Sahaba Karaam se Muhabbat Ahadees ki Roshni me

Unit 4 
Lesson 6

صحابہ کرامؓ سے محبت احادیث کی روشنی میں  


کسی صاحب عقل و ایمان کو اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت ﷺ سے محبت و عقیدت جزو ایمان ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ ﷺ سے محبت ہو تو آپ کے جانثاروں سے بھی تعلق خاطر ہوگا کہ ان کی محبت آپ ہی کی محبت کا ایک شعبہ ہے


حضرات صحابہ کرامؓ سے نفرت و بد گمانی اور ان کی بے ادبی و تنقیص آنخضرت ﷺ  کے لئے موجب ایذا ہے۔ یہ مسئلہ جیسا کہ عقل سے ثابت ہے حدیث نبوی سے بھی ثابت ہے۔ 


چنانچہ ترمذی شریف میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے




اللّه اللّه في أصحابي، اللّه اللّه في أصحابي، اللّه اللّه في اصحابي ،  لاتتخذوهم غرضا من بعدى، فمن احبهم فبحبي، ومن ابغضهم فببغضى ابغضهم، ومن آذاهم فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذاني اللّه ومن آذى اللّه فيوشك ان ياخذه‘‘


اللّه سے ڈرو میرے صحابہؓ کے بارے میں ۔ اللّه سے ڈرو میرے صحابہؓ کے بارے میں ۔ اللّه سے ڈرو میرے صحابہؓ کے بارے میں ۔ میرے بعد انہیں نشانہ مت بناؤ۔ پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے 
اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر  جس نے ان کو ایذادی اس نے مجھے ایذادی
 اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللّه کو ایذادی
 اور جس نے اللّه کو ایذا دی قریب ہے کہ اللّه تعالیٰ اس ( ملعون ) کو پکڑے

 اور جس کو اللّه پکڑے  اسکی بدبختی کی کیا انتہا ہے؟


 کسی صحابی کو ایذا  دینے کی بدترین صورت یہ ہے کہ اسے بدنیت کہا جائے ۔ سؤظن کا مستحق سمجھا جائے ۔ اس پر طعن و ملامت کی بوچھاڑ کی جائے ۔ بات بات میں ایسے پہلو تلاش کئے جائیں جن سے اس کے دین ودیانت پر حرف آتا ہو۔
حالانکہ صحابہ کرامؓ معیار حق ہیں  حضور ﷺ سے امت کو دین پہنچانے میں صحابہ کرامؓ ہی واسطہ ہیں 




 کیونکہ صحابہ کرامؓ آپ ﷺ  کے ہر فعل کو دیکھنے والے اور ہر قول کو سننے والے ہیں اگر العیاذ باللّه صحابہ کرامؓ کوتنقید کا نشانہ بنالیا جائے تو دین پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی خبر کو رد کرنے کے لئے اس کے بیان کرنے والے پر جرح کر دی جائے تو وہ خود قابل اعتبار نہیں رہتی 

اس لئے صحابہ کرام پر زبان طعن و تشنیع دراز کرنے کا کسی فرد کوحق حاصل نہیں حضور اکرم ﷺ نے منع فرمایا اور صحابہ کرامؓ پر زبان تشنیع دراز کرنے والوں کو لعنت کا مستحق قرار دیا۔

ارشاد گرامی ہے کہ 


حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، قَالَ : سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ 
. تَابَعَهُ جَرِيرٌ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , وَمُحَاضِرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ 


نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم نے فرمایا  

میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللّه کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مدغلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔

شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر، عبداللّه بن داود، ابومعاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔

 دوسری جگہ ارشاد فر مایا کہ


"جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرامؓ کو برا بھلا کہتے ہیں اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو کہ تم میں سے
 (یعنی صحابہ کرامؓ اور ناقدین صحابہ میں سے )
 جو برا ہے اس پر اللّه کی لعنت


ظاہر ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ کو برا بھلا کہنے والا ہی بدتر  ہوگا۔

اس حدیث میں مقام صحابہ کرامؓ کی نزاکت کا احساس دلایا ہے اور امت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون و مردور سمجھیں بلکہ برملا اس کا اظہار کریں ۔ اس اصول کے علاوہ مندرجہ ذیل اصول بھی اس حدیث سے مستنبط ہوتے ہیں 

١- 
حدیث میں " سب " سے بازاری گالیاں مراد نہیں ۔ بلکہ ہر ایسا تنقیدی کلمہ مراد ہے جو ان حضرات کے استحفاف میں کہا جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کرامؓ پر
تنقید اور نقطہ چینی جائز نہیں ۔ بلکہ وہ قائل کے ملعون ومطرود ہونے کی دلیل ہے۔



۲-  
آنخضرت ﷺ کے قلب اطہر  کو اس سے ایذا ہوتی ہے اور آپ ﷺ  کے قلب اطہر کو ایذا دینے میں حبط اعمال کا خطرہ ہے۔


٣- 
حضرات صحابہ کرام رضی اللّه عنہم کی مدافعت کرنا اور ناقدین کو جواب دینا ملت اسلامیہ کا فرض ہے.


