Unit 1 Fiqah / Taharat / Lesson 1 - 10



Unit 1 ( Fiqah )

Lesson 1

طہارت کا بیان


سوال : فقہاء اپنی کتابوں کو طہارت کے احکام کے ساتھ کیوں شروع کرتے ہیں؟

جواب : کیونکہ طہارت, نماز کی شرائط میں سے ہے اور نماز, اسلام کے پانچ ارکان میں سے دوسرا رکن ہے پس (فقہاء)طہارت کے احکام کو مقدم کرتے ہیں پھر بعد میں نماز کے احکام ذکر کرتے ہیں



سوال : لغت اور شریعت کی رو سے طہارت کا معنی کیا ہے؟

جواب : طہارت لغت کی رو سے نظافت اور شریعت کی رو سے حدث اصغر اور(حدث)اکبر کو زائل کرنا اور کپڑوں,جسموں اور نماز کی جگہوں سے نجاستوں کو زائل کرنا ہے



سوال : حدث اکبر کیا ہے؟

جواب : جب مرد یا عورت پر تمام بدن کو دھونا فرض ہو جائے تو وہ حدث اکبر ہے. پس جب وہ(سارے بدن کو) دھو لے تو وہ حدث دور ہو جاتا ہے اور اس کا نام غسل اور اغتسال رکھا جاتا ہے


سوال : حدث اصغر کیا ہے؟

جواب : جب نماز ادا کرنے کیلیئے مرد یا عورت پر بعض اعضاء کا دھونا اور(دیگر)بعض (اعضاء) کا مسح کرنا فرض ہو جائے تو یہ حدث اصغر ہے.اور جب ان اعضاء سے یہ حدث دور کر دیا جائے گا تو اس(عمل) کی وجہ سے طہارت حاصل ہو جاتی ہے.اور اس دھونے کا نام وضو  اور آدمی(کا نام)متوضی رکھا جاتا ہے


سوال : ان اعضاء کو بیان کیجیئے وضو میں جن کا دھونا یا ان پر مسح کرنا ضروری ہے؟ 

 1

 چہرہ سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ کی منتہا سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور دائیں کان کی لو سے بائیں کان کی لو تک

2

 دونوں ہاتھ, انگلیوں کے سروں سے کہنیاں تک

3

دونوں پاؤں انگلیوں کے سرے سے ٹخنوں تک
پس یہ اعضاء وضو میں دھوئے جاتے ہیں اور آدمی ان سب کو دھوئے بغیر متوضی نہیں بنتا. اور اگر ایک بال کی جگہ ایسی رہ جائے کہ اس کو پانی نہ پہنچا ہو تو (آدمی)  متوضی نہیں بنتا  یہاں تک کہ اس جگہ کو پانی کے ساتھ دھو لے

4

اور جس عضو کا مسح کیا جائے وہ سر ہی ہے. تمام سر کا مسح مسنون قرار دیا گیا ہے. اس کے چوتھائی کا مسح فرض سے کفایت کرتا ہے



سوال :  کیا دونوں ٹخنے اور دونوں کہنیاں دھونے میں داخل ہیں؟

جواب  : جی ہاں! وہ دونوں وضو کے فرض میں داخل ہوتے ہیں



  سوال :  وضو میں تینوں اعضاء کے دھونے کی فرضیت اور سر کے ماح کی فرضیت آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی؟

جواب : اللّه  تعالی نے اپنی کتاب میں ان کو بیان فرمایا

یٰاٙیُّھٙاالّٙذِیْنٙ اٰمٙنُوْا اِذٙا قُمْتُمْ اِلٙی الصّٙلٰوۃِ فٙاغْسِلُوْ وُجُوْھٙکُمْ وٙاٙیْدِیٙکُمْ اِلٙی الْمٙرٙافِقِ وٙامْسٙحُوْا بِرُوُسِکُمْ وٙاٙرْجُلٙکُمْ اِلٙی الْکٙعْبٙیْنِ 

(المائدہ:٦)


ترجمہ : اے ایمان والوں! جب تم نماز کو اٹھنے لگو(اس حال میں کہ تم بےوضو ہوؤ) تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھؤ



سوال : چوتھائی سر کے مسح کی فرضیت پر دلیل کیا ہے؟

جواب   اس پر دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللّه عنہ کی حدیث ہے آپ صلی اللّه  علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ" نبی اکرم صلی اللّه علیہ وسلم نے وضو کیا پس آپ صلی اللّه علیہ وسلم نے اپنی پیشانی 
کی مقدار پر مسح کیا


Lesson 2

وضو کی سنتوں کا بیان


  وضو کی سنتیں کیا ہیں ؟ 


نیت : پس(متوضی)حدث دور کرنے یا اس (عمل)  کی اباحت طلب کرنے کی نیت کرے جو (عمل) وضو کے بغیر جائز نہیں ہوتا

وضو کے آغاز میں دونوں ہاتھوں کو گٹوں سمیت تین مرتبہ دھونا اور ان کا دھونا اس وقت مؤکد ہو جاتا ہے جب آدمی نیند سے بیدار ہو پس وہ ان کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھو لے

 3

وضو کے شروع میں اللّه تعالی کا نام لینا

4

مسواک کرنا

5

 تین مرتبہ کلی کرنا

 6

ناک جھاڑنے کے ساتھ تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا  

7

تمام سر کا مسح کرنا

  8

 دونوں کانوں کا مسح کرنا

  9

 ( ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا )

 10

 داڑھی کا خلال کرنا

  11

 اعضاء مغسولہ) تین بار دھونا)

12

قرآن کریم میں وارد ہونے والی (ترتیب)  کے مطابق ترتیب رکھنا پس(متوضی) پہلے اپنا چہرہ پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے پھر سر کا مسح کرے پھر دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوئے 

13

دائیں طرف سے شروع کرنا پس پہلے اپنا دایاں ہاتھ پھر بایاں (ہاتھ) دھوئے اور اسی طرح دائیں پاؤں سے پھر بائیں پاؤں سے شروع کرے

14

پے در پے دھونا
یعنی ایک عضو خشک نہ ہونے پائے کہ دوسرے کو دوسرے کو دھو لے 

  15

گردن کا مسح کرنا



Lesson 3

غسل کے فرائض کا بیان


سوال  : غسل کے فرائض کیا ہیں؟

جواب : فرض غسل میں (درج ذیل امور ) فرض ہیں     


 ایک مرتبہ کلی کرنا (کہ پانی) منہ کو حلق تک بھر دے 
  (ایک مرتبہ) 
ناک کے نرم حصہ تک پانی داخل کرنا 
 (ایک مرتبہ) تمام ظاہری بدن کو دھونا


