Kitab e Haj ka biyan Tirmizi pending work

 

کتاب  حج کا بیان

 

باب:  کتنے حج فرض ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي کُلِّ عَامٍ فَسَکَتَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي کُلِّ عَامٍ قَالَ لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَاسْمُ أَبِي البَخْتَرِيِّ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ فَيْرُوزَ

 

ترجمہ

 علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ  جب یہ حکم نازل ہوا کہ  اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں ، تو لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال  (فرض ہے)  ؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا ہر سال ؟ آپ نے فرمایا 

  نہیں ، اور  اگر میں ہاں کہہ دیتا تو  (ہر سال)  واجب ہوجاتا اور پھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا   اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تم پر شاق گزریں 

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 علی (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

 ابوالبختری کا نام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں

 اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 (سند میں ابو البختری کی علی (رض) سے معاصرت وسماع نہیں ہے، اس لیے سند منقطع ہے)  

 

Translation

Sayyidina Ali narrated that when the verse. (3 : 97) was revealed, they said, O Messenger of Allah! ﷺ Is that every year?” So he observed silence. They said (again), “O Messenger of Allah, is that every year?” he said, “No! and if I had said Yes then that would have become fard (every year).” So Allah the Exalted, revealed: O you who believe! Question not about things which if they were disclosed to you, would annoy you. (5:101)

 

 

باب:  ترک حج کی مذمت

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَی رَبِيعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْبَاهِلِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَی بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا وَذَلِکَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي کِتَابِهِ وَلِلَّهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ وَهِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَجْهُولٌ وَالْحَارِثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ

 

ترجمہ

 علی (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا 

  سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب  (قرآن)  میں فرمایا ہے   اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں     

 

امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث غریب ہے  

 ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں

 اس کی سند میں کلام ہے۔ ہلال بن عبداللہ مجہول راوی ہیں۔ اور حارث حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں

 

 وضاحت 

 ضعیف ہے ، مگر علی (رض) کے اپنے قول سے صحیح ہے   اور ایسی بات کوئی صحابی اپنی رائے سے نہیں کہہ سکتا

 

Translation

Sayyidina Ali (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ said, “If a person possesses enough provision of journey and a ridingbeast to take him to the House of Allah but does not perform Hajj then it makes no difference whether he dies a Jew or a Christian. and that is because Allah has said in His Book.”  And pilgrimage to the House is a duty of Mankind towards Allah, for him who is able to make his way to it. (3: 97)



باب: حج اور عمرے کا ثواب

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ

 

ترجمہ

 عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا    حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور 

 کا بدلہ صرف جنت ہے 

 

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، اور ابن مسعود کی روایت سے غریب ہے

 اس باب میں عمر، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن حبشی، ام سلمہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں    

 

وضاحت 

 حج مبرور وہ حج ہے جس میں حاجی اللہ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرے اور بعض نے حج مبرور کے معنی حج مقبول کے کئے ہیں ، اس کی علامت یہ بتائی ہے کہ حج کے بعد وہ انسان اللہ کا عبادت گزار بن جائے جب کہ وہ اس سے پہلے غافل رہا ہو۔ اور ہر طرح کے شرک و کفر اور بدعت اور فسق و فجور کے کام سے تائب ہو کر اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارے

 

Translation

Sayyidina Abdullah (RA) reported that Allah’s Messenger ‘ said, ‘Let the Hajj and Umrah follow one another, for they remove poverty and sin as the bellows remove rust from iron, gold and silver. And there is no reward for an accepted Hajj but Paradise.”   [Ahmed3669. Nisai 2627]

 

 