٤- 
آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ ناقدین صحابہ کو ایک ایک بات کا تفصیلی جواب دیا جائے. کیونکہ اس سے جواب اور جواب الجواب کا ایک غیر مختتم(نہ ختم ہونے والا) سلسلہ چل نکلے گا. بلکہ یہ تلقین فرمائی کہ انہیں بس اصولی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے اور وہ ہے


"لعنۃ اللّه شرکم" 
 خدا کی لعنت ہو تمہارے شر پہ 


٥-  
شرکم اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے. اس میں آنحضرت ﷺ نے ناقدین صحابہ کرام ؓ کے لیے ایسا کنایہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کے لیے تنقید صحابہ کرام ؓ کے روگ کی جڑ کٹ جاتی ہے



 خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے کہ  


 حضرات صحابہ کرام ؓ کیسے ہی ہوں گے مگر تم سے تو اچھے ہی ہوں گے. تم ہوا پر اڑ لو ، آسمان پر پہنچ جاؤ. سو بار مر کر جی لو مگر تم سے صحابی تو نہ بنا جا سکے گا تم آخر وہ آنکھ کہاں سے لاؤ گے جس نے جمال جہاں آرائے محمد (ﷺ) کا دیدار کیا؟

  وہ کان کہاں سے لاؤ گے جو کلمات نبوت سے مشرف ہوئے.؟

ہاں! وہ دل کہاں سے لاؤ گے جو انفاس مسیحائی محمدی سے زندہ ہوئے؟ 

وہ دماغ کہاں سے لاؤ گے جو انوار قدس سے منور ہوئے؟

 تم وہ ہاتھ کہاں سے لاؤ گے جو ایک بار بشرہ محمدی سے مس ہوئے اور ساری عمر ان کی بوئے عنبریں نہیں گئی؟

 تم وہ پاؤں کہاں سے لاؤ گے جو معیت محمدی میں آبلہ پا ہوئے

 تم وہ زبان کہاں سے لاؤ گے جب آسمان زمین پر اتر آیا تھا؟

 تم وہ مکان کہاں سے لاؤ گے جہاں کونین کی سیادت جلوہ آرا تھی؟

 تم وہ محفل کہاں سے لاؤ گے جہاں سعادت دارین کی شراب طہور کے جام بھر دیئے جاتے اور تشنہ کا مان محبت "ہل من مزید"  کا نعرہ مستی لگا رہے تھے؟

 تم وہ منظر کہاں سے لاؤ گے جو "گویا کہ میں اللّه کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں" کا کیف پیدا کرتا ہے؟

 تم وہ مجلس کہاں سے لاؤ گے جس میں "گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں "کا سماں بندھ جاتا تھا؟

تم وہ صدر نشین تخت رسالت کہاں سے لاؤ گے جس کی طرف "یہ روشن چہرے والے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں" سے اشارے کئے جاتے تھے؟

 تم وہ شمیم عنبریں کہاں سے لاؤ گے جس کے ایک جھونکے سے مدینہ کے گلی کوچے معطر ہوجاتے تھے؟

تم وہ محبت کہاں سے لاؤ گے جو دیدار محبوب میں خواب نیم شبی کو حرام کردیتی تھی؟

 تم وہ ایمان کہاں سے لاؤ گے جو ساری دنیا کو تہج کر حاصل کیا جاتا تھا؟

 تم وہ اخلاق کہاں سے لاؤ گے جو آئینہ محمدی سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے؟

 تم وہ رنگ کہاں سے لاؤ گے جو صبغتہ اللّه کی بھٹی میں دیا جاتا تھا؟

 تم وہ ادائیں کہاں سے لاؤ گے جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنا دیتی تھیں؟

 وہ نماز کہاں سے لاؤ گے جس کے امام نبیوں کے امام تھے؟

 تم قدسیوں کی وہ جماعت کیسے بن سکو گے جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے؟

 تم میرے صحابہؓ کو لاکھ برا کہو مگر اپنے ضمیر کا دامن جھنجھوڑ کر بتاؤ. اگر ان تمام سعادتوں کے بعد بھی میرے صحابہؓ برے ہیں تو کیا تم ان سے بدتر نہیں ہو؟

