Unit 3 / Tirmizi / Book on Al-Witr / Hadith 461- 498

 


 Unit 3 

 Hadith 461 - 498 

کتاب الوتر   


باب ما جاء فی فضل الوتر

حدیث 461
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ أَنَّهُ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ أَمَدَّکُمْ بِصَلَاةٍ هِيَ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ جَعَلَهُ اللَّهُ لَکُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَائِ إِلَی أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ وَقَدْ وَهِمَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزُّرَقِيِّ وَهُرَ وَهَمٌ فِي هَذَا وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ اسْمُهُ حُمَيْلُ بْنُ بَصْرَةَ و قَالَ بَعْضُهُمْ جَمِيلُ بْنُ بَصْرَةَ وَلَا يَصِحُّ وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ رَجُلٌ آخَرُ يَرْوِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ

ترجمہ
 خارجہ بن حذافہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ  (حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر ہے، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے نماز عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک رکھا ہے 

  امام ترمذی کہتے ہیں 
 خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں بعض محدثین کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، انہوں نے عبداللہ بن راشد زرقی کہا ہے، یہ وہم ہے  (صحیح «زوفی» ہے)  اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، بریدہ، اور ابو بصرہ غفاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔  ابو بصرہ غفاری کا نام حمیل بن بصرہ ہے، اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اور ابو بصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جو ابوذر (رض) سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر کے بھتیجے ہیں۔     

  وضاحت 
 ایک روایت میں «زادکم» کا لفظ بھی آیا ہے ، حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے ، کیونکہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے ، تو جب پانچ وقتوں کی نماز واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی ، علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے ، ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا ، اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ  ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی نماز فرض کی ہے ؟ تو رسول اللہ  ﷺ  نے جواب دیا کہ نہیں ، نیز  مزید  کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے 

Translation
Sayyidina Kharijah ibn Huzafah reported that Allah’s Messenger ﷺ came their way. He said, ‘Surely, Allah has helped you with a salah that is better for you than red camels: the witr! Allah has assigned it for you between the salah of isha and the rise of dawn.”


باب ما جاءان الوتر لیس بحتم

حدیث 462
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ کَصَلَاتِکُمْ الْمَکْتُوبَةِ وَلَکِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی 

ترجمہ
علی (رض) کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے بلکہ رسول اللہﷺ نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق)  ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن ! تم وتر پڑھا کرو۔

  امام ترمذی کہتے ہیں
  علی (رض) کی حدیث حسن ہے،اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔  

وضاحت
اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت  مؤکدہ ہے۔ اللہ وتر (طاق)  ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔ صحابہ کرام (رض) اجمعین کو نبی اکرمﷺ نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

Translation
Sayyidina Ali (RA) said, “The witr is not fard like your prescribed prayers. But, it is the sunnah of Allah’s Messenger ﷺ who said: Surely Allah is witr (one). He loves witr, so offer the witr, “O people of the Quran.


حدیث 463 
وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . حَدَّثَنَا بِذَلِكَ َ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، ‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ

ترجمہ
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں : وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق «أبی اسحاق عن عاصم بن حمزة عن علی» روایت کیا ہے اور یہ روایت ابوبکر بن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسے منصور بن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔ 

Translation 
Sufyan Ath-Thawri and others reported from Abu Ishaq, from Asim bin Damrah, that :
Ali said:   Al-Witr is not incumbent like the status of the obligatory prayers, but it is a Sunnah which Allah's Messenger practiced.


باب ما جاء فی کراھیة النوم قبل الوتر

حدیث 464
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ عِيسَی بْنِ أَبِي عَزَّةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي ثَوْرٍ الْأَزْدِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ قَالَ عِيسَی بْنُ أَبِي عَزَّةَ وَکَانَ الشَّعْبِيُّ يُوتِرُ أَوَّلَ اللَّيْلِ ثُمَّ يَنَامُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو ثَوْرٍ الْأَزْدِيُّ اسْمُهُ حَبِيبُ بْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ لَا يَنَامَ الرَّجُلُ حَتَّی يُوتِرَ 

ترجمہ
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ میں وتر سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ اس باب میں ابوذر (رض) سے بھی روایت ہے صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ آدمی جب تک وتر نہ پڑھ لے نہ سوئے۔ 

Translation
Sayyidina Abu Hurairah (RA) said that Allah’s Messenger (RA) commanded him to offer the witr before going to sleep.


حدیث 465
وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ خَشِيَ مِنْکُمْ أَنْ لَا يَسْتَيْقِظَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ أَوَّلِهِ وَمَنْ طَمِعَ مِنْکُمْ أَنْ يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّ قِرَائَةَ الْقُرْآنِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ وَهِيَ أَفْضَلُ

ترجمہ

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری پہر  میں نہیں اٹھ سکے گا، تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتا ہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے  پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہ افضل وقت ہے۔


باب ما جاء فی الوتر من اول اللیل وآخرہ

حدیث 466
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ وَثَّابٍ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مِنْ کُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ أَوَّلَهُ وَأَوْسَطَهُ وَآخِرَهُ فَانْتَهَی وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ إِلَی السَّحَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی أَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ وَأَبِي قَتَادَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوِتْرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ

ترجمہ
 مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا  آپﷺ  نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں علی، جابر، ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے۔ 

وضاحت 
ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے، وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے، اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے، اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔ 

Translation
Masruq asked Sayyidah Aisha (RA) about the Prophet’s ﷺ witr. She said, “He offered the witr in the night, the first of it, the middle of it and the last of it. So, he ended his witr about the time of his death towards the last of the night (at the time of sahr, before dawn before his death).


باب ما جاء فی الوتر بسبع

حدیث 467
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَکْعَةً فَلَمَّا کَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَتْرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ وَإِحْدَی عَشْرَةَ وَتِسْعٍ وَسَبْعٍ وَخَمْسٍ وَثَلَاثٍ وَوَاحِدَةٍ قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ مَعْنَی مَا رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ قَالَ إِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَکْعَةً مَعَ الْوِتْرِ فَنُسِبَتْ صَلَاةُ اللَّيْلِ إِلَی الْوِتْرِ وَرَوَی فِي ذَلِکَ حَدِيثًا عَنْ عَائِشَةَ وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ قَالَ إِنَّمَا عَنَی بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ يَقُولُ إِنَّمَا قِيَامُ اللَّيْلِ عَلَی أَصْحَابِ الْقُرْآنِ

ترجمہ
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں نبی اکرمﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہوگئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔

 امام ترمذی کہتے ہیں
 ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن ہے۔ اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے نبی اکرمﷺ سے وتر تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک سب مروی ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں: یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد (قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، تو اس میں قیام اللیل  (تہجد)  کو بھی وتر کا نام دے دیا گیا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ (رض) سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرمﷺ کے فرمان  اے اہل قرآن ! وتر پڑھا کرو  سے بھی دلیل لی ہے۔ ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اس سے قیام اللیل مراد لی ہے، اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے  (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر)۔ 

وضاحت 
ہمارے اس نسخے اور ایسے ہی سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں علامہ احمد شاکر کے سنن ترمذی کے نمبرات کا لحاظ کیا گیا ہے، احمد شاکر کے نسخے میں غلطی سے ( ٤٥٨) نمبر نہیں ہے، اس لیے ہم نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے، لیکن اوپر ( ٤٥٥) مکرر آیا ہے اس لیے آگے نمبرات کا تسلسل صحیح ہے۔ 

Translation
Sayyidah Umm Salamah said that the Prophet ﷺ used to offer thirteen raka’at witr. When he grew old and weak, he offered seven. 


