑی جاسکیں

 

 وضاحت 

 یہ کنکریاں «باقلاّ» کے دانے کے برابر ہوتی تھیں


Translation

Sayyidina Jabir (RA) said, “I saw Allah’s Messenger ﷺ throw pebbles at the jamrat like the ones in a sling (that is, small pebbles). 


باب  سوار ہو کر کنکریاں مارنا


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَی الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ رَاکِبًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَقُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَأُمِّ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَاخْتَارَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَمْشِيَ إِلَی الْجِمَارِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ کَانَ يَمْشِي إِلَی الْجِمَارِ وَوَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا أَنَّهُ رَکِبَ فِي بَعْضِ الْأَيَّامِ لِيُقْتَدَی بِهِ فِي فِعْلِهِ وَکِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُسْتَعْمَلٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ کی رمی سواری پر کی


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے  

 اس باب میں جابر، قدامہ بن عبداللہ، اور سلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں  (رضی اللہ عنہم)  سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے 

 بعض نے یہ پسند کیا ہے کہ وہ جمرات تک پیدل چل کر جائیں،  

 ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے کہ آپ جمرات تک پیدل چل کر جاتے،  

 ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی کبھار سواری پر رمی اس لیے کی تاکہ آپ کے اس فعل کی بھی لوگ پیروی کریں۔ اور دونوں ہی حدیثوں پر اہل علم کا عمل ہے

 (سابقہ جابر کی حدیث نمبر ٨٨٦ سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) 


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ cast pebbles at the jamrat while riding (a beast).  


باب  سوار ہو کر کنکریاں مارنا


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا رَمَی الْجِمَارَ مَشَی إِلَيْهَا ذَاهِبًا وَرَاجِعًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ و قَالَ بَعْضُهُمْ يَرْکَبُ يَوْمَ النَّحْرِ وَيَمْشِي فِي الْأَيَّامِ الَّتِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَکَأَنَّ مَنْ قَالَ هَذَا إِنَّمَا أَرَادَ اتِّبَاعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِعْلِهِ لِأَنَّهُ إِنَّمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَکِبَ يَوْمَ النَّحْرِ حَيْثُ ذَهَبَ يَرْمِي الْجِمَارُ وَلَا يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ إِلَّا جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جب رمی جمار کرتے، تو جمرات تک پیدل آتے جاتے تھے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 بعض لوگوں نے اسے عبیداللہ  (العمری)  سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،  

 اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے  

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوسکتا ہے، اور دسویں کے بعد باقی دنوں میں پیدل جائے گا۔ گویا جس نے یہ کہا ہے اس کے پیش نظر صرف نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے اس فعل کی اتباع ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوئے جب آپ رمی جمار کرنے گئے۔ اور دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ ہی کی رمی کرے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that the Prophet ﷺ walked to the jamrat and back when he cast pebbles at them.


باب  جاب کنکریاں کیسے ماری جائیں


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ أَبِي صَخْرَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ لَمَّا أَتَی عَبْدُ اللَّهِ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ اسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَجَعَلَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ عَلَی حَاجِبِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ رَمَی بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاةٍ ثُمَّ قَالَ وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مِنْ هَاهُنَا رَمَی الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ


ترجمہ

 عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ  جب عبداللہ  (عبداللہ بن مسعود)  جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہو کر اپنے داہنے ابرو کے مقابل رمی شروع کی۔ پھر سات کنکریوں سے رمی کی۔ ہر کنکری پر وہ  اللہ اکبر  کہتے تھے، پھر انہوں نے کہا 

 اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس ذات نے بھی یہیں سے رمی کی جس پر سورة البقرہ نازل کی گئی ہے

   

Translation

Abdur Rahman ibn Yazid said that when Abdullah (RA) came to jamrat uI-Aqabahh in the middle of the valley, he faced the Ka’bah and began to cast pebbles at the jamrah to his right. He cast seven pebbles, calling out the takbir at each throw. He then said, “By Allah beside Whom is no one (worthy of worship), from here, he, on whom surah al-Baqarah was revealed, cast pebbles.” 


باب  جاب کنکریاں کیسے ماری جائیں


حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَا حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ رَمْيُ الْجِمَارِ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جمرات کی رمی اور صفا و مروہ کی سعی اللہ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے

  

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

Translation

Sayyidah Ayshah (RA) narrated that the Prophet ﷺ said, “The rami of the jimar and the Sa’i between Safa and Marwah are imposed only to maintain remembrance of Allah. 


باب  جاب کنکریاں کیسے ماری جائیں


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ يَرْمِيَ الرَّجُلُ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاةٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِنْ لَمْ يُمْکِنْهُ أَنْ يَرْمِيَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي رَمَی مِنْ حَيْثُ قَدَرَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَکُنْ فِي بَطْنِ الْوَادِي


ترجمہ

 امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے 

 اس باب میں فضل بن عباس، ابن عباس، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ آدمی بطن وادی میں کھڑے ہو کر سات کنکریوں سے رمی کرے اور ہر کنکری پر  اللہ اکبر  کہے،  

 اور بعض اہل علم نے اجازت دی ہے کہ اگر بطن وادی سے رمی کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی جگہ سے کرے جہاں سے وہ اس پر قادر ہو گو وہ بطن وادی میں نہ ہو


باب  رمی کے وقت لوگوں کو دھکیلنے کی کراہت


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارُ عَلَی نَاقَةٍ لَيْسَ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ وَلَا إِلَيْکَ إِلَيْکَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَهُوَ حَدِيثُ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ


ترجمہ

 قدامہ بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو دیکھا آپ ایک اونٹنی پر جمرات کی رمی کر رہے تھے، نہ لوگوں کو دھکیلنے اور ہانکنے کی آواز تھی اور نہ ہٹو ہٹو کی  


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 قدامہ بن عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے  

 یہ حدیث اسی طریق سے جانی جاتی ہے، یہ ایمن بن نابل کی حدیث ہے۔ اور ایمن اہل حدیث  (محدثین)  کے نزدیک ثقہ ہیں،  

 اس باب میں عبداللہ بن حنظلہ (رض) سے بھی روایت ہے 

  

  وضاحت 

 جیسا کہ آج کل کسی بڑے افسر و حاکم کے آنے پر کیا جاتا ہے۔ اور ایسے مواقع پر دوسروں کو دھکیلنا اور دھکے نہیں دینا چاہیئے

  

Translation

Sayyidina Qudamah ibn Abdullah said that he saw the Prophet ﷺ cast pebbles at the jimar while riding a she-camel. There was no striking, pushing, or “away, away!’ 


باب  اونٹ اور گائے میں شراکت


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ الْجَزُورَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْجَزُورَ عَنْ عَشَرَةٍ وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ وَجْهٍ وَاحِدٍ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  حدیبیہ کے سال ہم نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ گائے اور اونٹ کو سات سات آدمیوں کی جانب سے نحر  (ذبح)  کیا


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 

 اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ اونٹ سات لوگوں کی طرف سے اور گائے سات لوگوں کی طرف سے ہوگی۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی اور احمد کا قول ہے  

 ابن عباس (رض) نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کرتے ہیں کہ گائے سات لوگوں کی طرف سے اور اونٹ دس لوگوں کی طرف سے کافی ہوگا 

 یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ ابن عباس کی حدیث کو ہم صرف ایک ہی طریق سے جانتے ہیں  (ملاحظہ ہو آنے والی حدیث : ٩٠٥) 

 

  وضاحت 

 جابر (رض) کی یہ حدیث حج و عمرہ کے «ھدی» کے بارے میں ہے ، جس کے اندر ابن عباس (رض) کی اگلی حدیث قربانی کے بارے میں ہے  ( اور اس کی تائید صحیحین میں مروی رافع بن خدیج کی حدیث سے بھی ہوتی ہے ، اس میں ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مال غنیمت میں ایک اونٹ کے بدلے دس بکریاں تقسیم کیں ، یعنی 

 ایک اونٹ برابر دس بکریوں کے ہے  )  شوکانی نے ان دونوں حدیثوں میں یہی تطبیق دی ہے


Translation

Sayyidina Jabir (RA) said that in the year of Hudaybiyah, we, with Allah’s Messenger ﷺ sacrificed a cow associating seven people and a camel also seven people in association.  


باب  اونٹ اور گائے میں شراکت


حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ عِلْبَائَ بْنِ أَحْمَرَ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحَی فَاشْتَرَکْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْجَزُورِ عَشَرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَهُوَ حَدِيثُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  ہم ایک سفر میں نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کا دن آگیا، چناچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حسین بن واقد کی حدیث  (روایت)  ہے


Translation

Husayn ibn Hurayth and more than one reported from Fadi ibn Musa, from Husayn ibn Waqid, from Ilya ibn Ahmar, from Ikramah from Sayyidina Ibn Abbas (RA) . He reported:  We were with the Prophet ﷺ in a jouney when the eid al-Adha drew upon us. So, seven of us associated in a cow and ten in a camel.


باب  قربانی کے اونٹ کا اشعار


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّدَ نَعْلَيْنِ وَأَشْعَرَ الْهَدْيَ فِي الشِّقِّ الْأَيْمَنِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ وَأَمَاطَ عَنْهُ الدَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُهُ مُسْلِمٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ الْإِشْعَارَ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ سَمِعْت يُوسُفَ بْنَ عِيسَی يَقُولُ سَمِعْتُ وَکِيعًا يَقُولُ حِينَ رَوَی هَذَا الْحَدِيثَ قَالَ لَا تَنْظُرُوا إِلَی قَوْلِ أَهْلِ الرَّأْيِ فِي هَذَا فَإِنَّ الْإِشْعَارَ سُنَّةٌ وَقَوْلُهُمْ بِدْعَةٌ قَالَ و سَمِعْت أَبَا السَّائِبِ يَقُولُ کُنَّا عِنْدَ وَکِيعٍ فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَهُ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ أَشْعَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ مُثْلَةٌ قَالَ الرَّجُلُ فَإِنَّهُ قَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ الْإِشْعَارُ مُثْلَةٌ قَالَ فَرَأَيْتُ وَکِيعًا غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا وَقَالَ أَقُولُ لَکَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ مَا أَحَقَّکَ بِأَنْ تُحْبَسَ ثُمَّ لَا تَخْرُجَ حَتَّی تَنْزِعَ عَنْ قَوْلِکَ هَذَا


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ذو الحلیفہ میں  (ہدی کے جانور کو)  دو جوتیوں کے ہار پہنائے اور ان کی کوہان کے دائیں طرف اشعار 

 کیا اور اس سے خون صاف کیا

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 صحابہ کرام (رض) وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اشعار کے قائل ہیں۔ یہی ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،  

 یوسف بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے وکیع کو کہتے سنا جس وقت انہوں نے یہ حدیث روایت کی کہ اس سلسلے میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو، کیونکہ اشعار سنت ہے اور ان کا قول بدعت ہے،  

 میں نے ابوسائب کو کہتے سنا کہ ہم لوگ وکیع کے پاس تھے تو انہوں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے جو ان لوگوں میں سے تھا جو رائے میں غور و فکر کرتے ہیں کہا کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اشعار کیا ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ مثلہ ہے تو اس آدمی نے کہا 

 ابراہیم نخعی سے مروی ہے انہوں نے بھی کہا ہے کہ اشعار مثلہ ہے، ابوسائب کہتے ہیں 

 تو میں نے وکیع کو دیکھا کہ  (اس کی اس بات سے)  وہ سخت ناراض ہوئے اور کہا 

 میں تم سے کہتا ہوں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا ہے  اور تم کہتے ہو 

 ابراہیم نے کہا 

 تم تو اس لائق ہو کہ تمہیں قید کردیا جائے پھر اس وقت تک قید سے تمہیں نہ نکالا جائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے باز نہ آ جاؤ  


  وضاحت 

 ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے ، یہ ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے

 وکیع کے اس قول سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیئے جو ائمہ کے اقوال کو حدیث رسول کے مخالف پا کر بھی انہیں اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اور حدیث رسول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس حدیث میں اندھی تقلید کا زبردست رد ہے


Translation

Sayyidina lbn Abbas (RA) narrated that the Prophet ﷺ garlanded his she camel with two sandals on its neck and marked it on the right side at Zul Hulayfah and wiped off the blood from it.  