 اگر وہ تنقید و ملامت کے مستحق ہیں تو کیا تم لعنت کے مستحق نہیں ہو؟

 اگر تم میرے صحابہؓ کو بدنام کرتے ہو تو کیا میرا خدا تمہیں سر محشر سب کے سامنے رسوا نہیں کرےگا؟

 اگر تم میں انصاف و حیا کی کوئی رمق باقی ہے تو اپنے گریبان میں جھانکو اور میرے صحابہؓ کے بارے میں زبان بند کرو اور اگر تمہارا ضمیر بالکل مسخ ہوچکا ہے تو بھری دنیا یہ فیصلہ کرے گی کہ کیا میرے صحابہؓ پر تنقید کا حق ان کپوتوں کو حاصل ہونا چاہیئے؟



٦-

حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنقید صحابہ کرامؓ کے ناقد کا نفسیاتی شر، خبث و تکبر ہے. آپ جب کسی شخص کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ کسی صفت میں وہ آپ کے نزدیک خود آپ کی اپنی ذات سے فروتر اور گھٹیا ہے. اب جب کوئی شخص کسی صحابی کے بارے میں مثلاً یہ کہے گا کہ اس نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو کما حقہ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر اس صحابی کی جگہ یہ صاحب ہوتے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو زیادہ بہتر ادا کرتے ۔ گویا ان میں صحابی سے بڑھ کر صفت عدل موجود ہے۔ یہ ہے تکبر کا وہ شر اور نفس کا وہ خبث جو تنقید صحابہ پر ابھارتا ہے اور آنحضرت ﷺ اسی " شر " کی  اصلاح اس حدیث میں فرمانا
چاہتے ہیں 



٧ ۔ 
حدیث میں بحث و مجادلہ کا ادب میں بتایا گیا ہے۔ یعنی خصم کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے یہ نہ کہا جاۓ کہ تم پر لعنت ! بلکہ یوں کہا جائے کہ تم دونوں میں جو برا ہو اس پر لعنت ۔۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی منصفانہ بات ہے جس پر سب کو متفق ہونا چاہیے ۔ اس میں کسی کے برہم ہونے کی گنجائش نہیں
 اب رہا یہ قصہ کہ تم دونوں میں "برا‘‘ کا مصداق کون ہے؟ خود ناقد؟
یا وہ جو تنقید کرتا ہے؟ ۔ اس کا فیصلہ کوئی مشکل نہیں ۔
 دونوں کے مجموعی حالات سامنے رکھ کر ہر معمولی
عقل کا آدمی یہ نتیجہ آسانی سے نکال سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ  کا صحالی برا ہوسکتا ہے یا اس کا خوش فہم ناقد ؟


٨ -
 حدیث میں "فقولوا‘‘  کا خطاب امت سے ہے۔ گویا ناقدین صحابہؓ کو آنحضرت ﷺ اپنی امت نہیں سمجھتے۔ بلکہ انہیں امت کے مقابل فریق کی حیثیت سے کھڑا کرتے ہیں اور یہ ناقدین کے لئے شدید وعید ہے جیسا کہ بعض معاصی پر " فليس منا ‘‘

ترجمہ   "ہم میں سے نہیں ‘‘ کی وعید سنائی گئی ہے۔

٩ - 
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنخضرت ﷺ  کو جس طرح ناموس شریعت کا اہتمام تھا اسی طرح ناموس صحابہؓ کی حفاظت کا بھی اہتمام تھا۔ کیونکہ انہی پر سارے دین کا
مدار تھا۔


١٠ - 
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناقدین صحابہؓ کی جماعت بھی ان " مارقین " میں سے ہے جن سے جہاد باللسان کا حکم امت کو دیا گیا ہے ۔ یہ مضمون کئی احادیث میں صراحتاً بھی آیا ہے۔

 چونکہ اس بارے میں آج کل بہت افراط وتفریط ہورہی ہے  اس لئے یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اگر اس سلسلہ میں اکابرامت کے کچھ ارشادات نقل کئے جائیں تو کیا بعید ہے کہ ان کی برکت سے ایسے حضرات کو جو بعض کچی پکی تحریروں کی بنا پر حضرات صحابہ کرامؓ سے سؤظن رکھتے ہیں اصلاح کی توفیق ہوجائے اور ارشاد نبوی

 "ومن آذاھم فقد آذانی" 

