Unit 7/ Tirmizi/ Zakat

 



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : زکوة نہ دینے پر رسول اللہ ﷺ سے منقول وعید


حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ التَّمِيمِيُّ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ جِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ قَالَ فَرَآنِي مُقْبِلًا فَقَالَ هُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَقُلْتُ مَا لِي لَعَلَّهُ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْئٌ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ الْأَکْثَرُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ هَکَذَا وَهَکَذَا وَهَکَذَا فَحَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَکَاتَهَا إِلَّا جَائَتْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا کَانَتْ وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا کُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّی يُقْضَی بَيْنَ النَّاسِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِثْلُهُ وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَةِ وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ أَبِي ذَرٍّ جُنْدَبُ بْنُ السَّکَنِ وَيُقَالُ ابْنُ جُنَادَةَ


ترجمہ

 ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ  میں رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھا تو فرمایا :  رب کعبہ کی قسم ! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے   ٢ ؎ میں نے اپنے جی میں کہا : شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔ میں نے عرض کیا : کون لوگ ؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ؟ تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  یہی لوگ جو بہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسا ایسا کرے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھر کر اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا :  قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو بھی آدمی اونٹ اور گائے چھوڑ کر مرا اور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہو کر آئیں گے جتنا وہ تھے  ٣ ؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اور اپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کا آخری جانور بھی گزر چکے گا تو پھر پہلا لوٹا دیا جائے گا  ٤ ؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے۔ 

   امام ترمذی کہتے ہیں  ابوذر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی کے مثل روایت ہے علی (رض) سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ( یہ حدیث)  قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد ہلب سے روایت کی ہے، نیز جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ 


Translation

Sayyidina Abu Dharr (RA) narrated saying I came to AlIahs Messenger ﷺ while he was sitting in the shade of the Ka’hah. He saw me coming and said. ‘They are the losers on the Day of Resurrection, by the Lord of the Kahah I thought perhaps something was revealed concerning me. So, I asked, ‘Who are they-may my parents be ransomed to you!” He said, “They are the wealthy except those who spend here and there”. Then, he scooped his hands and gestured to his front, right and left, and said, ‘By Him, in Whose Hand is my soul, no man dies leaving a camel or a cow against whom he has not paid zakah hut the same animal will come mightier and fatter than what it is and crush him under its hooves and pas away striking him with its horns Every time the second will pass away, the first animal will come back, till people have finished their reckoning



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب  : زکوة نہ دینے پر رسول اللہ ﷺ سے منقول وعید


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَکِيمِ بْنِ الدَّيْلَمِ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ مُزَاحِمٍ قَالَ الْأَکْثَرُونَ أَصْحَابُ عَشَرَةِ آلَافٍ قَالَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ مَرْوَزِيٌّ رَجُلٌ صَالِحٌ


                                                                                  ترجمہ  

 ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ «الأکثرون» سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس دس ہزار  (درہم یا دینار)  ہوں۔ 


       وضاحت

 زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرا رکن ہے ، اس کے لغوی معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں ، زکاۃ کو زکاۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ زکاۃ دینے والے کے مال کو بڑھاتی اور زیادہ کرتی ہے ، اور ایک قول یہ ہے کہ اس کے معنی پاک کرنے کے ہیں اور زکاۃ کو زکاۃ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ مال کو پاک کرتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں سے پاک کرتی ہے ، اس کی فرضیت کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے ، اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ ٢ ھ میں فرض ہوئی اور محققین علماء کا خیال ہے کہ یہ فرض تو مکہ میں ہی ہوگئی تھی مگر اس کے تفصیلی احکام مدینہ ٢ ھ میں نازل ہوئے۔   یا تو آپ کسی فرشتے سے بات کر رہے تھے ، یا کوئی خیال آیا تو آپ نے «هم الأخسرون» فرمایا۔  یہ عذاب عالم حشر میں ہوگا حساب و کتاب سے پہلے۔  یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابر چلتا رہے گا۔ 

Translation



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب. : زکوة کی ادائیگی سے کا فرض ادا ہونا


حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَدَّيْتَ زَکَاةَ مَالِکَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ أَنَّهُ ذَکَرَ الزَّکَاةَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا فَقَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَتَطَوَّعَ وَابْنُ حُجَيْرَةَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمَصْرِيُّ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کردی تو جو تمہارے ذمہ فریضہ تھا اسے تم نے ادا کردیا

  امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے نبی اکرم  ﷺ  سے دوسری اور سندوں سے بھی مروی ہے کہ آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا، تو ایک شخص نے عرض کیا  اللہ کے رسول  کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا  نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل کچھ دو   (یہ حدیث آگے آرہی ہے)     


   وضاحت 

یعنی مال کے حق میں سے تمہارے اوپر مزید کوئی اور ضروری حق نہیں کہ اس کے نکالنے کا تم سے مطالبہ کیا جائے ، رہے صدقہ فطر اور دوسرے ضروری نفقات تو یہ مال کے حقوق میں سے نہیں ہیں ، ان کے وجوب کا سبب نفس مال نہیں بلکہ دوسری وقتی چیزیں ہیں مثلاً قرابت اور زوجیت وغیرہ بعض نے کہا کہ ان واجبات کا وجوب زکاۃ کے بعد ہوا ہے اس لیے ان سے اس پر اعتراض درست نہیں۔ 

 

Translation

Sayyidina Abu Hurayrah reported that the Prophet ﷺ said, “When you have paid the zakah on your property, you have, indeed, discharged your obligation”.   [Ibn e Majah 1788]