باب  مقیم کا ہدی کے گلے میں ہار ڈالنا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَمْ يُحْرِمْ وَلَمْ يَتْرُکْ شَيْئًا مِنْ الثِّيَابِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا قَلَّدَ الرَّجُلُ الْهَدْيَ وَهُوَ يُرِيدُ الْحَجَّ لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ شَيْئٌ مِنْ الثِّيَابِ وَالطِّيبِ حَتَّی يُحْرِمَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا قَلَّدَ الرَّجُلُ هَدْيَهُ فَقَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ مَا وَجَبَ عَلَی الْمُحْرِمِ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی ہدی کے قلادے بٹے، پھر آپ نہ محرم ہوئے اور نہ ہی آپ نے کوئی کپڑا پہننا چھوڑا  

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ہدی  (کے جانور)  کو قلادہ پہنا دے اور وہ حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اس پر کپڑا پہننا یا خوشبو لگانا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ وہ احرام نہ باندھ لے، 

 اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب آدمی اپنے ہدی  (کے جانور)  کو قلادہ پہنا دے تو اس پر وہ سب واجب ہوجاتا ہے جو ایک محرم پر واجب ہوتا ہے


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said, “I used to twist ropes into garlands for the hadi of Allah’s Messenger ﷺ After that he would neither assume the ihram nor cease to wear (normal) garments.”  

 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَی هَدْيَهُ مِنْ قُدَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ الْيَمَانِ وَرُوِيَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اشْتَرَی مِنْ قُدَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا أَصَحُّ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اپنا ہدی کا جانور قدید سے خریدا


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے ثوری کی حدیث سے صرف یحییٰ بن یمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں 

 اور نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر نے قدید  

 سے خریدا، اور یہ زیادہ صحیح ہے  

 (سند میں یحییٰ بن یمان اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، صحیح بات یہ ہے کہ قدید سے ہدی کا جانور خود ابن عمر (رض) نے خریدا تھا جیسا کہ بخاری نے روایت کی ہے (الحج ١٠٥ ح ١٦٩٣) یحییٰ بن یمان نے اس کو مرفوع کردیا ہے)


  وضاحت 

 قدید مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے

 یعنی یہ موقوف اثر اس مرفوع حدیث سے کہ جسے یحییٰ بن یمان نے ثوری سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے  


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that the Prophet ﷺ bought his hadi at Qudayd. 


باب  بکریوں کی تقلید کے بارے میں


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلَّهَا غَنَمًا ثُمَّ لَا يُحْرِمُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ تَقْلِيدَ الْغَنَمِ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی ہدی کی بکریوں کے سارے قلادے  (پٹے)  میں ہی بٹتی تھی  

 پھر آپ احرام نہ باندھتے  (حلال ہی رہتے تھے) 


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، وہ بکریوں کے قلادہ پہنانے کے قائل ہیں


   وضاحت 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بکریوں کی تقلید بھی مستحب ہے ، امام مالک اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ بکریوں کی تقلید مستحب نہیں ان دونوں نے تقلید کو اونٹ گائے کے ساتھ خاص کیا ہے ، یہ حدیث ان دونوں کے خلاف صریح حجت ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ کمزوری کا باعث ہوگی ، لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے اس لیے کہ تقلید سے مقصود پہچان ہے انہیں ایسی چیز کا قلادہ پہنایا جائے جس سے انہیں کمزوری نہ ہو۔ اللہ عزوجل ہم سب کو مذہبی و معنوی تقلید سے محفوظ رکھے ، «اللہم آمین»۔    صحيح وضعيف سنن الترمذي   


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said, “I twisted garlands of the hadi of Allah’s Messenger ﷺ all of them sheep. After that he did not assume the ihram.”  


باب  اگرہدی کا جانور مرنے کے قریب ہو تو کیا کیا جائے


حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ نَاجِيَةَ الْخُزَاعِيِّ صَاحِبِ بُدْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنْ الْبُدْنِ قَالَ انْحَرْهَا ثُمَّ اغْمِسْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا ثُمَّ خَلِّ بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَهَا فَيَأْکُلُوهَا وَفِي الْبَاب عَنْ ذُؤَيْبٍ أَبِي قَبِيصَةَ الْخُزَاعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ نَاجِيَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا فِي هَدْيِ التَّطَوُّعِ إِذَا عَطِبَ لَا يَأْکُلُ هُوَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِهِ وَيُخَلَّی بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ يَأْکُلُونَهُ وَقَدْ أَجْزَأَ عَنْهُ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَالُوا إِنْ أَکَلَ مِنْهُ شَيْئًا غَرِمَ بِقَدْرِ مَا أَکَلَ مِنْهُ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَکَلَ مِنْ هَدْيِ التَّطَوُّعِ شَيْئًا فَقَدْ ضَمِنَ الَّذِي أَکَلَ


ترجمہ

 رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرنے والے ناجیہ خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے عرض کیا 

اللہ کے رسول ! جو اونٹ راستے میں مرنے لگیں انہیں میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا 

 انہیں نحر  (ذبح)  کر دو ، پھر ان کی جوتی انہیں کے خون میں لت پت کر دو ، پھر انہیں لوگوں کے لیے چھوڑ دو کہ وہ ان کا گوشت کھائیں 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ناجیہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں ذویب ابو قبیصہ خزاعی (رض) سے بھی روایت ہے،  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ نفلی ہدی کا جانور جب مرنے لگے تو نہ وہ خود اسے کھائے اور نہ اس کے سفر کے ساتھی کھائیں۔ وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ دے، کہ وہ اسے کھائیں۔ یہی اس کے لیے کافی ہے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس میں سے کچھ کھالیا تو جتنا اس نے اس میں سے کھایا ہے اسی کے بقدر وہ تاوان دے،  

 بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ نفلی ہدی کے جانور میں سے کچھ کھالے تو جس نے کھایا وہ اس کا ضامن ہوگا۔   

  

Translation

Sayyidina Najiyah Khuza’i (RA) narrated that he said, “O Messenger of Allah! ﷺ How should I treat the hadi that is on the point of death?” He said, “Slaughter it and dip its shoes with which it is garlanded in its blood. After that leave it among the people that they may eat it.”


باب  سر کے بال کس طرف سے منڈ وانے شروع کئے جائیں


حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ لَمَّا رَمَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ نَحَرَ نُسُکَهُ ثُمَّ نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ ثُمَّ نَاوَلَهُ شِقَّهُ الْأَيْسَرَ فَحَلَقَهُ فَقَالَ اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ


ترجمہ

 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں 

  جب نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے جمرہ کی رمی کرلی تو اپنے ہدی کے اونٹ نحر  (ذبح)  کیے۔ پھر سر مونڈنے والے کو اپنے سر کا داہنا جانب  

 دیا اور اس نے سر مونڈا، تو یہ بال آپ نے ابوطلحہ کو دئیے، پھر اپنا بایاں جانب اسے دیا تو اس نے اسے بھی مونڈا تو آپ نے فرمایا 

  یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو

   

Translation

Sayyidina Anas ibn Maalik said that when Allah’s Messenger ﷺ pelted pebbles at the jamrat, he sacrificed the animals. After that he called the barber and put the right side of his head towards him. He shaved it and he.gave the hair to Abu Talhah. Then he put the left side towards him and he shaved it. The Prophet ﷺ told him, “Divide them among the people.” 


باب  قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً فَقَالَ لَهُ ارْکَبْهَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ ارْکَبْهَا وَيْحَکَ أَوْ وَيْلَکَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي رُکُوبِ الْبَدَنَةِ إِذَا احْتَاجَ إِلَی ظَهْرِهَا وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَرْکَبُ مَا لَمْ يُضْطَرَّ إِلَيْهَا


ترجمہ

 انس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ایک شخص کو ہدی کے اونٹ ہانکتے دیکھا، تو اسے حکم دیا  اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! یہ ہدی کا اونٹ ہے، پھر آپ نے اس سے تیسری یا چوتھی بار میں کہا 

  اس پر سوار ہوجاؤ، تمہارا برا ہو  

 یا تمہاری ہلاکت ہو

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں علی، ابوہریرہ، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں  

 صحابہ کرام وغیرہ میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے ہدی کے جانور پر سوار ہونے کی اجازت دی ہے، جب کہ وہ اس کا محتاج ہو، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، 

 بعض کہتے ہیں 

 جب تک مجبور نہ ہو ہدی کے جانور پر سوار نہ ہو   وضاحت 

 یہ آپ نے تنبیہ اور ڈانٹ کے طور پر فرمایا کیونکہ سواری کی اجازت آپ اسے پہلے دے چکے تھے اور آپ کو یہ پہلے معلوم تھا کہ یہ ہدی ہے


Translation

Sayyidina Anas (RA) narrated that the Prophet ﷺ saw a man drive his camel. He said to him, “Ride it.” The man said, “O Messenger of Allah! ﷺ It is a sacrificial camel.” So, he said three or four times, “Ride it!” and “wayhaka”, or “waylaka.” (meaning, ‘Alas for you’ or ‘shame on you’ both words have same meaning).


باب  سر کے بال کس طرف سے منڈ وانے شروع کئے جائیں


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ابن ابی عمر کی سند سے ہشام سے اسی طرح حدیث روایت ہے


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

  

  وضاحت 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجی حلق یا تقصیر  ( بال مونڈنا یا کٹوانا کا کام  )  داہنی جانب سے شروع کرے ، مونڈنے والے کو بھی اس سنت کا خیال رکھنا چاہیئے

 یہ صرف رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے موئے مبارک کی خصوصیت ہے ، دوسرے اولیاء و صلحاء کے بالوں سے تبرک سلف کا شیوہ نہیں رہا یہی بات یا تھوک وغیرہ سے تبرک میں بھی


باب  عورتوں کے لئے سر کے بال منڈ وانا حرام ہے


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ خِلَاسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ فِيهِ اضْطِرَابٌ وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ عَلَی الْمَرْأَةِ حَلْقًا وَيَرَوْنَ أَنَّ عَلَيْهَا التَّقْصِيرَ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  خلاس سے اسی طرح مروی ہے، لیکن اس میں انہوں نے علی (رض) کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 علی (رض) کی حدیث میں اضطراب ہے، یہ حدیث حماد بن سلمہ سے بطریق 

 «قتادة عن عائشة أن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مروی ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے عورت کو اپنا سر مونڈانے سے منع فرمایا،  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ عورت کے لیے سر منڈانے کو درست نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ اس پر تقصیر  (بال کتروانا)  ہے

 

Translation

Muhammad ibn Bashshar reported a similar hadith from Abu Dawud, from Hammam from Khilas without mentioning Sayyidina Ali


باب  عورتوں کے لئے سر کے بال منڈ وانا حرام ہے


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْحَرَشِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا


ترجمہ

 علی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنا سر مونڈوائے 

 (اس سند میں اضطراب ہے جس کو مؤلف نے بیان کردیا ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)    

 

Translation

Sayyidina Ali (RA) said that Allah’s Messenger ﷺ disallowed the woman to shave her head.