باب:  مکہ کا حرم ہونا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَی مَکَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْکَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَکَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مَکَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِکَ فِيهَا دَمًا أَوْ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا لَهُ إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْذَنْ لَکَ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهِ سَاعَةً مِنْ النَّهَارِ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ کَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو قَالَ أَنَا أَعْلَمُ مِنْکَ بِذَلِکَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُرْوَی وَلَا فَارًّا بِخِزْيَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ الْعَدَوِيُّ وَهُوَ الْکَعْبِيُّ وَمَعْنَی قَوْلِهِ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ يَعْنِي الْجِنَايَةَ يَقُولُ مَنْ جَنَی جِنَايَةً أَوْ أَصَابَ دَمًا ثُمَّ لَجَأَ إِلَی الْحَرَمِ فَإِنَّهُ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ

 

ترجمہ

 ابوشریح عدوی (رض) سے روایت ہے کہ  انہوں نے عمرو بن سعید  

 سے  جب وہ مکہ کی طرف  (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے)  لشکر روانہ کر رہے تھے کہا : اے امیر ! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ  ﷺ  نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : 

 مکہ  (میں جنگ و جدال کرنا)  اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ  ﷺ  کے قتال کو دلیل بنا کر  (قتال کا)  جواز نکالے تو اس سے کہو   اللہ نے اپنے رسول  ﷺ  کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں ، ابوشریح سے پوچھا گیا  اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا ؟ کہا  اس نے مجھ سے کہا  ابوشریح ! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں، حرم مکہ کسی نافرمان  (یعنی باغی)  کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو

  امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوشریح (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 ابوشریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں

 اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 «ولا فارا بخربة» کی بجائے «ولا فارا بخزية» زائے منقوطہٰ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے

 اور «ولا فارا بخربة» میں «خربہ» کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی

 

  وضاحت 

 حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ٥ ھ یا ٦ ھ میں ہوئی اور بعض نے ٩ ھ یا ١٠ ھ کہا ہے ، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے

 عمرو بن سعید : یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر (رض) کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی

 

Translation

Sayyidina Abu Shurayh Adawi reported that he said to Amr ibn Sa’eed while he was despatching an army to Makkah, “Permit me, O Amir to narrate the hadith that Allah’s Messenger . delivered standing on the morning of the conquest (of Makkah). My two ears heard it and my heart remembers it and my two eyes observed it while he was speaking. He praised Allah and glorified Him. He said:  Allah has made Makkah sacred and men have not made it sacred. It is not lawful for a man who believes in Allah and the Last Day to shed blood here or to cut down its trees. So, if anyone regards fighting allowed because of the fighting of Allah’s Messenger L. here then tell them that Allah had permitted His Messenger and did not permit you. And, permission was given to me only for some time during the day and the sanctity is restored hereafter, today as its sanctity (unlawfulness) was last evening. So, let those who are present convey it to those who are not here.  Abu Shurayh was asked, “What did Amr ibn Sa’eed say to you?” (He said that Amr) said, “I know better than you about it, O Abu Shurayh. Indeed the Haram does not give refuge to the disobedient and the rebels or to those who flee after slaying someone or robbing someone.”  [Ahmed16373, Bukhari 1832, Muslim 1354, Nisai 1873]   -----------------

 

 

باب:  حج اور عمرے کا ثواب

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَازِمٍ کُوفِيٌّ وَهُوَ الْأَشْجَعِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّة

 

ترجمہ

 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا 

  جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہیودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا  

 تو اس کے گزشتہ تمام گناہ  

 بخش دئیے جائیں گے 

 

    امام ترمذی کہتے ہیں  

ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 (غفر له ما تقدم من ذنبه کا لفظ شاذ ہے، اور اس کی جگہ رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمهصحیح اور متفق علیہ ہے، تراجع الالبانی ٣٤٢)    

 

وضاحت 

 «رفث» کے اصل معنی جماع کرنے کے ہیں ، یہاں مراد فحش گوئی اور بےہودگی کی باتیں کرنی اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے ، حج کے دوران چونکہ بیوی سے مجامعت جائز نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر اس سے گفتگو بھی ناپسندیدہ ہے ، اور «فسق» سے مراد اللہ کی نافرمانی ہے ، اور «جدال» سے مراد لوگوں سے لڑائی جھگڑا ہے ، دوران حج ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے

 اس سے مراد وہ صغیر  ( چھوٹے  )  گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ، رہے بڑے بڑے گناہ اور وہ چھوٹے گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں تو وہ توبہ حق کے ادا کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے

 

Translation

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger said, ‘If anyone performs Hajj, not being immodest (with women) or sinful (and wickedfully transgressing), his past sins are forgiven.”   [Ahmed10278, Bukhari 1819, Muslim 1350, Nisai 2626, Ibn e Majah 2889]

 

 

باب:  زرد راہ اور سواری کی ملکیت سے حج فرض ہوجاتا ہے

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً وَجَبَ عَلَيْهِ الْحَجُّ وَإِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْخُوزِيُّ الْمَکِّيُّ وَقَدْ تَکَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ

 

ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  ایک شخص نے نبی اکرم  ﷺ  کے پاس آ کر پوچھا  اللہ کے رسول ! کیا چیز حج واجب کرتی ہے ؟ آپ نے فرمایا  سفر خرچ اور سواری 

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن ہے

 ابراہیم ہی ابن یزید خوزی مکی ہیں اور ان کے حافظہ کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے

 اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب سفر خرچ اور سواری کا مالک ہوجائے تو اس پر حج واجب ہوجاتا ہے

  ” ابراہیم بن یزید الخوزی “ متروک الحدیث راوی ہے)  

 

Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that a man came to the Prophet ﷺ and said, ‘O Messenger of Allah! ﷺ What makes Hajj obligatory?” He said, “Possession of provision of journey and a riding-beast.”

 

 

باب:  نبی اکرم ﷺ نے کتنے حج کئے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ ثَلَاثَ حِجَجٍ حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ وَحَجَّةً بَعْدَ مَا هَاجَرَ وَمَعَهَا عُمْرَةٌ فَسَاقَ ثَلَاثَةً وَسِتِّينَ بَدَنَةً وَجَائَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ بِبَقِيَّتِهَا فِيهَا جَمَلٌ لِأَبِي جَهْلٍ فِي أَنْفِهِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَنَحَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ کُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَطُبِخَتْ وَشَرِبَ مِنْ مَرَقِهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ وَرَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَوَی هَذَا الْحَدِيثَ فِي کُتُبِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَحْفُوظًا و قَالَ إِنَّمَا يُرْوَی عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلًا

 

ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طور پر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ رسول اللہ  ﷺ  نے انہیں نحر کیا، پھر آپ نے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر اسے پکانے کا حکم دیا، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث سفیان کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کے طریق سے جانتے ہیں  

 میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث عبداللہ بن ابی زیاد کے واسطہ سے روایت کی ہے

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے سلسلے میں پوچھا تو وہ اسے بروایت «الثوري عن جعفر عن أبيه عن جابر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» نہیں جان سکے، میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا  یہ ثوری سے روایت کی جاتی ہے اور ثوری نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے مجاہد سے مرسلاً روایت کی ہے


  وضاحت 

 ابن ماجہ کے یہاں  عبدالرحمٰن بن داود  نے  زید بن حباب  کی متابعت کی ہے ، نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس (رض) کی روایت شاہد بھی موجود ہے

 

Translation

Sayyidina All narrated that when the verse. (3 : 97) was revealed, they said, O Messenger of Allah! ﷺ Is that every year?” So he observed silence. They said (again), “O Messenger of Allah, is that every year?” he said, “No! and if I had said Yes then that would have become fard (every year).” So Allah the Exalted, revealed: O you who believe! Question not about things which if they were disclosed to you, would annoy you. (5:101)

 

 

باب:  نبی اکرم ﷺ نے کتنے حج کئے

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ کَمْ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَجَّةً وَاحِدَةً وَاعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ عُمْرَةٌ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةُ الْحُدَيْبِيَةِ وَعُمْرَةٌ مَعَ حَجَّتِهِ وَعُمْرَةُ الجِعِرَّانَةِ إِذْ قَسَّمَ غَنِيمَةَ حُنَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ هُوَ أَبُو حَبِيبٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ جَلِيلٌ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ

 

ترجمہ

 قتادۃ کہتے ہیں کہ  میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا 

 نبی اکرم  ﷺ  نے کتنے حج کئے ؟ انہوں نے کہا  صرف ایک حج  

 اور چار عمرے کئے۔ ایک عمرہ ذی قعدہ میں، ایک عمرہ حدیبیہ  

 میں اور ایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ، اور ایک جعرانہ  

 کا عمرہ جب آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا

    امام ترمذی کہتے ہیں   یہ حدیث حسن صحیح ہے 


   وضاحت 

 یہ حجۃ الوداع ہے

 مکہ سے نو میل کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں صلح حدیبیہ منعقد ہوئی تھی

 مکہ سے نو میل کی دوری پر اور ایک قول کے مطابق چھ میل کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے

  

Translation

Qatadah (RA) said that he asked Sayyidina Anas ibn Maalik (RA) how many times did the Prophet ﷺ perform Hajj, and he said, “Hajj once and Umrah four times. Umrah once in Zulqadah, Umrat ul-Hudaybiyah, an umrah with Hajj that he performed, and Umrat ul-Ji’ranah when he distributed the booty of Hunayn.   -----------------

 

 

باب:  نبی اکرم ﷺ نے کنتے عمرے کئے

قَالَ حَدَّثَنَا بِذَلِکَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ نَحْوَهُ

 

ترجمہ

 پھر ترمذی نے اپنی سند سے اسے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  … آگے اسی طرح کی حدیث ذکر کی

 

 

باب:  نبی اکرم ﷺ نے کنتے عمرے کئے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ وَعُمْرَةَ الثَّانِيَةِ مِنْ قَابِلٍ وَعُمْرَةَ الْقَضَائِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةَ الثَّالِثَةِ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ وَالرَّابِعَةِ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

 

ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے چار عمرے کئے  حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ جعرانہ 

 کا، چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے

 اس باب میں انس، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 

    وضاحت 

 جعرانہ طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے نبی اکرم  ﷺ  نے غزوہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا

 

 حديث نمبر 816   ابن عیینہ نے بسند عمرو بن دینار عن عکرمہ روایت کی کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے چار عمرے کئے، اس میں عکرمہ نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے

 

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ performed umrah four times: the umratul Hudaybiyah, the second umrah (next year) in Dhulqa’dah to make up for the one of Hudaybiyah, the third umrah from Jiranah and the fourth which was with his Hajj.  [Abu Dawud 1994, Ibn e Majah 3003]

 

 

باب:  نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا فَلَمَّا أَتَی الْبَيْدَائَ أَحْرَمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

 

ترجمہ

 جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ  جب نبی اکرم  ﷺ  نے حج کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔  (مدینہ میں)  لوگ اکٹھا ہوگئے، چناچہ جب آپ  (وہاں سے چل کر)  بیداء پہنچے تو احرام باندھا 

 

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن عمر، انس، مسور بن مخرمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 

 وضاحت 

 آپ  ﷺ  نے درحقیقت ذو الحلیفہ کی مسجد میں نماز کے بعد احرام باندھا ، دیکھئیے اگلی حدیث

 

 

باب:  نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ الْبَيْدَائُ الَّتِي يَکْذِبُونَ فِيهَا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ مِنْ عِنْدِ الشَّجَرَةِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

 

ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں   بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ  ﷺ  پر جھوٹ باندھتے ہیں  (کہ وہاں سے احرام باندھا)   

 اللہ کی قسم ! رسول اللہ  ﷺ  نے مسجد  (ذی الحلیفہ)  کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا 

 

    امام ترمذی کہتے ہیں   یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

    وضاحت 

 یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔  

 ان روایات میں بظاہر تعارض ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے ، پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے ، گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی

 