کتاب: زکوۃ کا بیان


باب : زکوة کی ادائیگی سے فرض ادا ہونا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کُنَّا نَتَمَنَّی أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَبَيْنَا نَحْنُ کَذَلِکَ إِذْ أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَکَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَکَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَائَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّهُ أَرْسَلَکَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَکَ زَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَکَ آللَّهُ أَمَرَکَ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَکَ زَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَکَ آللَّهُ أَمَرَکَ بِهَذَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَکَ زَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّکَاةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَکَ آللَّهُ أَمَرَکَ بِهَذَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَکَ زَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَی الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَکَ آللَّهُ أَمَرَکَ بِهَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ ثُمَّ وَثَبَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْقِرَائَةَ عَلَی الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْهِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ترجمہ


 انس (رض) کہتے ہیں کہ  ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی  (دیہاتی)  آئے اور نبی اکرم  ﷺ  سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں   ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا  اور آپ  ﷺ  کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا اے محمد ! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے  (کیا یہ صحیح ہے ؟ ) ۔ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے  اس نے کہا  قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا   ہاں  اس نے کہا  آپ کا قاصد ہم سے کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں  (کیا ایسا ہے ؟ )  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  ہاں  اس نے کہا  قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنایا ہے  کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا  ہاں  اس نے کہا  آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں  ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں  (کیا یہ صحیح ہے ؟ )  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا   ہاں وہ  (سچ کہہ رہا ہے)  اعرابی نے مزید کہا  قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  ہاں  (دیا ہے)  اس نے کہا  آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں  ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے  (کیا یہ صحیح ہے ؟ )  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  ہاں  (اس نے سچ کہا)  اس نے کہا  قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  ہاں (دیا ہے)  اس نے کہا آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو  (کیا یہ سچ ہے ؟ )  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  ہاں (حج فرض ہے)  اس نے کہا  قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  ہاں  (دیا ہے)  تو اس نے کہا  قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا  پھر یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا تب نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا 

   امام ترمذی کہتے ہیں  یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے اور اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا  وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں  اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کر سنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے   انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرم  ﷺ  کو معلومات پیش کیں تو نبی اکرم  ﷺ  نے اس کی تصدیق فرمائی۔  


     وضاحت 

 کیونکہ ہمیں سورة المائدہ میں نبی اکرم  ﷺ  سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کا علم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے ٢  اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے مسلم کی روایت میں «والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص» کے الفاظ آئے ہیں یعنی «سماع من لفظ الشیخ» کی طرح «القراءۃ علی الشیخ» ( استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا  )  بھی جائز ہے ، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ «قراءۃ علی الشیخ» جائز نہیں  صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ «سماع من لفظ الشیخ» (استاذ کی زبان سے سننے  )  کا ہے اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت «سمعت ، سمعنا  حدثنا ، حدثني ، أخبرنا  أخبرني ، أنبأنا ، أنبأني» کے صیغے استعمال کرتا ہے ، اس کے برخلاف «قراءۃ علی الشیخ» (استاذ پر پڑھنے  )  کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد «قرأت علی فلان» يا «قري علی فلان وأنا أسمع»  يا «حدثنا فلان قرائة عليه» کہہ کر روایت کرتا ہے۔ 


Translation

Sayyidina Anas (RA) said, “ We would long or an intelligent villager to come and put question to the the Prophet ﷺ while we were with him. So, we were with this hope when, suddenly, an arahi (villager) came and sat down (humbly) on folded legs before the Prophet ﷺ . He said, “O Muhammad ﷺ ! your envoy came to us and informed us that you claim that Allah has sent you as His Messenger”. The Prophet ﷺ said, “Yes”. He asked, “By Him who has raised the sky, and stretched the earth, and pitched the mountains has Allah sent you?” l’he Prophet ﷺ said, ‘Yes”. He said, “Your envoy informed us that you claim that prayer is prescribed on us five times during a day and night’. So the Prophet ﷺ said “Yes”. He said, “By Him who has sent you, has Allah commanded you with that?” He said, “Yes!. He said, Your envoy told us that you claim that fasting is prescribed for us one month in a year”. The Prophet ﷺ said, “He has spoken the truth”. He said, “By Him who has sent you, has Allah commanded you with that?” So, the Prophet ﷺ said, “Yes!” He said, “And your envoy told us that you claim that it is an obligation on us to pay zakah on our properties”. So, the Prophet ﷺ -, said, “He has spoken the truth”. He said, “By Him who has sent you, has Allah enjoined it upon you?” The Prophet ﷺ said, “Yes!” He said, “Your envoy impressed upon us that you claim that hajj to the House of Allah is an obligation on those of us who can afford to undertake it”. So, the Prophet ﷺ said, “Yes”. He said, “By Him who has sent you, has Allah enjoined it upon you?” He said, “Yes!” So he said, “By Him who has sent you with the truth! I will not deduct anything from it, nor add anything to it”. Then, he got up and departed. The Prophet ﷺ said to his Companions (RA), “If the villager speaks the truth then he will enter Paradise”.   [Ahmed12459, Bukhari 63, Muslim 12, Nisai 2087]



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب. : اونٹ اور بکریوں کی زکوة


حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ کَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَتَبَ کِتَابَ الصَّدَقَةِ فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَی عُمَّالِهِ حَتَّی قُبِضَ فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِهِ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی قُبِضَ وَعُمَرُ حَتَّی قُبِضَ وَکَانَ فِيهِ فِي خَمْسٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاةٌ وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَی خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَی خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَی سِتِّينَ فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَی خَمْسٍ وَسَبْعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَی تِسْعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي کُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي کُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ وَفِي الشَّائِ فِي کُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَی مِائَتَيْنِ فَإِذَا زَادَتْ فَثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَی ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي کُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ وَمَا کَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ و قَالَ الزُّهْرِيُّ إِذَا جَائَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّائَ أَثْلَاثًا ثُلُثٌ خِيَارٌ وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ وَثُلُثٌ شِرَارٌ وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنْ الْوَسَطِ وَلَمْ يَذْکُرْ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ وَبَهْزِ بْنِ حَکِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَائِ وَقَدْ رَوَی يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ وَإِنَّمَا رَفَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے زکاۃ کی دستاویز تحریر کرائی ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا  آپ وفات فرما گئے تو ابوبکر (رض) اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے ان کے بعد عمر (رض) بھی اسی پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے اس کتاب میں تحریر تھا پانچ اونٹوں میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دو سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دو سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دو سال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔ اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا  چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے، ایک سو بیس تک، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو دو سو تک میں دو بکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہر سو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چار سو کو پہنچ جائیں، اور  (زکاۃ والے)  متفرق  (مال)  کو جمع نہیں کیا جائے گا   اور جو مال جمع ہو اسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا   اور جن میں دو ساجھی دار ہوں   تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا 

 زہری کہتے ہیں  جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے۔ زہری نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔

    امام ترمذی کہتے ہیں  ابن عمر کی حدیث حسن ہے یونس بن یزید اور دیگر کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے اور زہری نے سالم سے روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے اور اسی پر عام فقہاء کا عمل ہے اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔     


    وضاحت 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم  ﷺ  کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح  کتابت حدیث  کا عمل شروع ہوگیا تھا ، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے  ( قرآن کے علاوہ  )  اپنے ارشادات وفرامین اور احکام خود بھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی  ( تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول  ﷺ  کے باب «ما جاء فی رخصۃ کتابۃ العلم» میں دیکھ لیں۔   یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور محصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے متفرق کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو ، جب زکاۃ لینے والا آئے تو تینوں نے زکاۃ کے ڈر سے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کردیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔   اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں ان میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے ، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔  مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں فرض کیجئیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے  اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں ، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔    


Translation

Saalim ibn Abdullah reported from his father that Allah’s Messenger ﷺ compiled the Book of Sadaqah. It had not been sent to the collectors before he died. He had placed it near his sword. When he took over Abu Bakr (RA) complied with it in his actions till he died, and then (RA) till he died. It was recorded in it that a sheep is given for every five camels, two against ten camels, three against fifteen camels, and four against twenty camels. Then, between twenety-five and thirty-five camels, a she-camel of one year age is given, above that till forty-five camels, a two-years old she-camel is given; above that up to sixty camels, a three-year old she-camel is given; then up to seventy-five camels, a four-year old she-camel is given. If their number exceeds that then up to ninety camels, two two-year old she-camels are given. More than that up to a hundred and twenty, two three-year old she camels are given. Above a hundred and twenty, a three-year old she-camel is given against every fifty camels and against every forty camels, one two-year old she-camel is paid in zakah.  Concerning sheep, one sheep is given against forty sheep till their number is a hundred and twenty. Then, over that till two hundred sheep, two sheep are given. When that is exceeded up to three hundred sheep, three sheep are paid. Therefter, against every hundred sheep, one sheep is given (in zakah). Then, nothing is paid till the number reaches one hundred.  And, sheep or camels of different people are not put together. Also, a single flock is not to be separ[ed to evade (payment of) zakah. And if there are two partners then they must divide (their liabilities) in equal share (among themselves).  And, zakah is not to be accepted if an old and a defective animal is offered.  Luhri said When the collector comes, he must divide the flock into three kinds the best, the average and the poor category. The collector must collect from the average category.  And, Zuhri did not say anything about cows.



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب. : اونٹ اور بکریوں کی زکوة




حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ کَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَتَبَ کِتَابَ الصَّدَقَةِ فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَی عُمَّالِهِ حَتَّی قُبِضَ فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِهِ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی قُبِضَ وَعُمَرُ حَتَّی قُبِضَ وَکَانَ فِيهِ فِي خَمْسٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاةٌ وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَی خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَی خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَی سِتِّينَ فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَی خَمْسٍ وَسَبْعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَی تِسْعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي کُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي کُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ وَفِي الشَّائِ فِي کُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَی مِائَتَيْنِ فَإِذَا زَادَتْ فَثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَی ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي کُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ وَمَا کَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ و قَالَ الزُّهْرِيُّ إِذَا جَائَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّائَ أَثْلَاثًا ثُلُثٌ خِيَارٌ وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ وَثُلُثٌ شِرَارٌ وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنْ الْوَسَطِ وَلَمْ يَذْکُرْ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ وَبَهْزِ بْنِ حَکِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَائِ وَقَدْ رَوَی يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ وَإِنَّمَا رَفَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے زکاۃ کی دستاویز تحریر کرائی ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا  آپ وفات فرما گئے تو ابوبکر (رض) اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے ان کے بعد عمر (رض) بھی اسی پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے اس کتاب میں تحریر تھا پانچ اونٹوں میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دو سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دو سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دو اونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دو سال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔ اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا  چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے، ایک سو بیس تک، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو دو سو تک میں دو بکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہر سو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چار سو کو پہنچ جائیں، اور  (زکاۃ والے)  متفرق  (مال)  کو جمع نہیں کیا جائے گا   اور جو مال جمع ہو اسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا   اور جن میں دو ساجھی دار ہوں   تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا 

 زہری کہتے ہیں  جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے۔ زہری نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔

    امام ترمذی کہتے ہیں  ابن عمر کی حدیث حسن ہے یونس بن یزید اور دیگر کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے اور زہری نے سالم سے روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے اور اسی پر عام فقہاء کا عمل ہے اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔     