باب  بال منڈ وانا اور کتر وانا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ حَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَلَقَ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَقَصَّرَ بَعْضُهُمْ قَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ قَالَ وَالْمُقَصِّرِينَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أُمِّ الْحُصَيْنِ وَمَارِبَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي مَرْيَمَ وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَحْلِقَ رَأْسَهُ وَإِنْ قَصَّرَ يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِکَ يُجْزِئُ عَنْهُ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے سر منڈوایا، صحابہ کی ایک جماعت نے بھی سر مونڈوایا اور بعض لوگوں نے بال کتروائے۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ایک بار یا دو بار فرمایا 

  اللہ سر مونڈانے والوں پر رحم فرمائے ، پھر فرمایا 

  کتروانے والوں پر بھی  


   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں ابن عباس، ابن ام الحصین، مارب، ابو سعید خدری، ابومریم، حبشی بن جنادہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور وہ آدمی کے لیے سر منڈانے کو پسند کرتے ہیں اور اگر کوئی صرف کتروا لے تو وہ اسے بھی اس کی طرف سے کافی سمجھتے ہیں۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی ہے 


  وضاحت 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلق  ( منڈوانا  )  تقصیر  ( کٹوانے  )  کے مقابلہ میں افضل ہے

 

Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) said that Allah’s Messenger ﷺ had his hair shaved and a section of his Companions also had their hair shaved, but some of them had theirs clipped. He added that Allah’s Messenger ﷺ said once or twice, “May Allah have mercy on those who have shaved.” After that he said, “And those who have clipped.” 


باب  جو آدمی سر منڈ والے ذبح سے پہلے اور قربانی کرلے کنکریاں مار نے سے پہلے


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عِيسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ فَقَالَ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ وَسَأَلَهُ آخَرُ فَقَالَ نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيکٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا قَدَّمَ نُسُکًا قَبْلَ نُسُکٍ فَعَلَيْهِ دَمٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ  ایک شخص نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے پوچھا کہ میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا ؟ آپ نے فرمایا 

 اب ذبح کرلو کوئی حرج نہیں  ایک دوسرے نے پوچھا 

 میں نے رمی سے پہلے نحر  (ذبح)  کرلیا ہے ؟ آپ نے فرمایا 

  اب رمی کرلو کوئی حرج نہیں 

 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 اس باب میں علی، جابر، ابن عباس، ابن عمر، اسامہ بن شریک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، 

بعض اہل علم کہتے ہیں 

 اگر کسی نسک کو یعنی رمی یا نحر یا حلق وغیرہ میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے کرلے تو اس پر دم  (ذبیحہ)  لازم ہوگا  (مگر یہ بات بغیر دلیل کے ہے) 


Translation

Sayyidina Abdullah ibn Amr (RA) narrated that a man asked Allah’s Messenger ﷺ , “I have shaved before the sacrifice.” He said, “Sacrifice now. There is no harm (or sin).” Another asked, “I have sacrificed before I cast pebbles.” He said, “Cast them now, and there is no harm (or sin).”  


باب احرم کھو لنے کے بعد طواف زیارت سے پہلے خوشبو لگانا


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ وَيَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ بِطِيبٍ فِيهِ مِسْکٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا رَمَی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ وَذَبَحَ وَحَلَقَ أَوْ قَصَّرَ فَقَدْ حَلَّ لَهُ کُلُّ شَيْئٍ حَرُمَ عَلَيْهِ إِلَّا النِّسَائَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ حَلَّ لَهُ کُلُّ شَيْئٍ إِلَّا النِّسَائَ وَالطِّيبَ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْکُوفَةِ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں 

  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے اور دسویں ذی الحجہ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے خوشبو لگائی جس میں مشک تھی 

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے  

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کرلے، جانور ذبح کرلے، اور سر مونڈا لے یا بال کتروا لے تو اب اس کے لیے ہر وہ چیز حلال ہوگئی جو اس پر حرام تھی سوائے عورتوں کے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،  

 عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ اس کے لیے ہر چیز حلال ہوگئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے،  

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، اور یہی کوفہ والوں کا بھی قول ہے


   وضاحت 

 دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حاجی حلال ہوجاتا ہے ، اسے تحلل اول کہتے ہیں ، تحلل اول میں عورت کے علاوہ ساری چیزیں حلال ہوجاتی ہیں ، اور طواف افاضہ کے بعد عورت بھی حلال ہوجاتی ہے ، اب وہ عورت سے صحبت یا بوس وکنار کرسکتا ہے اسے تحلل ثانی کہتے ہیں


Translation

Sayyidah Ayshah said, “I applied perfume to Allah’s Messenger ﷺ before he assumed the ihram and on the day 01 sacrifice before he circumambulated the House (in tawaf ziyarat) with perfume containing musk.” 


باب  حج میں لبیک کہنا ترک کیا جائے


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَمْعٍ إِلَی مِنًی فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّی رَمَی الْجَمْرَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْحَاجَّ لَا يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ حَتَّی يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں 

  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا  (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کرلے گئے)  آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ  (عقبہ)  کی رمی کی


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 فضل (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں علی، ابن مسعود، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں  

اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاجی تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ جمرہ کی رمی نہ کرلے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے  


  وضاحت

 ان لوگوں کا استدلال «حتی يرمي الجمرة» سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کرلینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے ، لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کردینا چاہیئے ، ان کی دلیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے جس میں «لم يزل يلبي حتی بلغ الجمرة» کے الفاظ وارد ہیں


Translation

Sayyidina Fadl ibn Abbas (RA) said, “Allah’s Messenger took me as a co-rider from Miizdalifah to Mina. He did not cease to recite the talbiyah till he pelted pebbles at jamrat ul-Aqabahh.” 


باب  عمرے میں تلبیہ پڑھنا کب ترک کرے


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ أَنَّهُ کَانَ يُمْسِکُ عَنْ التَّلْبِيَةِ فِي الْعُمْرَةِ إِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا لَا يَقْطَعُ الْمُعْتَمِرُ التَّلْبِيَةَ حَتَّی يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ و قَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا انْتَهَی إِلَی بُيُوتِ مَکَّةَ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  عمرہ میں تلبیہ پکارنا اس وقت بند کرتے جب حجر اسود کا استلام کرلیتے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے  

 اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کر والا شخص تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ حجر اسنےود کا استلام نہ کرلے،  

 بعض کہتے ہیں کہ جب مکہ کے گھروں یعنی مکہ کی آبادی میں پہنچ جائے تو تلبیہ پکارنا بند کر دے۔ لیکن عمل نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی  (مذکورہ)  حدیث پر ہے۔ یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں


Translation

Sayyidina lbn Abbas (RA) traced the hadith to the Prophet ﷺ that he stopped reciting the talbiyah during umrah when he kissed the hajr aswad. 


باب  رات کو  طواف زیارت کرنا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَی اللَّيْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يُؤَخَّرَ طَوَافُ الزِّيَارَةِ إِلَی اللَّيْلِ وَاسْتَحَبَّ بَعْضُهُمْ أَنْ يَزُورَ يَوْمَ النَّحْرِ وَوَسَّعَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُؤَخَّرَ وَلَوْ إِلَی آخِرِ أَيَّامِ مِنًی


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) اور ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا 

  

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 بعض اہل علم نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور بعض نے دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن بعض نے اسے منیٰ کے آخری دن تک مؤخر کرنے کی گنجائش رکھی ہے

 (ابو الزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ابوالزبیر کا دونوں صحابہ سے سماع نہیں ہے، اور یہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دن میں طواف زیارت فرمایا تھا، اس لیے شاذ ہے) 


 وضاحت 

 عبداللہ بن عباس اور عائشہ (رض) کی یہ حدیث ابن عمر (رض) کی حدیث کے مخالف ہے جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے ، جس میں ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے یوم النحر کو دن میں طواف کیا ، امام بخاری نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ ابن عمر اور جابر کی حدیث کو پہلے دن پر محمول کیا جائے اور ابن عباس اور عائشہ کی حدیث کو اس کے علاوہ باقی دنوں پر ، صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں 

 «حديث ابن عباس وعائشة المذکور في هذا الباب ضعيف فلا حاجة إلى الجمع الذي أشار إليه البخاري ، وأما علی تقدير الصحة فهذا الجمع متعين»۔ (ابن عباس اور عائشہ کی باب میں مذکور حدیث ضعیف ہے ، اس لیے بخاری نے جس جمع و تطبیق کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی ضرورت نہیں ہے اور صحت ماننے کی صورت میں جمع وتطبیق متعین ہے  ) 

 امام ترمذی کا اس حدیث کو حسن صحیح کہنا درست نہیں ہے ، صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں ، کیونکہ ابو الزبیر کا ابن عباس سے اور عائشہ (رض) سے سماع نہیں ہے ، ابوالحسن القطان کہتے ہیں «عندي أن هذا الحديث ليس بصحيح إنما طاف النبي صلی اللہ عليه وسلم يومئذ نهارا»

 

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) and Sayydah Ayshah (RA) said that the Prophet ﷺ postponed the tawaf ziyarah (the cirumambulation of the visit) till night. 


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنَّمَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَبْطَحَ لِأَنَّهُ کَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَهُ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ابطح میں قیام فرمایا اس لیے کہ یہاں سے  (مدینے کے لیے)  روانہ ہونا زیادہ آسان تھا


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اور سفیان نے ہشام بن عروہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said that Allah’s Messenger ﷺ stopped at Abtah because that was easier for him to depart (when he had to).  


باب  وادی ابطح میں اتر نا


حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ الْأَبْطَحَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي رَافِعٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ نُزُولَ الْأَبْطَحِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَوْا ذَلِکَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ أَحَبَّ ذَلِکَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَنُزُولُ الْأَبْطَحِ لَيْسَ مِنْ النُّسُکِ فِي شَيْئٍ إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، عمر، اور عثمان (رض) ابطح  

 میں قیام کرتے تھے۔  


  امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں، وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں،  

اس باب میں عائشہ، ابورافع اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

 بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قرار دیا ہے، واجب نہیں، جو چاہے وہاں قیام کرے،  

شافعی کہتے ہیں 

 ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے قیام فرمایا


 وضاحت 

 ابطح ، بطحاء خیف کنانہ اور محصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اور منیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے


Translation

Sayyidina lbn Umar (RA) reported that the Prophet ﷺ (RA) and Abu Bakr (RA) Umar (RA) and Uthman (RA) used to stop at Abtah.  


باب  وادی ابطح میں اتر نا


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْئٍ إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی التَّحْصِيبُ نُزُولُ الْأَبْطَحِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں 

 یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے قیام فرمایا


  امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

«تحصیب» کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں


 وضاحت 

 محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے ، رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی ، ظہر و عصر اور مغرب اور عشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری ، چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے ، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا ، امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اور خلفاء راشدین (رض) کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said, “There is nothing about Muhassab save that it is a station where Allah’s Messenger ﷺ stopped-over (for rest).”  


باب  بچے کا حج


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَفَعَتْ امْرَأَةٌ صَبِيًّا لَهَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِهَذَا حَجٌّ قَالَ نَعَمْ وَلَکِ أَجْرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ


ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی طرف اٹھا کر پوچھا 

 اللہ کے رسول ! کیا اس پر بھی حج ہے ؟ آپ نے فرمایا 

 ہاں، اور اجر تجھے ملے گا 

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 جابر کی حدیث غریب ہے  

اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے


 وضاحت

 اس میں شافعی احمد ، مالک اور جمہور علماء کے لیے دلیل ہے ، جو اس بات کے قائل ہیں کہ نابالغ بچے کا حج صحیح ہے ، اس پر اسے ثواب دیا جائے گا اگرچہ اس سے فرض ساقط نہیں ہوگا اور بالغ ہونے کی استطاعت کی صورت میں اسے پھر سے حج کرنا پڑے گا اور نابالغ کا یہ حج نفلی حج ہوگا ، امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ نابالغ بچے کا حج منعقد نہیں ہوگا وہ صرف تمرین ومشق کے لیے اسے کرے گا اس پر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا ، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے


Translation

Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) narrated that a woman carried her child to Allah’s Messenger ﷺ and asked, “O Messenger of Allah! ﷺ May he perform Hajj?” He said, “Yes! And the reward (thereof) is for you.” 