سوال : سنت کے طریقے پر کیسے غسل کیا جائے؟

جواب : غسل مسنون یہ ہے کہ غسل کرنے والا اپنے ہاتھوں کو دھونے سے ابتداء کرے پھر استنجا کرے یعنی شرمگاہ اور سرین کو دھوئے, اور اسنتجا کے وقت نرم ہو جائے جتنا ہو سکے. اور ظاہری نجاست کو دور کرے اگر بدن پر ہو. پھر نماز والا وضو کرے پھر اپنے سر پر اور باقی جسم پر تین مرتبہ پانی بہائے اور دونوں کان, دونوں بغل اور ناف وغیرہ کے سوراخوں کی دیکھ بھال کرے جہاں تک دیکھ بھال کے بغیر پانی نہیں پہنچتا
(یعنی ایسے مقامات کو اہتمام سے دھوئے)

فائدہ   جب وہ تخت,پتھر یا پتھر کے چوکے پر غسل کرے جہاں مستعمل پانی نہیں ٹہرتا تو معتاد(طریقہ)کے مطابق اپنے پاؤں وضو کے آخر میں دھوئے اور اگر مستعمل پانی غسل خانہ میں ٹھر جاتا ہو تو پاؤں دھونے کو مؤخر کرے پس اس جگہ سے جدا ہونے کے بعد غسل کے آخر میں اپنے پاؤں دھوئے



سوال : غسل کی یہ کیفیت خاص طور پر اس (شخص) کیلیئے ہے جس پر غسل فرض ہو چکا ہے یا سب غسل کرنے والوں کے لئے ہے؟

جواب : یہ (طریقہ) ہر غسل کرنے والے کیلیئے برابر ہے کہ غسل فرض ہو یا مسنون ہو



سوال : کیا عورت کو فرض غسل میں(سر کے) بال تر کرنے میں رخصت(حاصل)ہے؟یا اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی مینڈھیاں کھولے تا کہ وہ ان کو تر کرے؟

جواب  : عورت پر(لازم)نہیں کہ وہ اپنی مینڈھیاں کھولے اور نہ ہی بالوں کو تر کرنا اس پر واجب ہے جس وقت کہ پانی(بالوں)کی جڑوں تک پہنچ جائے اور یہ رخصت صرف اس عورت کیلیئے ہے جس کے بال مینڈھیوں (کی صورت میں) ہوں. پس اگر(بال)ایسے نہ ہوں تو جڑوں تک پانی پہنچانے کے ساتھ بالوں کو تر کرنا اس پر واجب ہے, اور اسی طرح فرض غسل میں(سر کے) تمام بالوں کو تر کرنا مرد کیلئیے ضروری ہے اگرچہ اس کے (سر کے) بال بہت ہوں

حدث اصغر اور حدث اکبر کے احکام کا بیان


سوال  :  ان احکام کو بیان کیجئے جو دونوں حدثوں کے متعلق ہیں؟

جواب : جب مرد یاعورت پر غسل فرض ہوجائے تو اس حالت میں ان کیلئے نماز پڑھنا جائز نہیں۔اور ان کیلئے مسجد میں داخل ہونا،قرآن پاک کی قراءت کرنا اور (جدا غلاف کے بغیر) قرآن پاک کو چھونا اور (بیت اللّه شریف کا)طواف کرنا جائز نہیں۔اور ان کیلئے جائز ہےکہ وہ اس حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کے علاوہ اللّه تعالی کا ذکر کریں۔


 پس بہرحال حدث اصغر والا تو اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ وضو کر لےاور اسی طرح اس کیلئے بیت اللّه شریف کا طواف کرنا جائز نہیں اور اس کیلئے قرآن کریم کی قراءت کرنا، اللّه بزرگ و برتر کا ذکر کرنا اور مسجد میں داخل ہونا جائز ہے اور اس کیلئے جدا غلاف کے بغیر قرآن شریف کو چھونا جائز نہیں۔




Lesson 4

پانیوں کا بیان


سوال : حدثِ اکبر اور حدثِ اصغر کس چیز سے زائل ہوتے ہیں؟

جواب : بارش کے پانی، وادیوں کے پانی، نہروں کے پانی، چشموں اور کنووں کے پانی، دریاؤں اور سمندروں کے پانی کے ساتھ دونوں حدثوں سے طہارت جائز ہے،  اگرچہ (دریاؤں اور سمندروں کا پانی) نمکین ہو اور ایسے پانی کے ساتھ دونوں حدثوں سے طہارت جائز ہے جس میں کوئی پاک شے مل گئی ہو اور اس کے اوصاف میں سے کسی ایک(وصف) کو بدل دیا ہو جیسے سیلاب کا پانی جس کے ساتھ مٹی مل گئی ہو اور جیسے وہ پانی جس کے ساتھ مثال کے طور پر صابن یا زعفران مل گیا ہو۔



سوال  : کیا پانیوں میں سے (کوئی ایسا پانی) ہے جس کے ساتھ دونوں حدثوں کو زائل کرنا جائز نہیں؟

جواب : وضو اور غسل ایسے پانی کے ساتھ جائز نہیں جس کو درخت یا پھل سے نچوڑا گیا ہو اور ایسے پانی کے ساتھ (جائز) نہیں جس پر اس کا غیر غالب ہوگیا ہو۔ پس وہ (غیر) اس کو پانی کی طبیعت سے نکال دے جیسے مشروبات، سرکہ، شوربہ وغیرہ۔


سوال : مستعمل پانی کے بارے میں آپ کا قول کیا ہے جس کے ساتھ دونوں حدثوں میں سے کوئی سا حدث دور کیا گیا ہو یا اس کو قربت کے طریق پر بدن میں استعمال کیا گیا ہو جیسے کوئی شخص باوضو تھا پھر اس نے حصولِ ثواب کے لیے نیا وضو کیا۔

جواب : اس (پانی) کے ساتھ وضو اور غسل جائز نہیں۔



سوال : تحقیق ہم جان چکے کہ مستعمل پانی سے حدث دور نہیں ہوتا اور ہم جاننا چاہتے ہیں کہ (مستعمل پانی) پاک ہے یا نہیں؟

جواب : وہ پاک ہے اگر اس کے ساتھ صرف حدث دور کیا گیا ہو (یعنی نجاستِ حُکمیہ کے ازالہ میں استعمال کیا گیا ہو اور نجاستِ حقیقیہ کے ازالہ  میں استعمال نہ کیا گیا ہو) اور پاک کرنے والا نہیں، مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ دونوں حدثوں سے دوبارہ طہارت حاصل نہیں ہوتی۔ پس اگر وضو کرنے یا غسل کرنے کے وقت کپڑوں پر مستعمل پانی کے کچھ قطرے ٹپکیں یا پھیل کر پانی یا کسی برتن میں گر جائیں تو یہ چیز ناپاک نہیں ہوتی۔



Lesson 5

پانی کی نجاست اور طہارت کا بیان


سوال : کیا (پانی )میں کوئی شے گرنے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے؟