    وضاحت 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم  ﷺ  کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح  کتابت حدیث  کا عمل شروع ہوگیا تھا ، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے  ( قرآن کے علاوہ  )  اپنے ارشادات وفرامین اور احکام خود بھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی  ( تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول  ﷺ  کے باب «ما جاء فی رخصۃ کتابۃ العلم» میں دیکھ لیں۔   یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور محصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے متفرق کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو ، جب زکاۃ لینے والا آئے تو تینوں نے زکاۃ کے ڈر سے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کردیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔   اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں ان میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے ، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔  مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں فرض کیجئیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے  اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں ، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔    


Translation

Saalim ibn Abdullah reported from his father that Allah’s Messenger ﷺ compiled the Book of Sadaqah. It had not been sent to the collectors before he died. He had placed it near his sword. When he took over Abu Bakr (RA) complied with it in his actions till he died, and then (RA) till he died. It was recorded in it that a sheep is given for every five camels, two against ten camels, three against fifteen camels, and four against twenty camels. Then, between twenety-five and thirty-five camels, a she-camel of one year age is given, above that till forty-five camels, a two-years old she-camel is given; above that up to sixty camels, a three-year old she-camel is given; then up to seventy-five camels, a four-year old she-camel is given. If their number exceeds that then up to ninety camels, two two-year old she-camels are given. More than that up to a hundred and twenty, two three-year old she camels are given. Above a hundred and twenty, a three-year old she-camel is given against every fifty camels and against every forty camels, one two-year old she-camel is paid in zakah.  Concerning sheep, one sheep is given against forty sheep till their number is a hundred and twenty. Then, over that till two hundred sheep, two sheep are given. When that is exceeded up to three hundred sheep, three sheep are paid. Therefter, against every hundred sheep, one sheep is given (in zakah). Then, nothing is paid till the number reaches one hundred.  And, sheep or camels of different people are not put together. Also, a single flock is not to be separ[ed to evade (payment of) zakah. And if there are two partners then they must divide (their liabilities) in equal share (among themselves).  And, zakah is not to be accepted if an old and a defective animal is offered.  Luhri said When the collector comes, he must divide the flock into three kinds the best, the average and the poor category. The collector must collect from the average category.  And, Zuhri did not say anything about cows.



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب. : سونے اور چاندی پر زکوة


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ کُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْئٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی رَوَی هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُمَا عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ کِلَاهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ يُحْتَمَلُ أَنْ يَکُونَ رُوِيَ عَنْهُمَا جَمِيعًا


ترجمہ

 علی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا  میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ معاف کردی ہے  تو اب تم چاندی کی زکاۃ ادا کرو  ہر چالیس درہم پر ایک درہم ایک سو نوے درہم میں کچھ نہیں ہے جب دو سو درہم ہوجائیں تو ان میں پانچ درہم ہیں 

  امام ترمذی کہتے ہیں  اعمش اور ابو عوانہ، وغیرہم نے بھی یہ حدیث بطریق «أبي إسحاق عن عاصم بن ضمرة عن علي» روایت کی ہے، اور سفیان ثوری سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق  «أبي إسحاق عن الحارث عن علي» روایت کی ہے  میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا  ابواسحاق سبیعی سے مروی یہ دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں احتمال ہے کہ یہ حارث اور عاصم دونوں سے ایک ساتھ روایت کی گئی ہو  (تو ابواسحاق نے اسے دونوں سے روایت کیا ہو)   اس باب میں ابوبکر صدیق اور عمرو بن حزم سے بھی احادیث آئی ہیں 

   

وضاحت

 جب وہ تجارت کے لیے نہ ہوں «رقہ» خالص چاندی کو کہتے ہیں خواہ وہ ڈھلی ہو یا غیر ڈھلی اس سے معلوم ہوا کہ چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اس سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں


Translation

Savyidina Ali (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “I have written off zakah on horses and slaves. So, pay zakah on silver, one dirham against every forty dirhams. I want nothing on one hundred and ninety dirhams, but if it comes to two hundred then it is five dirhams on that


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : گائے بیل کی زکوة


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي ثَلَاثِينَ مِنْ الْبَقَرِ تَبِيعٌ أَوْ تَبِيعَةٌ وَفِي کُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَکَذَا رَوَاهُ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ وَعَبْدُ السَّلَامِ ثِقَةٌ حَافِظٌ وَرَوَی شَرِيکٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ أَبِيهِ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دو سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے  (دانتی یعنی دو دانت والی) 

   امام ترمذی کہتے ہیں  عبدالسلام بن حرب نے اسی طرح یہ حدیث خصیف سے روایت کی ہے اور عبدالسلام ثقہ ہیں حافظ ہیں شریک نے بھی یہ حدیث بطریق «خصيف عن أبي عبيدة عن أمه عن عبد الله» روایت کی ہے اور ابوعبیدہ بن عبداللہ کا سماع اپنے والد عبداللہ سے نہیں ہے اس باب میں معاذ بن جبل (رض) سے بھی روایت ہے   (شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں اور ابو عبیدة کا اپنے باپ ابن مسعود (رض) سے سماع نں یو ہے)    


Translation

Sayyidina Abdullah ibn Masud reported that the Prophet ﷺ said, ‘For every thirty cows or oxen, one cow or ox is paid. For every forty, a cow of two years old



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : گائے بیل کی زکوة


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی الْيَمَنِ فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ کُلِّ ثَلَاثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً وَمِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْيَمَنِ فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ وَهَذَا أَصَحُّ


ترجمہ

 معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں  نبی اکرم  ﷺ  نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں ہر تیس گائے پر ایک سال کا بچھوا یا بچھیا زکاۃ میں لوں اور ہر چالیس پر دو سال کی بچھیا زکاۃ میں لوں اور ہر  (ذمّی)  بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑے بطور جزیہ لوں  

   امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق  «سفيان، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن مسروق» مرسلاً روایت کی ہے    کہ نبی اکرم  ﷺ  نے معاذ کو یمن بھیجا اور اس میں «فأمرني أن آخذ» کے بجائے «فأمره أن يأخذ» ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے      


 وضاحت  

 معافر ہمدان کے ایک قبیلے کا نام ہے اسی کی طرف منسوب ہے اس حدیث میں گائے کے تفصیلی نصاب کا ذکر ہے  ساتھ ہی غیر مسلم سے جزیہ وصول کرنے کا بھی حکم ہے اس میں معافر کا ذکر نہیں ہے  اس کی تخریج ابن ابی شیبہ نے کی ہے یعنی یہ مرسل روایت اوپر والی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ مسروق کی ملاقات معاذ بن جبل (رض) سے نہیں ہے  ترمذی نے اسے اس کے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے  



Translation

Sayyidina Mu’adh ibnJabal said that the Prophet ﷺ sent him to Yemen. He commanded him to take from every thirty cattle a male or a female calf of a year old, and from every forty a two year old cow, and from every young man, one dinar or garments of equal value (towards izyah)



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : گائے بیل کی زکوة


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ هَلْ يَذْکُرُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ شَيْئًا قَالَ لَا


ترجمہ

 عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ  میں نے ابوعبیدہ بن عبداللہ سے پوچھا کیا وہ  (اپنے والد)  عبداللہ بن مسعود (رض) سے کوئی چیز یاد رکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا   نہیں


Translation

Muhammad ibn Bashshar reported from Muhammad ibn Jafar, from Shu’bah, from Amr ibn Murrah that he asked Abu Ubaydah: Do you remember any saying of Abdutlah? And he said, No.



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : زکوة میں عمدہ مال لینا مکروہ ہے


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا زَکَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ الْمَکِّيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْيَمَنِ فَقَالَ لَهُ إِنَّکَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ کِتَابٍ فَادْعُهُمْ إِلَی شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَإِيَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ وَفِي الْبَاب عَنْ الصُّنَابِحِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَعْبَدٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ اسْمُهُ نَافِذٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے معاذ (رض) کو یمن  (کی طرف اپنا عامل بنا کر)  بھیجا اور ان سے فرمایا :  تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، تم انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء و مساکین کو لوٹا دی جائے گی   اگر وہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کو بچانا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا

 امام ترمذی کہتے ہیں  ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے اس باب میں صنابحی (رض)  سے بھی روایت ہے 


وضاحت  

اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے  مقامی فقراء سے اگر زکاۃ بچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے  بظاہر اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے  لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے «أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث کانوا» اور اس کے تحت یہی حدیث ذکر کی ہے اور «فقراؤهم» میں «هم» کی ضمیر کو مسلمین کی طرف لوٹایا ہے یعنی مسلمانوں میں سے جو بھی محتاج ہو اسے زکاۃ دی جائے خواہ وہ کہیں کا ہو۔  صنابحی سے مراد صنابح بن اعسرا حمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں


Translation

Sayyidina ibn Abbas (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ sent Mu’adh to Yemen. He instructed him : You will come to a people who are ot the scripture, so invite them to bear witness that there is no God but Allah and that I am Allah’s Messenger ﷺ . If they submit to that inform them that Allah has made obligatory for them the five prayers during day and night. If they obey that then inform them that Allah has prescribed on them sadaqah on their wealth to be acquired from their wealthy and paid to their poor. If they submit to that then refrain from taking the best portion of their property as zakah. And, fear the supplication of the wronged one, for there is not any veil between the petition and Allah.


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : کھیتی پھلوں اور غلے کی زکوة


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو


ترجمہ

 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا  پانچ اونٹوں   سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ  چاندنی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے   امام ترمذی کہتے ہیں اس باب میں ابوہریرہ، ابن عمر، جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔  


  وضاحت 

یہ اونٹوں کا نصاب ہے اس سے کم میں زکاۃ نہیں اوقیہ چالیس درہم ہوتا ہے ، اس حساب سے ٥ اوقیہ دو سو درہم کے ہوئے  موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم ٥٩٥ گرام کے برابر ہے  ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے پانچ وسق کے تین سو صاع ہوئے موجودہ وزن کے حساب سے تین سو صاع کا وزن تقریباً  ( ٧٥٠) کلوگرام یعنی ساڑھے سات کو ئنٹل بنتا ہے۔



Translation

Sayyidina Abu Sa’eed Khudri (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “There is no zakah on less than five camels. There is no zakah on less than five ooqiyah silver. And, there is not zakah on less than five awsaqO of grain.



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : گھوڑے اور غلام پر زکوٰۃ نہیں


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ وَشُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِي فَرَسِهِ وَلَا فِي عَبْدِهِ صَدَقَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْخَيْلِ السَّائِمَةِ صَدَقَةٌ وَلَا فِي الرَّقِيقِ إِذَا کَانُوا لِلْخِدْمَةِ صَدَقَةٌ إِلَّا أَنْ يَکُونُوا لِلتِّجَارَةِ فَإِذَا کَانُوا لِلتِّجَارَةِ فَفِي أَثْمَانِهِمْ الزَّکَاةُ إِذَا حَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ


ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  مسلمان پر نہ اس کے گھوڑوں میں زکاۃ ہے اور نہ ہی اس کے غلاموں میں زکاۃ ہے  

  امام ترمذی کہتے ہیں  ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے اس باب میں علی اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ پالتو گھوڑوں میں جنہیں دانہ چارہ باندھ کر کھلاتے ہیں زکاۃ نہیں اور نہ ہی غلاموں میں ہے جب کہ وہ خدمت کے لیے ہوں الاّ یہ کہ وہ تجارت کے لیے ہوں اور جب وہ تجارت کے لیے ہوں تو ان کی قیمت میں زکاۃ ہوگی جب ان پر سال گزر جائے