باب  بچے کا حج


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْوَاسِطِيُّ قَال سَمِعْتُ ابْنَ نُمَيْرٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ کُنَّا إِذَا حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکُنَّا نُلَبِّي عَنْ النِّسَائِ وَنَرْمِي عَنْ الصِّبْيَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا يُلَبِّي عَنْهَا غَيْرُهَا بَلْ هِيَ تُلَبِّي عَنْ نَفْسِهَا وَيُکْرَهُ لَهَا رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  جب ہم نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ حج کیا تو ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں  

 اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی طرف سے کوئی دوسرا تلبیہ نہیں کہے گا، بلکہ وہ خود ہی تلبیہ کہے گی البتہ اس کے لیے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے


Translation

Sayyidina Jabir (RA) said, “When we performed Hajj with the Prophet ﷺ we would call the talbiyah for the women and throw pebbles for the children


باب  بچے کا حج


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ الْبَاهِلِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا


ترجمہ

 اس سند سے بھی  جابر بن عبداللہ (رض) نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اسی طرح روایت کی ہے


  امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ محمد بن منکدر سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے مرسلاً روایت کی ہے 

 اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ بچہ جب بالغ ہونے سے پہلے حج کرلے تو  (اس کا فریضہ ساقط نہیں ہوگا)  جب وہ بالغ ہوجائے گا تو اس کے ذمہ حج ہوگا، کم سنی کا یہ حج اسلام کے عائد کردہ فریضہ حج کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح غلام کا معاملہ ہے، اگر وہ غلامی میں حج کرچکا ہو پھر آزاد کردیا جائے تو آزادی کی حالت میں اس پر حج فرض ہوگا جب وہ اس کی سبیل پالے، غلامی کی حالت میں کیا ہوا حج کافی نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے


Translation

Ahadith like it is reported marfu by Qutaybah from Qaza’ah ibn Suwayd Bahili, from Muhammad ibn Munkadir from Sayyidina Jabir (RA) while there is a hadith in mursal form, too, from Muhammad ibn Munkadir.


باب  بچے کا حج


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ حَجَّ بِي أَبِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ الصَّبِيَّ إِذَا حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُدْرِکَ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ إِذَا أَدْرَکَ لَا تُجْزِئُ عَنْهُ تِلْکَ الْحَجَّةُ عَنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ وَکَذَلِکَ الْمَمْلُوکُ إِذَا حَجَّ فِي رِقِّهِ ثُمَّ أُعْتِقَ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ إِذَا وَجَدَ إِلَی ذَلِکَ سَبِيلًا وَلَا يُجْزِئُ عَنْهُ مَا حَجَّ فِي حَالِ رِقِّهِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ  میرے باپ نے حجۃ الوداع میں مجھے ساتھ لے کر رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ حج کیا، میں سات برس کا تھا۔    


امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

  

Translation

Sayyidina Sa’ib ibn Yazid said, “My father took me along and performed Hajj with Allah’s Messenger ﷺ during the farewell pilgrimage. I was then seven years old.”  


باب  اسی سے متعلق


حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ عَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ أَنَّهُ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ کَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ قَالَ حُجَّ عَنْ أَبِيکَ وَاعْتَمِرْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا ذُکِرَتْ الْعُمْرَةُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ يَعْتَمِرَ الرَّجُلُ عَنْ غَيْرِهِ وَأَبُو رَزِينٍ الْعُقَيْلِيُّ اسْمُهُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ


ترجمہ

 ابورزین عقیلی لقیط بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ  انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس آ کر عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہو کر سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔  (ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ )  آپ نے فرمایا 

  تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرلو 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے،  

 عمرے کا ذکر صرف اسی حدیث میں مذکور ہوا ہے کہ آدمی غیر کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہے


Translation

Sayyidina Abu Razin Uqayli (RA) said that he niet the Prophet ﷺ and said to him, “O Messenger of Allah! ﷺ My father is a very old man who cannot perform Hajj or Umrah neither can he sit on the riding beast.” He said, “Make Hajj for him and the Umrah.’


باب  بہت بوڑ ھے اور میت کی طرف سے حج کرنا


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَدْرَکَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ وَهُوَ شَيْخٌ کَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَی ظَهْرِ الْبَعِيرِ قَالَ حُجِّي عَنْهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَبُرَيْدَةَ وَحُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ وَأَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ وَسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا عَنْ سِنَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ عَنْ عَمَّتِهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ فَقَالَ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ مَا رَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مُحَمَّدٌ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَکُونَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعَهُ مِنْ الْفَضْلِ وَغَيْرِهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَوَی هَذَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَرْسَلَهُ وَلَمْ يَذْکُرْ الَّذِي سَمِعَهُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ حَدِيثٍ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَرَوْنَ أَنْ يُحَجَّ عَنْ الْمَيِّتِ و قَالَ مَالِکٌ إِذَا أَوْصَی أَنْ يُحَجَّ عَنْهُ حُجَّ عَنْهُ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحَجَّ عَنْ الْحَيِّ إِذَا کَانَ کَبِيرًا أَوْ بِحَالٍ لَا يَقْدِرُ أَنْ يَحُجَّ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا 

 اللہ کے رسول ! میرے والد کو اللہ کے فریضہ حج نے پا لیا ہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہیں کہ اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتے  (تو کیا کیا جائے ؟  ) ۔ آپ نے فرمایا 

تو ان کی طرف سے حج کرلے

 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 فضل بن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے،  

 ابن عباس (رض) سے حصین بن عوف مزنی (رض) نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے،  

 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سنان بن عبداللہ جہنی (رض) نے اپنی پھوپھی سے اور ان کی پھوپھی نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے،  

 ابن عباس (رض) نے براہ راست نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے بھی روایت کی ہے،

  امام ترمذی کہتے ہیں 

میں نے ان روایات کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا 

 اس باب میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے ابن عباس نے فضل بن عباس سے اور فضل نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہے  

 محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس کا بھی احتمال ہے کہ ابن عباس نے اسے  (اپنے بھائی)  فضل سے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی سنا ہو اور ان لوگوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہو، اور پھر ابن عباس (رض) نے اسے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے مرسلاً روایت کی ہو اور جس سے انہوں نے اسے سنا ہو اس کا نام ذکر نہ کیا ہو، نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے اس باب میں کئی اور بھی احادیث ہیں،  

 اس باب میں علی، بریدہ، حصین بن عوف، ابورزین عقیلی، سودہ بنت زمعہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں،  

صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے حج کیا جاسکتا ہے،  

مالک کہتے ہیں 

میت کی طرف سے حج اس وقت کیا جائے گا جب وہ حج کرنے کی وصیت کر گیا ہو،  

 بعض لوگوں نے زندہ شخص کی طرف سے جب وہ بہت زیادہ بوڑھا ہوگیا ہو یا ایسی حالت میں ہو کہ وہ حج پر قدرت نہ رکھتا ہو حج کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی ابن مبارک اور شافعی کا بھی قول ہے


Translation

Sayyidina Fadl ibn Abbas (RA) narrated that a woman of Bani Kath’am said, O Messenger of Allah ﷺ Hajj is fard on my father but he is a very old man unable to sit on the back of a camel.” He said, “You perform Hajj for him.” 


باب  عمرہ واجب ہے یا نہیں


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ قَالَ لَا وَأَنْ تَعْتَمِرُوا هُوَ أَفْضَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا الْعُمْرَةُ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ وَکَانَ يُقَالُ هُمَا حَجَّانِ الْحَجُّ الْأَکْبَرُ يَوْمُ النَّحْرِ وَالْحَجُّ الْأَصْغَرُ الْعُمْرَةُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ الْعُمْرَةُ سُنَّةٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَخَّصَ فِي تَرْکِهَا وَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ ثَابِتٌ بِأَنَّهَا تَطَوُّعٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ لَا تَقُومُ بِمِثْلِهِ الْحُجَّةُ وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ کَانَ يُوجِبُهَا قَالَ أَبُو عِيسَی کُلُّهُ کَلَامُ الشَّافِعِيِّ


ترجمہ

 جابر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا 

 کیا یہ واجب ہے ؟ آپ نے فرمایا 

 نہیں، لیکن عمرہ کرنا بہتر ہے   


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ واجب نہیں ہے،  

اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حج دو ہیں 

 ایک حج اکبر ہے جو یوم نحر  (دسویں ذی الحجہ کو)  ہوتا ہے اور دوسرا حج اصغر ہے جسے عمرہ کہتے ہیں،  

 شافعی کہتے ہیں 

 عمرہ  (کا وجوب)  سنت سے ثابت ہے، ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔ اور اس کے نفل ہونے کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے جس سند سے  (نفل ہونا)  مروی ہے وہ ضعیف ہے۔ اس جیسی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ ابن عباس (رض) اسے واجب قرار دیتے تھے۔یہ سب شافعی کا کلام ہے


   وضاحت 

اس سے حنفیہ اور مالکیہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ عمرہ واجب نہیں ہے ، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے لائق استدلال نہیں


Translation

Sayyidina Jabir (RA) narrated that the Prophet ﷺ was asked if umrah was wajib, he said, ‘No. But, if it is observed then that is better.”  


باب  اسی سے متعلق


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمَعْنَی هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَهَکَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَمَعْنَی هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ کَانُوا لَا يَعْتَمِرُونَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ فَلَمَّا جَائَ الْإِسْلَامُ رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِکَ فَقَالَ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ يَعْنِي لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَأَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ لَا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَأَشْهُرُ الْحُرُمِ رَجَبٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ هَکَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوچکا ہے 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے،  

 اس باب میں سراقہ بن جعشم اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، 

 اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی تشریح شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کی ہے کہ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرتے تھے، جب اسلام آیا تو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا 

  عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوچکا ہے ، یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں ، کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں حج کا احرام باندھے، اور حرمت والے مہینے یہ ہیں 

 رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں     


  وضاحت 

 مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، امام (رح) نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں

 

Translation

Sayyidina lbn Abbas (RA) narrated that the Prophet ﷺ said, “Till the Last Day, umrah is included in Hajj.”  


باب  اسی سے متعلق


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَائٍ قَالَ و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَائٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَائَتْ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ  ایک عورت نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس آ کر عرض کیا 

 میری ماں مرگئی ہے، وہ حج نہیں کرسکی تھی، کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا 

  ہاں، تو اس کی طرف سے حج کرلے

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث صحیح ہے


Translation

Sayyidina Abdullah ibn Buraydah (RA) reported from his father that a woman came to the Prophet ﷺ and said, “My mother has died and did not perform Hajj. May I perform Hajj on her behalf?” He said, “Yes, you may perform Hajj for her.”


باب  عمرے کی فضیلت


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ تُکَفِّرُ مَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَائٌ إِلَّا الْجَنَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے  

 اور حج مقبول  

 کا بدلہ جنت ہی ہے 


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


 وضاحت 

 مراد صغائر  ( چھوٹے گناہ  )  ہیں نہ کہ کبائر  ( بڑے گناہ  )  کیونکہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے

 حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کی ملاوٹ نہ ہو


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said, “An Umrah till another umrah is expiation for what is between the two (of sins). And a Hajj that is accepted has no reward except Paradise for it.” 