باب ما جاء فی الوتر بخمس

حدیث 468
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْکَوْسَجُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَکْعَةً يُوتِرُ مِنْ ذَلِکَ بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْئٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَصَلَّی رَکْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ الْوِتْرَ بِخَمْسٍ وَقَالُوا لَا يَجْلِسُ فِي شَيْئٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسَأَلْتُ أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدِينِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ قُلْتُ کَيْفَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ قَالَ يُصَلِّي مَثْنَی مَثْنَی وَيُسَلِّمُ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ

ترجمہ
 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں نبی اکرمﷺ کی قیام اللیل (تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں، ان (پانچ) میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے، پھر جب مؤذن اذان دیتا تو آپ کھڑے ہوجاتے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابوایوب (رض) سے بھی روایت ہے صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں، ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا۔ میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ  نبی اکرمﷺ  نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرمﷺ نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟ توانہوں نے کہا: آپﷺ  دو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے جاتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔  

Translation
Sayyidah Aisha (RA) said, “The Prophet’s ﷺ salah of the night comprised of thirteen raka’at of which five were witr during which he did not sit down a while, except at the end. Then when the mu’adhdhin called the adhan, he stood up and prayed two light raka’at.


باب ما جاء فی الوتر ثلاث

حدیث 469
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنْ الْمُفَصَّلِ يَقْرَأُ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُهُنَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ وَيُرْوَی أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَکَذَا رَوَی بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ أُبَيٍّ وَذَکَرَ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أُبَيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَی هَذَا وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ بِثَلَاثٍ قَالَ سُفْيَانُ إِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِخَمْسٍ وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِثَلَاثٍ وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِرَکْعَةٍ قَالَ سُفْيَانُ وَالَّذِي أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلَاثِ رَکَعَاتٍ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَأَهْلِ الْکُوفَةِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ کَانُوا يُوتِرُونَ بِخَمْسٍ وَبِثَلَاثٍ وَبِرَکْعَةٍ وَيَرَوْنَ کُلَّ ذَلِکَ حَسَنًا

ترجمہ
علی (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرمﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے، اور سب سے آخر میں «‏قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 اس باب میں عمران بن حصین، ام المؤمنین عائشہ (رض)، ابن عباس، ابوایوب انصاری اور عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے نبی اکرمﷺ سے (براہ راست)  روایت کی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «ابی» کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور بعض نے «ابی» کے واسطے کا ذکر کیا ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے۔  سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو، اور چاہو تو تین رکعت پڑھو، اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔ اور میں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وتر کبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے، کبھی تین اور کبھی ایک، وہ ہر ایک کو مستحسن سمجھتے تھے۔   

وضاحت 
یہ حدیث حارث اعور کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر اس کیفیت کے ساتھ ضعیف ہے، نہ کہ تین رکعت وتر پڑھنے کی بات ضعیف ہے،  کئی ایک صحیح حدیثیں مروی ہیں کہ آپﷺ  تین رکعت وتر پڑتے تھے، پہلی میں «سبح اسم ربک الاعلی» دوسری میں «قل يا ايها الکافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ سارے ائمہ کرام و علماء امت اس بات کے قائل ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے پانچ رکعت پڑھے، چاہے تین، یا ایک، سب کے سلسلے میں صحیح احادیث وارد ہیں، اور یہ بات کہ نہ تین سے زیادہ وتر جائز ہے نہ تین سے کم (ایک) تواس بات کے قائل صرف ائمہ احناف ہیں، وہ بھی دو رکعت کے بعد قعدہ کے ساتھ جس سے وتر کی مغرب سے مشابہت ہوجاتی ہے، جبکہ اس بات سے منع کیا گیا ہے۔

Translation
Sayyidina Ali reported that Allah’s Messenger ﷺ used to offer three raka’at witr. He recited therein nine surah from the mufassal, reciting in each raka’ah three surah, the last being al-lkhlas.


باب ما جاء فی الوتر برکعة

حدیث 470
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقُلْتُ أُطِيلُ فِي رَکْعَتَيْ الْفَجْرِ فَقَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی وَيُوتِرُ بِرَکْعَةٍ وَکَانَ يُصَلِّي الرَّکْعَتَيْنِ وَالْأَذَانُ فِي أُذُنِهِ يَعْنِي يُخَفِّفُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّکْعَتَيْنِ وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَکْعَةٍ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ترجمہ
 انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا: کیا میں فجر کی دو رکعت سنت لمبی پڑھوں؟ تو انہوں نے کہا : نبی اکرمﷺ  تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت، اور فجر کی دو رکعت سنت پڑھتے (گویا کہ)  تکبیر آ کے کانوں میں ہو رہی ہوتی۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں عائشہ، جابر، فضل بن عباس، ابوایوب انصاری اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان  (سلام کے ذریعہ)  فصل کرے، ایک رکعت سے وتر کرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں۔   

وضاحت 
گویا تکبیر آپﷺ  کے دونوں کانوں میں ہو رہی ہوتی کا مطلب ہے کہ فجر کی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادا فرماتے گویا تکبیر کی آواز آپ کے کانوں میں آرہی ہے اور آپ تکبیر تحریمہ فوت ہوجانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں
نبی اکرمﷺ  کی وتر کے بارے میں وارد احادیث میں یہ صورت بھی ہے، اور بغیر سلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے ، اس کو تنگی میں محصور کردینا مناسب نہیں ہے۔ نبی اکرمﷺ کا اس ضمن میں زیادہ عمل، وتر ایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث و آثار تین، پانچ اور ان سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔  

Translation
Anas ibn Sirin reported that he asked Sayyidina Ibn Umar (RA) if he may lengthen the two rakaat of fajr. He said, ‘The Prophet ﷺ prayed in the night in two’s and (finally) one raka’ah of witr. And offered the two raka’at (of fajr) with the adhan in his ears.