Translation

Sayyidinah lbn Umar said, ‘You lie (when you say) Allah’s Messenger assumed the ihram at Bayda. By Allah, he assumed it at the mosque (at Dhul Hulayfa) near the tree.”   [Bukhari 1541, Muslim 1186]

 

 

باب : حج افراد

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَائَةً عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْرَدَ الْحَجَّ وَأَفْرَدَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ

 

ترجمہ

 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے حج افراد  کیا۔    امام ترمذی کہتے ہیں 

 عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے

 ابن عمر (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے حج افراد کیا، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی افراد کیا

 (   موطا امام  الطریق۔ (نبی اکرم ﷺ کا حج، حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے) 

 

    وضاحت 

 حج کی تین قسمیں ہیں  افراد ، قِران اور تمتع 

 حج افراد یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے 

 اور حج قران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے ، اور قربانی کا جانور ساتھ 

 جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے اور پھر آٹھویں تاریخ کو مکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے

 اب رہی یہ بات کہ آپ  ﷺ  نے کون سا حج کیا تھا ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قران کیا تھا ، تفصیل کے لیے حدیث رقم ٨٢٢ کا حاشیہ دیکھیں

 

Translation

Sayyidah Ayshah (RA) reported that Allahs Messenger ﷺ performed Hajj ifrad.   [Ahmed26122, Muslim 1211, Abu Dawud 12777, Nisai 2711, Ibn e Majah 2904]

 

 

باب : نبی ﷺ نے کب احرام باند ھا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُحْرِمَ الرَّجُلُ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ

 

ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے نماز کے بعد احرام باندھا

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن غریب ہے

 ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو

 جس چیز کو اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی نماز کے بعد احرام باندھے

 

Translation

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said : The Prophet ﷺ recited the tahieel after offering the salah.   [Nisai 2750]

 

 

باب:  حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں کرنا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَبَّيْکَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَاخْتَارُوهُ مِنْ أَهْلِ الْکُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ

 

ترجمہ

 انس (رض) کہتے ہیں کہ  میں نے نبی اکرم  ﷺ  کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا  

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 انس کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں

 بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے

 

    وضاحت 

 اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا

 انس (رض) کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کرلیں تو آپ سے کہا گیا «قل عمرۃ فی حجۃ» اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی

 

Translation

Sayyiddina Anas (RA) said that he heard the Prophet ﷺ say, “Labbayk with umrah and hajj’, (meaning that he formed an intention for both).   [Ahmed11961, Bukhari 4354, Muslim 1232, Nisai 2727]

 

 

باب:  حج افراد

حَدَّثَنَا بِذَلِکَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی و قَالَ الثَّوْرِيُّ إِنْ أَفْرَدْتَ الْحَجَّ فَحَسَنٌ وَإِنْ قَرَنْتَ فَحَسَنٌ وَإِنْ تَمَتَّعْتَ فَحَسَنٌ و قَالَ الشَّافِعِيُّ مِثْلَهُ وَقَالَ أَحَبُّ إِلَيْنَا الْإِفْرَادُ ثُمَّ التَّمَتُّعُ ثُمَّ الْقِرَانُ

 

ترجمہ

- ثوری کہتے ہیں کہ حج افراد کرو تو بھی بہتر ہے، حج قران کرو تو بھی بہتر ہے اور حج تمتع کرو تو بھی بہتر ہے

 شافعی نے بھی اسی جیسی بات کہی

 کہا 

 ہمیں سب سے زیادہ افراد پسند ہے پھر تمتع اور قران

 

 

باب:  تمتع کے بارے میں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاکَ بْنَ قَيْسٍ وَهُمَا يَذْکُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَيْسٍ لَا يَصْنَعُ ذَلِکَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ فَقَالَ سَعْدٌ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي فَقَالَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَيْسٍ فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَی عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

 

ترجمہ

 محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ  انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس (رض) سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کر رہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا 

 ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد (رض) نے کہا 

 بہت بری بات ہے جو تم نے کہی، میرے بھتیجے ! تو ضحاک بن قیس نے کہا 

 عمر بن خطاب (رض) نے اس سے منع کیا ہے، اس پر سعد (رض) نے کہا  رسول اللہ  ﷺ  نے اسے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیا ہے

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث صحیح ہے

 (سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)    

 

Translation

Muhammad ibn Abdullah ibn Harith ibn Nawfal heard Sad ibn Abu Waqqas (RA) and Dahhak ibn Qays discuss tamattu’ which includes Hajj and Umrah. Dahhaksaid, “Only he who is ignorant of Allah’s corn- mand will do it.” Sad said, “What a bad thing you have said, O nephew!” Dahhak said, “Indeed, Umar ibn al-Khattab had disallowed it.” Sad asserted, “Certainly. Allah’s Messenger ﷺ had performed it and those with him had performed it.”   [Nisai 2730]

 

 

باب:  تمتع کے بارے میں

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

ترجمہ

 ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ  سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا 

 یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا 

 آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے ؟ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا 

 ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ  ﷺ  نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ  ﷺ  کے حکم کی، تو اس نے کہا 

 رسول اللہ  ﷺ  کے حکم کی، تو انہوں نے کہا 

 رسول اللہ  ﷺ  نے ایسا کیا ہے  

 امام ترمذی کہتے ہیں 

ابن عباس (رض) کی حدیث  ( ٨٢٢)  حسن ہے

 اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے

 اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہوگی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے

 متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے  (ابتدائی)  دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ (رض) بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے

 یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے

 اور بعض کہتے ہیں  ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے

  امام ترمذی کہتے ہیں  

 اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے

 

Translation

Ibn Shihab narrated that Saalim ibn Abdullah ﷺ told him that he heard a man of Syria ask Abdullah ibn Umar (RA) about tamattu’, the Hajj with umrah. Abdullah ibn Umar (RA) said to him. “It is lawful.” The Syrian said, “But, your father had disallowed it.” So, Abdullah ibn Umar (RA) said, “What would you say if my father disallowed it while Allah’s Messenger ﷺ performed it, will you obey my father’s command or the command of Allah’s Messenger ﷺ ?“ The man said, “Rather, the command of Allah’s Messenger ﷺ (will I obey).” So, he asserted, “Allah’s Messenger had done it indeed.”

 

 

باب:  تلبیہ ( لبیک) کہنا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتْ لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ

 

ترجمہ

 نافع کہتے ہیں 

  عبداللہ بن عمر (رض) نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے 

 «لبيك اللهم لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك»

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھے 

 یہ رسول اللہ  ﷺ  کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ  ﷺ  کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے 

 «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل» 

 حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے

 

Translation

Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that the talbiyah of the Prophet ﷺ was Here I am! O Allah, Here, I am! Here I am,no partner have You. Here I am. Surely all praise and blessing are for You and the dominion. No partner have You.   [Bukhari 818, Muslim 1184]


 

باب:  تمتع کے بارے میں

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَی عَنْهَا مُعَاوِيَةُ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ وَجَابِرٍ وَسَعْدٍ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ وَالتَّمَتُّعُ أَنْ يَدْخُلَ الرَّجُلُ بِعُمْرَةٍ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ ثُمَّ يُقِيمَ حَتَّی يَحُجَّ فَهُوَ مُتَمَتِّعٌ وَعَلَيْهِ دَمٌ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيُسْتَحَبُّ لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ أَنْ يَصُومَ الْعَشْرَ وَيَکُونُ آخِرُهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فَإِنْ لَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ صَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ فِي قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ وَعَائِشَةُ وَبِهِ يَقُولُ مَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَصُومُ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْکُوفَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَهْلُ الْحَدِيثِ يَخْتَارُونَ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ فِي الْحَجِّ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

 

ترجمہ

 عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے حج تمتع کیا 

 اور ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی 

 اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ (رض) ہیں  

    امام ترمذی کہتے ہیں 

 یہ حدیث حسن صحیح ہے۔  (سند میں لیث بن ابی سلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)  