باب  تنعیم سے عمرے کے لئے جانا


حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَکْرٍ أَنْ يُعْمِرَ عَائِشَةَ مِنْ التَّنْعِيمِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ (رض) کو تنعیم  

 سے عمرہ کرائیں


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے


 وضاحت 

 تنعیم مکہ سے باہر ایک معروف جگہ کا نام ہے جو مدینہ کی جہت میں مکہ سے چار میل کی دوری پر ہے ، عمرہ کے لیے اہل مکہ کی میقات حل  ( حرم مکہ سے باہر کی جگہ  )  ہے ، اور تنعیم چونکہ سب سے قریبی حِل ہے اس لیے آپ نے عائشہ (رض) کو تنعیم سے احرام باندھنے کا حکم دیا۔ اور یہ عمرہ ان کے لیے اس عمرے کے بدلے میں تھا جو وہ حج سے قبل حیض آ جانے کی وجہ سے نہیں کرسکی تھیں ، اس سے حج کے بعد عمرہ پر عمرہ کرنے کی موجودہ چلن پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی


Translation

Sayyidina Abdur Rahman ibn Abu Bakr (RA) said that the Prophet ﷺ commanded him to get Sayyidah Ayshah ‘ to assume the ihram for umrah from Tan’im.


باب رجب میں عمرہ کرنا


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ فِي أَيِّ شَهْرٍ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ فِي رَجَبٍ فَقَالَتْ عَائِشَةُ مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ مَعَهُ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ وَمَا اعْتَمَرَ فِي شَهْرِ رَجَبٍ قَطُّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ


ترجمہ

 عروہ کہتے ہیں کہ  ابن عمر (رض) سے پوچھا گیا 

 رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا 

رجب میں، اس پر عائشہ (رض) نے کہا 

رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے جو بھی عمرہ کیا، اس  وہ  میں یعنی ابن عمر آپ کے ساتھ تھے، آپ نے رجب کے مہینے میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا 


   امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث غریب ہے

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے نہیں سنا ہے 


 وضاحت 

 مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمر عائشہ (رض) کی یہ بات سن کر خاموش رہے ، کچھ نہیں بولے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ان پر مشتبہ تھا ، یا تو وہ بھول گئے تھے ، یا انہیں شک ہوگیا تھا ، اسی وجہ سے ام المؤمنین کی بات کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ، اس سلسلہ میں صحیح بات ام المؤمنین کی ہے کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا


Translation

Sayyidina Urwab (RA) said that Sayyidina Ibn Umar (RA) was asked, “In which months did Allah’s Messenger ﷺ perform Umrah?” He said, “In Rajab.” But Sayyidah Ayshah ﷺ said, “He did not perform umrah but he, meaning Ibn Umar (RA) , was and he never performed umrah in Rajab.”  


باب  رمضان میں عمرہ کرنا


حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ أُمِّ مَعْقِلٍ عَنْ أُمِّ مَعْقِلٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَوَهْبِ بْنِ خَنْبَشٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُقَالُ هَرِمُ بْنُ خَنْبَشٍ قَالَ بَيَانٌ وَجَابِرٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ وَهْبِ بْنِ خَنْبَشٍ و قَالَ دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ هَرِمُ بْنِ خَنْبَشٍ وَوَهْبٌ أَصَحُّ وَحَدِيثُ أُمِّ مَعْقِلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَدْ ثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً قَالَ إِسْحَقُ مَعْنَی هَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَقَدْ قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ


ترجمہ

 ام معقل (رض) کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہے 


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ام معقل کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے  

 ( وہب کے بجائے)  ھرم بن خنبش بھی کہا جاتا ہے۔ بیان اور جابر نے یوں کہا ہے «عن الشعبي عن وهب بن خنبش» اور داود اودی نے یوں کہا ہے «عن الشعبي عن هرم بن خنبش» لیکن صحیح وہب بن خنبش ہی ہے  

 اس باب میں ابن عباس، جابر، ابوہریرہ، انس اور وہب بن خنبش (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں  

 احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے ثابت ہے کہ رمضان کا عمرہ حج کے ثواب برابر ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم بھی اس حدیث کے مفہوم کی طرح ہے جو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی گئی ہے کہ جس نے سورة «قل هو اللہ أحد» پڑھی اس نے تہائی قرآن پڑھا


 وضاحت 

 یعنی مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر اعتبار سے عمرہ حج کے برابر ہے ، بلکہ صرف اجر و ثواب میں حج کے برابر ہے ، ایسا نہیں کہ اس سے فریضہء حج ادا ہوجائے گا ، یا نذر مانا ہوا حج پورا ہوجائے گا


Translation

Umm Ma’qil (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “Performing umrah in Ramadan is parallel to performing Hajj.”  


باب  رجب میں عمرہ کرنا


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعًا إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے چار عمرے کیے، ان میں سے ایک رجب میں تھا  

 

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے


 وضاحت 

 ترمذی نے یہ حدیث مختصراً روایت کی ہے شیخین نے اسے «جریر عن منصور عن مجاہد» کے طریق سے مفصلاً روایت کی ہے صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں «قال 

 دخلت أنا وعروۃ بن الزبیر المسجد فإذا عبداللہ بن عمر جالس إلی حجرۃ عائشۃ ، وإذا ناس یصلون فی المسجد صلاۃ الضحیٰ ، قال 

 فسألناہ عن صلاتہم فقال 

 بدعۃ ، ثم قال لہ 

 کم اعتمر النبي صلی اللہ عليه وسلم قال 

 اربع احداہن فی رجب ، فکرہنا أن نردعلیہ وقال 

 سمعنا استنان عائشۃ أم المؤمنین فی الحجرۃ فقال عروۃ 

 یا أم المؤمنین ! ألاتسمعین ما یقول ابوعبدالرحمٰن ؟ قالت 

 مایقول ؟ قال 

 یقول 

أن رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم اعتمر أربع عمرات إحداہن فی رجب ، قالت 

 - ی (رح) اباعبدالرحمٰن - ما اعتمر عمرۃ إلا وہو شاہد ، وما اعتمرفی رجب قط»۔ مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن عمر (رض) کو عائشہ (رض) کے حجرے کے پاس بیٹھا پایا ، لوگ مسجد میں نماز الضحی  ( چاشت کی نماز  )  پڑھ رہے تھے ، ہم نے ابن عمر (رض) سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا ، فرمایا 

 یہ بدعت ہے ، پھر مجاہد نے ان سے پوچھا نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے کتنے عمرے کئے تھے ؟ کہا 

 چار عمرے ایک ماہ رجب میں تھا ، ہم نے یہ ناپسند کیا کہ ان کی تردید کریں ، ہم نے ام المؤمنین عائشہ کی حجرے میں آواز سنی تو عروہ نے کہا 

 ام المؤمنین ابوعبدالرحمٰن ابن عمر جو کہہ رہے ہیں کیا آپ اسے سن رہی ہیں ؟ کہا 

 کیا کہہ رہے ہیں ؟ ، کہا کہہ رہے کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے چار عمرے کئے ایک رجب میں تھا فرمایا 

 اللہ ابوعبدالرحمٰن ابن عمر پر اپنا رحم فرمائے ، رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ہر عمرہ میں وہ حاضر تھے  ( پھر بھی یہ بات کہہ رہے ہیں  )  آپ نے رجب میں ہرگز عمرہ نہیں کیا


Translation

Ahmad ibn Mani reported, from Hasan ibn Musa, from Shayban, from Mansur, from Mujahid and from Ibn Umar (RA) that the Prophet ﷺ performed four umrah, one of which he performed in Rajab.”  


باب  جعرانہ سے عمرے کے لئے جانا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ أَبِي مُزَاحِمٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَرِّشٍ الْکَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا مُعْتَمِرًا فَدَخَلَ مَکَّةَ لَيْلًا فَقَضَی عُمْرَتَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَأَصْبَحَ بِالْجِعِرَّانَةِ کَبَائِتٍ فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ مِنْ الْغَدِ خَرَجَ مِنْ بَطْنِ سَرِفَ حَتَّی جَائَ مَعَ الطَّرِيقِ طَرِيقِ جَمْعٍ بِبَطْنِ سَرِفَ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِکَ خَفِيَتْ عُمْرَتُهُ عَلَی النَّاسِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُ لِمُحَرِّشٍ الْکَعْبِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ وَيُقَالُ جَائَ مَعَ الطَّرِيقِ مَوْصُولٌ


ترجمہ

 محرش کعبی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جعرانہ سے رات کو عمرے کی نیت سے نکلے اور رات ہی میں مکہ میں داخل ہوئے، آپ نے اپنا عمرہ پورا کیا، پھر اسی رات  (مکہ سے)  نکل پڑے اور آپ نے واپس جعرانہ  

 میں صبح کی، گویا آپ نے وہیں رات گزاری ہو، اور جب دوسرے دن سورج ڈھل گیا تو آپ وادی سرف  

 سے نکلے یہاں تک کہ اس راستے پر آئے جس سے وادی سرف والا راستہ آ کر مل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے  (بہت سے)  لوگوں سے آپ کا عمرہ پوشیدہ رہا


 امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث حسن غریب ہے  

 ہم اس حدیث کے علاوہ محرش کعبی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کی ہو اور کہا جاتا ہے 

 «جاء مع الطريق» والا ٹکڑا موصول ہے


  وضاحت 

 مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے

 مکہ سے تین میل کی دوری پر ایک جگہ ہے


Translation

Sayyidina Muharrish Ka’bi (RA) reported that Allah’s,Messenger ﷺ came out of Ji’ranah on a night to perform umrah and came to Makkah while it was.(still) night and performed Umrah.Then he went Out in the night and saw the morning In Ju’ranah as one spends the night. When the sun declined next day, he went Out and came to Sarif where the two roads meet. This is why this umrah of his is unknown to the people. 


باب  جو حج کے لئے لبیک پکا رنے کے بعد زخمی یا معذور ہوجائے


حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ عِکْرِمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ حَجَّةٌ أُخْرَی فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَا صَدَقَ


ترجمہ

 حجاج بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جس کا کوئی عضو ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو اس کے لیے احرام کھول دینا درست ہے، اس پر دوسرا حج لازم ہوگا 


Translation

Ikrimah said that Hajjaj ibn Amr narrated to him that the Prophet ﷺ said, “If anyone breaks a limb or becomes lame then he comes out of the ihram and it becomes wajib for him to perform Hajj nextyear.” He narrated the hadith to Abu Hurayrab and Ibn Abbas (RA) • .,- and they said, “He spoke the truth.” 


باب  جو حج کے لئے لبیک پکا رنے کے بعد زخمی یا معذور ہوجائے


حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ


ترجمہ

 عبدالرزاق نے بسند «معمر عن يحيى بن أبي كثير عن عکرمة عن عبد اللہ بن رافع عن الحجاج بن عمرو عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے


 وضاحت 

 ابوداؤد کی ایک روایت میں «مِنْ قَابِلٍ» کا اضافہ ہے ، یعنی اگلے سال وہ اس حج کی قضاء کرے گا ، خطابی کہتے ہیں 

 یہ اس شخص کے لیے ہے جس کا یہ حج فرض حج رہا ہو ، لیکن نفلی حج کرنے والا اگر روک دیا جائے تو اس پر قضاء نہیں ، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے ، جب کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اس پر حج اور عمرہ دونوں لازم ہوگا  امام نخعی کا بھی قول یہی ہے


Translation

Abd ibn Humayd reported from Abdur Razzaq, from Ma’mar, from Yahya ibn Abu Kathir, from Jkrimah from Abduflah ibn Rafi, from Hajjaj ibn Amr who from the Prophet ﷺ a hadith of this kind.