باب ما جاء ما یقرا فی الوتر

حدیث 471
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيکٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فِي رَکْعَةٍ رَکْعَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ وَيُرْوَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْوِتْرِ فِي الرَّکْعَةِ الثَّالِثَةِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالَّذِي اخْتَارَهُ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ يَقْرَأَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يَقْرَأُ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ مِنْ ذَلِکَ بِسُورَةٍ

ترجمہ
 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرمﷺ وتر میں «‏سبح اسم ربک الأعلی» ، «‏قل يا أيها الکافرون‏» اور «‏قل هو اللہ أحد» تینوں کو ایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 اس باب میں علی، عائشہ اور عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رضی اللہ عنہم)  جنہوں نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے، بھی احادیث آئی ہیں، اور اسے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے بغیر ابی کے واسطے کے براہ راست نبی اکرمﷺ سے بھی روایت کیا جاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ وتر میں تیسری رکعت میں معوذتین اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم نے جس بات کو پسند کیا ہے، وہ یہ ہے کہ «‏سبح اسم ربک الأعلی» ، «‏قل يا أيها الکافرون‏» اور «‏قل هو اللہ أحد» تینوں میں سے ایک ایک ہر رکعت میں پڑھتے۔ 

Translation
Sayyidina lbn Abbas reported that Allah’s Messenger used to recite in witr the surah al-Ala, al-Kafirun and al-IkhLas, raka’ah by raka’ah


حدیث 472
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْئٍ کَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ کَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَی بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ هَذَا هُوَ وَالِدُ ابْنِ جُرَيْجٍ صَاحِبِ عَطَائٍ وَابْنُ جُرَيْجٍ اسْمُهُ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ
عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ  ہم نے عائشہ (رض) سے پوچھا: رسول اللہﷺ  وتر میں کیا پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: پہلی رکعت میں «‏سبح اسم ربک الأعلی» ، دوسری میں «‏قل يا أيها الکافرون‏» ، اور تیسری میں «‏قل هو اللہ أحد» اور معوذتین  پڑھتے تھے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن غریب ہے۔ یہ عبدالعزیز راوی اثر عطاء کے شاگرد ابن جریج کے والد ہیں، اور ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق: «عمرة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔  

وضاحت 
« یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس

Translation
Abdul Aziz ibn Jurayj reported having asked Sayyidah Aisha (RA) , “What did Allah’s Messenger recite in witr?” She said, “He would recite in the first, al-A’la, in the second al-Kafirun and in the third al-Ikhlas and the mu’awwizatan.


باب ما جاء فی القنوت فی الوتر

حدیث 473
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَبِي الْحَوْرَائِ السَّعْدِيِّ قَالَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي الْوِتْرِ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِکْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّکَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَی عَلَيْکَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْحَوْرَائِ السَّعْدِيِّ وَاسْمُهُ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ وَلَا نَعْرِفُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ فَرَأَی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ الْقُنُوتَ فِي الْوِتْرِ فِي السَّنَةِ کُلِّهَا وَاخْتَارَ الْقُنُوتَ قَبْلَ الرُّکُوعِ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ وَإِسْحَقُ وَأَهْلُ الْکُوفَةِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ کَانَ لَا يَقْنُتُ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْآخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَکَانَ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّکُوعِ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ

ترجمہ
حسن بن علی (رض) کہتے ہیں کہ  مجھے رسول اللہﷺ نے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں، وہ کلمات یہ ہیں  «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارک لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنک تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت تبارکت ربنا وتعاليت»  اے اللہ ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ہے، مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرما کر، ان لوگوں میں شامل فرما جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور جس شر کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا، اور جس کا تو والی ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا، اے ہمارے رب ! تو بہت برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن ہے۔ اسے ہم صرف اسی سند سے یعنی ابوالحوراء سعدی کی روایت سے جانتے ہیں، ان کا نام ربیعہ بن شیبان ہے میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرم ﷺ  سے مروی ہو معلوم نہیں۔ اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہےاہل علم کا وتر کے قنوت میں اختلاف ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کا خیال ہے کہ وتر میں قنوت پورے سال ہے، اور انہوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا پسند کیا ہے، اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے سفیان ثوری، ابن مبارک، اسحاق اور اہل کوفہ بھی یہی کہتے ہیں علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد پڑھتے تھے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں۔
 
وضاحت 
وتر کی اہمیت، اور اس کی مشروعیت کے سبب اس کے وقت، اور طریقہ نیز نبی اکرمﷺ کی وتر کے بارے میں جو روایات وارد ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے، کہ صلاۃ وتر پورا سال اور ہر روز ہے، اور قنوت وتر کے بارے میں تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ رکوع سے پہلے افضل ہے، اور قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہے۔

Translation
Abu Hawra reported that Sayyidina Hasan ibn Ali said, “Allah’s Messenger taught me some expressions that I might recite them in witr?’:  (O Allah! Guide me among those whom You have guided, and preserve me among those whom You have preserved. And take me as a friend among those whom You have befriended, and bless me in that which You have bestowed (upon me). And protect me against the evil that You have ordained, for, indeed, You are the One who ordains and none can otdain against You. And, indeed, never is he disgraced whom You take for a friend. Blessed are You, O our Lord! Andexalted are You.


باب ما جاء فی الرجل ینام عن الوتر او ینسی

حدیث 474
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَامَ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَکَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ

ترجمہ
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ  نے فرمایا: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے۔ 

Translation
Sayyidina Abu Sa’eed Khudri narrated that Allah’s Messenger ﷺ said,”If anyone goes to sleep without offering the witr, or forgets it, then he must offer it on awakening or on remembering.


باب ما جاء فی مبادرة الصبح بالوتر

حدیث 475
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الْأَشْعَثِ يَقُولُ سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَقَالَ أَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ لَا بَأْسَ بِهِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْکُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ ضَعَّفَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ و قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ قَالَ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْکُوفَةِ إِلَی هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالُوا يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَکَرَ وَإِنْ کَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ

ترجمہ
 زید بن اسلم  (مرسلاً )  کہتے ہیں کہ  نبی اکرمﷺ  نے فرمایا: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ میں نے ابوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میں نے محمد  (محمد بن اسماعیل بخاری)  کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ  (ابن المدینی)  سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ  (ان کے بھائی)  عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں۔ کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آ جائے، گو سورج نکلنے کے بعد یاد آئے یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔ 

وضاحت 
کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے، اور وہ متکلم فیہ ہیں، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں، یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہےاس حدیث سے وتر کی قضاء ثابت ہوتی ہے، اس کے قائل بہت سے صحابہ اور ائمہ ہیں، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضاء کرلے، چاہے جب بھی کرے، کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے، اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں  پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔ 
  
Translation
Zayd ibn Aslam reported from his father that the Prophet ﷺ said, “He who sleeps without offering witr, may pray it when it is morning.