جواب :  اللّه تعالیٰ نے پانی کو طاہر ( پاک ) اور طہور یعنی پاک کرنے والا پیدا فرمایا ہے، لیکن جب اس میں تھوڑی یا زیادہ نجاست گر جائے تو وہ ناپاک ہوجاتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللّه علیہ وسلم نے نجاست سے پانی کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے۔

پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ "تم میں سے کوئی کھڑے پانی میں ہرگز پیشاب نا کرے کہ پھر اس (پانی) میں غسل کرے"۔

 اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو وہ اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ اس کو تین دفعہ دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے کہاں شب باشی کی"۔
یعنی شاید ہاتھ مقام نجاست پر لگنے سے نجاست 
(آلود ہوگیا ہو)

 پس جب پانی میں نجاست گر جائے تو اس (پانی) کے ساتھ وضو کرنا جائز نہیں اور نا ہی غسل کرنا جائز ہے  



سوال : جب (تالاب) میں نجاست گر جائے تو تالاب سے وضو کرنے میں فقہاء کا قول کیا ہے؟

جواب : بڑا تالاب وہ ہے جس کی ایک جانب(کے پانی) کو حرکت دینے سے دوسری جانب (کا پانی) متحرک نہ ہو جب ایسے (حوض) کی دونوں جانبوں میں سے کسی ایک جانب میں نجاست گر جائے تو اس (حوض) کی دوسری جانب کے پانی سے وضو کرنا جائز ہے کیونکہ بظاہر نجاست  دوسری جانب کو نہیں پہنچی کیوں کہ (دوسری جانب) اس جانب سے دور ہے جس میں نجاست گری ہے۔



سوال : جاری پانی کا حکم کیا ہے جب کے اس میں نجاست گر جائے؟

جواب : ایسے (پانی) سے وضو اور غسل کرنا جائز ہے جب تک کہ پانی میں نجاست کا اثر معلوم نہ ہو کیونکہ پانی کے چلنے کے ساتھ نجاست نہیں ٹھہرتی۔



سوال : کیا پانی میں جانور کے مرنے سے پانی فاسد ہوجاتا ہے؟

جواب : جی ہاں ! پانی فاسد ہوجاتا ہے یعنی بہتا ہوا خون رکھنے والے جانور کی موت (پانی) کو ناپاک کر دیتی ہے برابر ہے کہ (ایسا جانور) پرندہ ہو یا چوپایہ۔ اور اس جانور کے مرنے سے (پانی) ناپاک نہیں ہوتا جو جانور پانی میں زندہ رہتا ہے جیسے مچھلی، مینڈک اور کیکڑا جیسا کہ اس جانور کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا جس میں بہتا ہوا خون نہیں جیسے پسو، مکھی، بھڑ اور بچھو۔



Lesson 6

تیمم کا بیان


سوال : تیمم کی لغوی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب : تیمم کی لغوی حیثیت قصد و ارادہ ہے اور شرعی حیثیت طہارت کی نیت کے ساتھ ازالۂ حدثین کی خاطر خاص طریقہ پر مٹی یا اس (چیز) کو استعمال کرنا جو زمین کی (جنس) سے ہے. اور اس سلسلہ میں اصل اللّه تعالیٰ کا فرمان ہے


فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ


ترجمہ : "پھر تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اس (زمین) پر سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لیا کرو"۔



سوال : بے وضو شخص کے لیے تیمم کب جائز ہوتا ہے؟

جواب : اگر بے وضو (شخص) کو پانی نہ ملے اس حال میں کہ وہ مسافر ہو یا شہر سے باہر ہو اس حال میں کہ اس کے اور پانی کے درمیان ایک میل یا اس سے زیادہ کی مسافت ہو تو وہ ازالۂ حدث کے لیے تیمم کرے۔



سوال : اگر پانی موجود ہو لیکن وہ بیمار ہو تو کیا اس کے لیے تیمم جائز ہے؟

جواب : جی ہاں! جب مریض کو پانی کے استعمال سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا جنبی کو اندیشہ ہو اگر اس نے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا تو ٹھنڈک اسے ہلاک کردے گی یا اسے بیمار کردے گی تو وہ تیمم کرے بشرطیکہ اس کو ایسی (شے) نہ ملے جس سے وہ پانی گرم کرے۔



سوال : تیمم کیسے کرے؟

جواب : سب سے پہلے وہ حدثِ اصغر یا حدثِ اکبر ان میں سے جو بھی ہو اس کے ازالہ کی نیت کرے یا نماز کی اباحت طلب کرنے کی نیت کرے پھر وہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے پس ان جو اپنے چہرے پر پھیرے اس حال میں کہ وہ (چہرے کا) احاطہ کرنے والا ہو اس حیثیت سے کہ بال برابر جگہ باقی نہ رہے مگر یہ کہ اس پر ہاتھ گزر جائے پھر دوسری مرتبہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے پس اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر انگلیوں کے سروں سے کہنی کی منتہیٰ تک پھیرے پھر اسی طرح اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر پھیرے اس حال میں کہ وہ انگلیوں کے سروں سے کہنی تک احاطہ کرنے والا ہو۔


سوال : یہ تیمم حدث اکبر کے لیے ہے یا حدثِ اصغر کے لیے؟

جواب : تیمم کی وہ صورت جو ہم نے ابھی ذکر کی ہے اس میں صاحب حدث اصغر اور صاحب حدث اکبر برابر ہیں، ان کے تیمم میں کوئی فرق نہیں۔



سوال : کس چیز کے ساتھ تیمم کرے؟

جواب : پاک مٹی اور ہر ایسی چیز کے ساتھ تیمم جائز ہے جو زمین کی جنس سے ہو جیسے ریت، گچ، چونہ، سرمہ اور پتھر اگرچہ نرم چکنا ہو کہاس پر غبار نہ ہو اور ان تمام اشیاء میں شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ پاک ہوں یہ (تعمیم) حضرت ابو حنیفہ رضی اللّه عنہ اور حضرت محمد ﷺ کے نزدیک ہے اور حضرت ابو یوسف رضی اللّه عنہ فرماتے ہیں کہ ( تیمم ) خاص طور پر مٹی یا ریت کے ساتھ جائز ہے بشرطیکہ وہ دونوں پاک ہوں۔



سوال : جب (کوئی شخص) گھر گرائے یا ہوا غبار اڑائے پس مٹی اس کے چہرے اور ہاتھوں کو پہنچے تو کیا اس سے تیمم حاصل ہوجاتا ہے اور اس (تیمم) سے نماز جائز ہوجاتی ہے؟