   وضاحت  

اس حدیث کے عموم سے ظاہر یہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ گھوڑے اور غلام میں مطلقاً زکاۃ واجب نہیں گو وہ تجارت ہی کے لیے کیوں نہ ہوں  لیکن یہ صحیح نہیں ہے  گھوڑے اور غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ بالاجماع واجب ہے جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے اسے نقل کیا ہے لہٰذا اجماع اس کے عموم کے لیے مخص ہوگا


Translation

Sayyidina Abu Hurayrah reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “No sadaqah (zakah) is due from a Muslim on his horse and on his slave



سنن الترمذی

کتاب: زکوۃ کا بیان

باب: کھیتی پھلوں اور غلے کی زکوة


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْهُ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا وَخَمْسَةُ أَوْسُقٍ ثَلَاثُ مِائَةِ صَاعٍ وَصَاعُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثٌ وَصَاعُ أَهْلِ الْکُوفَةِ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا وَخَمْسُ أَوَاقٍ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ يَعْنِي لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ مِنْ الْإِبِلِ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مِنْ الْإِبِلِ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ وَفِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنْ الْإِبِلِ فِي کُلِّ خَمْسٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاةٌ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  ابو سعید خدری (رض) نے نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے جیسے عبدالعزیز بن محمد کی حدیث ہے جسے انہوں نے عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے  (جو اوپر گزر چکی ہے) 

    امام ترمذی کہتے ہیں ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے ان سے یہ روایت اور بھی کئی طرق سے مروی ہے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور پانچ وسق میں تین سو صاع ہوتے ہیں نبی اکرم  ﷺ  کا صاع ساڑھے پانچ رطل کا تھا اور اہل کوفہ کا صاع آٹھ رطل کا، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور پانچ اوقیہ کے دو سو درہم ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے جب پچیس اونٹ ہوجائیں تو ان میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے اور پچیس اونٹ سے کم میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری زکاۃ ہے



Translation

Muhammad ibn Bashshar reported from Abdur Rahman ibn Mahdi who from Sufyan who from Shu’bah who from Maalik ibn Anas who from Amr ibn Yahya who from his father who from Sayyidina Abu Saeed Khudri and he from the Prophet ﷺ a hadith like the hadith of Abdul Aziz (RA) reported by Amr ibn Yahya.



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : شہد کی زکوہ


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ التِّنِّيسِيُّ عَنْ صَدَقَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُوسَی بْنِ يَسَارٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَسَلِ فِي کُلِّ عَشَرَةِ أَزُقٍّ زِقٌّ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَيَّارَةَ الْمُتَعِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ وَلَا يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَابِ کَبِيرُ شَيْئٍ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ فِي الْعَسَلِ شَيْئٌ وَصَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَيْسَ بِحَافِظٍ وَقَدْ خُولِفَ صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ نَافِعٍ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  شہد میں ہر دس مشک پر ایک مشک زکاۃ ہے   

  امام ترمذی کہتے ہیں  اس باب میں ابوہریرہ ابوسیارہ متعی اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں ابن عمر (رض) کی حدیث کی سند میں کلام ہے   نبی اکرم  ﷺ  سے اس باب میں کچھ زیادہ صحیح چیزیں مروی نہیں اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ شہد میں کوئی زکاۃ نہیں صدقہ بن عبداللہ حافظ نہیں ہیں نافع سے اس حدیث کو روایت کرنے میں صدقہ بن عبداللہ کی مخالفت کی گئی ہے


 وضاحت 

 کیونکہ اس کی روایت میں صدقہ بن عبداللہ منفرد ہیں اور وہ ضعیف ہیں امام بخاری اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں کہ شہد کی زکاۃ کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “As for honey, against every ten skins, (zakah is) one skin.


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : شہد کی زکوہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ سَأَلَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ صَدَقَةِ الْعَسَلِ قَالَ قُلْتُ مَا عِنْدَنَا عَسَلٌ نَتَصَدَّقُ مِنْهُ وَلَكِنْ أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ أَنَّهُ قَالَ لَيْسَ فِي الْعَسَلِ صَدَقَةٌ فَقَالَ عُمَرُ عَدْلٌ مَرْضِيٌّ فَكَتَبَ إِلَى النَّاسِ أَنْ تُوضَعَ يَعْنِي عَنْهُمْ


ترجمہ

 نافع کہتے ہیں کہ  مجھ سے عمر بن عبدالعزیز نے شہد کی زکاۃ کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ ہمارے پاس شہد نہیں کہ ہم اس کی زکاۃ دیں لیکن ہمیں مغیرہ بن حکیم نے خبر دی ہے کہ شہد میں زکاۃ نہیں ہے تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا  یہ مبنی برعدل اور پسندیدہ بات ہے۔ چناچہ انہوں نے لوگوں کو لکھا کہ ان سے شہد کی زکاۃ معاف کردی جائے

Translation


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب: مال مستفاد میں زکوة نہیں جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَنْ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَکَاةَ فِيهِ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی أَيُّوبُ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَهُوَ کَثِيرُ الْغَلَطِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا زَکَاةَ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا کَانَ عِنْدَهُ مَالٌ تَجِبُ فِيهِ الزَّکَاةُ فَفِيهِ الزَّکَاةُ وَإِنْ لَمْ يَکُنْ عِنْدَهُ سِوَی الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّکَاةُ لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ زَکَاةٌ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ فَإِنْ اسْتَفَادَ مَالًا قَبْلَ أَنْ يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ فَإِنَّهُ يُزَکِّي الْمَالَ الْمُسْتَفَادَ مَعَ مَالِهِ الَّذِي وَجَبَتْ فِيهِ الزَّکَاةُ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْکُوفَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں  جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر زکاۃ نہیں جب تک کہ اس کے ہاں اس مال پر ایک سال نہ گزر جائے