حدیث 476
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَادِرُوا الصُّبْحَ بِالْوِتْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ترجمہ
 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرمﷺ  نے فرمایا: صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 

وضاحت 
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کا وقت طلوع فجر سے پہلے تک ہے جب فجر طلوع ہوگئی تو ادائیگی وتر کا وقت نکل گیا۔ 

Translation
Sayyidina lbn Umar (RA) narrated that the Prophet ﷺ said, “Offer the witr before it is dawn.


حدیث 477
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا

ترجمہ
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ نے فرمایا: صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔  

Translation
Sayyidina Abu Sa’eed Khudri (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “Offer the witr before dawn rises


حدیث 478
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَهَبَ کُلُّ صَلَاةِ اللَّيْلِ وَالْوِتْرُ فَأَوْتِرُوا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَی قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَلَی هَذَا اللَّفْظِ وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَا وِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ

ترجمہ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ  نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب فجر طلوع ہوگئی تو تہجد (قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہوگیا، لہٰذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں  
سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں نیز نبی اکرم  ﷺ  سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :  فجر کے بعد وتر نہیں۔ بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں یہ لوگ نماز فجر کے بعد وتر پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے۔  

وضاحت 
پچھلی حدیث کے حاشیہ میں گزرا کہ بہت سے صحابہ کرام وائمہ عظام وتر کی قضاء کے قائل ہیں، اور یہی راجح مسلک ہے، کیونکہ اگر وتر نہیں پڑھی تو سنن و نوافل کی جفت رکعتیں طاق نہیں ہو پائیں گی، واللہ اعلم

Translation
Sayyidina lbn Umar reported that Allah’s Messenger said, “When dawn rises, (the times for) all the prayers of the nights and the witr are over. So, offer the witr before rise of dawn.


حدیث 479
 وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَا وِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ

ترجمہ
 نیز نبی اکرم  ﷺ  سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: فجر کے بعد وتر نہیں۔ بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں یہ لوگ نماز فجر کے بعد وتر پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے۔  


باب ما جاء ما وتران فی لیلة

حدیث 480
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ ثُمَّ يَقُومُ مِنْ آخِرِهِ فَرَأَی بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ نَقْضَ الْوِتْرِ وَقَالُوا يُضِيفُ إِلَيْهَا رَکْعَةً وَيُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ ثُمَّ يُوتِرُ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ لِأَنَّهُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ وَهُوَ الَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ إِسْحَقُ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِذَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ يُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ وَلَا يَنْقُضُ وِتْرَهُ وَيَدَعُ وِتْرَهُ عَلَی مَا کَانَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَهْلِ الْکُوفَةِ وَأَحْمَدَ وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّی بَعْدَ الْوِتْرِ

ترجمہ
طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ایک رات میں دو بار وتر نہیں۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں 
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس شخص کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جو رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لیتا ہو پھر رات کے آخری حصہ میں قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتا ہو، تو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کی رائے وتر کو توڑ دینے کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس میں ایک رکعت اور ملا لے تاکہ  (وہ جفت ہوجائے)  پھر جتنا چاہے پڑھے اور نماز کے آخر میں وتر پڑھ لے۔ اس لیے کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں، اسحاق بن راہویہ اسی طرف گئے ہیں۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس نے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لی پھر سو گیا، پھر رات کے آخری میں بیدار ہوا تو وہ جتنی نماز چاہے پڑھے، وتر کو نہ توڑے بلکہ وتر کو اس کے اپنے حال ہی پر رہنے دے سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی اور اہل کوفہ اور احمد کا یہی قول ہے۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ کئی دوسری روایتوں میں مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے وتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔ 

Translation
Qays ibn Talq ibn Ali reported on the authority of his father that he heard Allah’s Messenger say, “There are not two witr (prayers) in a night.


حدیث 481
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مُوسَی الْمَرَئِيِّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَعَائِشَةَ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ
 ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ  نبی اکرمﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں  
ابوامامہ، عائشہ (رض) اور دیگر کئی لوگوں سے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔

وضاحت 
نووی کے بقول نبی اکرمﷺ  کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے، نہ کرسکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا: وتر کو رات کی نماز (تہجد) میں سب سے اخیر میں کر دو  تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم

Translation
Sayyidah Umm Salamah (RA) said that the Prophet ﷺ prayed two raka’ah after the witr.


باب ما جاء فی الوتر علی الراحلة

حدیث 482
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ کُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَتَخَلَّفْتُ عَنْهُ فَقَالَ أَيْنَ کُنْتَ فَقُلْتُ أَوْتَرْتُ فَقَالَ أَلَيْسَ لَکَ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ عَلَی رَاحِلَتِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَی هَذَا وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يُوتِرُ الرَّجُلُ عَلَی الرَّاحِلَةِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَی الْأَرْضِ وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْکُوفَةِ

ترجمہ
 سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر (رض) کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا : کیا رسول اللہﷺ کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہﷺ  کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں 
ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اسے اتر کر زمین پر پڑھے۔ یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے۔

وضاحت  
متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺ سواری پر بھی وتر پڑھا کرتے تھے، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو ناپسند کرے اور یہ صرف جائز ہے نہ کہ فرض و واجب ہے، کبھی کبھی آپﷺ سواری سے اتر کر بھی پڑھا کرتے تھے،  ہر دونوں صورتیں جائز ہیں۔ 

Translation
Sa’eed ibn Yasar said that he was with Sayyidina lbn Umar (RA) in a journey. He lagged behind him, so he asked, “Where were you?” He said, “I was offering the witr.” So, he ( Ibn Umar (RA) ) said, “Is not there for you in Allah’s Messenger an excellent example? I had observed Allah’s Messenger pray the witr on his riding beast.


باب ما جاء فی صلاۃ الضحیٰ

حدیث 483
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُکَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ فُلَانِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَمِّهِ ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی الضُّحَی ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً بَنَی اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ هَانِئٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَنُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَعَائِشَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَأَبِي سَعِيدٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

ترجمہ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر فرمائے گا۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 انس کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اس باب میں ام ہانی، ابوہریرہ، نعیم بن ہمار، ابوذر، عائشہ، ابوامامہ، عتبہ بن عبد سلمی، ابن ابی اوفی، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔  

وضاحت 
اس سیاق و لفظ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ نفس چاشت کی صلاۃ، آگے والی حدیث صحیح ہے جس سے آٹھ رکعت چاشت کی صلاۃ کا ثبوت ملتا ہے۔ 

Translation
Sayyidina Anas ibn Malik (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “If anyone prays twelve raka’at of the (salah of) duha then Allah builds for him a castle of gold in Paradise.” (The time for it is from the advance of day till the decline of the sun).