جواب : وہ اس (عمل) سے متیمم نہیں بنتا اور اس سے مطلوبہ طہارت حاصل نہیں ہوتی کیونکہ نیت تیمم میں فرض ہے۔ بہرحال اس نے پانی میں غوطہ لگایا اور غسل کی نیت نہیں کی تو یہ (عمل) اس کو غسل سے کفایت کرے گا اور اسی طرح جب بارش وضو کے تمام اعضاء کو پہنچے اور ہانی (اعضاء) پر بہہ پڑے اور وہ اپنا ہاتھ اپنے سر پر پھیر دے تو یہ عمل اس کو وضو سے کفایت کرے گا اگرچہ اس نے وضو کی نیت نہ کی ہو اور یہ اس لیے کہ نیت وضو اور غسل میں فرض نہیں بلکہ یہ (یعنی نیت) دونوں میں سنت ہے۔



سوال : جب وہ تیمم کر لے تو کیا اس کے لیے (تیمم) کے ساتھ نوافل پڑھنا جائز ہے؟
جواب : تیمم کے ساتھ فرائض اور نوافل میں سے جو (فرض و نفل) نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے جائز ہے۔ اور ہر وہ کام کرنا (جائز ہے) جو جنبی کے غسل اور  متوضی کے وضو کے بعد جائز ہوتا ہے کیونکہ غسل یا وضو سے حاصل ہونے والی طہارت اور تیمم سے حاصل ہونے والی طہارت میں کوئی فرق نہیں پس متیمم کے لیے قرآن پاک کو چھونا ،مسجد میں داخل ہونا،قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور بیت اللّه کا طواف کرنا جائز ہے۔



سوال : کیا تندرست مقیم کے لیے بعض حالات میں تیمم جائز ہے؟

جواب : پانی کے ملنے اور اس کے استعمال پر قادر ہونے کے باوجود تندرست مقیم کے لیے اس صورت میں تیمم جائز ہے جب جنازہ حاضر ہو جائے اور ولی اس کا غیر ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ اگر وہ وضو میں مشغول ہوا تو نماز جنازہ اس سے فوت ہوجائے گی ایسے شخص کے لیے تیمم کرنا اور نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ 



سوال : اگر یہ صورت اس شخص کو پیش آجائے جو (نماز) عید میں حاضر ہو اس حال میں کہ وہ بے وضو ہو؟

جواب : اسی طرح جو شخص نماز عید میں حاضر ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ اگر وہ وضو کرنے میں مشغول ہوا تو نماز عید اس سے فوت ہوجائے گی تو وہ تیمم کرے اور امام کے ساتھ نماز عید پڑھے۔



سوال : ایک شخص نماز جمعہ میں حاضر ہوا اور اس حال میں کہ وہ باوضو نہیں، اگر وہ طہارت میں مشغول ہو تو اسے نماز جمعہ فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو کیا تیمم ایسے شخص کے لیے جائز ہے؟

جواب  : تیمم اس کے لیے جائز نہیں۔ وضو کرنا اس پر لازم ہے ہس اگر وہ امام کے ساتھ (نماز) جمعہ پا لے تو وہ اس کے ساتھ نماز جمعہ پڑھ لے ورنہ چار رکعت نماز ظہر پڑھ لے۔



سوال : اگر وقت تنگ ہو اس حیثیت سے کہ اگر اس نے وضو بنایا تو وقت نکل جائے گا اور نماز اس سے فوت ہوجائے گی اس شخص کی طرح جو طلوع آفتاب سے پہلے بیدار ہوا اور وقت وضو و نماز دونوں کی گنجائش نہیں رکھتا تو کیا تیمم ایسے شخص کے کیے جائز ہے؟

جواب : تیمم ایسے شخص کیلیئے جائز نہیں.اور وضو کرنا اس پر لازم ہے اور اگر وہ جنبی ہو تو غسل کرنا اس پر لازم ہے اور وہ طلوع آفتاب اور نیزے کی مقدار (آفتاب)  طلوع ہونے کے بعد قضا نماز پڑھے کیونکہ تنگئ وقت جوازِ تیمم کیلیئے عذر نہیں



سوال : کیا ایسے شخص کیلیئے نماز مؤخر کرنا جائز ہے جسے پانی نہ ملے اس حال میں کہ وہ (نماز کے) آخر وقت میں (پانی) ملنے کی امید رکھتا ہو؟

جواب : ایسا کرنا اس پر لازم نہیں بلکہ اس کیلیئے مستحب ہے کہ وقت کے آخر تک نماز مؤخر کرے پس اگر اسے پانی مل جائے تو وضو کرے وگرنہ تیمم کرے اور نماز پڑھے



سوال : مسافر اپنے کجاوہ میں پانی بھول گیا اور (پانی) اس نے خود رکھا تھا یا اس کے حکم سے کسی نے رکھا تھا پس اس نے تیمم کیا اور نماز پڑھی پھر (نماز) کے وقت میں پانی اسے یاد آگیا تو کیا وہ اپنی نماز لوٹائے ؟

جواب : حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه اور حضرت محمد رحمہ اللّه کے نزدیک (نماز) لوٹانا اس پر لازم نہیں اور حضرت ابو یوسف رحمہ اللّه فرماتے ہیں کہ وہ اس صورت میں نماز لوٹائے



سوال : ایک شخص سفر میں ہے اس کے پاس پانی نہیں (تو ) کیا پانی تلاش کرنا اس پر واجب ہے؟

جواب : پانی کی تلاش اس پر لازم نہیں  اگر پانی کا قریب ہونا اس کے ظن پر غالب نہ ہو اور اس کا غالب گمان یہ ہو کہ وہاں پانی ہے تو اس کیلیئے تیمم جائز نہیں یہاں تک کہ وہ (پانی)  تلاش کرے



سوال : اور اگر اس کے ساتھی کے پاس پانی ہو (تو) کیا تیمم سے پہلے وہ اس سے (پانی) طلب کرے؟

جواب : جی ہاں ! وہ اس سے پانی طلب کرے پس اگر وہ اسے قیمت پر دے دے جس قیمت میں لوگ نقصان برداشت کر لیتے ہیں یا قیمت کے بغیر (دے دے)  تو وہ وضو کرے اور اگر وہ اسے نہ دے (تو) وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے



سوال : کون سی شے تیمم کو توڑ دیتی ہے؟

جواب : ہر وہ شے تیمم کو توڑ دیتی ہے جو وضو کو توڑ دیتی ہے جبکہ اس نے وضو کی جگہ تیمم کیا ہو اور جنبی کے تیمم کو وہ (شے) توڑ دیتی ہے جس سے غسل واجب ہوتا ہے نیز دونوں صورتوں میں پانی کا ملنا اور اس کے استعمال پر قادر ہونا تیمم کو توڑ دیتا ہے


Lesson 7

موزوں اور لکڑی پر مسح کرنے کا بیان



 سوال : کیا وضو میں پاؤں دھونے کا بدل (موجود)  ہے؟

جواب  : جی ہاں ! ثابت شدہ احادیث صحیحہ کثیرہ سے موزوں پر مسح کرنا پاؤں دھونے کا بدل ثابت ہے