   امام ترمذی کہتے ہیں  یہ  (موقوف)  حدیث عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی  (مرفوع)  حدیث سے زیادہ صحیح ہے ایوب، عبیداللہ بن عمر اور دیگر کئی لوگوں نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر سے موقوفاً  (ہی)  روایت کی ہے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں احمد بن حنبل، علی بن مدینی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے ان کی تضعیف کی ہے وہ کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مالک بن انس، شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس پہلے سے اتنا مال ہو جس میں زکاۃ واجب ہو تو حاصل شدہ مال میں بھی زکاۃ واجب ہوگی اور اگر اس کے پاس حاصل شدہ مال کے علاوہ کوئی اور مال نہ ہو جس میں زکاۃ واجب ہوئی ہو تو کمائے ہوئے مال میں بھی کوئی زکاۃ واجب نہیں ہوگی جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، اور اگر اسے  (پہلے سے نصاب کو پہنچے ہوئے)  مال پر سال گزرنے سے پہلے کوئی کمایا ہوا مال ملا تو وہ اس مال کے ساتھ جس میں زکاۃ واجب ہوگئی ہے مال مستفاد کی بھی زکاۃ نکالے گا سفیان ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں


Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said, “One who acquires property is not liable to pay zakah thereon till a year passes (over it)


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : مال مستفاد میں زکوة نہیں جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔


حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الطَّلْحِيُّ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَکَاةَ عَلَيْهِ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّهِ وَفِي الْبَاب عَنْ سَرَّائَ بِنْتِ نَبْهَانَ الْغَنَوِيَّةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :  جسے کوئی مال حاصل ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر اس کے مالک کے یہاں ایک سال نہ گزر جائے 

 امام ترمذی کہتے ہیں  اس باب میں سراء بنت نبھان غنویہ (رض) سے بھی روایت ہے



Translation

Ubaydullah ibn Umar narrated that Umar ibn Abdul Aziz (RA) asked him about zakah on honey. So, he said, “We have no honey on which to pay zakah, but Mughirab ibn Haakim informed us, ‘There is no zakah on honey.’” Umar ibn Abdul Aziz (RA) said, “Justice pleases.” He wrote to the people that it was relaxed-from them.


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : مسلمانوں پر جزیہ نہیں


حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَکْثَمَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ فِي أَرْضٍ وَاحِدَةٍ وَلَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ جِزْيَةٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا  ایک سر زمین پر دو قبلے ہونا درست نہیں  اور نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے  


   وضاحت  

ایک سر زمین پر دو قبلے کا ہونا درست نہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایک سر زمین پر دو دین والے بطور برابری کے نہیں رہ سکتے کوئی حاکم ہوگا کوئی محکوم نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے کا مطلب یہ ہے کہ ذمیوں میں سے کوئی ذمی اگر جزیہ کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہوگیا ہو تو اس سے جزیہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا


Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, ‘Two qiblahs are not suitable on one land and there is no jizyah on the Muslims


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : مسلمانوں پر جزیہ نہیں


حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ قَابُوسَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَجَدِّ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ النَّصْرَانِيَّ إِذَا أَسْلَمَ وُضِعَتْ عَنْهُ جِزْيَةُ رَقَبَتِهِ وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ جِزْيَةَ الرَّقَبَةِ وَفِي الْحَدِيثِ مَا يُفَسِّرُ هَذَا حَيْثُ قَالَ إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْيَهُودِ وَالنَّصَارَی وَلَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  قابوس سے اسی طرح مروی ہے    امام ترمذی کہتے ہیں  ابن عباس کی حدیث قابوس بن ابی ظبیان سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم  ﷺ  سے مرسلاً روایت کی ہے اس باب میں سعید بن زید اور حرب بن عبیداللہ ثقفی کے دادا سے بھی احادیث آئی ہیں اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ نصرانی جب اسلام قبول کرلے تو اس کی اپنی گردن کا جزیہ معاف کردیا جائے گا اور نبی اکرم  ﷺ  کے فرمان «ليس علی المسلمين عشور»  مسلمانوں پر عشر نہیں ہے  کا مطلب بھی گردن کا جزیہ ہے اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کردی گئی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا   عشر صرف یہود و نصاریٰ پر ہے مسلمانوں پر کوئی عشر نہیں 

  وضاحت  یہ حدیث سنن ابی داود میں ہے اس حدیث کا تشریح  المرقاۃ شرح المشکاۃ  اور  عون المعبود  میں دیکھ لیں  کچھ وضاحت اس مقام پر  تحفۃ الأحوذی  میں بھی آ گئی ہے اور عشر سے مراد ٹیکس ہے


Translation

Abu Kurayb reported from Jabir who from Qabus through the same sanad a similar hadith.