حدیث 484
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَی إِلَّا أُمَّ هَانِئٍ فَإِنَّهَا حَدَّثَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ فَاغْتَسَلَ فَسَبَّحَ ثَمَانَ رَکَعَاتٍ مَا رَأَيْتُهُ صَلَّی صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ کَانَ يُتِمُّ الرُّکُوعَ وَالسُّجُودَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَکَأَنَّ أَحْمَدَ رَأَی أَصَحَّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثَ أُمِّ هَانِئٍ وَاخْتَلَفُوا فِي نُعَيْمٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ نُعَيْمُ بْنُ خَمَّارٍ و قَالَ بَعْضُهُمْ ابْنُ هَمَّارٍ وَيُقَالُ ابْنُ هَبَّارٍ وَيُقَالُ ابْنُ هَمَّامٍ وَالصَّحِيحُ ابْنُ هَمَّارٍ وَأَبُو نُعَيْمٍ وَهِمَ فِيهِ فَقَالَ ابْنُ حِمَازٍ وَأَخْطَأَ فِيهِ ثُمَّ تَرَکَ فَقَالَ نُعَيْمٌ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی و أَخْبَرَنِي بِذَلِکَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ

ترجمہ
 عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ  مجھے صرف ام ہانی (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہﷺ  کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، ام ہانی (رض) بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ ان کے گھر میں داخل ہوئے تو غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے بھی ہلکی نماز کبھی پڑھی ہو، البتہ آپ رکوع اور سجدے پورے پورے کر رہے تھے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ احمد بن حنبل کی نظر میں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ام ہانی (رض) کی حدیث ہے۔ 

Translation
Abdur Rahrnan ibn Abu Layla narrated that no one informed him having seen Allah’s Messenger pray the duha salah except Sayyidah Umm Hani ijir. She narrated that Allah’s Messenger enterred her house on the day of liberation of Makkah, had a bath and prayed eight raka’at. “I had not seen him before offering more brief salah than this though he carefully completed the ruku and sajdah.


حدیث 485
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ السِّمْنَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ أَوْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّهُ قَالَ ابْنَ آدَمَ ارْکَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ أَکْفِکَ آخِرَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ترجمہ
 ابو الدرداء (رض) یا ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ  رسول اللہﷺ  نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم ! تو دن کے شروع میں میری رضا کے لیے چار رکعتیں پڑھا کر، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن غریب ہے۔ 

Translation
Sayyidina Abu Zarr (RA) reported from Allah’s Messenger ﷺ (a hadith Qudsi)O that Allah, the Blessed, the Exalted said, ‘O son of Adam! Bow down for Me four raka’at in the beginning of the day, I will suffice you to the end of the day.


حدیث 486
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَافَظَ عَلَی شُفْعَةِ الضُّحَی غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُهُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی وَکِيعٌ وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ

ترجمہ
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی محافظت کی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں 
وکیع، نضر بن شمیل اور دوسرے کئی ائمہ نے یہ حدیث نہ اس بن قہم سے روایت کی ہے۔ اور ہم نہ اس کو صرف ان کی اسی حدیث سے جانتے ہیں۔ 

Translation
Nahhas ibn Qahm reported from Shaddad ibn Abu Ammar who reported from Sayyidina Abu Hurairah (RA) that Allah’s Messenger ﷺ said, “He who is regular at tie two raka’at of duha, his sins are forgiven to him though they may be as much as the foams o he ocean.


حدیث 487
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ کَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَی حَتَّی نَقُولَ لَا يَدَعُ وَيَدَعُهَا حَتَّی نَقُولَ لَا يُصَلِّي قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ترجمہ
 ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرمﷺ چاشت کی نماز پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے، اور آپ اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب اسے نہیں پڑھیں گے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن غریب ہے۔  

Translation
Sayyidina Abu Sa’eed Khudri (RA) said that Allah’s Messenger ﷺ used to pray the duha till they said that he would never give it up. Then he would give it up till they said that he would never pray it.


باب ما جاء فی الصلاۃ عند الزوال

حدیث 488
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ هُوَ أَبُو سَعِيدٍ الْمُؤَدِّبُ عَنْ عَبْدِ الْکَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ وَقَالَ إِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُ السَّمَائِ وَأُحِبُّ أَنْ يَصْعَدَ لِي فِيهَا عَمَلٌ صَالِحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ بَعْدَ الزَّوَالِ لَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ

ترجمہ
 عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، اور فرماتے:  یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرا نیک عمل اس میں اوپر چڑھے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 عبداللہ بن سائب (رض) کی حدیث حسن غریب ہے۔ اس باب میں علی اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث
 آئی ہیں۔ نبی اکرمﷺ  سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے۔ 

وضاحت 
ہوسکتا ہے کہ یہ ظہر سے پہلے والی چار رکعت سنت مؤکدہ ہی ہوں، کسی نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں یا دونوں ایک ہی ہیں۔ یہ حدیث ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور اس میں  آخر میں سلام پھیرنے ولا  ٹکڑا ضعیف ہے۔  ( دیکھئیے صحیح ابوداود ١١٥٣) 

Translation
Sayyidina Abdullah ibn Sa’ib (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ used to pray four raka’at after zawal, before zuhr. He would say, “This is an hour when the gates of heaven are opened and I love that my righteous deeds ascend for me at this hour.


حدیث 489
 وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ بَعْدَ الزَّوَالِ لَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ

ترجمہ
 نبی اکرمﷺ  سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے۔ 


باب ما جاء فی صلاۃ الحاجة

حدیث 490
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَی بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَکْرٍ السَّهْمِيُّ و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَکْرٍ عَنْ فَائِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَتْ لَهُ إِلَی اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَی أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوئَ ثُمَّ لِيُصَلِّ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَی اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُکَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِيمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَفَائِدٌ هُوَ أَبُو الْوَرْقَائِ

ترجمہ
 عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ  نے فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرمﷺ  پر صلاۃ (درود) و سلام بھیجے، پھر کہے: «لا إله إلا اللہ الحليم الكريم سبحان اللہ رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألک موجبات رحمتک وعزائم مغفرتک والغنيمة من کل بر والسلامة من کل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لک رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين»  اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم  (بردبار)  ہے، کریم  (بزرگی والا)  ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین  (سارے جہانوں کا پالنہار)  ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین ! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث غریب ہے۔ اس کی سند میں کلام ہے، فائد بن عبدالرحمٰن کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیا جاتا ہے، اور فائد ہی ابوالورقاء ہیں۔

Translation
Sayyidina Abdullah ibn Abu Awfa reported that Allah’s Messenger said, “If anyone has a need from Allah, or from one of the children of Adam, let him perform ablution and make it a good ablution. Then, let him pray two raka’at, then glorify Allah and invoke blessing on the Prophet ﷺ and then say:  There is no God but Allah, the Clement, the Bountiful. Glory be to Allah, Lord of the magnificent throne. Praise belongs to Allah, Lord of the worlds. I ask You for that which entitles to Your mercy, and makes certain Your forgiveness, and (I ask for) a share of every piety and asfety from every sin. Leave no sin of mine without being forgiven, no anxiety without being removed, and no need of mine with which You are pleased without being fulfilled, O the Most Merciful of those who show mercy).