سوال : کیا اس مسح کے جواز کیلیئے کوئی شرط ہے؟

جواب : جی ہاں! (موزوں)  کو طہارت پر پہننا اس (مسح) کے جواز کیلیئے شرط ہے



سوال  : کیا مسح کیلیئے توقیت (یعنی وقت کی تحدید) ہے؟

جواب  : جب وہ موزوں کو طہارت پر پہنے پھر بے وضو ہو جائے تو اس کیلیئے جائز ہے کہ ان پر ایک دن ایک رات مسح کرے اگر مقیم ہو اور تین دن اور تین راتیں (مسح کرے)  اگر مسافر ہو.پس جب بھی اس مدت میں وضو کرے تو سفر و حضر میں موزوں پر مسح کرے



سوال : ایک دن ایک رات یا تین دن تین راتوں کی ابتداء (موزوں)  کو پہننے کے وقت سے یا حدث کے وقت سے ہے؟

جواب : (موزوں) کو طہارت پر پہننے کے بعد حدث کے وقت کی ابتداء معتبر ہو گی مثلاً اس نے زوال کے بعد کامل وضو کیا اور طہارت پر موزے پہنے اور غروب کے وقت اسے حدث لاحق ہو گیا تو اس کیلیئے آئندہ دن کے غروب کے وقت تک ان پر مسح کرنا جائز ہے اور اسی پر مسافر کے مسح کو قیاس کیجیئے



سوال : کیا موزوں پر مسح اس شخص کیلیئے جائز ہے جس پر  غسل فرض ہو؟

جواب : موزوں پر مسح کرنا اس کیلیئے جائز نہیں بلکہ باقی بدن کے ساتھ پاؤں دھونا اس پر فرض ہے



سوال : اگر موزہ پھٹا ہوا ہو تو کیا اس پر مسح جائز ہے؟

جواب : اگر پھٹن زیادہ ہو اس حیثیت سے کہ پاؤں کی چھوٹی انگلیوں میں سے تین انگلیوں کی مقدار (پھٹن) سے ظاہر ہوتی ہو تو اس پر مسح جائز نہیں اور اگر اس (مقدار)  سے کم ہو تو  اس پر مسح جائز ہے


سوال : زیادہ پھٹن کی یہ مقدار ایک موزے سے لی جائے گی یا دونوں سے؟

جواب  : اس (مقدار) میں ایک موزے کی پھٹن نہیں. میری مراد یہ ہے کہ جب وہ دونوں موزوں کی پھٹن پاؤں کی تین انگلیوں کی مقدار ہو تو ان پر مسح جائز ہے اور اگر (پھٹن کی)  یہ مقدار ہر ایک (موزے) کی یا دونوں(موزوں) میں سے کسی ایک (موزے) کی ہو تو ان پر مسح جائز نہیں


سوال : موزوں پر کیسے مسح کرے؟

جواب : موزوں کی پشت پر انگلیوں کے ساتھ خط کھینچتے ہوئے مسح کرے اس طور پر کہ ہاتھوں کی انگلیوں کو پانی سے تر کرے پھر ان کو مکمل طور پر (موزوں کی پشت پر) رکھ دے پھر ان کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کی طرف سے اسی طرح کھینچے اور ہر موزے کے مسح میں تین انگلیوں کی مقدار ضروری ہے


سوال : کون سی شے اس مسح کو توڑ دیتی ہے؟

جواب : جو (شے) وضو کو توڑ دیتی ہے وہ اس کو توڑ دیتی ہے اور نیز  موزے کا اتارنا اور مدت کا گزر جانا اس کو توڑ دیتا ہے


سوال : جب مدت گزر جائے یا دونوں موزوں میں سے ایک یا دونوں کو اتار دے اور وضو کے نواقض میں سے کوئی شے نہ پائی جائے تو وہ کیا کرے؟

جواب : ان دونوں صورتوں میں وہ صرف اپنے پاؤں دھوئے اور نماز پڑھے باقی وضو کو لوٹانا اس پر لازم نہیں


سوال : تحقیق آپ نے ذکر فرمایا ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات اور مسافر تین دن اور تین راتیں مسح کرے تو اس شخص کے بارے میں تمھارا قول کیا ہے جو مسافر تھا پس مقیم ہو گیا یا مقیم تھا پھر مسافر کو گیا؟

جواب : جس نے مسح شروع کیا اس حال میں کہ وہ مسافر تھا پھر وہ مقیم ہو گیا پس اگر وہ ایک دن اور ایک رات یا (اس سے)زیادہ (مدت)  مسح کر چکا ہے تو موزے اتارنا اس پر لازم ہے اور اگر (ایک دن اور ایک رات) سے کم (مدت) ہوئی ہے تو ایک دن اور ایک رات کا مسح مکمل کرے اور جس نے مسح شروع کیا اس حال میں کہ وہ مقیم تھا پس ایک دن اور ایک رات پورے ہونے سے پہلے وہ مسافر ہو گیا تو مکمل تین دن اور تین راتیں مسح کرے



سوال : اس شخص کے بارے میں آپ کا قول کیا ہے جس نے موزے کے اوپر کالوش پہن لیا (تو)  کیا اس پر مسح جائز ہے؟

جواب : جی ہاں ! اس پر مسح جائز ہے جبکہ حدث لاحق ہونے سے پہلے پہنا ہو 



سوال : جرابوں پر مسح کا حکم کیا ہے؟

جواب : ان پر مسح جائز نہیں مگر یہ کہ مجلّد یا منعل ہوں یہ (حکم) حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه کے نزدیک ہے اور حضرت ابو یوسف و حضرت محمد رحمہما اللّه فرماتے ہیں کہ ان پر مسح جائز ہے جبکہ وہ اتنی گاڑھی ہوں کہ نہ چھنتی ہوں



سوال : موزوں کے علاوہ کسی(چیز)پر مسح  میں آپ کا قول کیا ہے؟

جواب : پٹی پر مسح جائز ہے جبکہ اسے ضرورت علاج کے تحت زخم یا ٹوٹے ہوئے عضو پر باندھا گیا ہو اور اسی طرح لکڑی پر (مسح جائز ہے) جبکہ اسے ٹوٹے ہوئے عضو پر باندھا گیا ہو جیسے بازو اور پنڈلی



سوال : کیا پٹی اور لکڑی پر مسح کی صحت میں ان کو طہارت پر باندھنا شرط ہے؟

جواب : ان مسح میں یہ شرط نہیں پس اگر ان کو بے وضو باندھا پھر وضو کرنا چاہا تو ان پر مسح جائز ہے. 