 

  وضاحت 

 نبی اکرم  ﷺ  نے کون سا حج کیا تھا ؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں ، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور بعض سے حج تمتع اور بعض سے حج قران ، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے نبی اکرم  ﷺ  کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا ، اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا تھا اور بعد میں آپ قارن ہوگئے تھے ، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کا ارشاد ہے «لولا معي الهدى لأحللت»  اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا  ، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے ، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا ، کیونکہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہرحال حج قران میں بھی حاصل ہے ، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی روایت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبر دی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظر حج افراد تھا بعد میں آپ نے حج میں عمرہ کو بھی شامل کرلیا ، اور آپ سے کہا گیا : «قل عمرة في حجة» اس طرح آپ نے حج افراد کو حج قران سے بدل دیا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کون سی قسم افضل ہے ؟ تو احناف حج قرِان کو افضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کو پسند کیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے 

 امام احمد اور امام مالک نے حج تمتع کو افضل کہا ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اور نبی اکرم  ﷺ  نے ایک مرحلہ پر اس کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا تھا اور بعض نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے۔ آخری اور حق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے

 یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے 

 «قال عبدالله بن شقيق 

 کان عثمان ينهى عن المتعة وکان علي يأمربها» اور نیچے کی روایت سے عمر (رض) کا منع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے ، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی ، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہونے کا علم نہیں تھا ، پھر جب انہیں اس کا جواز معلوم ہوا تو انہوں نے بھی تمتع کیا

 روایات سے معاویہ (رض) سے پہلے عمر و عثمان (رض) سے ممانعت ثابت ہے ، ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی ، اور معاویہ (رض) کی نہی تحریمی ، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ (رض) کی اوّلیت تحریم کے اعتبار سے تھی

 

Translation

Sayyidina lbn Abbas said, “Allahs Messenger ﷺ performed tamattu. And Abu Bakr, Umar and Uthman (also performed it). And the first person to disallow it was Mu’awiyah.’   [Ahmed2732, Nisai 2732]

 

 

باب : تلبیہ اور قربانی کی فضیلت

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْکٍ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ قَالَ الْعَجُّ وَالثَّجُّ

 

ترجمہ

 ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  سے پوچھا گیا کہ کون سا حج افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا 

  جس میں کثرت سے تلبیہ پکارا گیا ہو اور خوب خون بہایا گیا ہو

 

 وضاحت 

 یعنی قربانی کی گئی ہو


Translation

Sayyidian Abu Bakr (RA) narrated that Allah’s Messenger ﷺ was asked, “Which (kind of) Hajj is more excellent?” He said, “Al-Ajj wa ath-thajj meaning “The voiciferous which abounds with talbiyah and in which much blood flows.”   [Ibn e Majah 2924]

 

 

باب:  تلبیہ ( لبیک) کہنا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَهَلَّ فَانْطَلَقَ يُهِلُّ فَيَقُولُ لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ قَالَ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَقُولُ هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِهِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْکَ لَبَّيْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْکَ وَالْعَمَلُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ إِنْ شَائَ اللَّهُ وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَی تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنَّمَا قُلْنَا لَا بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللَّهِ فِيهَا لِمَا جَائَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِهِ مِنْ قِبَلِهِ لَبَّيْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْکَ وَالْعَمَلُ

 

ترجمہ

 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  کا تلبیہ یہ تھا 

«لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك»

  حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں 

 امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے

 اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ (رض)، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے

 شافعی کہتے ہیں 

 اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کرلے تو کوئی حرج نہیں ہوگا - ان شاء اللہ۔ لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ  ﷺ  کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں 

 ہم نے جو یہ کہا کہ  اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  ﷺ  سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں 

«لبيك والرغباء إليك والعمل»

  حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے  کا اضافہ کیا

  