باب ما جاء فی صلاۃ الاستخارة

حدیث 491
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ کُلِّهَا کَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ إِذَا هَمَّ أَحَدُکُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ لِيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِکْ لِي فِيهِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ قَالَ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي وَهُوَ شَيْخٌ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ رَوَی عَنْهُ سُفْيَانُ حَدِيثًا وَقَدْ رَوَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي

ترجمہ
 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا   اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے:  تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک وأسألک من فضلک العظيم فإنک تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارک لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» یا کہے «في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث کان ثم أرضني به»  اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو علم والا ہے اور میں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے  (یا آپ نے فرمایا: یا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے)  بہتر ہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے یا فرمایا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے برا ہے تو اسے تو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔  آپ نے فرمایا: اور اپنی حاجت کا نام لے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن سے دیگر کئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے، یہی عبدالرحمٰن بن زید بن ابی الموالی ہیں۔ اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور ابوایوب انصاری (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ 

وضاحت
استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں ، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے  دعا استخارہ  کہا جاتا ہے، اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے، فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حال میں ضروری ہے، ان میں استخارہ نہیں ہے۔
یعنی : لفظ «هذا الأمر» (یہ کام )  کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔ اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے،  ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود ب اسلوب احسن بیان کرسکے اور اسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے، یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہوچکا ہے یہ نری بدعت ہے،  استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرمﷺ  سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک ، تین پانچ یا سات بار کیا جائے ، دل کا اطمینان، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہوجائے اسے آدمی اختیار کرلے،  خواب میں بھی اس کی وضاحت ہوسکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے، عورتیں بھی استخارہ خود کرسکتی ہیں، کہیں پر ممانعت نہیں۔
  
Translation
Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) said that Allah’s Messenger ﷺ taught them istikharah for every affair just as he taught them the chapters of the Quran. He said: When one of you is faced with a significant affair, let him pray two raka’at apart from the fard (prescribed). Then let him say: O Allah, I seek Your guidance through Your knowledge, and I seek strength through Your power, and I beg You for Your magnificent grace, for, You have power and I do not have it, and You have knowledge, and I do not have it, and surely You are the Best Knower of things which belong to the unseen. O Allah! If in Your knowledge this thing is better for me in terms of my faith and my wordly life and the out come of my pursuit then make it come easy on me and thereafter make it blessed for me And if in Your knowledge this thing is bad for me in terms of my faith and my worldly life and the outcome of my pursuit then make it stay away from me and make me stay dway from it. And, ordain the better (alternalive) for me in whatever way it may be, and then also make me be pleased with it.O And he should name his need.


باب ما جاء فی صلاۃ التسبیح

حدیث 492
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ الْعُکْلِيُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَی أَبِي بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ يَا عَمِّ أَلَا أَصِلُکَ أَلَا أَحْبُوکَ أَلَا أَنْفَعُکَ قَالَ بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا عَمِّ صَلِّ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَسُورَةٍ فَإِذَا انْقَضَتْ الْقِرَائَةُ فَقُلْ اللَّهُ أَکْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً قَبْلَ أَنْ تَرْکَعَ ثُمَّ ارْکَعْ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَکَ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ اسْجُدْ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَکَ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ اسْجُدْ الثَّانِيَةَ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَکَ فَقُلْهَا عَشْرًا قَبْلَ أَنْ تَقُومَ فَتِلْکَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ هِيَ ثَلَاثُ مِائَةٍ فِي أَرْبَعِ رَکَعَاتٍ فَلَوْ کَانَتْ ذُنُوبُکَ مِثْلَ رَمْلِ عَالِجٍ لَغَفَرَهَا اللَّهُ لَکَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَهَا فِي کُلِّ يَوْمٍ قَالَ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي کُلِّ يَوْمٍ فَقُلْهَا فِي جُمْعَةٍ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي جُمُعَةٍ فَقُلْهَا فِي شَهْرٍ فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ لَهُ حَتَّی قَالَ فَقُلْهَا فِي سَنَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ

ترجمہ
 ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ  نے  (اپنے چچا)  عباس (رض) سے فرمایا: اے چچا ! کیا میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں، کیا میں آپ کو نہ دوں ؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں؟  وہ بولے: کیوں نہیں، اللہ کے رسول ! آپﷺ  نے فرمایا: آپ چار رکعت نماز پڑھیں، ہر رکعت میں سورة فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیں، جب قرأت پوری ہوجائے تو «اللہ اکبر»  «الحمد للہ» ، «سبحان اللہ» ، «لا إلہ إلا اللہ» پندرہ مرتبہ رکوع کرنے سے پہلے کہیں، پھر رکوع میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات رکوع میں کہیں، پھر اپنا سر اٹھائیں اور یہی کلمات دس مرتبہ رکوع سے کھڑے ہو کر کہیں۔ پھر سجدے میں جائیں تو یہی کلمات دس مرتبہ کہیں، پھر سر اٹھائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ پھر دوسرے سجدے میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو کھڑے ہونے سے پہلے دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ اسی طرح ہر رکعت میں کہیں، یہ کل ٧٥ کلمات ہوئے اور چاروں رکعتوں میں تین سو کلمات ہوئے۔ تو اگر آپ کے گناہ بہت زیادہ ریت والے بادلوں کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا ۔ تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! روزانہ یہ کلمات کہنے کی قدرت کس میں ہے؟ آپ نے فرمایا: آپ روزانہ یہ کلمات نہیں کہہ سکتے تو ہر جمعہ کو کہیں اور اگر ہر جمعہ کو بھی نہیں کہہ سکتے تو ہر ماہ میں کہیں ، وہ برابر یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: تو ایک سال میں آپ اسے کہہ لیں۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
یہ حدیث ابورافع (رض) کی روایت سے غریب ہے۔ 
  
وضاحت 
عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ اگر آپ سال بھر میں بھی ایک بار صلاۃ التسبیح نہ پڑھ سکتے ہوں تو پھر زندگی میں ایک بار ہی سہی، عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے مروی بعض احادیث میں ذکر ہے کہ یہ  صلاۃ التسبیح  سورج ڈھلنے کے بعد پڑھی جائے، اولیٰ ہے۔  

Translation
Sayyidina Abu Rafi (RA) narrated that Allah’s Messenger said to Sayyidina Abbas (RA), “O Uncle! shall I not join ties with you? Shall I not give you? Shall I not benefit you?” He said, “Of course, O Messenger of Allah! ﷺ ” So, he said, “O Uncle! pray four raka’at. Recite in each raka’ah the Fatihat ul-Kitab and a surah and when you have finished the recital, say Allah u Akbar walhamduliLLAH wa subhanALLAH fifteen times before making the ruku. Then go into the ruku and repeat them ten times. Then raise your head and say the words ten times. Then go into prostration and repeat them ten times, and raise your head and say the words ten times. Then prostrate and say the words ten times, and (again) raise you head and repeat them ten times before you stand up. So, this is (in all) seventy five in each raka’ah and it is three hundred in all four raka’at. Even if your sins are like the sand praticles of Aalij, Allah will forgive them for you.” He (Sayyidina Abbas i said, “O Messenger of Allah! ﷺ Who can stand up for it every day?” He said, “If you cannot establish it every day, then observe it on Friday. And if you cannot do that every Friday then observe it every month.” And he did not cease to say that until he said, “Offer it once in a year.