سوال : اگر زخم اچھا ہونے کے بعد پٹی کھول دی اور اسے گرا دیا تو کیا اس کا مسح باقی ہے؟
جواب : اس صورت میں پٹی یا لکڑی کا مسح باطل ہو جاتا ہے. پس اگر وہ اس سے پہلے وضو کر چکا تھا اور (وضوء)  میں پٹی یا لکڑی پر اس نے مسح کیا پھر ان کی ضرورت  نہ ہونے کی بنا پر ان کو کھول دیا اور پھینک دیا اور نواقض وضو میں سے کوئی ناقض پیش نہیں آیا تو وہ (صرف) پٹی اور لکڑی کی جگہ کو دھوئے پھر نماز پڑھے


سوال : کیا پگڑی, ٹوپی, برقع اور دستانوں پر مسح جائز ہے؟

جواب : ان اشیاء پر مسح جائز نہیں



Lesson 8

حیض نفاس اور استحاضہ کا بیان


سوال : حیض کیا ہے؟

جواب : اللّه تعالی نے بنو آدم کی بچیوں پر طبعی طور پر لازم کردیا ہے کہ انکے رحموں سے خون بہے اور اکثر خواتین کے رحم ہر ماہ یہ خون پھینکتے ہیں اور اس سیلان کا نام "حیض" رکھاجاتا ہےجیسا کہ اسکی ضد کا نام "طھر"رکھا جاتا ہے۔


سوال : کیا سفید شریعت میں (حیض و طھر) کے احکام ہیں ؟

جواب : جی ہاں ! ان کے احکام ہیں (جو) فقہ کی کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں۔



سوال : جب عورت کو حیض آئے تو کونسا حکم اسکے متعلق ہوتا ہے؟

جواب : پانچ احکام (حیض) کے متعلق ہیں

 اول : (حیض والی خاتون) کیلئے جائز نہیں کہ وہ حیض کے دنوں میں نماز پڑھے یا روزہ رکھے نہ فرض اور نہ نفل۔

دوم : اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہو یا بیت اللّه کا طواف کرے۔

سوم : قرآن پاک کی قراءت کرنا اس کیلئے جائز نہیں۔

چہارم : جدا غلاف کے بغیر مصحف یعنی قرآن کریم کو چھونا اس کیلئے جائز نہیں۔

پنجم : اس کا شوہر اس سے صحبت نہ کرے۔



سوال : پس جب حائضہ پاک ہوجائے تو کیا نماز اور روزہ قضا کرنا اس پر فرض ہے؟

جواب : وہ بالکل نماز کی قضا نہ کرے کیونکہ (نماز) اس کے ذمہ سے قضا کے بغیر ساقط ہے بہرحال رمضان شریف کے روزے پس انکی قضا اس پر لازم ہے جب وہ پاک ہوجائے۔



سوال : کیا قلت اور کثرت کی حیثیت سے حیض کی مدت (مقرر) ہے؟

جواب : جی ہاں! حیض کی اقل
(یعنی کم سے کم مدت )
تین دن اور تین راتیں ہیں اور اسکی اکثر مدت دس دن اور دس راتیں ہیں ۔



سوال : حائضہ جو خون دیکھتی ہے کیا اس کا خاص رنگ ہے؟

جواب : حائضہ حیض کے دنوں میں جو سرخی, زردی اور مٹیالا رنگ دیکھے تو وہ حیض ہے یہاں تک کہ وہ خالص سفیدی دیکھے
(کہ وہ حیض نہیں )



سوال : جب حائضہ کا خون بند ہو جائے اور وہ خالص سفیدی دیکھ لے(تو)کب اس سے صحبت کرنا جائز ہے؟

جواب : جب دس دن سے کم پر حیض کا خون بند ہو جائے تو اس سے صحبت کرنا جائز نہیں یہاں تک کہ وہ غسل کر لے یا اس پر کامل نماز کا وقت گزر جائے اور اگر اس کا خون دس دن پر بند ہو تو (عورت) کے غسل کرنے سے پہلے اس سے صحبت کرنا جائز ہے



سوال : جب دو خونوں کے درمیان مُتَخَلّل ہو تو وہ (طہر) حیض کے حکم میں ہے یا طہارت
کے حکم میں ہے ؟

جواب : طہر جب مدت حیض میں دو خونوں کے درمیان متخلل ہو تو وہ جاری خون کی طرح ہے اور اس پر حیض کے تمام احکام جاری ہوں گے



سوال : کیا اقل اور اکثر کی حیثیت سے طہر کی مدت (مقرر) ہے؟

جواب : طہر کی اقل(یعنی کم ازکم مدت) پندرہ دن ہے(اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حیض کا خون دس دن پر بند ہو پھر وپ پندرہ دن سے پہلے خون دیکھے تو وہ حیض نہیں ہو گا کیونکہ طہر فاصل کی مدت اس کے بعد نہیں گزری) اور (طہر) کی اکثر(مدت) کی کوئی حد نہیں(پس اگر اس کا طہر کئی برس دراز رہا اور اسے حیض نہ آیا تو وہ ہمیشہ پاک رہے گی یہاں تک کہ حیض کا خون دیکھ لے



سوال : نفاس کیا ہے؟

جواب : وہ ولادت کے بعد عورت کے رحم سے نکلنے والا خون ہے



سوال : اس کی مدت کتنی ہے؟

جواب : اس کی اکثر (مدت) چالیس دن ہے اور اس کی اقل (مدت) کی کوئی حد نہیں



سوال : کون سا حکم نفاس کے متعلق ہوتا ہے؟

جواب : اس کے احکام حیض کے احکام کی طرح ہیں   یہ(یعنی نفاس) نماز پڑھنے, روزہ رکھنے, صحبت کرنے, مسجد میں داخل ہونے,(بیت اللّه کا) طواف کرنے, قرآن مجید کی قرأت کرنے اور جدا غلاف کے بغیر اس کو چھونے سے منع کرتا ہے اور (نفاس والی خاتون) رمضان شریف کے روزے کی قضا کرے اور نمازوں کی قضا نہ کرے جیسا کہ ہم نے اس کو حیض کے احکام میں ذکر کر دیا ہے



سوال : جب(عورت)نے ایک پیٹ(یعنی ایک حمل) سے دو بچے جنے تو ان دونوں میں سے کس سے نفاس شروع ہوتا ہے؟

جواب : حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه اور حضرت یوسف رحمہ اللّه کے نزدیک (عورت)  کے نفاس کی ابتداء پہلے بچے سے ہوتی ہے اور حضرت محمد اور حضرت زفر رحمہ اللّه فرماتے ہیں کہ (نفاس) کی ابتداء دوسرے بچے سے ہوتی ہے 



سوال : جب عورت کا پیٹ چاک کیا جائے اور اس سے بچہ نکالا جائے تو کیا (عورت) اس (عمل) سے زچہ ہو جاتی ہے اور کیا اس (عمل) پر نفاس کے احکام جاری ہوتے ہیں؟