 وضاحت 

 جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم  ﷺ  کے تلبیہ میں اپنی طرف سے «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم  ﷺ  سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے ، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے ، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے ، ابن عمر (رض) کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے

 

Translation

Qutaybah reported from Layth, from Nafi’, from lbn UmarL., that he recited the talbiyah in the same way. Sayyidina Ibn Umar (RA) .i said that this itself was the Prophet ﷺ ‘ talbiyah. Later he added these words on his own:  I am hare. I am here. Willingly obeying You. All good is in Your Hands. I am here My desires and deeds are for You.   [Ahmed4457, Bukhari 1549, Muslim 1184, Abu Dawud 1812, Nisai 2745, Ibn e Majah 2918]

 

 

باب:  تلبیہ اور قربانی کی فضیلت

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي بَکْرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ وَقَدْ رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيهِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی أَبُو نُعَيْمٍ الطَّحَّانُ ضِرَارُ بْنُ صُرَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَکْرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْطَأَ فِيهِ ضِرَارٌ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ مَنْ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيهِ فَقَدْ أَخْطَأَ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ وَذَکَرْتُ لَهُ حَدِيثَ ضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ فَقَالَ هُوَ خَطَأٌ فَقُلْتُ قَدْ رَوَاهُ غَيْرُهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ أَيْضًا مِثْلَ رِوَايَتِهِ فَقَالَ لَا شَيْئَ إِنَّمَا رَوَوْهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ وَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَرَأَيْتُهُ يُضَعِّفُ ضِرَارَ بْنَ صُرَدٍ وَالْعَجُّ هُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ وَالثَّجُّ هُوَ نَحْرُ الْبُدْنِ

 

ترجمہ

 سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نے فرمایا 

  جو مسلمان بھی تلبیہ پکارتا ہے اس کے دائیں یا بائیں پائے جانے والے پتھر، درخت اور ڈھیلے سبھی تلبیہ پکارتے ہیں، یہاں تک کہ دونوں طرف کی زمین کے آخری سرے تک کی چیزیں سبھی تلبیہ پکارتی ہیں 

   امام ترمذی کہتے ہیں 

 ابوبکر (رض) کی حدیث غریب ہے، ہم اسے ابن ابی فدیک ہی کے طریق سے جانتے ہیں، انہوں نے ضحاک بن عثمان سے روایت کی ہے

 محمد بن منکدر نے عبدالرحمٰن بن یربوع سے اسے نہیں سنا ہے، البتہ محمد بن منکدر نے بسند «سعید بن عبدالرحمٰن بن یربوع عن أبیہ عبدالرحمٰن بن یربوع» اس حدیث کے علاوہ دوسری چیزیں روایت کی ہیں

 ابونعیم طحان ضرار بن صرد نے یہ حدیث بطریق : «ابن أبي فديك عن الضحاک بن عثمان عن محمد بن المنکدر عن سعيد بن عبدالرحمٰن بن يربوع عن أبيه عن أبي بکر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے اور اس میں ضرار سے غلطی ہوئی ہے

 احمد بن حنبل کہتے ہیں 

 جس نے اس حدیث میں یوں کہا 

 «عن محمد بن المنکدر عن ابن عبدالرحمٰن بن يربوع عن أبيه» اس نے غلطی کی ہے

 میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ضرار بن صرد کی حدیث ذکر کی جسے انہوں نے ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا 

 یہ غلط ہے، میں نے کہا 

 اسے دوسرے لوگوں نے بھی انہیں کی طرح ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا 

 یہ کچھ نہیں ہے لوگوں نے اسے ابن ابی فدیک سے روایت کیا ہے اور اس میں سعید بن عبدالرحمٰن کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، میں نے بخاری کو دیکھا کہ وہ ضرار بن صرد کی تضعیف کر رہے تھے

 اس باب میں ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں

 «عج» : تلبیہ میں آواز بلند کرنے کو اور «ثج»: اونٹنیاں نحر  (ذبح)  کرنے کو کہتے ہیں

 


No comments:

Powered by Blogger.