باب ما جاء فی صفة الصلاۃ علی النبی

حدیث 493
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي إِسْحَقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ غَدَتْ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ عَلِّمْنِي کَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي صَلَاتِي فَقَالَ کَبِّرِي اللَّهَ عَشْرًا وَسَبِّحِي اللَّهَ عَشْرًا وَاحْمَدِيهِ عَشْرًا ثُمَّ سَلِي مَا شِئْتِ يَقُولُ نَعَمْ نَعَمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ حَدِيثٍ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ وَلَا يَصِحُّ مِنْهُ کَبِيرُ شَيْئٍ وَقَدْ رَأَی ابْنُ الْمُبَارَکِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صَلَاةَ التَّسْبِيحِ وَذَکَرُوا الْفَضْلَ فِي حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَکِ عَنْ الصَّلَاةِ الَّتِي يُسَبَّحُ فِيهَا فَقَالَ يُکَبِّرُ ثُمَّ يَقُولُ سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُکَ ثُمَّ يَقُولُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ ثُمَّ يَتَعَوَّذُ وَيَقْرَأُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَفَاتِحَةَ الْکِتَابِ وَسُورَةً ثُمَّ يَقُولُ عَشْرَ مَرَّاتٍ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ ثُمَّ يَرْکَعُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَيَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ فَيَقُولُهَا عَشْرًا يُصَلِّي أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ عَلَی هَذَا فَذَلِکَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ تَسْبِيحَةً فِي کُلِّ رَکْعَةٍ يَبْدَأُ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيحَةً ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُسَبِّحُ عَشْرًا فَإِنْ صَلَّی لَيْلًا فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُسَلِّمَ فِي الرَّکْعَتَيْنِ وَإِنْ صَلَّی نَهَارًا فَإِنْ شَائَ سَلَّمَ وَإِنْ شَائَ لَمْ يُسَلِّمْ قَالَ أَبُو وَهْبٍ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ يَبْدَأُ فِي الرُّکُوعِ بِسُبْحَانَ رَبِيَ الْعَظِيمِ وَفِي السُّجُودِ بِسُبْحَانَ رَبِيَ الْأَعْلَی ثَلَاثًا ثُمَّ يُسَبِّحُ التَّسْبِيحَاتِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ إِنْ سَهَا فِيهَا يُسَبِّحُ فِي سَجْدَتَيْ السَّهْوِ عَشْرًا عَشْرًا قَالَ لَا إِنَّمَا هِيَ ثَلَاثُ مِائَةِ تَسْبِيحَةٍ

ترجمہ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ  ام سلیم (رض) نے نبی اکرمﷺ کے پاس آ کر عرض کیا کہ مجھے کچھ ایسے کلمات سکھا دیجئیے جنہیں میں نماز  میں کہا کروں، آپ نے فرمایا: دس بار «الله أكبر» کہو، دس بار «سبحان الله» کہو، دس بار «الحمد لله» کہو، پھر جو چاہو مانگو، وہ  (اللہ)  ہر چیز پر ہاں، ہاں کہتا ہے، (یعنی قبول کرتا ہے)

امام ترمذی کہتے ہیں
 انس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے۔ اس باب میں ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، فضل بن عباس اور ابورافع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ صلاۃ التسبیح کے سلسلے میں نبی اکرم  ﷺ  سے اور بھی کئی حدیثیں مروی ہیں لیکن کوئی زیادہ صحیح نہیں ہیں۔ ابن مبارک اور دیگر کئی اہل علم صلاۃ التسبیح کے قائل ہیں اور انہوں نے اس کی فضیلت کا ذکر کیا ہے۔ ابو وہب محمد بن مزاحم العامری نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے صلاۃ التسبیح کے بارے میں پوچھا کہ جس میں تسبیح پڑھی جاتی ہے، تو انہوں نے کہا: پہلے تکبیر تحریمہ کہے، پھر «سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک ولا إله غيرك»  اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے، اے اللہ تو ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، بابرکت ہے تیرا نام، بلند ہے تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں  کہے، پھر پندرہ مرتبہ «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر» کہے، پھر «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم»  اور «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کہے، پھر سورة فاتحہ اور کوئی سورة پڑھے، پھر دس مرتبہ «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر » کہے، پھر رکوع میں جائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے، پھر سر اٹھائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے، پھر سجدہ کرے دس بار یہی کلمات کہے پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور دس بار یہی کلمات کہے، پھر دوسرا سجدہ کرے اور دس بار یہی کلمات کہے، اس طرح سے وہ چاروں رکعتیں پڑھے، تو ہر رکعت میں یہ کل ٧٥ تسبیحات ہوں گی۔ ہر رکعت کے شروع میں پندرہ تسبیحیں کہے گا، پھر دس دس کہے گا، اور اگر وہ رات کو نماز پڑھ رہا ہو تو میرے نزدیک مستحب ہے کہ وہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے اور اگر دن میں پڑھے تو چاہے تو  (دو رکعت کے بعد)  سلام پھیرے اور چاہے تو نہ پھیرے۔ ابو وہب وہب بن زمعہ سے روایت ہے کہ عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا: رکوع میں پہلے «سبحان ربي العظيم» اور سجدہ میں پہلے «سبحان ربي الأعلی» تین تین بار کہے، پھر تسبیحات پڑھے۔ عبدالعزیز ہی ابن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: اگر اس نماز میں سہو ہوجائے تو کیا وہ سجدہ سہو میں دس دس تسبیحیں کہے گا ؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔ 

وضاحت
بظاہر اس حدیث کا تعلق صلاۃ التسبیح  سے نہیں عام نمازوں سے ہے، بلکہ مسند ابی یعلیٰ میں  فرض صلاۃ  کا لفظ وارد ہے؟ نیز اس حدیث میں وارد طریقہ تسبیح صلاۃ التسبیح میں ہے بھی نہیں ہے۔ 

Translation
Sayyidina Anas ibn Malik (RA) reported that Sayyidah Umm Sulaym (RA) came one morning to the Prophet ﷺ . She requested (him), “Teach me expressions that I may recite in my salah.” So, he said, “Extol Allah ten times, glorify Him ten times and praise Him ten times (that is, say Allah u Akbar ten times ten times and SubhanaALLAH ten times and AlhamduliLLAH ten times). Then ask Him for whatever you want. Allah says: “Yes, Yes.