جواب : اگر خون (عورت) کے رحم سے معتاد راستہ سے بہا تو وہ زچہ ہو جائے گی اور اس پر نفاس کے احکام جاری ہوں گے اور اگر اس کے رحم سے خون نہیں بہا تو یہ (عمل) تمام زخموں کی طرح زخم کے حکم میں ہو گا



سوال : جب (عورت) نے معتاد طریقہ پر بچہ جنا اور خون رحم سے نہیں بہا (تو) کیا اس ولادت کی وجہ سے نفاس کا حکم لگایا جائے گا؟

جواب : جی ہاں! وہ زچہ ہے. اس پر غسل واجب ہو گا اور وہ انتظار کے بغیر روزہ رکھے اور نماز پڑھے



سوال : سقط(یعنی قبل از وقت گرنے والے نا تمام بچے) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ کیا عورت اس سے زچہ ہو جاتی ہے؟

جواب : جی ہاں!  (عورت) اس سے زچہ ہو جاتی ہے جبکہ اس کا بعض عضو ظاہر ہو چکا ہو مثلاً ہاتھ یا پاؤں یا انگلی یا ناخن یا بال. اور اگر اعضاء میں سے کچھ ظاہر نہ ہوا ہو تو وہ رحم سے بہنے والے خون کی طرح ہے. پس اگر وہ (خون) دن اور تین راتیں رہا اور اس سے پہلے مکمل طہر گزر چکا ہو تو وہ حیض ہے وگرنہ وہ استحاضہ ہے 


سوال : نفاس کے دنوں میں طہر متخلل کے بارے میں آپ کا قول کیا ہے؟

جواب : چالیس دن کے اندر دو خونوں کے درمیان طہر متخلل نفاس ہے



سوال : استحاضہ کیا ہے؟

جواب : یہ چند صورتوں پر (مبنی) ہے

 اگر (عورت) نے خون دیکھا اور تین دن سے کم پر بند ہو گیا تو وہ استحاضہ ہے

اور جو (خون عورت) کی عادت سے زائد ہو گیا اور دس(دن) سے تجاوز کر گیا تو تمام (خون یعنی عادت کے بعد والا) استحاضہ ہے
  جب (عورت)  پہلی مرتبہ خون دیکھے اور وہ (خون) دراز ہو جائے یہاں تک کہ دس دن سے زائد ہو جائے تو دس دن حیض میں شمار ہوں گے اور جو زائد ہو گا وہ استحاضہ ہے پس اگر مبتدأہ کا یہ جاری خون کئی سال باقی رہا تو اس کا حیض ہر ماہ میں دس دن ہے اور باقی (خون) استحاضہ ہے

 وہ خون جو حاملہ اپنے حمک کے ایام میں دیکھے استحاضہ ہے

 حاملہ ولادت کی حالت میں بچہ کے نکلنے سے پہلے جو خون دیکھے وہ استحاضہ ہے

 جب نفاس میں عورت کی معروف عادت ہو اور خون چالیس دن سے زائد ہو جائے تو جو (خون) عادت سے زائد ہو گیا تو وہ استحاضہ ہے

 اور اگر (عورت) نے پہلی مرتبہ بچہ جنا پس اسکا خون دائمی ہو گیا اور چالیس دن سے متجاوز ہو گیا تو چالیس دن (کا خون) نفاس ہے اور جو زائد ہو گیا تو وہ استحاضہ ہے
  جب حمل گر جائے اور (ابھی تک)  عضو میں سے کچھ ظاہر نہ ہوا اور اس کو حیض بنانا ممکن نہ ہو تو وہ استحاضہ ہے



سوال : مستحاضہ کے احکام کیا ہیں؟

جواب : (مستحاضہ) قرآن پاک کی تلاوت کرنے, مسجد میں داخل ہونے, فرض و نفل روزہ رکھنے اور اپنے شوہر کے چھا جانے (یعنی صحبت کرنے) میں پاک خواتین کی طرح ہے لیکن جب وہ کوئی وقت نہ پائے مگر اس حال میں کہ اس کا خون بہ رہا ہو تو وہ معذور کے حکم میں ہے پس وہ ہر (فرض) نماز کے وقت وضو کرے اور اس (وضوء)  سے نماز پڑھے جو فرض یا نفل وہ چاہے اور اس کا وضو وقت نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور جب وہ وضو کر چکے تو اس کے لیئے نماز پڑھنا, بیت اللّه کا طواف کرنا اور قرآن پاک کو چھونا جائز ہے

معذور کا حکم 


سوال : دائمی نکسیر والا, ایسے زخم والا جو خشک نہ ہوتا ہو اور وہ (شخص)  جسے بار بار پیشاب آنے یا ہوا خارج ہونے (کی بیماری لاحق) ہو وہ کیسے کرے؟

جواب :  یہ (لوگ)  ہر (فرض)  نماز کے وقت وضو کریں اور اس وضو کے ساتھ نماز پڑھیں جو فرائض یا نوافل وہ چاہیں اور اس دائمی ہمیشہ رہنے والے ناقض کی وجہ سے ان کا وضو وقت کے نکلنے تک نہیں ٹوٹتا اور وقت نکل جائے (تو) ان کا وضو ٹوٹ جائے گا


سوال : اگر دوران وقت کوئی ناقض پیش آ جائے اس ناقض کے سوا جس میں وہ مبتلا ہے تو اس( ناقض) سے اسکا وضو ٹوٹ جائے گا؟

جواب : جی ہاں ! اس(ناقض) سے اسکا وضو ٹوٹ جائے گا جیسا کہ جب وہ دائمی نکسیر میں مبتلا تھا پس اس نے وضو کے بعد مثال کے طور پر پیشاب کر لیا تو پیشاب کی وجہ سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور وقت کے آخر تک باقی نہ رہے گا. سمجھ لیجیئے


Lesson 9

نجاستوں اور اُن کو پاک  کرنے کا بیان


سوال : ناپاک چیزوں اور نجاست کی اقسام بیان کیجۓ؟

جواب : نجاست کی دو قسمیں ہیں

 ١) غلیظہ (٢) خفیفہ )

پس غلیظہ  اس میں سے ہر وہ چیز ہے جو انسان کے بدن سے نکلے اس میں سے جس کا نکلنا وضو یا غُسل کو واجب کرتا ہو مثلاً پاٸخانہ، پیشاب، منی، مذی، ودی ، پیپ، کچ لہو اور قے جبکہ منہ کو بھر دے اور اسی طرح حیض، نفاس اور استحاضہ کا خون اور اسی طرح چھوٹے بچے اور بچی کا پیشاب، وہ کھانا کھاتے ہوں یا نہیں اور اسی طرح شراب، بہنے والا خون، مردار کا گوشت،اور اسکی چربی اور اس کی کھال اور اسی طرح اس (جانور) کا پیشاب جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اور اسی طرح لید، گاۓ کی گوبر، کتے کا پاٸخانہ، مرغی، بطخ اور مرغابیوں کی بیٹ اور اسی طرح جنگلی درندوں کا پاٸخانہ یہ سب نجاستِ غلیظہ ہے اور اسی طرح سور اپنے تمام اجزا۶ سمیت نجاستِ غلیظہ ہے۔