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : زیور کی زکوة


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَتْ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَائِ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّکُنَّ فَإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا  اے گروہ عورتوں کی جماعت زکاۃ دو  گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی 


   وضاحت 

  مولف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مراد لی ہے کیونکہ «تصدقن» امر کا صیغہ ہے اور امر میں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے  لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے اور اس سے مراد نفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کو ہے جو وہاں موجود تھیں اور ان میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہوگی اور اس سے زیور کی زکاۃ کے وجوب پر استدلال صحیح نہیں ہوگا    


Translation

Sayyidah Zaynab (RA) wife of Sayyidina Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger addressed them, the woman. He said, “O women! Give sadaqah even if it is from your jewellery, for, on the Day of resurrection, you will form a majority of the dewellers of Hell


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : زیور کی زکوة


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَتْ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَائِ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّکُنَّ فَإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا  اے گروہ عورتوں کی جماعت زکاۃ دو  گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی 


   وضاحت 

  مولف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مراد لی ہے کیونکہ «تصدقن» امر کا صیغہ ہے اور امر میں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے  لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے اور اس سے مراد نفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کو ہے جو وہاں موجود تھیں اور ان میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہوگی اور اس سے زیور کی زکاۃ کے وجوب پر استدلال صحیح نہیں ہوگا    


Translation

Sayyidah Zaynab (RA) wife of Sayyidina Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger addressed them, the woman. He said, “O women! Give sadaqah even if it is from your jewellery, for, on the Day of resurrection, you will form a majority of the dewellers of Hell


کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : زیور کی زکوة


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَهِمَ فِي حَدِيثِهِ فَقَالَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ وَالصَّحِيحُ إِنَّمَا هُوَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ إِبْنِ أَخِي زَيْنَبَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَأَی فِي الْحُلِيِّ زَکَاةً وَفِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ مَقَالٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِکَ فَرَأَی بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ فِي الْحُلِيِّ زَکَاةَ مَا کَانَ مِنْهُ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ و قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ وَعَائِشَةُ وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ لَيْسَ فِي الْحُلِيِّ زَکَاةٌ وَهَکَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ


ترجمہ

 اس سند سے بھی  عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب (رض) کے واسطے سے نبی اکرم  ﷺ  سے اسی طرح مروی ہے 

   امام ترمذی کہتے ہیں  یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ انہیں اپنی حدیث میں وہم ہوا ہے   انہوں نے کہا ہے  عمرو بن الحارث سے روایت ہے وہ عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب کے بھتیجے سے روایت کر رہے ہیں  اور صحیح یوں ہے  زینب کے بھتیجے عمرو بن حارث سے روایت ہے نیز عمرو بن شعیب سے بطریق  «عن أبيه، عن جده، عبدالله بن عمرو بن العاص عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت ہے کہ آپ نے زیورات میں زکاۃ واجب قرار دی ہے اس حدیث کی سند میں کلام ہےاہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم سونے چاندی کے زیورات میں زکاۃ کے قائل ہیں سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک بھی یہی کہتے ہیں اور بعض صحابہ کرام جن میں ابن عمر، عائشہ جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک (رض) شامل ہیں، کہتے ہیں کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے بعض تابعین فقہاء سے بھی اسی طرح مروی ہے اور یہی مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں


  وضاحت  

کیونکہ انہوں نے عمرو بن حارث اور عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب کے بھتیجے کو دو الگ الگ آدمی جانا ہے اور پہلا دوسرے سے روایت کر رہا ہے جب کہ معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ دونوں ایک ہی آدمی ہیں  ابن اخی زینب  عمرو بن حارث کی صفت ہے عمرو بن حارث اور ابن اخی زینب کے درمیان «عن» کی زیادتی ابومعاویہ کا وہم ہے صحیح بغیر «عن» کے ہے جیسا کہ شعبہ کی روایت میں ہے اس سلسلہ میں بہتر اور مناسب بات یہ ہے کہ استعمال کے لیے بنائے گئے زیورات اگر فخر ومباہات اور اسراف وتبذیر کے لیے اور زکاۃ سے بچنے کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ ہے بصورت دیگر ان میں زکاۃ واجب نہیں ہے سونے کے زیورات کی زکاۃ کا نصاب ساڑھے سات تولے یعنی ٨٠ گرام اصلی سونا ہے کہ کم از کم اتنے وزن اصلی سونے پر ایک سال گزر جائے تو مالک ٥٠۔ ٢% کے حساب سے زکاۃ ادا کرے یاد رکھیے اصلی خالص سونا ہال قیراط ہوتا ہے 


Translation

Mabmud ibn Ghaylan reported a similar hadith from Abu Dawood, from Shuh’ah who from Amash from Abu Wail, Amr ibn Harith the nephew of Sayyidah Zaynab’s (RA) wife Of Sayyidina Abdullah (RA) from her from the Prophet.



کتاب : زکوۃ کا بیان


باب : زیور کی زکوة


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ أَتَتَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي أَيْدِيهِمَا سُوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ لَهُمَا أَتُؤَدِّيَانِ زَکَاتَهُ قَالَتَا لَا قَالَ فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَکُمَا اللَّهُ بِسُوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ قَالَتَا لَا قَالَ فَأَدِّيَا زَکَاتَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ الْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ نَحْوَ هَذَا وَالْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ وَابْنُ لَهِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئٌ


ترجمہ

 عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ  دو عورتیں رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن تھے تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تم دونوں اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو ؟  انہوں نے عرض کیا نہیں تو رسول اللہ  ﷺ  نے ان سے فرمایا کیا تم پسند کرو گی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دو کنگن پہنائے ؟  انہوں نے عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا  تو تم دونوں ان کی زکاۃ ادا کرو

 امام ترمذی کہتے ہیں  اس حدیث کو مثنیٰ بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح روایت کیا ہے اور مثنیٰ بن صباح اور ابن لہیعہ دونوں حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں نبی اکرم  ﷺ  سے اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے 

یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، مگر دوسری سند اور دوسرے سیاق سے یہ حدیث حسن ہے


Translation

Amr ibri Shu’ayb reported from his father who from his grandfather that two women came to Allah’s Messenger ﷺ . They had two bracelets in their hands. He asked them, “Have you both paid the zakah against these? They said “No!” So, he asked them, “Would you like that Allah should make you wear bracelets of fire?’ They said, “No!” So, he said, “Pay zakah against them

No comments:

Powered by Blogger.