باب ما جاء فی صفة الصلاۃ علی النبی

حدیث 494
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مِسْعَرٍ وَالْأَجْلَحِ وَمَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ الْحَکَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا السَّلَامُ عَلَيْکَ قَدْ عَلِمْنَا فَکَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْکَ قَالَ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ قَالَ مَحْمُودٌ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ وَزَادَنِي زَائِدَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَکَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ وَنَحْنُ نَقُولُ وَعَلَيْنَا مَعَهُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ وَطَلْحَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَبُرَيْدَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ وَيُقَالُ ابْنُ جَارِيَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی کُنْيَتُهُ أَبُو عِيسَی وَأَبُو لَيْلَی اسْمُهُ يَسَارٌ

ترجمہ
 کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ  ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ پر سلام بھیجنا تو ہم نے جان لیا ہے لیکن آپ پر صلاۃ  (درود)  بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کہو: «اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صليت علی إبراهيم إنک حميد مجيد وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراهيم إنک حميد مجيد»  ٢ ؎  اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی ہے، یقیناً تو حمید (تعریف کے قابل) اور مجید  (بزرگی والا)  ہے، اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی ہے، یقیناً تو حمید  (تعریف کے قابل)  اور مجید  (بزرگی والا)  ہے ۔ زائدہ نے بطریق اعمش عن الحکم عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ایک زائد لفظ کی روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم  (درود میں) «وعلينا معهم»  یعنی اور ہمارے اوپر بھی رحمت و برکت بھیج  بھی کہتے تھے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 کعب بن عجرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں علی، ابوحمید، ابومسعود، طلحہ، ابوسعید، بریدہ، زید بن خارجہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ 

وضاحت 
اس سے مراد وہ سلام ہے جو التحیات میں پڑھا جاتا ہے مولف نے درود ابراہیمی کے سلسلے میں مروی صرف ایک روایت کا ذکر کیا ہے، اس باب میں کئی ایک روایات میں متعدد الفاظ وارد ہوئے ہیں، عام طور پر جو درود ابراہیمی پڑھا جاتا ہے وہ صحیح طرق سے مروی ہے۔ 

Translation
Sayyidina Ka’b ibn Ujrah (RA) reported having submitted to the Prophet ﷺ , “O Messenger of Allah! ﷺ This salaam (greeting) to you, we know it, but how do we invocate blessing on you?” He said, Say:  O Allah! bless Muhammad and the family of Muhammad, as You did bless Ibrahim. Indeed You are Praiseworthy, Glorious. And show favour to Muhammad and the family of Muhammad as You did show favour to Ibrahim. Indeed, You are Praiseworthy, Glorious.  Abu Usamah said “We added the words (and on us with him).


باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی

حدیث 495
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ کَيْسَانَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا وَکَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ

ترجمہ
 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب  وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ  (درود)  بھیجے گا۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن غریب ہے۔ نبی اکرمﷺ  سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا  جو مجھ پر ایک بار صلاۃ  (درود)  بھیجتا ہے، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ  (درود)  بھیجتا ہے  اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں   (یہی حدیث آگے آرہی ہے)۔ 

وضاحت 
سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے  میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ 

Translation
Sayyidina Abdullah ibn Mas’ud (RA) narrated that Allah’s Messenger said, “Of the people, nearest to me on the Day of Resurrection will be he who invoked most belssings on me.


حدیث 496
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَعَمَّارٍ وَأَبِي طَلْحَةَ وَأَنَسٍ وَأُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا صَلَاةُ الرَّبِّ الرَّحْمَةُ وَصَلَاةُ الْمَلَائِکَةِ الِاسْتِغْفَارُ

ترجمہ
 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ  نے فرمایا: جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجے گا، اللہ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ  (درود)  بھیجے گا۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عامر بن ربیعہ، عمار، ابوطلحہ، انس اور ابی بن کعب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ سفیان ثوری اور دیگر کئی اہل علم سے مروی ہے کہ رب کے صلاۃ (درود) سے مراد اس کی رحمت ہے اور فرشتوں کے صلاۃ  (درود)  سے مراد استغفار ہے۔ 

Translation
Sayyidina Abu Hurairah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “He who invokes on me blessing once, Allah will bless him ten times.


حدیث 497
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ الْبَلْخِيُّ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ أَبِي قُرَّةَ الْأَسَدِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْئٌ حَتَّی تُصَلِّيَ عَلَی نَبِيِّکَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ يَعْقُوبَ وَهُوَ مَوْلَی الْحُرَقَةِ وَالْعَلَائُ هُوَ مِنْ التَّابِعِينَ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَغَيْرِهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَعْقُوبَ وَالِدُ الْعَلَائِ وَهُوَ أَيْضًا مِنْ التَّابِعِينَ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَيَعْقُوبَ جَدُّ الْعَلَائِ هُوَ مِنْ کِبَارِ التَّابِعِينَ أَيْضًا قَدْ أَدْرَکَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَرَوَی عَنْهُ

ترجمہ
 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ  دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریمﷺ پر صلاۃ (درود) نہیں بھیج لیتے۔ 

Translation
Sayyidina Umar ibn al-Khattab narrated that supplication is suspended between the heaven and earth, nothing from it ascending, till you invoke blessing on your Prophet ﷺ.


حدیث 498
حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ عَبَّاسٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ


ترجمہ
 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں: ہمارے بازار میں کوئی خرید و فروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کرلے۔ 

امام ترمذی کہتے ہیں
 یہ حدیث حسن غریب ہے۔ علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب یہ باپ بیٹے اور دادا تینوں تابعی ہیں، علاء کے دادا اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں، انہوں نے عمر بن خطاب (رض) کو پایا ہے اور ان سے روایت بھی کی ہے۔ 


 وضاحت 
یعنی معاملات کے مسائل نہ سمجھ لے اور اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے مولف اس اثر کو اس باب میں لائے ہیں ، ورنہ اس اثر کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اوپر حدیث نمبر ( ٤٨٥) میں علاء بن عبدالرحمٰن کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہاں انہیں سب کا تعارف مقصود ہے۔  


Translation
Sayyidina Umar ibn al-Khattab (RA) said, "Let no one buy or sell in our market unless he has gained knowledge of religion."



Sight  Of  Right 

No comments:

Powered by Blogger.