باب  ذیقعدہ میں عمرہ کرنا


حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ هُوَ السَّلُولِيُّ الْکُوفِيُّ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ


ترجمہ

 براء (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے ذی قعدہ کے مہینہ میں عمرہ کیا  


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے 

 اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے


 وضاحت 

 بخاری کی ایک روایت میں ہے «اعتمر رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ذي القعدة قبل أن يحج مرتين»۔ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حج سے پہلے آپ نے ذوقعدہ میں دو مرتبہ عمرہ کیا  )


Translation

Sayyidina Bara ibn Aazib narrated that the Prophet ﷺ (RA) performed umrah in Dhul Qa’dah.  


باب  جو حج کے لئے لبیک پکا رنے کے بعد زخمی یا معذور ہوجائے


حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ الْحَجَّاجِ مِثْلَهُ قَالَ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ هَکَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی مَعْمَرٌ وَمُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ وَحَجَّاجٌ الصَّوَّافُ لَمْ يَذْکُرْ فِي حَدِيثِهِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَافِعٍ وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ رِوَايَةُ مَعْمَرٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ سَلَّامٍ أَصَحُّ


ترجمہ

 میں نے اس کا ذکر ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے کیا تو ان دونوں نے کہا کہ انہوں نے  (حجاج)  سچ کہا۔ اسحاق بن منصور کی سند بھی حجاج (رض) سے اسی کے مثل روایت ہے البتہ اس میں «عن الحجاج بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» کے بجائے «سمعت رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» کے الفاظ ہیں


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 اسی طرح کئی اور لوگوں نے بھی حجاج الصواف سے اسی طرح روایت کی ہے  

 معمر اور معاویہ بن سلام نے بھی یہ حدیث بطریق 

 «يحيى بن أبي كثير عن عکرمة عن عبد اللہ بن رافع عن الحجاج بن عمرو عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے،  

 اور حجاج الصواف نے اپنی روایت میں عبداللہ بن رافع کا ذکر نہیں کیا ہے، حجاج الصواف محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں،  

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ معمر اور معاویہ بن سلام کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے


باب  حج میں شرط لگانا


حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ أَفَأَشْتَرِطُ قَالَ نَعَمْ قَالَتْ کَيْفَ أَقُولُ قَالَ قُولِي لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ مَحِلِّي مِنْ الْأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُونَ إِنْ اشْتَرَطَ فَعَرَضَ لَهُ مَرَضٌ أَوْ عُذْرٌ فَلَهُ أَنْ يَحِلَّ وَيَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَقَالُوا إِنْ اشْتَرَطَ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ وَيَرَوْنَهُ کَمَنْ لَمْ يَشْتَرِطْ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  ضباعہ بنت زبیر نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس آ کر کہا 

 اللہ کے رسول ! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں، تو کیا میں شرط لگا سکتی ہوں ؟  (کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی)  آپ نے فرمایا 

  ہاں، تو انہوں نے پوچھا 

 میں کیسے کہوں ؟ آپ نے فرمایا 

 «لبيك اللهم لبيك لبيك محلي من الأرض حيث تحبسني» 

حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں حاضر ہوں، میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تو مجھے روک دے 


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں جابر، اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 

 اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، وہ حج میں شرط لگا لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط کرلی پھر اسے کوئی مرض یا عذر لاحق ہوا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حلال ہوجائے اور اپنے احرام سے نکل آئے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،  

بعض اہل علم حج میں شرط لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط لگا بھی لی تو اسے احرام سے نکلنے کا حق نہیں، یہ لوگ اسے اس شخص کی طرح سمجھتے ہیں جس نے شرط نہیں لگائی ہے   


 وضاحت 

 یہ لوگ ضباعہ بنت زبیر کی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضباعہ ہی کے ساتھ خاص تھا ، ایک تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ «محلي حيث حبسني»  میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے  کا معنی «محلي حيث حبسني الموت»  میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے موت دے دی  ہے کیونکہ مرجانے سے احرام خود بخود ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ دونوں تاویلیں باطل ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ شرط خاص عمرہ سے تحلل کے ساتھ ہے حج کے تحلل سے نہیں ، لیکن ضباعہ کا واقعہ اس قول کو باطل کردیتا


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Sayyidah Duba’ah bint Zubayr (RA) met the Prophet ﷺ and asked him, “O Messenger.of Allah! I intend to perform Hajj, May I place a condition?” He said, “Yes.” She asked, “How?” He said, “Say: Here am I, O Allah! Here am I . I will come out of the sacred state whereever You stop me. 


باب  اسی سے متعلق


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ کَانَ يُنْکِرُ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُ أَلَيْسَ حَسْبُکُمْ سُنَّةَ نَبِيِّکُمْ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  وہ حج میں شرط لگانے سے انکار کرتے تھے اور کہتے تھے 

 کیا تمہارے لیے تمہارے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا طریقہ کافی نہیں ہے  


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  


 وضاحت 

 دراصل ابن عمر (رض) نے یہ بات ابن عباس (رض) کی تردید میں کہی تھی جو شرط لگانے کا فتوی دیتے تھے ، ان کو ضباعہ (رض) والی حدیث نہیں پہنچی تھی ورنہ ایسی بات نہ کہتے ، اور آپ کا اشارہ صلح حدیبیہ میں نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)   کے عمرہ سے روک دیئے جانے کی طرف تھا


Translation

Saalim ﷺ reported from his father that he denied placing condition in (the resolve of) Hajj, saying, “Is not the sunnah of your Prophet ﷺ ?nough for you?


باب  طواف زیارت کے بعد کسی عورت کو حیض آجانا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ ذَکَرْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ حَاضَتْ فِي أَيَّامِ مِنًی فَقَالَ أَحَابِسَتُنَا هِيَ قَالُوا إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا إِذًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا طَافَتْ طَوَافَ الزِّيَارَةِ ثُمَّ حَاضَتْ فَإِنَّهَا تَنْفِرُ وَلَيْسَ عَلَيْهَا شَيْئٌ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے ذکر کیا کہ صفیہ بنت حیی منیٰ کے دنوں میں حائضہ ہوگئی ہیں، آپ نے پوچھا 

کیا وہ ہمیں  (مکے سے روانہ ہونے سے)  روک دے گی ؟  لوگوں نے عرض کیا 

 وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں، تو رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 تب تو کوئی حرج نہیں 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں 

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عورت جب طواف زیارت کرچکی ہو اور پھر اسے حیض آ جائے تو وہ روانہ ہوسکتی ہے، طواف وداع چھوڑ دینے سے اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے  


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) narrated that Allah’s Messenger was told that (Sayyidah) Safiyah bint Huyyay began to mentsruate during the days of Mina. He asked “Will she detain us?” They said, “She has performed the tawaf ifadah.” So, he said, “Then, there’s no need to stay behind.”  


باب  جو شخص حج یا عمرہ کے لئے آئے اسے چاہیے کہ آخر میں بیت اللہ سے ہو کر واپس لو ٹے


حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلْيَکُنْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ خَرَرْتَ مِنْ يَدَيْکَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تُخْبِرْنَا بِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَهَکَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أرْطَاةَ مِثْلَ هَذَا وَقَدْ خُولِفَ الْحَجَّاجُ فِي بَعْضِ هَذَا الْإِسْنَادِ


ترجمہ

 حارث بن عبداللہ بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا 

جس نے اس گھر  (بیت اللہ)  کا حج یا عمرہ کیا تو چاہیئے کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو۔ تو ان سے عمر (رض) نے کہا 

 تم اپنے ہاتھوں کے بل زمین پر گرو یعنی ہلاک ہو، تم نے یہ بات رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے سنی اور ہمیں نہیں بتائی   


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 حارث بن عبداللہ بن اوس (رض) کی حدیث غریب ہے، اسی طرح دوسرے اور لوگوں نے بھی حجاج بن ارطاۃ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اس سند کے بعض حصہ کے سلسلہ میں حجاج سے اختلاف کیا گیا ہے،  

 اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے

 (اس لفظ سے منکر ہے، لیکن اس کا معنی دوسرے طرق سے صحیح ہے، اور ” أواعتمر “ کا لفظ ثابت نہیں ہے، سند میں ” عبدالرحمن بن بیلمانی ضعیف ہیں، اور حجاج بن ارطاة مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)  

وضاحت 

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طواف وداع واجب ہے یہی اکثر علماء کا قول ہے ، وہ اس کے ترک سے دم کو لازم قرار دیتے ہیں ، امام مالک ، داود اور ابن المنذر کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اور اس کے ترک سے کوئی چیز لازم نہیں آتی   


Translation

Sayyidina Harith ibn Abdullah ibn Aws (RA) narrated that he heard the Prophet ﷺ say, “One who performs the Hajj of this House, or the Umrah, let his last rite be tawaf of the House.” Sayyidiana Umar .(RA) said to him, “How sad! You heard this from Allah’s Messenger 3i and did not inform us of it!”  


باب  حائضہ کون کون سے افعال کرسکتی ہے


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيکٌ عَنْ جَابِرٍ وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ حِضْتُ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْضِيَ الْمَنَاسِکَ کُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی الْعَمَلُ عَلَی هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الْمَنَاسِکَ کُلَّهَا مَا خَلَا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  مجھے حیض آگیا چناچہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا  

  

  امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث اس طریق کے علاوہ سے بھی عائشہ سے مروی ہے۔  

اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ حائضہ خانہ کعبہ کے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرے گی

  میں جابر جعفی سخت ضعیف ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) 

  وضاحت 

 بخاری و مسلم کی روایت میں ہے «أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت» یعنی حج کا تلبیہ پکارو اور وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے  


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) said, “I was menstruating. So the Prophet ﷺ commanded me to observe all the rituals except the tawaf of House.


باب  طواف زیارت کے بعد کسی عورت کو حیض آجانا


حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ فَلْيَکُنْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ إِلَّا الْحُيَّضَ وَرَخَّصَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  جس نے بیت اللہ کا حج کیا، اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف  (وداع)  ہونا چاہیئے حائضہ عورتوں کے سوا کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے انہیں رخصت دی ہے


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے 


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) said, “One who performs the Hajj must make the last tawaf at the House, but Allah’s Messenger ﷺ has allowed women to go without observing it.  


باب  حائضہ کون کون سے افعال کرسکتی ہے


حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ الْجَزَرِيُّ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ عِکْرِمَةَ وَمُجَاهِدٍ وَعَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النُّفَسَائَ وَالْحَائِضَ تَغْتَسِلُ وَتُحْرِمُ وَتَقْضِي الْمَنَاسِکَ کُلَّهَا غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفَ بِالْبَيْتِ حَتَّی تَطْهُرَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) یہ حدیث رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے بیان کی ہے کہ  نفاس اور حیض والی عورتیں غسل کریں گی، تلبیہ پکاریں گی اور تمام مناسک حج ادا کریں گی البتہ وہ خانہ کعبہ کا طواف نہیں کریں گی جب تک کہ پاک نہ ہوجائیں ۔    


امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے    


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated the hadith from the Prophet ﷺ that women who experience lochia and those who have menees may bathe themselves and assume the ihram. They must observe all rites of Hajj except the tawaf of the House (which they may perform) on purifying.   -----------------


باب  قارن صرف ایک طواف کرے


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ قَالُوا الْقَارِنُ يَطُوفُ طَوَافًا وَاحِدًا وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَطُوفُ طَوَافَيْنِ وَيَسْعَی سَعْيَيْنِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْکُوفَةِ


ترجمہ

 جابر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حج اور عمرہ دونوں کو ملا کر ایک ساتھ کیا اور ان کے لیے ایک ہی طواف کیا 


 امام ترمذی کہتے ہیں 

جابر (رض) کی حدیث حسن ہے  

 اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے 

صحابہ کرام (رض) وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حج قران کرنے والا ایک ہی طواف کرے گا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے

 اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ وہ دو طواف اور دو سعی کرے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔  

 حجاج بن ارطاة اور ابوالزبیر دونوں مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)


 وضاحت 

 اس حدیث سے جمہور نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ قارن کے لیے ایک ہی طواف کافی ہے۔ اور اس سے مراد «طواف بین الصفا والمروۃ» یعنی سعی ہے نہ کہ خانہ کعبہ کا طواف ، کیونکہ نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حجۃ الوداع میں عمرہ میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا ، اور یوم النحر کو طواف افاضہ بھی کیا ، البتہ طواف افاضہ میں صفا و مروہ کی سعی نہیں کی  ( دیکھئیے صحیح مسلم کتاب الحج باب رقم : ١٩)   


Translation

Sayyidina Jabir (RA) said, that Allah’s Messenger ﷺ performed the qiran (which combines) Hajj and Umrah. He made only one tawaf for both.  