اور بہرحال خفیفہ  پس اس (جانور) کا پیشاب جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اور گھوڑے کا پیشاب اور اس پرندے کی بیٹ جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا۔
 خفیفہ کے نزدیک جس پرندے کا گوشت کھایا جاتا ہے اسکی بیٹ پاک ہے، مثلاً کبوتر، چڑیا، بٹیر



سوال : غلیظہ اور خفیفہ کے درمیان کس چیز میں فرق ظاہر ہوتا ہے ؟ 


جواب : یہ (فرق) نجاست کے ساتھ نماز کے جواز میں ظاہر ہوتا ہے پس اگر نجاست غلیظہ درہم کی مقدار یا اس سے کم نمازی کے کپڑے یا بدن کو لگ جاۓ ( تو ) اس کے ساتھ نماز کراہت کے ساتھ جاٸز ہوتی ہے اور اگر نجاستِ خفیفہ نمازی کے کپڑے کو لگ جاۓ تو اس کے ساتھ نماز جاٸز ہوتی ہے جب تک کہ (نجاست) چوتھاٸ کپڑے کو نہ پہنچے اور جب نجاستِ غلیظہ درہم سے بڑھ جاۓ یا ( نجاستِ) خفیفہ چوتھاٸ کپڑے کو پہنچ جاۓ تو اس کے ساتھ نماز جاٸز نہیں ہوتی۔



سوال : جب نجاست بدن یا کپڑے کو لگ جاۓ تو پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ 

جواب : جب نجاست نظر آتی ہو تو کپڑے یا بدن کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پاک پانی کے ساتھ یا پانی کے علاوہ بہنے والی پاک (شے) مثلاً سرکہ اور گلاب کے پانی سے دھونے کے ساتھ اس (نجاست) کا جسم زاٸل کیا جاۓ اور اگر (نجاست) نظر نہ آتی ہو مثلاً پیشاب اور ناپاک پانی تو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو دھویا جاۓ یہاں تک کے دھونے والے کا غالب گمان یہ ہو کہ تحقیق وہ پاک ہو چکا ہے۔ 



سوال : اگر اس نے نظر آنے والی نجاست کو زاٸل کیا لیکن اسکا نشان باقی رہ گیا تو اس (نجاست) کا حکم کیا ہے؟ 

جواب : جب نجاست کا جسم دھونے سے دور ہو جاۓ تو اس کے اس اثر کا باقی رہنا نقصان دہ نہیں جسکا اِزالہ دشوار ہو جیسے رنگ اور بو۔ 



سوال : کیا نجاستوں کو پاک کرنے کے دیگر طریقے ہیں؟ 

جواب : جی ہاں ! اور اس میں تفصیل ہے جس کو 
فقہا۶ نے ذکر فرمایا ہے اور اس کا کچھ حصہ لیجۓ۔ 


١جب موزہ کو جسم دار نجاست لگ جاۓ اور خشک ہو جاۓ اور وہ (موزے) کو زمین پر اتنا رگڑے کہ نجاست زاٸل ہو جاۓ (تو) اس میں نماز جاٸز ہے۔


٢اور جب منی کپڑے کو لگ جاۓ پس اگر وہ تر ہے تو کپڑا دھونے ہی سے پاک ہو گا اور اگر وہ (منی) کپڑے پر خشک ہو جاۓ تو اس میں کھرچنا اسکو کافی ہو گا بشرطیکہ (منی) پیشاپ سے مخلوط نہ ہو۔ 


٣) اور جب شیشہ یا تلوار کو نجاست لگ جاۓ تو ان کو پونچھنا کافی ہوگا۔ 


٤اور اگر زمین کو نجاست لگی اور خشک ہو گٸ اور نجاست کا اثر چلا گیا تو اس (نجاست) کی جگہ پر نماز جاٸز ہے لیکن اس (نجاست) کی جگہ سے تمیّم جاٸز نہیں اور اگر زمین دھو دی گٸ اور نجاست دور ہو گٸ (تو) دونوں کام (یعنی نمازو تمیّم) جاٸز ہیں۔ 


٥اور جب کچی کھال رنگ دی جاۓ تو تحقیق وہ پاک ہو گٸ اور اس میں نماز جاٸز ہے اور اسی طرح اس (کھال) سے بناۓ ہوۓ برتن سے وضو کرنا جاٸز ہے اور سور کی کھال کبھی پاک نہیں ہوتی اور آدمی کی کھال ! (آدمی) کا احترام کرتے ہوۓ اس کی کھال کا استعمال جاٸز نہیں ۔



Lesson 10

استنجا کا بیان  


سوال :  استنجاء کا حکم کیا ہے؟ 

جواب : وہ سنت ہے اور اس میں پتھر، ڈھیلا اور جو ان کے قاٸم مقام ہو کفایت کرتا ہے اور وہ محلِ (اِستنجا) کو پونچھے یہاں تک کہ اس کو صاف ستھرا کردے اور طاق (عدد) استعمال کرنا افضل ہے اور واجب نہیں اور پانی سے دھونا افضل ہے اور اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز کر جاۓ ( تو) پتھر وغیرہ سے استنجا کفایت نہیں کرتا اور پانی یا بہنے والی (پاک) شے کا استعمال واجب ہوتا ہے۔



سوال : اُن اشیا۶ کو بیان کیجۓ جن کے ساتھ استنجا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے؟ 

جواب : وہ اپنے داٸیں ہاتھ سے، ہڈی سے، لید سے، کھانے سے اور کسی محترم شے سے استنجا نہ کرے 


سوال : پیشاب اور پاٸخانہ کرنے کے وقت صحرا۶ اور عمارت میں قبلہ رخ ہونے اور (قبلہ) پشت ہونے میں آپ کا قول کیا ہے؟ 

جواب : پاٸخانہ اور پیشاب کرنے کے وقت صحراء اور عمارت میں (قبلہ) رخ ہونا اور (قبلہ) پشت ہونا دونوں مکروہ ہیں۔



سوال : کس جگہ پاٸخانہ اور پیشاب کرنے سے منع کیا جاتا ہے؟ 

جواب : پانی میں اور اس پر وارد ہونے کے مقامات میں، پھل دار درخت کے نیچے اور ایسے سایہ میں جس سے لوگ نفع اٹھاتے ہیں اور لوگوں کے راستے میں پیشاب و پاٸخانہ سے منع کیا جاتا ہے۔ اور ہوا چلنے کی جگہ اور سوراخ میں پیشاب کرنے سے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔


Sight  Of  Righht 

No comments:

Powered by Blogger.