کے وبال سے بچ سکیں

 یہ مضمون حضرت امام ربانی مجددالف ثانی (قدس سرہ) کے رسالہ "رد روافض" سے لیا گیا ہے 
ترجمہ  "امام ابو زرعہ رازی رحمتہ اللّه علیہ جو اپنے وقت کے جلیل القدر شیخ الاسلام ہیں فرماتے ہیں کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللّه ﷺ کے کسی صحابی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق (بددین) ہے. اس لیے کہ قرآن حق ہے. رسول اللّه ﷺ حق ہیں. آپ ﷺ جو دین لائے وہ حق ہے اور یہ ساری چیزیں ہمیں صحابہ کرامؓ کے ذریعہ پہنچی ہیں. پس جو شخص ان حضرات پر جرح کرتا ہے اس کا مقصد کتاب وسنت کو باطل ٹھہرانا ہے. اس لیے اس کی جرح خود اس پر چسپاں ہوگی اور اس پر زندیق، گمراہ، جھوٹا اور معاند ہونے کا حکم کیا جائے اور یہ فیصلہ عین حق و صواب ہے



 حضرت سہل بن عبدالعزیز تستری رحمتہ اللّه علیہ جو بہت بڑے عالم اور جلیل القدر ولی اللّه ہیں فرماتے ہیں 

 "جو شخص صحابہ کرامؓ کی تعظیم نہیں کرتا سمجھ لو وہ رسول اللّه ﷺ پر ایمان نہیں رکھتا"


 حضرت عبداللّه بن مبارکؓ جو دین کے جلیل القدر امام ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ معاویہؓ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللّه علیہ؟؟


 فرمایا   آنحضرت ﷺ کی معیت میں جو غبار حضرت معاویہؓ کے گھوڑے کی ناک میں پہنچا وہ بھی عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللّه علیہ سے کئی درجے بہتر ہے. مطلب یہ کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللّه علیہ کے فضائل و کمالات اپنی جگہ ہیں. لیکن دنیا کی کوئی فضیلت آنحضرت ﷺ کی صحبت و دیدار کی فضیلت کی گردراہ کو کبھی نہیں چھو سکتی.

حضرت مجدد الف ثانی (قدس سرہ) اپنے مکتوبات میں سے ایک خط کے آخر میں لکھتے ہیں کہ
"چونکہ اس زمانہ میں بہت سے لوگوں نے مسئلہ امامت کی آڑ لے کر صحابہ کرامؓ کی خلافت و مخالفت  کو موضوع بحث بنا لیا ہے اور " جاہل مؤرخین" اور " سرکش اہل بدعت" کی تقلید میں اکثر صحابہ کرامؓ کو بدنام کرتے ہیں اور ان کی جناب میں نامناسب امور منسوب کرتے ہیں اس ضرورت کی بنا پر فضائل صحابہ کرام ؓ کا کچھ حصہ لکھ کر دوستوں کو بھیجا "



 آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ

" جب فتنے رونما ہوں، بدعات کو فروغ ہو اور میرے صحابہؓ  کو برا کہا جائے تو اہل علم کو اپنا علم ظاہر کرنا چاہیئے. جس نے ایسا نہیں کیا اس پر اللّه کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت. اللّه تعالیٰ نہ اس کے فرض کو قبول کریں گے نہ نفل کو

اس بنا پر ضروری ہے کہ اپنا اعتقاد، عقیدہ درست رکھیں اور ہر کس و ناکس کی باتوں پر کان نہ دھریں. جھوٹے افسانوں (تاریخ کی کچی پکی باتوں) پر نظریات کی بنیاد رکھنا اپنے (ایمان) کو  ضائع کرنا ہے. ناجیہ تقلید ضروری ہے. تاکہ امید نجات ہو. اس کے بغیر نجات محال ہے


والسلام علیکم وعلی سائر من التبع الھدی' والتزم متابعتہ المصطفیٰ علیہ وعلیٰ آله الصلوٰۃ والسلام !
(مکتوبات امام ربانی مجددالف ثانی
 (قدس سرہ) مکتوب نمبر ٢٥١)


32 comments / Replies

  1. حضرات صحابہ کرام سے نفرت و بدگمانی اور ان کی بے ادبی وتنقیص آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لے ------ ہ

    ReplyDelete
  2. کسی صحابی کو ایذا دینے کی بد ترین صورت یہ ہے کہ اسے ------ کہا جائے

    ReplyDelete
  3. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  4. آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب اطہر کو ایذا دینے میں -------- کا خطرہ ہے

    ReplyDelete
  5. ومن ------- فقد اذانی

    ReplyDelete
  6. جو ان حضرات پر جرح کرتا ہے اس کا مقصد کتاب و سنت کو ----- ٹہرانا ہے

    ReplyDelete

Powered by Blogger.