باب  قارن صرف ایک طواف کرے


حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ أَجْزَأَهُ طَوَافٌ وَاحِدٌ وَسَعْيٌ وَاحِدٌ عَنْهُمَا حَتَّی يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِهِ الدَّرَاوَرْدِيُّ عَلَی ذَلِکَ اللَّفْظِ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ وَهُوَ أَصَحُّ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اس کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے یہاں تک کہ وہ ان دونوں کا احرام کھول دے 

  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے  

 اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں عبدالعزیز دراوردی منفرد ہیں، اسے دوسرے کئی اور لوگوں نے بھی عبیداللہ بن عمر  (العمری)  سے روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said, “Onewho has assumed the ihram for Hajj and Umrah should suffice with one tawaf and sa’i for both till he comes out of the sacredstate from both.”  


باب  حج اور عمرے سے واپسی پر کیا کہے


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوَةً أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ فَعَلَا فَدْفَدًا مِنْ الْأَرْضِ أَوْ شَرَفًا کَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَائِحُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَائِ وَأَنَسٍ وجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  جب کسی غزوے، حج یا عمرے سے لوٹتے اور کسی بلند مقام پر چڑھتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے، پھر کہتے 

 «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو علی كل شيء قدير آيبون تائبون عابدون سائحون لربنا حامدون صدق اللہ وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب» 

 اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ سلطنت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم لوٹنے والے ہیں، رجوع کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سیر و سیاحت کرنے والے ہیں، اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا ہی ساری فوجوں کو شکست دے دی 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے  

 اس باب میں براء، انس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

   

Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) said that whenever the Prophet ﷺ returned from a battle or Hajj or Umrah and came across a height or an uneven place, he called the takbir (Allahu Akbar) three times and said:  There is no God but Allah Who is Alone and Who has no partner. To Him belongs the dominion and for Him is all praise, and He is over all things Powerful. We return repentant, worshipping, returners for our Lord, glorifying and praising our Lord. Allah made His promise true and helped .His slave and He alone routed the confederates.  


باب  مہاجر حج کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ سَمِعَ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ الْحَضْرَمِيِّ يَعْنِي مَرْفُوعًا قَالَ يَمْکُثُ الْمُهَاجِرُ بَعْدَ قَضَائِ نُسُکِهِ بِمَکَّةَ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مَرْفُوعًا


ترجمہ

 علاء بن حضرمی (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  مہاجر اپنے حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکہ میں تین دن ٹھہر سکتا ہے 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 اور اس سند سے اور طرح سے بھی یہ حدیث مرفوعاً روایت کی گئی ہے


 وضاحت 

 پہلے منیٰ سے لوٹنے کے بعد مہاجرین کی مکہ میں اقامت جائز نہیں تھی ، بعد میں اسے جائز کردیا گیا اور تین دن کی تحدید کردی گئی ، اس سے زیادہ کی اقامت اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ اس نے اس شہر کو اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ دیا ہے لہٰذا اس سے زیادہ وہ وہاں قیام نہ کرے ، ورنہ یہ اس کے واپس آ جانے کے مشابہ ہوگا  ( یہ مدینے کے مہاجرین مکہ کے لیے خاص تھا  )


Translation

Sayyidina Ata ibn Hadrami (RA) reported in a marfu’ form that the muhajir must tarry in Makkah for three days after having observed his rites (pertaining to Hajj). 


باب  اگر محرم احرام کی حالت میں سر منڈ ادے تو کیا حکم ہے


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَابْنِ أَبِي نَجِيحٍ وَحُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ وَعَبْدِ الْکَرِيمِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَکَّةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ وَهُوَ يُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَهَافَتُ عَلَی وَجْهِهِ فَقَالَ أَتُؤْذِيکَ هَوَامُّکَ هَذِهِ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ احْلِقْ وَأَطْعِمْ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاکِينَ وَالْفَرَقُ ثَلَاثَةُ آصُعٍ أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ انْسُکْ نَسِيکَةً قَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ أَوْ اذْبَحْ شَاةً قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا حَلَقَ رَأْسَهُ أَوْ لَبِسَ مِنْ الثِّيَابِ مَا لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَلْبَسَ فِي إِحْرَامِهِ أَوْ تَطَيَّبَ فَعَلَيْهِ الْکَفَّارَةُ بِمِثْلِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ترجمہ

 کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کے پاس سے گزرے، وہ حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے۔ اور ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے۔ جوئیں ان کے منہ پر گر رہی تھیں تو آپ نے پوچھا 

 کیا یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ کہا 

 ہاں، آپ نے فرمایا 

 سر منڈوا لو اور چھ مسکینوں کو ایک فرق کھانا کھلا دو ،  (فرق تین صاع کا ہوتا ہے)  یا تین دن کے روزے رکھ لو۔ یا ایک جانور قربان کر دو ۔ ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے  یا ایک بکری ذبح کر دو 


امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے 

صحابہ کرام (رض) وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب اپنا سر مونڈا لے، یا ایسے کپڑے پہن لے جن کا پہننا احرام میں درست نہیں یا خوشبو لگالے۔ تو اس پر اسی کے مثل کفارہ ہوگا جو نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے مروی ہے

  

Translation

Sayyidina Ka’b ibn Ujrah (RA) reported that the Prophet ﷺ passed by him in Hudaybiyah before enterring Makkah while he was a muhrim, kindling a fire un a vessel and lice infested his face. He (the Prophet) asked him, ‘Do they trouble you?” He said, “Yes.” So, the Prophet ﷺ said, “Shave your head and feed a faraq to six poor people-and a faraq is three sa-or fast three days, or sacrifice an animal.” The version of lbn Nujayh has, “or sacrifice a goat.”  


باب  محرم اگر آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہوجائے تو صَبِر ( ایلوے) کالیپ کرے


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَی عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ اشْتَکَی عَيْنَيْهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَسَأَلَ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ فَقَالَ اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَذْکُرُهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يَتَدَاوَی الْمُحْرِمُ بِدَوَائٍ مَا لَمْ يَکُنْ فِيهِ طِيبٌ


ترجمہ

 نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ  عمر بن عبیداللہ بن معمر کی آنکھیں دکھنے لگیں، وہ احرام سے تھے، انہوں نے ابان بن عثمان سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا 

 ان میں ایلوے کا لیپ کرلو، کیونکہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو اس کا ذکر کرتے سنا ہے، وہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے روایت کر رہے تھے آپ نے فرمایا 

  ان پر ایلوے کا لیپ کرلو  

 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ محرم کے ایسی دوا سے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جس میں خوشبو نہ ہو


وضاحت 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایلوے ، یا اس جیسی چیز جس میں خوشبو نہ ہو سے آنکھوں میں لیپ لگانا جائز ہے ، اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں ہوگا ، رہیں ایسی چیزیں جن میں خوشبو ہو تو بوقت ضرورت و حاجت ان سے بھی لیپ کرنا درست ہوگا ، لیکن اس پر فدیہ دینا ہوگا ، علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ بوقت ضرورت محرم کے لیے آنکھ میں سرمہ لگانا جس میں خوشبو نہ ہو جائز ہے ، اس سے اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں آئے گا ، البتہ زینت کے لیے سرمہ لگانے کو امام شافعی وغیرہ نے مکروہ کہا ہے ، اور ایک جماعت نے اس سے منع کیا ہے ، امام احمد اور اسحاق کی بھی یہی رائے ہے کہ زینت کے لیے سرمہ لگانا درست نہیں


Translation

Nubayh ibn Wahb reported that Umar ibn Ubaydullah ibn Ma’mar had eye trouble while he was a muhrjm. He asked Aban ibn Uthman who said, “Give them a dressin with aloes. For, I had heard Uthman ibn Affan mention that Allah’s Messenger ﷺ said : Dress that with aloes.” 


باب  محرم جو احرام میں مر جائے


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَرَأَی رَجُلًا قَدْ سَقَطَ مِنْ بَعِيرِهِ فَوُقِصَ فَمَاتَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَائٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُهِلُّ أَوْ يُلَبِّي قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا مَاتَ الْمُحْرِمُ انْقَطَعَ إِحْرَامُهُ وَيُصْنَعُ بِهِ کَمَا يُصْنَعُ بِغَيْرِ الْمُحْرِمِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گرپڑا، اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا وہ محرم تھا، تو آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

 اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے انہی  (احرام کے)  دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور اس کا سر نہ چھپاؤ، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،  

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب محرم مرجاتا ہے تو اس کا احرام ختم ہوجاتا ہے، اور اس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ کیا جائے گا جو غیر محرم کے ساتھ کیا جاتا ہے

   وضاحت

 یہ قول حنفیہ اور مالکیہ کا ہے ، ان کی دلیل ابوہریرہ کی حدیث «إذا مات ابن آدم انقطع عمله» ہے اور باب کی حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ممکن ہے نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو وحی کے ذریعہ یہ بتادیا گیا ہو کہ یہ شخص مرنے کے بعد اپنے احرام ہی کی حالت میں باقی رہے گا ، یہ خاص ہے اسی آدمی کے ساتھ ، لیکن کیا اس خصوصیت کی کوئی دلیل ہے ؟ ، ایسی فقہ کا کیا فائدہ جو قرآن وسنت کی نصوص کے ہی خلاف ہو 


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) s narrated that they were with the Prophet ﷺ a ourney. They saw a man fall down from his camel. He broke his neck and died. He was a muhrim. So, Allah’s Messenger ﷺ said, “Give him a bath with water and lotus leaves, shroud him in his two garments and do not cover his head, for, he will be raised on the Day of Resurrection reciting the Kalimah or the talbiyah.” (The narrator said the tahlil or the talbiyah)  


باب  چرواہوں کو اجازت ہے کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑیں


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرِعَائِ الْإِبِلِ فِي الْبَيْتُوتَةِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَجْمَعُوا رَمْيَ يَوْمَيْنِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ فَيَرْمُونَهُ فِي أَحَدِهِمَا قَالَ مَالِکٌ ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَالَ فِي الْأَوَّلِ مِنْهُمَا ثُمَّ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّفْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ


ترجمہ

 عاصم بن عدی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے اونٹ کے چرواہوں کو  (منی میں  )  رات گزارنے کے سلسلہ میں رخصت دی کہ وہ دسویں ذی الحجہ کو  (جمرہ عقبہ کی)  رمی کرلیں۔ پھر دسویں ذی الحجہ کے بعد کے دو دنوں کی رمی جمع کر کے ایک دن میں اکٹھی کرلیں  

(مالک کہتے ہیں 

میرا گمان ہے کہ راوی نے کہا)   پہلے دن رمی کرلے پھر کوچ کے دن رمی کرے 


امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ ابن عیینہ کی عبداللہ بن ابی بکر سے روایت والی حدیث سے زیادہ صحیح ہے

 وضاحت 

اس جمع کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ تیرہویں کو بارہویں اور تیرہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں ، دوسری صورت یہ ہے کہ گیارہویں کو گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں پھر تیرہویں کو آ کر رمی کریں

  

Translation

Abu al-Baddah ibn Aasim ibn Adi reported from his father that Allah’s Messenger ﷺ allowed the cameiherds to not stay in Mina and to cast pebbles on the day of sacrifice and after that make rami of two days together after the day of sacrifice on one of the days. Maalik said: I imagine that he said, “On the first of those days and then on the day of departure.” 



حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ حَيَّانَ قَال سَمِعْتُ مَرْوَانَ الْأَصْفَرَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عَلِيًّا قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ فَقَالَ بِمَ أَهْلَلْتَ قَالَ أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنَّ مَعِي هَدْيًا لَأَحْلَلْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ


ترجمہ

 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  علی (رض) رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا 

  تم نے کیا تلبیہ پکارا، اور کون سا احرام باندھا ہے ؟  انہوں نے عرض کیا 

 میں نے وہی تلبیہ پکارا، اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے پکارا، اور جو احرام رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے باندھا ہے  

 آپ نے فرمایا 

  اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا


  امام ترمذی کہتے ہیں 

یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے


 وضاحت 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے احرام کو دوسرے کے احرام پر معلق کرنا جائز ہے

 یعنی 

 عمرہ کے بعد احرام کھول دیتا ، پھر ٨ ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھنا ، جیسا کہ حج تمتع میں کیا جاتا ہے ، مذکورہ مجبوری کی وجہ سے آپ نے قران ہی کیا ، ورنہ تمتع کرتے ، اس لیے تمتع افضل ہے  


Translation

Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) narrated that Sayyidina Ali came to Allah’s Messenger ﷺ from Yaman. He asked, “What intention have you formed?” He said, “I have formed the same intention that Allah’s Messenger ﷺ has formed.” He said, “If I did not have with me the hadi then I would have come out of the ihram.”  


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ وَرِوَايَةُ ابْنِ عُيَيْنَةَ مَوْقُوفًا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ مَرْفُوعًا هَکَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا


ترجمہ

 علی (رض) کہتے ہیں کہ  حج اکبر  (بڑے حج)  کا دن دسویں ذی الحجہ کا دن ہے  


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن ابی عمر نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور ابن عیینہ کی موقوف روایت محمد بن اسحاق کی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح بہت سے حفاظ حدیث نے اسے بسند «أبي إسحق عن الحارث عن علي» موقوفاً روایت کیا ہے، شعبہ نے بھی ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے انہوں نے یوں کہا ہے «عن عبد اللہ بن مرة عن الحارث عن علي موقوفا»  


 وضاحت 

 دسویں تاریخ کو حج اکبر  ( بڑا حج  )  اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی دن حج کے اکثر افعال انجام دیئے جاتے ہیں ، مثلاً جمرہ عقبہ کی رمی  ( کنکری مارنا  )  ، حلق  ( سر منڈوانا  )  ، ذبح ، طواف زیارت وغیرہ اعمال حج ، اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں جس میں دسویں تاریخ جمعہ کو آ پڑی ہو ، تو اس کی کوئی اصل نہیں ، رہی طلحہ بن عبیداللہ بن کرز کی روایت «أفضل الأيام يوم عرفه وإذا وافق يوم جمعة فهو أفضل من سبعين حجة في غير يوم جمعة» تو یہ مرسل ہے ، اور اس کی سند بھی معلوم نہیں ، اور حج اصغر سے جمہور عمرہ مراد لیتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حج اصغر یوم عرفہ ہے اور حج اکبر یوم النحر

 یعنی شعبہ والی روایت میں ابواسحاق سبیعی اور حارث کے درمیان عبداللہ بن مرہ کے واسطے کا اضافہ ہے جب کہ دیگر حفاظ کی روایت میں ایسا نہیں ہے  


Translation

Sayyidina Ali (RA) said, “The day of the Hajj Akbar is the day of sacrifice,” and he did not trace the hadith to the Prophet ﷺ


حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ فَقَالَ يَوْمُ النَّحْرِ


ترجمہ

 علی (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے پوچھا 

 حج اکبر  (بڑے حج)  کا دن کون سا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا 

 «یوم النحر»  قربانی کا دن 

 (سند میں حارث اعور سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)    


Translation

Sayyidina Ali said that he asked Allah’s Messenger ﷺ “What day is the Hajj Akbar (the greater pilgrimage)?” He said, ‘On the day of sacrifice      (10th Dhul Hajjah).”



حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلَاةِ إِلَّا أَنَّکُمْ تَتَکَلَّمُونَ فِيهِ فَمَنْ تَکَلَّمَ فِيهِ فَلَا يَتَکَلَّمَنَّ إِلَّا بِخَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ وَغَيْرُهُ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا وَلَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَتَکَلَّمَ الرَّجُلُ فِي الطَّوَافِ إِلَّا لِحَاجَةٍ أَوْ يَذْکُرُ اللَّهَ تَعَالَی أَوْ مِنْ الْعِلْمِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  بیت اللہ کے گرد طواف نماز کے مثل ہے۔ البتہ اس میں تم بول سکتے ہو  (جب کہ نماز میں تم بول نہیں سکتے)  تو جو اس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے

 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث ابن طاؤس وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفاً روایت کی ہے۔ ہم اسے صرف عطاء بن سائب کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،  

 اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ اس بات کو مستحب قرار دیتے ہیں کہ آدمی طواف میں بلا ضرورت نہ بولے  (اور اگر بولے)  تو اللہ کا ذکر کرے یا پھر علم کی کوئی بات کہے 


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “The tawaf round the House is like the salah except that you converse during it (the tawaf). And, he who converses does not do so except with a good word.”



حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجَرِ وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَی مَنْ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا 

  اللہ کی قسم ! اللہ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جس سے یہ دیکھے گا، ایک زبان ہوگی جس سے یہ بولے گا۔ اور یہ اس شخص کے ایمان کی گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ  (یعنی ایمان اور اجر کی نیت سے)  اس کا استلام کیا ہوگا

 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے


 وضاحت 

 یعنی اس کو چوما یا چھوا ہوگا یہ حدیث اپنے ظاہر ہی پر محمول ہوگی اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ حجر اسود کو آنکھیں اور زبان دیدے اور دیکھنے اور بولنے کی طاقت بخش دے بعض لوگوں نے اس حدیث کی تاویل کی ہے کہ یہ کنایہ ہے حجر اسود کا استلام کرنے والے کو ثواب دینے اور اور اس کی کوشش کو ضائع نہ کرنے سے لیکن یہ محض فلسفیانہ موشگافی ہے ، صحیح یہی ہے کہ حدیث کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے۔ اور ایسا ہونے پر ایمان لایا جائے


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said concerning the (Black) stone, “By Allah! Allah will raise it on the Day of Resurrection such that it will have two eyes with which it will see, and a tongue whereby it will speak to give testimony over those who made its istilam with truth, (meaning) touched it or kissed it truly).” 



حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يُزَاحِمُ عَلَی الرُّکْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّکَ تُزَاحِمُ عَلَی الرُّکْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُزَاحِمُ عَلَيْهِ فَقَالَ إِنْ أَفْعَلْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مَسْحَهُمَا کَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاهُ کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَةٍ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لَا يَضَعُ قَدَمًا وَلَا يَرْفَعُ أُخْرَی إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ خَطِيئَةً وَکَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ


ترجمہ

 عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ  ابن عمر (رض) حجر اسود اور رکن یمانی پر ایسی بھیڑ لگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تو میں نے پوچھا 

 ابوعبدالرحمٰن ! آپ دونوں رکن پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا ؟ تو انہوں نے کہا 

 اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو فرماتے سنا ہے 

  ان پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے 

  جس نے اس گھر کا طواف سات مرتبہ  (سات چکر)  کیا اور اسے گنا، تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔  اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے 

  وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہر ایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اور ایک نیکی لکھے گا 


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے  

 حماد بن زید نے بطریق 

 «عطا بن السائب، عن ابن عبید بن عمير، عن ابن عمر» روایت کی ہے اور اس میں انہوں نے ابن عبید کے باپ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے

 

Translation

Abu Ubayd ibn Umayr reported from his father that Sayyidina ibn Umar used to crowd (stop) at the two corners. So, he said to him, “O Abu Abdur Rahman! you stop at the two corners making a crowd. I have not seen any of the Prophet’s ﷺ companions stop here.” He said, “If I do that then I had heard Allah’s Messenger ﷺ say, ‘The touching of these two is an atonement of sins’. And I had heard him say, ‘If anyone makes circuit of this House seven times and counts them then it is like setting a slave free’. And, I had heard him say, ‘Hardly is a foot put down (during tawaf) and the other raised, but Allah obliterates by it sin from him and ious deed is recorded for him’.”  



حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا کَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ وَتُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَحْمِلُهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ


ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ  وہ زمزم کا پانی ساتھ مدینہ لے جاتی تھیں، اور بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے  


  امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں

 (سند میں خلاد بن یزید جعفی کے حفظ میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے


    وضاحت 

 اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاجیوں کے لیے زمزم کا پانی مکہ سے اپنے وطن لے جانا مستحب ہے 


Translation

Sayyidah Ayshah (RA) reported that she used to carry the water of zamzam with her. She also reported that Allah’s Messenger ﷺ (also) carried it (with him).


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَدَّهِنُ بِالزَّيْتِ وَهُوَ مُحْرِمٌ غَيْرِ الْمُقَتَّتِ قَالَ أَبُو عِيسَی الْمُقَتَّتُ الْمُطَيَّبُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَقَدْ تَکَلَّمَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ وَرَوَی عَنْهُ النَّاسُ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  حالت احرام میں زیتون کا تیل لگاتے تھے اور یہ  (تیل)  بغیر خوشبو کے ہوتا تھا 


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف فرقد سبخی کی روایت سے جانتے ہیں، اور فرقد نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے فرقد سبخی کے سلسلے میں کلام کیا ہے، اور فرقد سے لوگوں نے روایت کی ہے،  ٢- مقتت کے معنی خوشبودار کے ہیں


 وضاحت 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے زیتون کا تیل جس میں خوشبو کی ملاوٹ نہ ہو لگانا جائز ہے ، لیکن حدیث ضعیف ہے  


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that the Prophet ﷺ used to apply to himself while he was a muhrim olive oil which was not perfumed.  



حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ حَدِّثْنِي بِشَيْئٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ صَلَّی الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ قَالَ بِمِنًی قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ صَلَّی الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ قَالَ بِالْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَ افْعَلْ کَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ إِسْحَقَ بْنِ يُوسُفَ الْأَزْرَقِ عَنْ الثَّوْرِيِّ


ترجمہ

 عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ  میں نے انس بن مالک (رض) سے کہا

 مجھ سے آپ کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  سے یاد کر رکھی ہو۔ بتائیے آپ نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کہاں پڑھی ؟ انہوں نے کہا 

 منیٰ میں،  (پھر)  میں نے پوچھا 

 اور کوچ کے دن عصر کہاں پڑھی ؟ کہا 

 ابطح میں لیکن تم ویسے ہی کرو جیسے تمہارے امراء و حکام کرتے ہیں


 امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے  

 اور اسحاق بن یوسف الازرق کی روایت سے غریب جانی جاتی ہے جسے انہوں نے ثوری سے روایت کی ہے


Translation

Abdul Aziz ibn Rafay narrated that he asked Sayyidina Anas (RA), “Narrate to me something of what you learnt from Allah’s Messenger ﷺ . Where did he pray the zuhr on the day of tarwiyah      (8th Dhul Hajjah)?” He said, “At Mina.” He asked, “And where did he pray the asr on the day of departure?” He said, “At Abtah.” And he said, “Do as your chiefs do.” 


No comments:

Powered by Blogger.